Tag: رضی اختر شوق

  • رضی اختر شوقؔ: جدید لہجے کا خوش فکر شاعر

    رضی اختر شوقؔ: جدید لہجے کا خوش فکر شاعر

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

    یہ رضی اختر شوقؔ کا مشہور شعر ہے۔

    اردو زبان کے معروف شاعر رضی اختر شوقؔ کا اصل نام خواجہ رضیُ الحسن انصاری ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو کراچی میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ رضی اختر شوق اردوق میں‌ جدید لہجے کے ایسے شاعر تھے جو ہم عصروں میں‌ اپنے سلیقۂ اظہارِ خیال کے سبب ممتاز ہوئے اور دلدادگانِ شعر و ادب میں ان کا کلام بہت پسند کیا گیا۔ رضی اختر شوق نے شاعری میں اپنے تخیل کو کچھ اس سلیقے سے برتا کہ ان کے متعدد اشعار زباں‌ زدِ عام ہوئے۔

    شاعر رضی اختر شوق کا تعلق سہارن پور سے تھا۔ وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ رضی اختر شوق نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں مکمل کی۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا اور پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی زندگی کراچی شہر میں بسر ہوئی اور اسی شہر میں ادبی مشاغل میں مصروف رہے جن میں مشاعرے، تنقیدی نشستیں اور دوسری ادبی تقاریب شامل ہیں۔ رضی اختر شوق نے جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ وہ شاعر ہی نہیں ڈرامہ نویس بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے کئی ڈرامے تحریر کیے جو اپنے زمانے کے اس مقبول تفریحی میڈیم کے ملک بھر میں موجود سامعین کے لیے یادگار ثابت ہوئے۔

    رضی اختر شوق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جن کا کلام خوب صورت جذبوں اور لطیف احساسات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ان کی بلند خیالی کا نمونہ ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اور جست شامل ہیں۔

    رضی اختر شوق کی ایک غزل دیکھیے۔

    اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
    زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

    خلقتِ شہر یونہی خوش ہے تو پھر یوں ہی سہی
    ان کو پتّھر دے، مجھے ظرفِ پذیرائی دے

    جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
    یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

    تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
    کوئی اتنا بھی نہیں طعنہَ رسوائی دے

    مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
    پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے

    رضی اختر شوق کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    آج اردو زبان کے نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا۔ 23 اپریل 1933ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور اردو زبان میں‌ تعلیم و تدریس کے لیے دنیا بھر میں‌ مشہور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد رضی اختر شوق کراچی آگئے جہاں جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں انھوں نے ادبی حلقوں میں اپنے جدید اور منفرد لب و لہجے کے سبب پہچان بنائی۔ وہ ایک اچّھے ڈراما نگار بھی تھے اور ان کے ڈرامے ریڈیو پر پسند کیے گئے۔

    رضی اختر شوق کے شعری مجموعوں میں مرے موسم، مرے خواب اور جست شامل ہیں۔ ان کے متعدد اشعار میں سے چند یہ ہیں۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

    ایک پتھر، اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں
    میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے

  • رضی اختر شوق نے کہا تھا، کل کسی اور نام سے آجائیں‌ گے!

    رضی اختر شوق نے کہا تھا، کل کسی اور نام سے آجائیں‌ گے!

    خواجہ رضی الحسن انصاری کو دنیائے ادب رضی اختر شوقؔ کے نام سے جانتی ہے۔

    انھیں جدید لب و لہجے کا شاعر مانا جاتا ہے۔ رضی اختر شوق نے اردو شاعری میں اپنے تخیل کو کچھ اس سلیقے سے برتا کہ ہم عصروں نے انھیں سراہا اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ شائقین نے ان کے کلام کو پسند کیا اور ان کے متعدد اشعار زباں‌ زد عام ہوئے۔

    22 جنوری 1999 کو کراچی میں اردو زبان کے اس معروف شاعر کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ سہارن پور کے رضی الحسن انصاری نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن سے حاصل کی۔ جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں کراچی میں قیام و قرار کیا۔ اس شہر میں ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا اور امتحان پاس کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے ریڈیو پر ان کے کئی ڈرامے سامعین کے لیے یادگار ثابت ہوئے۔

    رضی اختر شوق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جن کا کلام خوب صورت جذبوں اور لطیف احساسات سے آراستہ ہونے کے ساتھ بلند خیالی کا نمونہ ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اور جست شامل ہیں۔

    رضی اختر شوق کا یہ شعر تو سبھی کو یاد ہے۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
    زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

    خلقتِ شہر یونہی خوش ہے تو پھر یوں ہی سہی
    ان کو پتّھر دے، مجھے ظرفِ پذیرائی دے

    جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
    یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

    تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
    کوئی اتنا بھی نہیں طعنہَ رسوائی دے

    مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
    پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے