Tag: رسول حمزہ توف

  • عوامی شاعر رسول حمزہ توف جو دنیا بھر میں داغستان کی پہچان بنے

    عوامی شاعر رسول حمزہ توف جو دنیا بھر میں داغستان کی پہچان بنے

    یہ تذکرہ اُس شخصیت کا ہے جس کی وجہِ شہرت تو ادب ہے، لیکن اس کی ادب سے وابستگی اور فن و تخلیق کا محرک ایک عجیب اور دل چسپ واقعہ ہے۔ یہ 1934ء کی بات ہے جب داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد گاؤں کا ہر بچّہ، بڑا بوڑھا حیران پریشان تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ یہ منظر دیکھا یا اس کے بارے میں سنا تھا۔ ان میں رسول حمزہ توف بھی شامل تھے۔ اس وقت وہ گیارہ سال کے تھے۔ چند روز بعد حمزہ توف نے اس سنسنی خیز واقعے پر ایک نظم لکھ دی اور یہیں سے ان کی شاعری کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ داغستان کے عوامی شاعر مشہور ہوئے۔

    گاؤں میں ہوائی جہاز کا یوں اترنا وہاں کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ تھا، لیکن رسول حمزہ توف اس گاؤں کے واحد باسی تھے جس نے اس واقعے کے بعد اپنے تخیّل کی اڑان بھر کر روسی اور مقامی ادب میں نام و مقام بنایا۔ یہ علاقہ اس زمانے میں روس کے زیرِ اثر تھا۔ رسول حمزہ توف ایک عوامی شاعر ہی نہیں خوب صورت نثر نگار اور بہترین مترجم کی حیثیت سے بھی علمی و ادبی حلقوں‌ میں مشہور ہوئے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، مگر عوام میں ان کی وجہِ مقبولیت ان کی شاعری ہے۔ رسول حمزہ توف 2003ء میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رسول حمزہ توف نے 8 ستمبر 1923ء کو اس وقت کے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد چرواہے تھے۔ وہ اکثر جانور چراتے ہوئے کوئی گیت گاتے جاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے تھے۔ رسول حمزہ توف کبھی ان کے ساتھ جاتے تو گیت سنتے رہتے۔ یہیں سے ان میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو رسول حمزہ توف کے لیے شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    داغستان کی سرحد پر جنگ کی وجہ سے رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ کچھ عرصہ منقطع رہنے کے بعد 1945ء میں دوبارہ جڑ گیا اور اب وہ ماسکو میں داخلہ لے چکے تھے۔ 1950ء میں فارغ التحصیل ہوئے اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ان کے درمیان حمزہ توف کی فکر اور فن پر نکھار آیا۔ رسول حمزہ توف نے تخلیقی سفر جاری رکھا اور اس عرصے میں ان کے چند شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ اس کی وجہ رسول حمزہ توف کے رزمیہ اور قومی گیت تھے، جن میں وہ اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ زمانہ ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ حب الوطنی کا بیان ایسا جادوئی تھا کہ وہ عوامی سطح پر بہت مقبول ہوگئے۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے جب کہ حب الوطنی ان کے اشعار کا مستقل رنگ ہے۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر داغستان کی پہچان بن گئے۔ کہتے ہیں‌ کہ رسول حمزہ توف ہی تھے جن کی وجہ سے اس ملک کو دنیا نے جاننا شروع کیا۔ روسی حکومت نے اس شاعر اور ادیب کو 1952ء میں ”اسٹالن انعام“ جب کہ 1963ء میں ”لینن پیس پرائز“ دیا اور اگلے سال ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ سے نوازا۔ 2014 ء میں رسول حمزہ توف سے موسوم ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر طبع زاد کام اور تراجم پر بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں انھوں نے عالمی ادب کا اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیا اور یہ معیاری تراجم ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی وہ پہلی نثری کتاب ہے جسے جدید عالمی ادبیات کی فہرست میں‌ شمار کیا گیا۔ یہ سوویت یونین کے داغستان کو جس اسلوب میں پیش کرتی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اپنی زمین سے بے حد محبت، ولولہ انگیز نظمیں، زندگی کو پیش کرنے کا فن کارانہ انداز، انوکھے اور فکر انگیز خیالات، آزاد اور حکیمانہ مشرقی انداز، چھوٹی چھوٹی مقامی کہانیاں، کہاوتیں اس کتاب کا حسن ہیں۔ اور ناقدین کے مطابق اس کتاب کا سب سے بڑا کارنامہ اسے آوار زبان میں پیش کرنا ہے جو صرف پانچ، چھ لاکھ لوگوں کی زبان تھی۔

  • رسول حمزہ توف:‌داغستان کا عوامی شاعر

    رسول حمزہ توف:‌داغستان کا عوامی شاعر

    1934ء میں داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ ایسا واقعہ تھا، جس پر گاؤں کا ہر بچّہ، بڑا بوڑھا حیران پریشان تھا۔ ان میں رسول حمزہ توف بھی شامل تھے جن کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی۔ چند روز بعد انھوں نے اس سنسنی خیز واقعے پر ایک نظم لکھ دی اور یہیں سے ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔ وہ داغستان کے عوامی شاعر مشہور ہوئے۔

    یوں‌ تو ہوائی جہاز کی لینڈنگ گاؤں‌ کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ ثابت ہوا، لیکن رسول حمزہ تو ف کے تخیّل کو وہ اڑان بھرنے کا موقع دے دیا جس کے باعث وہ روسی اور مقامی ادب میں نام و مقام بنانے میں کام یاب ہوئے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ روس کے زیرِ اثر تھا۔

    رسول حمزہ توف ایک عوامی شاعر ہی نہیں خوب صورت نثر نگار اور بہترین مترجم کی حیثیت سے بھی علمی و ادبی حلقوں‌ میں مشہور ہوئے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، تاہم عوام میں وہ بطور شاعر مقبول ہوئے۔

    رسول حمزہ توف نے اس وقت کے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان کا سنہ پیدائش 8 ستمبر 1923ء ہے۔ رسول حمزہ توف کے والد چرواہے تھے۔ وہ اکثر جانور چراتے ہوئے کوئی گیت گاتے جاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے تھے۔ رسول حمزہ توف کبھی ان کے ساتھ کام پر جاتے تو انھیں بھی یہ گیت سننے کو ملتے۔ شاید یہیں سے ان میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو رسول حمزہ توف کے لیے شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    ایک دن داغستان کی سرحد پر جنگ چھڑ گئی اور رسول حمزہ توف جو اسکول جاتے تھے، ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ جنگ کے بعد 1945ء میں انھوں نے دوبارہ تعلیمی سفر شروع کیا اور ماسکو میں داخلہ لیا، 1950ء میں فارغ التحصیل ہونے تک اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی اور یہ رفاقت ان کی فکر اور فن کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئی، رسول حمزہ توف نے تخلیقی سفر جاری رکھا اور اس عرصے میں ان کے چند شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ اس کی وجہ رسول حمزہ توف کے رزمیہ اور قومی گیت تھے، جن میں وہ اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ زمانہ ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ حب الوطنی کا بیان ایسا جادوئی تھا کہ وہ عوامی سطح پر بہت مقبول ہوگئے۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے جب کہ حب الوطنی ان کے اشعار کا مستقل رنگ ہے۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر داغستان کی پہچان بن گئے۔ کہتے ہیں‌ کہ رسول حمزہ توف ہی تھے جن کی وجہ سے اس ملک کو دنیا نے جاننا شروع کیا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر طبع زاد کام اور تراجم پر بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں انھوں نے عالمی ادب کا اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیا اور یہ معیاری تراجم ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی وہ پہلی نثری کتاب ہے جسے جدید عالمی ادبیات کی فہرست میں‌ شمار کیا گیا۔ یہ سوویت یونین کے داغستان کو جس اسلوب میں پیش کرتی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اپنی زمین سے بے حد محبت، ولولہ انگیز نظمیں، زندگی کو پیش کرنے کا فن کارانہ انداز، انوکھے اور فکر انگیز خیالات، آزاد اور حکیمانہ مشرقی انداز، چھوٹی چھوٹی مقامی کہانیاں، کہاوتیں اس کتاب کا حسن ہیں۔ اور ناقدین کے مطابق اس کتاب کا سب سے بڑا کارنامہ اسے آوار زبان میں پیش کرنا ہے جو صرف پانچ، چھ لاکھ لوگوں کی زبان تھی۔

