Tag: رفیع اللہ میاں ناول

  • اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    چمنی سے خاکی مائل بادامی دھواں اندر آ کر اس کی ٹانگوں کے گرد گھومنے لگا تھا، جس نے آن کی آن میں چکراتے ہوئے اوپر اٹھ کر اسے لپیٹ میں لے لیا۔ پھر دھوئیں کے چکر میں تیزی آنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی تیزی سے گھومنے لگا جس پر دہشت کے مارے اس کے منھ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ’’یہ … یہ … کیا ہو رہا ہے؟‘‘ لیکن کچھ ہی لمحوں کے بعد دھواں ٹھہر گیا، تو اس کا گھومنا بھی بند ہو گیا۔ اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ دھواں اس کے سامنے کھڑا ہو کر دھیرے دھیرے انسان کی شکل اختیار کرنے لگا۔

    ’’کک … کیا تم کنگ کیگان ہو؟ مم … میں نے تمھیں ابھی ابھی برا بھلا کہا … کک … کیا تم مجھے … اس کی سزا دو گے؟‘‘ وہ خوف کے مارے ہکلانے لگا۔

    ’’کیا میں کنگ کیگان کی طرح دکھائی دیتا ہوں؟‘‘ یکایک ایک کمزور اور بوڑھی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’میں پہلان ہوں، کنگ دوگان کا جادوگر۔ میں سیکڑوں برس سے یہاں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، اور آخر کار تم پہنچ ہی گئے۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو … پہلان …‘‘ ڈریٹن یہ سن کر اچھل پڑا۔ ’’تم نے کیا کہا کہ تم میرا انتظار کر رہے تھے، کیا مطلب ہے اس کا، تم میرا انتظار کیوں کر رہے تھے؟‘‘ اب اس کا خوف دور ہو گیا تھا اور وہ کسی پولیس والے کی طرح سوال پر سوال داغنے لگا، لیکن جادوگر پہلان کو اس کی یہ بدتمیزی پسند نہیں آئی۔

    ’’لڑکے، میں تمھارے آبا و اجداد میں سے ہوں، میرا احترام کرو۔ مجھے ایک معمولی بھوت مت سمجھو۔ میں پہلان ہوں پہلان … زیلیا کا جادوگر!‘‘

    ’’تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ ڈر کر ایک دم سے با آدب کھڑا ہو گیا۔ پہلان کہنے لگا کہ اسے سونے کی گیند تمام قیمتی پتھروں سمیت چاہیے۔ پہلان نے کہا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ نیکلس تمھارے پاس ہے۔‘‘

    ڈریٹن کی شرٹ سے نیکلس لہراتے سانپ کی طرح باہر نکل آیا۔ ’’نہیں، میں یہ آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے اسے واپس شرٹ کے اندر ڈال لیا۔

    ’’بے وقوف لڑکے، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے آبا و اجداد کی طرح بالکل نہیں ہو۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ تم نے کتنی بے کار چیز کو گلے میں ڈال رکھا ہے تو انھیں تم پر غصہ آئے گا۔ اور تم نے عورتوں کی طرح یہ بُندے کیوں پہن رکھے ہیں، میں نے مردوں کو کبھی انھیں پہنے نہیں دیکھا۔

    ’’اب بہت ساری چیزیں بدل چکی ہیں اور مرد بھی انھیں پہننے لگے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے فوراً جواب دیا۔

    ’’میں پھر یہ کہوں گا کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہیں۔ تمھارے سوا میں نے کسی کو بھی کانوں کے چھلے پہنے نہیں دیکھا۔ بہرحال تم جادوئی گولا اور قیمتی پتھر میرے پاس لے کر آؤ۔ جب یہ ساری چیزیں میرے پاس ہوں گی تو میں پھر سے زندہ ہو جاؤں گا اور تمھارا جادوگر بن کر تمھاری خدمت کروں گا۔ ہم ساری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یقیناً تم بھی یہی پسند کرو گے، کیا کہتے ہو نوجوان ڈریٹن۔‘‘ یہ کہہ کر پہلان قہقہے لگانے لگا۔ اس کے قہقہے ایسے ہی تھے جیسے بھوت ہنس رہے ہوں جسے سن کر زندہ لوگوں میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے۔‘‘

    ’’واہ یہ تو بہت شان دار خیال ہے۔‘‘ ڈریٹن نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔ ’’یعنی اب میں بھی ایک جادوگر سے کام لے سکتا ہوں۔ لیکن جادوئی گیند ہے کہاں؟‘‘

    پہلان کے بھوت نے بتایا کہ جادوئی گولا اسی گاؤں میں ہے، ایک لڑکی نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اور اس نے ایک قیمتی پتھر بھی ڈھونڈ لیا ہے۔

    ’’اوہ، تو یہ بات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرا نیکلس کیوں اچانک چمکنے لگا ہے۔‘‘ ڈریٹن نے چونک کر کہا۔ ’’چوں کہ میں دونوں خاندانوں کا وارث ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں دوگان کے جادو کا طریقہ سیکھوں۔‘‘

    ’’تمھیں ہر صورت میں صبر سے کام لینا ہو گا۔‘‘ پہلان کے بھوت نے جلدی سے اسے ٹوک دیا۔ ’’میں خود ہی جادوئی گیند اور قیمتی پتھر حاصل کر لیتا لیکن میں اس قلعے اور جھیل سے باہر نہیں جا سکتا۔‘‘

    ’’اور اگر آپ یہاں سے نکلے تو کیا ہوگا … کیا آپ مینڈک بن جائیں گے یا کچھ اور؟‘‘ ڈریٹن نے عادت سے مجبور ہو کر مذاق اڑایا۔

    ’’بس … گستاخی کی بھی حد ہوتی ہے۔‘‘ پہلان کے بھوت کو غصہ آ گیا۔ ’’میں یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتا۔ کسی چیز میں تبدیل نہیں ہوں گا، لیکن اگر نکلا تو عظیم جادوگر کا قہر مجھ پر ٹوٹ پڑے گا۔ اسے نہیں پتا کہ میں کہاں ہوں اور مجھ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے، اس لیے میں یہیں رہوں گا۔‘‘

    ’’تو تم کبھی بھی یہاں سے باہر نہیں نکلو گے؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا۔

    اس نے کہا: ’’فی الحال حالات ہی ایسے ہیں، اگر مجھے کوئی چھوٹا بدن مل جائے تو میں یہاں سے نکل سکتا ہوں، لیکن وہ بھی صرف بارہ گھنٹوں کے لیے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

    ڈریٹن چونکا، اور گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’’کک … کہیں آپ میرا جسم لینے کا ارادہ تو نہیں رکھتے۔ چھوٹے بدن سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا کسی جانور کا؟‘‘

    ’’احمق لڑکے، میں کسی انسانی بدن میں نہیں جا سکتا، کم سے کم اتنی آسانی سے تو بالکل نہیں۔ کوئی بھی جادوگر ایسا نہیں کر سکتا۔ ہاں میں کسی بھتنے، بونے، بالشتیے یا پھر پریوں کی دنیا کی کسی اور مخلوق کے جسم میں اندر جا سکتا ہوں اور اس پر قبضہ جما سکتا ہوں۔‘‘ پہلان جادوگر کا بھوت کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا۔ ’’میں نے تمھیں بہت کچھ بتا دیا ہے، وہ باتیں جو تمھیں بتانے کی نہیں تھیں۔ مجھے وہ جادوئی گولا چاہیے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے اپنا جسم حاصل کر سکوں۔ اب تم میرے حکم کی تعمیل کرو گے ورنہ میں تمھیں مینڈک سے بھی زیادہ بدتر چیز میں تبدیل کر دوں گا۔ تم ہر رات یہاں آؤ گے اور میں تمھیں جادوگروں کے طریقے اور منتر سکھاؤں گا۔ جب وقت آئے گا تو تم ان منتروں کو استعمال کر کے جادوئی گولا حاصل کرنے کے قابل ہو جاؤ گے۔‘‘

    یہ کہہ کر جادوگر کا بھوت پھر دھواں بن کر غائب ہو گیا۔

    (جاری ہے….)

  • چالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’بہت خوب۔‘‘ ڈریٹن نے اداکاری کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’تو وہ اسی گھر ہی میں رہ رہا ہے، جہاں میں نے آخری مرتبہ اس کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ تو ایلسے، اب میں ایسی جگہ کا خواہش مند ہوں جہاں مجھے تنہائی میسر ہو کیوں کہ میں کتاب لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے میں ایسی جگہ تلاش کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکلا اور نفرت انگیز انداز میں منہ سکیڑ کر بڑبڑایا: ’’بے وقوف بڑھیا، یہ تو میری ماں سے بھی کہیں زیادہ بے وقوف لگ رہی ہے۔ ویسے اس سے کافی معلومات مل گئی ہیں، اور اب میں جان گیا ہوں کہ اینگس کہاں رہتا ہے۔ اب میں وہاں جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ اس نے اپنے آس پاس کیا کچھ جمع کر رکھا ہے۔‘‘

    ڈریٹن اینسٹر اسٹریٹ کی جانب گامزن ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اینگس کے گھر پر تھا۔ پہلے تو اس نے گھر کے باہر احاطے میں احتیاط سے دیکھا کہ کہیں اس نے کتے تو نہیں رکھے، لیکن وہاں کوئی کتا نہیں تھا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور آگے بڑھ کر دروازے کا ہینڈل گمھایا۔ اسے خوش گوار حیرت ہوئی کہ اینگس نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ ’’مزا آئے گا۔‘‘ شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیلنے لگی تھی۔

    دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گیا۔ اسی وقت بہت ساری بلیاں اس کی طرف دوڑ پڑیں اور اس پر غرانے لگیں۔ اینگس کو کتے پالنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن بلیاں انھوں نے بہت ساری اور بہت شوق سے پالی تھیں۔ گھر میں ہر طرف بلیاں ہی بلیاں نظر آیا کرتی تھیں۔ یہ بلیاں ایک اجنبی کی آمد پر بہت غصے میں دکھائی دے رہی تھیں۔ ڈریٹن نے دروازہ کھلا چھوڑا اور ایک بلی کو غصے سے لات مار کر باہر پھینک دیا اور چلایا: ’’دفع ہو جاؤ منحوس بلیوں!‘‘ جو بلی اس کے قریب آتی وہ اسے لات مار کر باہر پھینکنے لگا۔ کئی ایک بلیاں جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر رہی تھیں، ڈریٹن نے انھیں دم سے پکڑ کر دور اچھال دیا اور آخر میں دروازہ بند کر دیا۔

    کچھ دیر تک گھر کی تلاشی لینے کے بعد اس نے قریب سے گاڑی کے گزرنے کی آواز سنی تو اس نے محسوس کیا کہ یہ وقت درست نہیں ہے، رات کا اندھیرا بہتر ہوگا۔ اس لیے وہ پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ درختوں کے جھنڈ میں آگے بڑھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ قلعہ آذر کو کیسے اور کہاں ڈھونڈے۔ چلتے چلتے وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ایک موڑ پر اسے ایک بورڈ نصب نظر آ گیا، جس پر لکھا تھا: ’’قلعہ آذر اس طرف۔‘‘ وہ اس طرف چلتا چلا گیا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔ آخر کار جھیل کے کنارے پہنچ کر رک گیا، ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑبڑایا: ’’تو قلعہ ایک جزیرے پر ہے، اب وہاں تک کیسے پہنچوں؟‘‘

    کچھ دیر تک جب اسے کوئی ذریعہ نظر نہیں آیا تو اس کے سر میں غصے کا غبار بھر گیا۔ اور پھر اس کی نگاہ جبران کے پاپا والی کشتی پر پڑ ہی گئی۔ ڈریٹن اسے ایک اتفاق ہی سمجھا، لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ یہاں جبران کے پاپا کی کشتی ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس نے کشتی کی رسی کھول دی اور اسے پانی میں دھکیل دیا، پھر چپو سنبھال کر کشتی کو جزیرے کی جانب کھینے لگا۔ وہاں پہنچ کر جب اس نے کشتی کو ساحل پر ٹھہرایا تو قلعے سے بہت سار ہنس اڑ کر دور چلے گئے۔

    اس نے ایک نظر میں قلعے کا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں کہا کہ یہ تو قلعے کی طرح نہیں لگ رہا ہے۔ وہ اطمینان سے چلتا ہوا بے خوفی سے قلعے میں داخل ہو گیا، اور تمام کمروں میں گھوما پھرا۔ اسے جادوئی گولے اور کتاب کی تلاش تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس نے چمنی کے پیچھے چھپا ہوا کمرہ تلاش کر لیا۔ دراصل فیونا اور اس کے دوست دروازہ بند کرنا بھول گئے تھے۔ وہ یہ خفیہ دروازہ کھلا دیکھ کر خوش نہیں ہوا، بلکہ تشویش میں مبتلا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ضرور یہ دروازہ اس سے پہلے ہی کوئی کھول چکا ہے۔ اندر میز بھی موجود تھی اور صندوق بھی۔ اس نے میز کے نیچے دیکھا، وہاں سونے کی تختی لگی تھی جیسا کہ اس کے پاس موجود کتاب میں ذکر تھا، پھر اس نے صندوق کھول کر دیکھا تو اس میں مکڑی کے جالوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نگاہیں کھڑکی کے منقش شیشے پر ٹھہر گئیں۔ شیشہ بالکل صاف تھا جیسے اسے کسی نے حال ہی میں صاف کیا ہو۔ اسے شیشے پر بادشاہ کیگان کی شبیہ نظر آ گئی۔

    ’’ تو تم ہو کنگ کیگان۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میرے پیش رو، لیکن مجھے اس پر ذرا بھی فخر نہیں ہے، تم بزدل ہو، تم اسی کے مستحق تھے کہ تمھارا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ دیکھو کیگان، یہ رہا تمھارا نیکلس… میرے پاس!‘‘

    اس نے کھڑکی کے سامنے کھڑے کھڑے سینہ تان لیا اور بلند آواز میں بولنے لگا: ’’تمھیں پتا ہے میرے پردادا دوگان نے تمھاری بیٹی ازابیلا سے زبردستی شادی کر لی تھی۔ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، کیا تمھیں پتا ہے؟‘‘ وہ ہنسنے لگا: ’’نہیں، بھلا تمھیں کیسے پتا چل سکتا ہے، تم تو کب کے کیڑوں کی خوراک بن چکے ہوگے۔‘‘

    اچانک اسے اپنے قدموں کے پاس کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی۔ اس نے جلدی سے پیروں کی طرف دیکھا، اور اسے ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہڑ دوڑتی محسوس ہوئی۔

    (جاری ہے)

  • اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اُف جبران، ایسا مت کہو، مجھے نہیں لگتا کہ یہ برے لوگ ہیں۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’مم… میں وضاحت نہیں کر پا رہی ہوں لیکن مجھ لگتا ہے کہ یہ اس معاملے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’کس معاملے سے؟‘‘ جبران حیران ہو گیا۔

    ’’جادوئی گیند، قلعے اور قیمتی پتھروں کے معاملے سے، تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘

    ’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہاں کوئی غیر معمولی بات ضرور محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور آنکھیں ملنے لگا۔ ’’آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ سارا دن کام میں لگا رہا۔ میں پاپا اور مہمانوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے چلا گیا تھا۔‘‘

    ’’واہ، تو تم نے آج خوب تفریح کی۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ اچانک مائری کی آواز آئی: ’’فیونا کیا تم جانے کے لیے تیار ہو؟‘‘

    ’’اچھا میں جا رہی ہوں، ویسے تمھیں بتادوں کہ انکل اینگس کل صبح کریان لارچ جا رہے ہیں، تجارت کے سلسلے میں، وہ وہاں شو کریں گے۔‘‘

    ’’کیسا شو؟‘‘ جبران نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں گھوم پھر کر اپنی دست کاری کے فن پارے فروخت کرتے ہیں۔ ان کی واپسی پیر کے دوپہر کو ہوگی۔ اور جب تک وہ واپس نہیں آئیں گے تب تک وہ کسی اور مہم پر بھی نہیں جائیں گے۔

