Tag: راجہ مہدی علی خاں

  • راجہ مہدی علی خاں: معروف مزاح نگار اور سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    راجہ مہدی علی خاں: معروف مزاح نگار اور سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    راجہ مہدی علی خاں کا نام فن و ادب کے شیدائیوں کے لیے نیا نہیں اور وہ لوگ جو اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہیں، راجہ صاحب کے قلم کی روانی، اور جولانیِ طبع کے ضرور معترف ہوں گے، لیکن نئی نسل کے قارئین نے کم ہی بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کو پڑھا ہوگا۔ بیسویں صدی کے معروف مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور کئی سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    راجہ صاحب کی شخصیت بھی بڑی دل چسپ اور ان کی زندگی ہنگامہ خیز تھی۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی اپنی ادبی تخلیقات اور طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بھی راجہ صاحب کی شہرت خوب تھی۔ اپنے دور کے تمام بڑے اخبار و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے رشحاتِ قلم اردو داں طقبہ میں ان کی مقبولیت کا سبب تھے۔ راجہ صاحب کے قلم کی خوبی یہ تھی کہ وہ بیک وقت نثر اور نظم دونوں میدانوں میں رواں رہا اور ہر دو اصناف میں راجہ مہدی علی خاں نے خود کو منوایا۔ وہ ان قلم کاروں میں سے تھے جن کی تحریر پڑھنے کے لیے قاری ادبی پرچے خریدا کرتے تھے۔ انھیں ادبی مجالس اور حلقۂ یاراں میں بہت اہمیت دی جاتی تھی اور ہم عصر ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے۔

    راجہ مہدی علی خاں نے اداریے بھی لکھے اور طنز و مزاح پر مبنی تحریریں بھی جن کا بہت چرچا ہوا۔ ان کی ادبی چشمکیں اور معرکہ آرائیاں بھی خوب تھیں بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ راجہ صاحب کے ادبی جھگڑے بہت مشہور تھے۔

    راجہ مہدی علی خان غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں 1915 میں پیدا ہوئے۔ بعض ادبی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا۔ وہ ایک زمین دار خاندان کے فرد تھے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔ والدہ علم و ادب سے وابستہ تھیں اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ ان کی بدولت راجہ مہدی علی خان بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور شاعری کا آغاز کیا۔ خالص علمی اور ادبی ماحول میں پرورش پانے والے راجہ صاحب صرف دس برس کے تھے جب انھوں نے والدہ کی ہمّت افزائی اور مدد سے بچّوں کا ایک رسالہ جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں انھیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ اسی زمانہ میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے رفاقت پروان چڑھی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں نے بمبئی میں فلمی دنیا سے ناتا جوڑا۔

    راجہ صاحب کو جس پہلی فلم کے لیے بطور گیت نگار کام کرنے کا موقع ملا وہ ’’شہید‘‘ تھی۔ اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور یوں راجہ صاحب نے اپنی شاعری کا سکّہ سب پر جما دیا۔ فلم کا ایک مقبول نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی سدا بہار کہلایا۔ انھیں دوسری مرتبہ فلم ’’دو بھائی‘‘ کے لیے گیت نگاری کا موقع دیا گیا اور اس فلم کے بھی گیت بھی بے حد پسند کیے گئے۔ راجہ مہدی علی خاں کے مشہور فلمی گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ گیت شامل ہیں۔ یہ اس زمانہ کے وہ فلمی گیت ہیں جو آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان فلمی گیتوں کی شاعری کے علاوہ موسیقی بھی بے مثال ہے۔ راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا۔ اس عرصہ میں‌ انھوں نے 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب اور شاعر تھے جن کی تخلیقات نے ہر ذہن اور دل پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی۔ راجہ مہدی علی خاں نے مزاحیہ شاعری بھی کی اور بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری اور چند پیروڈیاں بہت مقبول ہوئیں۔ یہ نظمیں فرسودہ روایات اور اس چلن کا پوسٹمارٹم کرتی ہیں، جن سے اس وقت کا معاشرہ آلودہ ہورہا تھا اور بعض نظمیں منافقت اور تکلیف دہ انسانی رویوں پر چوٹ کرتی ہیں ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے راجہ صاحب نے بغرضِ اصلاح اپنی یہ نظمیں لوگوں تک پہنچائیں۔ راجہ صاحب کے دو شعری مجموعے ”مضراب‘‘ اور ”اندازِ بیاں اور‘‘ منظر عام پر آئے۔

    راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں مثنوی قہرالبیان، راج کماری چمپا، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔ انھوں نے ممبئ میں وفات پائی۔

