Tag: رانا شمیم

  • سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم چیلنج کر دی

    سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم چیلنج کر دی

    اسلام آباد : سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم چیلنج کر دی ، اپیل میں کہا کہ جنہوں نے بیان حلفی چھاپا انہیں چھوڑ کرصرف مجھ پرفرد جرم غیرقانونی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کردی۔

    اپیل یں کہا گیا کہ جنہوں نے بیان حلفی چھاپا انہیں چھوڑ کرصرف مجھ پرفرد جرم غیرقانونی ہے، فرد جرم عائد کرنے کا حکمنامہ کالعدم قرار دیکر کیس ختم کیا جائے۔

    رانا شمیم کا کہنا تھا کہ کچھ ریکارڈ پر نہیں کہ میں نے کسی کو بیان حلفی چھاپنے کو دیا۔

    اپیل میں رانا شمیم نے انصار عباسی ، میر شکیل الرحمان اور عامر غوری کو بھی فریق بنایا گیا اور کہا انصار عباسی کو ٹرائل سے نکال کر کیسے پتہ چلے گا انھیں بیان حلفی کیسے ملا۔

    دائر اپیل میں کہا گیا کہ کیس کے مرکزی ملزم کو پرائیوٹ افراد کی یقین دہانی پر ڈسچارج کردیا گیا ، قانون میں پرائیوٹ افراد کی یقین دہانی پر ایسا کرنے کا تصور موجود نہیں۔

    جنہوں نے تسلیم کیا انھوں نے اشاعت کی ، ان پر کیس ختم کردیا گیا ، میں برملا کہہ رہا ہوں کسی کو بیان حلفی چھپانے کو نہیں دیا، میری واضح تردید کے باوجود فرد جرم عائد کردی گئی۔

    رانا شمیم کی جانب سےفرد جرم کےخلاف انٹراکورٹ اپیل پرسماعت آج ہو گی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود اور جسٹس بابرستار سماعت کریں گے۔

  • رانا شمیم  نے ایک اور بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع  کرادیا

    رانا شمیم نے ایک اور بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جج جی بی رانا شمیم نے ایک اوربیان حلفی جمع کرادیا ، جس میں کہا ہے کہ انکوائری سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ دیگر انصار عباسی کے پاس حلف نامہ کیسے آیا؟

    تفصیلات کے مطابق سابق چیف جج جی بی رانا شمیم نے ایک اوربیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرادیا ، جس میں کہا ہے کہ10 نومبر 2021 کو کسی کو بتائے بغیر بیان حلفی لکھا، مرحوم اہلیہ سے وعدے کی وجہ سے حلف نامہ ریکارڈ کرنے پرمجبور ہوا۔

    بیان حلفی میں کہا گیا کہ بیان حلفی انگلینڈمیں زیرتعلیم پوتےکےپاس سیل لفافے میں رکھاگیا ،مدعی ایک سمپوزیم میں شرکت کے لیے امریکا گیا ، مدعی کو تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا، مدعی نے 17 نومبر 2021 کو واپس آنا تھا۔

    رانا شمیم کا کہنا تھا کہ 6نومبر 2021 کو سب سے چھوٹے بھائی کی موت کی خبر ملی اور 7 نومبر 2021 کو امریکا سے پاکستان روانہ ہو گیا، کسی مقدمے یاکسی جج کے حلف نامے اور نہ کسی کارروائی کے زیر التوا ہونے کاعلم تھا اور نہ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے اس معاملے کا علم تھا۔

    بیان حلفی میں کہا کہ انصارعباسی نےحلف نامہ حاصل اورمندرجات کو شائع کیا ، علم نہیں انصار عباسی کےپاس بیان حلفی کےمندرجات کیسے آئے۔

    بیان حلفی میں بتایا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت پرمذکورہ حلف نامہ سربمہر لفافے میں رجسٹرار کو بھیج دیا گیا، مدعی نے انصار عباسی کو حلف نامہ یا مندرجات شائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔

    رانا شمیم کا کہنا تھا کہ انصار عباسی کا فون آیا، تاہم کمزور نیٹ ورک کےباعث بات نہ ہوسکی، حلف نامے کے مندرجات پرکسی سے مشاورت نہیں کی گئی، میرے خلاف منفی کارروائی کرنا سراسر ناانصافی ہو گی۔