    ’’ٹھیک ہے میں بھی اطمینان سے سو جاتا ہوں۔‘‘ جبران نے جماہی لی۔

    مائری اور فیونا رخصت ہو گئیں۔ جونی اور جمی بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ جونی نے چلتے چلتے کہا یہاں اندھیرا کچھ جلدی نہیں اترا ہے! مائری نے آسمان کی طرف دیکھ کر جواب دیا، جہاں اندھیرے نے پر پھیلا دیے تھے: ’’یہ خزاں کا موسم ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ کے ہائی لینڈز میں ہیں۔‘‘

    اچانک فیونا نے جونی کو مخاطب کیا: ’’آپ کیوں ٹی وی دیکھنا نہیں چاہتے؟ جبران نے بتایا تھا کہ آپ نے اس سے پہلے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا!‘‘

    ایک بار پھر دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر جونی نے جواب دیا: ’’دراصل ہمارے والدین نے ہمیں بچپن ہی سے سکھا دیا تھا کہ وقت کا بہترین استعمال یہی ہے کہ ہم کتابیں پڑھیں یا کہانیاں لکھیں، یا پھر دور دراز مقامات کی سیر کیا کریں۔ اس لیے ہم نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، نہ ہمیں اس کا کوئی شوق ہے۔‘‘

    ’’اوہ، پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘ فیونا دل چسپی سے بولی۔ ’’مجھے بھی مطالعہ اور کہانیاں لکھنا پسند ہے۔ تو آپ لوگ کماتے کیسے ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ جونی جواب میں کچھ کہتا، اس کی ممی مائری نے فوراً مداخلت کر کے فیونا کو ٹوک دیا: ’’ایسی باتیں مت پوچھو، ان باتوں سے تمھارا کیا لینا دینا۔‘‘ لیکن جونی نے جواب میں کہا کہ یہ درست ہے کہ جمی زیادہ تر وقت سیر سپاٹے میں گزارتا ہے اور میں لکھنے میں۔ فیونا نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔

    جونی نے جواب دیا: ’’ہاں بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی میں نے۔‘‘

    فیونا نے اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کیا، اس لیے باقی کا راستہ خاموشی سے طے ہوا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر مائری نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو جمی نے چونک کر کہا: ’’آپ نے دروازے کو تالا نہیں لگایا تھا؟‘‘

    ’’نہیں… ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گیل ٹے بہت پُر امن جگہ ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ مائری نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’لیکن ممی ہمیں دروازے کو تالا لگانا چاہیے، کیوں کہ ان دنوں یہاں باہر سے اجنبی سیاح آتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور پھر جلدی سے جونی کی طرف مڑ کر معذرت کرنے لگی۔ ’’آپ برا نہ منائیں، میرا مطلب اجنبی سیاحوں سے ہے۔‘‘

    ’’تم درست کہہ رہی ہو فیونا، یہ اچھا آئیڈیا ہے، اب کے بعد دروازے کو ضرور تالا لگایا کریں مائری۔‘‘ جونی نے بھی کہا اور مڑ کر بولا: ’’مجھے امید ہے کہ جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔‘‘

    دونوں جبران کے گھر کی طرف چل پڑے، اور مائری نے دروازہ بند کر لیا۔ فیونا اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی: ’’ممی، جبران کے پاپا بلال صاحب کی فیملی کے بعد کیا یہ دونوں بھائی بھی ہمارے خاندان کے قریب آ رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے ساتھ کوئی رشتہ قائم کرنا چاہیے؟‘‘

    ’’ابھی ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ مائری نے جواب دیا: ’’اب تم چلو، گڈ نائٹ!‘‘

    (جاری ہے….)

  • سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط یہاں پڑھی جاسکتی ہیں

    فیونا اور اس کی ممی چند گھنٹے بعد جبران کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ ’’کتنی عجیب بات ہے، ہمارے درمیان اس سے قبل ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ چند ہی دن میں ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آ گئے ہیں، کہ اب ان کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت پر جا رہے ہیں۔‘‘ مائری نے چلتے چلتے کہا۔

    ’’کیا اس میں ہماری دوستی کا کوئی کردار نہیں ہے؟‘‘ فیونا نے پوچھا۔

    ’’بہت اہم کردار ہے بیٹی۔ بچوں کی دوستی سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانوں میں پکی دوستی ہو جاتی ہے، اور بعض اوقات دوستی کا تعلق رشتہ داری میں بدل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اب تو مسٹر تھامسن بھی ہمارے درمیان آ گئے ہیں۔‘‘ فیونا نے کن اکھیوں سے اپنی ممی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔ ’’ممی، کیا یہ سب عجیب سا نہیں لگتا آپ کو؟ ابھی چند دن پہلے تک ہم کتنی بوریت محسوس کرتے تھے اور اب کتنے پرجوش ہو گئے ہیں۔ کیا ہماری زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے؟‘‘

    چلتے چلتے مائری ایک دم رک گئیں۔ انھوں نے گھوم کر فیونا کو حیرت اور خوشی سے دیکھا اور کہا: ’’مجھے حیرت ہے تم ایسی باتیں کر رہی ہو، کل تک تم یہاں سے بور ہو گئی تھی۔ خیر میں بتاؤں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ تمھیں اپنے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔‘‘

    کچھ دیر بعد وہ جبران کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے لیے دروازہ جبران ہی نے کھولا اور انھیں مہمان خانے لے گیا۔ وہاں تھامسن اور اس کا بھائی پہلے سے موجود تھے۔ دونوں ان کے استقبال کے لیے اٹھ گئے اور پھر چاروں صوفوں پر بیٹھ گئے۔

    ’’ہم دوسری مرتبہ مل رہے ہیں مائری مک ایلسٹر، یہ آپ کی بیٹی فیونا ہے نا؟‘‘ جونی تھامسن نے بیٹھتے ہی مسکرا کر کہا۔

    ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا تعلق اینور ڈروچٹ سے ہے، یہ ایک پیارا گاؤں ہے۔‘‘ تھامسن نے اپنے بھائی جمی کو کن اکھیوں سے دیکھا۔ مائری نے کہا: ’’میں نے بھی آپ کے بارے میں سنا ہے مسٹر تھامسن، یہ کہ آپ کا تعلق لندن سے ہے۔‘‘

    ’’پلیز آپ مجھے یہ مسٹر تھامسن بلانا چھوڑ دیں، میرا نام جون ہے لیکن آپ مجھے جونی پکار سکتی ہیں۔ یہ میرا بھائی جیمز ہے، اسے جمی کہلوانا پسند ہے۔‘‘ جونی تھامسن بولا۔ ’’ویسے ہم لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

    ایسے میں جبران کے پاپا بلال کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ وہ آتش دان کے قریب بیٹھے سگار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ’’لیکن آپ کا لہجہ تو لندن والوں جیسا ہرگز نہیں ہے، آپ کے لہجے سے لگتا ہے کہ آپ یورپی ہیں۔‘‘

    جمی نے کھانس کر تھوک نگلا۔ جونی نے جواب میں کہا: ’’دراصل ہماری ماں اسکاٹ لینڈ کی تھیں، اور باپ کا تعلق مشرق وسطیٰ سے تھا، ویسے ہم دونوں لندن ہی کے ہیں۔‘‘

    بلال نے مطمئن ہو کر اثبات میں سر ہلایا اور سگار کا دھواں اڑانے لگے۔ اسی وقت شاہانہ نے آ کر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب اٹھ کر بلال کی رہنمائی میں کھانے کے کمرے کی طرف چلے۔ سب ایک بڑی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے تو شاہانہ کھانے کے ساتھ آ گئیں۔ اگلے لمحے گلابی لکیروں والا میز پوش سلور کی پلیٹوں سے چھپ گیا۔ میز پر انواع و اقسام کے کھانے چُنے گئے۔