  • راجہ مہدی علی خاں: یادگار نثر، لازوال نغمات کا خالق

    راجہ مہدی علی خاں: یادگار نثر، لازوال نغمات کا خالق

    راجہ مہدی علی خاں کا نام تو شاید فن و ادب کے شیدائیوں نے سنا ہوگا، لیکن نئی نسل کے قارئین بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کے قلم کی روانی اور جولانیِ طبع سے بہت کم واقف ہوں‌ گے۔ انھیں بیسویں صدی کا منفرد مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور دلوں پر اثر کرنے والے گیتوں کا شاعر مانا جاتا ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    راجہ صاحب کی شخصیت بھی خاصی دل چسپ اور مختلف تھی۔ علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بہت مشہور تھے۔ بیشتر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے راجہ صاحب کے گہرے مراسم رہے۔ اس دور کے رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے پُرکشش رشحاتِ قلم نے اردو داں طقبہ کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نثر اور نظم دونوں میدانوں میں اس تخلیق کار نے شہرت حاصل کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قاری ان کی تحریروں کے منتظر رہتے۔ حلقۂ یاراں میں ان کا خوب ذکر رہتا اور ادیب و شاعر، فن کار اپنی مجلسوں‌ میں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح پر مبنی اپنے مضامین اور شاعری کے علاوہ فلمی گیت نگاری کے لیے بھی معروف تھے۔ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ ادبی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا۔ راجہ صاحب زمین دار خاندان میں 1915ء میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کی والدہ علم و ادب سے وابستہ اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ راجہ مہدی علی خان کو بھی شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ ان کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صرف دس برس کی عمر میں بچّوں کا ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہوگئے تھے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی میں فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کو پہنچے تھے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    اردو زبان کے اس مقبول ادیب اور شاعر کے مشہور گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جنھیں‌ آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا اور اس عرصہ میں‌ انھوں نے بھارت میں‌ لگ بھگ 75 فلموں کے لیے گانے تحریر کیے۔ راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں راج کماری چمپا، مضراب، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔

  • راجہ مہدی علی خاں: ایک ناظرِ حیات کا تذکرہ

    راجہ مہدی علی خاں: ایک ناظرِ حیات کا تذکرہ

    نظم و نثر میں اپنے عہد کے معاشرے اور اس میں بسنے والوں‌ کے جذبات کی ترجمانی کرنے والے راجہ مہدی علی خاں کو بیسویں صدی کے مزاح نگاروں میں نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب تھے جب کہ ان کے تحریر کردہ گیتوں نے ہر ذہن اور دل پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    اپنے فن و تخلیق میں منفرد راجہ صاحب کی شخصیت بھی خاصی دل چسپ اور مختلف تھی۔ وہ فلم انڈسٹری اور علمی و ادبی حلقوں میں بہت مشہور تھے۔ بیشتر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے راجہ صاحب کے گہرے مراسم رہے۔ اس دور کے رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے پُرکشش رشحاتِ قلم نے اردو داں طقبہ کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نثر اور نظم دونوں میدانوں میں اس تخلیق کار نے شہرت حاصل کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قاری ان کی تحریروں کے منتظر رہتے۔ حلقۂ یاراں میں ان کا خوب ذکر رہتا اور ادیب و شاعر، فن کار اپنی مجلسوں‌ میں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح پر مبنی اپنے مضامین اور شاعری کے علاوہ فلمی گیت نگاری کے لیے بھی معروف تھے۔ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں آنکھ کھولی تھی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا، وہ زمین دار خاندان میں 1915ء میں پیدا ہوئے، اور بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کی والدہ علم و ادب سے وابستہ اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ راجہ مہدی علی خان کو بھی شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ ان کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صرف دس برس کی عمر میں بچّوں کا ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہوگئے تھے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی میں فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کو پہنچے تھے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    اردو زبان کے اس مقبول ادیب اور شاعر کے مشہور گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جنھیں‌ آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا اور اس عرصہ میں‌ انھوں نے لگ بھگ 75 فلموں کے لیے گانے تحریر کیے۔ وہ بہترین مترجم بھی تھے اور ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب شایع ہوئیں جن میں راج کماری چمپا، مضراب، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ و دیگر شامل ہیں۔ راجہ صاحب نے ممبئی میں وفات پائی۔

    پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے راجہ صاحب کی ایک نظم ملاحظہ کیجیے۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

  • مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں  کا تذکرہ

    مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں کا تذکرہ

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں کا نام ان کے معیاری کلام کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ ان تحریر کردہ گیتوں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح کے لیے معروف اور متعدد مقبول گیتوں کے خالق تھے۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد کے ایک گاؤں کے زمین دار خاندان میں 22 ستمبر 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالم فاضل اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ یوں راجہ مہدی علی خان کو شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ راجہ صاحب کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ محض دس برس کے تھے جب بچّوں کے لیے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل وہ دہلی آگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی زمانے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور انہی کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کام یاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

    انھوں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ بمبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم پیش کررہے ہیں۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے