Tag: راج کپور

  • دلیپ کمار اور راج کپور کے تاریخی گھروں کی بحالی کیلیے فنڈز منظور

    دلیپ کمار اور راج کپور کے تاریخی گھروں کی بحالی کیلیے فنڈز منظور

    کے پی حکومت نے ثقافتی ورثے کے تحفظ تحت لیجنڈری بھارتی اداکاروں دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کی بحالی کیلیے فنڈز منظور کر لیے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق خیبر پختونخوا میں ثقافتی ورثے کے تحفظ اور ہیریٹیج ٹور ازم کے فروغ کے لیے اقدامات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ورلڈ بینک کائیٹ پراجیکٹ کے تحت کئی منصوبوں اور ان کے لیے فنڈز کی منظوری دے دی ہے۔

    بھارت کے معروف اداکار دلیپ کمار (یوسف خان مرحوم) اور راج کپور (آنجہانی) کے پشاور میں واقع تاریخی گھروں کی بحالی کے لیے بھی وزیراعلیٰ کے پی نے 33.8 ملین کی منظوری دے دی ہے۔

    اس کے علاوہ کے پی کے عجائب گھروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 295 ملین روپے، ضلع صوابی کے باہو ڈھیری منصوبے کے لیے 45 ملین اور تخت بھائی مردان کی آثار قدیمہ کی بحالی کے لیے 30 ملین روپے فنڈز کی منظوری دی گئی ہے۔

    خیبر پختونخوا کے تاریخی مقامات پر سیکیورٹی اپ گریڈیشن کے لیے 220.59 ملین روپے جب کہ بونیر کے رانی گٹ آثار قدیمہ پر 40 ملین خرچ کیے جائیں گے۔

    وزیراعلیٰ کے پی نے گلی باغ مانسہرہ، کوہ سلیمان ڈی آئی خان، شیخ بدین سائٹ ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے فنڈز بھی جاری کیے۔

    واضح رہے کہ دلیپ کمار (یوسف خان) ار راج کپور بھارتی فلم انڈسٹری کے دو بڑے نام ہیں، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کی پیدائش غیر منقسم ہندوستان میں پشاور کے مشہور علاقے قصہ خوانی بازار میں ہوئی تھی۔ دونوں نے اپنے بچپن کا کچھ عرصہ پشاور میں گزارا، تاہم قیام پاکستان سے قبل ہی ان کے والدین ممبئی ہجرت کر گئے تھے۔

    اس سے قبل کے پی حکومت 2020 میں دونوں لیجنڈری اداکاروں کے گھر خرید کر انہیں میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    تاریخی قصہ خوانی بازار اور دلگران میں واقع مکانات کو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے قومی ورثہ قرار دینے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے پی کی منظوری سے وزارت خزانہ نے لیجنڈری اداکاروں کے گھروں کو خریدنے کےلیے رقم جاری تھی اور 2021 میں دونوں عمارتوں کی ملکیت محکمہ آثار قدیمہ کے نام منتقل کر دی گئی تھی۔

    https://urdu.arynews.tv/ownership-of-the-houses-of-dilip-kumar-and-raj-kumar-transferred-to-the-archaeological-department/

  • لیلیٰ زبیری نے راج کپور کے ساتھ فلم کی آفر کیوں ٹھکرائی؟ وجہ سامنے آگئی

    لیلیٰ زبیری نے راج کپور کے ساتھ فلم کی آفر کیوں ٹھکرائی؟ وجہ سامنے آگئی

    پاکستان شوبز انڈسٹری کی سینیئر اداکارہ لیلیٰ زبیری نے انکشاف کیا ہے کہ ماضی میں انہیں بالی ووڈ کے مقبول اداکار راج کپور نے اپنے ساتھ فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

    حال ہی میں اداکارہ لیلیٰ زبیری نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کی جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔

    انہوں نے بتایا کہ ماضی میں انہوں نے مختلف ڈراموں میں کام کیا جس کا ایک دلچسپ واقعہ بتایا کہ ماضی میں، میں نے ایک ڈرامے میں بے بس بیوی کا کردار ادا کیا تھا، جس میں میرا شوہر مجھ پر بدترین تشدد کرتا تھا اور اس کردار کو کافی پذیرائی ملی۔

