یہ تذکرہ ہے رشید جہاں کا جن کے افسانے اُس وقت کے سماج میں رائج بنیاد پرستی اور جنسی اخلاقیات کے لیے چیلنج ثابت ہوئے اور ان کی کتاب انگارے متنازع ٹھیری، اور اس کی اشاعت و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی۔ رشید جہاں کو اردو ادب کی ایک غیر روایتی خیالات کی حامل اہم افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
رشید جہاں کا پیشہ طب تھا اور نظریات و خیالات کے ساتھ قلم کی طاقت نے انھیں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے پر آمادہ کرلیا تھا۔ وہ بے باک افسانہ نگار تھیں جو خواتین کے مسائل کو دردمندی سے اپنی کہانیوں میں سموتی رہیں اور ان کا مقصد اصلاح اور تبدیلی رہا۔
افسانہ نگار رشید جہاں کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1905 اور وطن علی گڑھ تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ علی گڑھ کے مشہور ماہر تعلیم، مصنف اور مسلم گرلز اسکول اور ویمنز کالج علی گڑھ کے بانی تھے۔ ان کی والدہ بھی علم و فن کی شائق اور اپنے شوہر کی بڑی مددگار تھیں۔ رشید جہاں نے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج سے 1929ء میں طب کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹری کی تکمیل کے بعد وہ اترپردیش میڈیکل سروس میں منتخب ہوئیں اور سب سے پہلے کانپور اور اس کے بعد بلند شہر اور لکھنؤ میں تعینات ہوئیں۔ لیکن لڑکپن ہی سے ادب میں دل چسپی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا بھی شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اور بعد میں انھیں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر شہرت ملی۔ وہ 18 سال کی تھیں جب انگریزی میں انھوں نے ایک کہانی "سلمیٰ” تحریر کی جو معاشرتی موضوع پر تھی۔ اس زمانہ میں ہندوستان کئی تبدیلیاں دیکھ رہا تھا۔ رشید جہاں کم عمری ہی سے اپنے ملک کے سماجی مسائل کو دیکھ رہی تھیں اور قومی تحریک سے بھی متاثر تھیں۔
1931 میں وہ لکھنؤ میں تھیں جہاں ان کی ملاقات سجاد ظہیر، احمد علی اور محمود الظفر سے ہوئی جو ادبی ذوق کے ساتھ ترقی پسند خیالات کے حامل تھے۔ رشید جہاں اس وقت تک کئی کہانیاں لکھ چکی تھیں اور 1933 میں ان سب کے افسانوں پر مشتمل مجموعہ "انگارے” لکھنؤ سے شائع ہوا جس میں رشید جہاں کی دو کہانیوں نے روایتی ذہنوں کو بدکا کے رکھ دیا۔ اگلے برس ان کی شادی محمود الظفر سے ہوگئی۔ لکھنے لکھانے اور ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا اور 1942 میں رشید جہاں لکھنؤ چلی گئیں جہاں انہوں نے نادار اور محتاج لوگوں کا ایک نرسنگ ہوم کھولا۔ اس کام میں ان کو اپنے ڈاکٹر دوستوں کا مفت تعاون حاصل تھا۔
1950 میں رشید جہاں کو سرطان تشخیص ہوا۔ ڈاکٹروں نے علاج کے لیے ماسکو جانے کا مشورہ دیا اور وہاں جانے کے بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ وہ 29 جولائی 1952 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ رشید جہاں کی آخری آرام گاہ ماسکو میں ہی ہے۔
ڈاکٹر رشید جہاں ایک رسالہ ” چنگاری “ کی بھی مدیر تھیں جس کا مقصد خواتین میں شعور پیدا کرنا تھا۔ انھوں نے افسانے ہی نہیں کئی ڈرامے اور مضامین بھی لکھے۔