Tag: رفیع اللہ میاں ناول
-
دو سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
اینگس نے ایسے میں کہا کہ اب یاقوت کو جادوئی گولے میں رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ فیونا نے چونک کر کہا میں تو بھول گئی تھی، اس نے روبی نکال کر جونی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس کے اندر ڈریگن چمک رہا تھا۔ انکل اینگس نے جادوئی گولا میز پر رکھا اور جونی سے یاقوت لے کر اس کی جگہ رکھ دیا۔ پورا کمرہ اچانک روشنیوں سے جگمگا اٹھا، ڈریگن گھر کی دیواروں پر رقص کرنے لگے تھے۔ اینگس کے منھ سے نکلا ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم جتنے زیادہ جواہرات اس گولے میں ڈالیں گے، رنگ اتنے ہی طاقت ور اور روشن ہوں گے۔‘‘
-
دو سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن سہ پہر کو ہوٹل کے کمرے میں جاگا۔ اس نے ہوٹل کی کھڑکی کے باہر کے شٹر کو ہوا میں ہلتے ہوئے سنا۔ اس نے دل میں کہا باہر کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہوگی۔ وہ نیچے لابی کی طرف آیا۔ خزاں کی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی تو اس نے کوٹ کے کالر سے گردن چھپا لی۔ پہلان کو اس نے رپورٹ دینی تھی، لیکن اس وقت اسے بھوک لگ رہی تھی، وہ ہوٹل سے باہر نکلا اور اسی ریسٹورنٹ کی طرف چلا گیا جہاں اس نے پہلے بھی کھانا کھایا تھا۔
وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو گوشت کی تازہ پائی اور کارنش پیسٹری کی مہک نے اس کی بھوک ایک دم سے بڑھا دی۔ ویٹریس ایگنس نے اسے پہچان لیا، اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار پھیل گئے۔ وہ مینیو لے کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی تو ڈریٹن نے بدتمیزی سے مینیو لے کر اسے کہا کہ وہ ’دفع‘ ہو جائے۔ ڈریٹن نے پنیر اور پیاز کی بریڈیز، ڈیڑھ درجن ساسیج رولز اور پھلیاں اور چپس کی پلیٹ منتخب کی، پھر اس نے ایگنس کو اشارے سے بلانا چاہا لیکن اس نے نظر انداز کر دیا، اس پر ڈریٹن آگ بگولا ہو گیا، اور کرسی پر کھڑے ہو کر چلایا اور مغلظات بکنے لگا۔ ایگنس اپنے باس کے اشارے پر خاموشی سے آ کر کھڑی ہو گئی۔ ڈریٹن نے کہا کہ اسے یہ، یہ اور یہ چاہیے، وہ بھی آن کی آن میں۔ جب ایگنس مڑ کر جانے لگی تو ڈرٹین نے ڈپٹ کر پوچھا: ’’تمھارا مسئلہ کیا ہے؟‘‘
ایگنس نے گھبرا کر کہا: ’’میں آپ کو نہیں بھولی ہوں، مجھے معلوم ہے کہ آپ ہی تھے جس نے میک ایلسٹر کے گھر کو نقصان پہنچایا تھا۔ ایلسی نے مجھے بتایا۔‘‘
ڈرٹین چونکا: ’’اوہ اس نے ایسا کہا، ٹھیک ہے، مجھے ایلسے کے ساتھ افواہیں پھیلانے کے بارے میں بات کرنی پڑے گی، تم جلدی میرا کھانا لاؤ اب۔‘‘
ریسٹورنٹ میں موجود بہت سے لوگ خطرے کا احساس کرتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل گئے۔ ایسے میں دروازہ کھلا اور ایلسے اندر داخل ہو گئی۔ ایگنس گھبرا کر ایلسے کے پاس بھاگی اور آہستگی سے کہا: ’’بہتر ہے تم ابھی چلی جاؤ۔ وہ آدمی یہاں ہے اور…‘‘
لیکن ڈریٹن نے بھی اسے دیکھ لیا تھا، وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا اور بازو سے پکڑ کر کہا: ’’ذرا میرے ساتھ بیٹھ جاؤ یہاں، ہم تھوڑی بات کریں گے۔‘‘ اس نے ایلسے کو تقریباً گھسیٹا اور میز پر لے جا کر کرسی پر بٹھا دیا۔ ایسے میں ایگنس نے اپنے باس ایوان کے کان میں کچھ سرگوشی کی اور وہ ایپرن کھول کر دبے پاؤں دروازے سے ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا، خود ایگنس کاؤنٹر کے پیچھے گئی اور ایک بھاری سیاہ کڑاہی اٹھالی، کہ اگر ڈریٹن نے ایلسے کو تکلیف دینے کی کوشش کی تو وہ اس سے حملہ آور ہوگی۔
ڈریٹن کی زہر خند آواز گونجی: ’’ایلسے، تمھیں دیکھ کر اچھا لگا لیکن میں نے سنا ہے کہ تم میرے بارے میں شہر بھر میں انٹ شنٹ افواہیں پھیلا رہی ہو۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘
’’مم … میں نہیں سمجھی، تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ ایلسے پوری طرح گھبرائی ہوئی تھی۔ ڈریٹن نے کہا کہ وہی بات کہ میں نے مک ایلسٹر کے گھر کو برباد کیا۔ ایلسے نے کہا یہ موضوع اٹھا تھا اور ایک بار آپ کا نام بھی آیا بس۔ ڈریٹن بولا ’’اوہ، اور میرا نام کس نے اٹھایا؟ کیا تم نے میرا نام اٹھایا تھا ایگنس، اور میرا کھانا کہاں ہے؟‘‘ اس نے ایگنس کی طرف مڑ کر کہا۔ ایگنس نے کڑاہی نیچے رکھ دی اور اس کا کھانا ٹرے میں سجا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
ڈریٹن نے ایک ساسیج نیپکن پر رکھ کر ایلسے کی طرف بڑھایا اور کہا تم بھی کھاؤ۔ ایلسے اس کا انداز دیکھ کر انکار نہیں کر سکی، ڈریٹن نے کہا ٹماٹر کی چٹنی بھی لو نا۔ یہ کہہ کر اس نے بوتل اٹھائی لیکن اس میں سے چٹنی زور ڈال کر نکل سکتی تھی۔ اس لیے ڈریٹن نے اس کی باریک نلی ایلسے کے سینے کی طرف کر کے اچانک اسے دبایا اور چٹنی ایک دھار کی طرف نکلی اور ایلسے کا سفید بلاؤز رنگین ہو گیا۔ ڈریٹن نے اداکاری کی، اوہ میں نے گڑبڑ کر دی۔ پھر اس نے چپس اٹھا کر ایلسے کے کپڑوں پر پڑی ٹمیٹو ساس میں ڈبوئی اور منھ میں ڈال دی۔ ’’کافی لذیذ ہے۔‘‘ اس نے کہا اور ساسیج رول کھانے لگا۔ ایلسے اٹھ کر جانے لگی تو اس نے اسے دوبارہ بٹھا دیا اور وہ تب تک بیٹھی رہی جب تک ڈریٹن نے اپنا کھانا ختم نہ کر لیا۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے سرد لہجے میں کہا ’’اگر میں نے شہر میں مزید ایک بھی افواہ سنی تو میں تمھارے ’بی اینڈ بی‘ آ کر تم سے ملوں گا، سمجھ گئی نا؟‘‘
ایلسے نے ڈر کے مارے ہاں میں سر ہلایا، اس کے گالوں پر آنسو بہنے لگے تھے۔ ڈریٹن نے اچانک میز پر پڑی پلیٹ اٹھا کر فرش پر پٹخ دی۔ پلیٹ میں بچا کھانا فرش پر بکھر گیا۔ پھر وہ ہنستے ہوئے اٹھا اور بل ادا کیے بغیر باہر نکل گیا۔ وہ جیسے ہی گلی مڑنے والا تھا عین اسی وقت ایوان بھی ایک پولیس افسر کے ساتھ واپس آیا۔ ڈریٹن اس سے بے خبر تھا اور سوچ رہا تھا کہ بہتر ہے کہ وہ اب قلعے جا کر پہلان جادوگر کو کل رات کے بارے میں رپورٹ دے۔
جاری ہے ۔۔۔ -