    بیان حلفی میں کہا گیا کہ انکوائری سےہی معلوم ہوسکتاہےکہ دیگر انصار عباسی کےپاس حلف نامہ کیسے آیا، بغیر کسی کارروائی کے رانا شمیم کو سزا دینا غیر منصفانہ ہو گا۔

    عدالت میں جمع شدہ بیان حلفی میں رانا شمیم نے کہا کہ لندن میں اپنے ٹرانزٹ قیام کے دوران بیان حلفی نوٹ کرایا، حلف نامے میں صرف اس کاذکر کیا گیا ہے جو سنا اور دیکھا لیکن حلف نامے کامواد حاصل اور شائع کرنےوالوں کےخلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

  • سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فردِ جرم چیلنج کر دی

    سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فردِ جرم چیلنج کر دی

    اسلام آباد : سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم چیلنج کر دی، جس میں کہا کہ جنہوں نے بیان حلفی چھپایا انہیں چھوڑ کر صرف مجھ پر فردجرم غیر قانونی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم کے خلاف اسلام آبادہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کردی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جنہوں نے بیان حلفی چھپایا انہیں چھوڑ کرصرف مجھ پر فردجرم غیر قانونی ہے، فرد جرم عائد کرنے کا حکمنامہ کالعدم قرار دیکر کیس ختم کیا جائے۔

    سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے کہا کچھ ریکارڈ پر نہیں کہ میں نے کسی کو بیان حلفی چھاپنے کو دیا۔

    درخواست میں رانا شمیم نے انصار عباسی، میر شکیل الرحمان ، عامر غوری کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

    یاد رہے 20 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کی تھی جبکہ میرشکیل،انصارعباسی اور عامرغوری پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ موخر کردیا تھا۔

    بعد ازاں توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم کو سات مارچ تک بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے بیان حلفی کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    خیال رہے سابق چیف جج رانا شمیم نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اوران کی بیٹی کو سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججزپر دباؤ ڈالا تھا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم کو سات مارچ تک بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے بیان حلفی کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم ،میرشکیل ، انصار عباسی ،عامر غوری کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ ، انصار عباسی اور عامر غوری ، میر شکیل الرحمان اور انصار عباسی کی جانب سے حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔

    سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم بھی عدالت میں پیش ہوئے ، رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کی آج سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

    چیف جسٹس اطہر نے کہا کہ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے بیماری پر التوا مانگا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ بیمار ہیں ،اللہ انہیں صحت دے۔

    اٹارنی جنرل نے استدعا کی رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کے ہدایت کی جائے، رانا شمیم سے اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست بھی لی جائے، بیان حلفی اور گواہان کی فہرست مل جائے تو آئندہ سماعت پر کارروئی آگے بڑھے گی۔

    ہائی کورٹ نے رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے اور آئندہ سماعت سے پہلے اٹارنی جنرل کو کاپی فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے رانا شمیم کے وکیل کی آج التوا کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت سات مارچ تک ملتوی کر دی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کر دی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کر دی

    اسلام آباد :  اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کردی جبکہ میرشکیل،انصارعباسی اور عامرغوری پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ موخر کردیا ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم، صحافی انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی ، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان ،انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے کہا رانا شمیم روسٹرم پر آجائیں ان پر فرد جرم عائد کرتے ہیں، عدالت ایک حکم جاری کرچکی ہے، جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے میرے وکیل کو پہنچنے دیں۔

    جس کے بعد عدالت نے رانا شمیم کے وکیل کی عدم موجودگی پر سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے کہا رانا شمیم، میر شکیل ، عامر غوری اور انصار عباسی پر 11 بجے فرد جرم عائد کیا جائے گی۔

    وقفے کے بعد رانا شمیم، انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی تو رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کے معاون وکیل نےمزید وقت مانگ لیا، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کا احترام کیا جائے۔

    صحافی افضل بٹ نے کہا عدالت موقع دےمعلوم نہیں تھا زیرالتواکیسز کیسے رپورٹ کریں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اخبار ،ایک آرٹیکل سے عدالت کو بدنام کیا گیا۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ اس عدالت کے ساتھ کسی کوکوئی مسئلہ ہے؟ اس عدالت کوہی دیکھ کر نریٹوبنایاگیاہے، آئینی عدالت کیساتھ بہت مذاق ہوگیا۔

    صدرہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے صحافیوں کی حد تک تحمل کی استدعا کرتے ہوئے کہا جس پوائنٹ پرہمارافوکس ہونا چاہیے بدقسمتی سے نہیں کر سکے ، ہماری میٹنگز جاری ہیں،موقع دیں ہم معاملے پراحتیاط کریں گے ، ہم نے کئی بار سمجھایا مگر ان کو لگا کہ انہوں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کا اعتماد بھی بحال کرنا ہے، زیر التوا کیسز کو کیسے میڈیا میں چلایا گیا، کسی کولائسنس نہیں دے سکتا کہ غلط خبرچلائے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ لائسنس نہیں دےسکتےکہ کوئی سائل عدالت کی بے توقیری کرے، آپ کواحساس نہیں زیر سماعت کیس پراثراندازکی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا جولائی2018سےلیکرآج تک وہ آرڈرہواجس پریہ بیانیہ فٹ آتاہو؟ ایک اخبار کےآرٹیکل کاتعلق ثاقب نثار نہیں ہائیکورٹ کیساتھ ہے، لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس 2 دن بعد سماعت کیلئے فکس تھا جب اسٹوری شائع کی گئی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیدی صاحب آپ نے کوڑے کھائیں ہیں، کوڑے کھانے کا کیا ذائقہ ہے ، ہمارا قصور ہے ہم نے سبجوڈس رولز کی پرواہ نہیں کی ، کل کوئی تھرڈ پارٹی بیان حلفی دے گی اورآپ چھاپ دیں گے، یہ کہیں ہم صرف میسنجرہیں، تحقیق ہمارا کام نہیں توزیادتی ہے۔

    جس پر ناصر زیدی نے کہا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بارآزاد عدلیہ کےسامنےپیش ہورہےہیں، ہم عدالتوں میں پیش ہوتےرہےمگراس باربہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے میر شکیل، انصار عباسی،عامرغوری پر فرد جرم مؤخر کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا یہ ایک عدالتی معاملہ ہے ، فردجرم عائد کرنا بھی آئینی تقاضا ہے، میرا کسی سےغرض نہیں بلکہ صرف اسی عدالت سے ہے، 2 دن بعد کیس فکس ہے، تھرڈ پارٹی کی بیان حلفی اخبارمیں چھاپ گئی۔

    اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بالکل صحیح کہاکہ فوکس اس عدالت پرہی تھا ، آج پہلی بار میڈیا کی جانب سےدبےلفظوں میں ندامت ہے، رانا شمیم کوفیئرٹرائل کاپوراحق ہےمگرانہوں نےجوکہاوہ مان رہے ہیں ،صحافیوں کی حد تک اس کیس میں چارج فریم کو ختم کیا جائے۔

    اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ کبھی کبھی زندگی میں ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال ہوتے ہیں، عدالتیں نہیں تو سب کو گھرجانا چاہیے کیونکہ پھرجنگل میں رہ رہے ہونگے، رانا شمیم پر چارج فریم کیا جائے لیکن صحافیوں کی حد تک تحمل کیا جائے۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں یہاں اتنا نہیں لڑتاجتنااپنی حکومت میں لڑتاہوں، یہاں پرصحافیوں کی ایسوسی ایشن کےنمائندے موجود ہیں، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ سب توٹھیک ہےمگر زیدی صاحب نےنہیں بتایا کوڑاکیسے لگتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا میں اپنے والد محترم سے پوچھ لوں گا، میری والدہ نےبھی جیل کاٹی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اخبار ہے جو بار بار ہائی کورٹ کیخلاف توہین عدالت کر رہا ہے، باقی اخبارات میں اس طرح کی خبریں نہیں ہیں، صرف جنگ اور دی نیوز اس طرح کی خبریں دے رہا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پرفرد جرم عائد کر دی ، عدالت نے راناشمیم کیخلاف فرد جرم پڑھ کر سنائی، راناشمیم کے بیان حلفی کو فرد جرم کا حصہ بنا دیا۔

    فردجرم میں کہا گیا کہ راناشمیم نے انگلینڈمیں ایک بیان حلفی ریکارڈ کرایا،آپ نے کہا سابق چیف جسٹس چھٹیوں پر گلگت بلتستان آئے تھے، آپ کے بیان حلفی کے مطابق جسٹس عامرفاروق کوثاقب نثارنےفون کیا۔

    سابق چیف جج رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا جو ثاقب نثار نے کہا میں نے بیان حلفی میں لکھا۔

