Tag: رتن ناتھ سرشار

  • رتن ناتھ سرشار: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    رتن ناتھ سرشار: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    اردو ادب رتن ناتھ سرشار کو ناول کا بنیادی تصوّر عطا کرنے والے ایک ادیب کے طور پر جانتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے دوش بہ دوش انھوں نے بھی ناول نگاری کے اوّلین دور میں اپنی تخلیقات سے ملک گیر شہرت پائی۔

    یہ 1878ء کے قریب کا وہ دور تھا جب انگریزی اثرات کے زیرِ اثر اردو ناول کا خاکہ مرتب ہو رہا تھا۔ اس دور میں سرشار کا مشہور ناول فسانۂ آزاد، اودھ اخبار میں شائع ہونا شروع ہوا۔ آج مصنّف، شاعر اور باکمال مترجم رتن ناتھ سرشار کا یومِ وفات ہے۔

    سرشار 1847ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق کشمیری برہمن خاندان سے تھا جو تجارت کی غرض سے کشمیر سے ہجرت کر کے لکھنؤ میں آباد ہوگیا تھا۔ سرشار نے اپنے دور کے رواج کے مطابق تعلیم مکمل کی اور عربی، فارسی اور انگریزی سے واقفیت حاصل کی۔ والد کا انتقال ہوا تو رتن ناتھ سرشار چار برس کے تھے۔ بعد میں اپنی قابلیت سے ایک اسکول میں مدرس ہوگئے اور لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ اودھ اخبار اور مرسلہ کشمیری) میں مضامین لکھتے تھے اور جلد ہی شہرت حاصل کر لی۔ 1878ء میں انھیں اودھ اخبار کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ ان کے مشہور ناول یعنی فسانۂ آزاد کے لکھنے کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا۔ کچھ عرصہ تک الہٰ آباد ہائی کورٹ میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ 1895ء میں حیدر آباد چلے آئے اور مہا راجا کشن پرساد سے وظیفہ ملنے لگا۔

    سرشار کا پہلا مضمون ایک رسالہ ”مراسلہ کشمیر“ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ سرشار کے کئی مضمون ”سررشتہ تعلیم اودھ، ریاض الاخبار، اودھ پنچ“ وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔ سرشار کی مشہور تصانیف میں سیر کوہسار، جام سرشار، کامنی، خدائی فوجدار شامل ہیں۔ رتن ناتھ سرشار کا ایک کارنامہ الف لیلہ کا فصیح و بلیغ اردو ترجمہ بھی ہے۔ اس ترجمہ کو برصغیر میں بہت مقبولیت ملی۔

    فسانۂ آزاد سرشار کا وہ مشہور ناول ہے جس میں لکھنؤ کے سماجی پس منظر میں تصویریں‌ ابھرتی ہیں۔ اس شہر کی سماجی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں سے اتنا گہرا ربط و ضبط اور رشتہ و تعلق اردو کے کسی اور ناول میں کم ملتا ہے جسے اکثر اردو ادب میں داستان کہا گیا ہے۔ فسانۂ آزاد پر اگرچہ کئی اعتراضات کیے گئے ہیں لیکن آج بھی فسانۂ آزاد سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جسے اودھ اخبار کے لیے قلم برداشتہ لکھنا شروع کیا تھا۔

    1903ء میں رتن ناتھ سرشار آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    (بھارت کے معروف شاعر و مصنف اجمل اجملی کے ایک مضمون سے ماخوذ)

  • رتن ناتھ سرشار اور اُن کا فسانہ

    رتن ناتھ سرشار اور اُن کا فسانہ

    رتن ناتھ سرشار ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے نذیر احمد کے دوش بہ دوش اردو کو ناول کا بنیادی تصوّر عطا کیا۔ 1878ء کے قریب جب انگریزی اثرات کے زیرِ اثر اردو ناول کا خاکہ مرتب ہو رہا تھا ان کا شہرۂ آفاق ناول فسانۂ آزاد، اودھ اخبار میں شائع ہونا شروع ہوا۔ آج اردو کے اس مصنّف، شاعر اور مترجم کا یومِ وفات ہے۔

