Tag: رفیع اللہ میاں

  • فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    بہ ظاہر فخر (Pride) ایک سیدھا سادہ لفظ دکھائی دیتا ہے، عام طور سے اس کا استعمال بھی معصومانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے پہلو (جن کی نظر میں پہلا پہلو منفی ہے) پر نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ذاتی محنت، مشترکہ انسانی اقدار اور ثقافتی حسن پر فخر جائز ہے۔ وہ دراصل فخر کو بغیر سمجھے اپنانے میں مسئلے کو دیکھتے ہیں، کیوں کہ یہ انسان کو قبائلی تعصب، قوم پرستی اور عدم برداشت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس لیے اس ناسمجھی کے مقابل وہ فخر کو مثبت شعور کے ساتھ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بات نہیں بنتی۔

    خواہ ذاتی محنت ہو یا مشترکہ انسانی اقدار، فخر کا احساس آدمی یا نسل یا قوم یا ثقافت کو بہ ہر صورت مرکز میں لے کر آتا ہے اور ساتھ ہی دوسرے کو کنارے پر دھکیل دیتا ہے۔ لوگ اپنی بقا اور ترقی کے لیے محنت کرتے ہیں، کسی کو کم کسی کو زیادہ کامیابی ملتی ہے۔ کامیاب آدمی اپنی محنت پر فخر کرتا ہے، لیکن ناکام آدمی کیوں اپنی محنت پر فخر نہیں کرتا؟ کیا فخر کا یہ احساس محنت سے جڑا ہے یا کامیابی سے؟ اس سوال کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ کامیاب آدمی کا فخر محنت کو استحقاق (خود کو Privileged سمجھنا) کا معاملہ بنا دیتا ہے۔ یہی معاملہ مشترکہ انسانی اقدار کا ہے۔ بہ ظاہر یہ تو بہت زیادہ مثبت لگتا ہے اور اس میں کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا، یقیناً یہ جائز ہے۔ ضرور جائز ہے لیکن ’انسانی‘ اقدار سے محبت جائز ہے کیوں کہ اس محبت کے تقاضے پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہم ان ’انسانی‘ اقدار پر فخر کرنے لگتے ہیں، زمین کی دیگر حیات خود بہ خود دیوار سے لگ جاتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ انسانی اقدار پر دیگر حیات کے تناظر میں سوال اٹھانا ہماری غیر شدت پسند سوچ کے لیے بھی سخت مشکل امر ہے، اور تقریباً ناقابل قبول ٹھہرتا ہے۔ لیکن استحقاق پر مبنی ہمارے پہلے سے فِکسڈ تصورات خواہ کتنے ہی قابل قبول اور ناگزیر کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں، زمین کی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ انسان کو زمین پر جتنا بھی ’استحقاق‘ حاصل ہے وہ اس کی اپنی تشکیل کردہ ہے۔ انسانی اقدار پر فخر نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ غیر انسانی مخلوق کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔

    فخر کو محسوس کرنے کے نازک لمحے میں اگر آپ اپنے سامنے شعوری طور پر یہ سوال بھی رکھتے ہیں کہ کیا یہ فخر تنوع اور دوسروں کی شناخت کو تسلیم کرتا ہے؟ تب بھی یہ مقابلے کے رجحان کو کم نہیں کرتا۔ جیسے ہی آپ ’دوسرے/غیر‘ کو سوچتے ہیں فخر کا لمحہ غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کو ادراک ہو جاتا ہے کہ آپ خود بھی ’دی آدر‘ ہیں۔ فخر کا لمحہ سیلف/ذات کو ’غیر‘ سے کاٹ دیتا ہے۔ دوسرے اور غیر کو اپنے آپ کے برابر تسلیم کرنے سے اپنی ذات (قومی/ثقافتی) کی استحقاق پر مبنی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ فخر کا احساس Privileged احساس ہے۔ اگر یہ احساس خاص نہیں ہے اور ہر ایک کے لیے عام ہے، تو پھر یہ بے معنی ہے۔

    فخر کے اظہار کو معصومانہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اکثر ’’فخر‘‘ کا اظہار دراصل برتری کے ایک غیر اعلانیہ دعوے میں بدل جاتا ہے۔ جیسے کہ ’’ہم غیرت مند ہیں‘‘ ، ’’ہم بڑے دل والے ہیں‘‘ ، ’’ہم مہمان نواز ہیں‘‘ ! ان جملوں میں اکثر ’ہم‘ کی جگہ اپنی قوم کا نام داخل کیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر ان جملوں میں بھی ’اپنی خصوصیت‘ کا سادہ اظہار ہے، لیکن یہ زبان مکمل طور پر بائنری اپوزیشن پر تعمیر شدہ ہے۔ اس لیے جب انھیں دہرایا جاتا ہے تو دوسروں کو کم تر سمجھنے کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہاں فخر محبت کا اظہار نہیں بلکہ ’’ہم اور تم‘‘ کے مقابلے کا بیان بنا ہوا ہے۔

    کبھی کبھی یہ احساس محرومی کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ انسانی گروہ، انسانی طبقات اور حتیٰ کہ انسان صنفی طور پر بھی ہمیشہ ایک دوسرے کو زیرِ دست لانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ جسے دبایا جاتا ہے، جس کا استحصال کیا جاتا ہے اس کے اندر فخر کا احساس ایک مزاحمتی عمل کے طور پر ابھرتا ہے۔ وہ خود کو جوڑنے اور اپنے آپ کو مجتمع کرنے کے لیے اپنی شناخت پر فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ قابض اور غاصب جس شناخت کو اس کے لیے قابل نفرین بناتا ہے، وہ اسی شناخت کو فخر کے لمحے میں بدل دیتے ہیں تاکہ وہ کم تری کے احساس سے مکمل مغلوب ہو کر ختم نہ ہو جائیں اور غلام نہ بن جائیں۔

    محبت اور فخر میں یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ فخر تکبر کے بغیر نہیں ہے۔ کسی خوش نما اور پُر فضا علاقے میں پیدائش اور پرورش ایک خوش نصیبی ہے۔ لیکن جو لوگ سخت اور سنگلاخ زمینوں پر پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اپنے علاقے کی آب و ہوا اور سخت زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دل جتنا پُر فضا علاقے کے لوگوں کا خوشی اور محبت سے دھڑکتا ہے، اتنا ہی سخت علاقے کے لوگوں کا بھی۔ یہ حیاتیاتی تنوع ہے۔ خوش رنگ رسمیں ہر علاقے کے لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ یہ انسانی ثقافت کی خوبی ہے اور یہ انسانی فطرت بھی ہے کیوں کہ اسے زیادہ جینے کے لیے خوش ہونے کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ تو پُر فضا علاقے کی عادت اور محبت کے اظہار کے لیے ’فخر‘ کا پیمانہ ایسا ہے جیسے مستطیل کو دائرے سے ماپنا۔ اس لیے جب مخصوص علاقے پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ احساس اپنے اندر غیریت کا عنصر لیے ہوئے ہوتا ہے۔ عملی طور پر سنگلاخ علاقے کے آدمی کے چہرے کے سخت نقوش دیکھ کر نرم اور پُر فضا علاقے کے آدمی کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک جو کہانی سنایا کرتی ہے اس کا عنوان تکبر کے علاوہ کچھ اور ممکن ہی نہیں ہے، جسے عام طور پر ’’شکر‘‘ کے عنوان سے چھپا دیا جاتا ہے۔

    یہ بات ہزاروں بار دہرائی جا چکی ہے کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ لیکن شاید بالکل اسی وجہ سے اتنے سارے انسانوں اور قبیلوں اور گروہوں کے درمیان اس کے اندر الگ سے پہچانے جانے کا جذبہ (ذاتی بھی قومی بھی) شدید تر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی نفسیاتی ضرورت بن چکی ہے کہ یا تو وہ خود کو بڑی کہانی بنا دے یا کسی بڑی کہانی کا حصہ بن جائے تاکہ خود کو اپنے آپ کے سامنے اہم محسوس کرا سکے۔ فخر کے احساس کے پیچھے ایسی ہی ایک بڑی کہانی، ایک بڑا بیانیہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس ’’بڑی کہانی‘‘ کو ہم اس کے ثقافتی سرمائے میں بیان ہونے کے عمل سے گزرتے دیکھ سکتے ہیں جو زبان، موسیقی، شاعری، شادی بیاہ کی رسوم اور مجموعی روایات پر مبنی ہے۔ فخر کے احساس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ثقافتی معاملے کو اس کی بالکل ضد یعنی فطرت سے جوڑ کر پیش کرے، تاکہ ایک ’سچ مچ کی‘ بڑی کہانی بنانے میں آسانی ہو۔ فطرت اور ثقافت ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن فخر کا احساس ان دونوں کو بغل گیر کرا دیتا ہے اور ثقافتی مظاہر فطری مظاہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا احساس ہے جو ثقافتی مظاہر (جیسے کہ زبان، لباس، رسوم، رویے) محض اختیاری چیز نہیں بلکہ ’وجودی حقیقت‘ بنا دیتا ہے۔ جب فطرت اور ثقافت کا امتیاز مٹتا ہے تو دوسروں کے بیانیوں کے مقابلے میں اپنا بیانیہ زیادہ جاذب اور مؤثر بن جاتا ہے، یعنی زیادہ پائیدار، زیادہ قدیم، زیادہ خوب صورت۔ مختصر یہ کہ جب محبت اور فخر میں فرق مٹتا ہے تو ثقافت اور فطرت میں بھی فرق دھندلا جاتا ہے۔

