Tag: رشید احمد صدیقی

  • گھاگ اور ‘گھاگیت’

    گھاگ اور ‘گھاگیت’

    گھاگ (یا گھاگھ) کی ہیئت صوتی و تحریر اس کو کسی تعریف کا متحاج نہیں رکھتیں۔

    الفاظ کی شکل اور آواز سے کتنے اور کیسے کیسے معنی اخذ کیے گئے ہیں لسانیات کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کبھی کبھی تلفظ سے بولنے والے کی نسل اور قبیلہ کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ گھاگ کی تعریف منطق یا فلسفہ سے نہیں تجربے سے کی جاتی ہے۔ ایسا تجربہ جسے عقل مند سمجھ لیتا ہے، بے وقوف برتنا چاہتا ہے۔

    گھاگیات کا ایک اصل یہ ہے کہ قضیے میں فریق سے بہتر قاضی بننا ہے، جھگڑا میں فریق ہونا خامی کی دلیل ہے۔ حکم بننا عقل مندوں کا شعار ہے۔ اگر ہر ایجاد کے لیے ایک ماں کی ضرورت ہے تو ہر ضرورت کے لیے ایک گھاگ لازم آتا ہے۔ گھاگ موجود نہ ہوتا تو دنیا سے ضرورت کا عنصر مفقود ہو جاتا اور طالب محض ہے سارا عالم “ کا فلسفہ انسدادِ توہینِ مذاہب کے قانون کی مانند ناقص ہو کر رہ جاتا۔ گھاگ کا کمال یہ ہے کہ وہ گھاگ نہ سمجھا جائے۔ اگر کوئی شخص گھاگ ہونے کا اظہار کرے یا بقول شخصے ” مارکھا جائے“ تو وہ گھاگ نہیں، گھاگس ہے اور یہ گھاگ کی ادنٰی قسم ہے۔ ان میں امتیاز کرنا دشوار بھی ہے، آسان بھی، جیسے کسی روشن خیال بیوی کے جذبۂ شوہر پرستی یا کسی مولوی کے جذبۂ خدا ترسی کا صحیح اندازہ لگانا۔

    گھاگ کی ایک منفرد شخصیت ہوتی ہے۔ وہ نہ کوئی ذات ہے نہ قبیلہ۔ وہ صرف پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس کی نسل نہیں چلتی، روایت قائم رہتی ہے۔ ہر طبقہ اور جماعت میں کوئی نہ کوئی گھاگ موجود ہوتا ہے۔ معاشرہ، مذہب، حکومت، غرض وہ تمام ادارے جن سے انسان اپنے آپ کو بناتا بگاڑتا یا ڈرتا ڈراتا رہتا ہے کسی نہ کسی گھاگ کی دستبرد میں ہوتا ہے۔ وہ جذبات سے خالی ہوتا ہے اور اپنے مقصد کے حصول میں نہ جاہل کو جاہل سمجھتا ہے نہ عالم کو عالم۔ دانش مند کے سامنے وہ اپنے کو احمق، احمق کے سامنے احمق تر ظاہر کرے گا جب تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کو یہ پروا نہیں ہوتی کہ دنیا اس کو کیا کہے گی۔ وہ کامیابی ہی کو مقصد جانتا ہے۔ وسیلے کو اہمیت نہیں دیتا۔

    گھاگ کا سوسائٹی کے جس طبقے سے تعلق ہوتا ہے اسی اعتبار سے اس کی گھاگیت کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ نچلے طبقے کا، متوسط طبقے کا، اعلیٰ طبقے کے گھاگ پرفوقیت رکھتا ہے اس لیے کہ موخرالذّکر کو اوّل الذکر سے کہیں زیادہ سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گھاگ نہ بھی ہوں جب بھی اپنی دولت اور اثر سے کام نکال سکتے ہیں۔ ان سے کم درجہ والے کو اپنی گھاگیت کے سوا کچھ اور میسر نہیں ہوتا۔ مثلاً گھاگ ہونے کے اعتبار سے ایک پٹواری کا درجہ کسی سفیر سے کم نہیں۔ بشرطیکہ سفیر خود کبھی پٹواری نہ رہ چکا ہو۔ سیاسی گھاگ کو قوم اور حکومت کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو قمار خانے کے منیجر کو قمار بازوں میں ہوتی ہے۔ یعنی ہار جیت کسی کی، نفع اس کا۔ وہ صدارت کی کرسی پر سب سے زیادہ ہار پہن کر تالیوں اور نعروں کی گونج میں بیٹھتا ہے۔ اور تحریر و تقریر میں پریس اور حکومت کے نمائندوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ کہیں گولی چلنے والی ہو یا دار و رسن کا سامنا ہو تو وہ اپنے ڈرائنگ روم یا کوہستانی قیام گاہ کو بہتر و محفوظ تر جگہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک قوم کی حیثیت نعش کی ہے۔ اس پر مزار تعمیر کر کے نذرانے اور چڑھاوے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن پیش قدمی کی ضرورت ہو تو ان سے پاٹ کی راستے ہموار کیے جا سکتے ہیں۔ اپنے اغراض کے پیش نظر وہ نوحۂ غم اور نغمۂ شادی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ وہ حکومت سے خفیہ طور پر اور حکومت اس سے علانیہ ڈرتی ہے۔

    گھاگ صرف اپنا دوست ہوتا ہے، کسی اور کی دوستی پر اعتبار نہیں رکھتا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے، موقع کو اپنے سے فائدہ نہیں اٹھانے دیتا۔ وہ انتہا پسند نہیں ہوتا صرف انتہا پسندوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کی مثال ایک ایسی عدالتی مثل سے دی جا سکتی ہے جس کی رو سے متضاد فیصلے آسانی سے دیے جا سکتے ہیں اور وہ فیصلے آسانی سے بحال بھی رکھے جا سکتے ہیں اور توڑے بھی جا سکتے ہیں۔ سیاسی گھاگ فیکٹری کے بڑے پہیے کی مانند ہوتا ہے بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ صرف ایک بڑا پہیا گردش کررہا ہے لیکن اس ایک پہیے کے دَم سے معلوم نہیں کتنے اور کل پرزے گردش کرتے ہوتے ہیں۔ کہیں بھاری مشین تیار ہوتی ہے، کہیں نازک ہلکے ہلکے طرح طرح کے آلات۔ کہیں زہر، کہیں تریاق، کہیں برہنہ رکھنے کے لیے کپڑے تیار ہوتے ہوں گے، کہیں بھوکا رکھنے کے لیے خرمن جمع کیا جا رہا ہو گا۔ کہیں حفاظت کا کام در پیش ہوگا، کہیں ہلاکت کے سامان فراہم کیے جا رہے ہوں گے۔

    گھاگ بولنے کے موقع پر سوچتا ہے اور چھینکنے کو صرف ایک جمائی پر ختم کر دیتا ہے۔ وہ ضابطہ فوجداری اور کتابِ الہٰی دونوں کی طاقت اورکمزوری سے واقف ہوتا ہے۔ آرام کمرے میں بیٹھ کر جیل خانہ پر عذاب جھیلنے والوں سے ہمدردی کرے گا۔ کبھی کبھی وہ ملک الموت کی زد میں نہ ہو۔ وہ حکومت کے خطابات نہیں قبول کرتا لیکن خطاب یافتوں کو اپنے اثر میں رکھتا ہے۔ کونسل اور کمیٹی میں نہیں بولتا لیکن کونسل اور کمیٹی میں بولنے والے اس کی زبان سے بولتے ہیں۔ وہ کبھی بیمار نہیں پڑتا لیکن بیماری اسی طرح مناتا ہے جس طرح دوسرے تعطیل مناتے ہیں۔ اس کا بیمار ہونا درحقیقت اپنی صحت منانا ہوتا ہے۔ وہ ہر طرح کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے لیکن ماخوذ کسی میں نہیں ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ ہوتا ہے، سز ایافتہ نہیں ہوتا۔

    مذہبی گھاگ کو مذہب سے وہی نسبت ہے جو نسبت بعض نوجوانوں کو اپنے والدین سے ہوتی ہے۔ وہ والدین کو اپنا کمزور اور مضبوط دونوں پہلو سمجھتا ہے۔ ایک طرف تو وہ ان کو حکام کے آستانوں پر حاضر ہو کر مرادیں مانگنے کا وسیلہ سمجھتا ہے دوسری طرف اگر وہ خود تعلیم یافتہ روشن خیال اور اسی طرح کی بیوی کا شوہر ہے اور والدین ذی حیثیت نہیں ہیں وہ ان کو حکامِ عالی مقام کے چپڑاسی سے بھی چھپانے کی کوشش کرے گا۔ ضرورت پڑ جائے گی تو مذہب کا واسطہ دلا کر دوسروں کو ہندوستان سے ہجرت پر آمادہ کرے گا، کسی اور موقع پر مذہب ہی کی آڑ پکڑ کر دارالحرب میں سود لینے لگے گا۔ وہ تارکِ حوالات رہے گا ۔ تارکِ لذت نہ ہوگا۔

    ایک شخص کا کردار یوں بیان کیا گیا، پیشِ مُلّا قاضی، پیشِ قاضی ملّا۔ پیش ہیچ ہر دو، و پیش ہر دو ہیچ۔ یعنی وہ ملّا کے سامنے قاضی بنا رہتا ہے اور قاضی کے سامنے ملّا۔ دونوں میں سے کسی کا سامنا نہ ہو تو دونوں حیثیتیں اختیار کر لیتا ہے اور دونوں موجود ہوں تو کہیں کا نہیں رہتا۔ یہ مقولہ گھاگس پر صادق آتا ہے گھاگ ایسا موقع ہی نہیں آنے دیتا کہ ” وہ کہیں کا نہ رہے۔“ گھاگ کی یہ مستند پہچان ہے۔

    (اردو کے معروف ادیب، نقاد اور مزاح نگار رشید احمد صدیقی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)

  • بڈھا اور  ٹکٹ کلکٹر (ایک واقعہ)

    بڈھا اور ٹکٹ کلکٹر (ایک واقعہ)

    میری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس پر یہ اصرار ہو کہ میں اسے ضرور یاد رکھوں۔ مجھے اپنے بارے میں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ کسی اور کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا ہوگا جس کا تعلق مجھ سے رہا ہو اور وہ اسے بھول نہ گیا ہو۔

    نہ بھلائے جانے والے واقعات عام طور پر یا تو توبۃُ النّصوح قسم کے ہوتے ہیں یا تعزیراتِ ہند کے۔ بقول شخصے ’’یعنی گویا کہ‘‘ ترقی پسند ہوتے ہوئے میری زندگی کے اوراق میں اس طرح کے ’سال کا بہترین افسانہ‘ یا ’بہترین نظم‘ نہیں ملتی۔ میں تو اس درجہ بدنصیب سَر پھرا ہوں کہ لکھتے وقت یہ بھی بھول جاتا ہوں کہ ادب میں صرف ’اشتراکیت‘ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ اس کا سبب کیا ہے، مجھے بالکل نہیں معلوم، مجھے اس کی فکر بھی نہیں کہ معلوم کروں۔ اگر آپ اس کے درپے ہیں کہ کوئی نہ کوئی وجہ دریافت کر لیں تو پھر صبر کیجیے اور اس وقت کا انتظار کیجیے، جب میں عزیزوں اور دوستوں سے زیادہ خوش حال اور نیک نام ہو جاؤں یا مجھ پر غبن یا اغوا کا مقدمہ دائر ہوجائے۔ اس وقت آپ میرے عزیزوں یا دوستوں ہی سے میرے بارے میں ایسے واقعات سن لیں گے جو مجھ پر گزرے ہوں یا نہیں، آپ خود ان کو کبھی نہ بھلائیں گے۔

    لیکن اربابِ ریڈیو نے مجھے اس پر مامور کیا ہے کہ آپ کو کوئی واقعہ سناؤں ضرور، اور میں سناؤں گا بھی ضرور۔ آپ نے گاؤں کی یہ روایت یا کہاوت تو سنی ہوگی کہ ’’نائی کا نوشہ ججمانوں کو سلام کرتا پھرے۔‘‘ اس روایت پر جو اصول بنایا گیا ہے وہ البتہ ایسا ہے جو کبھی نہ بھلایا جاسکے یعنی حق تمام تر ججمانوں کا اور ذمہ داری تمام تر نائی کے نوشوں کی۔ ایک دفعہ پھر ’’یعنی گویا کہ‘‘ لکھیں ہم، ترقی پسند آپ! یہ اصول ہماری سوسائٹی اور زندگی پر کتنا لاگو ہے، میں نے لاگو کا لفظ ان دوستوں کے احترام میں استعمال کیا ہے جو عدالت یا کونسل میں بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں، ان معنوں میں ہرگز استعمال نہیں کیا جن معنوں میں دلّی کی میونسپلٹی نے حال ہی میں لاگو جانوروں کے بارے میں اشتہار دیا ہے کہ جو شخص ان کو مار ڈالے اس کو انعام ملے گا۔ میں اس غرض سے دلّی آیا بھی نہیں ہوں۔ البتہ مجھے انعام لینے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ خواہ انعام کی رقم آدھی ہی کیوں نہ کر دی جائے۔ میرا یہ کارنامہ کیا کم ہوگا کہ میں کسی لاگو جانور کا شکار نہ ہوا! تو واقعہ ہے۔

