Tag: راجہ کامران کا بلاگ

  • بارش اور پاکستان کے دو بڑے شہروں کی کہانی

    بارش اور پاکستان کے دو بڑے شہروں کی کہانی

    کراچی شہر ملک کی ترقی کا انجن ہے اور اسے ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دنیا میں جو شہر ایسی اہمیت اور حییثت رکھتے ہیں وہاں کی حکومتیں ان کے انفرااسٹرکچر پر خاص توجہ دیتی ہیں اور ان کی تعمیر کی جاتی ہے۔ مگر کراچی کیا ہے اس کا اندازہ آپ 19 اگست کی برسات سے لگا سکتے ہیں۔

    اس دن میں معمول کے مطابق دفتر پہنچا اور کام میں مشغول ہوگیا۔ ہمارے دفتر کی ایک ساتھی نے جب بلانئنڈز ہٹائے تو شیشے کے پیچھے سے گہرے کالے رنگ کے بادل ہمیں گھور رہے تھے۔ آن کی آن میں ان بادلوں نے برسنا بھی شروع کر دیا۔ اس قدر جم کر برسے کہ چند ہی منٹ میں جل اور تھل ایک ہوگیا۔ انتظامیہ نے دفتر کو بند کرنے اور تمام ملازمین کو گھرجانے کی اجازت دے دی۔ ابھی بارش جاری تھی کہ میں نے گھر کی راہ لی کیونکہ خدشہ تھا کہ جس قدر تیز بارش ہوئی ہے اس کے بعد شہر کی سب سے بڑی سڑک، شارع فیصل سے گزرنا محال ہوجائے گا۔ جیسے تیسے بلوچ کالونی کے راستے شارع فیصل پر داخل ہوا تو ٹریفک سست روی کا شکار تھا۔ کارساز پر آکر دیکھا تو میرے اوسان ہی خطا ہوگئے۔ سر شاہ سلمان روڈ سے پانی ریلے کی صورت میں شارع فیصل پر آرہا ہے۔ اور پانی اس قدر تیزی سے آرہا ہے کہ چھوٹی اور کم وزنی گاڑیاں تو بہنے لگی ہیں۔

    اس صورتحال میں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر تو سفر کرنا ناممکن تھا۔ موٹر سائیکل بند کی۔ اور پانی میں اپنا سفر شروع کر دیا۔ اس دن اندازہ ہوا کہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں 150 سی سی موٹر سائیکل کو گھسیٹنا کتنا مشکل کام ہے۔ پانی کی وجہ سے گاڑیاں بند ہو رہی تھیں جن میں خواتین، بچے، مرد، بوڑھے سب ہی بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ اسکول کے بچوں کی وینز بھی پانی میں پھنسی تھیں۔ مگر وہ پریشان ہونے کے بجائے اس صورتحال کا خوب لطف لے رہے تھے۔ بہرحال موٹر سائیکل کو گھسیٹتے گھسیٹتے بڑھتا رہا اور جہاں پانی کم دیکھا وہاں اسے اسٹارٹ کر کے سوار ہوجاتا۔ مگر کارساز پر تو سیلاب کا صرف ایک ریلا تھا۔ اصل سیلاب تو ڈرگ روڈ جنکشن پر منتظر تھا۔ جہاں پہنچ کر موٹر سائیکل احیتاطاً بند کر دی اور اسے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔

    اس بارش اور سیلابی صورت حال میں وہ لوگ جن کے پاس ڈبل کیبن یا ایس یو وی گاڑیاں تھیں مزے سے پانی میں گاڑیاں چلا رہے تھے۔ ان گزرتی گاڑیوں سے اس سیل رواں میں مزید لہریں پیدا ہوتیں اور ہم جیسے سڑک چھاپوں کی مشکل بڑھ جاتی۔ ایک موقع پر تو لہر اس قدر تیزی سے آئی کہ ہاتھ سے بائیک چھوٹ کر پانی میں ڈوب گئی۔ ایک لڑکے نے نہ صرف موٹر سائیکل کو اٹھانے میں مدد کی بلکہ کچھ دور دھکیل کر کسی قدر راحت بھی پہنچائی۔ پیدل چلتے چلتے کالونی گیٹ پہنچے جہاں ہمارے ایک جاننے والے کی دکان تھی۔ ان سے درخواست کی اور موٹر سائیکل کو وہیں کھڑا کر دیا اور ریلوے لائن پر چڑھ کر گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ اس ریلوے لائن پر سیکڑوں‌ لوگ اپنی منزل کی جانب رواں دواں‌ تھے۔ان میں خواتین بھی شامل تھیں جو پیدل سامان اٹھائے اور کچھ بچے سنبھالے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔

    ریلوے لائن پر چلتے چلتے جب میں گھر کے قریب پہنچا تو اندازہ ہوا کہ ابھی مشکل ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایئر پورٹ کی طرف سے آنے والا بارش کے پانی کا ریلا گھر کے اندر بھی داخل ہوچکا ہے۔ اور گراؤنڈ فلور پر کئی کئی فٹ پانی کھڑا تھا۔ مگر اس صورت حال کے باوجود میں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ میں گھر پہنچ گیا تھا۔ جب کہ میرے دفتر کے چند ساتھی رات گئے تک سڑکوں پر برے حال میں پھسنے رہے اور بہت تکلیف اٹھا کر کسی وقت گھر پہنچ سکے۔

    شہر میں ہونے والی تیز بارش کے بعد شارع فیصل مکمل طور پر بند ہوگئی تھی اور ایئر پورٹ، اور دونوں بندرگاہوں کا راستہ گویا منقطع ہو گیا تھا۔ کئی پروازیں عملے اور مسافروں کے نہ پہنچنے کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی تھیں۔ کم و بیش یہی صورت حال شہر کے دیگر علاقوں کی سڑکوں کی تھی۔

    گھر کا کیا حال سنائیں رات گئے جیسے ہی پانی اترا تو وہ اپنے پیچھے ڈھیروں مٹی اور کیچڑ چھوڑ گیا جس کو صاف کرنے میں چند دن لگے۔ فرنیچر اور دیگر اشیاء کا نقصان الگ ہوا۔ نقصان جتنا بھی ہو اور مشکلات جیسی بھی ہوں زندگی رکتی نہیں ہے۔ اس بارش اور اس تکلیف دہ صورت حال کے چند روز بعد اسلام آباد اور لاہور کا سفر کرنا تھا۔ اسلام آباد کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر معلوم چلا کہ بادل تو وہاں بھی برسا ہے اور خوب جم کر برسا ہے۔ مگر کوئی سڑک زیر آب نہیں آئی، کہیں گڑھے میں کوئی گاڑی پھنسی نہیں تھی۔ دل نے کہا یہ تو اسلام آباد ہے اصل مشکل کا سامنا تو لاہور میں ہوگا۔

    جب لاہور کے لیے سفر شروع ہوا راستے میں اطلاع ملی کہ راوی بپھر گیا ہے۔ اور جو لوگ اس کو دریا کے بجائے گندا نالہ کہہ رہے تھے۔ راوی انہیں اپنی بپھری ہوئی موجوں سے بتا رہا تھا کہ وہ راوی ہے جس کے کنارے پر لاہوریوں کی تہذیب اور تمدن نے جنم لیا ہے۔

    لاہور میں سیلاب کا سن کر ہمارے دل پر ایک خوف چھا گیا کہ کہیں کراچی جیسا حشر نہ ہو۔ مگر لاہور میں جیسے ہی داخل ہوئے تو کہیں بھی سیلاب کا شائبہ تک نہ تھا۔ ٹی وی لگایا تو خبریں یہی چل رہی تھیں کہ لاہور ڈوب گیا ہے۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہم جہاں ٹھرے ہیں وہاں سیلاب نہ ہو۔ مگر اگلے دن لاہور کے مخلتف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کہیں ایسی سیلابی صورت حال نہ تھی۔ نشیبی اور اولڈ ایریاز خواہ کراچی کے ہوں یا لاہور کے تیز بارش سے ضرور متاثر ہوتے ہیں، مگر جب ہم بات کرتے ہیں مرکزی شاہ راہوں اور سڑکوں کی تو ان شہروں میں صورت حال بالکل مختلف دیکھی گئی۔ لاہور میں سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھا۔ سیلاب صرف راوی دریا کے پاٹ کے اندر قبضہ کر لینے والوں کے لیے تھا، چاہے وہ شاہدرہ کا علاقہ ہو یا پھر نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز، یہ سب پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ راوی کا موجیں مارتا دریا ان لوگوں کو منہ چڑا رہا تھا جو کہتے تھے کہ راوی ایک گندا نالہ بن گیا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کے پاٹ میں زراعت اور مویشی پروری کرنے والوں کو بے دخل کر کے وہاں ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائی جائیں۔

    دوسرے دن کراچی کی طرح بادل جم کر برسنے لگے تو سوچا کہ اب تو آج کی تمام میٹنگز منسوخ کر کے جیم خانہ کے کمرے میں ہی دن گزارنا ہوگا۔ مگر بارش کے باوجود سڑک پر پانی نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب کہ ٹریفک تقریباً معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ڈرائیور بھی سڑک پر گڑھا ہونے کے خوف کے بغیر گاڑی کو چلا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لاہور لاہور ہے۔ اس پر گزشتہ 30 سال میں جو سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اس نے ایک دیہی شہر کو ایک ایسے قابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے جہاں بارش سے خوف زدہ ہونے کے بجائے لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔

    اسلام آباد اور لاہور میں مصروفیات ختم ہوئیں‌ تو اپنے شہر کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ گھر کے راستے میں ٹریفک جام پایا۔ دریافت کرنے پر انکشاف ہوا کہ بارش کو ہوئے دوسرا ہفتہ ہے مگر شارع فیصل کو ملیر ہالٹ کے مقام سے موٹر وے سے ملانے والی سڑک کچھ جگہ سے بیٹھ گئی ہے۔ سڑک پر گڑھے پڑے ہیں جن میں بارش اور بارش کی وجہ سے ابلنے والے گٹروں کا پانی موجود ہے جس کی وجہ سے گھنٹوں ٹریفک جام رہنے لگا ہے۔

    یہ حال ملک کے دو شہروں کا ہے، ایک میں اگر بارش ہوجائے تو زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ دوسرے میں شہر میں مرکزی راستے اور سڑکوں پر زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ لاہور والوں نے راوی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا، اس کا بدلہ راوی نے اس مرتبہ لے لیا ہے۔ ادھر کراچی کے شہری اپنے شہر کے ساتھ جو کچھ کرتے رہے ہیں، اس کا بدلہ شہر میں ہونے والی ہر بارش لیتی ہے۔

  • معرکۂ حق: پاکستانی سائبر ماہرین نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی

    معرکۂ حق: پاکستانی سائبر ماہرین نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی

    پاک بھارت معرکہ میں بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستانی حملوں سے نہ صرف بھارتی جنگی طیارے زمین پر آرہے بلکہ پاکستان نے دشمن ملک کے فضائی دفاعی نظام کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ اس جنگ نے ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کی برتری ہی ثابت نہیں‌ کی بلکہ خطّے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کے قائدانہ کردار کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے۔

    بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے دس مئی کی صبح آپریشن بنیان المرصوص شروع کیا اور بھارت کے ان فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں سے پاکستان کے شہروں اور فوجی تنصیات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سائبر وار فیئر کے تحت بھارتی افواج کے درمیان رابطے کے نظام کے علاوہ فوج کو معاونت فراہم کرنے والے غیر فوجی ڈیجیٹل نظام کو بھی مفلوج کر دیا جس نے بھارت میں نظامِ زندگی بری طرح متاثر کیا۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان سائبر جنگ دراصل سات مئی کو بھارتی جارحیت کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ پہلے بھارتی ہیکرز نے پاکستان کی سرکاری ویب سائٹوں کو نشانہ بنایا جس پر پاکستانی سائبر سیکیورٹی نے مؤثر دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی اور حکومتی ڈیجیٹل اثاثوں کو ان حملوں سے محفوظ بنایا۔

    آپریشن سالار شروع، بھارت کی ویب سائٹس ہیک کرلی گئیں

    بھارت کی جانب سے سائبر حملے کا جواب دینے کے لیے پاکستانی ہیکرز نے منظم طریقے سے سائبر جنگ شروع کردی اور اسے آپریشن سالار کا نام دیا۔ اس رضا کار گروپ کے بھارتی ویب سائٹوں کو نشانہ بنانے سے بھارتی حکومت اور دشمن فوج بوکھلاہٹ اور افراتفری کا شکار ہوگئی جو پہلے ہی پاکستانی فوج کے حملوں کی وجہ سے دباؤ میں آچکی تھی۔ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق آپریشن سالار میں سائبر ماہرین نے نریندر مودی کی آفیشل ویب بھی ہیک کر لی۔ پاکستانی ہیکروں کا کہنا تھا کہ ہم پُرامن قوم ہیں، اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی مثبت اور تعمیری مقاصد کے لیے کرتے ہیں، لیکن مادرِ وطن کی سالمیت، ہماری خود مختاری یا قومی وقار کو چیلنج کرنے والے دشمن کو بتانا ضروری کہ ہم سائبر وار کے ذریعے اسے بے بس کرنا بھی جانتے ہیں۔

    بھارت کی کئی اہم فوجی تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ

    اے آر وائی نیوز کی ایک خبر کے مطابق دس مئی کو پاکستان نے بھارتی دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سائبر حملہ کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں فوج کا آئی ٹی انفرااسٹرکچر، افواج کے باہمی موصلاتی نظام سمیت بھارتی فضائیہ کے رابطے کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ بھارت کے مختلف اداروں کی ویب سائٹس، سرکاری ای میل نظام، مختلف شہروں میں بجلی کا نظام، بھارتی ریلویز اور ایئر پورٹس کے علاوہ پیٹرولیم کے شعبے کا ڈیجیٹل نظام بھی ہیک کر لیا گیا جس سے یہ ادارے بھارت کی مسلح افواج کو ہر قسم کی سہولت اور معاونت فراہم کرنے میں مشکلات کا شکار ہوئے۔

    سائبر وار کے ان پاکستانی ماہرین نے بھارت کے مشرقی، شمالی اور جنوبی بجلی کے لوڈ ڈسپیچ سینٹرز کا کنٹرول حاصل کرتے ہوئے انہیں عارضی طور پر بند کر دیا۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں دعویٰ‌ کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں بھارت کے تقریباً 80 فیصد صارفین کو عارضی طور پر بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی جس سے وہاں کی انتظامیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی۔

    اس کے علاوہ بھارت میں ہر قسم کی نگرانی اور کارروائی کا نظام بھی اس سائبر وار میں بری طرح‌ متاثر ہوا، کیوں کہ پاکستانی سائبر ماہرین نے کئی اہم اداروں کے سی سی ٹی وی نظام کو بھی ہیک کر لیا تھا۔ اس طرح یہ سائبر جنگ جس کا آغاز بھارت نے کیا تھا، اس کے لیے بڑے نقصان کا سبب بنی۔

    سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے ہم تک پہنچنے والی بعض اطلاعات اور میڈیا رپورٹوں کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ سائبر وار فیئر حملہ نہ صرف اس شعبے میں ہماری صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ اس نے ڈیجیٹل دنیا میں بھارت کے ٹیکنالوجی اور سائبر سیکورٹی کے میدان میں دعوؤں اور پیشہ ورانہ قابلیت و استعداد کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ دنیا بھر میں ڈیجیٹل ایکسپورٹ مختلف ممالک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر ڈیجیٹل اثاثوں کی تجارت 4.1 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اور اس میں سالانہ 15 فیصد سے زائد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت اس وقت خطّے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اور سالانہ 180 ارب ڈالر صرف ٹیکنالوجی سے متعلق خدمات فراہم کر کے کماتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے اس شعبے پر کورونا کے بعد توجہ دینا شروع کی ہے اور اس وقت پاکستان سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں برآمدات 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔

    شعبۂ ابلاغیات کے استاد اور جدید ذرایع ابلاغ کے ماہر پروفیسر ریحان حسن طویل عرصہ تک تعلیمی شعبہ سے وابستہ رہے اور اب من گھڑت خبروں اور پروپیگنڈا کے خلاف ادارہ چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید جنگی حکمتِ عملی میں سائبر حملوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اور انہیں انفارمیشن وار فیئر کے طورپر بھی دیکھا جاتا ہے۔ سائبر حملے کے ذریعے دشمن کے جوابی حملے کا نظام بھی مفلوج کیا جاسکتا ہے تاکہ دشمن جارحانہ حکمت عملی نہ اپنا سکے اور اپنے نظام میں ہی الجھ کر رہ جائے۔ ریحان حسن کا کہنا ہے کہ سائبر وار فیئر جدید جنگ کا لازمی حصہ بن گئی ہے۔

    گزشتہ چند سال کے دوران بھارت نے اپنی سائبر ٹیکنالوجی سے متعلق صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ بھارت نے ڈیفنس سائبر ایجنسی اور انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم جیسے ادارے قائم کیے ہیں اور اب مقامی سطح پر سائبر اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز پر کام کررہا ہے۔ بھارتی ہیکروں نے ماضی بہت سی ویب سائٹوں جیسا کہ نادرا کی ویب سائٹ کو ہیک کرنے کے علاوہ موبائل فونز بھی ہیک کرنے کی کوششیں کی تھیں جن کے بعد پاکستان نے بھی اپنے سائبر سیکورٹی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں۔

    عامر جہانگیر الیکٹرانک میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ابلاغیاتی جنگ اور اس سے متعلق موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان بھارت جنگ میں سائبر وار فیئر کو ایک نیا رجحان سمجھتے ہیں۔ عامر جہانگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ معرکہ میں پاکستان نے جدید جنگی طرز کو اپنایا ہے جس میں روایتی جنگ اور ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سائیبر اسپیس میں ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس معرکہ کے دوران روایتی جنگ لڑتے ہوئے ڈیجیٹل جنگی صلاحیت کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے اور اسے بلاشبہ پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کا درجۂ کمال کہا جاسکتا ہے جس سے بھارت کی ڈیجیٹل محاذ پر برتری کی قلعی کھل گئی ہے۔

    عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے نیشنل پاکستان کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (پی کے سی ای آر ٹی) اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی اے آئی ) قائم کی ہے۔ اس سے پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ اس کی سائبر سیکورٹی کو بھی مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے ایک وسیع سوچ پائی جاتی ہے۔