دو سو پانچ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جلد ہی وہ سمجھ گئے کہ کچھ لوگ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تیزی سے ان کی طرف دوڑتے چلے آ رہے ہیں، جبران نے کہا کہ شاید یہ ایک شیخ اور اس کے آدمی ہیں، ان کے ہاتھوں میں بڑی بڑی خمیدہ تلواریں ہیں، اور شاید یہ انھیں مارنے آ رہے ہیں۔ جیسے جیسے وہ قریب آ رہے تھے، مردوں کے منھ سے نکلتا شور بڑھتا چلا گیا، وہ پاگلوں کی طرح چلا رہے تھے۔ ان پر خوف طاری ہو گیا تھا لیکن جب وہ چند گز کے فاصلے پر پہنچے تو ایک دم سے غائب ہو گئے۔ انھوں نے اطمینان کی سانس لی، کہ ان کے آگے جادوئی دیوار کھڑی تھی جسے کوئی پار نہیں کر سکتا تھا۔ان کے سامنے موجود دیوار نے پھر سے اپنا روپ بدل لیا۔ اس بار انھوں نے ایک نخلستان دیکھا، جہاں کھجور کے درخت ہوا سے جھوم رہے تھے۔ یہ درخت کھجور کے خوشوں سے بھرے ہوئے تھے اور ان سے ایک ایک کر کے کھجور ٹوٹ کر نیچے گھاس پر گر رہے تھے، جس کی وجہ سے وہاں ایک چادر سی بچھ گئی تھی۔ انھوں نے ایک چشمہ دیکھا جس سے پانی کے چھینٹے اڑ رہے تھے۔ اور وہاں ایک بڑا سا خیمہ تھا سیاہ اور کھلا، اس میں گاؤ تکیے بچھے ہوئے تھے اور رنگ برنگی ریشم کی چادریں ادھر ادھر لہرا رہی تھیں۔ اور وہیں خیمے کے بیچوں بیچ سنگ مرر کے ستون پر قیمتی پتھر یاقوت موجود تھا۔
دانیال چلایا: ’’ وہ رہا یاقوت۔‘‘ لیکن اس پل وہ جوش میں بالکل بھول گیا کہ سامنے محض ایک جادوئی دیوار ہے، اس لیے وہ تیزی سے خیمے کی طرف بڑھا اور دیوار سے ٹکرا گیا، صرف یہی نہیں، دیوار نے اسے بری طرح اچھال دیا، جس کی وجہ سے وہ اڑ کر فیونا اور جبران کے قدموں میں آ کر گرا۔ اس کے منھ سے چیخ اور کراہیں نکلنے لگیں۔ فیونا اور جبران پہلے تو پریشان ہوئے پھر مسکرانے لگے۔
وہ دیوار سے دور ہوئے تو وہ پھر پتھر کے ایک سادہ دیوار میں تبدیل ہو گئی۔ جبران نے کہا اس سراب جیسی دیوار کا کیا حل نکالیں، آخر یاقوت کو کیسے حاصل کریں گے؟ فیونا کچھ سوچ کر دیوار کے پاس چلی گئی۔ اسے لگا کہ دیوار پر ڈیزائن بنایا گیا ہے، اور وہ اس پر انگلیاں پھیرنے لگی۔ جبران نے کہا کہ شاید کسی قسم کا جیومیٹرک ڈیزائن یا شکل ہے، ہو سکتا ہے کوئی کوڈ ہو۔ انھوں نے دیکھا کہ ڈیزائن پر پھول اور پرندے اور دیگر چیزوں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک اور دیوار پر انھوں نے کنول کا پھول دیکھا۔ فیونا بولی کہ محل میں دیکھنا ہوگا اب کہ کتنی علامتیں مل سکتی ہیں، اگر کسی کو کوئی علامت نظر آئے تو وہ چیخ کر بتائے۔ کچھ دیر بعد دانیال کو مصری پرندے لق لق کی شکل دکھائی دی تو وہ چلایا، فیونا نے اسے کہا کہ وہ وہیں رہے، پھر جبران کی آواز آئی کہ اس نے ایک پھول دیکھ لیا، فیونا نے اسے بھی رکنے کو کہا۔ پھر فیونا نے بتایا کہ اسے ایک ’انخ‘ ملا ہے۔ یہ ايک قدیم مصری صَليب ہے جس کے اوپر کی جانب چَھلّا ہوتا ہے اور اسے نسل اور طويل عمری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
فیونا نے دانیال سے کہا کہ وہ اس کی طرف دس قدم سیدھی لائن میں چلتا آئے۔ اس نے جبران کو بھی یہی ہدایت کی اور خود بھی اسی طرح دس قدم چل کر سیدھ میں گئی۔ تینوں ایک مخصوص مقام پر اکھٹے ہو گئے۔ فیونا نے کہا کہ یہی محل کا مرکز ہے۔ ’’اب ہمیں جلدی کرنی ہوگی کیوں کہ سورج طلوع ہو رہا ہے، دیکھو سورج کی کرنوں سے آسمان سرخ ہو گیا ہے۔
عین اسی وقت ان کے درمیان جگہ میں سے ایک چھوٹے سے دائرے میں زمین سے روشنی کی ایک کرن اٹھی۔ اس روشنی میں ہر رنگ کی تتلیاں اور کنول کی پنکھڑیاں تیرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ دفعتاً اس روشنی سے ایک تتلی اڑی اور محل کے ایک کمرے کی طرف چلی گئی۔ فیونا نے باقی دونوں کو اپنی جگہ پر موجود رہنے کی ہدایت کی اور خود تتلی کا پیچھا کیا، جو اسے سنگ مرمر کے ستون کی طرف لے گئی۔ جیسا کہ انھوں نے جادوئی دیوار میں دیکھا تھا، وہاں ستون پر یاقوت رکھا تھا۔ فیونا آہستگی سے چلتی ہوئی اس کی طرف بڑھی اور اسے اٹھا لیا۔ اس کے بعد ایک دم سے ستون غائب ہو گیا اور تتلی واپس روشنی کی طرف اڑ گئی اور فیونا اس کے پیچھے چل کر واپس آ گئی۔ وہاں موجود روشنی بھی غائب ہو گئی اور کے ساتھ ہی ان پر پانی کے چھینٹے پڑے اور تتلیاں بادلوں کی طرف اڑ گئیں۔ یہ ایک خوب صورت منظر تھا، جس میں وہ چند لمحوں کے لیے کھو گئے تھے۔ لیکن روشنی غائب ہونے کے بعد وہاں سے سبز دھواں نمودار ہو گیا، یہ چراغ والا جن تھا۔ اسے دیکھ کر تینوں چونک اٹھے۔
ابھی فیونا اسے مخاطب کرنے ہی والی تھی کہ حکیم سے رہا نہ گیا اور اس نے انکشاف کر دیا: ’’تو آپ نے یاقوت کو حاصل کر لیا۔ پتا ہے میں نے ہمیشہ کے لیے اس کی حفاظت کی قسم کھائی تھی، لیکن جب تم نے اتنی مہربانی سے مجھے چراغ کی جیل سے آزاد کیا، تو میرے پاس یاقوت کو ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘‘ لیکن حکیم نے اس بار بالکل مختلف بات بتائی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس قیمتی پتھر کی تلاش میں آنے والے کسی اچھے آدمی کی مدد کے لیے بھی اسے ہدایت کی گئی تھی۔ دانیال نے الجھن سے کہا ’’اور اگر برے لوگ اسے ڈھونڈنے آتے تو؟‘‘ چراغ کے جن نے ہنس کر کہا کہ اسے اچھے اور برے آدمی میں فرق کرنا آتا ہے۔
دانیال نے کہا کہ اسے تو اس صحرا میں پایا تھا، ریت میں ایک پتھر کے نیچے۔ یہ وہاں کیا کر رہا تھا۔ حکیم نے بتایا کہ اس نے خود اسے وہاں منتقل کیا تھا تاکہ وہ اسے ڈھونڈ سکے۔ حکیم نے انکشاف کیا کہ اس نے ان تینوں کو دیکھتے ہی محسوس کر لیا تھا کہ ان کا یاقوت سے کوئی خاص تعلق ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
-
دو سو چار ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
قالین ہوا میں اڑنے لگا تھا کہ دانیال نے چیخ کر کہا اس کے کنارے پر مجھے تین مکڑیاں نظر آ رہی ہیں، انھیں گراؤ۔ جبران نے قالین کے درمیان خود کو ٹھیک سے متوازن کیا اور جوتا اتار کر ایک مکڑی کو دے مارا، وہ نیچے جا گرا۔ دوسری مکڑی کی ٹانگیں قالین کے کنارے پر ٹکی ہوئی نظر آ رہی تھیں، جبران نے اسے نیچے گرا دیا۔ تیسری مکڑی اچانک اوپر آ گئی اور فیونا کی ٹانگ پر چڑھ گئی۔ وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹی تو قالین سے ایک چیخ کے ساتھ لڑھک گئی، لیکن اس نے بدحواسی میں قالین کے کنارے کو سختی سے دبوچ لیا تھا جس کی وجہ سے وہ گرنے سے بچ گئی لیکن اب ہوا میں لٹک رہی تھی۔ مکڑی تو گر گئی تھی لیکن فیونا کی جان کو خطرہ تھا، اس نے گھبرا کر کہا ’’مجھے بچاؤ ۔۔۔ مجھے گرنے مت دو پلیز۔‘‘