    زیادہ دونوں کی بات ہیں ہے۔ میں حاضر، غائب، متکلم کی حیثیت سے آپ سے گفتگو کرنے دلّی آرہا تھا۔ جس ڈبّے میں مجھے جگہ ملی وہ خلافِ توقع اتنا بھرا ہوا نہ تھا جتنا کہ ریلوے والے چاہتے تھے۔ یہ بات بھی میں بھول نہیں سکتا لیکن اس اعتبار سے ڈبہ بھرپور تھا کہ اس میں ہر جنس، ہر عمر اور ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک بوڑھا کسان بھی گرتا پڑتا داخل ہوا۔ زندگی میں اس طرح کے بڈھے کم دیکھے گئے ہیں، بڑی چوڑی چکلی ہڈی، بہت لمبا قد لیکن اس طور پر جھکا ہوا جیسے بڑھاپے میں قد سنبھلتا نہ تھا اس لیے جھک گیا تھا۔ جسم پر کچھ ایسا گوشت نہ تھا لیکن اس کی شکل اور نوعیت کچھ اس طرح کی تھی کہ اس کے دیکھنے سے اس کے چھو لینے کا احساس ہوتا تھا جیسے گوشت اورچمڑے کے بجائے مصنوعی اور مرکب ربر وغیرہ قسم کی کوئی چیز منڈھ دی گئی ہو۔ سخت ناہموار موسم پروف ہی نہیں، رگڑ پروف بھی۔ ہتھیلی اور اس سے متصل انگلیوں کی سطح ایسی ہوگئی تھی کہ جیسے کچھوے کی پیٹھ کی ہڈی کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کی پچے کاری کردی گئی ہو۔ میرے دل میں کچھ وہم سا پیدا ہوا جیسے یہ آدمی نہ تھا۔ کھیت، کھاد، ہل، بیل، مرض، قحط، فاقہ، سردی، گرمی، بارش سب نبٹنے اور اپنی جیسی کر گزرنے کی ایک ہندوستانی علامت سامنے آگئی ہو۔

    ڈبے میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے اس کی پذیرائی اس طور پر نہ کی ہو جیسے کوئی معذور، مریل، خارشی کتا آگیا ہو۔ نوجوانوں نے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ عورتوں نے بیٹی بیٹے مر جانے کے کوسنے دیے۔ بوڑھوں نے یہ دیکھ کر کہ نووارد بڈھا ان سے پہلے مر جائے گا اپنوں کو جوانوں میں شمار کر لیا اور ماں بہن کی گالی دینی شروع کر دی۔ بے دردی اور اپنی اپنی بڑائی بگھارنے اور بکھاننے کا ایسا بھونچال آیا کہ میں نے محسوس کیا کہ تعجب نہیں کہ ڈبہّ بغیر انجن کا چلنے لگے گا۔ نووارد کی نظر ایک دوسرے بڈھے پر پڑی جو شاید اس قسم کے سلوک سے دوچار ہو کر ایک گوشے میں سہما سمٹا اپنے ہی بستر پر جو فرش پڑا ہوا تھا، دونوں یکجا ہوگئے۔ آنے والا اپنی لٹھیا کے سہارے فرش پر اکڑوں بیٹھ گیا اور سر کو اپنے دونوں گھٹنوں میں اس طور سے ڈال لیا کہ دور سے کوئی اچٹتی ہوئی نظر ڈالے تو چونک پڑے کہ یہ کیسا شخص تھا جس کے کندھوں پر سر نہ تھا۔ شور اور ہنگامہ کم نہ ہوا تھا کہ گاڑی پلیٹ فارم سے سرکنے لگی۔ ایک کلکٹر صاحب نازل ہوگئے۔ ڈبّے میں کچھ ایسے لوگ تھے جن کے پاس ٹکٹ نہ تھے۔ صرف قیمتی سگریٹ کیس، فاؤنٹن پین، گھڑی اور سونے کے بٹن تھے۔ ٹکٹ کلکٹر کو کسی نے سگریٹ پیش کیا، کسی نے دو بڑے بڑے انناس دیے، کسی نے اپنی ساتھی خاتون کا یوں تعارف کرایا کہ وہ بی اے پاس تھیں اور فلم میں کام کرتی تھیں۔ سب کو نجات مل گئی…. بڈھا پکڑا گیا۔ اور وہ سب جو ٹکٹ نہ لینے کے مواخذہ سے نجات پا چکے تھے، ٹکٹ کلکٹر کی حمایت میں بڈھے کو برا بھلا کہنے لگے اور وہی قصے پھر سے شروع ہوگئے۔ یعنی پھبتی، پھکڑ، گالی گلوچ اور معلوم نہیں کیا کیا۔

