Tag: رفیع اللہ میاں ناول

  • چوبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "بس تھوڑا سا اور رہ گیا ہے۔” فیونا نے ہانک لگائی۔ اگلے لمحے ایک جھٹکے سے اینٹ دیوار سے اکھڑ کر نیچے جا گری۔ فیونا بالکل تیار کھڑی تھی۔ دیوار میں ارتعاش پیدا ہوئی لیکن فیونا نے تیزی کے ساتھ خالی جگہ میں دوسری اینٹ رکھ دی۔ چند لمحوں کے لیے دیوار لرز کر رہ گئی۔ دھول کا ایک چھوٹا سا بادل فضا میں منڈلانے لگا تھا۔ فیونا کھانس کر پیچھے ہٹ گئی۔ دیوار سے چند پتھر بھی ٹوٹ کر نیچے گرے لیکن دیوار اپنی جگہ قائم رہی۔ وہ دونوں بھی دوڑ کر اندر آ گئے۔ جبران نے جلدی سے اینٹ اٹھا لی جس کے اندر قیمتی پتھر تھا۔ "ہم نے پتھر پا لیا… ہم نے پتھر پالیا۔” اس نے مسرت آمیز لہجے میں چیختے ہوئے کہا۔

    "فیونا! وہ کیا ہے؟” یکایک خانقاہ میں دانیال کی خوف زدہ چیخ گونج اٹھی۔

    وہ دونوں تیزی سے مڑ کر اس طرف دیکھنے لگے جہاں فیونا نے نئی اینٹ لگا دی تھی۔ ان دونوں کی آنکھیں بھی دہشت سے پھٹ کر رہ گئیں۔ اینٹ والی جگہ سے بڑی تعداد میں کوئی سیاہ مخلوق اتنی تیزی سے نکل رہی تھی جیسے اچانک کوئی آتش فشاں پھٹا ہو، اور اس سے لاوا ابلنے لگا ہو۔

    فیونا چلا کر بولی: "یہ بچھو ہیں۔ اف میرے خدا، یہ تو ہر جگہ سے نکل رہے ہیں۔”

    "چلو بھاگو یہاں سے۔” جبران دہشت زدہ ہو کر چلایا، اور ماربل کی اینٹ پھینک کر باہر کی طرف دوڑا۔ فیونا اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ "یہ… یہ بہت خطرناک ہوتے ہیں، اگر کاٹ لیں تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔” دانیال نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ بہنے لگا تھا، باقی دونوں کا بھی کچھ اچھا حال نہیں تھا۔

    "جبران، اینٹ کہاں ہے؟” فیونا نے اچانک اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر پوچھ لیا۔ اور جبران بوکھلا گیا: "ارے… وہ… وہ تو میں نے ڈر کے مارے اندر پھینک دی ہے۔ اب تو وہ بچھوؤں میں چھپ گئی ہوگی۔” اس نے جلدی سے اندر بھی جھانک لیا، واقعی فرش بچھوؤں سے ڈھک چکا تھا۔ فیونا کو غصہ آ گیا۔ "تت … تم نے اینٹ گرا دی۔” فیونا کے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہو گئے تھے۔ اتنی محنت کے بعد انجام یہ نکلا تھا۔ "اوہ جبران، یہ تم نے کیا کر دیا۔ ہم نے اتنی مشکلوں سے اسے حاصل کیا اور تم نے اسے اتنی آسانی سے کھو…” بات کرتے کرتے شدت غم سے اس کی زبان رک گئی۔ "میں چیخ پڑوں گی جبران، میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ دوڑی اور زیتون کے درخت کے پاس کھڑی ہو کر زور زور سے چیخنے لگی۔ ذرا دیر بعد وہ واپس آ گئی۔

    "اب طبیعت کیسی ہے، کچھ بہتری محسوس ہوئی؟” دانیال نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا۔ اسے ہنسی آ رہی تھی لیکن اس نے خود پر قابو کیا ہوا تھا۔

    "ہاں، کچھ بہتر محسوس کر رہی ہوں، پوچھنے کے لیے شکریہ۔” فیونا دھیرے سے بولی۔ یکایک جبران نے کہا: "میں نے سنا ہے کہ ایک قسم کی بوٹی ہوتی ہے جو بچھوؤں کو دور بھگا دیتی ہے۔” یہ کہہ کر وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔ "اس کے نام میں لیڈی آتا ہے شاید۔ اور اس کے پھول زرد ہوتے ہیں، ہاں یاد آیا… لیڈی مینٹل!”

    "ارے واہ، تمھیں تو کسی پھولوں کی دکان میں ہوناچاہیے، لگتا ہے بڑے ہو کر ماہر نباتات بنو گے۔” فیونا خوش ہو کر بولی۔ "ایسا کچھ نہیں ہے۔” جبران منھ بنا کر بولا: "میں اپنے گھر کے سامنے ایک خوب صورت باغیچہ بناؤں گا اور اس میں تمام قسم کے پھولوں والے پودے ہوں گے۔”

    "اچھا، اب اس مسئلے کا حل کیسے نکالیں، یعنی یہ پودا یا بوٹی ہمیں کہاں سے ملے گی اور ہم اسے کیسے پہچانیں گے؟” دانیال نے درمیان میں مداخلت کر دی۔

    "اس کے لیے تو ہمیں واپس ہائیڈرا جانا ہوگا۔ وہاں جڑی بوٹیوں والی کسی دکان سے لیڈی مینٹل کا پوچھیں گے۔” جبران نے جواب دیا۔

    دانیال اچھل پڑا۔ "پاگل ہو گئے ہو کیا۔ اگر نکولس نے ہمیں دیکھ لیا تو۔ وہ ہمیں گدھا چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کروا دے گا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم یہ کام کل پر چھوڑ دیں، کیوں کہ میں بہت تھک چکا ہوں۔”

    "نہیں، جب تک اینٹ ہمارے ہاتھ میں بہ حفاظت نہیں آ جاتی، تب تک ہم آرام سے نہیں رہ سکتے۔ اس کے اندر قیمتی پتھر ہے، اسے مت بھولو۔ ہم اسے ہی ڈھونڈنے آئے ہیں۔ ذرا سوچو، بادشاہ کیگان اور اس کا پورا خاندان اس کی اس کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ ہاں ہم شہر جا کر وہاں کچھ آرام کر سکتے ہیں۔ سیاحوں کو دیکھیں گے، آئس کریم کھائیں گے اور پھر رات ہونے سے پہلے یہاں واپس آ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ بچھو خود ہی کہیں جا چکے ہوں۔” فیونا نے سپاٹ لہجے میں کہا اور پھر آگے بڑھ کر خانقاہ میں جھانکا۔

    "بچھو ہی بچھو ہیں ہر جگہ۔” وہ بڑبڑائی اور پھر تینوں ہائیڈرا شہر کی طرف چل پڑے۔

  • تئیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تئیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصّوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    بیٹھے بیٹھے فیونا تھک گئی تھی، اٹھ کر ہاتھ پیر پھیلا کر سستی دور کرنے لگی۔ پھر اس نے ماربل کی اینٹوں پر توجہ مرکوز کر دی۔ وہ سوچنے لگی کہ وہ کیا کرسکتی ہے، کیوں کہ دونوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی تھی اور وہ سارا دن انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے اینٹ ہٹا دی تو ساری دیوار میرے اوپر آ رہے گی اور غالباً چھت بھی۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا اور بڑبڑائی: "مجھے اس گدھے کی ضرورت ہے۔”

    اسی وقت جبران اور دانیال اندر داخل ہو گئے۔ جبران نے ایک پتھر سے ٹھوکر کھائی، اس کے منھ سے تکلیف دہ آواز نکلی۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا۔ "بہت خوب، گدھا کہاں ہے؟ کیا تم نے اسے باہر چھوڑ دیا۔”

    جبران نے منھ بنا لیا۔ وہ اٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگا۔ "کمال کیا نا میں نے ٹھوکر کھا کر۔”

    "ہم گدھے کو نہیں لا سکے۔” دانیال نے دھیمے لہجے میں بتایا۔

    "کیوں؟” وہ حیران رہ گئی۔

    "فیونا، ہم گدھے کو ساتھ لے کر چلے تھے لیکن اس نے سیڑھیاں نہیں چڑھیں، وہ ضدی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا، اور پھر کہیں سے نکولس چلا آیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر پاگل ہونے لگا تھا۔ ہم بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، ویسے میں رسی لے آیا ہوں۔” دانیال نے تفصیل بتا دی۔