دانیال نے اس کے ہاتھ کو تھاما اور اسے اوپر کھینچنے لگا لیکن چند ہی لمحوں میں انھیں اندازہ ہو گیا کہ وہ فیونا کو اوپر نہیں لا پائے گا۔ تب فیونا نے آنکھیں بند کیں اور پرندوں کو پکارا ۔۔۔ ’’کہاں ہو تم پرندو، میں گرنے والی ہوں، میری مدد کرو!‘‘جبران نے کسی بڑی چیز کو ہوا میں تیرتے آتے دیکھا۔ اندھیرے کی وجہ سے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا، کہ وہ کیا چیز ہے۔ جبران اور دانیال سمجھے شاید کوئی گدھ ہے اس لیے وہ گھبرا گئے تھے کہ کہیں ان پر حملہ نہ کر دے، لیکن فیونا نے تسلی دی کہ وہ مدد کو آ رہا ہے۔ پاس آ کر پرندہ فیونا سے بات کرنے لگا اور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا اسے مدد کی ضرورت ہے۔ فیونا نے اسے اپنی سچویشن بتائی۔ وہ ایک بہت بڑا گدھ تھا، فیونا نے دانیال کو ہاتھ ہٹانے کے لیے کہا اور پھر خود ہی قالین کا کنارہ چھوڑ دیا۔ وہ نیچے گرنے لگی تو گدھ نے جھپٹا مار کر اسے پنجوں میں دبوچ لیا۔
گدھ نے ذرا دیر میں فیونا کو قلعے کی چوٹی پر اتار دیا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ گدھ نے اس سے کسی مردے کے بارے میں دریافت کیا تو فیونا نے بتایا کہ مردہ تو نہیں دیکھا لیکن قلعے میں ریت کی مکڑیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گدھ یہ سن کر مکڑیوں کے پیچھے چلا گیا۔ جبران نے قالین کو فیونا کے قریب اترنے کا حکم دیا تو قالین نے تعمیل کی، کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں پھر قالین پر سوار اڑ رہے تھے۔ وہ خود کو کھلے آسمان میں اڑتا دیکھ رہے تھے اور ان کے بال تیز ہوا سے اڑے جا رہے تھے، انھیں بہت لطف آ رہا تھا۔ قالین نے انھیں آدھے گھنٹے تک صحرا کی عجیب و غریب چیزیں دیکھنے کا موقع فراہم کیا، انھوں نے بدوؤں کے خیموں کے باہر کیمپ فائر کا نظارہ بھی کیا۔ جب وہ قلعے واپس پہنچے تو فیونا کے کہنے پر قالین زمین سے دس فٹ اوپر ٹھہر گیا، ان کا قالین پر اسی طرح سونے کا ارادہ تھا۔ فیونا اور جبران نے جادوئی چراغ کو لے کر دانیال کا مذاق اڑایا تھا لیکن اب وہ اس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ تینوں کچھ ہی دیر میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے نیند کی وادی میں کھو گئے۔
طلوعِ فجر کے ساتھ وہ باری باری جاگ گئے۔ انھوں نے نیچے دیکھا تو زمین صاف تھی۔ فیونا نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا یاقوت کی تلاش میں جانا ہے اب۔ جب قالین زمین پر پہنچا تو انھوں نے نیچے چھلانگ لگا دی، فیونا نے قالین کو لپیٹا اور قلعے کی دیوار سے لگا کر رکھ دیا۔
جبران نے پوچھا کہ نگینہ کہاں تلاش کرنا ہے، کس راستے پر جائیں گے؟ فیونا نے خاموشی سے وہاں دیواروں پر ایک نگاہ دوڑائی اور پھر بولی اس طرف۔ وہ پتھر کی ایک اونچی دیوار کی طرف چلنے لگے۔ لیکن اس سے چند فٹ کے فاصلے پر جیسے ہی وہ رکے، دیوار اچانک سامنے سے غائب ہو گئی۔ تینوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’دیوار کہاں چلی گئی؟‘‘ دانیال اور جبران ایک ساتھ بول اٹھے۔
فیونا جھجھکتے ہوئے آگے بڑھی اور غائب ہوئی دیوار کی جگہ سے گزرنے لگی، لیکن اسے بری طرح ٹھوکر لگی اور وہ پیچھے گر پڑی۔ اس نے ماتھا پکڑ لیا اور اٹھ کر بولی ’’دیوار ابھی بھی موجود ہے لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ شاید ہمیں اس کے گر چکر لگا کر چلنا چاہیے لیکن مشکل تو تب بھی ہوگی کہ ہم اس کے گرد جائیں گے کیسے جب یہ نظر ہی نہیں آ رہی۔‘‘ تاہم وہ ایک طرف آگے بڑھنے لگے، لیکن پھر واپس اسی جگہ آ گئے جہاں سے دیوار غائب ہوئی تھی۔ انھوں نے دیکھا دیوار وہاں موجود تھی اور نظر آ رہی تھی۔ اس کے بعد وہ دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ کافی دور تک چلنے کے بعد فیونا کو محسوس ہوا کہ وہ نگینے کے قریب نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہ پریشانی کی بات تھی۔
جبران نے کہا ’’یہ دیوار جادوئی ہے، بہتر ہے ہم واپس جائیں کیوں کہ اس طرح تو ہم کہیں بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘ وہ مڑ کر واپس اسی جگہ آ گئے جہاں سے چلے تھے۔ فیونا ایک بار پھر دیوار کے قریب گئی تو وہ غائب ہو گئی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دیوار غائب ہونے کے بعد وہ جگہ خالی نظر آنے کی بہ جائے وہاں صحرا نظر آ رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے دور اونٹوں کا کوئی ریوڑ جا رہا ہو۔
(جاری ہے۔۔۔)
-
دو سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
انھوں نے ایک نوکیلے پتھر کی مدد سے انار توڑ کر اس کے دانے نکالے اور مزے سے کھانے لگے، لیکن فیونا نے اناڑی پن سے اپنے کپڑے سرخ دھبوں سے بھر دیے تھے۔ ان کے پاس پانی کم تھا اور صحرا میں پانی پینے کے لیے زیادہ ضروری ہوتا ہے، اس لیے اسے اسی طرح رہنا تھا۔ جب تک انھیں خبر ہوتی، سورج غروب ہونے لگا تھا، انھوں نے بیگ میں رکھا کھانا ختم کیا اور پھر زمین پر قالین بچھا دیا۔ دانیال نے کہا کاش حکیم ہمیں وہ جادوئی لفظ بتا پاتا تو ابھی قالین پر اڑنے کا مزا لیتے۔ فیونا نے کہا کہ چراغ والا حکیم تو ہمیں جو مشورہ دینا چاہتا تھا وہ بھی آزادی کے جوش میں نہیں دے پایا۔ چلو، اب اس قالین پر سو جاتے ہیں۔ وہ قالین بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور اربوں ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا مجھے لگتا ہے اس کاینات میں ہمارے علاوہ بھی کسی سیارے پر زندہ مخلوق ہوگی۔ فیونا نے فوراً کہا، ہاں اور اس محل میں بھی ہمارے علاوہ دوسری مخلوق موجود ہے۔ وہ دونوں یہ سن کر چونک اٹھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اس طرف دیکھنے لگے جس طرح فیونا دیکھ رہی تھی۔ ’’کیا وہ کیکڑے ہیں؟‘‘ دانیال نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں، یہ بڑے سائز کی مکڑیاں ہیں، میں نے ایک ٹی وی شو میں دیکھا تھا کہ صحرا کی یہ مکڑیاں لوگوں سے زیادہ تیز دوڑ سکتی ہیں، دیکھو کتنی بد صورت ہیں یہ۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔ دانیال نے جلدی سے فیونا سے کہا کہ وہ جادوئی لفظ ادا کرے تاکہ قالین اڑے، لیکن وہ بھول گیا تھا کہ حکیم نے جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں تھا۔ پھر اس نے کہا کہ مکڑیوں سے بات کر کے انھیں بھگایا جائے۔ فیونا بولی کہ اسے تو ویسے ہی مکڑیاں بہت بری لگتی ہیں اور تسمانیہ کے بعد اب پھر ان کا سامنا مکڑیوں سے ہو رہا ہے۔ مکڑیاں قریب آئیں تو دانیال چیخا: ’’حکیم ہماری مدد کرو، وہ جادوئی لفظ بتا دو۔‘‘