    فخر کے بیانیے کو اگر میں بیان کروں تو یہ کہوں گا کہ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو فرد کی شناخت کے ساختیاتی (structural) نظام میں جذب ہو چکا ہے۔ یعنی وہ جس بات پر فخر کر رہا ہے وہ اس کے نزدیک ایک گہری سماجی تشکیل نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت (objective truth) ہے۔ یہ رویہ متبادل امکانات سے محرومی پر منتج ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فخر ایک دھندلا عدسہ ہے، لیکن جب وہ اس سے خود کو اور دنیا کو دیکھتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ عدسہ شفاف ہے۔ فخر کا احساس شعور کی گہرائی میں اترتا ہے اور مزید طاقت ور ہو کر وہیں سے سطح پر نمودار ہوتا ہے، اس لیے شعور میں رچ بس جانے والا بیانیہ آئیڈیالوجی بن جاتا ہے، جس کی خاصیت سے ہم سب واقف ہیں کہ یہ ہمیشہ خود کو برتر بنا کر پیش کرتی ہے اور دوسرے کو اپنا غیر بنا دیتی ہے۔

  • ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    پاکستان کے منظر نامے پر جہاں ایک طرف سیاسی میدان میں چلنے والی اکھاڑ پچھاڑ زور و شور سے جاری ہے، وہاں دوسری طرف چند برسوں سے ایک اور محاذ بہت شدت سے گرم رہا ہے، جس پر حکومتی سطح پر ’دشمن‘ سے ایک بڑی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس دشمن نے پوری دنیا میں پاکستان کے گرد ایک سرخ دائرہ بنا رکھا ہے۔ یہ دشمن ہے پولیو وائرس!

    اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو گزشتہ چند برسوں سے ملک بھر میں شد و مد کے ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور ابھی 3 فروری کو 2025 کی بھی پہلی قومی انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے، جس میں 4 کروڑ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ پاکستان سے ’’پولیو کا مکمل خاتمہ‘‘ حکومت کی اوّلین قومی ترجیح بنا ہوا ہے، اور وسیع سطح پر مہمات چلائے جانے کے باوجود یہ ایک حیران کن امر ہے کہ پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا، اور ملک کے مختلف حصوں سے نہ صرف پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز سامنے آ رہے ہیں بلکہ پولیو کیسز بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں 73 پولیو کیس سامنے آئے تھے، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔ یہاں تک گزشتہ 20 سالوں میں آزاد کشمیر سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، لیکن وہاں بھی سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلنے لگے ہیں، گزشتہ سال میرپور آزاد کشمیر، اور رواں برس آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سیمپلز مثبت نکلے ہیں۔

    دی ڈریمرز: ہیروز فائٹنگ فار آ پولیو فری پاکستان

    اگست 2024 میں جب راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے پاکستان کی تاریخ کے ایک دل کو چھو لینے والے پنّے کو پلٹا تھا، تو اسکرین پر ڈائریکٹر سید عاطف علی نے ننھے اقبال مسیح کی سچی کہانی کو بہت دل پذیر طور سے منتقل کر دیا تھا۔ وہ تاریخ کے چند اور حیران کن اوراق ہمیں دکھا چکے ہیں، جو ان کی فلم میکنگ کی مہارت کا بیّن ثبوت ہے۔ لیکن پھر پچھلی بار کچھ ایسا ہوا کہ جب انھوں نے بلوچستان میں موجود قدیم تاریخی مندر پر ’ہنگلاج کی دیوی‘ نامی ڈاکیومنٹری بنائی تو یوٹیوب پر ریلیز ہونے والی 43 منٹ کی اس دستاویزی فلم کے پریمیئر شو میں پہلی بار مایوسی کی لہر محسوس کی گئی۔ کم زور اسکرپٹ اور پیش کش کی وجہ سے اس پر کئی سوالات ذہن میں اٹھے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، کیوں کہ ڈائریکٹرز کی ہر کوشش ہٹ نہیں ہوا کرتی۔

    ’پری‘ اور ’پیچھے تو دیکھو‘ جیسی خوب صورت فلمیں بنانے والے سید عاطف علی نے جب اگلی دستاویزی فلم کے لیے پاکستان میں پولیو جیسے حساس موضوع کو چُنا تو موضوع کی وجہ سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتی تھیں۔ لیکن انھوں نے بڑے اعتماد اور شان دار طریقے سے اس طرح ’کم بیک‘ کیا کہ حساس اور خشک موضوع پر ایک سنسنی خیز دستاویزی فلم تخلیق کر دی۔ اپنے مواد کے حساب سے اسے اگر سنسنی خیز کہا جا سکتا ہے، تو دوسری طرف شان دار طریقے سے اسکرین پر اس کی منتقلی کو ڈائریکٹر کی ایک تخلیقی جست بھی کہا جا سکتا ہے۔ شروع سے آخر تک پوری ڈاکیومنٹری دیکھتے ہوئے کہیں ایک لمحے کے لیے محسوس نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کا کنیکشن اسکرین سے منقطع ہو گیا ہے۔ اس فلم میں اسکرین پر ان کی اسٹوری نریشن بہت طاقت ور رہی۔

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    راوا فلمز کے تحت بننے والی ان ڈاکیومنٹری فلمز کی منفرد بات یہ رہی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ان فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما میں اسکریننگ کی گئی، اور پریمیئر شو رکھے گئے، جن میں بڑی تعداد میں متعلقہ لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ لیکن اس سلسلے کو اچانک جھٹکا اس وقت لگا جب ’’دی ڈریمرز‘‘ کے سنسر سرٹیفکیٹ کے لیے سندھ بورڈ آف فلم سنسرز سے رابطہ کیا گیا۔ سندھ بورڈ آف فلم سنسرز نے اس ڈاکیومنٹری فلم کو سنسر سرٹیفکیٹ دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ بورڈ نے جائزے کے بعد اسے عوامی نمائش کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آخر قومی سطح کے ایک حساس موضوع پر بننے والی ایک دستاویزی فلم کو آخر کیوں لوگوں کے لیے نامناسب قرار دیا گیا، جب کہ اس میں شہریوں کو پولیو ویکسین کی اہمیت کا شدید احساس دلایا گیا ہے؟ بہرحال یہ فلم اب یوٹیوب چینل پر ریلیز کی جا چکی ہے، جہاں اسے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

    دی ڈریمرز میں ایسا کیا ہے؟

    پولیو ایسا وائرس ہے جس کے خلاف پاکستان کی وفاقی اور صوبائی وزارت صحت نے کئی برسوں تک تواتر کے ساتھ پوری شد و مد کے ساتھ مہمات چلائیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اس لیے اس کے بارے میں عام لوگوں تک ابتدائی آگہی پہنچ چکی ہے۔ کچھ منفی عناصر کی جانب سے پولیو ویکسین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا، اور کافی لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلاتے، تاہم زیادہ تر آبادی اس کے خلاف جنگ پر متفق ہے۔ حکومتی کوششوں کے سبب عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں پولیو کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ لیکن ایک اہم نکتہ جو اس دستاویزی فلم سے عام لوگوں کے سامنے ایک انکشاف کی صورت میں آتا ہے، وہ ایک ایسا محاذ ہے جس پر پولیو کے خلاف لڑائی کے بارے میں سرکار کبھی بات نہیں کرتی۔

    کیا صرف ویکسین کافی ہے؟

    1960 کی دہائی میں امریکا میں بھی پولیو کے لاکھوں کیسز تھے، لوگ قطاروں میں لگ کر ویکسین لگواتے تھے۔ لیکن صرف ویکسین ہی نہیں تھی جس نے وائرس کا خاتمہ کیا، بلکہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے سینیٹیشن کا نظام بہتر کیا، یعنی صحت اور صفائی کا نظام جس کی وجہ سے وائرس پوری طرح سے ختم ہو گیا۔ امریکا میں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں مہم چلائی گئی کہ عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم ہونا چاہیے، یہ مہم چلتے ہی پولیو کے کیسز کا گراف تیزی سے نیچے گرا، حالاں کہ اس وقت ان کی ویکسینیشن کی کوریج بھی 80 سے 85 فی صد تھی، جب کہ پاکستان میں کوریج 97 فی صد تک بھی جا چکی ہے لیکن پھر بھی یہاں سے پولیو ختم نہیں ہو رہا۔ جیسے ہی لوگوں کو پینے کا صاف ملنے لگا نہ صرف پولیو بلکہ دیگر کئی بیماریاں (جیسا کہ ہیپاٹائٹس اے، ٹائفائیڈ، کالرا)بھی ختم ہو گئیں۔

    ویڈیو میں کراچی میں سینیٹیشن کے نظام پر بات کی گئی، اور بتایا گیا کس طرح گھروں سے فضلہ نکلتا ہے اور پینے کے پانی کے نظام کے ساتھ باہم ملتا ہے، یہ اس حد تک مدغم ہے کہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے پانی لے ٹیسٹ کریں اس میں ای کولائی بیکٹیریا ملتا ہے۔ جن علاقوں کی ہائجینک صورت حال اچھی نہیں ہوتی، وہاں پولیو وائس پایا جاتا ہے۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کا ایک طریقہ ویکسین ہے اور دوسرا صحت و صفائی۔ اگر یہ دونوں ایک ساتھ روبہ عمل نہیں لائے جاتے تو پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت کی انسداد پولیو کی کوششوں پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس سے ایک سادہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومتوں کو پہلے اپنی تمام آبادی کو پوری ایمان داری کے ساتھ پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہوگا اور علاقوں میں صفائی کا نظام بہتر بنانا ہوگا۔ تو کیا پاکستان میں حکومتی رویے اور اقدامات دیکھ کر ایسا کچھ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟ یہ وہ بڑا سوال ہے جس سے حکومتیں ہمیشہ خائف رہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اس حد تک ایکسپوز ہو چکی ہیں کہ کوئی بھی پاکستانی ان سے اس کی امید نہیں رکھتا۔