    سائبر صلاحیت کوئی لگژری یا پُرتعیش اقدام نہیں ہے بلکہ قومی طاقت کا اہم آلہ ہے۔ یہ سائبر سکیورٹیز میں علاقائی صورتحال میں فوجی توازن کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان سائبر توازن کو بھی قائم کرے گی۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل تصادم کے حوالے سے معیارات کا تعین کرنا بھی اہم ہے۔

    سائبر سیکورٹی صرف جنگی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ ڈیٹا کے تحفظ اور آن لائن کاروباری تحفظ کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں جہاں ڈیجیٹلائزیشن بڑھ رہی ہے، وہیں ان ڈیجیٹل اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ زمانۂ جنگ نہ بھی ہو تو تجارتی نظام اور کاروبار کے لیے اپنی ڈیجیٹل سیکورٹی کی حفاظت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ٹیک جیوری کے مطابق یومیہ 30 ہزار ویب سائٹ پر سائبر اٹیک ہوتا ہے۔ یعنی ہر 11 سیکنڈ میں ایک سائبر حملہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سائبر سیکورٹی کا رجحان اور ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ سال 2029ء تک سائبر سیکورٹی کی مارکیٹ 271 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

    عثمان آصف نے سائبر سیکورٹی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ٹیکنالوجی سے متعلق ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ پاک بھارت جنگ سے قبل انہوں نے ایک موقع پر بات چیت کے دوران ڈیجیٹل میدان میں پاکستان کے بھارت سے پیچھے رہ جانے سے متعلق کہا تھا کہ بھارت اس وقت جہاں پہنچا ہے، پاکستان بہت کم وقت میں اس پوزیشن کو حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ مصنوعی ذہانت اور سائبر سکیورٹی نے ڈیجیٹل انڈسٹری کی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

    اس وقت سائبر سیکورٹی ٹولز اور اس کے ماہرین کی طلب بڑھ رہی ہے۔ اور مستقبل میں بھی ان کی طلب میں اضافہ دیکھا جائے گا۔ ابھی سے ہم یہ طے کر لیں کہ کس طرح ہنگامی طور پر سائبر سیکورٹی میں پروفیشنلز تیار کرسکتے ہیں۔ ان پروفیشنلز کو جامعات اور انڈسٹری ملک کے لیے تیار کرے تاکہ ان کے پاس تعلیمی گہرائی کے ساتھ براہ راست صنعت کا تجربہ بھی ہو۔

    پاکستان نے بھارت کو جہاں فوجی میدان میں شکست دی ہے، وہیں اس کے سائبر سیکورٹی نظام کی خامیوں کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اب پاکستان نے سائبر سیکورٹی کے شعبے میں خود کو منوا لیا ہے اور اب صرف اپنی برتری کا جشن ہی نہیں منانا ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ابھرتی ہوئی سائبر سیکورٹی مارکیٹ میں بھی اپنا مقام بنائیں اور اس شعبے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں ماہرین کی مدد سے جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس حکومتی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔

  • جارحانہ رویّہ اور منفی ردعمل سفارتی میدان میں بھارت کو تنہا کرگیا

    جارحانہ رویّہ اور منفی ردعمل سفارتی میدان میں بھارت کو تنہا کرگیا

    پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد اس وقت بین الاقوامی سرحد پر مکمل جب کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جزوی طور پر جنگ بندی ہے جب کہ سفارتی سطح پر تناؤ اور میڈیا کے محاذ پر کشیدگی برقرار ہے۔

    7 مئی سے 10 مئی تک جھڑپوں اور پاکستان کی جانب سے بھرپور حملوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ امریکی مداخلت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا ہے۔ جو لوگ 10 مئی کو صورت حال مانیٹر کر رہے ہوں گے انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ ٹرمپ کے جنگ بندی کے ٹوئٹ کے بعد بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کے جنگ بندی کے اعلان سے قبل صبح ہونے والی میڈیا بریفنگ میں بھارتی مسلح افواج نے نہ صرف پاکستان کی جانب سے ایک بھرپور حملے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی کہا کہ بھارتی مسلح افواج مزید کشیدگی نہیں چاہتی، اگر پاکستان بھی ایسا ہی کرے۔

    اس پریس بریفنگ میں یہ الفاظ بھارتی فوج کی جانب سے اعتراف شکست ہی ہیں۔ اس میڈیا بریفنگ کی ویڈیو اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اسے دیکھا اور اعتراف شکست کو سنا جاسکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی مسلح افواج کے ہاتھ کھڑے دینے کے بعد مودی حکومت کے پاس امریکا کی جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

    بھارت کی سفارت کاری جنگ بندی تک محدود رہی جب کہ پاکستان نے اپنی سفارت کاری جنگ بندی سے آگے جا کر کی تھی۔ اور لگتا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو جنگ بندی کی شرائط میں مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے عالمی طاقتوں کو آمادہ کرلیا ہے۔ اس جنگ بندی میں پاکستان کو عالمی سطح پر چین، ترکی اور آذربائیجان کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ جب کہ بھارت کو جنگی جرائم میں عالمی عدالتِ انصاف کو مطلوب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حمایت حاصل رہی۔

    جنگ شروع ہونے سے قبل امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بھارت کا دورہ مکمل کیا تھا۔ اور جس وقت پہلگام کا واقعہ رونما ہوا تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ یعنی بھارت سفارتی سطح پر اعلٰی ترین رابطوں میں مصروف تھا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد وائٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی ابھی تک کسی بھی امریکی اعلیٰ عہدیدار سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہونے سے قبل بھارت نے اعلیٰ امریکی قیادت بشمول امریکی صدر، کو یہ باور کرایا ہوا تھا کہ پاکستانی دفاعی نظام بھارت کے حملوں کے آگے ٹک نہ سکے گا۔ مگر سات مئی کے بھارت کے حملے میں اس کو جو نقصان ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح دس مئی کو جو جواب دیا گیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس جواب نے امریکی صدر اور انتظامیہ کے اہم افراد کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
    پاکستان نے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد سے بہتر سفارت کاری کی اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش کو دنیا نے مثبت لیا تھا۔ مگر بھارت اپنی عددی طاقت کے نشے میں ایسا دھت تھا کہ وہ سفارتی سطح پر آنے والے پیغام کو ڈھنگ سے سمجھ نہ سکا۔ اور جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی زبان اس کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔

    اب بھارتی حکومت کی سرپرستی میں گودی میڈیا نے ان ملکوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جنہوں نے پاکستان کی براہ راست حمایت یا معاونت کی ہے یا پھر انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کرانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بھارت کے ہیرو میجر گورو آریا جس کی زبان گالی اور گندگی کے علاوہ اور کچھ اگل نہیں رہی ہے، اس نے ایران کی جانب سے مفاہمت کی کوشش کرنے والے وزیر خارجہ کے بارے میں نازیبا کلمات کہے جس پر ایران نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں بی جے پی کے کارکنوں نے سعودی عرب کے جھنڈے کی بے حرمتی کی جس نے نہ صرف سعودی عرب کو ناراض کیا بلکہ پوری مسلم امہ میں بھارت کے خلاف غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

    بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ میں فرانسیسی رافیل طیارے، مقامی طور پر تیار کردہ میزائل، اسرائیلی ڈورونز، روسی فضائی دفاعی نظام کو تباہ کروا کے ان ملکوں کی ٹیکنالوجی کو بے توقیر کروایا۔ مگر پاکستان نے بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی رافیل طیارے دینے والے فرانس کے خلاف اور نہ ہی ایس 400 ڈیفنس سسٹم دینے پر روس کے خلاف کوئی بیان دیا گیا۔ مگر پاکستان کی سفارتی حمایت اور فوجی معاونت کرنے والے ممالک کے خلاف بھارت کے گودی میڈیا کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔

    بھارت کی ایک نیوز ایجنسی جس کو را کی جانب سے خبریں اور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں نے ایک مضمون میں ترکیہ کو دھمکی دی ہے کہ بھارت اپنے براہمسترا میزائل سے چھ منٹ میں اسے تباہ کر سکتا ہے۔ اس دعوے کے علاوہ بھارتی ایوی ایشن سکیورٹی ادارے بی سی اے ایس نے جمعرات کو ترکیہ کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی سیلیبی ائیرپورٹ سروسز انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی سکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دی ہے۔ ترکیہ کی یہ ایجنسی بھارت کے نو ایئرپورٹس ممبئی، دہلی، کوچی، کنور، بنگلور، حیدرآباد، گوا، احمد آباد اور چنئی پر جہازوں کی ہینڈلنگ کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

    اسی طرح بھارت نے پاکستان کی کھل کر حمایت کرنے پر آذربائیجان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ اور ٹریول ایجنیسوں نے اس ملک کا سیاحتی بائیکاٹ شروع کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس پر خاموشی اور بائیکاٹ مہم کے خلاف کارروائی نہ کرنے کو بھارت سرکار کی آشیر باد تصور کیا جا رہا ہے۔