    ’’ارے اتنا سب کچھ، یہ تو کسی بادشاہ کی فوج کے لیے بھی کافی رہے گا۔‘‘ بلال کے چہرے پر واقعی حیرت تھی، کیوں کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لیے کیا انتظام کیا گیا ہے۔ عین اسی لمحے فیونا کی نظر جونی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ اپنے بھائی جمی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ دونوں بھائی کر کیا رہے ہیں، یہ تو واقعی عجیب طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یعنی جبران نے درست کہا تھا۔

    ’’دراصل آپ میز پر جو اتنے سارے کھانے دیکھ رہے ہیں ان میں اکثر مائری کے لائے ہوئے ہیں۔ وہ آج اپنے باغیچے سے تازہ سبزیاں لائی تھیں۔ مہمان خانے میں جس گل دان میں آپ رنگ رنگ کے پھول دیکھ کر آئے ہیں، وہ بھی مائری لائی ہیں۔ ایسے پھول آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔‘‘ شاہانہ نے راز سے پردہ اٹھایا۔

    کھانا کھانے کے بعد فیونا، جبران اور دانیال دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ فیونا بولی: ’’جبران تم نے نوٹ کیا کہ وہ دونوں بھائی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے رہے۔ جمی نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہو لیکن میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے۔‘‘

    ’’تو کیا یہ دونوں قاتل اور کسی جیل سے بھاگے قیدی ہیں، اور رات کو جب ہم سو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل کر دیں گے؟‘‘ جبران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے تیرنے لگے۔

    (جاری ہے…)

  • چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    فیونا، جبران اور دانیال اینگس کے گھر سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے۔

    ’’پتا نہیں اس وقت میری ممی کہاں ہوں گی؟ شاید بیکری میں کام کر رہی ہوں گی۔ میں اس طرح کرتی ہوں کہ پہلے بیکری جا کر دیکھتی ہوں، کیا تم دونوں میرے ساتھ جاؤ گے؟‘‘ فیونا نے دونوں سے پوچھا۔

    ’’بہتر ہوگا کہ ہم اپنے گھر کو جائیں۔ ٹھیک ہے کہ یہاں اسکاٹ لینڈ میں صرف چند ہی منٹ کا وقت گزرا ہے لیکن میرا بدن تھکن سے چور ہے۔ میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’اس کے بعد میں ڈائری بھی لکھوں گا۔‘‘

    ’’میں ڈرائینگ میں ماہر ہوں۔ میں تو ان چیزوں کی تصاویر بناؤں گا جو آج ہم نے دیکھی ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    ’’پاپا کو شاید مسٹر تھامسن کے سلسلے میں میری مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’پتا ہے فیونا، تھامسن عجیب قسم کا آدمی ہے۔ انھیں یہ تک نہیں پتا کہ ٹیبلٹ کیا ہوتی ہے۔ اور تو اور، انھیں یارکشائر پڈنگ کے متعلق بھی کچھ پتا نہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انگریز کو یارکشائر پڈنگ کا پتا نہ ہو!‘‘

    ’’یہ تو بڑی احمقانہ سی بات ہے جبران۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی۔

    ’’اچھا پھر ملیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور دانیال کے ہمراہ اپنے گھر کے راستے پر مڑ گیا۔ فیونا سیدھی بیکری جا پہنچی جہاں اس کی ممی پارٹ ٹائم ملازمت کرتی تھیں۔ وہ بیکری کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ اندر ایک ہی شخص تھا۔ فیونا نے پوچھا: ’’ہیلو جناب میکنزی، کیا آج ممی کام کر ہی ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، امید ہے کہ وہ جلد ہی آ جائیں گی۔ آج ایک یا دو گھنٹوں کے لیے مجھے ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ انھوں نے جواب دیا اور شیشے کے کیس سے ایک تھال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ’’کیا تم اس کا ذائقہ چکھ کر بتاؤ گی؟‘‘

    فیونا نے تھال میں پڑی پیسٹری کو حیرت سے دیکھ کر پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’یہ میں نے پہلی مرتبہ بنائی ہے، اسے بکلاوا کہتے ہیں اور یہ یونانی پیسٹری ہے۔‘‘ میکنزی نے جواب دیا۔ ’’دراصل یہ جدید ترکی کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم فارس میں اس کا آغاز ہوا تھا، لیکن یونان میں بکلاوا کی بے تحاشا اقسام پائی جاتی ہیں۔‘‘

    یونان کا ذکر سن کر فیونا چونک اٹھی۔ دل میں کہا کہ یونان کی ہے تو پھر تو ضرور کھاؤں گی، کیوں کہ وہ ابھی ابھی تو یونان سے لوٹی تھی۔ اس نے ایک پیسٹری اٹھا کر کھائی اور بے اختیار بولی: ’’واہ مزے دار ہے، یہ دودھ کے سموسے سے کہیں زیادہ اچھی ہے۔‘‘

    ’’یہ دودھ کا سموسہ کیا چیز ہے بھلا؟‘‘ میکنزی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ فیونا ہنس پڑی۔ ’’اسے مِلک پائی کہتے ہیں اور یہ بھی یونانی ہے۔‘‘

    ’’اوہ … تم تو یونانی ڈشز کے بارے میں بھی جانتی ہو۔ ویسے یہ پیسٹری شہد، فائلو پیسٹری شیٹ، مکھن اور خشک میوؤں سے تیار ہوتی ہے۔ احتیاط کرنا اگر تم اسے زیادہ کھاؤ گی تو تمھارا وزن بڑھ جائے گا۔‘‘ اس نے فیونا کو دوسری پیسٹری کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر خبردار کیا۔

    ’’اوہ شکریہ میکنزی صاحب، تو میں چلتی ہوں اور گھر ہی پر ممی کا انتظار کرتی ہوں، اور مجھے ابھی ابھی یاد آیا ہے کہ انھیں بلال صاحب کے ہاں جانا تھا۔‘‘

    فیونا گھر آ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔ وہ ٹی وی دیکھنے میں اتنی منہمک تھی کہ اسے ممی کے اندر آنے کا بھی پتا نہ چلا۔ وہ اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ’’انکل اینگس کے گھر کا دورہ کیسا رہا؟ تم تو بہت جلد آ گئی ہو۔‘‘

    فیونا ممی کی آواز سن کر چونک اٹھی، پھر مسکرا کر بتانے لگی کہ انکل کے گھر کا دورہ دل چسپ رہا۔ ممی نے صوفے سے اٹھ کر چغہ اتارا اور ایک کرسی کی پشت پر ڈال دیا۔ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ اینگس کو آج صبح ایک یا دو دنوں کے لیے کریان لارک جانا تھا، کیا انھوں نے اس کا ذکر کیا؟‘‘

    ’’نہیں تو … کب واپس آئیں گے وہ؟‘‘ فیونا نے کندھے اچکائے۔

    ’’غالباً پیر کی صبح، لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ انھوں نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ دراصل وہ اپنے بنائے ہوئے مجسموں کی نمائش کرائیں گے وہاں۔ یہ بات ضرور ان کے ذہن سے نکل گئی ہوگی۔‘‘

    ’’ان کے دماغ سے بہت ساری باتیں نکل جاتی ہیں۔ خیر آپ جبران کے گھر گئی تھیں تو اس کی ممی کو سبزیاں پسند آئیں، اور تھامسن سے ملاقات ہوئی؟‘‘

    ’’شاہانہ کو میری ساری چیزیں بہت پسند آئیں۔ پتا ہے انھوں نے مجھے اور تمھیں آج رات کھانے پر بلایا ہے۔‘‘

    ’’کیا واقعی؟‘‘ فیونا پُر جوش ہو گئی۔

    ’’ہاں بالکل۔ اور تمھارے لیے ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہاں تھامسن اور ان کا ایک بھائی جیمز بھی ہوں گے، وہ بھی یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’جبران کہہ رہا تھا کہ تھامسن ایک عجیب آدمی ہے، انھوں نے یارکشائر پڈنگ تک نہیں سنا۔‘‘

