Tag: رام موہن رائے

  • رام موہن رائے: ایک روشن خیال شخصیت اور مصلحِ قوم

    رام موہن رائے: ایک روشن خیال شخصیت اور مصلحِ قوم

    رام موہن رائے ہندوستانی سماج کی ایک روشن خیال شخصیت تھے جنھوں نے ہندو دھرم اور معاشرے کے رسم و رواج میں اصلاح کی غرض سے برہمو سماج نامی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ موہن رام رائے نے ہندو شخصیات ہی نہیں مسلمان اکابرین کو بھی اپنے خیالات سے متأثر کیا جن میں سرسیّد بھی شامل ہیں۔

    موہن رام رائے ایسے دور اندیش انسان تھے جس نے بالخصوص ہندوؤں کو توہّم پرستی اور تعصّبات سے نکالنے کی عملی کوششوں‌ کے علاوہ ان میں رائج غلط رسم و رواج کی نشان دہی کی اور اس کے لیے قلم کا سہارا بھی لیا۔

    ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے بڑوں‌ نے اس بات پر غور کیا کہ وہ کون سی کمزوریاں ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر غیر ملکی انھیں زیر کرنے میں‌ کام یاب ہوئے۔ ہندوستانی سماج میں اکثریت قدامت پرستی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی روایات اور رسم و رواج مقدس ہیں اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی ان کے وجود کو گویا مٹا دے گی۔ ان کے برعکس اس معاشرے کے روشن خیال لوگ اپنی کمزوریوں کو سمجھنا چاہتے تھے اور ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے جن سے ان کی ترقی اور اجتماعی مفاد کا راستہ مسدود ہو رہا تھا۔ یہ لوگ راجہ رام موہن کی فکر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں‌ رہ سکے اور ان کا ساتھ دیا۔

    1833ء میں‌ آج ہی کے دن رام موہن رائے انتقال کرگئے تھے۔ چند سال قبل ایک موقع پر راجہ صاحب نے اپنا وحدانی نظریہ اس طرح قلم بند کیا تھا، ”پرستش اسی ذات کی ہونی چاہیے جو غیر فانی ہے، جس کا پتا تلاش سے نہیں ملتا، جو تغیر سے محفوظ ہے اور جو تمام کائنات کو پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے۔“ ان کا توحید پر مبنی یہ فلسفہ ہندو سماج اور خود رام موہن رائے کے خاندان والوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا اور انھیں اپنا گھر چھوڑنا پڑگیا۔

    برہمن خاندان میں 1774ء میں آنکھ کھولنے والے رام موہن رائے نے گاؤں‌ کے ایک مکتب میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور اسی دوران فارسی کے ساتھ عربی بھی سیکھی۔ پٹنہ اس زمانے میں اسلامی فنون و تعلیمات کا بڑا مرکز تھا۔ رام موہن رائے کو ان کے والد نے تحصیلِ علم کی غرض سے وہاں بھیج دیا۔ پٹنہ میں‌ رام موہن رائے نے اسلامی تعلیمات، قرآن اور دیگر مذہبی کتب کا مطالعہ بھی کیا اور انھیں علومِ شرقیہ سیکھنے کا موقع ملا۔ غالباً اسی کے زیرِ اثر وہ بُت پرستی اور بعض عقائد کے سخت نکتہ چیں بن گئے اور یہی وجہ تھی کہ انھیں والد نے قبول نہ کیا۔

    راجہ صاحب کا تعلق بنگال کے گاؤں رائے رادھا نگر سے تھا جہاں ان کا خاندان کئی پشتوں سے صوبے کے مغلیہ دور کے امرا سے وابستہ رہا تھا۔ ان کے والد کٹّر مذہبی شخص تھے اور والدہ بھی اپنے مذہب پر کاربند ایک نیک سیرت عورت مشہور تھیں۔ پٹنہ سے لوٹنے کے بعد جب ان کے والد کو معلوم ہوا کہ رام موہن رائے بُت پرستی کے مخالف ہوگئے ہیں تو انھیں گھر چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ وہ شہروں شہروں‌ پھرے اور اسی زمانے میں‌ انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں۔ انھوں نے آزادی سے ہندو مت، عیسائیت اور بدھ مت کی مقدس کتب کا مطالعہ کیا اور غور و فکر کرتے رہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے، لیکن 39 سال کی عمر میں اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اس عرصے میں رام موہن نے تقابلِ ادیان کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب وہ عربی، فارسی کے عالم بھی مشہور ہوگئے تھے اور مذہب سے متعلق اپنی فکر کا پرچار بھی شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنی فکر اور خیالات کو رقم کرنے کے ساتھ متعدد مذہبی کتب کا سنسکرت، انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ بھی کیا۔

    رفتہ رفتہ موہن رائے ہندوؤں میں مذہب بیزار مشہور ہوگئے۔ اور ان کے خلاف باتیں کی جانے لگیں، لیکن انھیں کسی کی پروا نہ تھی۔ وہ مختلف شخصیات اور عام لوگوں سے ملتے اور اپنی فکر کا اظہار کرتے رہے۔ انھوں نے انگریز حکومت سے ہندوستان میں سائنسی علوم کی ترویج اور اداروں‌ کے قیام کا پُرزور مطالبہ کیا۔ انگریزوں میں‌ بھی وہ ایک مصلح اور علم دوست انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور ان کی بہت عزّت تھی۔ مشہور ہے کہ جب انگریزوں نے سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو رام موہن رائے نے گورنر جنرل کو لکھا کہ ہندوستان میں سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ سائنسی علوم کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسرے جدید علوم کے لیے انتظامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن جس طرح سرسّید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول کے لیے متوجہ کیا تھا، اسی طرح راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کرنے کے لیے کوششیں‌ کیں کہ وہ جدید علوم اور سائنس کو اہمیت دیں جس نے انھیں قدامت پسندوں‌ میں‌ متنازع بنا دیا تھا۔