    "ہم تمھارے لیے پیٹا لائے ہیں جسے یہاں کی زبان میں گائرو کہتے ہیں، یہ بہت مزے کا ہے۔” جبران نے کہا تو فیونا نے پیٹا لے کر کھایا۔ وہ بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکی: "بہت مزے کا ہے لیکن چکنائی بہت زیادہ ہے۔”

    "ہاں کرسٹوف کے بالوں کی طرح۔” دانیال نے دانت نکالے۔

    "تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھے کے بغیر ہی کچھ کرنا پڑے گا۔” فیونا نے پیٹا پورا کھانے کے بعد کہا۔ دونوں نے خاموشی سے سر ہلایا۔ "جب تم دونوں چلے گئے تھے تو میرا دھیان اس درخت کی طرف گیا، یہ دیکھو۔” فیونا نے اینٹوں کی دیوار کے قریب جا کر ایک سوراخ کی طرف اشارہ کیا۔ "یہاں سے ہم رسی باہر پہنچا کر اُس درخت کے تنے سے باندھ دیں گے اور پھر اس کے ذریعے اینٹ کھینچ کر نکال لیں گے۔”

    دانیال نے جلدی سے رسی زمین پر رکھ دی اور اس کا ایک سرا فیونا کو تھما دیا۔ رسی کا دوسرا سرا لے کر وہ فرش پر پتھروں کے ڈھیر پر چڑھا اور پھر درخت کی طرف چلا گیا۔ درخت کے گرد چکر لگا کر وہ واپس فیونا کے پاس آیا۔ فیونا نے رسی کا وہ سرا جو اس کے ہاتھ میں تھا، لے کر مطلوبہ اینٹ کے ساتھ ایک سوراخ میں ڈالا۔ ذرا سی کوشش سے رسی کا سرا اندر چلا گیا۔ پھر وہ دوڑ کر باہر گئی اور رسی کا سرا کھینچ کر اسے اینٹ کی دوسری طرف بنے سوراخ میں ڈال دیا، جسے دوسری طرف موجود دانیال نے اندر کھینچ لیا۔ فیونا پھر اندر آئی اور اب دونوں سرے دانیال کے ہاتھوں میں تھے اور رسی مطلوبہ اینٹ کے گرد حمائل ہو چکی تھی۔

    "اب کیا کریں؟” دانیال نے پوچھا۔

    "بتاتی ہوں۔” فیونا بولی اور اس کے ہاتھ سے ایک سرا لے کر اسے قریب ایک ستون سے باندھ دیا۔ "اب تم دونوں باہر جا کر درخت کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ میں جیسے ہی آواز دوں تو تم دونوں پوری قوت کے ساتھ رسی کھینچنا شروع کرو۔”

    دانیال دوسرا سرا لے کر جبران کے ہمراہ باہر جا کر درخت کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ فیونا نے دوڑ کر ایک اور اینٹ اٹھا لی اور دیوار میں لگی مطلوبہ اینٹ کے پاس کھڑی ہو گئی۔

    "رسی کھینچ لو۔” فیونا نے چند لمحے توقف کیا اور پھر چیخ کر بولی۔

    دونوں نے پوری طاقت کے ساتھ رسی کھینچی۔ اینٹ میں تھوڑی سی حرکت ہوئی اور اس کا ایک ٹکڑا ٹوٹ کر نیچے گر گیا، اس کے ساتھ ہی دھول کا ایک چھوٹا سا مرغولہ اٹھ کر فضا میں منتشر ہو گیا۔

    (جاری ہے……)

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)

  • انیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "نقشہ بتا رہا ہے کہ ہائیڈرا 21 قطر میل تک پھیلا ہوا ہے، اور ایتھنر کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اتنے بڑے علاقے میں کسی قیمتی پتھر کو ڈھونڈ نکالنا تو ناممکن ہے۔ ویسے ہم یہاں کون سا پتھر ڈھونڈیں گے؟” جبران نے یاد کرنے کی کوشش کی۔