    اس ڈاکیومنٹری فلم میں ایک اور اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ لوگ حقیقتاً اب پولیو ویکسین کے قطرے اپنے بچوں کو پلا پلا کر تھک چکے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ویکسین کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈے پر بھی آسانی سے یقین کر لیا ہے۔ ایک شخص اپنے بچپن سے یہ قطرے پیتا آ رہا ہے اور پھر اس کے بچوں نے پیے اور اب اس کے پوتے پوتیاں قطرے پی رہے ہیں، لیکن اس میراتھن ریس میں خاتمے کا نشان قریب نہیں آ رہا۔ نائجیریا جیسے ملک نے بھی اس کا خاتمہ کر لیا ہے، اور وہ اس حوالے سے آخری ملک ہے، جس کے بعد اب دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان دو ملک پولیو متاثرہ رہ گئے ہیں۔

    سرکاری حکام اس بارے میں بتاتے ہیں کہ افغانستان میں حکام کا پولیو کے پھیلاؤ پر قابو نہیں ہے، اور چوں کہ سرحد پر افغانستان سے آبادی کی نقل و حرکت بہت زیادہ اور آزادانہ ہے، اس لیے وہاں سے پولیو وائرس منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بارڈر پر دونوں طرف پولیو ٹیمیں اب مستقل طور پر تعینات رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والوں کو پولیو قطرے پلائے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس حوالے سے دونوں ممالک میں اب ایک ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغانستان کی نسبت پولیو کیسز زیادہ ہیں۔ اس لیے حکام کے طرف سے پڑوسی ملک پر بار ڈالنے کے بیانات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے کہ یہ ایٹمی ملک کب پولیو کا خاتمہ کرتا ہے۔ پولیو مہمات کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ہماری اتھارٹیز ان کا جواب نہیں دے پائیں۔

    کرپشن کی سطح

    ڈاکیومنٹری میں ہیلتھ جرنلسٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب پاکستان میں کوئی بچہ پولیو وائرس سے معذور ہوتا ہے تو ملک میں کچھ لوگ مزید امیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو پولیو پروگرام سے برسوں سے وابستہ ہیں اور انھوں نے جائیدادیں بنا لی ہیں، اور وہ ارب پتی ہو گئے ہیں۔ ویڈیو میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پولیو پروگرام کو لوگوں کی دولت میں اضافے کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ بہ طور قوم ہم پولیو کے خاتمے میں مکمل طور پر کیوں ناکام ہوئے۔ اس میں وہ آنکھیں خیرہ کرنے والے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں کہ ورلڈ بینک سمیت کس کس ادارے نے پولیو کے خاتمے کے لیے اربوں ڈالر پاکستان کو دیے۔ پیسہ بے حساب آیا، لیکن وائرس ختم نہیں ہوا۔ آخر ذمہ دار کون ہے؟ یہ خطرناک پوائنٹ آف ویو سامنے رکھا گیا ہے کہ اگر کہیں کنفلیکٹ آف انٹرسٹ ہے تو آپ چاہیں گے کہ بیماری ختم نہ ہو، چاہیں گے کہ لوگ پولیو ویکسین کے قطرے نہ پلائیں، یعنی جو کام کرنا ہے وہ نہیں کرنا، اور روڑے اٹکا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک بتایا گیا کہ کوریج اتنی نہیں تھی جتنا رجسٹر بھر بھر کر ظاہر کیا گیا۔ یہ دستاویز ہمیں ’فیک فنگر مارکنگ‘ کے بارے مین بھی کھل کر بتاتی ہے، جس کے بارے میں میڈیا میں کبھی بات نہیں کی جاتی۔ پولیو مہمات کے دوران ڈرائیور، مالی اور چوکیداروں کو یونین کونسلز کے میڈیکل آفیسرز لگانے کی نشان دہی کی۔ کمیونکیشنز کے لیے ایسے لوگوں کی بھرتی پر بات کی گئی جنھوں نے پیسے اینٹھنے کے لیے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو بھرتی کیا۔ یہ ڈاکیومنٹری بہت درد مندی سے بتاتی ہے کہ دوسروں کے بچوں کی معذوری اور لاشوں پر امیر ہونے کا یہ سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔

    پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا

    اس ڈاکیومنٹری میں پولیو ویکسین کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر وسیع طور پر بات کی گئی ہے، اور اس کے سبھی پہلوؤں کو بہت اچھے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کو اس کا بات کا ادراک بھی نہیں ہوگا کہ ماضی میں کراچی کے ایک ’مقبول‘ اخبار نے اس کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں پولیو ورکرز کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ 2019 میں سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈے کے باعث عارضی طور پر پولیو پروگرام کو روکنا پڑ گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے ہونے والی منفی سرگرمیوں پر بات کی گئی۔ خود ساختہ اور عاقبت نا اندیش عالموں کی مخالفانہ روش کو نمایاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیو سے متعلق اس ڈاکیومنٹری میں ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب ناظرین اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کو اس سارے مسئلے سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں، کہ کس طرح شکیل آفریدی نے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کے بارے میں معلومات سی آئی اے کو فراہم کیں، جس کی وجہ سے جہادی عناصر میں پولیو ورکرز کے خلاف شدید غصہ پیدا ہوا۔ مختصر یہ کہ ایسے حالات بن گئے ہیں کہ بقول پولیو ورکر صبا علی ہم بارڈر پر بھی لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہاں پولیو ورکرز کو بھی مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ امریکی اور یورپی ورکرز کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ ڈیوٹی کے دوران مارے جاتے ہیں تو انھیں حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے ملتے ہیں۔ ویڈیو میں یہ قضیہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جو پولیو ورکر مارے جاتے ہیں ان کے گھر والوں کی اچھے سے کفالت کی جانی چاہیے۔

    صرف یہی نہیں، اس ڈاکیومنٹری فلم کا ایک بڑا قصور یہ بھی ہے کہ اس کا اختتام پریشان کن اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ پاکستان سے پولیو وائرس کے خاتمے کی ایک امید کے ساتھ کیا گیا ہے۔

  • ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
    ڈریٹن میں ہمت نہیں تھی کہ اندھیرا پھیلنے تک اس جگہ سے حرکت بھی کرے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اس پر بدحواسی چھائی ہوئی تھی اور وہ دبک کر بیٹھا تلی ہوئی مچھلیوں اور پھلیوں کی خوش بو سونگھ رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں سخت بھوک سے چوہوں نے طبل جنگ بجا دیا تھا۔ آخر کار اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی جادوئی طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے شہد کی مکھیوں کو حکم دیا کہ وہ چھتے چھوڑ کر کیمپنگ ایریا پر حملہ کریں اور اس ٹرپ کو برباد کر دیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔
    اس وقت جولیان باقی سب کو اپنے تسمانیہ کے سفر کی روداد سنا رہا تھا، جب درختوں پر موجود چھتوں سے شہد کی مکھیوں کے غول کے غول کیمپ کی طرف بڑھے۔ ابتدا میں چند مکھیاں ان تک پہنچیں تو انھوں نے توجہ نہیں دی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ چونک اٹھے۔ فیونا نے اپنے چہرے کے پاس اڑنے والی مکھی کو ہاتھ لہرا کر بھگایا اور حیرت سے کہا: ’’یہ مکھیوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
    اینگس نے کہا اف خدا بہت ساری شہد کی مکھیاں چلی آ رہی ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکلنے لگیں، وہ سب شہد کی مکھیوں کو مار رہے تھے لیکن وہ بھی ڈنک مارنے میں کامیاب ہو رہی تھیں کیوں کہ بہت زیادہ تھیں۔ مجبور ہو کر وہ اٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ہر ڈنک کے ساتھ ان کے منھ سے تکلیف دہ چیخ نکلتی تھی۔ ایسے میں جونی کے دماغ نے کام کیا اور وہ چلا کر بولا: ’’یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔‘‘
    انکل اینگس نے یہ سن کر اپنا جبڑا رگڑتے ہوئے کہا فیونا سے کہا کہ وہ بھی جانوروں سے بات کر سکتی ہے تو ان سے بات کر کے جان چھڑاؤ۔ فیونا کو خود شہد کی مکھیوں سے بہت ڈر لگ رہا تھا، اس نے ڈرتے ڈرتے مکھیوں کو پیغام بھیجا: ’’میرے دوستوں کو ڈنک مارنا بند کر دو۔ میری ممی گھر میں شہد کی مکھیاں خود پالتی ہیں اور دیکھ بھال کرتی ہیں، تم ہمارے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
    کئی شہد کی مکھیاں فیونا کے پاس اڑ کر گئیں اور کہا کہ انھیں ڈریٹن نے حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، اور جب حکم دیا جائے تو انھیں ماننا پڑتا ہے۔ فیونا نے کہا تو میں تمھیں رکنے کا حکم دیتی ہوں، ڈریٹن بہت بری آدمی ہے، اسے تمھاری حفاظت کی بھی کوئی پروا نہیں ہے، دیکھو تم میں سے کتنی مکھیاں زمین پر مری پڑی ہیں، جاؤ اور ڈریٹن کو تلاش کر کے اسے ڈنک مارو، وہ ایک شریر آدمی ہے۔‘‘
    مکھیوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ برائی سے زیادہ اچھائی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ فیونا سے بات کرنے والی مکھی اڑ کر دوسری طرف گئی اور گانے کی آوازیں نکالنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہد کی تمام مکھیاں رک گئیں اور پھر اکھٹی ہو کر اس طرف اڑنے لگیں جہاں ڈریٹن چھپا ہوا تھا۔

