راولپنڈی : جرگے کے حکم پر قتل کی گئی لڑکی کی قبرکشائی کے بعد پوسٹمارٹم مکمل کرلیا گیا، جس کی رپورٹ سے یہ معلوم ہوگا کہ مقتولہ کا قتل کیسے کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق راولپنڈی جرگے کے حکم پر شادی شدہ خاتون کو قتل کرنے کے کیس میں عدالتی حکم پر مقتولہ کی قبر کشائی کی گئی۔
مقتولہ سدرہ عرب گل کی قبر کشائی کا عمل دو گھنٹے جاری رہا، پولیس افسرانز ڈاکٹرز ٹیم اور علاقہ مجسٹریٹ بھی موقع پر موجود تھے۔
جس میں ڈاکٹرز کی ٹیم نے مقتولہ کی ڈیڈ باڈی کے نمونے حاصل کئے اور علاقہ مجسٹریٹ قمر عباس تارڑ کی نگرانی میں لاش کے پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل کیا گیا۔
سدرہ اعظم قتل کیس، پولیس نے مرکزی ملزم کا سراغ لگا لیا
ذرائع کے مطابق مقتولہ کے سیمپل فارنزک ٹیسٹ کے لیے بھیجے جائیں گے جس کی رپورٹ سے یہ معلوم ہوگا کہ مقتولہ کا قتل کیسے کیا گیا۔
مقدمے میں گرفتار پانچ ملزمان نے پولیس اور مجسٹریٹ کی موجودگی میں قبر کے نشاندہی کی ، ملزمان میں جرگہ سربراہ عصمت اللہ اور سابق شوہر ضیاء الرحمن بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے سابق وائس چیئرمین عصمت اللہ سمیت مزید تین ملزمان کو باضابطہ گرفتاری کرلیا ہے ، جس کے بعد مقدمہ میں گرفتار ملزمان کی مجموعی تعداد چھ ہوگئی ہے
گورکن،قبرستان کمیٹی کا سیکریٹری اور رکشہ ڈرائیور پہلے ہی گرفتار ہیں جبکہ گرفتار ملزمان میں مقتولہ کا سسر سلیم خان،والد عرب گل اورچچامانی گل شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پنڈی میں سدرہ عرب گل نامی شادی شدہ خاتون کو عثمان نامی لڑکے سے تعلق کے شبے میں جرگے کے فیصلے کے مطابق قتل کیا گیا تھا، 19 سالہ سدرہ کا نکاح 17 جنوری کو ضیاالرحمان سے ہوا تھا، تاہم عثمان کے والد نے بھی ایک بیان میں بتایا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کا سدرہ کے ساتھ عدالت میں نکاح کروایا تھا۔
نئی نویلی دلہن سدرہ دختر عرب گل کو قتل کرنے کے بعد خاموشی سے دفن کر دیا گیا تھا، پولیس نے قبرستان کے گورکن کو گرفتار کیا تھا جس نے کئی سنسنی خیز انکشافات کیے، راشد محمود نے بتایا کہ لڑکی کو 17 جولائی کی صبح ساڑھے 6 بجے دفنایا گیا، قبرستان کمیٹی کے رکن گل بادشاہ نے فون کر کے قبر تیار کرنے کی ہدایت کی تھی اور ایک گھنٹے میں قبر تیار کرنے کا کہا تھا۔
اس روز شدید بارش تھی، مزدوروں دستیاب نہیں تھے، گورکن کے مطابق گل بادشاہ صبح پونے 6 بجے 25 افراد کے ساتھ قبرستان آیا اور قبر تیار کروائی۔ مقتولہ کی لاش لوڈر رکشے پر لائی گئی تھی، جس پر سرخ رنگ کی ترپال پڑی تھی۔ قبر تیار کرتے وقت رکشہ قبرستان میں ہی کھڑا رہا۔
تدفین کے موقع پر جب ممبر قبرستان کمیٹی کے بیٹے کو رسید نمبر 78 دی تو اس میں میت کا نام سدرہ دختر عرب گل لکھا، لیکن تھوڑی دیر بعد دیکھا تو رسید نمبر 78 کا ریکارڈ ہی نہیں تھا۔ تدفین کے بعد قبر کا نشان بھی مٹا دیا گیا۔