    انہوں نے کہا کہ اسی وقت کراچی میں ایک ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنے والی ایک خاتون آئیں اور انہوں نے مجھ سے بھیک مانگی لیکن جب فقیرنی کی نظر مجھ پر پڑی تو انہوں نے بھیک ہی نہیں مانگی۔

    اداکارہ نے بتایا کہ بھیک مانگنے والی خاتون نے مجھے دیکھ کر کہا کہ ارے یہ تو سارہ ہے، اسے کیا مانگنا، اس سے مانگنا نہیں بلکہ اسے دینا چاہیے۔

    شو کے دوران ایک سوال کے جواب میں اداکارہ نے انکشاف کیا کہ ماضی میں مجھے بالی ووڈ میں کام کرنے کی پیش کش ہوچکی ہے لیکن میں نے وہاں کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ماضی میں شارجہ میں کرکٹ کپ ہوا تو مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا، اسی ایونٹ میں راج کپور بھی آئے تھے، جہاں میری ان سے ملاقات ہوئی۔

    لیلیٰ زبیری نے بتایا کہ کرکٹ میچ کے دوران میری اور راج کپور کی ملاقات کی تصاویر کھینچی گئیں تو راج کپور نے ان تصاویر پر مجھے اپنے دستخط کرنے کا کہا اور وہ دستخط شدہ تصاویر اپنے ساتھ لے گئے۔

    اداکارہ نے کہا کہ گفتگو کے دروان راج کپور نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی اکیڈمی میں میرے ڈرامے دکھاتے ہیں اور شاگردوں کو میری اداکاری سے متعلق بتاتے اور پڑھاتے ہیں یہ سن کر مجھے بہت خوشی اور فخر محسوس ہوا۔

    لیلیٰ زبیری کے مطابق اسی دوران راج کپور نے مجھے اپنے ساتھ فلم میں کام کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ فلم میں کام کریں لیکن میں نے انکار کردیا۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ راج کپور کے ساتھ فلم میں کام کرنے سے انکار کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، بس میں نے ہمیشہ اپنے ملک میں ہی کام کرنے کو ترجیح دی۔

  • اداکار راج کپور کا بنگلہ 100 کروڑ روپے میں کس نے خریدا؟

    اداکار راج کپور کا بنگلہ 100 کروڑ روپے میں کس نے خریدا؟

    ممبئی: بالی ووڈ  کے مشہور کپور خاندان کے پہلے سُپر اسٹار راج کپور کا ایک ایکڑ پر محیط بنگلہ ان کے بیٹے نے فروخت کر دیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق اداکار راج کپور کے ممبئی میں واقع ایک ایکٹر پر محیط بنگلے کو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی گودریج پراپرٹیز نے 100 کروڑ بھارتی روپے میں خرید لیا ہے۔

    گودریج پراپرٹیز کا کہنا ہے کہ وہ اس بنگلے کو 500 کروڑ مالیت کے ہاؤسنگ پراجیکٹ میں تبدیل کریں گے۔

     گودریج پراپرٹیز کے ایگزیکیٹو چیئرمین پیروجشا گودریج کا کہنا ہے کہ ’اس پورے زمین کا سائز ایک ایکڑ ہے، ہم یہاں پر ایک مہنگا ہاؤسنگ پراجیکٹ بنائیں گے۔ اس پراجیکٹ کی مالیت 500 کروڑ تک ہوگی۔

    راج کپور کے بیٹے رندھیر کپور کہتے ہیں کہ ’چیمبور میں پراپرٹی کے لیے ہماری فیملی کے بہت جذبات ہیں اور اس کی تاریخی حیثیت ہے۔ ہم ایک مرتبہ پھر سے گودریج پراپرٹیز کے شکر گزار ہیں جو ہمارے اس تاریخی ورثے کو ترقی دے گا۔

    اس سے قبل 2019 میں گودریج پراپرٹیز نے کپور خاندان کا ’آر کے اسٹوڈیو‘ بھی خریدا تھا۔

    سنہ 1924 میں پاکستان کے شہر پشاور میں پیدا ہونے والے راج کپور کو ہندی فلم انڈسٹری کا عظیم فنکار مانا جاتا ہے۔

  • ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ راج کپور اور نرگس دت کی وہ فلم ہے جس نے بالی وڈ کی تاریخ میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ صرف 1954ء میں‌ اس فلم کے 6 کروڑ سے زائد ٹکٹ خریدے گئے تھے۔ آوارہ کا اسکرپٹ خواجہ احمد عباس نے لکھا تھا جو اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، فلمی ہدایت کار اور نام ور صحافی تھے۔

    اس فلم کا اپنی اوّلین نمائش کے بعد اس قدر شہرہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں بھی پردے پر سجائی گئی۔ اس کے گانے ہندوستان میں تو مقبول ہوئے ہی جب یہ فلم رومانیہ پہنچی تو وہاں بھی فلم بہت پسند کی گئی اور اس کے گانوں کی دھوم مچ گئی۔ اگرچہ فلم راج کپور کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم کا ستون نرگس کی اداکاری ہے۔

    1951ء اور دہائیوں تک اس فلم کے گانے نوجوانوں کی زبان پر تھے جب کہ رومانیہ میں اس فلم کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ تیس برس بعد بھی اس کا ایک گیت وہاں کی پاپ سِنگر نے نئے انداز سے گایا۔ اس نے اپنا نام بھی فلم کی اداکارہ نرگس دت سے متاثر ہوکر نرگیتا رکھا تھا۔ اس مغنیہ کو بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے مدعو کیا اور اس سے یہ گیت سنا۔ انھوں نے نرگیتا کو ایک ساڑھی بھی تحفے میں دی تھی۔ بعد میں 1981 میں اندرا گاندھی نے رومانیہ کا دورہ کیا تو وہاں نرگیتا نے وہی ساڑھی پہن کر حاضرین کے سامنے آوارہ کے گیت پیش کیے تھے۔

    فلم آوارہ کی کہانی میں ایک جج کا بیٹا دکھایا گیا ہے جو اپنی بیوی کو ایک بات پر گھر سے نکال دیتا ہے۔ وہ اس جج کے بیٹے کو لے کر کسی غریب لوگوں کی بستی میں قیام کرتی ہے، بچّہ وہاں بدمعاش قسم لوگوں اور غنڈوں کے درمیان بڑا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے جج کا بیٹا بھی آوارہ بن جاتا ہے اور ایک روز اپنے باپ کے سامنے آجاتا ہے۔

    یہ فلم پاکستان ہی نہیں ایشیا اور افریقی ممالک میں بھی دیکھی گئی۔ آوارہ کی کہانی نے سوویت یونین کے علاوہ عرب ممالک میں بھی ناظرین کو متاثر کیا۔

    اس فلم کے مقبول ترین گیت کے بول تھے؛

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    یا گردش میں ہوں
    آسمان کا تارہ ہوں

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    گھر بار نہیں سنسار نہیں

    مجھ سے کسی کو پیار نہیں…

  • ہم تمام لوگ جانتے تھے کہ مرض لاعلاج تھا!

    ہم تمام لوگ جانتے تھے کہ مرض لاعلاج تھا!

    ہم تمام لوگ یہ جانتے تھے کہ مرض لاعلاج تھا۔

    پھر جب میں نے یہ سنا کہ نرگس دت کو سلون کیٹیرنگ میموریل لے جایا جا رہا ہے (وہی اسپتال جہاں میں اپنے والد کو لے گیا تھا) تو مجھے ایک مخلص اور ضعیفُ العمر امریکی خاتون کی وہ بات یاد آ گئی جو اس نے مجھے اس وقت کہی تھی۔

    میں اسپتال کے ویٹنگ روم میں کھڑا تھا جب اس خاتون نے اپنی آنسو بھری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھا!