    چین، ترکیہ اور آذربائیجان کے خلاف بائیکاٹ مہم بھارتی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ مگر بھارت کے سفارتی سطح پر منفی رویّے پر معروف امریکی پروفیسر کرسٹین فیئر نے بھی حالیہ جنگی معرکے میں بھارتی کامیابی کے دعوؤں کی نہ صرف قلعی کھول دی ہے بلکہ بھارتی سفارت کاری سے جھلکتے ہوئے اس کے رویّے کو کاٹ کھانے جیسا قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ کرسٹین فیئر پاکستان کے خلاف کھلم کھلا معاندانہ رویہ اختیار کرتی رہی ہیں اور ہماری سخت ناقدین میں سے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کرسٹین فیئر کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کے رویوں میں بہت فرق ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں سفارت کاری میں آداب کو ملحوظ رکھا ہے اور اس کے آفیشلز کا رویہ بہت نرم اور مہذب رہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی ذاتی مثال پیش کی کہ وہ طویل عرصے سے پاکستان کے خلاف باتیں اور تجزیے کررہی ہیں۔ مگر پاکستانی ان سے نرمی سے بات کرتے ہیں۔ جب کہ بھارت کی حمایت کرنے کے باوجود بھارتی جب بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ جنگ سے قبل اور بعد میں پاکستان کی سفارت کاری بہتر رہی مگر لگتا ہے کہ بھارت نے جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی سطح پر اپنا رویہ درست نہ کیا تو اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

    پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی ملکوں سے بھی بھارت کے نامناسب رویّے نے سفارتی سطح پر بھی اس کی تنہائی میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی مالدیپ کا سیاحتی بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ جب کہ خطے کے دیگر ملک بھوٹان، نیپال، میانمار، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی جانب سے بھی بھارت کو کسی قسم کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔

    گزشتہ صدی کے اختتام تک بھارت نے ایک غیر جانب دار ملک کے طور پر اپنی سفارتی شبیہہ بنائی تھی جو رواں صدی کے آغاز پر آہستہ آہستہ مٹنے لگی تھی اور اب بھارت اپنی اکڑ اور درشت رویّے کی وجہ سے سفارتی طور پر تنہائی کا شکار نظر آرہا ہے مگر ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہے۔

  • سودی نظام کا خاتمہ، کیا ریاست تیار ہے؟

    سودی نظام کا خاتمہ، کیا ریاست تیار ہے؟

    ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ جو بحث جاری ہے وہ سپریم کورٹ میں اصلاحات سے متعلق کی جانے والی قانون سازی کے گرد گھوم رہی ہے، مگر اس میں سود کے خاتمے کی تاریخ مقرر کر کے بھی ایک سنگِ میل طے کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028ء سے ملک میں سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ گو کہ اس حوالے سے تند و تیز مباحث اور تبصرے نہیں ہو رہے مگر اس قانون سازی پر ملا جلا ردعمل دیا جارہا ہے۔

    اسلامی مالیاتی اور معاشی نظام پر سند مانے جانے والے مولانا تقی عثمانی نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو سوشل میڈیا پر نہ صرف مبارک باد دی بلکہ اسلام آباد میں مولانا کے گھر جاکر انہیں گلے لگایا اور جبہ و دستار پیش کی۔ مگر بعض حلقوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ سود کو دراصل مزید چار سال کے لئے ہمارے اوپر مسلط کر دیا ہے۔ سود کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال کے بعد جماعت اسلامی کی پٹیشن پر اپریل 2022 میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملک سے سود کے خاتمے کا سال 2027 مقرر کیا تھا۔ پہلے حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر بعد ازاں عوامی اور سیاسی ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نومبر 2022 میں اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت سود کے خاتمے کے شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جس نے گزشتہ تقریبا دو سال میں بہت سا کام کر لیا ہے۔ اور اب اس کمیٹی کو پہلے سے زیادہ فعال طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ مگر کیا حکومت مقررہ وقت تک سودی نظام کو ختم کر پائے؟

    وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کے حوالے سے ملک کے ایک نجی بینک کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایک بینک اپنے کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے لین دین کو سود سے پاک کر کے اسلامی مالیات پر منتقل کرسکتا ہے تو ملکی نظام کو بھی اس پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ نجی بینک کے شریعہ کمپلائنس اینڈ ایڈوائزی فیصل شیخ کہتے ہیں کہ روایتی اسلامی مالیاتی ادارہ بننے کا فیصلہ سال 2015 میں کیا تھا۔ اس وقت جب یہ فیصلہ کیا گیا تو ہمارے بینک جتنے بڑے حجم کے کسی بینک نے مکمل طور پر اپنے کاروبار کو شرعی مالیاتی ماڈل کے مطابق نہیں اپنایا تھا۔ اور دنیا میں کوئی ایسی مثال بھی موجود نہ تھی کہ جس پر عمل کرتے ہوئے بینک کو شرعی مالیاتی نظام پر منتقل کیا جائے۔ بینک کو جو بھی کام کرنا تھا وہ کام اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس مقصد کے لئے بینک انتظامیہ نے نیا سودی قرضہ دینے اور اکاؤنٹ کھولنے پر ایک تاریخ کے بعد پابندی عائد کردی اور پھر بینک نے تمام کھاتے داروں کو تحریری طور پر مطلع کیا کہ ان کے بینک اکاؤنٹس کو روایتی سے اسلامی کھاتوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ جاری قرضوں کو اسلامی پر منتقل کرنا تھا۔ پہلے بینک نے تمام شرعی مالیاتی مصنوعات کی تیاری کی اور پھر اپنے کاروباری اور انفرادی قرض لینے والوں کو بالمشافہ اور کئی ملاقاتوں کے دوران روایتی سے اسلامی بینکاری پر منتقل ہونے پر راضی کیا۔ اس میں تقریباً 7 سال لگ گئے اور اسٹیٹ بینک نے جائزہ لینے، آڈٹ کرنے کے بعد مکمل اسلامی مالیاتی بینک کا لائسنس جاری کیا۔

    اگر ایک بینک کو سودی سے اسلامی نظام پر منتقل کرنے میں 7 سال کا عرصہ لگا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان آئندہ چار سال میں سودی معیشت کا خاتمہ کرسکے۔ اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ حکومت کو کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔

    سود کا خاتمہ اور غیر ملکی قرضے:
    اسلامی مالیاتی نظام کے حوالے سے دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے۔ اسلامی ملکوں سمیت متعدد غیر اسلامی ریاستوں نے بھی اسلامی مالیات کے حوالے سے قوانین کا اجرا کیا ہے اور قرض کی عالمی منڈی میں شرعی اصولوں کے مطابق سرمایہ اکھٹا کرنا کوئی اچھوتا عمل نہیں ہے۔ عالمی مالیات مارکیٹس اسلامی فنانس کے حوالے سے معلومات رکھتی ہیں۔ اور کئی ہزار ارب ڈالر مالیت کے قرضے اور سرمایہ کاری اسلامی فنانسنگ کے تحت کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی فنانس کو مختلف بڑے تحقیقاتی ادارے سودی نظام کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

    عالمی مالیاتی ادارے جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تقریبا ہر ادارے میں اسلامی فنانسنگ کی سہولت دستیاب ہے۔ اور مکمل اانفرااسٹرکچر موجود ہے۔ اس لئے اگر پاکستان ان اداروں سے کہتا ہے کہ اسے غیر سودی مالیاتی سہولت درکار ہے تو یہ ادارے ایسی سہولت فراہم کرنے کے قابل ہیں۔

    سود پر قرض نہ لینا:
    حکومت کو اسلامی مالیاتی نظام کو اپنانے کے لئے سب سے پہلے ایک تاریخ مقرر کرنا ہوگی جس کے بعد حکومت کوئی بھی نیا قرضہ سودی شرائط پر نہیں لے گی۔ یہ وہ پہلا قدم ہے جو معیشت کو غیر سودی بنانے کے لئے اٹھایا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد بھی حکومت کو اپنے جاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ مگر سودی قرض بتدریج ختم ہوتا جائے گا اور اس کی جگہ شرعی سہولت لی جائے۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو اپنے ان اثاثوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جس پر وہ یہ نئی سہولت حاصل کرے گی۔ اس وقت بھی حکومت جو بھی سہولت اسلامی بینکوں سے یا اسٹاک ایکسچینج سے حاصل کررہی ہے وہ صکوک کی مد میں حاصل کررہی ہے۔ جس میں حکومتی اثاثے کو قرض دینے والوں کے نام پر منتقل کر کے اس پر کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

    قانون سازی:
    سب سے پہلے سود سے متعلق قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اور یہ کوئی سادہ عمل نہیں بلکہ اس کے لئے 26 ویں آئینی ترمیم سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ اسٹیٹ بینک اور ملک سے سود کے خاتمے کے لئے وفاقی سطح پر حکومت کو کم از کم 24 قوانین سمیت ہزاروں قواعد کو تبدیل اور از سرِ نو مرتب کرنا ہوگا۔ اسی طرح صوبائی، اور ضلعی سطح پر بھی قوانین اور قواعد کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا قانونی عمل ہو گا جس کے لئے بہت زیادہ محنت، قابلیت و اہلیت اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ مجلسِ شوریٰ کو اس حوالے سے بہت کام سرانجام دینا ہوگا۔

    شریعہ بورڈ کا قیام:
    حکومت کو سود کے خاتمے اور معیشت کو اسلامی مالیاتی نظام پر منتقل کرنے اور اس پر عمل کرانے کے لئے ایک مستقل شرعی بورڈ بنانا ہوگا۔ اسے وزارتِ خزانہ اور وزارتِ قانون سمیت تقریباً ہر اس وزارت میں قائم کرنا ہوگا جس میں کاروبار اور لین دین ہورہا ہو۔ جیسا کہ بینکوں میں شرعی بورڈ لین دین کے ہر معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے ہر معاہدے کا جائزہ یہ بورڈ لے گا اور اس کے عین اسلامی ہونے یا نہ ہونے پر اپنی رائے دے گا جس کے بعد یہ معاہدے رو بہ عمل ہوں گے۔

    حکومت کو وفاقی صوبائی اور ضلعی سطح کے علاوہ اس سے منسلک اداروں میں ایسے افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ اسلامی مالیات کے حوالے سے معلومات رکھتے ہوں۔ اور جو مالیاتی لین دین کی نگرانی کرسکیں۔

    ریاست کے مالیاتی اداروں کی اسلامی نظام پر منتقلی:
    حکومت کے لئے ایک بڑا کام اپنے مالیاتی اداروں کو روایتی سے اسلامی پر منتقل کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو قومی بچت، نیشنل بینک، فرسٹ ویمن بینک، زرعی ترقیاتی بینک کے علاوہ بڑے پیمانے پر انشورنس کمپنیوں کو روایتی نظام سے اسلامی انشورنس یعنی تکافل پر منتقل کرنا ہوگا۔ جس میں نیشنل انشورنس کارپوریشن، پاکستان ری ایشورینس کمپنی، پوسٹل لائف انشورنس، اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی سطح پر بینک آف پنجاب، بینک آف خیبر اور سندھ بینک کی بھی اسلامی مالیاتی نظام پر منتقلی ہوگی۔ اس ایک بہت بڑے اور طویل مدتی کام کا آغاز کرنے اور اسے انجام تک پہنچانے کے لیے بھی بہت سا علمی اور عملی کام کرنا ہوگا۔

    حکومتی خزانے کا حساب کتاب:
    سودی نظام میں حسابات لکھنے اور ریکارڈ رکھنے کا طریقہ کار اسلامی مالیاتی نظام سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو بحرین میں قائم اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹ آرگنائزیشن برائے اسلامک فنانشنل اسٹیٹیوشنز (ایوفی) Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI) کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ جو کہ وفاقی حکومت اور اس کی وزارتوں کے اکاؤنٹنگ کے معیار کو روایتی لین دین سے اسلامی پر متنقل کریں گے۔ اسی طرح حکومت کے تمام ذیلی ادارے، اتھارٹیز سمیت تقریبا ہر دفتر میں اسلامی مالیات کے ماہرین کی موجودگی ضروری ہوگی جو وہاں‌ خدمات فراہم کریں گے۔

    اس جائزے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اس بڑے، پیچیدہ، اور طویل مدتی کام کو انجام دینے لئے حکومت کو اسی تندہی اور تیزی سے کام کرنا ہوگا جس طرح حکومت نے 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ اگر اس میں تساہل سے کام لیا گیا تو سودی نظام کا مکمل خاتمہ اس کے لئے مقرر کی گئی تاریخ تک ممکن نہیں ہوگا۔

  • مصنوعی ذہانت اور انسانوں کا روزگار

    مصنوعی ذہانت اور انسانوں کا روزگار

    آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) یا مصنوعی ذہانت کا چرچا ہر طرف ہے مگر میرا روبوٹک ذہانت سے پہلا تعارف سال 2001ء میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ مووی اے آئی کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ میری دانست میں پہلا موقع تھا کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سے قبل روبوٹک ذہانت کے حوالے سے اسّی کی دہائی میں ٹرمینیٹر سیریز نے بھی بہت دھوم مچائی تھی۔ مصنوعی ذہانت یا کمپیوٹر کے ازخود سیکھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے ماہرین نے بہت سے خدشات کا اظہار اس کی ایجاد کے فوری بعد ہی شروع کردیا تھا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان خدشات میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسانوں کے لیے ممکنہ مسائل پر بہت بحث ہوئی چکی ہے اور یہ بحث آج بھی جاری ہے۔

    انسانوں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کرنا پالیسی سازوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ برائے معاشیات و سماجیات کے مطابق اس وقت بھی دنیا میں 7 کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہیں اور سال 2050ء تک دنیا کی آبادی 9.8 ارب نفوس پہنچ جانے کا امکان ہے جس میں سے 6 ارب افراد ملازمت کی عمر کے ہوں گے۔ بعض پالسی سازوں کا کہنا ہے کہ ایسے میں نئی ٹیکنالوجیز محنت کی منڈی میں مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ اور آنے والی دہائی میں 80 فیصد ملازمتوں انسانوں کی جگہ کمپیوٹرز سے کام لیا جارہا ہوگا۔

    میری سوچ بھی مصنوعی ذہانت کے خلاف تھی جس کی بڑی وجہ انسانوں کی جگہ میشنوں کا استعمال تھا۔ اسی سوال کے جواب کی تلاش میں کہ کیا واقعی مصنوعی ذہانت اور مشین انسان کو بے روزگار اور ناکارہ کر دے گی، میں پہنچا ایس اے پی کے پاکستان، افغانستان، عراق اور بحرین کے لئے کنٹری منیجر ثاقب احمد کے پاس جنہوں نے ایک مقامی ہوٹل میں صحافیوں سے ملاقات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ کمرے میں داخل ہوا تو میرے صحافی دوست نے ثاقب احمد سے سوال داغا کہ کیا وجہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔ میں ایک مایوس کن جواب سننے کا منتظر تھا۔ مگر توقع کے برخلاف ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مشکل وقت ختم ہوگیا ہے۔ جو کمپنیاں پاکستان سے جارہی ہیں۔ ان کی اپنی کاروباری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کم از کم معاشی وجہ تو نہیں ہے۔ میں نے گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے وہ سوال پوچھ ہی لیا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانوں کو بے روزگار کر دے گی؟ ثاقب احمد نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشینوں کی آمد سے اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے محنت کش کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کانوں کی کھدائی میں انسانوں کی جگہ میشنییں آئیں، زراعت میں ٹریکٹر آیا، کشتی میں چپو اور باد بان کی جگہ انجن لگا تو انسان نے ترقی کی اور ایسا ہی مصنوعی ذہانت، تھری ڈی پرنٹنگ اور روبوٹ کے معیشت کے اس چکر میں شامل ہونے سے ہوگا۔

    ثاقب احمد کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی سے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بہت سی موجودہ ملازمتیں ختم ہوں گی مگر جتنی ملازمتیں ختم ہوں گی اس سے دگنی ملازمتوں کے مواقع پیدا بھی ہوں گے۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ 638 ارب ڈالر سے زائد ہے جس کے سال 2034ء تک 3600 ارب ڈالر تک پہنچ جانے کا تخمینہ ہے۔ پاکستان اس مارکیٹ میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرسکتا ہے۔ اگر وہ فوری طور پر اقدامات کرے۔

    مصنوعی ذہانت کے ذریعے بہت سا کام جس کے لئے لوگ رکھنا پڑتے تھے اب وہ آسانی سے یا ایک کلک پر مکمل ہوجاتا ہے۔ ملازمت کی درخواستوں میں مطلوبہ افراد کی شارٹ لسٹنگ ہو یا پیداواری عمل میں ڈیٹا کا تجزیہ یہ سب اے آئی ایک سوال پوچھنے پر پورا نظام از خود کھنگال کر جواب بتا دیتی ہے۔ اپنی بات کی دلیل دیتے ہوئے ثاقب احمد نے امریکی مردم شماری کی بنیاد پر بتایا کہ 1950ء سے 2106ء کے درمیان امریکا میں درج 270 پیشوں میں سے صرف ایک پیشہ ختم ہوا ہے۔ اور وہ ہے لفٹ آپریٹر۔ ثاقب احمد کی یہ بات سنتے ہی میرا ذہن میڈیا میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب چلا گیا۔ ماضی میں کسی بھی اخبار میں صحافیوں سے زیادہ کاتب، پیسٹر، وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ مگر اب یہ پیشے ختم ہوگئے ہیں۔ ہاتھ سے اخبار لکھنے کا دور ختم ہوا۔ جس سے اخباروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اخباروں کے پاس یہ گنجائش پیدا ہوئی کہ ادارتی عملے میں اضافہ کریں۔

    ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ 2015ء سے پہلے جاب مارکیٹ مختلف تھی۔ آپ نے ایک ہنر سیکھ لیا تو ساری زندگی اسی ہنر سے کمایا کھایا۔ مگر اب ٹیکنالوجی کی تیزی سے تبدیلی ہورہی ہے اور اسی حساب سے ملازمت اور کمائی کے طریقۂ کار بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگر ہر دو یا تین سال بعد اپنی صلاحیت کو نہیں بڑھایا تو نہ ملازمت پر رہیں گے نہ کاروبار میں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے لوگوں کو ملازمت اختیار کرنے کے لئے نئی اور جدید صلاحیتوں اور ہنر کو سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ہم جب تعلیم حاصل کررہے تھے تو بہت سی ایسی ملازمتیں جو کہ اس وقت موجود ہیں، اس وقت ان کا تصور بھی نہ تھا۔ تعلیم کے مکمل کرنے کے بعد ایسے ہنر سیکھے جن کی وجہ سے ملازمت پر موجود ہیں۔ بصورت دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہوسکتے تھے۔