    ’’مجھے نہیں پتا، میں ابھی ان کے متعلق اتنا نہیں جانتی۔ ویسے میں اپنے ساتھ فروٹ چاٹ لے کر جاؤں گی۔ اب میں چلتی ہوں، ایک یا دو گھنٹے کام کروں گی۔ کچھ چیزیں خریدوں گی اور پھر تقریباً شام چھ بجے تک پہنچ جاؤں گی، اس لیے تم تیار رہنا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے ممی، لیکن بکلاوا بھی ضرور لے لینا۔ جبران اسے پسند کرے گا۔ یہ یونانی پیسٹری ہے۔ مجھے یقین ہے اس کا ذائقہ آپ کو بھی پسند آئے گا۔‘‘

    (جاری ہے)

  • چونتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چونتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    کھڑکی کے بند شیشے پر بارش کے قطرے مسلسل اس طرح گر رہے تھے کہ اس پر بے ہنگم موسیقی کا شائبہ ہو رہا تھا۔ ڈریٹن اسٹیلی نے خاکی اور نیلے رنگ کا بھاری پردہ ہٹا کر منظر دیکھا اور بڑبڑایا: ’’ٹرورو میں ایک اور تکلیف دہ دن۔‘‘

    اس نے شیشے سے جھانکتے ہوئے بادلوں کو دیکھنے کی کوشش کی اور پھر بڑبڑایا: ’’کتنی پریشان کن جگہ ہے یہ، نہیں اب تو میں یہاں بالکل نہیں ٹھہرنے والا۔‘‘

    وہ اس وقت برطانیہ کی کاؤنٹی کارن وال کے شہر ٹرورو میں اپنے گھر پر تھا۔ سیکڑوں ریتیلے ساحلوں والی یہ کاؤنٹی ایک جزیرے کی مانند ہے۔ ڈریٹن نے پردہ چھوڑ دیا اور باہر سے آنے والی روشنی کا راستہ رک گیا۔ اس نے شدید مایوسی کے عالم میں الماری کھولی اور موٹر سائیکل کی چابیاں ڈھونڈنے لگا۔ کمرے میں جو ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی وہ میز پر رکھے برقی چراغ سے نکل رہی تھی۔ اس پر دھول کی ایک موٹی تہ جم چکی تھی۔ اس نے دیوار گیر آئینے میں نظر آنے والے اپنے سراپے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ وہ انیس سال کا مضبوط قد کاٹھ کا نوجوان تھا۔ اس کے بال سیاہ اور لمبے تھے جن میں اس کے دونوں کان چھپے ہوئے تھے۔ اس کے کانوں میں دس دس چھلے پڑے ہوئے تھے، اور بازو پر ٹیٹو نقش تھے۔ وہ ایک کھوپڑی تھی جس کی آنکھ میں تیر گھسا ہوا تھا، جو دوسری طرف سے نکل گیا تھا اور اس جگہ سے کھوپڑی ٹوٹ رہی تھی۔اس نے جھلا کر اپنی گندی ٹی شرٹ پھاڑ کر فرش پر پھینک دی۔ وہاں گندے کپڑوں کا ایک ڈھیر جمع ہو گیا تھا، جو کئی ہفتے پرانا تھا۔

    ’’کیا مصیبت ہے یہاں!‘‘ وہ جھلا کر بڑبڑایا۔ اس کی موٹی گردن میں ایک نیکلس اچانک چمکنے لگا تھا، جس نے اس کی توجہ فوراً کھینچ لی تھی۔ اس نے نیکلس اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس میں لگے ستارے کے نو کونوں میں سے ایک کونے سے سیاہی مائل بھورے رنگ کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ’’پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا، یہ کیا ہونے لگا ہے یہاں۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے ایک دراز کھولا، اور محدب شیشہ نکال کر نیکلس کا جائزہ لینے لگا۔ ’’ہونہہ … سیاہ پتھر چمک اٹھا ہے۔‘‘

    اس نے محدب شیشہ ایک میز پر پھینک دیا اور اپنے بیڈروم کا دروازہ کھول کر ماں کے پاس آیا اور نہایت بدتمیزی کے ساتھ چیخا: ’’ڈیڈ نے مجھے یہ نیکلس دیا ہے، اس کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

    اس کی ماں پینی لوپ میک ایلسٹر، ٹی وی روم میں کرسی پر بیٹھی پروگرام دیکھتے ہوئے چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی آواز ان سنی کر دی۔ وہ آگے بڑھ کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

    ’’کیا تم بہری ہو، میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ اس نیکلس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے بدتمیزی کی انتہا کر دی۔

    پینی لوپ جس طرح اپنے شوہر سے ڈرتی تھیں، اسی طرح بیٹے سے بھی خوف زدہ رہتی تھیں۔ انھوں نے ڈریٹن کے ساتھ آنکھیں نہیں ملائیں اور سر نفی میں ہلا دیا۔

    ’’اسے دیکھو، تم اس کے متعلق کیا جانتی ہو؟‘‘ ڈریٹن نے اس کی آنکھوں کے سامنے نیکلس لہرایا۔

    پینی لوپ نے بدستور نظریں چراتے ہوئے کہا: ’’اچھا یہ … یہ بہت پرانا ہے۔ میں نے جب سے تمھارے باپ سے شادی کی ہے، اسے ہر وقت ان کے گلے میں پہنے دیکھا۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ کیا ہے یا اس کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ لیکن یہ تو بہت عجیب انداز میں چمک رہا ہے۔ میں نے پہلے اسے اس طرح چمکتے نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ ڈیڈ نے تمھیں اس نیکلس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا … ٹھیک ہے، تم اس طرح نہیں بتاؤ گی۔‘‘ ڈریٹن کا لہجہ آخر میں خوف ناک ہو گیا۔ پینی لوپ نے اسے ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو جلدی سے سمٹ کر چہرہ چھپا لیا اور گڑگڑا کر کہا: ’’مجھے مت مارو ڈریٹن! انھوں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتاتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم محسوس نہیں کرتے۔ ہاں، چھت پر اسٹور روم میں ایک صندوق ہے، میرے خیال میں … ہو سکتا ہے کہ … !‘‘

    ’’بس بس … یہ کیا احمقانہ پن ہے۔ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کر رہی ہو۔ چلو اب مجھے اطمینان کے ساتھ بتاؤ، یہ صندوق کا کیا چکر ہے؟‘‘

    وہ بتانے لگیں: ’’میرے خیال میں صندوق اسٹور روم میں پڑا ہے۔ تمھارے باپ شاردو اسٹیلی کے پاس بہت ساری قدیم کتابیں اور کاغذات تھے۔ ان کو اپنے خاندان کی تاریخ سے متعلق بہت زیادہ دل چسپی تھی۔ وہ اس کے متعلق روزانہ کئی گھنٹے مطالعہ کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تمھارے کام کی نکل آئے۔‘‘

    ’’خاندانی تاریخ! ہونہہ … مجھے اس خاندان کے بارے میں مزید کچھ بھی معلوم کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ چھوڑو ہماری تاریخ کو۔ وہاں ضرور کچھ اور ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور جاتے ہوئے میز پر دھری طشتری کو لات مارتے ہوئے گرا دیا۔ طشتری میں پینی لوپ کا کھانا سجا تھا، فرش پر چاروں طرف فرائی انڈا، چپس اور پھلیاں بکھر گئیں۔ پینی لوپ خوف زدہ ہو کر ہر طرف پھیلی گند کی حسرت سے دیکھنے لگیں۔ ڈریٹن نے سیڑھیوں پر رک کر دیکھا اور زہر خند لہجے میں بولا: ’’اب کیا سارا دن اسے گھورتی رہو گی یا اسے صاف بھی کرو گی بے وقوف عورت۔ تم میرے راستے میں اپنی چیزیں چھوڑو گی تو ایسا ہی ہوگا!‘‘

