Tag: رحیم شاہ

  • ماڈل کو اپنا خون بیچ کر پیسے دیے، رحیم شاہ

    ماڈل کو اپنا خون بیچ کر پیسے دیے، رحیم شاہ

    گلوکار رحیم شاہ کا کہنا ہے کہ ماڈل کو اپنا خون بیچ کر پیسے دیے تھے۔

    نجی ٹی وی کو انٹرویو میں گلوکار رحیم شاہ نے کہا کہ شروع میں میرے پاس بس کا کرایہ نہیں ہوتا تھا، ماڈل کو پیسے کہاں سے دیتا پھر میں نے پیسے کے لیے خون بیچا تھا۔

    انہوں نے کہا لڑکی گانے میں شرکت کے لیے بغیر پیسوں کے لیے مان نہیں رہی تھی وہ کہتی تھی کہ یہ غریب کا نہیں نوابوں کا کام ہے پھر میں جب خون دے کر آیا تو پیلا ہوگیا تھا میں پانی پینے لگا لیکن ڈاکٹر نے منع کردیا اور کہا کہ فروٹ کھالینا۔

    رحیم شاہ نے بتایا کہ جب میں جانے لگا تو ڈاکٹر نے کہا کہ رکو اور مجھے پھل دیے میں نے سیب لیا تو کہنے لگا کہ میرے سامنے کھاؤ پھر میں سیب کھایا، جن لوگوں نے ساتھ دیا ان کو نہیں بھول سکتا اور جنہوں نے ساتھ نہیں دیا وہ بھی یاد ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں گلوکار نے بتایا کہ مجھے امید نہیں تھی کہ گلوکار بنوں گا بس بیرون ملک جانے کی خواہش تھی، میری خواہش تھی کہ بس کیسٹ آجائے میری جس میں تصویر لگی ہو پھر مجھے باہر کا ویزا مل جائے گا تو واپس نہیں آؤں گا۔

    گلوکار نے بتایا کہ ابھی میں دو ماہ میں چار مرتبہ بیرون ملک کا سفر کرکے آچکا ہوں۔

    گانا ’پہلے تو کبھی کبھی غم تھا‘ سے متعلق رحیم شاہ نے کہا کہ میرے گھر کے سامنے ایک گھر بن رہا تھا اس کے اوپر قرآنی آیت لکھی تھی اور بجری باہر پڑی تھی، مین ہول پر بیٹھے ہوئے ایک فوک پرانا لکھا کہ ’پہلے تو کبھی کبھی غم تھا‘ لیکن اس کے بعد پورا گانا انور رضوی نے لکھا تھا۔

    رحیم شاہ نے بتایا کہ اس کے ساتھ ایک اور گانا تھا ’اللہ مولا‘ وہ بھی سپر ہٹ تھا، یہ دونوں گانے ایسے لڑکے کہ ان دنوں میں عدنان سمیع، میرا البم، شازیہ منظور کا البم ٹاپ پر تھے۔

    گلوکار نے بتایا کہ گانا ریلیز ہوگیا اور مجھے پی ٹی وی میں جانا تھا تو کوچ میں سفر کررہا تھا، یہی گانا مسلسل چل رہا تھا، میرے برابر میں بیٹھا شخص کہنے لگا کیا گانا گنگنایا ہے، میں نے جب اسے بتایا کہ میں نے گایا ہے تو کہنے لگا کہ پاگل ہے، پھر میں گھر تک آیا تو کالا بورڈ، ملیر ہر جگہ ’پہلے تو کبھی غم تھا‘ چل رہا تھا۔

  • ’’میرے لیے ماں جنت کے وعدے سے بڑھ کر ہے‘‘

    ’’میرے لیے ماں جنت کے وعدے سے بڑھ کر ہے‘‘

    ماں کی عظمت اور اہمیت کا کوئی انکاری نہیں، جب ماں کے موضوع پر سنجیدہ گفتگو شروع ہوتی ہے تو  بیشتر افراد کو اپنی غلطیوں کا بخوبی احساس ہوتا ہے اسی باعث اُن کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑتے ہیں۔

    ایک روز قبل اے آر وائی نیوز کے پروگرام ہر لمحہ پرجوش میں نامور گلوکار رحیم شاہ نے شرکت کی اور میزبان وسیم بادامی کے ساتھ ماں کے موضوع پر ایسی گفتگو کی کہ اسٹوڈیو میں بیٹھا ہرشخص اشکبار ہوگیا۔

    اس موقع پر رحیم شاہ نے اپنے زندگی کے حالات و واقعات کے حوالے سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ اُن کے والد مزدوری کا کام کرتے تھے، معاشی طور پر اُن کا گھرانہ کمزور ضرور تھا مگر خاندانی اعتبار سے انہیں خدا نے بہت نوازا۔