    خیام صدیقی میرے دیرینہ دوست ہیں اور تقریبا دو دہائیوں سے ان سے تعلق ہے۔ وہ اسلام آباد میں ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے فن ٹیک سے وابستہ ہیں۔ کراچی آنے پر ملاقات ہوئی تو مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بات چیت ہونے لگی۔ خیام کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال مالیاتی صنعت کو تبدیل کر رہا ہے۔ قرض کی منظوری جو کہ پہلے انسان دیا کرتے تھے۔ اب مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر دیتے ہیں۔ اور یہ عمل چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اب موبائل فون کے ذریعے قرض کی رقم کی منظوری دینے والوں کے بجائے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

    یہ بات تو طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسان فوری طورپر تو بے روز گار یا ناکارہ نہیں ہورہا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئی ملازمت کی منڈی میں خود کو کسی بھی طرح اہل اور کارآمد رکھنے کے لئے ہر چند سال بعد نیا ہنر سیکھنا ہوگا۔ آپ انجینئر ہیں، ڈاکٹر ہیں، آڈیٹر ہیں یا صحافی مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی میں آپ کی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے اسے اپنا کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

  • امریکا میں بنیادی شرح سود میں کمی اور پاکستان

    امریکا میں بنیادی شرح سود میں کمی اور پاکستان

    19 ستمبر کو امریکی مرکزی بینک یعنی فیڈرل ریزو نے اپنی بنیادی شرحِ سود جس کو بینکاری اصلاح میں پالیسی ریٹ بھی کہتے ہیں، میں کمی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان سمیت متعدد ملکوں کی اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج جہاں مارکیٹ چند ہفتوں سے تیزی اور مندی کے درمیان ہچکولے کھا رہی تھی، اس میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی جشن کا سماں رہا۔

    امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزو نے سال 2020ء کے بعد پہلی مرتبہ اپنی بنیادی شرحِ سود یا پالیسی ریٹ میں کمی کی ہے۔ ادارے نے اپنے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا کہ بنیادی شرحِ سود آدھا فیصد کم کردی ہے۔ اور پالیسی ریٹ 5 فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔ فیڈرل ریزو نے نہ صرف بنیادی شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے بلکہ مستقبل میں بھی اس میں کمی لانے کی توقع ظاہر کی ہے۔ فیڈرل زیرو کے مطابق رواں سال 2024ء کے اختتام تک امریکا پالیسی ریٹ مزید اعشاریہ چھ فیصد کمی سے 4.4 فیصد اور سال 2025ء میں مزید ایک فیصد کم ہوکر 3.4 فیصد ہوجائے گا۔ یعنی مرکزی بینک سال 2025 تک پالیسی ریٹ میں 2.1 فیصد تک کی کمی کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ امریکا میں معاشی سست روی اور طلب میں کمی کے بعد مرکزی بینک نے بنیادی شرحِ سود میں کمی کی ہے۔

    سال 2008ء میں آنے والے مالیاتی بحران کے بعد امریکا میں اشیاء کی طلب تیزی سے کم ہوئی تھی۔ اور کم ہوتی اس طلب کی وجہ سے امریکا میں افراطِ زر یا سی پی آئی انفلیشن بھی تیزی سے کم ہوا تھا۔ اور خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ امریکا میں ڈیفلیشن کا عمل نہ شروع ہوجائے۔ معیشت کو سہارا دینے کے لئے فیڈرل ریزو نے بنیادی شرحِ سود صفر کے قریب کر دی تھی۔ اور سال 2008ء سے 2019ء تک یہی صورتِ حال رہی۔ کورونا وبا اور پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روز گاری میں اضافہ ہوا جس پر امریکا سمیت تقریباً تمام ممالک میں حکومتوں نے عوام کو مالیاتی ریلیف دیا۔ مگر معاشی سرگرمیاں اور انسانی محنت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے اس اضافی سرمائے نے لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ تمام امیر اور ترقی پذیر ملکوں میں مہنگائی کا ایسا سیلاب برپا کیا جس سے افراطِ زر یعنی اضافی سرمائے کی وجہ سے عام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ پاکستان میں افراطِ زر 40 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ امریکا میں افراطِ زر 4 سے 5 فیصد تک پہنچ گیا۔ جس کو کم کرنے اور اضافی سرمائے کو جذب کرنے کے لئے پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا گیا۔ امریکا میں 5.5 فیصد جبکہ پاکستان میں 21.5 فیصد تک بڑھایا گیا۔ اس عمل کے تنائج آنے میں وقت لگا پاکستان میں بھی دو مرتبہ کمی کے بعد اس وقت بنیادی شرح سود 17.5 فیصد ہوگئی ہے جبکہ سی پی آئی انفلیشن 10 فیصد سے کم ہوگیا ہے۔

    امریکا اور پاکستان میں پالیسی ریٹ میں کمی سے سرمایہ کاروں اور کاروبار کرنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جمعرات کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی گئی اور کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 82 ہزار پوائنٹس کی سطح کو چھو گیا۔ اور تیزی کا یہ سلسلہ جمعے کے روز بھی جاری رہا۔ کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا۔
    اسی طرح زرمبادلہ مارکیٹ میں بھی روپے کی قدر میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ جمعرات کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر کم ہو گئی اور ڈالر 24 پیسے سستا ہوکر 277 روپے 80 پیسے کا ہو گیا۔

    بجلی کی قیمت میں کمی:
    مقامی اور امریکی بنیادی شرح سود میں کمی سے پاکستان میں بجلی سستی ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ آئی پی پیز کے معاہدے کے تحت ایک یونٹ بجلی کی پیداواری قیمت میں امریکی سی پی آئی انفلیشن، امریکی شرح سود، پاکستان میں سی پی آئی انفلیشن اور مقامی اور امریکا میں بنیادی شرح سود کو شامل کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جب امریکا میں پالیسی ریٹ میں اضافہ ہو یا مہنگائی بڑھے تو دونوں صورتوں میں پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کی تحقیق کے مطابق سال 2019 سے 2024 بجلی کا ٹیرف تین گنا مہنگا ہوگیا تھا۔ جس کے دوران امریکا میں ہونے والی مہنگائی یا انفلیشن کی شرح 4 فیصد تھی جس کی وجہ سے فی یونٹ قیمت میں 235 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ پاکستان کے اندر افراط زر کی وجہ سے بجلی کے ٹیرف کی قیمت میں 98 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں اس دوران بنیادی شرح سود بلند ترین سطح پر رہی۔ مقامی اور درآمدی کوئلہ بھی مہنگا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بجلی کے ٹیرف میں ورکنگ کیپٹل لاگت 716 فیصد بڑھ گئی۔ ریٹرن آن ایکویٹی میں 184 فیصد، قرض کی اصل رقم کی ادائیگی پر 169 فیصد اور ملکی غیر ملکی قرض پر سود میں 343 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    اب چونکہ امریکا میں پالیسی ریٹ، افراط زرکم ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان میں بھی افراط زر کے بعد پالیسی ریٹ بھی کمی کی جانب گامزن ہے تو توقع یہی ہے کہ آنے والے چند ماہ میں پاکستان کے اندر بلوں میں لگنے والے کیپسٹی چارجز میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔

    مقامی اور غیر ملکی قرضوں پر سود میں کمی:
    بلند ترین پالیسی ریٹ کی وجہ سے حکومت کو قرضوں پر سود کی ادائیگی ایک ایسا بوجھ بن گئی تھی جسے سہارا دینا حکومت کے لئے مشکل ہورہا تھا۔ اور قرض پرسود کی ادائیگی دفاعی بجٹ اور ترقیاتی بجٹ سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ جس کی وجہ سے حکومت کی مالیاتی صورتحال مخدوش ہورہی تھی۔ فیڈرل یرزو کے بنیادی شرح سود میں کمی کے اعلان سے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں پر سود میں کمی کے امکانات ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھی پالیسی ریٹ میں 3 فیصد کی کمی کے ساتھ بنیادی شرح سود 17.5 فیصد کردی گئی ہے۔ اس سے مقامی کرنسی میں لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ریلیف ملے گا۔

    پاکستان کی برآمدات میں بہتری:
    امریکا میں افراط زر کی وجہ سے لوگ ملازمتوں سے محروم ہورہے تھے۔ اور مہنگائی کی وجہ سے روز مرہ کے اخراجات میں مشکلات کا سامنا تھا۔ جس کی وجہ پاکستان سمیت امریکا اور مغربی ملکوں کو اشیا برآمد کرنے والے ملک مشکلات کا شکار تھے۔ اب پالیسی ریٹ میں کمی سے امریکی عوام اپنے اخراجات کو بڑھائیں گے اور عام استعمال کی اشیاء کی خریداری بڑھے گی جس سے پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں معاشی سرگرمی میں اضافے کا امکان ہے۔