    سرشار 1847ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کشمیری برہمن خاندان سے تھا جو تجارت کی غرض سے کشمیر سے ہجرت کر کے لکھنؤ میں آباد ہوگیا تھا۔ سرشار نے اپنے دور کے رواج کے مطابق تعلیم مکمل کی اور عربی، فارسی اور انگریزی سے واقفیت حاصل کی۔ والد کا انتقال ہوا تو رتن ناتھ سرشار چار برس کے تھے۔ بعد میں اپنی قابلیت سے ایک اسکول میں مدرس ہوگئے اور لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ اودھ اخبار اور مرسلہ کشمیری) میں مضامین لکھتے تھے اور جلد ہی شہرت حاصل کر لی۔ 1878ء میں انھیں اودھ اخبار کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔ ان کے مشہور ناول یعنی فسانۂ آزاد کے لکھنے کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا۔ کچھ عرصہ تک الہٰ آباد ہائی کورٹ میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔ 1895ء میں حیدر آباد چلے آئے اور مہا راجا کشن پرساد سے وظیفہ ملنے لگا۔

    سرشار کا پہلا مضمون ایک رسالہ ”مراسلہ کشمیر“ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ سرشار کے کئی مضمون ”سررشتہ تعلیم اودھ، ریاض الاخبار، اودھ پنچ“ وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔

    ان کی مشہور تصانیف میں سیر کوہسار، جام سرشار، کامنی، خدائی فوجدار شامل ہیں۔ سرشار کا ایک کارنامہ الف لیلہ کا فصیح و بلیغ اردو زبان میں ترجمہ بھی ہے جو بہت مقبول ہوا۔

    فسانۂ آزاد سرشار کا سب سے مشہور ناول ہے جس میں لکھنؤ کے سماجی پس منظر میں تصویریں‌ ابھرتی ہیں۔ اس شہر کی سماجی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں سے اتنا گہرا ربط و ضبط اور رشتہ و تعلق اردو کے کسی اور ناول میں کم ملتا ہے جسے اکثر اردو ادب میں داستان کہا گیا ہے۔ تاہم فسانۂ آزاد پر کئی اعتراضات بھی کیے گئے لیکن آج بھی فسانۂ آزاد سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جسے اودھ اخبار کے لیے قلم برداشتہ لکھنا شروع کیا تھا۔

    رتن ناتھ سرشار 1903ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    (اجمل اجملی کے مضمون سے ماخوذ)

  • اُس کتاب کی کہانی جس میں شامل کہانیاں‌ دنیا بھر میں مقبول ہیں

    اُس کتاب کی کہانی جس میں شامل کہانیاں‌ دنیا بھر میں مقبول ہیں

    دنیا کی مشہور اور مقبول ترین کہانیوں کی کتابوں میں ایک ‘الف لیلہ’ بھی ہے جسے رتن ناتھ سرشار نے اردو زبان میں ڈھالا اور یہ ان کا شاہکار ترجمہ ہے۔ تاہم وہ عربی سے الف لیلہ کی ایک جلد کو فصیح و بلیغ اردو میں ترجمہ کر سکے تھے اور ان کے بعد مولوی محمد اسمٰعیل و دیگر نے اسے مکمل کیا۔

    اردو ہی نہیں اس کتاب کا مغربی اور یورپی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا اور یوں عرب ثقافت اور کئی لوک کہانیاں دنیا کے سامنے آئیں۔ الف لیلہ کو کب، کس ملک میں لکھا گیا اور اس کا مصنّف کون ہے، اس بارے میں محققین کی آراء مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن خیال ہے کہ یہ مقبول کہانیاں عرب دنیا کے قصّہ گو سنایا کرتے تھے جسے بعد میں کسی ایک یا کئی مصنّفین نے تحریری شکل دے دی۔ کسی زمانے میں یہ نہایت دل چسپ اور پُرتجسس قصّے ایران، مصر اور قسطنطنیہ تک پہنچ گئے اور وہاں کے قصہ گو اور لکھاریوں نے اس میں مزید واقعات شامل کردیے۔ بعد میں جب یہ کہانیاں ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گئیں تو اس کا نام ’الف لیلۃ و لیلۃ‘ یعنی ’ایک ہزار ایک راتیں‘ ہو گیا۔