    روسی حکومت نے اس شاعر اور ادیب کو 1952ء میں ”اسٹالن انعام“ جب کہ 1963ء میں ”لینن پیس پرائز“ دیا اور اگلے سال ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ سے نوازا۔ 2014 ء میں رسول حمزہ توف سے موسوم ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    آج رسول حمزہ توف کی برسی ہے۔ وہ 2003ء میں اسّی سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

  • داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    1934ء میں داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ ایسا واقعہ تھا، جس پر کم عمر یا نوجوان ہی کیا بڑے بھی ششدر رہ گئے۔ رسول حمزہ توف کی عمر اس وقت محض 11 برس تھی۔

    یوں‌ تو یہ گاؤں‌ کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ تھا، لیکن ہوائی جہاز کی اس ہنگامی لینڈنگ سے رسول حمزہ توف کے تخیّل کی اُس پرواز کا آغاز ہوا جس نے انھیں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر بنا دیا۔ انھوں‌ نے اس موضوع پر ایک نظم لکھی اور یوں ان کا شعری سفر ہوا۔

    رسول حمزہ توف نے روسی ادب میں‌ بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ وہ ایک عوامی شاعر مشہور ہوئے اور نثر نگار، مترجم کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقوں‌ میں ممتاز رہے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے بھی لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، لیکن ان کی شناخت اور عوامی سطح پر مقبولیت بطور شاعر برقرار رہی۔

    رسول حمزہ توف نے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں 8 ستمبر 1923ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد چرواہے تھے جو اکثر جانور چراتے ہوئے گیت گاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے۔ رسول حمزہ توف یہ سب سنتے رہتے اور بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    ایک زمانے میں داغستان کی سرحد پر جنگ چھڑی، تو رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ انھوں‌ نے رزمیہ اور قومی گیت بھی لکھے، اور اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ جنگ کے بعد 1945ء میں انھوں نے دوبارہ تعلیمی سفر شروع کیا اور ماسکو میں تعلیم حاصل کی، 1950ء میں فارغ التحصیل ہونے کے تک اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کے ساتھ رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فکر و فن کو نکھارا اور تخلیقی سفر جاری رکھا۔ اسی عرصے میں یکے بعد دیگرے ان کے شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ عالم ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ وہ جادو تھا جس نے ہر خاص و عام کو اپنے سحر میں‌ جکڑ لیا اور ان کے گیتوں‌ نے انھیں‌ عوامی سطح پر زبردست مقبولیت اور پذیرائی عطا کی۔

    ان کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے۔ حب الوطنی ان کے شعر کا مستقل رنگ ہے، جس نے انھیں عوام کا محبوب شاعر بنا دیا۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں علم و ادب کے نام وروں‌ کو متاثر کیا اور انہی کے طفیل داغستان کو دنیا نے جانا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی ان کی مقبولیت کا ایک سبب ہے۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر تخلیقات اور تراجم کی متعدد کتب شایع ہوئیں جو انھوں‌ نے عالمی ادب سے اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیں۔ ان کے یہ تراجم مستند اور معیاری ہیں۔

    رسول حمزہ توف کو حکومتِ روس کی جانب سے ”اسٹالن انعام“ ( 1952ء)، ”لینن پیس پرائز“( 1963ء)، ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ (1964ء) سے نوازا گیا اور 2014 ء میں ان کے نام سے منسوب ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    یہ عوامی شاعر زندگی کی 80 بہاریں‌ دیکھنے کے بعد 3 نومبر 2003ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