    جب انھیں اطمینان ہو گیا تو جمی نے کراہتے ہوئے کہا ’’میرے تو صرف ایک بازو پر ایک درجن ڈنک پڑے ہیں۔‘‘ جیفرے نے کہا ’’اور میرے چہرے پر کم از کم بیس ڈنک ہیں۔‘‘ اینگس گاڑی میں بیٹھ کر دریا کی طرف گئے اور بالٹی میں پانی بھر کر لے آئے۔ سبھی بالٹی کے پاس جمع ہو کر کپڑے بھگو بھگو کر زخموں پر لگانے لگے۔
    ۔۔۔۔۔۔

    سورج غروب ہو چکا تھا اور مکمل اندھیرا تھا۔ پہاڑی علاقے میں سخت سردی تھی، ڈریٹن کانپنے لگا تھا اور اس نے اپنے بازو اپنے گرد لپیٹ دیے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ آج رات وہ سو نہیں پائے گا، اس لیے وہ اپنی کار کی طرف بڑھا۔ یہی لمحہ تھا جب شہد کی پہلی مکھی نے اسے ڈنک مارا۔ اس کے منھ سے سسکاری نکلی، اور پھر ایک اور مکھی نے اپنا ڈنک اس کے ماتھے کی جلد میں پیوست کر دیا۔ اور پھر کئی مکھیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کے منھ سے شدید غصے میں غراہٹ جیسی آواز نکلی: ’’بے وقت مکھیوں، تمھیں فیونا پر حملہ کرنا تھا مجھ پر نہیں۔‘‘ لیکن شہد کی مکھیوں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف گیا، اور ایک اخبار نکال کر مکھیوں کو بھگانے لگا۔

