Tag: رانی پدمنی

  • پدماوت کا ٹریلر جاری، فلم کے انتباہ نے تنازعے کی وجہ بتادی

    پدماوت کا ٹریلر جاری، فلم کے انتباہ نے تنازعے کی وجہ بتادی

     ممبئی : تنازعات میں گھری فلم پدماوت جو 25 جنوری کو نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے کا ٹریل جاری کردیا گیا ٹریلر کا سب اہم حصہ اس کا انتباہ ہے جس میں تنازعے کو اثر کو زائل کرنے کے لیے راجپوت برادری کی قابل احترام شخصیت رانی اور راجا کے اعلیٰ اوصاف کو اجاگر کیا گیا ہے۔

    جاری کیے گئے ٹریلر کے انتباہ میں بتایا گیا ہے کہ ’ پدماوت‘  صوفی شاعر ملک محمد جائسی کی شہرہ آفاق فکشن نظم پر بنائی گئی ہے جس میں راجا رتن سین اور رانی پدمنی کے درمیان پروان چڑھنے والی محبت کی دلچسپ داستان کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس فلم کی کہانی میں علاؤ الدین خلجی اور رانی پدماوتی کے درمیان خوابی اور خیالی روابط کا کوئی زکر نہیں ہے۔

     

    فلم کے ٹریلر میں دیئے گئے انتباہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلم پدماوت میں راجپوت برادری کی بہادری اور خواتین کی اپنی عصمت کی خاطر جان تک دینے سے گریز نہ کرنے کی دلیرانہ سوچ کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس فلم میں رانی پدوماتی کے اعلی کرادر اور اوصاف کی عکاسی کی گئی ہے اور ان کی حرمت و تکریم میں زرا برابر بھی کمی نہیں لائی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ فلم پدوماتی کو ریلیز سے پہلے ہی راجپوت برادری کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا رہا ہے جس کے باعث بھارت کی کئی ریاستوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور کئی راجپوت رہنماؤں نے فلمساز اور ہیروئن دپیکا کے خلاف انتقامی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے دپیکا کی ناک کاٹنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد فلم کی ریلیز روک دی گئی تھی ۔

     

    تاہم گزشتہ دنوں بھارت کے سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن نے ’پدماوتی‘ کا نام تبدیل کرکے ’پدماوت‘ رکھنے کا حکم جاری کیا تھا اور ساتھ ہی فلم کو یو اے سرٹیفیکٹ سے بھی کلیئر قرار دے دیا جس کے بعد فلم کو 25 جنوری کو ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم اب بھی بھارت کی کئی ریاستوں میں اس فلم کی نمائش پر پابندی ہے۔

     


    راجا رتن سین اور رانی پدمنی کی محبت کے درمیان علاؤ الدین خلجی کی رقابت کا تاریخی پس منظر 


    پدماوت کے لغوی معنی دیوناگری ہے اور یہ ہندوستان کی ایک علاقائی زبان اودھی کا لفظ ہے اور یہ نام خاص راجپوت برادری کی تاریخی شخصیت اور ہر دلعزیز رانی کے لیے مخصوص ہے جسے شہرہ آفاق نظم میں 1540 میں صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے تحریر کیا۔

    اس نظم میں شاعر ملک محمد جائسی نے چتوڑ کے راجپوت راجا رتن سین اور رانی پدمنی کی دلچسپ محبت کا قصہ بیان کیا ہے جو کہ بلآخر شادی میں تبدیل ہوئی تاہم نظم کا کلائمکس مسلمان حکمران اور جنگجو علاؤ الدین خلجی کی چتوڑ آمد اور رانی کے عشق میں مبتلا ہونا ہے۔

    علاؤ الدین خلجی رانی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے چھ ماہ تک چتوڑ قلعے کا محاصرہ کیے رکھتا ہے جس پر رانی راجا اور دیگر اکابرین کو مشورہ دیتی ہے کہ علاؤالدین سے محاصرہ ختم کرنے کی بات کی جائے مگر اس شرط پر کہ رانی اپنی ایک جھلک تالاب کے شفاف پانی میں دکھائے گی تاہم  براہ راست چہرے پر نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

    رانی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب علاؤ الدین خلجی اس شرط پر راضی ہوتا ہے بعد ازاں خلجی کو مدعو کیا جا تا ہے اور طعام کے بعد رانی بالکونی میں اس طرح کھڑی ہوتی ہیں کہ ان کا عکس تالاب میں نظر آتا ہے عکس دیکھتے ہی خلجی اوپر نگاہ کرتا ہے لیکن تب ایک پردہ گرا دیا جاتا ہے جسے خلجی اپنی توہین سمجھتے ہوئے چتوڑ کے راجا رتن سین کو گرفتار کرکے اہنے ہمراہ لے جاتا ہے۔

    راجا کے فراق میں پریشان رانی ایک چال چلتے ہوئے علاؤ الدین کو ملاقات کا جھانسہ دینے کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور ایک خط کے ذریعے خلجی کے حرم میں آنے پر ہامی بھرلیتی ہے، روایت کے مطابق پالکیوں کا انتظام کیا جاتا ہے جس میں سپاہی بیٹھے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ان پالکیوں کو اٹھانے کے لیے مضبوط اور طاقتور سپاہیوں کو ساتھ بھیجا گیا۔

    طے شدہ منصوبے کے تحت جیسے ہی یہ پالکیاں خلجی کے حرم میں پہنچیں تو اس میں سے رانی کے بجائے اسلحے سے لیس سپاہی برآمد ہوئے جنہوں نے پالکیاں اُٹھانے والے سپاہیوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑی اور راجا کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہوگئے اور فتح مند ہو کر رانی کے پاس پہنچے۔

    علاؤ الدین خلجی اس دھوکے اور شکست سے پر سخت سیخ پا ہوتا ہے اور پورے لاؤ لشکر کے ساتھ  راجا اور رانی کے قلعے پر دھاوا بول دیتا ہے، گھمسان کی جنگ میں راجا سمیت راجپوت برادری کے تمام مرد ہلاک ہوجاتے ہیں۔رانی نے راجا کی موت اور شکست کو دیکھا تو دیگر راجپوت خواتین کے ساتھ ایک آگ میں کود کر اپنی زندگیاں تمام کردیں لیکن خود کو علاؤالدین کے حوالے نہیں کیا، یہاں سے اپنی عصمت کو بچانے کے لیے آگ یا کنوئیں میں کودنے کی رسم کا آغاز ہوا جسے راجپوت برادری میں جوھر کا نام دیا جاتا ہے۔

    کہا جاتا ہے اس کے واقعہ کے بعد راجپوت برادری پر بیرونی حملہ آور آٹھ مرتبہ قابض ہونے آئے اور ہر بار راجپوت مردوں کی ہلاکت کے بعد راجپوت خواتین نے جوہر کی رسم ادا کرتے ہوئے خود کو آگ لگا لی۔ گو کہ یہ کہانی راجپوت برادری کے لیے مقدس ترین ہے لیکن اس کے تاریخی حقائق نظر نہیں آتے ہیں جس پر اسے محض ایک شاعر کا تخیل بھی کہا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔ 

  • دپیکا پڈوکون ایک بار پھر مہارانی کے روپ میں

    دپیکا پڈوکون ایک بار پھر مہارانی کے روپ میں

    مشہور تاریخی بالی ووڈ فلم باجی راؤ مستانی کے بعد ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی ایک اور تاریخی موضوع پر بنائی جانے والی فلم پدما وتی میں مرکزی کردار ادا کرنے والی دپیکا پڈوکون کا پہلا شاندار روپ جاری کردیا گیا۔

     

    فلم ’پدما وتی‘ خاندان غلاماں کے بادشاہ علاؤ الدین خلجی اور چتور گڑھ کی رانی پدما وتی کی رومانوی داستان پر مبنی ہے۔

    مہارانی پدماوتی یا پدمنی چتور گڑھ کے راجہ رتن سنگھ کی بیوی تھی اور اپنی خوبصورتی، بہادری اور ذہانت کے باعث مشہور تھی۔ تاریخی کتابوں کے مطابق علاؤ الدین خلجی اس کی خوبصورتی کی داستانیں سن کر وہاں گیا اور اس نے آئینے میں مہارانی کا عکس دیکھا تھا۔

    بعض محققین کے مطابق بعد ازاں رانی نے علاؤ الدین خلجی اور اس کی دیوانگی سے خود کو بچانے کے لیے آگ میں کود کر اپنی جان دے دی تھی۔

    فلم میں رانی پدمنی کا مرکزی کردار دپیکا پڈوکون، رانی کے شوہر رتن سنگھ کا کردار شاہد کپور اور علاؤ الدین خلجی کا کردار رنویر سنگھ نبھا رہے ہیں جبکہ ادیتی راؤ بھی فلم میں موجود ہیں جو علاؤ الدین خلجی کی اہلیہ کا کردار نبھائیں گی۔

    یاد رہے کہ فلم باجی راؤ مستانی میں بھی دپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ اسی نوعیت کا شاہی رومانوی داستان پر مبنی کردار ادا کر چکے ہیں۔

    فلم کی کاسٹ فائنل کیے جانے کے موقع پر رانی پدمنی کے شوہر راجا رتن سنگھ کے کردار کے لیے پاکستانی اداکار فواد خان اور بعد ازاں شاہ رخ خان کو پیشکش کی گئی تاہم دونوں نے کردار کے مختصر ہونے کی وجہ سے اس سے انکار کردیا۔

    بعد ازاں اس کردار کی پیشکش شاہد کپور کو کی گئی جنہوں نے اس شرط پر اسے قبول کیا کہ ان کے کردار کو بھی طول دیا جائے گا۔

    فلم کے پہلے جاری کیے جانے والے پوسٹر میں دپیکا پڈوکون سرخ رنگ کا شاہی لباس اور بھاری بھرکم زیورات پہنے نظر آرہی ہیں جبکہ ان کے چہرے پر نہایت سنجیدگی اور کچھ سختی کے تاثرات بھی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان زیورات کے پیچھے ایک مضبوط اور بہادر عورت کھڑی ہے۔

    فلم کا پہلا پوسٹر تمام اداکاروں نے اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیئر کیا۔

    پوسٹر پر فلم کی ریلیز کی تاریخ یکم دسمبر لکھی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ فلم کی شوٹنگ کے دوران جے پور میں سنجے لیلا بھنسالی اور ان کی ٹیم پر مقامی افراد اور انتہا پسندوں کی جانب سے حملہ بھی کیا گیا تھا جن کا دعویٰ تھا کہ ان کی بہادر رانی پدمنی کو غلط انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

    تاہم سنجے لیلا بھنسالی نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ تاریخ کو مسخ کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کریں گے اور تمام واقعات کو جوں کا توں پیش کریں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