    "میرے بیٹے!! ایسا نہیں کہ کوئی اسپتال اچھی جگہ ہو، لیکن بالخصوص یہ اسپتال بہت منحوس جگہ ہے۔ اس لیے کہ اگر ایک بار تم یہاں آ گئے تو۔۔۔۔ ” اور پھر وہ ہچکیاں لینے لگی۔

    اور حقیقتاً یہ اسپتال بہت منحوس جگہ ثابت ہوئی جیسا کہ اس شریفُ النفس امریکی خاتون نے کہا تھا۔ اس موذی مرض کے بارے میں سبھی جانتے تھے جس سے مسز دَت نبرد آزما تھیں، پھر بھی ہم عیادت میں مصروف رہے، دعائیں کیں اور یہ امید باندھے رکھی کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔

    اس کے علاوہ مسٹر دَت نے اپنی بیوی کی تیمار داری جس عقیدت اور لگن سے کی اسے دیکھتے ہوئے ہماری یہ خواہش تھی کہ معجزہ اگر ساوتری اور سیتا دن کے ساتھ ہو سکتا ہے تو اس مرتبہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہماری آرزو تھی کہ وہ بدترین حالات سے کام یاب و کامران لوٹیں مگر یہ نہ ہو سکا۔

    یہ بات نہ ہو سکی اور یہ ہمارے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ صدمہ صرف ان کی موت کا نہیں کیونکہ انہیں کم از کم اذیتوں اور تکالیف سے نجات مل گئی لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہیں۔ اس سفید پوش خاتون نے اپنی زندگی میں بہت کام یابیاں حاصل کیں۔ اور صرف فلموں ہی میں نہیں، فلموں میں تو خیر وہ چند بہترین ہندوستانی اداکاراؤں میں سے ایک تھیں لیکن اس کے علاوہ وہ اپنی سرزمین کی بہترین ہندوستانی خاتون تھیں۔ انہوں نے جو بھی کام کیا خلوص، ہمدردی، محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا۔

    سلون کیٹیرنگ میموریل اسپتال کے ڈاکٹر میرے والد سے کہا کرتے تھے: "جناب، آپ کو کینسر ہے۔”

    اور میرے والد ہنس دیا کرتے تھے۔ امریکی ڈاکٹروں کو اس بات پر بھی تعجب تھا کہ ایک بیٹا جو خود کئی بچوں کا باپ ہے، اپنے والد کو اسپتال لے آیا اور اس کے ساتھ رہا۔ آج کی امریکی تہذیب کے لیے یہ ایک عجیب و غریب بات تھی۔ جہاں اگر ان کے والدین بیمار پڑتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ نیک خواہشات کا کارڈ بھجوا دیتے ہیں، یا پھر گلدستے روانہ کر دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت بھی ان کے جذبات وہی ہوں گے جب انہوں نے مسٹر دت اور ان کے بچوں کو مسز دت کی تیمارداری کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔

    1920ء میں جب پرتھوی راج نے فلمی دنیا سے اپنا رشتہ جوڑا تو وہ ایک پڑھے لکھے، مہذب اور اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے اور انہوں نے فلمی دنیا کے گھٹیا اور بد کردار امیج کو اونچا کرنے کی کوشش کی تھی۔ سنیل دت نے اپنے خاندان کے تعلق سے جس پُرخلوص عقیدت کا مظاہرہ کیا، اس سے انہوں نے اس امیج کو اور زیادہ باوقار اور بلند بنایا۔ مجھے ان پر فخر ہے۔

    یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنا تن من دھن سب نچھاور کر دیا۔ وہ نرگس دت کے برابر قوت اور بہادری کے ایک ستون کی طرح کھڑے رہے۔

    ہم میں سے وہ جو مسز دت کو جانتے تھے یا ان کی مصروفیات کو جانتے تھے۔ جیسے معذور بچوں کی فلاح و بہبود میں انہیں دل چسپی تھی، آج یہ عہد کریں اور مجھے امید ہے کہ وہ کریں گے کہ ان کو قائم رکھنے کے لیے ہم ان کے ادھورے خوابوں اور کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

    نرگس میں جو عورت موجود تھی وہ ایک بے مثال عورت تھی۔ وہ مسلمان اور ہندو والدین کی اولاد تھیں۔ ان کی پرورش موسیقی اور رقص کے ماحول میں ہوئی تھی۔ ان کی ذات میں تمام تہذیبوں کی عمدہ باتیں موجود تھیں۔

    پھر جب وہ جوان ہوئیں تو ایک مہذب، تعلیم یافتہ زندہ دل شخصیت کی طرح دنیا کے سامنے آئیں اور اپنے اطراف کے ماحول میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ اپنے اطراف کی ہر چیز سے وہ رابطہ قائم کرنا چاہتی تھیں، اپنے آپ میں اور اپنے اطراف کے ماحول میں مطابقت پیدا کرنا چاہتی تھیں، اسی لیے انہوں نے فلموں میں جو کردار ادا کیے ہیں وہ صرف فلمی کردار نہیں تھے بلکہ ایسے کردار تھے جو انہوں نے جیے تھے، اپنے پر بھگتے تھے۔