    پینی لوپ اس کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور اس کے جاتے ہی وہ اٹھیں اور باورچی خانے سے ایک بالٹی میں صابن کی جھاگ والا پانی لے کر واپس آ گئیں، اور قالین کے داغ دھونے لگیں۔ اسے گھٹنوں کے جوڑوں میں درد محسوس ہونے لگا۔ بیٹھ کر کام کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا کیوں کہ وہ کافی عرصے سے جوڑوں کے درد میں مبتلا تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے کبھی اپنے بیٹے کے سامنے اس کی شکایت نہیں کی۔ دوسری طرف ڈریٹن کے راستے میں جو بھی چیز آتی تھی، وہ اسے لات مار دیتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ صندوق اور برتنوں کی آوازیں پورے گھر میں گونج رہی تھیں۔ اس نے چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ لڑکا بھی بالکل اپنے باپ جیسا ہے، دونوں شیطانی دماغ والے۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’ہم آپ کے لیے یونانی سموسہ اور بادام کا کیک لے کر آئے ہیں۔ یونانی زبان میں ان کے نام طویل ہیں لیکن یہ بہت ذائقہ دار ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ اینگس نے جبران کے ہاتھ سے سموسہ اور بادام کے کیک لے لیے۔ ’’اگر تم لوگوں کو برا نہ لگے تو میں یہ کسی اور وقت کے لیے رکھ دوں۔ کیوں کہ میں ابھی ابھی تین عدد چاکلیٹ بسکٹ کھا چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگے اور پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہو گئی۔ ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے۔ سمجھ لو کہ میں ایک تاریخ نویس ہوں، آلرائے کیتھ مور کی طرح۔ میں بھی اس کتاب میں ان دل چسپ واقعات اور مہمات کی کہانی لکھوں گا۔ میرے پاس خصوصی سیاہی ہے اور اس قدیم کتاب میں خالی صفحات بھی ہیں۔‘‘

    ’’اوہ یہ تو شان دار خیال ہے۔ اگر آپ کچھ بھول بھی جائیں تو ہم ساری کہانی دہرا بھی سکتے ہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا۔ ’’ویسے میں یہ ساری کہانی اپنی ڈائری میں بھی لکھوں گا۔‘‘

    ایسے میں دانیال اپنی جیب پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ زبان کے مسئلے کی وجہ سے کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا۔ یکایک اسے پتھر کا وہ ٹکڑا یاد آیا جو اس نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔ وہ جلدی سے بولا: ’’یہ دیکھیں انکل، یہ میں نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔‘‘

    جبران نے فوراً اس کی ترجمانی کی۔ اینگس نے اس کے ہاتھ سے ٹکڑا لیا۔ یہ ماربل کی اینٹ کا ہی ایک ٹکڑا تھا۔ فیونا نے وہ تصویریں اینگس کو دکھائیں جو انھوں نے ساحل پر گدھے پر بیٹھ کر کھینچی تھیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر وہ سب ہنسنے لگے۔

    اینگس نے اٹھ کر الماری کے اوپر سے قدیم کتاب اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ ’’میں اسے بعد میں لکھنا شروع کروں گا جب بالکل اکیلا ہوں گا، تاکہ بھرپور توجہ کے ساتھ سارے واقعات قلم بند کر سکوں۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • بتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ’’ارے انکل آپ ابھی تک ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ آپ سارا دن کرسی پر بیٹھے ہمارا راستہ تکتے رہے! ہم تو سوچ رہے تھے کہ رات ہو گئی ہوگی اور آپ سونے جا چکے ہوں گے۔‘‘ فیونا بولی۔

    ’’میرے والدین ہمارے لیے پریشان ہوں گے، ہم سارا دن غائب رہے ہیں۔‘‘ جبران کو بھی پریشانی نے گھیر لیا۔

    ’’یہ تم لوگ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اینگس نے حیران ہو کر کہا۔ ’’ابھی پانچ ہی منٹ تو گزرے ہیں، اور تم لوگ آ بھی گئے۔‘‘

    وہ تینوں یہ سن کر اچھل پڑے۔ ان کی آنکھیں حیرت کے مارے پھیل گئیں۔ ’’کیسے پانچ منٹ؟‘‘ جبران کے منھ سے نکلا۔ اسے ہرگز یقین نہیں آ رہا تھا۔

    ’’انکل ہمیں وہاں پورا دن گزرا ہے، حتیٰ کہ سورج غروب ہونے لگا تھا۔‘‘ دانیال نے کہا لیکن اینگس اس کی طرف نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگے۔ فیونا نے بھی اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ جبران چونک پڑا تھا کیوں کہ دانیال کی بات صرف وہی سمجھا تھا۔ وہ اردو میں بولا تھا۔ پھر اس نے جلدی سے دانیال کے جملے کا ترجمہ کیا، تب ان دونوں کی سمجھ میں آیا کہ جزیرے ہائیڈرا پر جب وہ ایک دوسرے کی زبان بہ آسانی سمجھ رہے تھے تو وہ دراصل جادو کی وجہ سے تھا۔

    ’’یہ ناممکن ہے انکل کہ یہاں گیل ٹے میں ابھی تک صبح ہو، ہمیں تو قیمتی پتھر کے حصول میں واقعی سارا دن گزرا ہے۔ ہمیں بچھوؤں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ عفریت ہائیڈرا اور نکولس سے چھپنا پڑا اور پھر وہ ڈریگن کی آمد….‘‘ فیونا حیرت سے اینگس کی طرف دیکھ کر بتانے لگی اور اینگس نے اطمینان سے چائے کی پیالی اٹھائی اور اس سے گھونٹ بھرا۔

    ’’دیکھو، میری تو چائے بھی ابھی تک گرم ہے۔ چند منٹ پہلے تم تینوں یہاں کھڑے تھے اور مجھے چائے بناتے دیکھ رہے تھے۔‘‘ اینگس پھر آرام کرسی پر بیٹھ گئے اور پھر کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔ ’’ٹھیک ہے تم لوگوں نے وہاں پورا دن گزارا ہوگا لیکن یہاں گیل ٹے میں صرف چند ہی منٹ گزرے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تو جادو کا معاملہ ہے اور پھر قیمتی پتھروں کی زمین پر وقت بالکل مختلف ہے۔ خیر، تم مجھے بچھوؤں اور ہائیڈرا عفریت کا قصہ سناؤ، یہ کہ کیا واقعات پیش آئے وہاں۔‘‘

    ’’ہم ایک یونانی جزیرے پر پہنچے تھے….‘‘ جبران بتانے لگا۔ لیکن فیونا نے جلدی سے مداخلت کی اور کہا: ’’اور وہاں ساحل پر ہائیڈرا نامی قصبہ تھا جہاں سارے گھر سفید رنگ کے تھے اور جو پہاڑوں کے نیچے بنائے گئے تھے۔ ہم نے یونانی کھانے کھائے اور وہاں کرسٹوف نامی ایک بدمزاج بیرے سے سامنا ہوا۔‘‘

    ’’اور ہم نے ایک ڈریگن کو دیکھا۔ وہاں مائع ماربل کا عفریت تھا جس کے نو سانپوں والے سر تھے۔‘‘ جبران نے فوراً مداخلت کی۔

    ’’ٹھہرو… ٹھہرو…‘‘ اینگس نے جلدی سے انھیں روکا۔ ’’فیونا تم تفصیل کے ساتھ بتاؤ اور تم جبران آخر میں اگر کوئی اضافہ کرنا چاہتے ہو تو ضرور کرنا۔‘‘

    تینوں کرسیوں پر بیٹھے گئے۔ فیونا نے اینگس کو ساری کہانی سنا دی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد اینگس آرام کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے، کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر انھوں نے پوچھا: ’’تو اب آبسیڈین پتھر کہاں ہے؟‘‘

    فیونا نے قیمتی پتھر جیب سے نکال کر اینگس کی کھلی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ انھوں نے الماری کھول کر جادوئی گولا نکالا۔ ’تو یہ ہے جادوئی گیند، اور یہ ہے بارہ قیمتی پتھروں میں سے سب سے پہلا پتھر۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے گولا میز پر رکھ دیا، اور پتھر کو آنکھ کے قریب لے جا کر غور سے دیکھنے لگے۔ ’’اس کے اندر ایک ڈریگن منقش ہے، جس کی وجہ سے یہ غیر معمولی بن گیا ہے، تو کیا یہ وہی ڈریگن ہے؟‘‘ انھوں نے پھر پوچھا۔

    فیونا نے نوٹ کیا کہ جب اس نے اینگس کو پتھر دیا، یعنی جیسے ہی پتھر اس کے ہاتھوں سے نکلا، تو اس کے اندر ڈریگن میں چمک ختم ہو گئی۔ اس نے کہا: ’’جی یہ ویسا ہی ڈریگن ہے۔‘‘