    شہد کی مکھیوں سے جان چھڑانے کے بعد اس نے سوچا کہ فیونا اس کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے تو چلو مزید کھیل کر دیکھتا ہوں۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور بارش، بجلی اور اولوں کے بارے میں سوچا۔ پھر جب اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا تو اسے بارش کے پہلے قطرے گرتے محسوس ہوئے، پھر ایک منٹ کے اندر اندر موسلا دھار بارش ہوئی۔ ’’اب مزا آئے گا ان کو۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    (جاری ہے ۔۔۔۔)
  • ایک سو نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    باغ کا مالک ونچنزو انگور کی بیل کی جڑ میں بیٹھ گیا، اور مٹی کھودنے لگا، لیکن اس نے ابھی ایک مٹھی مٹی ہی باہر نکالی تھی کہ ہڈیوں پر مبنی ہاتھ باہر نکلا اور ونچنزو کی کلائی پکڑ لی۔ اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکلی اور ایک جھٹکے سے ہاتھ کھینچا، جس کی وجہ سے وہ پیچھے جا گرا لیکن ہاتھ نہیں چھڑا پایا۔ وہ تینوں خوف سے اسے دیکھنے لگے لیکن ابھی وہ کچھ سوچ بھی ںہیں سکے تھے کہ ایک ہاتھ اور نکلا اور اس نے فیونا کی ٹانگ پکڑ لی۔
    جبران نے صورت حال بھانپ لی اور فوراً پیچھے ہٹ گیا لیکن پھر بھی دیر کر دی، ایک ڈھانچا ہاتھ کی انگلیاں اس کے ٹخنے سے بھی لپٹ چکی تھیں۔ جبران نے نیچے جھک کر ہاتھ کو دیکھا، صرف ہڈیاں ہی تھیں۔ جبران نے زور لگا کر اپنا پیر چھڑانا چاہا تو ہاتھ نے اسے زمین کے اندر کھینچنا شروع کر دیا۔ وہ چلا کر بولا: ’’یہ مجھے اندر کھینچ رہا ہے، میری مدد کرو۔‘‘
    فیونا نے فوراً آگ کے بارے میں سوچا اور ہر ڈھانچے کے بازو کے نیچے ایک شعلہ بھڑک اٹھا، ذرا سی دیر میں شعلوں سے ہڈیاں سیاہ ہو گئیں لیکن کسی نے گرفت نہ چھوڑی۔ ونچنزو آگ کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا۔ اس نے بچوں سے پوچھا کہ یہ آگ اچانک کہاں سے آ گئی، اور تم لوگ ہو کون؟ لیکن اسی وقت ہاتھ نے اسے زمین کے اندر ایک جھٹکے سے کھینچا اور وہ لڑکھڑا کر دوبارہ گر گیا۔
    دانیال نے چلا کر کہا: ’’فیونا، خود کو بڑا کر دو، اس کے بغیر ہم بچ نہیں پائیں گے۔‘‘ ڈھانچا ہاتھ نے مٹی کے اندر کمر تک کھینچ لیا تھا، اور وہ مسلسل اس سے نجات کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ فیونا کو یہ خیال پسند آیا۔ جیسے ہی اس نے بڑا ہونے کے بارے میں سوچا، اُس کا جسم پھیلتا چلا گیا، اور ڈھانچے کے ہاتھ کی گرفت خود بہ خود ہٹ گئی۔ لیکن ہاتھ نے ونچنزو کی طرف جا کر اس کی کلائی پکڑ لی۔ فیونا اس وقت تک بڑھتی رہی جب تک کہ اس کی اونچائی پچاس فٹ نہ ہو گئی۔ پھر اس نے ونچنزو کی کلائی کے گرد لپٹی ہڈیوں کو پکڑا اور اپنی مٹھی میں کچل کر چورا بنا دیا، اس نے دیکھا کہ ہڈیاں ایک سفید پاؤڈر میں تبدیل ہو گئیں۔ ہڈیوں والے ایک ہاتھ نے ونچنزو کی ٹانگ بھی پکڑ رکھی تھی، فیونا نے اسے بھی سفید چورا بنا دیا۔
    دوسری طرف دانیال اب اپنی گردن تک مٹی میں دب چکا تھا، فیونا اس کی طرف بڑھی۔ دانیال اپنا سر زمین سے باہر رکھنے کے لیے سخت کوشش کر رہا تھا، اور اس کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکل رہی تھیں۔ فیونا نے اسے سر سے پکڑ اوپر کھینچ لیا اور وہ زمین سے باہر نکل آیا۔ ہڈیوں والے ہاتھ نے بدستور اس کی ٹانگ پکڑی ہوئی تھی، فیونا نے اسے بھی چورا بنا دیا۔ اس کے بعد فیونا نے جبران کو بھی چھڑا لیا۔
    ونچنزو کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے وہ سچ مچ ہو رہا ہے۔ فیونا نے دانیال اور اسے پکڑ کر اٹھایا اور گھر کے اندر لے جا کر برآمدے میں اتار دیا۔
    باغ کا مالک پوری طرح حیرت میں جکڑا ہوا تھا، لیکن اچانک اس کے منھ سے نکلا: ’’لڑکی، مجھے نہیں پتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن تم جس چیز کو ڈھونڈ رہی تھی مجھے لگتا ہے کہ یہ وہی ہے۔‘‘ ونچنزو نے مٹھی کھول کر دکھائی تو اس میں پکھراج موجود تھا۔ اس نے کہا: ’’جیسے ہی تمھاری انگوٹھی کا یہ قیمتی پتھر میرے ہاتھ لگا، اچانک ہڈیوں والے ہاتھ نے مجھے پکڑ لیا تھا۔‘‘
    فیونا نے بے تابی سے اسے لے لیا اور اپنی آنکھ کے قریب لے جا کر دیکھا تو اس کے اندر ڈریگن دکھائی دے رہا تھا، اسی وقت اس میں چمک پیدا ہو گئی۔ فیونا نے فوراً باغ کے مالک کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے ان سب کی جان بچ گئی۔
    ونچنزو حیران اور پریشان تھا لیکن اس نے کہا: ’’جو کچھ بھی یہاں ہوا، ضرور اس کی کچھ وجہ اور وضاحت ہوگی، لیکن اس وقت مجھے نہیں لگتا ہے کہ میں اسے جاننا چاہوں گا۔ پہلے تم تینوں کچھ کھا پی لو۔ میری بیوی انجلینا اچھا کھانا پکاتی ہے۔ کھانے کے بعد میں تمھیں انگور کا باغ دکھا دوں گا۔‘‘
    کھانا کھانے کے بعد وہ باغ کی سیر کو نکل گئے۔ ونچنزو نے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کا خاندان اٹلی سے تسمانیہ ہجرت کر گیا تھا، اور والد نے یہ انگور کا باغ شروع کیا اور جب وہ گزر گئے تو وہ اسے دیکھنے لگا۔ اس نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ میرا بیٹا نیکولو میرے گزرنے کے بعد اس باغ کو سنبھالے گا، نیکولو ہوبارٹ گیا ہے۔‘‘
    ونچنزو نے انھیں شہر پہنچانے کی پیش کش کی تو وہ خوش ہو گئے۔ جب وہ گاڑی پر چڑھ کر جانے لگے تو فیونا نے اس کے کان کے قریب آہستگی سے کہا: ’’اگر آپ اپنے باغ کے آخری سرے پر جا کر انگور کی آخری قطار سے بالکل پہلے کھدائی کریں گے تو آپ کو ایک خزانہ ملے گا، یہ قیمتی دھاتیں ہیں، شاید سونا یا پھر چاندی۔‘‘ ونچنزو یہ سن کر چونک اٹھا اور حیرت سے فیونا کی طرف دیکھنے لگا، پھر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور وہ گیراج سے باہر نکل آئے۔ کافی دور جا کر اس نے بھی آہستگی سے کہا: ’’مجھے تم پر یقین کرنے کو دل کرنے لگا ہے، جب میں ہوبارٹ سے واپس آؤں گا تو وہاں جا کر ضرور دیکھوں گا۔‘‘
    (جاری ہے۔۔۔)
  • ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    جبران نے اچانک پوچھا کہ جب وہ قدیم آدمی پکھراج کو یہاں دفنا رہا تھا، تو کیا یہ انگور کے باغ یہاں اس وقت بھی تھے یا کچھ اور تھا یہاں؟ دانیال نے فوراً مسکرا کر کہا شکر کرو کہ کوئی غار تو نہیں ہے۔ جبران نے اسے گھور کر دیکھا۔
    فیونا نے دیکھا کہ یہ ایک بہت بڑا انگور کا باغ تھا، جس میں سبز، گہرے جامنی اور عام جامنی رنگ کے انگوروں کے الگ الگ درخت اگے تھے۔ جبران کے منھ میں پانی بھر آیا، اور بول اٹھا: ’’مجھے انگور چاہیئں، انھیں کھانے کو بہت جی للچا رہا ہے۔‘‘
    فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا کہ کام ختم کر کے واپسی پر خوب کھانا کھائیں گے۔ جبران نے حسرت سے انگور کی بھری ہوئی بیلوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں اگر زندہ بچ گئے تو!‘‘
    فیونا نے اس کی بات نظر انداز کی اور وہاں لکڑی کی باڑ سے ٹیک لگا کر مٹی پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کے دماغ میں دہرایا: ’’پکھراج تم انگور کے اس باغ میں کہاں ہو؟‘‘ اور یکایک اس کے ذہن میں ایک تصویر ابھر آئی۔ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور بے اختیار بولی: ’’مل گیا!‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا کہ جبران اور دانیال کے منھ جامنی رنگ کے انگوروں سے بھرے ہوئے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، دانیال معصومیت سے بولا: ’’سچ میں یہ بہت ذائقہ دار انگور ہیں، تم بھی کھا کر دیکھو۔‘‘ فیونا کو بھی اس کے ہاتھ سے انگور کا خوشہ لینا ہی پڑا، لیکن کھانے کے بعد اس کا موڈ بھی اچھا ہو گیا کیوں کہ وہ واقعی بہت مزے دار تھے۔ فیونا بولی: ’’ذائقہ دار ہیں لیکن احتیاط سے، میری ممی کہتی ہیں کہ زیادہ انگور کھانے سے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘
    ’’سچ میں …!‘‘ دانیال چونک اٹھا۔ جب کہ جبران نے اسے نظر انداز کر کے پوچھا کہ پکھراج کہاں ہے؟ فیونا نے جواب میں ایک آہ بھر کر کہا کہ قیمتی پتھر انھیں انگور کے ایک پودے کے نیچے ملے گا۔ دونوں یہ سن کر پریشان ہو گئے کیوں کہ وہاں ایک لاکھ پودے تو ضرور ہوں گے۔ جبران نے پوچھا کہ کون سا پودا؟ فیونا نے بتایا کہ اگر وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہوں تو انھیں بائیں جانب دسویں قطار پر جا کر وہاں سے اندر کی طرف ساٹھ ویں پودے پر جانا ہوگا۔ ’’اور بوبی ٹریپس کا کیا ہوگا؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔
    انھوں نے طے کیا کہ انھیں مطلوبہ درخت تک بہت احتیاط سے جانا چاہیے، چناں چہ وہ آہستہ آہستہ قدم قدم چل کر جانے لگے۔ جبران کی آنکھیں تیزی سے اطراف میں گھوم رہی تھیں تاکہ اگر کوئی خطرہ ہو تو اسے فوراً دیکھ سکے۔ ساٹھ ویں پودے پر پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا درخت کی جڑ میں بیٹھ گئی اور وہاں سے نرم مٹی ہٹائی۔ کچھ نہیں ہوا تو اس نے مٹی ہاتھ سے کھودی اور مٹھی بھر بھر کر دوسری طرف ڈالنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے۔
    یکایک زمین کو ایک جھٹکا لگا اور وہ ہل کر رہ گئی۔ تینوں بری طرح اچھل پڑے اور خوف کے مارے لڑھکتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ جو گڑھا انھوں نے کھودا تھا وہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ دانیال نے چھلانگ مار کر کھڑے ہو کر کہا: ’’پہلا پھندہ … یہ یہ اس سوراخ کو کیا ہو رہا ہے؟‘‘
    وہ دہشت زدہ آنکھوں سے کھودے ہوئے گڑھے کو دیکھ رہے تھے اور پھر انھوں نے دیکھا کہ وہاں سے پہلے سیاہ مکڑیاں نکلنے لگیں اور پھر سرخ۔ جس رفتار سے مکڑیاں نکل رہی تھیں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں رہی ہوں گی۔ فیونا چلائی: ’’مجھے مکڑیوں سے نفرت ہے۔‘‘ اور بھاگنے لگی۔ اسے بھاگتے دیکھ کر جبران اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے، ان کے پیچھے خوف ناک شکلوں اور سرخ پیٹھ والی مکڑیاں دوڑتی جا رہی تھیں۔ تھوڑا سا آگے جا کر فیونا نے مڑ کر دیکھا، مکڑیاں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جبران بولا: ’’سامنے ایک گھر ہے کیا اس کے اندر چلیں؟‘‘ فیونا نے دروازے پر رک کر دستک دے ڈالی، لیکن کوئی ہل جل محسوس نہیں ہوئی تو فیونا نے جلدی سے دروازہ کھولا اور تینوں اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو آوازیں دیں لیکن وہ واقعی خالی تھا۔ دانیال نے سوال اٹھایا کہ کیا مکڑیاں گھر میں نہیں آ سکیں گی؟ جبران کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر وہ گھر کے اندر ہر جگہ نظر آئیں گی اور اس طرح کی مکڑیاں زہریلی ہوتی ہیں، ایسا اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ اچانک دانیال کو کچھ یاد آیا، اس نے فیونا کو جلدی سے مخاطب کیا: ’’فیونا، تم تو جادو کر سکتی ہو، ان مکڑیوں سے بات کر کے ان سے جان چھڑاؤ نا۔ ان سے کہو کہ واپس چلی جائیں۔‘‘