    معمولی معمولی باتیں بھی ان کے لیے بہت معنی رکھتی تھیں۔ تقریبات کے دوران یا عوامی جلسوں میں وہ دور سے تماشا نہیں دیکھا کرتی تھیں۔ چاہے امیر ہو یا غریب، اونچی ذات کا ہو یا نچلی ذات کا وہ سب کے ساتھ بیٹھتیں، کھانا کھاتیں، جونیئر اداکاراؤں کے بال سنوارنے لگ جاتیں یا ان کے لباس درست کرنا شروع کر دیتیں۔ انہیں اپنے سپر اسٹار ہونے کا گھمنڈ کبھی بھی نہیں رہا۔ یہ تمام حرکتیں وہ دکھاوے کے لیے نہیں کرتی تھیں کیونکہ اس زمانے میں ایسے صحافی نہیں ہوا کرتے تھے جو سیٹس پر آ کر تصویریں کھینچتے ہیں، ان کے برتاؤ میں سادگی تھی، ان کے سفید لباس میں سادگی تھی۔ ان میں بناوٹ ، دکھاوا یا نام نہاد اسٹار پن نہیں تھا وہ ایک انتہائی سادہ اور حقیقت پسند خاتون تھیں۔

    خلوص و محبت اور بے پناہ صلاحیتیں انہیں اپنے والدین کی طرف سے ملی تھیں۔ کئی لوگ انہیں جانتے تھے، میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک جنہیں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

    (نرگس کو میرا آخری سلام از راج کپور، رسالہ فن اور شخصیت (نرگس دَت نمبر) 1984ء)

  • کیدار شرما کا تذکرہ جن سے نام وَر فلمی ستاروں نے ‘بخشش’ وصول کی

    کیدار شرما کا تذکرہ جن سے نام وَر فلمی ستاروں نے ‘بخشش’ وصول کی

    کیدار شرما جن اداکاروں اور آرٹسٹوں کے کام سے خوش ہوتے، انھیں انعام میں‌ کچھ رقم ضرور دیتے تھے۔ بالی وڈ کے کئی ستاروں نے ان سے داد اور بخشش وصول کی تھی جن میں راج کپور، دلیپ کمار، گیتا بالی اور نرگس بھی شامل ہیں۔ بالی وڈ کے اس باکمال اور کام یاب فلم ساز نے آج ہی کے دن 1999ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔

    کیدار شرما نے کئی اداکاروں اور مختلف آرٹسٹوں کو فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا اور کام کرنے کا موقع دیا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ فلم سازی کے ساتھ فنونِ‌ لطیفہ کے مختلف شعبوں کا علم اور ان میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔

    12 اپریل 1910ء کو نارووال (پاکستان) میں پیدا ہونے والے کیدار شرما نے امرتسر میں تعلیم مکمل کی اور روزگار کی تلاش میں ممبئی چلے گئے۔ 1933ء میں کیدار کو دیوکی بوس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”پران بھگت” دیکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انھیں بہت متاثر کیا اور کیدار نے فلم نگری میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا، اس خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے کولکتہ کا رخ کیا جہاں کسی طرح دیوکی بوس سے ملاقات ہوگئی اور انہی کی سفارش پر نیو تھیٹر میں بطور سنیماٹو گرافر کام ملا۔

    سنیماٹو گرافر کی حیثیت سے کیدار کی پہلی فلم ‘سیتا’ تھی۔ اس کے بعد نیو تھیٹر کی فلم ‘انقلاب’ میں انھیں ایک چھوٹا سا کردار نبھانے کو ملا اور 1936ء میں فلم ”دیو داس” نے انھیں ایک باصلاحیت فن کار ثابت کرتے ہوئے فلمی کیریئر بنانے کا موقع فراہم کیا۔بعد میں‌ انھوں نے بطور ڈائریکٹر اپنی شناخت بنائی۔ "چتر لیکھا” وہ فلم تھی جس نے انھیں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام یاب کیا۔ انھوں نے راج کپور کو پہلی مرتبہ سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ 1950ء میں کیدار نے فلم ”باورے نین” بنائی اور گیتا بالی کو پہلی مرتبہ بطور اداکارہ کام کرنے کا موقع دیا۔ ان کی ایک فلم ”جوگن” سپر ہٹ ثابت ہوئی جس میں دلیپ کمار اور نرگس نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