    اینگس نے گھمبیر لہجے میں کہا: ’’ایک پتھر کے اندر کون ڈریگن کا نقش بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے یقیناً انتہائی قسم کی مہارت درکار ہے، جو آج بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

    ’’یہ غالباً لومنا جادوگر نے بنایا تھا، میرے خیال میں عام شخص ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ کوئی ڈریگن کس طرح زندہ ہو کر آ سکتا ہے، تاہم اس نے ہمیں بچایا تھا۔‘‘

    ’’یہ غیر معمولی کہانی ہے۔ جادوئی گیند میں بارہ عدد سوراخ ہیں۔ ہر پتھر کے لیے ایک سوراخ۔ جہاں تک میرا خیال ہے جیسا کہ تم سب سے پہلے جزیرہ ہائیڈرا گئے تو یہ آبسیڈین ہی سب سے پہلا قیمتی پتھر ہے۔ اب مجھے آگے کا کام بلاشبہ ایک خاص انداز میں کرنا ہوگا۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ان سب نے گیند پر نگاہیں جما لیں۔ جادوئی گولے میں سوراخ زگ زیگ انداز میں بنائے گئے تھے۔ پہلا سوراخ سب سے اوپر تھا۔ ’’میرے خیال میں یہ قیمتی پتھر اسی سب سے اوپر والے سوراخ کا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا اور پتھر کو اس سوراخ میں جمانے لگے لیکن وہ وہاں بیٹھ نہ سکا۔

    ’’اوہ شاید یہ کسی اور سوراخ کا پتھر ہے۔‘‘ اینگس نے مزید تین سوراخوں میں اسے بٹھا کر دیکھا اور آخرکار اس نے درست سوراخ ڈھونڈ لیا۔ ’’اب سمجھ گیا، خاص پتھر کے لیے ایک خاص سوراخ ہے۔‘‘

    ’’ارے دیکھو اسے، یہ ایسے چمک رہا ہے جیسے کوئی کالا سورج چمک رہا ہو۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’ڈریگن بھی پھر سے چمکنے لگا ہے۔‘‘

    ’’یہ تو بہت پیارا لگ رہا ہے۔‘‘ جبران نے منور پتھر پر نگاہیں جما لیں۔

    ’’بہت ہی شان دار۔‘‘ اینگس واپس آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگے۔ ’’ذرا سوچو، جب اس جادوئی گولے پر بارہ کے بارہ پتھر لگ جائیں گے تو یہ کیسا لگے گا؟‘‘

    ’’ارے میں تو بھول ہی گیا تھا۔‘‘ اچانک جبران اچھل پڑا۔

    (جاری ہے….)

  • ستائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "وہ رہا ان میں سے ایک۔ وہ سیڑھیوں کے پاس ہے۔‘‘

    گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے

    دانیال نے گھبرا کر مڑ کر دیکھا۔ نکولس جبران کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو سیڑھیوں تک پہنچ گیا تھا۔ جب تک وہ پہنچتے، جبران سیڑھیاں چڑھ چکا تھا۔ اس کے بعد وہ ایسا سرپٹ بھاگا کہ خانقاہ پہنچ کر ہی دم لیا۔ تاہم وہ اندر نہیں گیا بلکہ عقب میں چھپ گیا۔ عین اسی وقت دانیال بھی دوسرے راستے سے وہاں پہنچا۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ ’’فیونا کہاں ہے؟‘‘ جبران نے بے قابو سانسوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔

    ’’پتا نہیں، وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر جواب دیا۔ ’’وہ بھی بس پہنچنے والی ہوگی یہاں۔‘‘ جبران نے پورے یقین کے ساتھ کہا۔

    تینوں سپاہی جبران کا پیچھا چھوڑ چکے تھے، جیسے ہی وہ پلٹے انھیں چوٹی پر فیونا نظر آ گئی۔ وہ ایک اور طرف سے سیڑھیاں چڑھ کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی تھی۔

    ’’آہا، اب مچھلی جال میں پھنسی ہے… آ…آ… میں تمھارا ہی انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ نکولس گدھا کھینچتے ہوئے سیڑھیوں کے پاس آکر رک گیا۔ اب فیونا سیڑھیوں کے درمیان پھنس گئی تھی لیکن سپاہیوں نے نکولس کو نیچے نہیں دیکھا تھا اور وہ اب بھی فیونا سے خاصے فاصلے پر تھے، چناں چہ وہ سمجھے کہ فیونا نیچے کی طرف بھاگ رہی ہے، اس لیے وہ دوسری طرف کی سیڑھیوں پر بھاگتے ہوئے نیچے اترے۔ فیونا نے یہ دیکھا تو مزے کے ساتھ واپس چوٹی پر پہنچی اور شوخی سے نکولس کا منھ چڑانے لگی۔ ’’آؤ نا… پکڑو مجھے۔‘‘

    سپاہی نکولس کے پاس کھڑے ایک دوسرے جھگڑنے لگے کہ وہی اس کا پیچھا کرے لیکن تینوں تھک چکے تھے۔ کسی میں بھی فیونا کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ فیونا پہاڑ پر پہنچتے ہی خانقاہ کی طرف دوڑ پڑی۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں خانقاہ کے سامنے کھڑے تھے۔ ایسے میں دانیال نے پینٹ کی جیب سے پتوں سے بھری شاخیں نکال لیں۔

    ’’ارے یہی تو ہے لیڈی مینٹل۔‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    دانیال نے مسکرا کر فیونا کی طرف دیکھا۔ ’’میں جن جھاڑیوں میں چھپا تھا یہ وہیں پر اگا ہوا تھا۔‘‘

    ’’ہمیں ان پتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے ہوں گے۔ پھر اسے اینٹ کے قریب پھینکنا ہوگا۔ اور بچھو خود ہی وہاں سے بھاگ جائیں گے۔جیسے ہی بچھو وہاں سے دور ہٹیں گے ہم میں سے کوئی اندر جا کر اینٹ اٹھا لائے گا۔‘‘ جبران نے انھیں سمجھایا۔

    ’’لیکن اینٹ لینے کون جائے گا؟‘‘ دانیال نے سب سے اہم سوال پوچھا۔

    ’’میں۔‘‘ فیونا فوراً مضبوط لہجے میں بولی۔ ’’میں جاؤں گی اندر، اب جلدی سے ان پتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرو۔‘‘ تینوں نے پتوں کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا اور فیونا نے سارے ٹکڑے ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیے۔ ’’احتیاط سے۔‘‘ جبران نے جلدی سے تاکید کی۔ ’’تم جہاں جہاں پتے گراؤ گی، وہاں سے بچھو دور ہٹیں گے اور ایک راستہ بن جائے گا۔ بچھوؤں کو اس کی بو ناپسند ہے، لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ اس کی بو کتنی دیر رہے گی یا وہ کتنی دیر تک اسے برداشت کریں گے؟‘‘

    وہ تینوں خانقاہ کے دروازے پر ٹھہر گئے۔ فیونا نے اندر دیکھا تو اس کی اندر کی سانس اندر اور باہر کی سانس باہر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف سے باہر ابل آئیں۔ اندر فرش سے لے کر چھت تک سیاہ چادر تنی ہوئی تھی۔ بچھو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اگر کوئی ان کے درمیان پھنس جاتا تو یہ بچھو اسے ایک منٹ کے اندر اندر چٹ کر سکتے تھے۔ فیونا گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔ ’’نہیں، یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ اگر چھت سے کوئی بچھو میرے سر پر گر گیا تو پھر… کیا میرے سر پر بھی عفریت ہائیڈرا کی طرح سانپوں والے سر اگیں گے! نہیں… نہیں…‘‘ اس نے جھرجھری لی۔

    ایسے میں جبران نے کہا: ’’فرض کرو اگر ہم میں سے کوئی بھی اندر نہیں جائے گا تو کیا ہوگا؟ یہی نا کہ اینٹ نہیں حاصل کر سکیں گے، نہ ہم نہ بادشاہ دوگان کا کوئی وارث اسے حاصل کر سکے گا، اس لیے یہ محفوظ ہے، چناں چہ چلو واپس گھر چلتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘

    فیونا نے پریشانی کے عالم میں آنکھیں بند کر کے خود کو ہمت دلانے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بادشاہ کیگان کا دم توڑتا زخموں سے چور جسم آگیا۔ اس نے ایک بار پھر جھرجھری لی اور آنکھیں کھول دیں۔ ’’نہیں… میں اندر جاؤں گی۔‘‘ اس نے ساری ہمت جمع کی اور دل مضبوط کر کے چند قدم آگے بڑھ کر اندر داخل ہو گئی۔ اس نے پتوں کے چند ٹکڑے اپنے سامنے پھینک دیے۔ بچھو تیزی سے دور ہٹ گئے۔

    (جاری ہے……)

  • چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    "یہاں اس جزیرے پر ہم جڑی بوٹیوں کی دکان کہاں ڈھونڈیں گے، یہ تو سیاحوں کا جزیرہ ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں کا کیا کام؟” دانیال بولا۔ "یہاں تو نقشے، پینسل اور شیشے کے گلوب ہی ملیں گے۔ وہ اس وقت ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نیچے قصبے کی طرف دیکھ رہے تھے: "اور تب کیا ہوگا جب نکولس سے ہمارا سامنا ہوگا؟”

    "دانی پلیز، اتنی مایوسی کی باتیں نہ کرو۔” فیونا جلدی سے بولی: "پہلے ہم دیکھ تو لیں۔ یہاں ضرور کوئی ایسی دکان ہوگی جہاں جڑی بوٹیاں فروخت ہوں گی۔ یونانی اپنے کھانوں میں جڑی بوٹیوں کا بہت استعمال کرتے ہیں اور یہاں صرف سیاح ہی نہیں مقامی لوگ بھی ہیں جو یہیں پر رہتے ہیں۔”

    وہ ساحل پر دکانوں کی پھیلی ہوئی لمبی قطار کو دیکھنے لگے۔ وہ جہاں کھڑے تھے، وہاں پتھریلی سیڑھیاں نیچے کو جا رہی تھیں۔ یہ اتنی ڈھلواں تھیں کہ ان پر نیچے اترنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انھیں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔

    "یہاں کئی جگہ اس قسم کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، پتا نہیں یہ کس نے اور کب بنائی ہیں؟” دانیال نے تبصرہ کیا۔

    ‘کیا یہاں پتھر لا کر سیڑھیاں بنائی گئیں یا پہاڑ ہی میں تراشی گئی ہیں!” جبران حیرت سے سیڑھیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے بیٹھ کر سیڑھیوں پر انگلیاں پھیریں اور پھر بولا: "کچھ پتا نہیں، تاہم ان پر سخت محنت ہوئی ہے۔”

    نیچے اترنے کے بعد ان کی جان میں جان آ گئی۔ "اف میری ٹانگیں تو جیلی کی طرح کانپنے لگی ہیں۔ میں تو دوبارہ یہ مشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔” فیونا اپنی ٹانگوں کو جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگی۔

    "ہمیں نکولس کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔” جبران بولا۔ "چلو ان بغلی گلیوں میں چلتے ہیں۔ اگر چہ دیر لگے گی لیکن ہم بے خطر وہاں پہنچ جائیں گے۔”

    چند منٹ بعد وہ دکانوں کی ایک قطار تک پہنچ گئے۔ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم نکال کر دی اور کہا: "ہم الگ الگ دکانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کو بھی جڑی بوٹی ملی، وہ خرید کر واپس اسی جگہ آئے۔” وہ تینوں الگ الگ دکانوں کی طرف چل پڑے۔

    ایک گھنٹے بعد وہ سیڑھیوں کے پاس جمع ہو گئے۔ "میں نے وہاں نکولس کو دیکھا لیکن اچھا ہوا کہ مجھ پر اس کی نظر نہیں پڑ سکی۔ وہ اب بھی بہت غصے میں نظر آ رہا تھا۔ میں سر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگا۔” دانیال نے انھیں بتایا۔

    "کیا تمھیں جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان بھی ملی یا نہیں؟” فیونا نے پوچھا۔ دانیال نے جواب دیا: "نہیں، میں جن دکانوں میں گیا وہاں صرف شرٹس اور برساتیاں ہی فروخت ہو رہی تھیں۔”

    "میں جن دکانوں میں گیا وہاں مجسمے، جھنڈے اور اسی قسم کی چیزیں تھیں۔” جبران نے کہا۔ فیونا نے بھی مایوسی سے سَر ہلاتے ہوئے کہا: "مجھے بھی جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان نہیں ملی۔ اب مجبوراً ہمیں یہاں کے لوگوں سے پوچھنا پڑے گا، شاید کوئی ایسا شخص ملے جس نے اپنے باغیچے میں وہ بوٹی اگائی ہو۔ لیکن پہلے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یونانی زبان میں لیڈی مینٹل کو کیا کہتے ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا: "کیا تم جانتے ہو؟”

    "کیوں، میں کیوں جانوں گا بھلا؟” جبران نے ماتھے پر بل ڈا ل دیے۔ فیونا مسکرائی: "اس لیے کہ تمھیں یونان کے متعلق بہت ساری معلومات ہیں۔”

    جبران نے کہا : "صرف اسے دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔”

    "تو ٹھیک ہے، ہم ایک بار پھر مختلف سمتوں میں جا کر یہاں ادھر ادھر اُگے پودوں سے پتے توڑ کر ایک گھنٹے بعد پھر یہاں ملیں گے۔ اور یہاں جبران انھیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرے گا۔” فیونا نے کہا اور ایک طرف چل پڑی۔ باقی دونوں بھی مختلف اطراف میں روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ تینوں سیڑھیوں کے پاس پھر اکھٹے ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے پودوں کے پتے تھے۔ جبران کے ہاتھ خالی تھے۔ اس نے فیونا اور دانیال کے لائے ہوئے پتے دیکھ اور سونگھ کر کہا: ” ان میں سے کوئی بھی لیڈی مینٹل نہیں ہے۔”

    ان کے چہرے پھر اتر گئے۔ فیونا حتمی لہجے میں بولی: "تب پھر ہمیں بچھوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ سوچنا ہوگا۔ چلو واپس خانقاہ چلتے ہیں اور پھر سے اس پر سوچتے ہیں۔”

    تینوں سیڑھیوں کی طرف منھ کر کے اوپر دیکھنے لگے۔ "میں تو ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھنا چاہتی، بس یہ آخری مرتبہ ہے۔” فیونا منھ بنا کر بولی۔

    "رک جاؤ چورو! ” اچانک ان کی سماعتوں سے چیخنے کی آواز ٹکرائی۔ "وہ رہے آفیسرز، انھوں نے میرا گدھا چوری کیا تھا۔”

    یہ آواز ان کی سماعتوں پر بم کی طرح لگی تھی۔ وہ سناٹے میں آ گئے تھے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیلی وردی میں ملبوس تین سپاہیوں کے ساتھ ان کی طرف بھاگتا آ رہا تھا۔

    "بھاگو…!” فیونا چلائی۔

    وہ سیڑھیوں سے چھلانگیں مار کر اترے۔ "اگر ہم الگ ہوئے تو خانقاہ میں ملیں گے۔” فیونا بولی اور تیر کی طرح پہاڑ کے دامن میں بنے گھروں کی طرف دوڑی۔ دانیال بھاگ کر کچھ فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اچھی طرح چھپ گیا ہے تو اس کی نظریں عین سامنے اُگے پودے پر پڑیں۔ وہ چونک اٹھا۔ اس کے پتے خاکی مائل سبز تھے۔ اس میں چھوٹے زرد رنگ کے پھول بھی کھلے تھے۔ "ارے یہی پہچان ہی تو بتائی تھی جبران نے۔” مسرت سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جلدی سے کئی شاخیں توڑیں اور پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیں۔ پھر وہ احتیاط سے جھاڑیوں سے سر باہر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دبے قدموں چلنے لگا۔ یکایک اسے نکولس کی آواز سنائی دی۔

    (جاری ہے)