فیونا نے آگ لگانے اور ریت کی مکڑیوں کو جلانے کے بارے میں سوچا لیکن پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ صحرا کی رات پہلے ہی کافی گرم تھی، اس لیے اس نے مکڑیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عین اسی لمحے جبران نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ارے دیکھو، شوٹنگ اسٹار ۔۔۔۔ اسے شہابِ ثاقب کہتے ہیں نا دانی۔‘‘
دانیال اور فیونا اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اچانک فیونا نے حیرت سے کہا یہ شوٹنگ اسٹار تو ہماری طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ باقی دونوں بھی یہ محسوس کر کے اچھل پڑے۔ تینوں اس صورت حال سے حیران بھی اور پریشان بھی تھے۔ شہابِ ثاقب کے ان پر گرنے کا مطلب تھا کہ ان کا خاتمہ۔
شوٹنگ اسٹار تیزی سے ان کی طرف آیا، وہ مکڑیوں کے ڈر سے قالین سے اٹھ کر بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور پھر وہی ہوا، ٹوٹا ستارہ ان کی آنکھوں کے سامنے آ کر قالین پر دھم سے گرا، اور انھیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ تینوں ششدر رہ گئے۔ فیونا بولی کہ اس نے پہلے کبھی قالین پر گرتے ستارے کے بارے میں نہیں سنا۔ ستارہ اتنا روشن تھا کہ اس نے پورے محل کو روشن کر دیا، اور انھیں ہر جگہ موجود مکڑیاں اچھے سے نظر آنے لگیں۔ جبران نے ڈرتے ڈرتے ستارے کو پاؤں سے ٹھوکر لگائی اور وہ تھوڑا سا ہلا۔ پھر اس نے ہمت کی اور ہاتھ اس کے قریب لے گیا، لیکن اسے کوئی گرمی محسوس نہیں ہوئی۔ ’’یہ تو عجیب ہے، نہ یہ گرم ہے نہ اس میں آگ ہے۔‘‘ جبران نے فٹ بال کے سائز کے ستارے کو ہاتھ میں اٹھا کر گھما پھرا کر دیکھا۔
اچانک وہ چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ ستارے کے بالکل درمیان میں حکم کا چہرہ نظر آنے لگا تھا۔ فیونا چلا کر بولی ’’حکیم ہم مصیبت میں ہیں، ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ حکیم اسے دیکھ کر بولا ارے تمھارے کپڑے اتنے گندے کیوں ہیں۔ جبران نے جلدی سے اسے انار کے بارے میں بتایا اور کہا کہ جو باتیں وہ بتانا بھول گیا ہے، جلدی سے بتا دے۔
حکیم نے کہا ہاں سوری، میں بھول گیا تھا۔ تم نے قالین پر بیٹھ کر صرف اتنا کہنا ہے ’’اڑ اڑ جا اڑ‘‘ اور یہ اڑنے لگے گا، اور ہاں ایک مشورہ بھی دینا چاہ رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ’’زمین پر مت سونا، یہاں ریت کی مکڑیاں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور پھر ستارہ آسمان کی طرف اڑ گیا۔چاند کی روشنی میں انھیں مکڑی کی پیلی آنکھیں نظر آ رہی تھیں، تینوں جلدی سے قالین پر ٹھیک سے بیٹھے اور فیونا نے کہا اڑ اڑ جا اڑ۔ ادھر قالین فضا میں بلند ہوا اور ادھر مکڑیاں پاگلوں کی طرف ان کی طرف دوڑ پڑیں، کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ شکار ان کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے۔ لیکن دیر ہو چکی تھی، قالین اب فضا میں بلند ہو چکا تھا۔ تینوں گھبرا رہے تھے اور انھوں نے قالین کے کنارے مضبوطی سے پکڑ رکھے تھے کہ کہیں نیچے نہ گر جائیں۔
(جاری ہے…)
-
دو سو دو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اونٹ کے جانے کے بعد فیونا اور وہ دونوں قصر کے دروازے میں داخل ہو گئے۔ اندر بھی گرمی تھی، اور آس پاس کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ باقی دونوں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے جب کہ دانیال نے یہ کہہ کر کہ وہ تو اپنا جادوئی چراغ بھول ہی گیا ہے، اسے نکال لیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا یہ بس ایک چراغ ہے، یہاں لوگ انھیں تیل جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیوں کہ یہاں بہت سے لوگوں کے پاس بجلی نہیں ہے۔دانیال نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی، اور چند قدم آگے بڑھ کر قلعے کی پتھر کی اونچی دیوار کے سائے میں بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنی ہلکی نیلی قمیض کا کونا پکڑ کر چراغ پر رگڑا تاکہ اسے صاف کرے، کہ اگلے ہی لمحے وہ بری طرح اچھل پڑا۔ چراغ ایک دم سے گرم ہو کر لرزنے لگا تھا اور اس میں سے ایک عجیب سا ڈراؤنا شور نکلنے لگا۔ اس نے گھبرا کر چراغ ہاتھوں سے گرا دیا۔ اور دوڑ کر فیونا کے پاس چلا گیا۔ فیونا اس کے چہرے کی حالت اور منھ سے نکلتی ٹوٹی پھوٹی بات سن کر ہنسنے لگی۔ ’’دانی، یہاں صرف ایک ہی چیز ہے جو عجیب و غریب حرکتیں کر رہی ہے، اور وہ تم ہو۔‘‘
دانیال نے کہا اگر تم لوگوں کو یقین نہیں ہے تو آؤ خود دیکھو۔ فیونا نے مذاق اڑاتے ہوئے جبران سے کہا آؤ دانی ہمیں چراغ والا جن دکھائے گا۔ وہ جیسے ہی اس کونے میں پہنچے جہاں دانیال نے چراغ گرایا تھا تو انھیں چکر کاٹتے سبز دھوئیں نے گھیر لیا۔ دانی نے جلدی سے بتایا کہ یہ چراغ میں سے نکلا ہے۔ وہ دونوں بھی حیرت سے سبز دھوئیں کو دیکھنے لگے، دانیال کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی، کیوں کہ وہ سچا ثابت ہوا تھا۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں نے انسانی شکل اختیار کر لی۔ دانیال چیخا: ’’یہ دیکھو، میں نے کہا تھا نا کہ یہ جینی ہے!‘‘
ان کے سامنے کھڑی مخلوق نے ناراض اور گونجتی ہوئی آواز میں کہا ’’میں تمھیں عورت دکھائی دیتی ہوں کیا؟ میں جینی نہیں جن ہوں۔‘‘