    الف لیلہ میں شامل ان کہانیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک بادشاہ پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی بیوی یعنی ملکہ نے اس سے بے وفائی کی ہے۔ وہ عورتوں سے بدظن ہوجاتا ہے اور عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ یہ ملک سمرقند اور بادشاہ شہریار ہے جس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی عورت سے شادی کرتا اور رات کو دلہن کے ساتھ وقت گزار کر صبح قتل کرا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی لڑکی شہرزاد نے عورتوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کی ٹھان کر شہریار سے شادی کرتی ہے اور شادی کے بعد بادشاہ کو پہلی رات اپنے منصوبے کے مطابق ایک کہانی سناتی ہے۔ پہلی رات ختم ہوجاتی ہے، مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہر زاد کو قتل کرنے سے باز رہتا ہے۔ اگلی رات بھی بادشاہ کی نئی بیوی یعنی شہر زاد کہانی شروع کرتی ہے اور صبح تک وہ کہانی ایک ایسے موڑ پر آجاتی ہے جس میں بادشاہ کا تجسس اور اس کی دل چسپی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور بادشاہ کہانی کا انجام جاننے کے لیے اس صبح بھی ملکہ کے قتل سے باز رہتا ہے۔ اسی طرح‌ اگلی رات اور پھر ہر رات کہانی اسی طرح بادشاہ کی توجہ اور دل چسپی بڑھاتی چلی جاتی ہے اور وہ شہرزاد کو قتل نہیں کرتا۔

    شہر زاد کے قصّے کا یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل جاتا ہے۔ اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور ان کے ہاں دو بچّے ہو گئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔

    بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مؤرخ محمد بن اسحاق نے کتاب الفہرست میں کہانیوں کی جس کتاب کا ذکر ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے کیا ہے وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں بطور نمونہ اسی کی پہلی کہانی شامل کی ہے۔ یوں یہ کہا جانے لگا کہ الف لیلہ پہلے ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے موجود تھی۔

    اردو میں رتن ناتھ سرشار نے اس مقبول کتاب کی صرف پہلی جلد پر کام کیا تھا جب کہ 1690ء میں اس کتاب کا مخطوطہ بازیافت ہوا تو یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب آنتون گلاں نے اس کا فرانسیسی ترجمہ شائع کیا اور کہتے ہیں‌ کہ اسی ترجمہ کی بنیاد پر اردو سمیت کم و بیش دوسری زبانوں میں الف لیلہ کے تراجم کیے گئے۔

  • حمق کا عارضہ….

    حمق کا عارضہ….

    ادب نگری میں فسانہ آزاد کو ناول اور بعض ناقدین نے داستان شمار کیا ہے۔ اسے اردو ادب کے عہدِ اولین کا ایک خوب صورت نقش ضرور تسلیم کیا جاتا ہے جس کے مصنف پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری ہیں۔ کہتے ہیں یہ 1878 کا ناول ہے جو 1880 میں پہلی بار کتابی شکل میں شایع ہوا۔

    اس کا ہیرو ’’آزاد‘‘ ایک ذہین بانکا اور خو برو نوجوان ہے جو علم و فن میں یکتا ہے۔ جہاں گشت ہے اور ایک دوشیزہ پر دل و جان سے فدا ہوجاتا ہے جو اسے دنیا میں نام ور اور مشہور ہونے کو کہتی ہے، تب یہ نوجوان میدانِ جنگ میں شجاعت اور جواں مردی دکھاتا ہے اور بدیس میں اس کا چرچا ہوتا ہے۔

    اس داستان کو مختلف عنوانات کے تحت سمیٹا گیا ہے جس کا یہ ٹکڑا آپ کی دل چسپی اور توجہ کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ اس داستان کے ہیرو کا غم کے ایک موقع پر دوسرے کردار سے مکالمہ ہے۔

    حمق کا عارضہ

    ۔۔۔۔میاں آزاد کا دل بھر آیا۔ رقیق القلب تو تھے ہی آٹھ آٹھ آنسو روئے۔ ایک مرد آدمی سے جو قریب بیٹھے تھے، پوچھا: یاحضرت! بھلا یہ پیر مرد کس عارضے میں مبتلا تھے۔

    اس نے آہ سرد کھینچ کر کہا کہ یہ نہ پوچھیے حمق کا عارضہ تھا۔

    کیا حمق، یہ کون سا عارضہ ہے؟

    صاحب قانونچے میں اس کا کہیں پتا نہیں۔ طبِ اکبر میں اس کا ذکر بھی نہیں. یہ نیا عارضہ ہے۔ جی اُمّ العوارض ہے۔

    ذرا اس کے علامات تو بتائیے؟

    اجی حضرت کیا بتاؤں۔ عقل کی مار اس کا خاص باعث ہے۔