    اسلام آبادہائیکورٹ نے رانا شمیم کی 2متفرق درخواستیں خارج کر دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی میرشکیل ،انصار عباسی ،عامرغوری پرچارج فریم نہیں کر رہے، انصارعباسی،میرشکیل،عامرغوری مجرم ہوئےتوفرد جرم عائدہوگی۔

    عدالت نے میر شکیل، انصارعباسی اورعامرغوری پرفردجرم مشروط طور پرمؤخر کردی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے مکالمے میں کہا کیا آپ نےچارج سنا اور اس کوقبول کرتےہیں ، جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ کچھ چیزیں ماننےوالی ہیں اور کچھ نہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کرتےہیں؟ رانا شمیم نے جواب دیا کہ میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ پرفرد جرم عائد کر دی گئی ہے کاپی دے دی جائے گی۔

    رانا شمیم نے سوال کیا کہ صرف میرے خلاف چارج فریم ہوا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا ابھی باقی دیکھتے ہیں، تحریری جواب دیں اوراپنا بیان حلفی جمع کرائیں۔

    راناشمیم کا کہنا تھا کہ عدالت نےسوچ لیا ہےتومجھےپھرآج ہی سزاسنا دیں، میرے ساتھ اس طرح زیادتی نہیں ہونی چاہیے، میں ہر ہفتے کراچی سے آتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو آنا پڑے گا آپ پرفرد جرم عائد ہو چکی ہے۔

    راناشمیم نے عدالت سے مکالمے میں کہا چارج فریم صرف میرےخلاف ہوا؟ جس پر عدالت نے کہا ابھی آپ کے خلاف چارج فریم ہوا۔

    عدالت نے رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل کو کیس سےالگ کرنےکی درخواستیں مسترد کردیں ، رانا شمیم نے کہا جو کرنا ہےکریں میں اکیلا ہوں، مارچ میں ایک تاریخ دیں ، میں جتنی عزت اس عدالت کی کرتا ہوں شاید ہی کوئی اورکرتا ہوں، میں بہت ڈسٹرب ہوں، 20 یا 25 فروری تک کی تاریخ دیں۔

    اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے 15 فروری تک کی تاریخ دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہے سابق چیف جج رانا شمیم نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اوران کی بیٹی کو سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججزپر دباؤ ڈالا تھا۔

  • رانا شمیم  کی بہو، پوتے اور پوتی کی درخواست  پر فیصلہ محفوظ

    رانا شمیم کی بہو، پوتے اور پوتی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کی بہو، پوتے اور پوتی کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کی بہو، پوتے اور پوتی کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نےدرخواست پر سماعت کی۔

    رانا محمد شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا بتائیں کہ کون سا بینچ دباؤ کے نتیجے میں بنایا گیا تھا؟ عدالت کے ساتھ ایسا نہ کریں،جو بیانیہ چل رہا ہے، بتائیں کون سا عدالتی بینچ دباؤکےنتیجے میں بنا ؟

    چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ اپنی درخواست کی استدعا پڑھیں، رانا شمیم نے آپ کو یہ پٹیشن دائر کرنے کی ہدایت کی؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نہیں، درخواست رانا شمیم کی بہو اور پوتے پوتی کی طرف سے ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ رانا شمیم کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا، رانا محمد شمیم ہتک عزت کا دعوی خود دائر کر سکتے ہیں، پٹیشنرز سےمتعلق توفریقین نے کچھ نہیں کہا، پٹیشنرز تومتاثرہ فریق نہیں، یہ استدعا کسی اورکے لیے ہے۔

    وکیل احمد حسن رانا نے بتایا میں اس حوالے سے کیس لاپیش کرنا چاہتا ہوں، جس پر عدالت نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے اہلخانہ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

  • رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم، میرشکیل الرحمان، انصارعباسی اور عامرغوری کو تیرہ دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے حلف نامے کے مندرجات کو لاپرواہی سے رپورٹ کیا گیا ، رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا گیا ، سلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم، میر شکیل الرحمان ، انصارعباسی اور عامرغوری کو 13دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا، توہین عدالت کی کارروائی میں فریقین کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔

    تحریری حکم نامے میں کہنا ہے کہ رانا شمیم کے تحریری جواب کا جائزہ لینے سے مؤقف کا پتا چلےگا، رانا شمیم نے بتایا انھوں نے کسی کیساتھ بیان حلفی  شیئر نہیں کیا، اصل بیان حلفی لندن کے لاکرمیں ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کو بیان حلفی ہائی کورٹ میں جمع کرانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے لندن میں مدد کیلئے خط و خطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھی ہیں۔

    حکم نامے کے مطابق رانا شمیم نے الزام لگایا حلف نامے کی کاپی شیئر نہیں کی اور نہ انصار عباسی، عامر غوری ، میرشکیل الرحمان سے حلف نامہ شیئر کیا۔

    تحریری حکم نامے میں بتایا گیا کہ رانا شمیم نے الزام لگایا کہ حلف نامہ ان کی رضا مندی سے نہیں شائع ہوا، اس پورے معاملے کے ذمہ دار کے خلاف سنگین  نتائج ہوسکتے ہیں، حلف نامے کے مندرجات پھیلانے کے ارادے سے جلد بازی میں شائع کیا۔

    عدالت کے مطابق رانا شمیم نے کہا 15 جولائی2018 کو ثاقب نثار کی ہائی کورٹ جج سے گفتگوسنی تھی، رانا شمیم نےاس وقت کے ڈویژن بینچ کا بھی حوالہ دیاہے، 3 سال سے زائد خاموشی سے رانا شمیم کی ساکھ پرسنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔

    حکم نامے میں کہا ہے کہ خبر کی اشاعت کا وقت بہت اہم ہے، کیونکہ یہ وقت ان اپیلوں سے متعلق ہے جوسماعت کیلئےمقرر تھیں، ایک اخبار کے رپورٹر  اور  پبلشر پربھی سوال اٹھتا ہے۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق اصل حلف نامہ اورشائع ہونیوالےکے مندرجات میں صداقت پرسوالیہ نشان ہے، راناشمیم کیلئے اہم ہے وہ عدالت کے سامنے اصل حلف نامہ لائیں ، زیرسماعت اپیلوں پر فریقین کےمنصفانہ ٹرائل کے حق کو متاثر کرتےہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتاہے حلف نامے کے مندرجات کولاپرواہی سےرپورٹ کیاگیا، بڑے پیمانے پر عوام میں یہ حلف نامہ پھیلایا گیا، ایک اخباری  رپورٹر  اور  پبلشر نے عدالت پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی اور مبینہ مخالفوں کی جانب سے جمع کرائے جواب ٹال مٹول نظر آرہےہیں۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم کو آخری موقع دیتےہیں عدالت کےسامنےاصل حلف نامہ لائیں، اسلام آبادہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس  پر  مزید سماعت 13 دسمبر کو ہوگی، فریقین مطمئن کریں کیوں نہ ان پر فرد جرم عائدکرکےقانونی کارروائی کی جائے۔

    خیال رہے گزشتہ سماعت پر میرشکیل الرحمان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکی تھی ، سابق چیف جج راناشمیم کی جانب سے لطیف آفریدی  پیش ہوئے تھے اور رانا شمیم کی جانب سے جواب ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔

    تاہم عدالتی حکم کے باوجود رانا شمیم نے حلف نامہ ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ، اٹارنی جنرل کی جانب سےلندن میں مدد کیلئےخط وخطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھ دی ہیں۔

  • سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ جو ہوا، ثبوت میرے پاس ہیں: ذرائع ثاقب نثار

    سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ جو ہوا، ثبوت میرے پاس ہیں: ذرائع ثاقب نثار

    اسلام آباد: سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے قریبی ذرائع سے ہونے والی تہلکہ خیز گفتگو سامنے آ ئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع ثاقب نثار نے انکشاف کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے ثبوت میاں ثاقب نثار کے پاس موجود ہیں۔

    انھوں نے کہا ہے کہ سازش سے کس طرح جسٹس سجاد کو منصب سے ہٹایا گیا میں سب کچھ جانتا ہوں، جسٹس سجاد علی معاملے پر کتاب لکھوں گا تو اصل چہرے سامنے آئیں گے۔

    ذرائع ثاقب نثار کے مطابق پاناما کیس سے میرا (ثاقب نثار) کوئی تعلق نہیں تھا، خود کو اس سے دور رکھا، مانیٹرنگ جج کا مقصد شفافیت تھا کیوں کہ ملزمان کی حکومت تھی، ہائیکورٹ ججز سے پوچھ لیں کیا کبھی کسی کی سفارش کی، میرا دامن صاف، ضمیر مطمئن ہے، غلطی ہو سکتی ہے لیکن دانستہ نہیں کی۔

    ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بتایا کہ مجھ سے کسی کی جرات نہ تھی کہ رابطہ کرتا، میں نے کوئی کیس شریف خاندان کے خلاف نہیں سنا، بطور چیف جسٹس ہر ذمہ داری لیتا ہوں، عمران خان کے 2 کیسز سنے کیوں کہ دیگر ججز پانامہ کیس دیکھ رہے تھے۔

    اٹارنی جنرل کی ثاقب نثارکی مبینہ آڈیو ٹیپ کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کرنے کی مخالفت

    ان کا کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ الیکشن کمیشن کا کیس ہے مگر انھوں نے دوسرا کیس دیکھا تھا، عمران خان کرکٹ کھیلتا تھا، اس کی کمائی سے باہر فلیٹ خریدا تھا، فلیٹ نہ بکنے سے پراپرٹی خریدنے کے لیے جمائمہ نے رقم دی، رسیدیں آ گئیں، بعد میں فلیٹ فروخت کر کے عمران خان نے رقم بھی ادا کی۔

    انھوں نے کہا جسٹس شوکت صدیقی نے ریفرنس کے بعد 2 بار مجھ سے رابطہ کیا، مجھے پتا تھا کہ یہ کس لیے ملنا چاہتے ہیں اس لیے جان بوجھ کر نہیں ملا، انھوں نے 2 بار مس کنڈکٹ کیا اس لیے نا اہل کیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق انھوں نے کہا کہ نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے تو ایک سال وفاقی سیکریٹری قانون رہا، جب سیکریٹری قانون تھا تو محکموں میں ایڈوائزر کے لیے سفارش آتی تھی، ایک سال بعد میرٹ پر عدلیہ کا حصہ بغیر سفارش بنا۔

    سابق چیف جسٹس نے کہا رانا شمیم کی مرحومہ اہلیہ اور میری اہلیہ کا آخری دم تک رابطہ تھا، رانا شمیم کی اہلیہ تو اکثر میری بیوی کو دعائیہ میسجز بھیجتی تھیں، رانا شمیم نے مجھ سے گلہ کیا آپ کی وجہ سے مجھے توسیع نہیں ملی، رانا شمیم سے میں نے کہا یہ میرا اختیار نہیں تھا، رانا شمیم نے کہا آپ نے کچھ کیسز میں میرے خلاف فیصلے دیے، اسی بات پر میرا رانا شمیم سے آخری رابطہ تھا۔

    ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ رانا شمیم نے شاہین ایئر کو حکم دیا کہ گلگت کے لیے سروس شروع کریں، میرے پاس پٹیشن آئی تو آرڈر دیا کہ یہ تو گلگت کے جج کا اختیار نہیں، ٹورازم محکمے کی گلگت میں زمین اسکاؤٹس کو دینے کا حکم بھی غلط تھا، سابق چیف جج گلگت کے اختیارات سے بڑھ کر فیصلے ختم کرنا پڑے۔

    انھوں نے انکشاف کیا سعد رفیق کے ریلوے معاملات کلیئر تھے اس لیے کارروائی کا نہیں کہا، پی کے ایل آئی کا فرانزک آڈٹ کرایا تو اس میں گھپلے نکلے، 34 ارب کا منصوبہ، جگہ، پیسے حکومت کے اور دے کسی اور کو رہے تھے، میرے بھائی کو جوڑتے رہے وہ تو میڈیسن کا ڈاکٹر ہے، میرے بھائی کا پی کے ایل آئی سے کوئی تعلق نہیں، باہر سے اور بھی ڈاکٹرز واپس آتے ہیں مگر 15 لاکھ تنخواہ نہیں لے رہے، ڈاکٹر اشرف طاہر بھی تو لاکھوں ڈالرز چھوڑ کر آئے، کیا کبھی ڈی جی فرانزک ایجنسی پر کوئی سوال اٹھا۔

  • رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی  درخواست مسترد

    رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست مسترد

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست پر سماعت کی۔

    رائے محمد نوازکھرل نے توہین عدالت کیس میں فریق بننے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ رانا شمیم مسلم لیگ ن سندھ کےعہدیدار رہے، جنہیں بطور چیف جسٹس گلگت بلتستان تعینات کیا گیا۔