فیونا نے نوٹ کیا کہ اس کی دھوئیں جیسی جلد ہلکی سبز تھی، سر پر ایک چمک دار سلنڈر سی سبز ٹوپی جمی تھی، جس کے اوپری سرے پر ایک پھندنا لٹک رہا تھا، اس کی پینٹ دیودار کے درخت کی طرح تھیلی دار اور گہرے سبز رنگ کی تھی، جب کہ زیتون ایسی سبز واسکٹ پہنی تھی جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ وہ موٹے بازوؤں والا جن تھا اور اس نے پیروں میں سنہری چپل پہنی ہوئی تھی۔
اچانک دانیال نے پوچھا ’’کیا تم ہماری تین خواہشات پوری کرو گے؟‘‘جن نے ایک بار پھر ناراض ہوتے ہوئے کہا ’’میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ایک جن ہوں، اور جن خواہشات پوری نہیں کرتے بلکہ جینی کرتی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا ’’مجھے اس فرق کا نہیں پتا۔ تم ایک جادوئی چراغ سے آئے ہو، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک جن ہو اور خواہشات پوری کر سکتے ہو۔‘‘
جن نے کہا میرا نام حکیم ہے، میں سلطان دیبوجی کے زمانے کا ایک جن ہوں۔ مجھ سے بس تھوڑا سا بکری کا دودھ گر گیا تھا جس پر سلطان نے مجھے پیتل کے اس چراغ میں بند کر دیا۔ ویسے یہ کون سی صدی ہے؟ جبران نے جواب دیا کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ وہ اچھل کر بولا ’’اس کا مطلب ہے کہ میں اس چراغ میں 1200 سال سے بند ہوں؟ بکری کا تھوڑا سا دودھ گرنے کے لیے۔‘‘
کچھ لمحوں بعد وہ خوش ہو کر بولا آپ سب کا شکریہ، میں اب خوش ہوں کہ آزاد ہو گیا ہوں۔ مجھے اب جانا چاہیے۔ ویسے تم لوگوں نے ٹوپیاں اچھی پہنی ہیں۔ دانیال نے چیخ کر کہا ’’رکو ذرا، تمھیں ہماری تین خواہشیں پوری کرنی چاہیے، ہم نے تمھیں آزاد جو کیا ہے۔‘‘ لیکن جن نے کہا ہرگز نہیں۔ اس پر دانیال نے کہا اچھا دو خواہشیں تو پوری کرو، لیکن جن نے انکار میں سر ہلایا۔ ایسے میں فیونا نے مسکرا کر کہا چلو ایک خواہش ہی پوری کر دو۔ پر جن نے کہا ’’بالکل نہیں، ہاں، میں آپ کو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں۔‘‘
فیونا جلدی سے بولی’’ ہمیں مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ جن نے کہا تو کیا جادوئی قالین چلے گا؟ دانیال اچھل کر بولا اوہ کیوں نہیں، زبردست۔ اس پر حکیم نے اپنا سبز دھواں دار ہاتھ ہوا میں لہرایا اور عربی میں کچھ بڑبڑایا، اگلے ہی لمحے ان کے قدموں میں ایک جادوئی قالین بچھا نظر آ رہا تھا۔ انھیں یہ بالکل ویسا ہی لگا جیسا کہ انھوں نے مادبا میں دیکھا تھا۔ حکیم نے بتایا کہ انھیں صرف جادوئی لفظ دہرانا ہے اور یہ اڑنے لگے گا۔ اور جب وہ واپس جائیں تو اس قالین کو قصر میں چھوڑ کر جائیں۔ سلامہ ۔۔۔ اب میں جا رہا ہوں میری نئی آزادی مجھے بلا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا۔
فیونا نے اچانک کہا کہ جن نے تو وہ جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں، اب ہم اس پر کیسے اڑیں گے؟‘‘ وہ جن کو بار بار آوازیں دینے لگے لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ وہ تھک کر وہاں بیٹھ گئے۔ جبران نے فیونا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ یاقوت کہاں ہے؟ کیا اس قلعے میں ہے؟ فیونا نے بتایا کہ وہ یہیں پر ہے لیکن اسے صرف سورج نکلنے کے وقت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جبران حیران رہ گیا: ’’اس بار وقت کی یہ پابندی کیوں بھلا؟‘‘ فیونا نے حیرت انگیز بات بتائی کہ یاقوت کو صرف سورج کی روشنی میں دیکھا جا سکے گا، نہ پہلے نہ بعد میں۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سارا دن اور ساری رات یہاں بیٹھے رہنا ہے۔ فیونا تو کچھ ہی دیر میں وہاں سو گئی، جب کہ جبران ویران قلعے میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور دانیال اسکیچز بنانے لگا، اس نے دراصل جن کی تصویر بنانی تھی۔
کئی گھنٹوں بعد جب فیونا نیند سے جاگ گئی تو جبران بھی واپس آ گیا تھا، انھیں ہلکی سی بھوک لگ رہی تھی۔ فیونا نے بیگ سے تین انار نکالے جسے دیکھ کر جبران اور دانیال خوش ہو گئے، لیکن یہ چیز فیونا کے لیے نئی تھی، اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کھانا کیسے ہے۔ جبران نے بتایا کہ اسے کھول کر اس کے اندر موجود دانے کھانے ہیں اور یہ بہت میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔
(جاری ہے…)
-
دو سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اگلے دن فیونا کو اسکول سے چھٹی کرنی پڑی کیوں کہ جب وہ جاگی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس نے ممی کو جگایا، وہ بھی کام پر نہیں جا سکی تھیں۔ اس وقت جمی اور جونی بھی جاگ گئے تھے۔ انھوں نے نہا دھو کر، تازہ دم ہو کر کھانا کھایا اور پھر انکل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے ان سے کہا کہ اب پہلے وہ اپنے کام کی جگہ پر جائیں گی تاکہ نہ آنے کی وجہ بتا سکیں اور پھر فیونا کے اسکول جا کر کوئی بہانہ کریں گی، اور واپسی پر کھانے کی چیزیں لے کر آئیں گی۔ یہ کہہ کر وہ بغیر کچھ سنے پھر نکل کر چلی گئیں۔
ذرا ہی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی، انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے دوست دانیال اور جبران آ گئے ہیں۔ وہ دونوں فیونا کے پاس بیٹھ کر گزشتہ رات کی کہانی سننا چاہ رہے تھے لیکن فیونا نے کہا کہ ابھی سب سے پہلے انھیں اگلے مقام کے لیے نکلنا ہے، کیوں کہ اگلا قیمتی پتھر ان کا منتظر ہے۔ فیونا نے کہا کہ پتا نہیں وہ کیسی جگہ ہوگی، گرم یا سرد، بہرحال ان ہی کپڑوں میں جانا ہوگا۔ فیونا کو ابھی بھی نیند آ رہی تھی، اس نے کہا امید ہے کہ وہاں اچھی نیند کا موقع ملے گا۔انکل اینگس نے فیونا کو مزید کچھ رقم دی، اور کہا کہ اپنی جادوئی طاقتوں کا استعمال بھولنا مت، اس کی ضرورت پڑے گی۔ فیونا نے مسکرا کر کہا، ضرور، بس اب ہم جاتے ہیں اور چند منٹوں میں واپس آ جائیں گے۔
وہ تینوں کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ فیونا منتر پڑھنے لگی۔ کمرہ ان کے گرد تیزی سے گھومنے لگا، اور بہت سارے رنگ ان کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ جب وہ رک گئے تو انھوں نے خود کو ریت ایک ٹیلے پر کھڑے پایا۔ پاس کھڑے ایک اونٹ نے جھک کر فیونا کا ہاتھ چاٹا، فیونا ایک دم بدک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’شاید میں جانتی ہوں کہ ہم کہاں آ گئے ہیں ….. اردن ہے یہ!‘‘
