Tag: رضا علی عابدی کی تحریریں

  • حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    ریل کی نقل و حمل کا آغاز متحدہ ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ 1857ء میں کئی ریلوے کمپنیوں کے انجنیئروں‌ اور بہت سے ہنر مندوں‌ نے یہاں‌ ریلوے ٹریک بچھانے کا کام شروع کیا۔ یہ ریلوے نظام انگریز راج میں یہاں کے عوام کے لیے گویا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ اس نے ہندوستان میں دور دراز مقامات تک لوگوں‌ کی رسائی آسان بنا دی اور مسافروں کے علاوہ مال گاڑیوں کے ذریعے بھاری ساز و سامان بھی آسانی سے دوسرے علاقوں تک پہنچنے لگا۔

    معروف صحافی، مصنف اور محقق رضا علی عابدی کی کتاب ’ریل کہانی‘ سے یہ اقتباس اس دور کی ایک تصویر دکھاتا ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    1857ء کے یہ وہی دن تھے، جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جا رہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جا رہی تھیں۔

    ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے، تاکہ فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔

    وہ جو آزادی کی دھن میں مگن تھے، سندھ سے لے کر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طمنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر قہر کر رہے تھے، لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔

    کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا۔عمارت کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعے کی طرح بنایا گیا۔ اس میں فصیلیں بھی تھیں، برج بھی تھے، رائفلیں داغنے کے لیے فصیلوں روزن بھی تھے، غرض یہ کہ حملہ آور کو پرے رکھنے کے سارے انتظامات تھے۔ اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے تھے، تاکہ حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے۔ شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیے جاتے تھے۔ یہ شاید وہی دن تھے، جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔ لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے۔ اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی، جہاں یہ اسٹیشن ہے، اسے بھی ہٹا کر دور لے جانا پڑا۔

  • علم دوست خدا بخش

    علم دوست خدا بخش

    جب کبھی کہیں‌ اجاڑ موسم آتا ہے تو پرندے وہاں سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔ کچھ یہی حال کتابوں کا ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جب تاتاریوں نے بغداد کو لوٹا تو وہاں کی کتابیں ٹونک تک پہنچیں اور جب عیسائیوں نے قرطبہ پر دھاوا بولا تو وہاں‌ پٹنہ تک گئیں۔

    ہمارا یہ باب پٹنہ کے لیے مخصوص ہے۔ ایک صاحب تھے "خدا بخش”۔ علم و ادب پر ان کے اتنے احسانات ہیں‌ کہ دل سے ان کے لیے یہی صدا نکلتی ہے کہ خدا بخشے۔

    ان کے والد جب انتقال کرنے لگے تو ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک ہزار چار سو کتابیں‌ بیٹے کے حوالے کرگئے اور کہہ گئے کہ جوں‌ ہی حالات اجازت دیں ان کتابوں کو عوام کے لیے کھول دینا۔

    خدا ایسی کتابیں اور ایسے بیٹے سب کو دے۔ خدا بخش علم کے اس خزانے میں‌ نئے نئے جواہر بھرتے گئے، یہاں‌ تک کہ ان کے پاس چار ہزار مخطوطے جمع ہوگئے۔ اب یہ کھیتی پک کر تیّار تھی۔ بیٹے نے باپ کا خواب پورا کر دکھایا۔ 29 اکتوبر 1891ء کو یہ کتب خانہ وقف قرار پایا اور کتب خانے کا نام رکھا گیا ” اورینٹل پبلک لائبریری” اس کے نام میں‌ نہ کسی شخصیت کا نام شامل تھا، نہ کسی کاروباری ادارے کا۔ مگر اس زمانے میں‌ عوام طے کیا کرتے تھے کہ ان کا محسن کون ہے۔

    چناں چہ لوگ نہ مانے۔ انھوں نے اورینٹل پبلک لائبریری کو اوّل دن سے خدا بخش لائبریری کہا اور بانکی پور کے بارونق علاقے میں وہ آج بھی خدا بخش لائبریری کے نام سے ماضی کی عظمتوں کا مینارہ بنی کھڑی ہے اور اس کی کرنیں‌ کہاں‌ کہا‌ں نہیں بکھری ہیں۔

    (نام ور براڈ کاسٹر، محقّق، مصنف اور سفر نامہ نگار رضا علی عابدی کے قلم سے)