    بڈھا بھونچکا تھا اور برابر کہے جارہا تھا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ بڑی مصیبت اور تکلیف میں تھا۔ کسی کے پاؤں پکڑ لیتا، کسی کی دہائی دیتا۔ اس کی بیوہ لڑکی کا اکیلا نوعمر ناسمجھ لڑکا گھر سے خفا ہوکر دلّی بھاگ گیا تھا۔ بغیر کچھ کھائے پیے یا لیے، جس کے فراق میں ماں پاگل ہورہی تھی اور گھر کے مویشیوں کے گلے میں بانہیں ڈال ڈال کر روتی تھی، جس طرح بڈھا ہم سب کے پاؤں میں سر ڈال کر منتیں کرتا اور روتا تھا۔ گاؤں والے کہتے تھے کہ ماں پر آسیب ہے۔ بڈھا بے اختیار ہو ہو کر کہتا تھا، حجور سچ مانوں میری بہو پاگل نہیں ہے، اس پر آسیب نہیں ہے، وہ تو میری خدمت کرتی تھی، ڈھور، ڈنگر کی دیکھ بھال کرتی ہے، کھیتی باڑی کا بوجھ اٹھاتے ہوئے گھر کا سارا دھندا کرتی ہے۔ اس پر سونے کے بٹن نے فرمایا، ارے بڈھے تو کیا جانے وہ اور کیا کیا دھندا کرتی ہے۔ بڈھا بلبلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر رونے لگا۔ بولا، ’’سرکار مائی باپ ہو۔ یہ نہ کہو میری بہو ہیرا ہے۔ دس سال سے بیوہ ہے، سارے گاؤں میں مان دان ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے ایک موٹی سی گالی دی اور بولا، ’’ٹکٹ کے دام لا، بڑا بہو والا بنا ہے۔‘‘ بڈھا پھر گڑگڑانے لگا۔ اس پر کسی صاحب نے، جن کا لباس میلا، فاؤنٹن پین امریکن اور شکل بنجاروں جیسی تھی اور پتّے پر سے انگلی سے چاٹ چاٹ کر دہی بڑے ختم کیے تھے، سنی ہوئی انگلی سے بالوں کو خلال کرتے ہوئے فرمایا، کیوں رے بڈھے! منھ پر آنکھ نہ تھی کہ ہمارے ڈبے میں گھس آیا۔ شریفوں میں کبھی تیرے پُرکھا بھی بیٹھے تھے۔ بڈھا گھگھیا کر بولا،’’بابو! سراپھوں ہی کو دیکھ کر چلا آیا، سراپھ دیالو ہوتے ہیں۔ تمہارے چرنوں میں سکھ اور چھایا ہے، تھرڈ کلاس میں گیا تھا۔ ایک نے دھکیل دیا، گر پڑا۔ بہو نے بچّے کے لیے ایک نئی ٹوپی اور کچھ سوکھی جلیبی دی تھی جو انگوچھا میں بندھی تھی کہ لونڈا بھوکا ہوگا، دے دینا۔ ٹوپی پہن کر جلیبی کھائے گا تو خوشی کے مارے چلا آئے گا۔ ہڑبڑ میں نہ جانے کس نے انگوچھیا ہتھیا لی۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے سگریٹ کا آخری ٹکڑا کھڑکی کے باہر پھینکا اور فیصلہ کن انداز سے کھڑے ہو کر فیصلہ دیا۔ بڈھا تو یوں نہ مانے گا، اچھا کھڑا ہو جا اور جامہ تلاشی دے ورنہ لے چلتا ہوں ڈپٹی صاحب کے ہاں، جو پاس کے ڈبے میں موجود ہیں اور ایسوں کو جیل خانے بھیج دیتی ہیں۔ بڈھا جلد تلاشی کے لیے اس خوشی اور مستعدی سے تیار ہوگیا جیسے بے زری اور ناکسی نے بڑے آڑے وقت میں بڑے سچے دوست یا بڑے کاری اسلحہ کا کام کیا تھا۔ اب دوسرے بڈھے سے نہ رہا گیا۔ اس نے کہا، ’’ بابو صاحب بڈھے نے برا کیا جو اس ڈبے میں چلا آیا اور ٹکٹ نہیں خریدا لیکن اس کو سزا بھی کافی مل چکی ہے۔ اب مار دھاڑ ختم کر دیجیے، بڈھا بڑا دکھی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر کا نزلہ اب دوسرے بڈھے پر گرا۔ فرمایا، ’’ آپ ہوتے کون ہیں؟ ہم کو تو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’آپ فرض ادا کرتے ہیں، بڑا اچھا کام کرتے ہیں لیکن فرض ادا کرنا تو 24 گھنٹے کا کاروبار ہوتا ہے۔ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ چند منٹ پہلے بھی اس ڈبے میں اپنا فرض ادا کرتے تھے۔ بڈھے کی جامہ تلاشی کیوں لیتے ہیں۔ آپ کو جس چیز کی تلاش ہے وہ اس کے پاس تو کیا اس کی نسل میں بھی کبھی نہ تھی۔ اس کے ہاں تو صرف وہ بہو ملے گی جس کا ایک دھندا اپنے لڑکے کو کھو دینا اور اپنے سوکھے مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر تسکین پانے کی کوشش کرنا ہے۔ ممکن ہے وہ دھندا بھی ہو جو ہمارے ان ساتھی دوست کو معلوم ہے جو ایک لاچار بڈھے کی غم نصیب بہو کا دھندا خود اپنے بے ٹکٹ سفر کرنے سے زیادہ بہتر طریقہ پر سمجھتے ہیں۔ کتنی بے عقل بہو ہے کہ بچے کے غم میں مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر روتی ہے اور ہمارے دوست کے گلے سے لپٹ کر رقص کرتی ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے کہا، ’’یہ دیہاتی بڑی حرفوں کے بنے ہوتے ہیں اور دام رکھ کر بے ٹکٹ سفر کرتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں تو رو پیٹ کر چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’لیکن آپ کو اس کا بھی تجربہ ہوگا کہ بعض دیہاتی ایسے نہیں ہوتے۔‘‘ فرمایا، ’’آپ رہنے دیجیے میں تو اس کے حلق سے دام نکال لوں گا۔‘‘