جبران نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا، ہر طرف ریتے کے ٹیلوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا، سورج سر پر کھڑا آگ برسا رہا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کیا ہم واقعی اردن میں ہیں؟ ہم منگولیا میں بھی تو ہو سکتے ہیں لیکن وہاں اتنی گرمی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے میں دانیال نے ان کی توجہ لمبے سفید لباس میں ملبوس ایک آدمی کی طرف مبذول کرائی جو ایک چٹان سے ٹیک لگا کر سو رہا تھا۔ اس کے سر پر سرخ اور سفید چیک والا اسکارف کوفیہ بندھا ہوا تھا۔
فیونا نے ان سے کہا ’’یہ اونٹ ضرور اس شخص کے ہیں، اگرچہ قیمتی پتھر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن مجھے اس مقام کے متعلق زیادہ درست اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے، یہاں سرخ ریت اور سرخ چٹانیں ہی دکھائی دے رہی ہیں، اور گرمی بہت زیادہ ہے، سورج بھی غروب ہونے والا ہے، ہمیں اونٹ لے کر کوئی گاؤں یا قصبہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
انھوں نے دیکھا کہ اونٹ ریت پر بیٹھ گئے تھے جب کہ ان کا مالک بے سدھ سو رہا تھا، ایک چاقو اس کے کمر سے بندھی رسی میں اڑسا ہوا تھا۔ فیونا نے کوئی آواز کیے بغیر ایک اونٹ کے پاس جا کر اس کی رسی پکڑ لی اور اسے کھینچ کر اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کی۔ رسی اتنی گرم تھی کہ فیونا کا ہاتھ جل گیا اور رسی اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ اونٹ سر ہلایا اور اٹھنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ فیونا نے ایک اور اونٹ کے پاس جا کر اس کے کان میں کہا، اٹھو اونٹ ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ دانیال نے سرگوشی کی ’’کہیں وہ بدو جاگ نہ جائے، دیکھو اس کے پاس ہتھیار بھی ہے۔‘‘
فیونا کا ہاتھ جل گیا تھا اور اونٹ اٹھ نہیں رہے تھے، اسے غصہ آ گیا اور ان دونوں سے مدد کے لیے کہا۔ جبران نے مسکرا کر کہا ’’فیونا تم ہمیشہ اپنا جادو بھول جاتی ہو، تم جانوروں سے باتیں کر سکتی ہو، تو اونٹ سے ان کی زبان میں بات کرو۔‘‘
فیونا مسکرائی اور اپنا جادو استعمال کرنے لگی، فیونا نے ایک اونٹ سے کہا ’’تم کتنے پیارے جانور ہو، کیا تم اپنے دانت اچھے سے برش نہیں کر سکتے، خیر ہمیں قریبی شہر تک جانے کے لیے سواری کی ضرورت ہے، اگر تم میں سے کوئی ہمیں لے جائے گا تو ہم تمھیں واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں، اور ہم تمھیں چوری کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
ایک اونٹ بولنے لگا ’’میرا نام سلوم ہے، میں تم لوگوں کو سواری دوں گا، لیکن شرط یہ ہے کہ تم مجھے کچھ کھجور کھلاؤ۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی اور بولی کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اونٹ کھجور بھی کھاتے ہیں۔ اونٹ نے کہا کہ وہ کچھ بھی کھا لیتے ہیں۔ فیونا نے اس کے ساتھ سودا کر لیا۔ وہ تینوں اس پر بیٹھنے لگے تو اونٹ نے فیونا سے کہا ’’پیٹھ پر پڑا کمبل خراب مت کرنا، مجھے اس سے بہت لگاؤ ہو گیا ہے، یہ میرے آقا احمد نے پچھلے سال پنی بیویوں میں سے ایک سے میرے لیے بنوایا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت خوب صورت ہے۔‘‘
وہ تینوں بڑی مشکل سے اونٹ پر بیٹھے اور خود کو سنبھالا۔ اونٹ نے انھیں بتایا کہ وہ انھیں اردن کے قدیم شہر مادبا لے کر جا رہا ہے، کیوں کہ وہی ایک قریب ترین شہر ہے۔ اونٹ نے فیونا سے یہ بھی کہا کہ تین بچے اس وقت صحرا میں کیا کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کا یہاں ہونا بہت خطرناک ہے۔ فیونا نے اسے بتایا کہ وہ جواہر کی تلاش میں ہیں۔ اونٹ نے حیران ہو کر کہا کہ یہاں جواہرات نہیں ہیں، ہاں صحرائی ہیروں کی بات الگ ہے۔ صحرائی ہیروں کی بات سن کر وہ تینوں پرجوش ہو گئے لیکن اونٹ نے بتایا کہ زیادہ خوش نہ ہوں، وہ قیمتی تو ہیں لیکن اصلی ہیرے نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے بلور کے ٹکڑے ہیں، اور اصلی ہیرے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چلتے ہوئے دائیں بائیں بلور تلاش کرتے ہوئے جا رہے تھے لیکن ایک گھنٹا ہو گیا اور اونٹ چلتا ہی رہا۔ وہ اونٹ کے سفر سے بہت تھک گئے تھے کیوں کہ گرمی بھی بہت تھی۔ دانیال نے کہا کیا کہیں رک کر آرام نہیں کیا جا سکتا۔ فیونا نے کہا اچھا خیال ہے، یہاں تو شام ہونے کے بعد بھی سورج چمک رہا ہے۔ اس نے اونٹ سے کہیں رکنے کے لیے کہا تو اونٹ ایک جگہ رک کر بیٹھ گیا۔
وہ تینوں دوڑتے ہوئے ایک پتھر کے سائے میں پہنچ گئے، تینوں پسینے پسینے ہو رہے تھے۔ جبران نے کہا ’’ہم شاید کسی بڑے صحرا میں ہیں، ابھی تک کسی شہر کا کوئی نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیا۔‘‘ فیونا نے کہا کہ قیمتی پتھر یہیں اسی علاقے میں کہیں ہے۔ وہ چٹان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں بھی پاس ہی بیٹھ گئے۔
(جاری ہے)
-
ایک سو ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھیے
فیونا اور اس کی ممی کی آنکھیں نیند سے بند ہونے والی تھیں جب اچانک فیونا بری طرح چونک اٹھی۔ اسے خیمے کے دروازے کے پاس عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہوئی تھی، اور یہ ایسی سرسراہٹ تھی کہ اس کے بدن میں سرد لہر دوڑ گئی تھی۔ اس لیے وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ اس کی ممی نے پوچھا: ’’کیا ہوا فیونا؟‘‘
اس دوران فیونا کی نظریں خیمے کے دروازے پر مرکوز ہو گئی تھیں، اور اس نے ایک بار پھر سرسراہٹ محسوس کی، اس بار یہ بالکل واضح تھی۔ اس نے ممی کو بتایا کہ باہر کچھ ہے، شاید بھوت ہے کوئی اور میں اسے کراہتے ہوئے سن رہی ہوں۔ مائری مک ایلسٹر بھی یہ سن کر اٹھ کر بیٹھ گئیں اور حیران ہو کر بولیں: ’’ایک بھوت؟ وہ بھی ان پہاڑوں میں۔ تمھیں شاید سخت نیند آ رہی ہے، سو جاؤ۔‘‘