    کیریئر کا پہلا گانا ’’پہلے تو کبھی کبھی غم تھا‘‘

    اپنے کیریئر کے پہلے گانے کے حوالے سے رحیم شاہ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے 1997 میں گانے کی ویڈیو ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا تو معلوم ہوا کہ صرف 12 ہزار روپے ویڈیو کے اخراجات ہیں جبکہ ماڈل کو 2500 روپے دینا ہوں گے، جن کا انتظام نہیں ہوسکا تھا۔

    گلوکار کے مطابق انہوں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگی اس لیے انہوں نے پیسوں کے عوض خون کی ایک بوتل فروخت کی اور ماڈل کی فیس ادا کی، البتہ جب گانا ریلیز ہوا تو اُس کے بعد اللہ کا کرم ہوگیا۔

    وسیم بادامی کی فرمائش پر رحیم شاہ نے والدہ کی عظمت کے حوالے سے گایا ہوا مشہور زمانہ گیت ’’ماں‘‘ بھی سنایا، اُن کی دردبھری آواز میں گانا سُن کر تمام حاضرین بشمول اینکر وسیم بادامی، کرکٹر باسط علی، کامیڈین سخاوت علی بھی آبدیدہ ہوگئے۔

    جنت میری ہے پاؤں تیرے ۔۔۔ ویڈیو دیکھیں

    گانا مکمل ہونے کے بعد ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رحیم شاہ نے کہا کہ ’’میرے لیے جنت کے وعدے سے بڑھ کر ہے ماں، کاش میری والدہ مجھے سمجھ جائیں‘‘۔

    اس موقع پر سابق کرکٹر باسط علی نے اے آر وائی کے توسط سے اپیل کی کہ ’’والدین کا کوئی دن مخصوص نہیں بلکہ ہر دن ہی اُن کا ہے، لہذا اپنے والدین کی خدمت کریں اور اُن کو ناراضی کو دور کریں‘‘۔

    مکمل ویڈیو

    سابق ٹیسٹ کرکٹر تنویر احمد ، کامیڈین سخاوت نے باسط علی کی بات سے اتفاق کیا جبکہ وسیم بادامی نے بھی اپنی والدہ سے معافی مانگی۔

  • کراچی: ارشاد رانجھانی قتل کیس، حتمی چالان میں ایمبولینس ڈرائیور کا سنسنی خیز انکشاف

    کراچی: ارشاد رانجھانی قتل کیس، حتمی چالان میں ایمبولینس ڈرائیور کا سنسنی خیز انکشاف

    کراچی: شہرِ قائد کے علاقے بھینس کالونی میں سندھی قوم پرست پارٹی کے مقامی رہنما ارشاد رانجھانی قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پولیس نے حتمی چالان عدالت میں جمع کرا دی۔

    تفصیلات کے مطابق 6 فروری کو بھینس کالونی کراچی میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے یوسی چیئرمین رحیم شاہ کے ہاتھوں قتل ارشاد رانجھانی سے متعلق حتمی چالان پولیس نے عدالت میں جمع کر دی۔

    چالان میں ایمبولینس ڈارئیور نے انکشاف کیا ہے کہ ارشاد رانجھانی کو اسپتال منتقلی کے دوران ملزم نے دوبارہ گولیاں ماریں، ارشاد رانجھانی کو زخمی حالت میں جائے وقوعہ سے تھانےمنتقل کیا تھا۔

    چالان کے متن میں ڈرائیور کا بیان ہے کہ 15،20 منٹ بعد تھانے سے انسپکٹر علی گوہر کے ہم راہ اسپتال روانہ ہوا، ملزم رحیم شاہ نے موٹر سائیکل پر ایمبولینس کے آگے آ کر رکنے کا کہا، رحیم شاہ نیچے اترا ہاتھ میں پستول تھا، سب کو آگے دیکھنے کا کہا، پھر اہل کار سے کچھ بات کی، اچانک ایمبولینس کا پچھلا دروازہ کھولنے کی آواز آئی۔

    یہ بھی پڑھیں:  ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس بھی ملوث ہے: وزیرِ اعلیٰ سندھ

    ڈرائیور کے بیان کے مطابق دروازہ کھلنے کے بعد ایک فائر ہوا جس سے زخمی شخص کی چیخ سنائی دی، اہل کار نے مجھ کو کہا چپ رہو اور ایمبولینس اسپتال لے کر چلو، رحیم شاہ موٹر سائیکل سوار کے ساتھ بیٹھ کر روانہ ہو گیا، مقتول کو جناح اسپتال پہنچایا تو اس کا انتقال ہو چکا تھا۔

    چالان کے مطابق ڈرائیور نے کہا کہ رحیم شاہ کے خوف سے پہلے حقیقت نہیں بتائی تھی اب بتا رہا ہوں۔