    "سیاہ آبسیڈین۔ انکل اینگس نے بتایا تھا کہ یہ سیاہ شیشے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔” فیونا نے جواب دیا۔ "صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ پتھر کسی آتش فشاں سے ملا تھا۔”

    وہ اندر گئے اور ایک نقشہ خرید لیا۔ باہر آ کر وہ ایک پتھر کی دیوار پر چڑھ کر اس طرح بیٹھ گئے جیسے گدھے پر سواری کی جاتی ہے۔ یہ دیوار ساحل پر تھی۔ لہریں ان کے پیروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ماہی گیروں سے بھری ایک کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی۔ ان سے کافی فاصلے پر سیاحوں سے بھری کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی تھی اور اس میں سے نکل کر مخصوص لباس پہنے سیاح چھلانگیں مار کر ساحل دوڑ رہے تھے۔ ان کا رخ دکانوں کی طرف تھا۔

    "یہاں بھی ویسے ہی سیاح نظر آ رہے ہیں جیسے گیل ٹے میں نظر آیا کرتے ہیں۔” فیونا بولی۔ "شکلوں سے ویسے ہی احمق دکھائی دیتے ہیں۔” تینوں ہنسنے لگے۔ اچانک فیونا کو ایک خیال آیا۔ "کیا ہائیڈرا ایک عفریت کا نام نہیں ہے، جس کے سانپ جیسے نو سر ہیں!”

    "ہاں… ہائیڈرا ایک عفریت ہے۔” جبران نے اثبات میں سر ہلایا۔ "یونانی تاریخ کا تمھارا مطالعہ اچھا ہے۔”

    ایسے میں دانیال بھی بول اٹھا۔ "میں نے ہرکولیس کی کہانی پڑھی ہے، اس نے ہائیڈرا کو مار دیا تھا۔ وہ بھی تو یونانی تھا نا!”

    فیونا نے کہا: "کیا ہم یہیں پر رہیں گے، اگرچہ یہ جگہ بہت خوب صورت ہے، اور مجھے پسند بھی آ گئی ہے، لیکن ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔”

    "پہلے کچھ کھا نہ لیا جائے کیا؟ مجھے بھوک لگی ہے۔” جبران بولا، فیونا نے کہا: "ہاں، پہلے کچھ کھاتے ہیں اور اس نقشے کا کیا کریں؟”

    "کھانے کے بعد دیکھیں گے اسے، مجھے یونانی کھانوں کی خوش بو بہت اچھی لگی ہے۔” جبران ایک آؤٹ ڈور کیفے کی طرف دیکھنے لگا جو لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک کونے میں انھیں ایک میز خالی نظر آ گئی، تینوں نے جلدی سے وہاں جا کر کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ "اف، کرسی تو بہت گرم ہے۔” فیونا ایک دم اچھل کر پڑی۔

    "ہاں، کرسیاں دھات کی بنی ہیں، دھوپ کی وجہ سے تَپ رہی ہیں۔” جبران مسکرا کر بولا۔ ایسے میں ایک بیرے نے آکر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ان سے پوچھا: "کیا چاہیے آپ کو؟”

    "کیا آپ مینو دیں گے؟” جبران نے اس کی طرف دیکھا۔ بیرا ایک مینو میز پر رکھ کر چلا گیا۔ جبران اور فیونا کھانوں کی فہرست دیکھنے لگے۔ "ایک اور مشکل…. ہمیں کھانوں کی نوعیت کے بارے میں کیسے پتا چلے گا؟ یہ سارے نام تو ظاہر ہے اجنبی ہیں۔” جبران نے دونوں کی طرف دیکھا۔

    "کچے آکٹوپس… او… میں تو یہ نہیں کھا سکتی۔” فیونا نے مینو دیکھ کر برا سامنھ بنا لیا۔

    بیرا واپس آ گیا۔ اس نے کان کے پیچھے سے پنسل نکالی۔ فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ دیکھ کر کہا: "کرسٹوف! میں یونانی سلاد کھاؤں گی۔ مینو میں لکھا گیا ہے کہ اس میں زیتون، کاہو، کھیرا، ٹماٹر اور مسالہ لگا پنیر شامل ہیں، کیا یہ درست ہے؟”