’’نہیں ممی، میری نیند پوری طرح اڑ چکی ہے، اور میں اس کی آواز سن رہی ہوں، اس کی آواز ایسی ہے جیسے …‘‘
’’جیسے کہ کیا؟‘‘ ممی نے حیرانی سے پوچھا۔ فیونا نے کہا ’’جیسے کہ بھوت!‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور خیمے کا دروازہ کھول کر سر باہر نکال کر دیکھنے لگی، لیکن اسے وہاں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اچانک اسے اپنی طرف تیزی سے لپکتی کوئی شے دکھائی دی، جو ایک تیز نوکیلی چیخ کے ساتھ خیمے میں گھسی اور دوسری طرف سے نکل گئی۔ مائری اور فیونا گھبرا کر خیمے سے باہر نکل آئے۔ چیخ سن کر پاس کے خیمے سے جونی اور جمی بھی نکل آئے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا۔ فیونا جونی کے پاس جا کر بولی کہ یہاں ایک بھوت ہے جو بہت خوف ناک اور بد صورت ہے۔
جیک نے بھی اپنے خیمے سے سر باہر نکال کر پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن عین اسی لمحے اس کی آنکھوں پر پیلی روشنی کے ایک بادل نے حملہ کر دیا، اور وہ اپنے خیمے میں پیچھے کی طرف جا گرا۔ اس کے اوپر کوئی شے چکرانے لگی اور کان پھاڑنے والی ایک تیز چیخ سنائی دی۔ جیک گھبرا کر خیمے سے باہر نکل آیا اور چلا کر بولا: ’’وہ میری خیمے کے اندر ہے۔‘‘
پھر وہاں دو اور بھیانک شکلیں نمودار ہو گئیں، ایک ہلکی سبز اور دوسری ارغوانی سرخ رنگ کی، دونوں ان کے سامنے وہاں چکر کاٹنے لگی تھیں جہاں انھوں نے آگ جلائی تھی۔ اینگس بھی اپنے خیمے سے نکل آئے تھے۔ وہ سب ایک جگہ کھڑے ہوئے اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ بھوت ان کے خیموں کے اندر گھس گھس کر کچھ شاید ڈھونڈ رہے تھے، انکل اینگس نے کہا ’’ایسا لگتا ہے بھوت خیموں میں جادوئی گیند اور کتابیں تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ اینگس فوراً اپنے خیمے میں گھسے اور برف والا باکس اٹھا کر باہر لائے اور اس کے اوپر بیٹھ گئے۔سرخ ٹوپی والا بھوت ان کے سروں پر آ کر اڑنے لگا، اور ٹوپی اتار کر اسے نچوڑا تو اس سے خون کے قطرے ان کے اوپر گرنے لگے۔ وہ خوف زدہ اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک بھوت نے ایک بچے کو پکڑا ہوا تھا، وہ ان کے قریب آیا تو بچے نے اچانک خون کی الٹیاں کیں اور چیختے ہوئے زمین پر گر گیا۔ یہ بہت خوف ناک منظر تھا جس نے سب کے دل دہلا دیے۔ بھوت شاید انھیں خوف زدہ کرنا چاہتے تھے اس لیے عجیب و غریب حرکتیں کر رہے تھے۔ فیونا ایسے میں بولی کہ انھیں اب گھر چلے جانا چاہیے، یہاں مزید وقت گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ سب نے اس کی تائید کی، اور سب مل کر سامان جمع کر کے گاڑیوں میں بھرنے لگے۔ اس دوران بھوت ان کے سروں پر اڑتے رہے اور بھیانک آوازوں سے چیختے رہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ گاڑیاں اسٹارٹ کر کے روانہ ہو گئے اور راستے میں ڈریٹن کی گاڑی کے پاس سے بھی گزرے۔ جب وہ انکل اینگس کے گھر پہنچے تو صبح کے تقریباً 5 بج چکے تھے۔
۔۔۔۔۔دوسری طرف ڈریٹن بھی چوری شدہ کار کو واپس اینور البا لے گیا اور وہاں دریائے البا کے پل پر گاڑی سے اتر کر اسے دھکا دیتے ہوئے نیچے گرا دیا، گاڑی ایک زبردست چھپاکے سے دریا میں جا گری، اور بہہ کر جانے لگی۔ اسے آرام کی طلب ہو رہی تھی لیکن اس نے سوچا کہ قلعے کے ٹھنڈے فرش نے اسے بیمار کر دیا ہے، اب کسی مقامی ہوٹل میں کمرہ لے لینا چاہیے، امید ہے کہ ایلسے خاتون نے اس کا نام پھیلایا نہ ہوگا۔ صبح نمودار ہونے کو تھی جب وہ ایک ہوٹل کے پاس جا پہنچا، چوں کہ اس کے پاس کافی رقم تھی اس لیے ہوٹل کے کلرک نے اس وقت اس کی مشکوک آمد پر کوئی سوال جواب نہیں کیا اور اسے ایک کمرہ دے دیا۔ کمرے میں پہنچتے ہی وہ بستر پر لیٹ کر سو گیا۔
-
ایک سو اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
سب اپنے اپنے خیمے میں سونے کے لیے چلے گئے تھے، فیونا اور اس کی ممی بھی اپنے خیمے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے کہا: ’’ممی میں چند منٹوں کے لیے دوربین سے یہاں کا نظارہ کرنا چاہتی ہوں، بس ابھی واپس آ جاؤں گی، ٹھیک ہے؟‘‘
مائری نے ٹھیک ہے کہہ کر سر اثبات میں ہلایا، فیونا باہر نکل گئی اور وہ سلیپنگ بیگ پھیلانے لگییں۔ فیونا سوچ سمجھ کر باہر نکلی تھی، اس نے ڈھلوان پر پہنچ کر دوربین آنکھوں سے لگایا اور رات کی تاریکی میں جنگل، پہاڑیوں اور درختوں کے گہرے سایوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔ آخر کار وہ چونک اٹھی: ’’یہ کیا ہے؟ اوہ یہ تو ایک کار ہے۔‘‘ اس نے دوربین میں غور سے دیکھا تو اسے ڈریٹن بھی کار میں پچھلی سیٹ پر سوتا نظر آ گیا۔ فیونا کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ طاری ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور کیمپ گراؤنڈ کے آس پاس موجود ریچھوں، راکون بندروں، چوہوں اور گلہریوں کو پکارا، اور انھیں حکم دیا کہ وہ گاڑی میں موجود لڑکے کے گرد جمع ہو کر اسے ڈرائے، تاہم اسے زخمی نہ کرے۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو درختوں کے درمیان تیز سرسراہٹیں سنائی دینے لگیں، مختلف جانور ڈریٹن کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ دوربین میں یہ نظارہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی کہ اچانک اسے کندھوں پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اور وہ اچھل پڑی۔
’’آپ کیا کر رہی ہیں فیونا؟‘‘ یہ جیک تھا۔
’’مم … میں ستاروں کو دیکھ رہی ہوں۔‘‘ اس نے گڑبڑا کر جھوٹ بولا۔ لیکن وہ بھول گئی تھی کہ دوربین کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ نیچے جنگل کی طرف تھا۔ جیک کی گھومتی نظروں سے ہار کر آخر اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ ڈریٹن کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ جیک چونک اٹھا اور بولا: ’’ڈریٹن؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ فیونا نے اسے دوربین دے کر ایک طرف اشارہ کیا۔ جیک نے دیکھا کہ ایک ریچھ گاڑی پر کھڑے ہو کر اچھل کود کر رہا تھا، ایک پہاڑی شیر گاڑی کے دروازے پر حملہ آور ہو کر اپنے نوکیلے پنجے اس میں گاڑنے کی کوشش میں تھا۔ اس نے دیکھا کئی بندر اور بڑی گلہریاں اور دیگر کئی جانوروں نے گاڑی کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ جیک کو بھی دیکھ کر مزا آیا اور اس کے چہرے پر چاند کی روشنی میں مسکراہٹ پھیلی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر تک انھوں نے ڈریٹن کی خوف زدہ صورت حال کا لطف لیا اور پھر خیموں میں چلے گئے، فیونا نے جیک سے کہا تھا کہ وہ اس کے بارے میں ممی کو ہرگز نہ بتائے۔