    دوسری طرف محکمہ پراسیکیوشن نے پولیس کی تفتیش کے پول کھول دیے، پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر نے پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی اور مقدمے کی تفتیش درست انداز میں نہیں کی۔

  • ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس بھی ملوث ہے: وزیرِ اعلیٰ سندھ

    ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس بھی ملوث ہے: وزیرِ اعلیٰ سندھ

    کراچی: وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس کی نا اہلی پر برہمی کا اظہار کیا، انھوں نے کہا ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس بھی ملوث ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعلیٰ نے سندھ اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ارشاد رانجھانی کیس نے مجھے ہلا دیا ہے، پولیس تڑپتے ہوئے شخص کو اسپتال لے جانے کی بجائے تھانے لے گئی، یہ مجرمانہ غفلت ہے، خود پولیس کے خلاف ایف آئی آر کٹواؤں گا۔

    [bs-quote quote=”واقعے میں ملوث پولیس اہل کاروں کو گرفتار کیا جائے، پولیس کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”مراد علی شاہ” author_job=”وزیرِ اعلیٰ سندھ”][/bs-quote]

    وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ارشاد رانجھانی معاملے پر 24 گھنٹے میں جوڈیشل انکوائری کی درخواست کی ہے۔

    مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ارشاد رانجھانی کو 5 گولیاں بہت قریب سے ماری گئیں، وہ چور ہو یا ڈکیت انھیں گرفتار کیا جا سکتا تھا، پولیس کی کمیٹی واقعے کی 2 دن سے تفتیش کر رہی ہے، پہلے دن ہی سے ارشاد کو ڈکیت کہا جا رہا ہے، کہا گیا کہ ارشاد پر ایف آئی آر درج تھی، تو جس جس پر ایف آئی آر ہے، بندوق لیں اور مار دیں۔

    وزیرِ اعلیٰ نے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث پولیس اہل کاروں کو گرفتار کیا جائے، کے پی میں آئی جی بات نہیں مانتا تو ایک منٹ میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے، آئی جی سندھ پولیس کو واقعے کی تحقیقات کے لیے سخت احکامات دیے ہیں۔

    انھوں نے کہا ’آج کل آئی جی عدالتی حوالے دے کر تبادلے و تقرریاں کر رہے ہیں، عدالتی احکامات سے ہی تبادلے کرنے ہیں تو اسمبلی ختم کر دیتے ہیں، پولیس کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

    آئی جی سندھ کو خط

    وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی پولیس کو خط لکھ کر ارشاد رانجھانی قتل کیس پر پولیس کے غیر پیشہ ورانہ رویے پر اظہارِ برہمی کیا، کہا اس واقعے سے عوام کا ریاست پر اعتماد مجروح ہوا، حکومت کا جان و مال کی حفاظت کا عوامی اعتماد بھی متاثر ہوا، پولیس کے وقت پر نہ پہنچنے پر ارشاد رانجھانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

    [bs-quote quote=”عوام پولیس کی کارکردگی اور اس واقعے پر سوالات اٹھا رہے ہیں، واقعے کو غلط ہینڈل کرنے سے لسانی جذبات کے خدشات ہیں۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″ author_name=”وزیرِ اعلیٰ سندھ”][/bs-quote]

    انھوں نے خط میں لکھا کہ 6 فروری کو رحیم شاہ نے ارشاد رانجھانی کو قتل کیا، سوشل میڈیا پر فوٹیج دکھائی جا رہی ہے یہ غیر انسانی رویہ تھا، رحیم شاہ نے خود جج بن کر سزا دے کر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا، رحیم شاہ نے زخمی ارشاد کو اسپتال لے جانے کی بھی اجازت نہیں دی۔

    مراد علی شاہ نے لکھا کہ رحیم شاہ کا دعویٰ درست ہو تب بھی قانون قتل کا لائسنس نہیں دیتا، یہ فیصلہ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں، سندھ پولیس تمام انتظامی معاملات میں مکمل طور پر با اختیار ہے، واقعہ پولیس کی کارکردگی میں بہتری لانے کی گنجائش ظاہر کرتا ہے۔

    وزیرِ اعلیٰ نے مزید لکھا کہ یہ واقعہ پولیس کی کارکردگی پر شکوک و شبہات بھی پیدا کرتا ہے، عوام پولیس کی کارکردگی اور اس واقعے پر سوالات اٹھا رہے ہیں، واقعے کو غلط ہینڈل کرنے سے لسانی جذبات کے خدشات ہیں، بہ طورِ وزیرِ اعلیٰ اس بڑی ناکامی کو تماشائی بن کر نہیں دیکھ سکتا۔

    وزیرِ اعلیٰ نے خط میں آئی جی سندھ کو تفتیش جلد سے جلد مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ افسران سے جواب دہی کر کے 48 گھنٹے میں رپورٹ دی جائے۔