    انٹرنیشنل مارکیٹ سے قرض:
    امریکا میں پالیسی ریٹ میں اضافے کے بعد سے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر ڈالر میں سرمایہ کاری کی تھی۔ جس کی وجہ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں مالیاتی رسک موجود ہے کو انٹرنیشنل قرضہ مارکیٹ سے سرمائے کے حصول میں مشکلات کا سامنا تھا۔ مگر اب چونکہ ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی ریٹنگ کو بہتر کررہی ہیں تو دوسری طرف سرمایہ کار اور رسکی سرمایہ کاروں کے ساتھ زیادہ منافع کمانے کی خاطر پاکستان اور اس جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری کے رجحان میں اضافہ ہوگا اور پاکستان ماضی کی طرح اچھے ریٹس پر قرضہ حاصل کرسکے گا۔

    امریکا میں پالیسی ریٹ کم ہونے سے پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ملکوں کی معیشت میں بہتری کے امکانات روش ہوئے ہیں۔ اور عالمی سطح پر معیشت میں بہتری ہو رہی ہے جس سے پاکستان کو معاشی میدان میں سانس لینے کا موقع مل سکتا ہے۔

  • کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    کاربن کریڈٹ مارکیٹ: زرِ مبادلہ کمانے کا اہم موقع

    موسمیاتی تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کررہی ہیں۔ اور پاکستان، جس کا حصہ فضائی آلودگی میں بہت ہی کم ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں سرفہرست ہے۔

    تقریباً ہر سال ہی سیلاب ملک کے کسی نہ کسی حصے میں تباہی مچاتے ہیں۔ مگر سال 2022 میں سندھ میں کلاوڈ برسٹ کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو تاحال آباد نہیں کیا جاسکا ہے۔

    ان تباہ کن بارشوں کے بعد اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتھونی نے ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا۔ دورے کے اختتام پر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کی جانے والی میڈیا ٹاک کو بطور صحافی راقم نے براہِ راست کور کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وہ جو کچھ دیکھ کر آئے ہیں، بہت ہی تباہ کن ہے۔ مگر جو تباہی پاکستان میں آئی ہے، اس میں پاکستان ذمہ دار نہیں ہے۔ اس تباہی کی ذمہ داری مغربی ملکوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ترقی کے نام پر فضا کو بہت زیادہ آلودہ کردیا ہے۔ اور اب مغرب کو اس تباہی سے ہونے والے گھروں کے انفرااسٹرکچر کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    اسی سال موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بھارت کے مرکزی بینک کے سابق گورنر رکھو رام راجن نے جیکبسن لیکچر سیریز سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ منطقۂ حرارہ جنوبی کے ملکوں کے پاس جس میں ایشیائی اور افریقی ملک شامل ہیں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹ سکیں اور اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ لوگ ان ملکوں سے مغرب کی جانب ہجرت شروع کر دیں، ایسے مہاجرین کو کلائمٹ ریفوجی کہا جاتا ہے۔ اس لئے مغرب کو ان افراد اور حکومتوں کی مدد کرنا ہوگی جو موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

    انتھک سفارتی کاوشوں کے بعد پاکستان نے سال 2023 میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ سال 2022 میں ہونے والی بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد اب تعمیر نو کے لئے فنڈز مہیا کرے۔ پاکستان نے عالمی بینک اور دیگر امداد دینے والے غیر ملکی اداروں کے اشتراک سے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 16 ارب ڈالر لگایا ہے۔ جس میں سے پاکستان 8 ارب ڈالر اپنے وسائل سے خرچ کرے گا جبکہ 8 ارب ڈالر کی معاونت عالمی برادری سے طلب کی گئی ہے اور کلائمٹ ریزیلینٹ فنڈز کے ذریعے عالمی برادری نے 9 ارب ڈالر فراہمی کا وعدہ کیا مگر یہ رقم تاحال موصول نہیں ہوسکی ہے۔

    شدید بارشوں اور سیلاب کے علاوہ پاکستان میں موسم کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ شدید سردیاں اور گرمی کے مہینوں‌ میں بلند درجہ حرارت، بے وقت بارشیں اور سیلاب جیسے چند مسائل ہیں جن کا سامنا پاکستان کر رہا ہے۔ سخت موسمی حالات کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری عمل، محنت کشوں اور مصنوعات کی بروقت نقل و حرکت میں خلل، افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت میں کمی، بیماریوں اور اموات کی وجہ سے بھی معاشی نقصان بڑھ جاتا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سالانہ 4 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے سالانہ معاونت سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

    موسمی تبدیلیاں ہو کیوں رہی ہیں۔ اس کا جواب سائنس دان یوں دیتے ہیں کہ مغربی ملکوں کی صنعتوں سے ماضی میں اور اس وقت بھی ایسی گیسوں کا اخراج جاری ہے جس سے کرۂ ارض میں موجود ہوا آلودہ ہوگئی ہے۔ اور اس آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گیسوں، گاڑیوں اور ڈیری کے جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں جن میں آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اوزون ون، نائٹرو آکسائیڈ اور اس جیسی دیگر گیسیں شامل ہیں، بہت زیادہ مقدار میں فضا میں شامل ہوگئی ہیں، فضا میں ان گیسوں کے جمع ہونے سے موسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سورج کی تپش سے فضا یا یہ گیسیں بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہیں جس سے مجموعی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق میتھین گیس کا ایک مالیکیول چالیس سال تک فضا میں موجود رہتا ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ اگر مغرب فضاؤں کو آلودہ کررہا ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستان جیسے ملکوں کی معاونت کو تیار بھی نہیں تو اس کا حل کیا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے تو پاکستان مغربی کمپنیوں سے سالانہ کم از کم فوری طور پر ایک ارب ڈالر کاربن کریڈٹس کی رضا کارانہ مارکیٹ میں فروخت سے کما سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ ڈالر مالیت کے کاربن کریڈٹس کے چھ منصوبے چل رہے ہیں۔ دنیا میں کاربن کریڈٹ مارکیٹ کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ مارکیٹ 950 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہ مارکیٹ مذید بڑھ سکتی ہے۔

    جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مغربی ملکوں کی صنعتیں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کر رہی ہیں۔ اب ان کمپنیوں کو حکومت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جتنی گیس وہ فضا میں چھوڑ رہی ہیں اس کے مساوی کاربن کریڈٹ کو خرید لیں اور اس کا جمع تفریق صفر ہو۔ یعنی کاربن کا اخراج اور کاربن کریڈٹس یعنی فضا سے کاربن کم کرنا ہے۔ کاربن کریڈٹ یا فضا سے کاربن اخراج کو صفر رکھنے کے لئے مختلف طریقہ کار استعمال ہوتے ہیں۔ جن میں ایمیشن ٹریڈنگ، کاربن کیپ ٹریڈنگ، کم کاربن کا اخراج کرنے والی ٹیکنالوجیز، متبادل توانائی میں سرمایہ کاری اور مستحکم ترقی جیسے منصوبے شامل ہیں۔

    اگر ایک درخت لگانے سے ایسے طریقوں سے کاشت کرنے جس سے زیادہ سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز فضا سے ختم ہوں۔ اور ان اقدامات کی وجہ سے اگر ایک ٹن کاربن ڈآئی آکسائیڈ گیس فضا سے ختم ہو تو اس کو ایک کاربن کریڈٹ کہتے ہیں۔ ہر ملک میں کاربن کریڈٹ کی قیمت مخلتف ہے۔ یورپی یونین کے کسی ملک میں اگر ایک کاربن کریڈٹ دستیاب ہو تو اس کی قیمت 30 سے 50 یورو کے درمیان ہو گی۔ جبکہ پاکستان میں ایک ٹن کاربن کے اخراج کو جذب کرنے پر 10 سے 15 ڈالر کا ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔

    کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ اگر آپ کے پاس ایک قطع زمین موجود ہے تو آپ کو کاربن کریڈٹ کی رپورٹ تیار کرنے والی کسی کنسلٹنٹ کمپنی سے رابطہ کرنا ہوگا جس کی شہرت کاربن کریڈٹ مارکیٹ میں اچھی ہو۔ یہ کنسلٹنٹ آپ کے لئے کاربن کریڈٹ رپورٹ تیار کرے گا۔ جس کے کئی مراحل ہیں جیسا کہ ڈیٹا جمع کرنا، تجزیہ کرنا، زمین کی ساخت، موسمی حالات کے حوالے سے موضوع درخت کی قسم، درختوں کی تعداد جیسی معلومات پر مبنی رپورٹ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایک تیسری پارٹی اس کا جائزہ لیتی ہے۔ اور سرٹیفکٹ جاری کرتی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں چند ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک اخراجات ہوسکتے ہیں۔ یہ اخراجات اس پر منحصر ہیں کہ رپورٹ کی پیچیدگی کتنی ہے۔ رپورٹ کاربن کریڈٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دس فیصد تک ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کی تیاری اور تصدیق کے بعد کریڈٹس کو فروخت کر لئے مارکیٹ میں بروکرز کمپنیاں موجود ہیں انہیں فروخت کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ جو کہ 10 سے 15 فیصد تک کمیشن لیتے ہیں۔ یعنی ایک کاربن کریڈٹ کے باغبانی اور زراعت کے منصوبے میں رپورٹ کی تیاری اور فروخت پر 25 فیصد تک اخراجات فیس کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔ یعنی اگر ایک کاربن کریڈٹ 10 ڈالر کا ہے تو اس میں سے 2.5 ڈالر رپورٹ کی تیاری اور فروخت کے کمیشن کی نذر ہوجائیں گے۔ اور آپ کو 7.5 ڈالر ملیں گے۔

    کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ میں فروخت کو پاکستان اپنے لئے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا موقع بنا سکتا ہے۔ پاکستان گرین انیشیٹو کے پاس 7 کروڑ 96 لاکھ ہیکٹر زمین زراعت کے لیے دستیاب ہے۔ جس میں سے 2 کروڑ 41 لاکھ ہیکٹر زیر کاشت ہے اور حکومت کے پاس 91 لاکھ ہیکٹر زمین بے آباد پڑی ہے۔ اور اسی بے آباد زمین میں سے 48 لاکھ ہیکٹر پاکستان گرین انیشیٹو کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ زمین پر کاربن کریڈٹس کے لئے درخت لگا کر مقامی ماحولیات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پھل دار درختوں کے ذریعے مقامی خوارک اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے جبکہ اسی کاربن کریڈٹس کو فروخت کر کے سالانہ کم از کم ایک ارب ڈالر بھی کمائے جاسکتے ہیں۔

  • ملک میں ”توانائی کی غربت“

    ملک میں ”توانائی کی غربت“

    پاکستان میں گزشتہ تین سال میں ایندھن کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے غربت بڑھ گئی ہے۔

    سننے میں آپ کو عجیب لگے گا، مگر ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں متوسط طبقہ بھی غربت کا شکار ہورہا ہے۔ بڑھتے ہوئے توانائی بلوں کی وجہ سے متوسط طبقے کے افراد کو اپنا طرزِ زندگی برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور بعض مواقع پر بچتوں کے ذریعے کو، یا اثاثے فروخت کر کے ایندھن کے اخراجات پورے کیے گئے ہیں۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات اور گھروں کے کرائے ادا کرنا اب ان کے لیے مشکل ہورہا ہے۔

    توانائی کی غربت کو بطور اصطلاح دیکھا جائے تو یہ مجھے اس وقت سنائی دی جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور برطانیہ میں بجلی کی قیمت تیزی سے بڑھی اور وہاں بھی بہت سے متوسط طبقے کے افراد کو مالی معاونت حاصل کرنا پڑی۔ یورپ میں توانائی کی غربت پر ایک ویب سائٹ کے لیے بلاگ بھی تحریر کیا تھا۔ اور آج اس بلاگ کے ذریعے آپ کو بتا رہے ہیں کہ کس طرح بجلی گیس اور پیٹرول مہنگا ہونے سے عوام میں غربت بڑھ رہی ہے۔

    ملک میں زیادہ تر ایندھن جیسا کہ فرنس آئل، پیٹرول، ڈیزل ایل پی جی اور آر ایل این جی سب کے سب درآمد کیے جاتے ہیں۔ ملکی سطح پر توانائی کا حصول بھی ہے مگر زیادہ انحصار درآمدات پر ہے۔ کسی بھی چیز کو بیرونِ ملک سے خریدنے کے لئے زرِ مبادلہ درکار ہوتا ہے۔ یعنی ڈالر، مگر پاکستان کے پاس ڈالرز کی قلّت تھی۔ جس کی وجہ سے حکومت نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی۔ اس کمی کی وجہ سے درآمدی ایندھن مہنگا ہوا اور عوام پر اضافی مالی بوجھ پڑ گیا۔

    ملک میں پیٹرول بھی تیزی سے مہنگا ہوا ہے۔ اپریل 2022ء میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 144 روپے 15 پیسے تھی جو ستمبر 2023ء میں 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ یعنی تقریبا ڈیڑھ سال میں پیٹرول کی قیمت 156 روپے سے زائد بڑھ گئی تھی۔ عالمی منڈی میں پیٹرول سستا ہونے کے بعد قیمت میں کمی ہوئی ہے۔ مگر اب بھی سال 2022ء کے مقابلے تقریبا دگنی ہے۔

    اسی طرح اگر آپ موٹر سائیکل پر یومیہ 2 لیٹر پیٹرول استعمال کرتے ہیں تو اپریل 2022ء میں آپ کا خرچہ 288 روپے تھا۔ ماہانہ خرچہ تقریباً 8 سے 9 ہزار روپے کچھ ہو رہا تھا۔ اب اتنا ہی پیٹرول موٹر سائیکل پھونک دے تو اس کا خرچہ ستمبر 2023 میں بڑھ کر 600 روپے اور ماہانہ خرچہ 18 سے 20 ہزار روپے ہوگیا ہے۔ اس طرح سفری اخراجات دگنے سے زائد ہوگئے ہیں۔

    ملک میں صرف پیٹرول مہنگا نہیں ہوا بلکہ مقامی سطح پر حاصل کی جانے والی قدرتی گیس بھی کئی گنا مہنگی کی گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی نادرن گیس کمپنی کے نقصانات کی وجہ سے گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ 3000 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، مگر حکومت نے گیس کی چوری روکنے کے بجائے گیس کی قیمت بڑھا دی ہے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر 2020ء تک ملک میں قدرتی گیس بہت سستی تھی۔ سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہ صارف جس کا گیس کا بل ستمبر 2020ء میں 121 روپے آتا تھا۔ مسلسل اضافے کے بعد 500 روپے سے زائد ہوگیا ہے۔ یعنی تقریباً 3 سال میں 379 روپے بل میں اضافہ ہوگیا۔ یعنی 4 گنا سے زائد بل بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح جو صارف 1500 روپے تک بل ادا کرتے تھے ان کا بل بڑھ کر 4200 سے 4500 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

    بجلی کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان توانائی کی غربت میں افریقی ملکوں کے باہر سب سے کم فی کس ایندھن استعمال کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان میں بجلی کی کھپت انگولا، کانگو، یمن، سوڈان وغیر کے مساوی ہے۔ پاکستان میں بجلی کی فی کس کھپت 20 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔

    اس کی بڑی وجہ ہے بجلی کا مہنگا ہونا۔ سال 2013ء تک ملک کو بجلی کی قلّت کا سامنا تھا۔ مگر اب بجلی کی کمی نہیں بلکہ اضافی بجلی ملک میں دستیاب ہے۔ 27 ہزار میگا واٹ کی انتہائی طلب کے مقابلے میں ملک میں بجلی کی انسٹالڈ گنجائش 40 ہزار میگا واٹ سے تجاوز کر چکی ہے۔ حکومت نے 2018ء میں معاشی ترقی کا اندازہ کرتے ہوئے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ مگر ملکی معاشی ترقی کے بجائے معشیت کرونا لاک ڈاؤن اور سی پیک کے منجمد ہونے کی وجہ سے تقریباً رک گئی ہے۔ اور بجلی کی کھپت میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔

    اس حوالے سے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ نے کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹ کو بریفنگ دی اور بتایا کہ کس طرح بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے بلوں میں سال 2021ء سے اب تک 155 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے یہ بتایا کہ سال 2019ء سے 2024ء کے دوران بجلی کی قیمت بڑھنے کی وجوہات میں امریکی سی پی آئی انفلیشن میں اضافہ بھی شامل ہے۔ ڈیٹا کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوران امریکی سی پی آئی انفلیشن منفی تھا جو کہ 2024ء میں بڑھ کر 4 فیصد ہوگیا۔ جس کی وجہ سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 235 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

    صرف امریکی افراطِ زر نہیں بلکہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کے اثرات بھی آئی پی پی کے ٹیرف پر پڑتے ہیں اور مقامی سطح پر مہنگائی بڑھنے سے بھی بجلی کے ٹیرف کی قیمت میں 98 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں اس دوران بنیادی شرحِ سود بلند ترین سطح پر رہی۔ مقامی اور درآمدی کوئلہ بھی مہنگا ہوا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے ٹیرف میں ورکنگ کیپٹل لاگت 716 فیصد بڑھ گئی۔ ریٹرن آن ایکویٹی میں 184 فیصد، قرض کی اصل رقم کی ادائیگی پر 169 فیصد اور ملکی غیر ملکی قرض پر سود میں 343 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    بجلی کے مہنگا ہونے میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمنپیوں کا کردار نہ ہونے کے باوجود عوامی غم و غصے کے علاوہ ان یوٹیلٹیز کو صارفین سے رقم کی وصولی میں کمی کے علاوہ بجلی چوری کے بڑھنے جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں سالانہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔

    ان تمام اعداد و شمار کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ تقریباً دو سال توانائی کا خرچہ 11 سے 13 ہزار روپے تھا۔ یہی خرچہ اس وقت 28 سے 30 ہزار روپے تک بڑھ گیا ہے۔ اس طرح تقریباً دو سال میں ایندھن پر مجموعی خرچہ 17 سے 20 ہزار روپے تک بڑھ گیا ہے۔ جب کہ اس دوران نجی شعبے میں معاشی صورتِ حال کی وجہ سے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان حالات میں عوام کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ توانائی کی غربت کو ختم کرنے اور عوام کو سہولت دینے کے لیے حکومت کوششیں تو کر رہی ہے مگر اس میں حکومت کس حد تک کام یاب ہوتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لگتا یہی ہے کہ عوام کو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اپنے دیگر اخراجات کو گھٹانا ہوگا اور اس سے ایندھن کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