    رائے محمد نوازکھرل کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کی کرپشن سے متعلق اہم معلومات ہے، رانا شمیم بیرون ملک فرار ہونے کا خدشہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ توہین عدالت کا ہے، ای سی ایل میں نام ڈالنا حکومت کا کام ہے، کرپشن اور دیگر معاملات میں نہیں جانا۔

    عدالت نے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیں، تحریر فیصلے میں کہا گیا کہ توہین کرنے والے کے علاوہ کوئی اور کیس میں فریق ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

    دوسری جانب اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کا اصل حلف نامہ برطانیہ سے منگوانے کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا ہے، متفرق درخواست میں خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جج بیان حلفی پاکستانی ہائی کمیشن لندن بھی دیں، کسی بھی قسم کے ابہام سے بچنے کے لیے حلف نامہ کی کاپی سربمہر لفافے میں ہائی کمیشن لندن کو بھیجا جائے۔

    جس کے بعد پاکستانی ہائی کمیشن حلف نامہ وزارت خارجہ کے ذریعے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھیجے گا۔

  • ہائیکورٹ کا رانا شمیم، میر شکیل، انصار عباسی، عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس

    ہائیکورٹ کا رانا شمیم، میر شکیل، انصار عباسی، عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق جج رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی اور عامر غوری کو الگ الگ شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی، عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے فریقین کو 30 نومبر کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

    شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ عدالت آرڈیننس 2003 سیکشن 5 کے تحت مجرمانہ توہین کے ارتکاب پر سزا دے سکتی ہے۔

    عدالتی شوکاز میں کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمان دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف کے طور پر اہم عہدے پر فائز ہیں، 15 نومبر کو دی نیوز پر انصار عباسی کی طرف سے خبر شائع، رپورٹ کی گئی، جس کا عنوان تھا ثاقب نثار نے 2018 الیکشن سے قبل نواز، مریم کو رہا نہ کرنے کی ہدایت کی۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ جسٹس (ر) رانا محمد شمیم کے مبینہ بیان حلفی کا مواد خبر میں شائع کیا گیا، مبینہ حلف نامے، خبر کی رپورٹ میں بے بنیاد، توہین آمیز الزامات لگائے گئے، اس خبر کی رپورٹ کا مواد عدالت کے ساتھ بدسلوکی کے مترادف ہے، عدالت کی طرف سے کی گئی کارروائیوں پر جھوٹا الزام لگانا جرم ہے۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ مواد کا مقصد عدالت کے سامنے زیر سماعت اپیلوں میں مداخلت معلوم ہوتا ہے، مریم نواز کی اپیلوں پر انصاف کے راستے کو موڑنے کی کوشش کی ہے، خبر لکھنے والے اور میرشکیل الرحمان نے حقائق کی تصدیق کی کوشش نہیں کی،اور ان لوگوں کا ورژن طلب کر کے پیش کیا گیا جن کے خلاف سنگین بد دیانتی کے الزامات تھے، اور اس عدالت کے رجسٹرار یا آزاد ذرائع سے تصدیق سے پہلے ہی رپورٹ کی اشاعت کی گئی۔

    شوکاز کے مطابق تصدیق کیے بغیر خبر کی اشاعت نہ صرف ادارتی بلکہ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، تصدیق کے بغیر خبر کی اشاعت شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی پامالی ہوتی ہے، منصفانہ مقدمے کی سماعت کو میڈیا ٹرائل کے ذریعے تعصب کا نشانہ بنایا گیا، ایسی خبریں شائع کرنا انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔

    شوکاز میں کہا گیا کہ ایسی خبر عدالت اور ججز پر عوام کے اعتماد کو بغیر کسی خوف ختم کر دیتی ہے، اس قسم کی خبریں شہریوں کے حقوق اور آزادی کو مجروح کرتی ہے۔

    شوکاز کے مطابق اس خبر کی رپورٹ اور مذکورہ بالا کارروائیوں کو آرٹیکل 204 کے ساتھ پڑھا گیا، توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے تحت قابل سزا مجرمانہ توہین کے مرتکب ہوئے، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی، عامر غوری 7 دن کے اندر تحریری جواب جمع کرائیں، سابق چیف جج جی بی بھی 7 دن کے اندر تحریری جواب ہائیکورٹ میں جمع کرائیں۔