Tag: رام لعل

  • زمانۂ اسیری میں‌ جب فیض کو تانگے میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا

    زمانۂ اسیری میں‌ جب فیض کو تانگے میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا

    1951ء میں راول پنڈی سازش کیس میں جب فیض جیل میں ڈال دیے گئے، تو ان کے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کے علاوہ سجاد ظہیر بھی تھے۔ ان دونوں کا ساتھ 1955ء تک رہا۔ یہیں سے فیض کی حقیقی مقبولیت کا آغاز ہوتا ہے، جو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر تھی۔

    سجاد ظہیر نے جیل سے جو بے شمار خط اپنی بیوی رضیہ سجاد ظہیر کو لکھے ہیں ان میں فیض کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔ ان خطوں سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ فیض جب بھی کوئی نئی نظم لکھتے تھے تو جیل کے اندر اس خوشی میں ایک جشن منایا جاتا تھا۔ اس سے متعلق خبروں کے علاوہ ان کے نظمیں جیل سے باہر بھی کسی نہ کسی ذریعے سے یقیناً پہنچ جاتی تھیں، جنہیں پاکستان و بھارت کے ترقی پسند رسالے ایک تحفے کے طور پر چھاپ لیتے تھے۔

    جیل کے باہر ان کی شہرت دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ان کے اوّلین مجموعۂ کلام ’نقشِ فریادی‘ کے پانچ ایڈیشن چھپ کر ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے۔

    لاہور جیل میں قید کے دوران فیض کے ایک دانت میں شدید درد رہنے لگا تھا جس کے علاج کے لیے انہیں کڑے پہرے میں جیل کے باہر ایک ڈاکٹر کے کلینک لے جایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ وہاں لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست نہ کیا جا سکا، تو انہیں تانگے میں سوار کرا کے لے جایا گیا۔ ان کے دونوں طرف اور آگے بھی بندوق بردار سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔

    اس روز کا قصہ خود فیض کی زبانی سنیے:
    ”ہم لاہور کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ لاہور ہمارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ پھر لوگوں نے ہمیں پہچان لیا۔ بازار میں ہمارا تانگہ کھڑا تھا اور اس کے اردگرد یارانِ وفا کا ہجوم۔ ان میں نان بائیوں سے لے کر معروف صحافیوں تک سبھی شامل تھے۔ بالکل جلوس کی شکل بن گئی۔

    میں نے زندگی میں ایسا دل کش جلوس نہیں دیکھا۔ اسی سے متاثر ہوکر یہ نظم لکھی؎

    آج بازار میں پا بہ جولاں چلو، دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
    خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو، راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

    (رام لعل کی تصنیف ”دریچوں میں رکھے چراغ“ سے‌ انتخاب)