    رام موہن رائے نے کلکتہ میں قیام کے دوران یہ سمجھ لیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر نہیں‌ اتارا جاسکتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہندوؤں کو انگریزی زبان سیکھنے پر زور دیتے رہے۔ انھوں نے ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی جس کے ذریعے ہندوؤں کو فضول رسموں اور توہم پرستی سے دور کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہندو بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کا حق دینے کی حمایت میں بھی تحریک چلائی۔ ان باتوں‌ نے قدامت پرست معاشرے میں ہندوؤں کو ان کے خون کا پیاسا بنا دیا، لیکن راجہ صاحب کہتے تھے کہ میں نے کبھی ہندو مذہب پر حملہ نہیں کیا، صرف توہّم پرستی اور تعصّب کی نشان دہی کی ہے۔ راجہ صاحب کا ایک وصف دیانت داری، ان کا انکسار بھی تھا جس نے انھیں مباحث کے دوران ہمیشہ عالمانہ وقار پر قائم رکھا اور وہ اپنے مخالفین کا بھی احترام کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ تحمل سے اپنے مخالف کی بات سنتے اور دلیل اور منطق سے قائل کرنے کی کوشش کرتے۔تاہم ہندوؤں کے ساتھ عیسائی مذہب پر سوالات اٹھانے کے بعد انھیں زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ہندوستانی قوم کے دشمن مشہور ہوگئے۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہُ المؤحدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ انھوں نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے کوششوں کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں سے ایک فارسی زبان کا 1822ء کا مراۃ الاخبار ہے جس کے مالک اور مدیر رام موہن رائے تھے۔

    سر سّید احمد خان نے بھی راجہ صاحب کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و بااخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سر سیّد احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے رفاہِ عامّہ کے کاموں‌ کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے شہروں میں متعدد یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے بھی تعمیر کرائے اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیے تھے۔

    رام موہن رائے مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن میں تھے جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔

  • رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    راجہ رام موہن رائے 1833ء میں‌ آج کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے لیکن ہندوستان میں انھوں نے اپنی فہم و فراست، دور اندیشی اور جس علم دوستی کا ثبوت دیا، اس نے نہ صرف ہندوؤں بلکہ سرسیّد جیسے تمام مسلم اکابرین اور قابلِ ذکر شخصیات کو بھی بے حد متاثر کیا۔

    آئیے ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ مشہور ہندو مصلح اور ایسے علم دوست انسان تھے جنھوں نے انگریز راج کے زمانے میں سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہمیں سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسری جدید سائنسی تعلیم کا انتظام ہو۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کیا کہ وہ جدید تعلیم اور سائنس کی طرف متوجہ ہوکر ہی اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ قدامت پسند اور سخت گیر ہندوؤں میں مخالفت کے باوجود انھوں نے اپنے خیالات اور فکر کا پرچار جاری رکھا۔

    رام موہن رائے اس دور میں مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن گئے تھے جہاں انھوں نے اپنی آنکھوں سے ، نئی تہذیب، نئے خیالات اور نئے فکری انقلاب کے اثرات برطانیہ پر دیکھے تھے۔ اس کا ان پر گہرا اثر ہوا تھا۔

    راجہ رام موہن رائے 1774ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برصغیر کے ایک مصلحِ قوم، عربی و فارسی کے عالم اور مغربی نظریات و افکار سے متاثر شخصیت کے طور پر ابھرے۔ ان کا تعلق رادھا نگر، بنگال سے تھا اور ان کا خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل دربار سے وابستہ تھا۔

    اس دور کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم کے دوران عربی فارسی سیکھی اور بعد میں مزید تعلیم کے لیے پٹنہ چلے گئے جو اس وقت اسلامی تعلیمات کا بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ وہاں رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات اور دین کا مطالعہ اور اسے سمجھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عربی اور مختلف مصنّفین کی تصانیف کا مطالعہ کیا جس سے اتنا متاثر ہوئے کہ بُت پرستی کی مخالفت کو اپنا مشن بنا لیا۔

    رام موہن رائے کو برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران اس بات کا ادراک ہوا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر گلے سے نہیں اتارا جاسکتا اور انھوں نے نہ صرف خود انگریزی زبان سیکھی بلکہ دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرتے رہے۔ ان کی زندگی اصلاحی و سماجی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے بسر ہوئی۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم کے سخت مخالف رہے اور اس حوالے سے ہر قسم کے فضول رسم و رواج ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی۔ اس کے ذریعے انھوں نے ہندو معاشرے میں جو برائیاں پیدا ہوگئی تھیں، ان کے خلاف مہم شروع کی۔

    ان کا ایک مقصد ہندو مت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ انھوں نے ہندو سماج میں بیواؤں کے دوبارہ شادی کرنے کے حق میں تحریک چلائی۔

    راجہ رام موہن رائے نے یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے تعمیر کرائے اور لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اسکول قائم کیے۔ انھوں نے ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    آپ ہندوستانیوں کی ترقی کے لیے جدید، روشن خیال اور آزاد نظامِ تعلیم کے حامی تھے۔

    ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم مصلح اور راہ نما سر سّید احمد خان نے بھی ان کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے لندن میں اکبر شاہ ثانی کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے بعد واپسی سے پہلے برسٹل میں بیمار پڑ گئے اور وہیں وفات پائی۔