    یہ سن کر فیونا نے آنکھیں بند کر لیں اور دماغی طور پر مکڑیوں سے رابطہ کر کے بولنے لگیں: ’’مکڑیو، ہم پر حملہ کرنا بند کرو۔ دور جاؤ، ہم تمھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے۔‘‘
    وہ جس کمرے میں تھے اس کی کھڑکی پر پہنچنے والی ایک مکڑی نے فیونا کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم ہمیں کنٹرول نہیں کر سکتی، پہلا جادو تمھارے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہے، ہم تمھیں پکڑنے اور مارنے آ رہے ہیں۔‘‘
    جبران نے جلدی سے پوچھا: ’’کیا مکڑیاں واپس جا رہی ہیں؟‘‘ فیونا نے بتایا کہ مکڑیوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تب دانیال نے کہا کہ دوسری طاقتوں میں سے کسی کا استعمال کرو۔ جبران نے دیکھا کہ ایک مکڑی سامنے کے دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی، وہ جلدی سے اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھا اور اسے جوتے تلے مسل دیا۔ دانیال نے کہا اگر اور مکڑیاں داخل ہو گئیں تو ہم انھیں جوتوں تلے مسل کر ختم نہیں کر سکیں گے۔ اتنے میں دوسری مکڑی اندر چلی آئی اور پھر یکے بعد دیگرے مکڑیاں اندر داخل ہونے لگیں۔ فیونا نے فوراً آگ کا تصور کیا اور پھر ایک شعلے نے وہاں موجود تمام مکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ دانیال یہ دیکھ کر چلایا: ’’فیونا احتیاط کے ساتھ، تم انھیں آگ سے نہیں جلا سکتی، ورنہ پورا گھر آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہم بھی جل جائیں گے۔‘‘
    فیونا نے کہا کہ اس کے ذین میں ایک خیال آیا ہے، یہ کہہ کر وہ پچھلے دروازے کی طرف بھاگ کر گئی اور گھر سے باہر نکل گئی، جہاں زمین پر مکڑیوں کی ایک چادر بچی ہوئی تھی۔ وہ ان کے اوپر سے انھیں کچلتی ہوئی دوڑتی چلی گئی۔ اس نے وہاں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دیکھی تھیں، جنھیں ’ڈیڈی لانگ لیگز‘ کہا جاتا ہے۔ جب وہ ان کے قریب پہنچیں تو اس نے انھیں مخاطب کر کے کہا: ’’لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں، آ کر اپنے ان دوستوں کو پکڑو اور ان سرخ پیٹھ والی مکڑیوں کو مار ڈالو، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
    مکڑیوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے فیونا، ہم اپنے دوستوں کو بلاتی ہیں، ہم یہاں کے آس پاس کی سب سے زہریلی مکڑیاں ہیں، اگرچہ ہم انسانوں کے لیے مہلک نہیں ہیں لیکن دوسری مکڑیوں کے لیے بہت زہریلی ہیں۔‘‘
    فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی لمحے اسے گھر کے اندر سے چیخیں سنائی دیں۔ پھر فیونا کو گھر کے پیچھے موجود ایک کھیت سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، اور اس نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دوڑتی چلی آ رہی ہیں، اور سرخ پیٹھ والی مکڑیوں ہڑپ رہی ہیں۔ خطرہ دیکھ کر مکڑیاں بھاگنے لگیں تو لمبی ٹانگوں والیوں نے ان کا پیچھا کیا، فیونا نے دیکھا کہ وہاں مردہ مکڑیوں کا ایک قبرستان بن گیا ہے۔ وہ زور سے ہنسی۔ جبران اور دانیال بھی گھر سے نکل آئے اور وہ بھی خطرناک مکڑیوں کا حشر دیکھنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے اوپر بے شمار لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں رینگ رہی ہیں لیکن وہ مزے سے کھڑی ہے اور انھیں ہٹانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ فیونا نے کہا: ’’یہ میرے دوست ہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈوبتے سورج کی شعاعیں مک ایلسٹر کی کھڑکی سے اندر داخل ہوئیں تو ڈریٹن اس وقت ایک بار پھر گندگی پھیلانے میں جُتا ہوا تھا۔ وہ مکمل طور پر ایک بیمار ذہنیت والا نوجوان تھا، ہمیشہ غلط کام کر کے ہی خوش ہوتا تھا۔ اس وقت وہ فرش پر بکھری خوراک کی اشیا پر چل پھر کر بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید اس گھر میں نہیں رہے گا۔ وجہ ان چیزوں کی بد بو بھی جو اس نے پورے گھر میں پھیلا دی تھیں۔ الماری کے سب سے اوپری تختے پر اس نے جب کئی سلیپنگ بیگ دیکھے تو ان میں سے ایک کھینچ پر اس نے نکال لیا اور باقی فرش ہی پر پھینک دیے۔ اسے لٹکے ہوئے کپڑوں کے پیچھے ایک سوٹ کیس نظر آیا تو ہینگ سے نہایت بدتمیزی سے کپڑے کھینچ کر پھینک دیے اور پیچھے پڑا سوٹ کیس نکال لیا۔ اس کے بعد کپڑوں کی تمام الماریاں کھول کر ان میں سے مردانہ کپڑے نکالے اور سوٹ کیس میں ٹھونس دیے۔ ایک اور بیگ کو خوراک کی چیزوں سے بھرا جو ابھی تک اس نے ضائع نہیں کی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت اس نے آئینے میں خود کو دیکھا، اس کے گلے میں لٹکنے والے ستارے کے چار کونے روشن تھے۔ اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی۔ ’’آٹھ رہ گئے ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    جب وہ قلعہ آذر کے محرابی دروازے پر پہنچا تو سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرے نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر گیا اور فرش پر دونوں بیگ پھینکے پھر سوچنے لگا کہ اسے سلیپنگ بیگ کہاں رکھنا چاہیے۔ سونے کے دوران اسے تازہ ہوا کی ضرورت تھی اس لیے اس نے دروازے ہی کے قریب سونے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے سلیپنگ بیگ پھیلایا اور کھانے کی چیزیں نکال کر کھانے لگا، پھر ایک آواز بلند کی: ’’پہلان… میں یہاں ہوں، آؤ اور مجھے کچھ سکھاؤ۔‘‘
    اسے جواب میں دوسرے کمرے سے ایک آواز سنائی دی، وہ پہلان کو پکارتا وہاں گیا تو پہلان کو بھیڑیوں کے ایک غول کے درمیان پایا۔ ’’یہ تو بالکل اصلی بھیڑیوں کی طرح نظر آ رہے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے ان کے تیز دانت اور رال ٹپکاتے منھ دیکھ کر کہا۔
    پہلان کی سرد اور سرسراتی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی: ’’بے وقوف، یہ اصلی ہی ہیں۔ میں انھیں حکم دے سکتا ہوں، اور یہ لمحوں میں تمھارا گلا دبوچ کر چیر پھاڑ سکتے ہیں۔ یہ میرے دوست ہیں!‘‘
    ڈریٹن نے ہاتھ بے اختیار اپنے گلے پر پھیرا: ’’میں سمجھا تھا کہ تم مجھے اس وقت یہاں دیکھنا چاہو گے تاکہ مجھے کچھ جادو منتر سکھا سکو۔‘‘
    ’’ہاں، میں تمھیں سکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ پہلان کی خوف زدہ کر دینے والی آواز ابھری: ’’میں جو تمھیں سکھانا چاہتا ہوں اسے کہتے ہیں خوف۔ میں چاہتا ہوں کہ تمھیں بتا دوں کہ تم نے خود کو کتنے خطرناک کام میں الجھا لیا ہے۔ تم شاید سوچ رہے ہو کہ یہ کوئی کھیل ہے جس میں تم چند بچوں اور چند قدیم آدمیوں کے مقابلے پر نکلے ہو۔ لیکن میں تمھیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
    اچانک بھیڑیوں نے حرکت کی اور ڈریٹن کے گرد پھیل گئے۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ وہ بھیڑیوں کے دائرے میں قید ہونے لگا ہے۔ خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ وہ لرزتی آواز میں بولا: ’’یہ … یہ بھیڑیے کیا کر رہے ہیں؟ انھیں مجھ سے دور کرو۔‘‘
    پہلان خاموشی سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ بھیڑیوں نے اس کے گرد اپنا گھیرا مکمل کر لیا۔ تب اس نے پوچھا: ’’کیا تم خوف محسوس کر رہے ہو؟‘‘
    ڈریٹن کے حلق سے ڈری ڈری آواز نکلی: ’’مجھے یہ مذاق پسند نہیں۔‘‘
    پھیڑیوں نے اپنا گھیرا تنگ کر دیا۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ بھیڑیے اس کے قریب ہو گئے اور ان کے گلوں سے نکلتی دہشت ناک غراہٹ دل و دماغ پر ہیب طاری کر رہی ہے۔
    ’’تو تم خوف زدہ ہو گئے ہو؟‘‘ پہلان نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے کہا۔ اور اگلے لمحے بھیڑیے ڈریٹن پر جھپٹ پڑے۔ ایک نے اس کی ٹانگ منھ میں دبائی، دوسرے نے ہاتھ کو اور ایک نے اس کے گلے پر جھپٹ کر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے۔
    ڈریٹن کے حلق سے دل دوز چیخیں بلند ہونے لگیں اور قلعے میں گونج کر رہ گئیں۔ وہ فرش پر گر پڑا تھا اور بھوکے بھیڑیے اسے چیر پھاڑ رہے تھے۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخوں میں شیطان جادوگر کے قہقہے بھی شامل ہو گئے تھے۔ یکایک جادوگر نے اپنے قہقہے روک لیے اور پھر ایک لمحے کی بات تھی، جب ڈریٹن اچانک کھڑا ہو گیا۔
    ’’مم … میں زندہ ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے پاگلوں کی طرح اپنے جسم پر ہاتھ پھیر پھیر کر دیکھنے لگا۔ اسے بدن پر زخم کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیا۔ ’’مجھ پر تو بھیڑیوں نے حملہ کیا تھا۔‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا لیکن جادوگر پہلان نے کہا: ’’بے وقوف ڈریٹن، اپنے آس پاس دیکھو، کیا یہاں کوئی بھیڑیا نظر آ رہا ہے؟‘‘
    وہاں سچ مچ بھیڑیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ڈریٹن خوف زدہ بھی تھا اور حیران بھی۔ اسے اچھی طرح محسوس ہوا تھا کہ بھیڑیوں نے اس کا گلا کاٹ لیا ہے اور اسے اب بھی درد محسوس ہو رہا تھا۔ پہلان نے قہقہہ لگا کر اسے بتایا کہ یہ سب اس کے جادو کا کرشمہ تھا۔ پہلان نے جادو کے ذریعے اسے درد محسوس کرایا تھا اور کہا کہ جب وہ بھی کسی کے ساتھ ایسا کر سکے گا تو تب بڑا جادوگر کہلائے گا۔
    پہلان بولا: ’’تم صرف چند کرتب ہی دکھا سکتے ہو، اس کے علاوہ تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب تک تمام قیمتی پتھروں کے ساتھ وہ جادوئی گیند ہمارے ہاتھ نہیں آتا، تب تک میں تمھاری کچھ مدد نہیں کر سکتا۔ گولہ ہمارے قبضے میں آئے گا تو میں بڑے بڑے جادو تمھیں سکھا دوں گا۔ اس وقت تک تم مجھے بار بار پکار کر صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ جب کہ میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ ہر قیمتی پتھر کے ساتھ تمھیں کوئی نہ کوئی طاقت ملتی رہے گی۔ تم بس اسے استعمال کرنا سیکھو۔‘‘
    وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوا پھر بولا: ’’غور سے سنو میری بات، تم ایک نہایت بے وقوف لڑکے ہو۔ گھروں کا آگ لگانا چھوڑ دو اور نہ ہی بچوں کی طرح ہر جگہ اپنے جادوئی کرتبوں کا مظاہرہ کرو۔ آج کے بعد سے تم مجھے اس وقت تک نہیں دیکھ سکو گے جب تک میں یہ دیکھ نہ لوں کہ تم سننے کے لیے تیار ہو۔‘‘
    یہ کہہ کر جادوگر پہلان ایک سفید شعلے کی صورت چمکا اور غائب ہو گیا۔ ڈریٹن نے اس کے جاتے ہی سکون کی ایک لمبی سانس لی اور سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹ گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ خوف ناک بھیڑیے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غرا رہے ہیں۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو پچاس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پچاس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں اور دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے کسی بھی لمحے سینہ توڑ کر باہر نکل پڑے گا۔ اس نے تھر تھر کانپتے ہوئے دھیرے دھیرے گھوم کر دیکھا۔ اس کے اور ان دونوں کے درمیان نوکیلے دانتوں والا قدیم ٹائیگر کھڑا تھا۔ اتنا بڑا ٹائیگر اس نے کبھی تصویر میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹی کار جتنا تھا اور اس کے جسم پر سیاہ اور نارنجی دھاریاں تھیں۔ اس کے سفید چمکتے دانت پینسل جتنے لمبے تھے اور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔
    ایک بار پھر وہ زبردست گرج کے ساتھ غرایا۔ اس کا رخ فیونا اور جبران کی طرف تھا، وہ دونوں بھی پلٹ کر اسے دیکھنے لگے تھے۔ جبران کی ٹانگیں واضح طور پر کانپ رہی تھیں، فیونا کے ہاتھ سے بھی کدال گر گیا تھا اور اسے اس کا پتا بھی نہیں چلا، وہ تو دہشت زدہ ہو کر سیبر ٹوتھ ٹائیگر کو ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ ’’ہم م م م… خط … رے …‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ اس سے قبل کبھی اتنی دہشت زدہ نہ ہوئی تھی۔ پھر ٹائیگر نے ان کی طرف چند قدم بڑھائے اور جبران فیونا کی طرف کھسک گیا۔ اس کے منھ سے نکلا: ’’تت … تم ٹائیگر کی آنکھوں میں مت دیکھو۔ مم … میں … نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹائیگر اپنی آنکھوں کے ذریعے لوگوں کو جکڑ لیتے ہیں، اگر تم آنکھیں نہیں ملاؤ گی تو یہ حملہ نہیں کرے گا۔‘‘
    اس دوران فیونا نے خود کو کسی حد تک سنبھال لیا تھا، اس لیے وہ جبران کی بات پر جھنجھلا کر بولی: ’’لگتا ہے ٹائیگر کو دیکھ کر تمھاری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے، اگر میں اس کی طرف دیکھوں گی نہیں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ وہ کب حملہ کر کے ہماری تِکا بوٹی کرنے آ رہا ہے!‘‘
    ’’فف … فیونا … جلدی کرو، تمھارے پاس قوتیں ہیں، تم آگ سے اس پر حملہ کر دو۔‘‘ جبران اس کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ آگ روشن ہونے سے ٹائیگر دانی کی طرف مڑ سکتا ہے۔ جبران نے اگلا مشورہ دیا کہ اپنی جسامت بڑھا کر اسے دم سے پکڑ کر دور پھینک دو۔ فیونا نے اس پر اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔ اس نے سوچا کیوں کہ ٹائیگر سے بات کی جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ٹائیگر اچانک مڑا اور دانیال کی طرف دوڑ پڑا۔ جبران نے جبلی طور پر اطمینان کی سانس لی کیوں کہ خطرے کا رخ اب کسی اور کی جانب تھا، لیکن پھر وہ دانیال کی طرف چلا کر بولا: ’’دانی بھاگو۔ یہ تمھیں کھا جائے گا۔‘‘ لیکن دانیال نے جب ٹائیگر کو اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو وہ بھاگنا ہی بھول گیا۔ پتا نہیں ایک دم اسے کیا ہوا، زندگی بچانے کی بے پناہ خواہش اور قوت کی وجہ سے اسے ترکیب سوجھ گئی، اور اس نے خود سے کہا: ’’دانی، مر جاؤ!‘‘
    فیونا اور جبران دیکھ رہے تھے کہ ٹائیگر کسی بھی لمحے دانیال کے قریب پہنچ پر اس پر چھلانگ دے مارے گا لیکن وہ چونک اٹھے۔ دانیال اچانک برف پر گر پڑا تھا۔ دونوں حیرت میں پڑ گئے۔ جبران کے منھ سے گھبراہٹ میں نکلا: ’’یہ … یہ دانی کو کیا ہو گیا!‘‘
    ’’ٹھہرو۔‘‘ فیونا پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ٹائیگر اس کے پاس پہنچ کر رک گیا اور اپنی تھوتھنی سے دانیال کو ایک ٹہوکا مارا۔ وہ شاید دیکھنا چاہ رہا تھا کہ دانیال زندہ ہے یا مر گیا۔ دوسری طرف دانیال کو اس کی تھوتھنی سے اٹھنے والی بدبو محسوس ہوئی اور اس نے سمجھا کہ یہ اس کا آخری وقت ہے، اور وہ اللہ کو یاد کرنے لگا۔ ایسے میں جبران نے بے اختیار ہو کر فیونا کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا: ’’تم کچھ کرتی کیوں نہیں ہو، وہ دانی کو کھا جائے گا۔‘‘
    فیونا چپ چاپ ٹائیگر کو دیکھے جا رہی تھی، اس کے ہونٹ بند تھے لیکن آنکھیں چمک رہی تھیں، جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہو۔ جبران اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو اکتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    دوسری طرف ڈریٹن نے ان کا پیچھا جاری رکھا تھا؛ جب اس نے ان تینوں کو ہوٹل ریورزایج اِن میں کمرہ لیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ تینوں رات یہیں گزاریں گے۔ اس نے بھی رات اسی ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے لیے کمرہ لیتے ہوئے جب اس نے فیونا کے کمرے کا نمبر دیکھا تو اس نے کلرک سے ساتھ والے کمرے کی درخواست کی۔ وہ کمرے کی چابی لے کر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج رات ان تین شیطانوں کے ساتھ خوب کھیل کھیلے گا۔ کمرے میں پہنچ کر پہلے تو وہ سو گیا، پھر تین گھنٹے بعد اٹھ کر اس نے خود کو تیار کر لیا۔ اس کے اور فیونا کے کمرے کے درمیان صرف ایک دروازہ تھا۔ اس نے خود کو اتنا چھوٹا کر لیا کہ آسانی سے دروازے کے نیچے سے ہوتا ہوا اندر پہنچ گیا اور پھر اپنے نارمل سائز میں آ گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس نے فون اٹھا کر روم سروس کے لیے آرڈر دیا: ’’مجھے تین عدد آئس کریم چاہیے، اس کے اوپر بہت ساری مکھن ملائی، بارہ سنگھے کی یخنی، روسٹ کی ہوئی اودبلاؤ کی دُم، اور ہاں اس کے ساتھ بہت سارا سان ضرور ہو۔‘‘
    آدھے گھنٹے بعد ویٹر نے دروازے پر دستک دی تو ڈریٹن نے دروازہ کھول کر اسے بھاری ٹپ دی۔ اس کے جانے کے بعد ڈریٹن نے کھانوں کی ٹرے بستر پر الٹ دی، اور تکیے کمبل سمیت دونوں بستر بری طرح خراب کر دیے۔ ’’اب مزا آئے گا۔‘‘ اس نے ایک شیطانی قہقہہ لگایا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبز اور شیمپو کی بوتلیں اٹھائیں اور پورے باتھ روم کی ایسی تیسی کر دی۔ دیواریں، دروازے، سنک، کچھ نہ چھوڑا۔ اس نے کھڑکی کھولی، ہوٹل سے ایک تار قریبی ٹیلی فون کھمبے تک گئی تھی، اس پر کبوتر بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کبوتروں سے کہا: ’’پرندو، اندر آؤ، یہاں گندگی پھیلاؤ۔‘‘
    کبوتروں نے ان کے حکم کو سنا اور اندر باتھ روم میں اڑ کر آ گئے۔ پھر جہاں جہاں وہ بیٹ کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ ڈریٹن نے کھڑکی بند کی اور تولیہ لے کر اسے کبوتروں کی طرف سے زور سے لہرایا، ان کے پر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے۔ اس وقت اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ بڑبڑایا: ’’ریورز ایج اِن کے مہمانوں کے لیے خصوصی سرپرائز!‘‘
    اس کے بعد خود کو دوبارہ ننھا منا کر کے وہ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا، اور قصبے میں گھومنے پھرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    بس اسپیکر سے رینجر کی آواز گونج اٹھی: ’’ہم وائٹ ہارس پہنچ گئے ہیں، ہمارے ساتھ سفر کا لطف اٹھانے کا بہت شکریہ۔‘‘
    ایک ایک کر کے سب بس سے اترنے لگے۔ ڈریٹن کے خراٹوں نے بتایا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ فیونا نے شین سے کہا کہ وہ یاد رکھیں کہ کل گلیشیئرز دکھانے لے جانا ہے۔ شین نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ فیونا نے ڈریٹن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’کاش یہ اگلے سال تک یوں ہی سوتا رہے!‘‘
    تینوں بس اسٹیشن سے نکل کر ٹاؤن کی طرف چل پڑے۔ ’’میرا خیال ہے کہ حسب معمول سب سے پہلے کوئی بینک تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا تو فیونا نے کہا کہ کینیڈا ہونے کی وجہ سے یہاں برطانوی کرنسی چل سکتی ہے، اگر ضرورت پڑی تو بعد میں تبدیل کر لیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہوٹل تلاش کرنا ہوگا، کیوں کہ آج رات یہیں گزارنی ہوگی۔ جبران کے پوچھنے پر کہ آج کون سا دن ہے، فیونا نے کہا: ’’اسکاٹ لینڈ میں اس وقت جمعہ کی سہ پہر ہے تو یہاں یوکان میں جمعہ کی صبح۔‘‘ انھوں نے وہاں ایک قطار میں کئی ہوٹل دیکھے لیکن اب ان میں انتخاب کا مرحلہ باقی تھا۔ تینوں ایک کے بعد ایک ہوٹل دیکھنے لگے لیکن کسی نے بھی انھیں متاثر نہیں کیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہماری عادتیں بگڑ گئی ہیں، سیچلز میں اتنا شان دار ہوٹل دیکھنے کے بعد شاید ہی ہمیں کوئی دوسرا پسند آ جائے۔ چلو، ان میں سے ایک چُن کر اسے اندر سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک سائن بورڈ کی طرف اشارہ کیا: ’’یہ کیسا رہے گا؟ ریورز ایج اِن!‘‘
    تینوں اندر گئے، کاؤنٹر پر فیونا نے برطانوی کرنسی دی تو معلوم ہوا کہ کرنسی کارآمد ہے، تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انھیں ایک کمرے کی چابی دی گئی تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔ جبران نے کاؤنٹر سے اٹھایا ہوا بروشر دکھا کر کہا کہ اس میں وائٹ ہارس سے متعلق کچھ حقائق درج ہیں۔ فیونا نے کہا کہ اسے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی دل چسپ بات ہوگی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے تو یہ دو بستروں پر مشتمل ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ جبران ایک بیڈ پر بیٹھ کر بولا: ’’یہ یوکان کا کیپیٹل ہے اور یہاں کی آبادی صرف 28 ہزار ہے۔‘‘ فیونا دوسرے بیڈ پر چھلانگ مار کر بیٹھ گئی اور کہا: ’’حیرت ہے اتنی پیاری جگہ ہے اور لوگ اتنے کم!‘‘
    ’’آگے تو سنو۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’یہاں کا پرندہ بڑے سائز والا پہاڑی کوا ہے اور یہاں سونے کی تلاش کرنے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ میمتھ یعنی عظیم الجثہ قدیم ہاتھی اور نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز اسی علاقے میں گھومتے پھرتے تھے۔‘‘
    ’’ہاں، یہ ہوئی نا بات۔‘‘ دانیال اچھل کر بولا: ’’میں تو نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز سے ملنا چاہوں گا۔‘‘
    فیونا نے ہوٹل سے باہر نکل کر گھومنے کی رائے دی تو باقی دونوں بھی فوراً تیار ہو گئے۔ وہ دریائے یوکان کے کنارے چلنے لگے، دانیال نے دیکھا کہ دریا میں سالمن مچھلی بہاؤ کی مخالف سمت میں تیر رہی ہے، وہ حیران ہوا تو جبران نے بتایا کہ سالمن ہمیشہ الٹی سمت تیرتی ہے۔ جبران نے ان کے سامنے اپنا ایک عجیب تصور بیان کر دیا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی جسامت والا میمتھ کھڑا ہے، اس کے لمبے لمبے بال لہرا رہے ہیں اور وہ اپنی سونڈ پانی میں ڈال کر پانی پی رہا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن اس کے قریب سے تیزی کے ساتھ گزرا تھا، اور اس نے کالر اٹھایا ہوا تھا تاکہ فیونا اسے ٹھیک طور سے نہ دیکھ سکے۔ وہ فیونا کے ساتھ آنکھیں بھی ملانا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے بس میں سر جھکا کر چڑھا تھا۔ جب ایک نوجوان جوڑا اس کے برابر میں بیٹھنے کے لیے آیا تو اس نے انھیں گھورا اور ہلنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجبوراً دوسری سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈریٹن نے آنکھیں بند کر لیں اور وائٹ ہارس تک کا یہ سفر برداشت کرنے لگا۔