    طوفان تھم سا گیا۔ گاڑی کی رفتار معمول سے زیادہ بڑھتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کر اس حلقے میں جا بیٹھے جہاں جوان عورت، سونے کے بٹن اور قیمتی سگریٹ تھے۔ ایک سگریٹ اور سیاسی مسائل پر سستے جذبات کا اظہار کرنے لگے۔ دوسری طرف نکمے بڈھے نے کسان کو ٹکٹ کے دام دیے۔ وہ شکریے میں کچھ اور رونے پیٹنے پر آمادہ ہوا تو نکمے نے بڑے اصرار اور کسی قدر سختی سے روک دیا۔ کلکٹر صاحب پھر سے تشریف لائے اور بے ٹکٹ بڈھے سے مواخذہ شروع کردیا۔ بڈھے نے کرایہ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ ٹکٹ کلکٹر متحیر رہ گیا لیکن فوراً سمجھ گیا کہ واقعہ کیا تھا۔ دوسرے بڈھے سے بولا، ’’آپ نے روپے کیوں دیے؟ آپ کا نقصان کیوں؟ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ بڈھے کو یہ معلوم ہو کہ بے ٹکٹ سفر کرنا معاف کیا جاسکتا ہے۔ دو چار روپے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ ٹکٹ کلکٹر کچھ دیر تک خیال میں کھویا رہا۔ بے خبری ہی میں اس نے اپنا سگریٹ نکالا اور سلگا کر پینے لگا۔ ابھی نصف بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سگریٹ کو فرش پر ڈال دیا اور جوتے سے مَسَل دیا اور دیر تک مسلتا رہا۔ اس کا خیال کہیں اور تھا۔ دور بہت دور۔ قریب کی جھاڑیاں، تار کے کھمبے، درخت، مویشی، پانی کے گڈھے، آسمان کی وسعتیں، افق کا نیم دائرہ، تیزی سے گزرتی اور چکر کاٹتی معلوم ہونے لگیں۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کھڑا ہوا جیسے وہ یا تو ڈبے کی زنجیر کھینچ لے گا یا خود کھڑکی باہر جست کر جائے گا۔ اس نے دونوں انناس ہاتھ میں اٹھائے اور لے جا کر اس کے مالک کے پاس رکھ دیے اور بولا، ’’ان کو واپس لیجیے اور ٹکٹ کے دام لائیے۔‘‘ ٹکٹ کلکٹر کے ارادے میں ایسی قطعیت اور اس کے تیور کا کچھ اندازہ تھا کہ مسافر نے پرس کھول کرٹکٹ کے دام گِن دیے۔ دوسروں نے بھی بغیر کسی تمہید یا تامل کے دام دے دیے۔ ٹکٹ کلکٹر نے سب کو رسید دی۔ ان سے فارغ ہو کر وہ جوان عورت سے مخاطب ہوا اور بولا، ’’شریمتی جی! میں آپ سے روپے نہ لوں گا۔ یہ لیجیے رسید حاضر ہے۔ عورت تیار نہ ہوئی اور رد و قدح شروع ہو گئی۔‘‘

