Tag: راجہ کامران

  • بارش اور پاکستان کے دو بڑے شہروں کی کہانی

    بارش اور پاکستان کے دو بڑے شہروں کی کہانی

    کراچی شہر ملک کی ترقی کا انجن ہے اور اسے ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دنیا میں جو شہر ایسی اہمیت اور حییثت رکھتے ہیں وہاں کی حکومتیں ان کے انفرااسٹرکچر پر خاص توجہ دیتی ہیں اور ان کی تعمیر کی جاتی ہے۔ مگر کراچی کیا ہے اس کا اندازہ آپ 19 اگست کی برسات سے لگا سکتے ہیں۔

    اس دن میں معمول کے مطابق دفتر پہنچا اور کام میں مشغول ہوگیا۔ ہمارے دفتر کی ایک ساتھی نے جب بلانئنڈز ہٹائے تو شیشے کے پیچھے سے گہرے کالے رنگ کے بادل ہمیں گھور رہے تھے۔ آن کی آن میں ان بادلوں نے برسنا بھی شروع کر دیا۔ اس قدر جم کر برسے کہ چند ہی منٹ میں جل اور تھل ایک ہوگیا۔ انتظامیہ نے دفتر کو بند کرنے اور تمام ملازمین کو گھرجانے کی اجازت دے دی۔ ابھی بارش جاری تھی کہ میں نے گھر کی راہ لی کیونکہ خدشہ تھا کہ جس قدر تیز بارش ہوئی ہے اس کے بعد شہر کی سب سے بڑی سڑک، شارع فیصل سے گزرنا محال ہوجائے گا۔ جیسے تیسے بلوچ کالونی کے راستے شارع فیصل پر داخل ہوا تو ٹریفک سست روی کا شکار تھا۔ کارساز پر آکر دیکھا تو میرے اوسان ہی خطا ہوگئے۔ سر شاہ سلمان روڈ سے پانی ریلے کی صورت میں شارع فیصل پر آرہا ہے۔ اور پانی اس قدر تیزی سے آرہا ہے کہ چھوٹی اور کم وزنی گاڑیاں تو بہنے لگی ہیں۔

    اس صورتحال میں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر تو سفر کرنا ناممکن تھا۔ موٹر سائیکل بند کی۔ اور پانی میں اپنا سفر شروع کر دیا۔ اس دن اندازہ ہوا کہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں 150 سی سی موٹر سائیکل کو گھسیٹنا کتنا مشکل کام ہے۔ پانی کی وجہ سے گاڑیاں بند ہو رہی تھیں جن میں خواتین، بچے، مرد، بوڑھے سب ہی بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ اسکول کے بچوں کی وینز بھی پانی میں پھنسی تھیں۔ مگر وہ پریشان ہونے کے بجائے اس صورتحال کا خوب لطف لے رہے تھے۔ بہرحال موٹر سائیکل کو گھسیٹتے گھسیٹتے بڑھتا رہا اور جہاں پانی کم دیکھا وہاں اسے اسٹارٹ کر کے سوار ہوجاتا۔ مگر کارساز پر تو سیلاب کا صرف ایک ریلا تھا۔ اصل سیلاب تو ڈرگ روڈ جنکشن پر منتظر تھا۔ جہاں پہنچ کر موٹر سائیکل احیتاطاً بند کر دی اور اسے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔

    اس بارش اور سیلابی صورت حال میں وہ لوگ جن کے پاس ڈبل کیبن یا ایس یو وی گاڑیاں تھیں مزے سے پانی میں گاڑیاں چلا رہے تھے۔ ان گزرتی گاڑیوں سے اس سیل رواں میں مزید لہریں پیدا ہوتیں اور ہم جیسے سڑک چھاپوں کی مشکل بڑھ جاتی۔ ایک موقع پر تو لہر اس قدر تیزی سے آئی کہ ہاتھ سے بائیک چھوٹ کر پانی میں ڈوب گئی۔ ایک لڑکے نے نہ صرف موٹر سائیکل کو اٹھانے میں مدد کی بلکہ کچھ دور دھکیل کر کسی قدر راحت بھی پہنچائی۔ پیدل چلتے چلتے کالونی گیٹ پہنچے جہاں ہمارے ایک جاننے والے کی دکان تھی۔ ان سے درخواست کی اور موٹر سائیکل کو وہیں کھڑا کر دیا اور ریلوے لائن پر چڑھ کر گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ اس ریلوے لائن پر سیکڑوں‌ لوگ اپنی منزل کی جانب رواں دواں‌ تھے۔ان میں خواتین بھی شامل تھیں جو پیدل سامان اٹھائے اور کچھ بچے سنبھالے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔

    ریلوے لائن پر چلتے چلتے جب میں گھر کے قریب پہنچا تو اندازہ ہوا کہ ابھی مشکل ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایئر پورٹ کی طرف سے آنے والا بارش کے پانی کا ریلا گھر کے اندر بھی داخل ہوچکا ہے۔ اور گراؤنڈ فلور پر کئی کئی فٹ پانی کھڑا تھا۔ مگر اس صورت حال کے باوجود میں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ میں گھر پہنچ گیا تھا۔ جب کہ میرے دفتر کے چند ساتھی رات گئے تک سڑکوں پر برے حال میں پھسنے رہے اور بہت تکلیف اٹھا کر کسی وقت گھر پہنچ سکے۔

    شہر میں ہونے والی تیز بارش کے بعد شارع فیصل مکمل طور پر بند ہوگئی تھی اور ایئر پورٹ، اور دونوں بندرگاہوں کا راستہ گویا منقطع ہو گیا تھا۔ کئی پروازیں عملے اور مسافروں کے نہ پہنچنے کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی تھیں۔ کم و بیش یہی صورت حال شہر کے دیگر علاقوں کی سڑکوں کی تھی۔

    گھر کا کیا حال سنائیں رات گئے جیسے ہی پانی اترا تو وہ اپنے پیچھے ڈھیروں مٹی اور کیچڑ چھوڑ گیا جس کو صاف کرنے میں چند دن لگے۔ فرنیچر اور دیگر اشیاء کا نقصان الگ ہوا۔ نقصان جتنا بھی ہو اور مشکلات جیسی بھی ہوں زندگی رکتی نہیں ہے۔ اس بارش اور اس تکلیف دہ صورت حال کے چند روز بعد اسلام آباد اور لاہور کا سفر کرنا تھا۔ اسلام آباد کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر معلوم چلا کہ بادل تو وہاں بھی برسا ہے اور خوب جم کر برسا ہے۔ مگر کوئی سڑک زیر آب نہیں آئی، کہیں گڑھے میں کوئی گاڑی پھنسی نہیں تھی۔ دل نے کہا یہ تو اسلام آباد ہے اصل مشکل کا سامنا تو لاہور میں ہوگا۔

    جب لاہور کے لیے سفر شروع ہوا راستے میں اطلاع ملی کہ راوی بپھر گیا ہے۔ اور جو لوگ اس کو دریا کے بجائے گندا نالہ کہہ رہے تھے۔ راوی انہیں اپنی بپھری ہوئی موجوں سے بتا رہا تھا کہ وہ راوی ہے جس کے کنارے پر لاہوریوں کی تہذیب اور تمدن نے جنم لیا ہے۔

    لاہور میں سیلاب کا سن کر ہمارے دل پر ایک خوف چھا گیا کہ کہیں کراچی جیسا حشر نہ ہو۔ مگر لاہور میں جیسے ہی داخل ہوئے تو کہیں بھی سیلاب کا شائبہ تک نہ تھا۔ ٹی وی لگایا تو خبریں یہی چل رہی تھیں کہ لاہور ڈوب گیا ہے۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہم جہاں ٹھرے ہیں وہاں سیلاب نہ ہو۔ مگر اگلے دن لاہور کے مخلتف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کہیں ایسی سیلابی صورت حال نہ تھی۔ نشیبی اور اولڈ ایریاز خواہ کراچی کے ہوں یا لاہور کے تیز بارش سے ضرور متاثر ہوتے ہیں، مگر جب ہم بات کرتے ہیں مرکزی شاہ راہوں اور سڑکوں کی تو ان شہروں میں صورت حال بالکل مختلف دیکھی گئی۔ لاہور میں سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھا۔ سیلاب صرف راوی دریا کے پاٹ کے اندر قبضہ کر لینے والوں کے لیے تھا، چاہے وہ شاہدرہ کا علاقہ ہو یا پھر نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز، یہ سب پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ راوی کا موجیں مارتا دریا ان لوگوں کو منہ چڑا رہا تھا جو کہتے تھے کہ راوی ایک گندا نالہ بن گیا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کے پاٹ میں زراعت اور مویشی پروری کرنے والوں کو بے دخل کر کے وہاں ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائی جائیں۔

    دوسرے دن کراچی کی طرح بادل جم کر برسنے لگے تو سوچا کہ اب تو آج کی تمام میٹنگز منسوخ کر کے جیم خانہ کے کمرے میں ہی دن گزارنا ہوگا۔ مگر بارش کے باوجود سڑک پر پانی نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب کہ ٹریفک تقریباً معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ڈرائیور بھی سڑک پر گڑھا ہونے کے خوف کے بغیر گاڑی کو چلا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لاہور لاہور ہے۔ اس پر گزشتہ 30 سال میں جو سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اس نے ایک دیہی شہر کو ایک ایسے قابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے جہاں بارش سے خوف زدہ ہونے کے بجائے لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔

    اسلام آباد اور لاہور میں مصروفیات ختم ہوئیں‌ تو اپنے شہر کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ گھر کے راستے میں ٹریفک جام پایا۔ دریافت کرنے پر انکشاف ہوا کہ بارش کو ہوئے دوسرا ہفتہ ہے مگر شارع فیصل کو ملیر ہالٹ کے مقام سے موٹر وے سے ملانے والی سڑک کچھ جگہ سے بیٹھ گئی ہے۔ سڑک پر گڑھے پڑے ہیں جن میں بارش اور بارش کی وجہ سے ابلنے والے گٹروں کا پانی موجود ہے جس کی وجہ سے گھنٹوں ٹریفک جام رہنے لگا ہے۔

    یہ حال ملک کے دو شہروں کا ہے، ایک میں اگر بارش ہوجائے تو زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ دوسرے میں شہر میں مرکزی راستے اور سڑکوں پر زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ لاہور والوں نے راوی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا، اس کا بدلہ راوی نے اس مرتبہ لے لیا ہے۔ ادھر کراچی کے شہری اپنے شہر کے ساتھ جو کچھ کرتے رہے ہیں، اس کا بدلہ شہر میں ہونے والی ہر بارش لیتی ہے۔

  • پاک بھارت جنگ اور سمندر پار پاکستانی

    پاک بھارت جنگ اور سمندر پار پاکستانی

    پاکستان اور بھارت کے درمیان چھڑپوں کے دوران ہم پاکستانیوں نے جس اطمینان، اور بے خوفی کا مظاہرہ کیا اس پر دنیا حیران ہے۔ جس طرح سمندری طوفان کے موقع پر مرکز میں خاموشی اور ٹھراؤ ہوتا ہے جب کہ اردگرد تلاطم برپا ہوتا ہے۔ شاید ایسا ہی وطن میں موجود پاکستانیوں کا حال تھا جو جنگ سے بے خوف اور مطمئن تھے۔ ان کی حس مزاح عروج پر تھی۔ مگر بیرون ملک پاکستانی جو کئی قومتیوں کے ساتھ رہتے ہیں، اُن دنوں بہت کچھ سہنے پر مجبور تھے اور بہت سے جذباتی لمحات ان کی زندگی کا حصہ بنے۔

    دیارِ غیر میں‌ وطن کی فکر اور اپنوں سے دوری کا احساس انسان کو کس طرح نچوڑ دیتا ہے یہ تو کوئی سمندر پار پاکستانیوں سے پوچھے۔ ہم وطنوں پر کوئی افتاد ٹوٹ پڑے اور جب جنگ چھڑ جائے تو وطن سے دور بسنے والوں کی تڑپ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہاں ہم آپ کو دیارِ غیر میں‌ مقیم چند پاکستانیوں کا احوال سنا رہے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں وہاں ان پر کیا گزری۔

    پہلگام واقعے کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور بھارتی باشندوں کے درمیان لندن میں خوب دنگل ہوا۔ پاکستانی ہائی کمیشن اور بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے ہونے والے مظاہروں میں دوںوں ملکوں کے شہریوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔ ایک موقع پر پاکستانیوں نے بھارتیوں کو مفت چائے پلا کر ان کو بھارتی پائلٹ ابھینندن کی یاد دلائی۔ جب کہ بھارتی حملے کا پاکستان کی جانب سے جواب دینے پر لندن میں پاکستانیوں نے سڑکوں پر جشن بھی منایا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

    بھارتی جارحیت اور حملوں‌ کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے بھرپور اور منہ توڑ جواب دینے کے بعد جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو برطانوی اخبار نے لکھا کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری لندن میں پارلیمنٹ اسکوائر میں جمع ہوگئے، فتح کا نشان بنایا، اور جنگ بندی کا خیر مقدم کیا۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے صحافیوں کو بتایا کہ سات مئی کے بعد سے وہ سوئے ہی نہیں تھے۔ مگر اب پاکستان کو جنگی محاذ پر فتح نصیب ہوگئی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے حل کو کیا جانا چاہیے۔ خصوصا پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے علاوہ بھارت کی جانب سے انڈس واٹر معاہدے کی خلاف ورزی ان کے لئے باعث تشویش ہے۔

    حارث یونس ایک پاکستانی نژاد برطانوی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ ان دنوں طب کی تعلیم کے لیے جارجیا میں مقیم ہیں۔ وہ جس ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں اس میں وہ واحد پاکستانی ہیں۔ جب کہ بھارتیوں اور دیگر قومیتوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ساتھ رہتی ہے۔ جب سات مئی کو بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تو بھارتی طلبہ کی بڑی تعداد ہاسٹل کے مرکزی ہال میں جمع ہوگئی اور بھارت کے حق میں نعرے لگانے لگے۔

    واحد پاکستانی ہونے کی وجہ سے حارث بہت زیادہ پریشان رہے۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستان نے بھی بھارت کے حملے کا بھرپور جواب دیا ہے۔ مگر وہ اس شور میں یہ بات کسی کو بتانے کے قابل نہیں تھے۔ مگر جب آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان نے دس مئی کو بھارت پر جوابی حملہ کیا تو حارث بھی مرکزی ہال میں پہنچ گئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ پاکستانی فوج کے اس منہ توڑ جواب نے ان کو نڈر بنا دیا تھا اور وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ اس جگہ دشمن ملک کے کئی شہریوں کے درمیان وہ واحد پاکستانی ہیں اور یہاں کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں ہے۔ حارث بتاتے ہیں کہ بھارتی طلبہ تو اپنے کمروں میں ہی گھسے رہے۔ مگر دیگر قومیتوں کے طلبہ نے باہر نکل کر حارث کو مبارک باد دی اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔

    برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں راجہ محمود ایک اہم ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ وہ جہاں کام کرتے ہیں وہاں پر مخلتف قومیتوں کے لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ جن میں افغان، نائجیرین، لبنان، شام و ایران اور عراق کے شہری شامل ہیں۔ سات مئی کو بھارت کے حملے کی خبر پر پہلے پہل تو دل دہل گیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایسے حملوں میں بڑا جانی نقصان ہوسکتا ہے۔ مگر جب پاکستانی فضائیہ کے حملوں میں بھارتی طیاروں خصوصاًَ رافیل کے تباہ ہونے کی اطلاع آئی تو ان کی جان میں جان آئی۔ راجہ محمود کہتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کے علاوہ انگریز باشندے بھی اس جنگ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کے ایک دفتری ساتھی ڈیوڈ نے جنگ کے بارے میں دریافت کیا اور راجہ محمود نے بتایا کہ بھارت نے حملہ کیا تھا جس کے بعد پاکستانی فوج نے اس کے پانچ جہاز مار گرائے ہیں۔ تو ڈیوڈ نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایئر فورس نے چھے جہاز گرائے ہیں۔

    روزینہ عمران پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے ہر قومیت کے لوگوں کے قریب ہیں اور ان کے حلقۂ احباب میں مختلف ممالک کے شہری شامل ہیں۔ پہلگام کے واقعے کے بعد ان کو اسی طاقت اور برتری کے جنون اور مذہبی تعصب پر مبنی رویے کا سامنا کرنا پڑا جسے خاص طور پر بھارت کی مودی سرکار کئی برس سے ہوا دے رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں‌ کہ ان کی ہندو شناسا کس طرح پہلگام واقعے کے بعد فون پر رسماً حال احوال پوچھنے کے بعد اس واقعے پر تبصرہ کرتیں اور بتاتیں کہ کیسے ہندو شناخت جاننے کے بعد لوگوں کو قتل کیا گیا۔ روزینہ کا کہنا ہے کہ جب ان سے سوال کیا جاتا کہ کیا کوئی ایک دہشت گرد پکڑا جاسکا، اس اہم سیاحتی مقام پر پولیس کیوں نہ تھی، پہلگام تک دہشت گرد کیسے پہنچ گئے اور اتنی آسانی سے فرار کیسے ہوگئے تو وہ جواب دینے کے بجائے بہانہ بنا کر فون بند کر دیتیں۔ پھر پاکستان پر بھارت نے حملہ کردیا لیکن ہماری فوج کی جوابی کارروائی میں بھارتی فضائیہ کا بڑا نقصان ہوا اور جنگ کے آغاز پر ہی پاکستان کا پلڑا بھاری ہوگیا تو ان کو کسی بھارتی دوست نے فون تک نہ کیا۔

    شمائلہ متحدہ عرب امارات میں قائم انڈین اسکول میں ملازمت کرتی ہیں۔ بھارتی اسکول ہونے کے باوجود اس کی انتظامیہ اور اعلیٰ عہدوں پر مسلمان فائز ہیں۔ شمائلہ کا کہنا ہے کہ جب جنگ شروع ہوئی تو ہم بہت پریشان تھے کہ نجانے یہ سب کتنی جانیں لے کر جائے گا۔ مگر بھارت کو پہلے ہی حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے کارروائی میں نقصان اٹھانا پڑا تو خاصا حوصلہ ہوا۔ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے بعد پاکستانی تو خوش تھے ہی تھے۔ مگر بھارتی مسلمان بھی بہت خوش تھے کیونکہ وہاں ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جارہا ہے اور بھارتی حکومت اور انتظامیہ نے حیلے بہانوں اور ناانصافی پر مبنی قانون سازی سے مسلمانوں کے وقف اور زمینوں کو ہتھیانا شروع کر دیا ہے۔ ان حالات میں اقلیتیں بھلا کس دل سے بھارتی حکومت کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ شمائلہ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا ایک خاص ماحول ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے کھل کر تو پاک بھارت تنازع اور جنگ پر بات نہیں کی مگر دیگر ملکوں کے مسلمان اور خصوصاً عرب اساتذہ بہت خوش اور پرجوش نظر آئے۔ دس مئی کو جب پاکستان نے بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دیا اور بھرپور حملے کیے تو شمائلہ جہاں جاتیں انہیں مبروک مبروک کی آواز سنائی دیتیں۔

    حادی کے والدین متحدہ عرب امارات میں ملازمت کے لئے سلسلے میں مقیم ہیں اور حادی بھی اپنے تعلیم وہیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ان کے بھارتی کلاس فیلوز نے جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ حادی کا کہنا ہے کہ ان کو جواب دینے کا بہت دل کرتا تھا۔ مگر شروع میں وہ اس کا حوصلہ نہ کرسکے اور جب دس مئی کو پاکستان کا بھرپور جواب سامنے آیا تو حادی نے بھی کلاس میں اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔

    راجہ ہارون دبئی ایئر پورٹ پر امارات ایئرلائن میں تقریباً دو دہائیوں سے ملازمت کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ کام کرتے ہیں۔ جب کہ ایک بڑی تعداد بھارتی شہریوں کی ہے۔ بھارتی شہریوں میں ہندوؤں کے علاوہ سکھ اور مسلمان بھی شامل ہیں۔ مگر ہندوؤں کا رویہ مجموعی طور پر غیردوستانہ ہوتا ہے۔

    سات مئی کو جب بھارتیوں نے حملہ کیا تو ڈیوٹی پر موجود بھارتی ہندوؤں کے چہروں پر خوشی نمایاں تھی۔ وہ ایک دوسرے کو پرجوش انداز میں مبارک دے رہے تھے۔ ان کی باڈی لینگویج میں ایک احساس تفاخر نمایاں تھا۔ مگر ہم پاکستانی کم تعداد میں ہونے کے باوجود پر اعتماد تھے۔ اور بھارتی فضائیہ کے جنگی طیاروں کے گرنے کی خبر نے بھی بہت اعتماد دیا تھا۔ ہارون مزید کہتے ہیں کہ سات سے دس مئی کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ایک جذباتی معرکہ بھی تھا۔ وطن سے دور رہتے ہوئے میڈیا پر یہ سب سننا اور دیکھنا ایک الگ ہی نوعیت کا تجربہ تھا۔ ہماری زندگی کے لگ بھگ 50 یا 55 سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ملکوں نے اس بڑے پیمانے پر جنگ کی۔ سات مئی کی رات کو جب بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تو پہلا ردعمل تو یہی تھا کہ یہ سراسر بیوقوفی ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسانی جانوں کو خطرہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ پھر پاکستان کی طرف سے بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے گرانے کی خبر سنی تو دل کو کسی قدر تسلی ہوئی مگر جذبات کسی طرح تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بہرحال فتح‌ کے بعد بھی ہماری مسلح افواج کی میڈیا بریفنگز، حکومت اور سرکاری و سفارتی عملہ کا طرزِ عمل بہت بہتر رہا جسے دنیا نے سراہا ہے۔

    معرکۂ حق میں‌ فتح اور آپریشن بنیان مرصوص کی کام یابی نے بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں‌ کو بھی شاد باد کر دیا اور ان کے سر فخر سے بلند ہیں۔ سمندر پار اپنے غیر ملکی دوستوں اور حلقۂ احباب کی نظر میں‌ پاکستانیوں کا وقار بڑھ گیا ہے کہ یہ اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بہادری اور شجاعت کے جذبے کے تحت اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو عبرت کا نشان بنا دیا ہے۔