    کیدار شرما نغمہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے متعدد فلموں کے لیے گیت تحریر کیے۔ ان کا فنی سفر تقریباً پانچ دہائیوں تک جاری رہا اور ان کا نام بڑے پردے کے ایک باکمال کی حیثیت سے امر ہوگیا۔

  • یومِ‌ وفات: راج کپور نے فلموں میں تفریح کے ساتھ سماج میں عدم مساوات اور ناانصافی کو بھی اجاگر کیا

    یومِ‌ وفات: راج کپور نے فلموں میں تفریح کے ساتھ سماج میں عدم مساوات اور ناانصافی کو بھی اجاگر کیا

    راج کپور 2 جون 1988ء کو انتقال کرگئے تھے۔ بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار نے بطور فلم ساز اور ہدایت کار بھی خود کو منوایا اور انڈسٹری میں نام و مقام بنانے کے ساتھ سنیما بینوں‌ کے دلوں‌ پر راج کیا۔

    راج کپور کا اصل نام رنبیر راج کپور تھا۔ وہ 14 دسمبر 1924ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بھی مشہور اداکار اور فلم ساز تھے جن کا نام پرتھوی راج کپور تھا۔

    1935ء میں بطور چائلڈ ایکٹر فلم نگری میں قدم رکھنے والے راج کپور خوب رُو اور خوش قامت تھے۔ ہیرو کے روپ میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ہدایت کار کی حیثیت سے سفر کا آغاز کیا تو تیسری فلم ’آوارہ‘ نے حقیقی معنوں میں انھیں شہرت دی۔ اس کے بعد برسات، چوری چوری اور جاگتے رہو جیسی کئی فلمیں‌ سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔

    لیجنڈری اداکار راج کپور نے دو نیشنل فلم ایوارڈ اور 9 فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے اور 1988ء میں انھیں‌ فلم سازی کے لیے بھارت کا اعلیٰ ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے دیا گیا۔

    راج کپور نے اپنی فلموں میں‌ شائقینِ سنیما کی تفریح کو ضرور مدّنظر رکھا، لیکن ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی سماجی مسئلے جیسے ناانصافی اور طبقاتی اونچ نیچ کی نشان دہی بھی کریں‌۔ اسی وجہ سے وہ مساوات کے پرچارک فلم ساز کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔

    بطور ہدایت کار ان کی آخری فلم ’’حنا‘‘ تھی جو ان کی وفات کے بعد ریلیز کی گئی اور یہ فلم بھی کام یاب رہی۔

    اس اداکار کی زندگی اور فنی سفر سے متعلق جاننے کے بعد یہ واقعہ بھی آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے نام ور اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار سیّد کمال بھارتی اداکار راج کپور سے گہری مشابہت رکھتے تھے۔ راج کپور سے ان کی دوستی بھی تھی۔

    بھارت میں‌ کسی فلم کی شوٹنگ کی غرض سے راج کپور ایک شہر کے مقامی ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، وہ ہندوستان بھر میں‌ ہیرو کے طور پر شہرت حاصل کرچکے تھے۔ ان کی ہوٹل میں‌ موجودگی کا علم مقامی لوگوں کو ہوا تو وہ ہوٹل کے باہر جمع ہوگئے۔ مداحوں کا اصرار تھا کہ راج کپور انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    اُس روز راج کپور کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ وہ بستر سے اٹھنے کو تیّار نہیں تھے۔ اتفاق سے سیّد کمال ان کے ساتھ تھے۔ نیچے ہجوم کا اصرار بڑھ رہا تھا۔ راج کپور نے کمال کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور ہاتھ ہلا کر لوگوں سے محبّت کا اظہار اور ان کا شکریہ ادا کریں۔ یوں اداکار کمال نے راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو خوش کیا اور کوئی نہیں‌ جان سکا کہ بالکونی میں راج کپور نہیں بلکہ پاکستانی اداکار کمال کھڑے ہیں۔ اسی دن اداکار کمال نے راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو آٹو گراف بھی دیا۔

  • راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو آٹو گراف دینے والا پاکستانی اداکار

    راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو آٹو گراف دینے والا پاکستانی اداکار

    ’’انسان اور گدھا‘‘ پاکستانی فلمی صنعت کے نام وَر اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار سیّد کمال کی وہ فلم تھی جسے شائقین نے‌ پذیرائی دی اور بہت پسند کیا، لیکن یہ فلم اس وقت حکومتی پابندی کی زد میں آئی جب بڑے پردے پر اس کی نمائش جاری تھی۔ اسے سنیما ہالوں سے ہٹا دیا گیا جس کا سیّد کمال کو بہت دکھ ہوا، لیکن فلمی سفر تو جاری رکھنا تھا۔ وہ آگے بڑھ گئے اور آنے والے دنوں میں‌ ان کی متعدد فلمیں کام یاب ہوئیں‌ اور ان کے دل سے مذکورہ فلم کا قلق جاتا رہا۔

    سیّد کمال کو پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا تھا، کیوں کہ وہ مشہور بھارتی اداکار راج کپور سے گہری مشابہت رکھتے تھے۔ راج کپور سے ان کی بے تکلفی بھی تھی اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔

    مشہور ہے کہ ایک مرتبہ کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے راج کپور بھارت کے کسی شہر کے ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، بھارت میں ان کے مداحوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی اور وہ اپنے وقت کے مقبول ہیرو تھے۔ مقامی لوگوں اور راج کپور کے مداحوں کو ہوٹل میں‌ ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہاں‌ ایک جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا۔ ان کا اصرار تھا کہ راج کپور ہوٹل کی بالکونی میں آکر انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    شہرت اور مقبولیت بھی عجیب شے ہے۔ فلم اسٹارز کو اپنے مداحوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ راج کپور کی طبیعت اس وقت کچھ ناساز تھی۔ سیّد کمال ان کے ساتھ تھے، راج کپور نے انھیں کہاکہ وہ بالکونی میں جائیں اور لوگوں کو اپنا دیدار کرائیں۔ سیّد کمال ہوٹل کی بالکونی میں پہنچے اور لوگوں کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلایا۔ لوگوں نے ان سے محبّت جتائی، نیک تمنّاؤں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ انھیں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہ ہوا کہ یہ راج کپور نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

    اس مجمع میں سے کچھ لوگوں نے راج کپور سے آٹو گراف لینا چاہا تو ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ استقبالیہ پر رش بڑھنے لگا۔ انتظامیہ کی مشکل کو دیکھتے ہوئے راج کپور نے کمال سے پھر درخواست کی کہ وہ ان کی طرف سے آٹو گراف دے دیں۔ کمال کو یہ بھی کرنا پڑا۔ انھوں نے آٹو گراف بکس لیں اور انھیں‌ بھرتے چلے گئے۔ یہاں‌ بھی کسی کو شک نہ ہوسکا۔

    مشہور ہے کہ سیّد کمال نے راج کپور سے کہا تھا کہ ’’آپ کی وجہ سے مجھے آج مداحوں کو آٹو گراف دینے اور کی محبت سمیٹنے کا ایسا خوب صورت تجربہ ہوا ہے، جب کہ ابھی میں کچھ نہیں ہوں۔ اس پر راج کپور نے کہا وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ سیّد کمال سے آٹو گراف لینے آئیں گے۔ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور سیّد کمال نے پاکستان میں مقبولیت اور نام و مقام حاصل کیا۔

    کمال نے فلموں میں رومانوی، المیہ اور مزاحیہ کردار ادا کیے اور خوب شہرت حاصل کی۔ انھوں نے اپنے دور کی مشہور اداکاراؤں زیبا، دیبا، نیلو، شبنم، نشو اور رانی کے ساتھ کام کیا۔ کمال نے متعدد فلمیں بھی بنائیں۔ ان میں‌ اردو اور چند پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں جو سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ وہ فلم کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئے اور ایک شو کی میزبانی بھی کی جو بہت مقبول ہوا۔

  • فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    ’بامبے ٹاکیز‘ نے بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں ہندوستان کے فلم سازوں اور شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بینر تلے بننے والی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی فلم اسٹوڈیو سے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، دیوآنند جیسے فن کاروں کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔

    ہندوستانی سنیما کے مشہور اداکار راج کپور نے اسی اسٹوڈیو میں ڈانٹ سنی اور انھیں ایک روز تھپڑ بھی پڑا۔

    فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ کی جارہی تھی جس میں راج کپور کا بھی ایک کردار تھا۔ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیدار شرما تھے۔

    ایک سین کی عکس بندی کے لیے جب وہ شوٹنگ شروع کرنے کو کہتے تو راج کپور کیمرے کے سامنے آتے اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگتے۔ ایسا دو تین بار ہوا اور جب بار بار راج کپور نے یہی حرکت کی تو کیدار شرما برداشت نہ کرسکے اور آگے بڑھ کر انھیں ایک تھپڑ لگا دیا۔

    ڈائریکٹر کی جھڑکیاں اور وہ تھپڑ راج کپور کے کام آیا اور ہندی سنیما کے شائقین نے انھیں بے حد سراہا اور ان کے کام کو پسند کیا، بعد کے برسوں میں راج کپور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے باکمال فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے ہوئے اور ان کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    (ہندوستانی سنیما سے متعلق راج نارائن کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • راج کپور کا 94واں یومِ پیدائش

    راج کپور کا 94واں یومِ پیدائش

    ممبئی: پاکستان کے علاقے پشاور میں پیدا ہونے والے راج کپور کے مداح آج اُن کی 94ویں سالگرہ منارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 1935 میں بطور چائلڈ ایکٹر فلم نگری میں قدم رکھنے والے راج کپور کا اصل نام رنبیر راج تھا، آپ 14 دسمبر 1924 کو پرتھوی راج کپور کے گھر پیدا ہوئے۔

    آپ کی پیدائش خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں ہوئی، تقسیم برصغیر کے بعد آپ کے والد ممبئی تشریف لے گئے اور بقیہ زندگی پھر وہیں بسر کی۔

    راج کپور نے صرف اداکاری ہی نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا بطور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی منوایا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ کے والد پرتھوی راج چونکہ خود بھی فلم ساز تھے تو آپ کے اندر بھی اداکاری کی صلاحیتیں بچن سے ہی موجود تھیں، صرف 6 سال کی عمر میں آپ نے اسٹیج پر پرفارم بھی کیا۔

    مزید پڑھیں: معروف بھارتی اداکار راج کپورکی اہلیہ کرشنا راج کپور انتقال کرگئیں

    ہندوستان منتقلی کے ایک سال بعد سن 1948 میں بطور ہدایت کار راج کپور نے فلم ’آگ‘ بنائی جس میں خود ہی ہیرو کا کردار ادا کیا، بعد ازاں آپ کی تیسری فلم ’آوارہ‘ کے نام سے ریلیز ہوئی جس کے بعد آپ نے شہریت کی بلندیوں کو چھوا۔

    راج کپور نے بھارتی فلم انڈسٹری کو متعدد سپرہٹ فلمیں دیں جن میں ’آوارہ، برسات، شری 420، چوری چوری، جاگتے رہو‘ قابل ذکر ہیں۔ آپ کی دو فلمیں ’آوارہ‘ اور ’بوٹ پالش’ کو کنیز فلم فیسٹیول ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔

    فلمی صنعت میں خدمات انجام دینے پر راج کپور کو 2 نیشنل فلم ایوارڈز، 9 فلم فیئر ایوارڈ دیے گئے، علاوہ ازیں آپ کو 1988 میں بھارت کا اعلیٰ ترین اعزاز ’دادا صاحب پھالکے‘ بھی دیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: دادی کی آخری رسومات میں مسکراہٹ، کرینہ کپور کے خلاف نیا محاز کھل گیا

    سماجی ناانصافی پر تنقیدی نقطہ نظر سے روشنی ڈالنے والے اداکار و ہدایت کار 2 جون 1988 کو بھارت کے دارالحکومت میں طویل علالت کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    راج کپور کی آخری فلم ’حنا‘ تھی جو اُن کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی اس فلم کو بھی بہت پذیرائی ملی تھی۔