۔۔۔۔۔گاڑی میں بری طرح ہلچل کی وجہ سے ڈریٹن کی آنکھ کھل گئی، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاڑی کے آس پاس ہر قسم کا جنگلی جانور موجود ہے اور گاڑی پر حملہ کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر جانوروں کو دور ہونے کا حکم دینے لگا لیکن کسی نے اس کا حکم نہ سنا۔ وہ غصے سے چیخ چیخ کر انھیں جانے کا کہتا رہا لیکن جانوروں نے اس کی ایک نہ سنی۔ تھک ہار کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ایک اور رات بے خوابی میں گزرے گی اب۔ اس نے جادوگر پہلان کو آواز دے کر کہا اس سے بری رات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پہلان نے اس کی چیخیں سنیں، تو اس کی حالت پر افسوس کرتا ہوا قلعے کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کہ اس احمق سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس نے کمرے میں سرخ ٹوپیوں والی بد روحوں میں سے تین کو ڈریٹن کی طرف جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جا کر اس کی مدد کرو، جانوروں کو ڈرا کر بھگاؤ اور پھر انسانوں کو خوف زدہ کرو۔ تین بد روح، گھناؤنی شکلیں پہلان کے حکم پر روانہ ہو گئیں۔
بد روحوں نے گاڑی کے آس پاس پھیلے ہوئے جانوروں کو ڈرا کر بھگا دیا۔ بد روحوں کو دیکھ کر ڈریٹن کی بھی روح فنا ہو گئی تھی، اور وہ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ پتا نہیں پہلان نے انھیں پھر اذیت دینے کے لیے نہ بھیجا ہو۔ بد روحوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ اٹھو اور بتاؤ کہ انسان کہاں پر ہیں، پہلان نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہے۔ ڈریٹن یہ دیکھ کر خوش ہو گیا اور بد روحوں کو بتایا کہ فیونا کا گروپ کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ بد روحیں فیونا اور باقی افراد کی طرف اڑ گئیں جب کہ ڈریٹن پھر گاڑی میں لیٹ کر سو گیا۔
(جاری ہے….)
-
ایک سو ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’ارے یہ بارش کہاں سے آئی؟ پانچ منٹ پہلے تو آسمان بالکل صاف تھا۔‘‘ فیونا کی ممی نے حیران ہو کر کہا۔ اور پھر سب خیموں کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ صرف بارش ہی نہیں آسمان میں زور دار بجلی بھی کڑکی تھی۔ مائری نے سب کو اپنے خیمے میں آنے کو کہا کیوں کہ وہ سب سے بڑا تھا۔ جب وہ خیمے میں داخل ہوئے تو انھوں نے نہایت حیرت سے دیکھا کہ اولے برسنے لگے ہیں، جس نے خیمے کو جیسے زلزلے کی زد پر لے لیا ہو۔ باہر گاڑیوں کے بونٹس پر اولے پتھر کی طرح گر کر شور مچا رہے تھے۔ اینگس پریشان ہو گئے کہ گاڑی میں ڈینٹ پڑ جائیں گے اور گاڑی کا مالک یہ دیکھ کر سخت ناراض ہو جائے گا۔اچانک فیونا کو ایک خیال آیا اور اس نے کہا لگتا ہے یہ بھی ڈریٹن کی شرارت ہے۔ انھوں نے خیمے سے سر باہر نکال کر دیکھا، پتھروں سے بنے چولھے کے گھیرے میں پانی بھر چکا تھا اور کیمپ گراؤنڈ کے گڑھے بھی پانی سے بھر چکے تھے۔ باقی افراد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔ پھر فیونا نے آنکھیں بند کر کے بارش، اولے اور کڑکنے والی بجلی روکنے کی کوشش کی۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے کانوں سے جیفرے کی آواز ٹکرائی: ’’شکر ہے بارش رک گئی۔‘‘
بارش رکنے کے بعد ماحول پراسرار طور پر گرم ہونے لگا تھا، جس کی وجہ سے ہر جانب پھیلی نمی کم ہونے لگی۔ ہوا کے گرم جھونکے انھیں اچھے لگنے لگے۔ وہ سب خیموں سے نکل آئے تھے اور فیونا نے جیفرے کی فرمائش پر ایک بار پھر آگ بھڑکا دی تھی۔ ہوا میں دیودار کی طرح میٹھی اور تازہ خوشبو آ رہی تھی۔ وہ آگے کے گرد بیٹھ کر خشک میوہ جات کھانے لگے اور ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگے۔ اس وقت وہ شہد کی مکھیوں کے ڈنک کی تکلیف بھی بھول گئے تھے۔
ایسے میں قدیم انسانوں میں کسی نے کہا کہ انھیں کوئی ایسی کہانی سنائی جائے جو انھوں نے اپنے زمانے میں نہ سنی ہو۔ فیونا نے کہا کہ وہ ڈراؤنی کہانی سنا سکتی ہے، پھر اس نے پوچھا کہ کیا انھوں نے ویمپائر کے بارے میں کبھی سنا؟ جولین نے کہا کہ اس نے تو کبھی نہیں سنا، اس نے جیفرے کی طرف دیکھ کر استفسار کیا اور اس نے پوچھا کیا یہ کوئی جان ور ہے؟ فیونا ہنسنے لگی اور بتایا: ’’ویمپائر آدمی ہوتا ہے، جو چمگادڑ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور دیگر انسانوں کا خون پیتا ہے، اسے مارنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے دل میں لکڑی گھسائی جائے یا چاندی کی گولی استعمال کی جائے۔‘‘’’بہت عجیب چیز ہے یہ تو۔‘‘ جیفرے بولا۔ جولین نے کہا تو چلی سناؤ کوئی کہانی۔ فیونا سنانے لگی: ’’بہت عرصہ پہلے ٹرانسلوینیا میں …‘‘
جب فیونا نے کہانی سنائی تو وہ حیران ہوتے رہے، پھر اینگس گاڑی سے طاقت ور دوربین لے کر آ گئے، اور انھیں کھلے اور صاف آسمان میں ستارے دیکھنے کا تجربہ کرایا۔ مائری نے انھیں ملکی وے گیلیکسی کے بارے میں بتایا جس میں ہمارا نظام شمسی واقع ہے۔ دوربین کی مدد سے جب انھوں نے ستاروں کو اتنا صاف دیکھا تو وہ ششدر رہ گئے، اور اگلے ایک گھنٹے تک وہ سب کائنات کے عجائب پر حیران ہوتے رہے۔ وہ کہتے رہے کہ ان کے دور میں بڑے بڑے جادوگر تھے لیکن اس جدید زمانے کے جادوگروں کا کوئی مقابلہ ممکن نہیں ہے۔
دوسری طرف ڈریٹن کو ایک بار پھر اپنی شکست محسوس ہو رہی تھی، وہ بڑبڑا کر بولا، فیونا تم نے ایک بار پھر مجھے ہرا دیا ہے، لیکن خیر ابھی میں تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں، جاگنے پر دیکھوں گا۔ وہ گاڑی کی پچھلی میں گھسا اور کوٹ خود پر ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔
(جاری ہے…)