    گاڑی دلّی کے اسٹیشن پر آکر رکی۔ میں بھی اتر پڑا۔ اب دیکھتا ہوں کہ ایک طرف بڈھا کسان دوسرے بڈھے کے پیچھے پیچھے روتا دعائیں دیتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جوان عورت ٹکٹ کلکٹر کے تعاقب میں چلی جارہی ہے اور میں آپ کی خدمت میں باتیں بنانے حاضر ہو گیا۔

    (اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار رشید احمد صدیقی کی ایک تحریر)

  • رشید احمد صدیقی کا گھر اور کنواں

    ’’رشید احمد صدیقی کا گھر سال کے تین سو پینسٹھ دن کھلے گھر کا منظر پیش کرتا تھا۔ اس کیفیت کا اطلاق گھر کے دونوں حصّوں پر ہوتا تھا۔

    کیا مردانہ اور کیا زنانہ۔ آنا جانا لگا رہتا۔ پیدل، سائیکل، تانگہ، موٹر اور گاہے ٹم ٹم۔ رشتہ دار، شاگرد، مداح، احباب، مشاہیر اور بن بلائے مہمان۔

    اسٹاف کالونی میں دور دُور تک کوئی اور گھرانا اتنا خوش معاشرت اور دوست دارانہ نہ تھا۔ یہ بات سنی سنائی نہیں دیکھی بھالی ہے۔ میں ان کا ہم سایہ تھا لیکن یہ مضمون ہم سائیگی کے مشاہدات اور تجربات کے بارے میں نہیں ہے۔

    رشید احمد صدیقی کا گھر ایک اور اعتبار سے دوسرے تمام گھروں سے مختلف تھا۔ ان کے قطعۂ زمین کے مغربی جانب کنارے پر ایک بڑا سا کنواں تھا۔ رشید صاحب نے مکان کی دیوار میں خم دیا اور کنوئیں کو گھر میں شامل کرنے کی بجائے چار دیواری سے باہر رہنے دیا تاکہ لوگ آزادی سے اس کا پانی استعمال کر سکیں۔ نہ منڈیر پر تختی لگی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، نہ کنویں پر کہیں لکھا تھا کہ آبی ذخیرہ کے جملہ حقوق بحق مصنفِ خنداں محفوظ۔ اس نیک کام کی ہر ایک نے دل کھول کر داد دی۔

    عنایت علی خان نے جن کا پلاٹ حاجی صاحب اور صدیقی صاحب کے گھروں کے درمیان تھا مکان بنانے کے منصوبے کو مؤخر کیا۔ کاشت کاری اور چاہی آب پاشی کا تجربہ شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ قطعۂ زمین پالیز میں بدل گیا۔ عنایت علی خان کے کھیت کے خربوزے اور تربوز خوش ذائقہ اور خوش رنگ تھے۔ رشید صاحب کے کنوئیں کے پانی کی تاثیر ہی کچھ ایسی تھی۔

    یہ ایک بڑا سا کنواں تھا۔ چمڑے کا بہت بڑا ڈول ڈالتے جو چرس کہلاتا۔ بیلوں کی جوڑی اس کا موٹا اور مضبوط رسہ کھینچتی ہوئی ڈھلان میں اُتر جاتی۔ بیل کھڈ کے آخری سرے تک پہنچتے اور چرس مینڈھ تک آ جاتا۔ ایک صحت مند آدمی جسے بارا کہتے پہلوانی گرفت سے پانی بھرے چرس کو اپنی طرف کھینچتا۔ تھوڑا سا پانی چھلک کر کنارے کی بلندی سے کنوئیں کی گہرائی میں گرتا۔ چھن چھن چھناک کی آواز بلند ہوتی۔ باقی پانی پختہ اینٹوں کے فرش سے سیلابی ریلے کی طرف بہتا ہوا کھالے میں جا پہنچتا جو اسے رشید احمد صدیقی کے گلابوں اور عنایت علی خان کے خربوزوں تک لے جاتا۔

    ایک رات مَیں کوئی آدھ گھنٹہ تک اس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہا۔ رات ان دنوں مغرب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی تھی۔ آج کل کی طرح نہیں کہ روشنیوں سے ہار مان کر آدھی رات سے پہلے منہ چھپاتی پھرتی ہے۔ میں بستر پر لیٹا ہی تھا کہ تاریکی اور خاموشی میں ایک ترنم گونجا۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ آواز کی کشش نے مجبور کیا اور میں کشاں کشاں اس کنوئیں پر جا پہنچا۔ آواز دیوار کے اس پار رشید صاحب کے مردانہ صحن سے آرہی تھی۔ جگر مراد آبادی اپنے وجد آور ترنم سے غزل سنا رہے تھے۔

    میں کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ شروع گرمیوں کی ٹھنڈی رات۔ گئی بہار کی بچی بچائی خوشبو لیے آہستہ آہستہ چلنے والی پُروا۔ مطلع بالکل صاف۔ نہ بادل کا ٹکڑا، نہ گرد و غبار، نہ چمنی چولھے کا دھواں۔ فضا میں صرف غزل کے مصرعے تیر رہے تھے۔ سوچ کے پَر کھل گئے۔‘‘

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس، رشید احمد صدیقی اردو کے معروف مزاح نگار اور ادیب تھے)

  • قلم اور کھرپی…

    قلم اور کھرپی…

    اردو ادب اور طنز و مزاح کے میدان میں رشید احمد صدیقی بڑا نام اور مقام رکھتے ہیں۔ یہاں ہم ان پر لکھے گئے ایک شخصی خاکے سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گے۔

    یہ خاکہ رشید احمد صدیقی کی وفات کے بعد ان کے شاگرد مسعود حسین خاں نے لکھا تھا جو ماہرِ لسانیات، نقاد اور محقق بھی تھے۔

    ’’رشید احمد صدیقی کو پھولوں سے بہت رغبت تھی، بالخصوص گلاب کے پھولوں سے۔ یہ ان کا پسندیدہ پھول تھا۔ انھوں نے اپنے مکان کے وسیع اور کشادہ صحن میں گلاب کاشت کر رکھا تھا اور ہمہ وقت اس کی دیکھ بھال میں لگے رہتے تھے، کھرپی ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔‘‘

    ’’رشید صاحب معاشرتی و جمالیاتی دونوں اعتبار سے بیرونِ خانہ سے زیادہ اندرونِ خانہ کی زیبائش کے قائل تھے۔ چنانچہ جب کہ مکان کے باہری حصے میں خاک، دھول اڑتی تھی، اندر ایک لہلہاتا چمن اور سبزہ زار تھا اور پھولوں کی وہ بھرمار کہ پریاں قطار اندر قطار۔ قلم کے بعد صرف کھرپی کو یہ شرف حاصل تھا کہ ان کے دستِ مبارک میں دیکھی جاتی جس سے وہ کیاریوں میں قلم کاری کرتے۔‘‘

    ’’پھولوں ہی کی نسبت سے انھیں جانوروں سے چڑ تھی۔ میں نے کبھی ان کے مکان پر کوئی کتا پلا ہوا نہیں دیکھا۔ انھیں سالانہ چوریاں گوارا تھیں، لیکن کتا پالنا منظور نہیں تھا۔ اکثر کہتے کہ انسان سے بہتر جانور ہوتا ہے، لیکن سب سے بہتر یہ خاموش پھول پودے ہوتے ہیں۔ ان کا سب سے قیمتی تحفہ گلاب کا پھول ہوتا اور سب سے بڑی مرحمت گلاب کی پود جسے وہ دوسروں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے اپنے خاص مالی سے آپ کے مکان میں لگوا دیتے۔‘‘