    جبران نے کیمرہ واپس فیونا کے بیگ میں رکھتے ہوئے کہا کہ وہ لیٹ گیا ہے لیکن اس میں عجیب بات کیا ہے؟ فیونا نے کہا: ’’مجھ پر ریچھ کا حملہ کوئی اتفاق نہیں تھا، ڈریٹن نے ضرور اسے مجھ پر حملے کا حکم دیا ہوگا۔‘‘
    ’’ڈریٹن … کیا وہ یہاں ہے؟‘‘ دانیال اس کا نام سن کر چونک اٹھا۔ ’’اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟‘‘ فیونا بتانے لگی کہ اس کے بال لمبے سیاہ ہیں اور کانوں میں بالیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ دانیال نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا کہ اس نے تو بالیاں نہیں پہنیں، اور بال بھی چھوٹے ہیں۔ جبران بولا کہ ہو سکتا ہے اس نے بال ترشوا لیے ہوں اور بالیاں بھی اتار دی ہوں، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ دانیال نے پوچھا کہ اب وہ کہاں جا رہے ہیں، تو جبران نے جواب دیا: ’’یوکان کے کیپیٹل وائٹ ہارس، جو ایک بڑا شہر ہے اور جنوبی یوکان میں الاسکا ہائی وے پر واقع ہے۔‘‘
    فیونا نے رینجر کو جبران کے قریب بیٹھتے دیکھ کر مسکرا کر کہا: ’’ایکسکیوز می سر!‘‘
    رینجر نے مسکرا کر کہا: ’’میرا نام شَین جَینکن ہے۔‘‘
    ’’تو مسٹر شین، کیا یہاں آس پاس گلیشیئرز ہیں؟‘‘
    ’’گلیشیئرز ۔۔۔‘‘ شین نے حیران ہو کر دہرایا: ’’یہ ملک ہی گلیشیئرز کا ہے۔‘‘
    ’’آپ مجھے فیونا پکار سکتے ہیں، اور یہ جبران اور دانی ہے۔‘‘
    ’’تم تینوں کہاں سے آئے ہو؟ تمھارا لہجہ برطانوی طرز کا ہے۔‘‘
    ’’جی ہم اسکاٹ لینڈ سے آئے ہیں۔‘‘
    ’’اسکاٹ لینڈ … بہت خوب۔‘‘ شین بولا: ’’تو تمھارے والدین کہاں ہیں؟ اکثر والدین اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اکیلے وحشی ریچھوں کو دیکھنے نکل پڑیں۔‘‘
    یہ سن کر تینوں کے پیٹ میں مروڑ شرو ہو گیا۔ یہ سوال ان کے لیے ہمیشہ بڑا پریشان ہوتا تھا، فیونا نے جلدی سے بات بنائی: ’’دراصل انھیں پیٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی، اس لیے وہ نہیں آئے اور ہمیں اس لیے آنے دیا کیوں کہ وہ ہم پر بہت بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
    ’’او کے، تم گلیشیئرز کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھی؟ یوکان میں یوں تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں سے دور ایک جگہ ہے جسے کلونی نیشنل پارک کہا جاتا ہے، یہ وادئ گلیشیئر کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
    فیونا نے کوئی جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر لیا: ’’کیا آپ کچھ اضافی رقم کمانا چاہیں گے؟‘‘ شین کے چہرے پر یہ سن کر خوشی کا رنگ بکھر گیا اور بولا: ’’کیوں نہیں، ضرور، بتاؤ تمھیں کیا چاہیے۔‘‘
    ’’ہمیں کلونی لے جائیں، ہم گلیشیئرز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والدین برا نہیں منائیں گے، وہ ہمیشہ ہمیں اکیلے جانے دیتے ہیں۔‘‘
    ’’جی ہاں، میں تم تینوں کو لے جا سکتا ہوں۔‘‘ شین نے جواب دیا۔ ’’مجھے ایک جیپ کرائے پر لینی پڑے گی، اچھا خاصا کرایہ لگے گا۔‘‘
    اس کے بعد وہ خاموشی سے وائٹ ہارس کی طرف سفر طے کرنے لگے۔ بس کے شیشوں سے باہر کے خوب صورت مناظر دیکھ کر وہ تعریف پر مجبور ہوتے رہے۔ انھیں برفانی ہرن، بارہ سنگھے، جنگلی بھینسے، پہاڑی بکرے اور اکا دکا سفید سر عقاب بھی نظر آیا۔ جبران کو سڑک کے کنارے جھاڑیوں کے درمیان بیری جیسے پھل کے درخت بھی نظر آئے، جب اس نے شین سے اس کا ذکر کیا تو وہ بولا: ’’یہ بیری ہی ہے، یوکان بیری کے حوالے سے ایک مشہور جگہ ہے، تم نے جو بیری دیکھی یہ گوز بیری کہلاتی ہے۔‘‘
    ’’ہم نے کبھی گوز بیری نہیں کھائی، یا کم از کم میں نے تو نہیں کھائی۔‘‘ جبران بولا۔ اس نے فیونا کی طرف دیکھا تو اس کی توجہ ڈریٹن کی طرف تھی۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: میں اس شیطان کو خوب پہچانتی ہوں، وہ سوچ رہا ہے کہ وہ خود کو ڈرپوک ظاہر کر رہا ہے لیکن میں اس کی مکاری سے واقف ہوں۔ بے وقوف ڈریٹن۔ وہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اسے پہچانا بھی نہیں ہو گا … ہونہہ ۔۔۔
    (جاری ہے….)