    بیرے نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: "جی ہاں، اس پنیر کو ہماری زبان میں فیٹا کہتے ہیں اور سلاد میں تیل اور سرکہ بھی ڈالے جاتے ہیں۔” بیرے نے یہ کہہ کر جبران کی طرف توجہ کی۔ "جی، آپ کے لیے کیا لاؤں؟”

    "صبر تو کریں۔ ابھی میرا آرڈر ختم نہیں ہوا۔” فیونا نے جلدی سے مداخلت کی۔ بیرا پھر اس کی طرف مڑا۔ فیونا نے کہا: "ایک ڈبل روٹی بھی۔”

    "یہ عام ڈبل روٹی نہیں ہے، اس کا نام پیٹا ہے جو خمیر کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔” بیرے نے بدمزگی سے کہا اور جبران کی طرف مڑا، جو بدستور مینو پر نگاہیں دوڑا رہا تھا۔ بیرا بے صبری سے زمین پر پاؤں تھپتھپانے لگا۔ "میں ایک سولاکی لوں گا۔ مجھے برّے کا گوشت بے حد پسند ہے، اس کے ساتھ سیخ میں مرچ اور پیاز بھی پروئے جاتے ہیں، لیکن مرچ کون سی؟” جبران نے پوچھ تو لیا لیکن ایک دم سے گھبرا گیا کہ پتا نہیں بیرا کس طرح جواب دے، کیوں کہ اس کا رویہ کچھ اچھا نہیں تھا۔ وہی ہوا۔ وہ غّرا کر بولا: "ہری مرچ… تم کیا سمجھ رہے ہو؟” اگلے لمحے جبران نے اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا "بے وقوف سیاح!”

    "میں تو یوں ہی پوچھ رہا تھا، کیوں کہ گھر میں ہمارے پاس زرد، نارنجی اور سرخ مرچ بھی ہیں۔” جبران نے جھجکتے ہوئے کہا۔

    "مجھے یہ زیٹنر کی چٹنی چاہیے جو ملائی، دہی، کھیرے اور لہسن سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ فرائی زکینی، فرنچ فرائز اور بینگن۔ ویسے یہ زکینی ہے کیا؟”اس سے قبل کہ بیرا دانیال سے آرڈر پوچھتا، اس نے جلدی جلدی الٹا سیدھا خود ہی بتا دیا۔

    "زکینی کھیرے کی طرح سبزی ہے۔” بیرے نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ "اور ہاں ایک گلاس پانی بھی۔” دانیال جلدی سے بولا۔

    "میرے لیے بھی۔” فیونا نے بھی کہا۔ "کیا پانی کی قیمت الگ سے وصول کی جاتی ہے؟”

    بیرے نے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا اور جبران کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے بھی پانی کا آرڈر دے دیا۔ اس کے جاتے ہی فیونا نے گہری سانس لے کر کہا: "میرے خیال میں سارے ہی یونانی اس بیرے کی طرح تو نہیں ہوں گے۔”

    جبران نے نیا نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا: "ایسا نہیں ہے۔ وہاں بھی جب انکل مک گریگر کے ریستوران میں سیاحوں سے بھری بس اترتی ہے تو ان کا رویہ بھی پھر ویسا نہیں رہتا، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا کرتا ہے۔”

    کچھ ہی دیر بعد بیرا پلیٹوں میں ان کی مطلوبہ ڈشیں لے کر آ گیا۔ فیونا نے زیتون دیکھے تو حیران رہ گئی۔ پھر اس نے کانٹے میں ایک زیتون اٹھا کر منھ میں رکھا تو بے اختیار بولی: "اف… یہ تو بے حد ذائقہ دار ہے، ہمارے ہاں ڈبّے میں بند جو زیتون ملتا ہے، اس کا ذائقہ اتنا مزے دار نہیں ہوتا۔”

    تینوں نے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ فیونا آخر میں بولی: "میں اس بیرے کو ٹپ نہیں دوں گی، یہ ٹپ کا مستحق نہیں ہے۔”

    "چلو، اس نقشے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔” جبران نے نقشہ نکال کر میز پر پھیلا دیا۔ "یہ تو بہت پیچیدہ لگ رہا ہے۔ کیا ہم اسے پڑھنے کی کوشش کریں یا پھر پہلے ذرا پرسکون ہونے کے لیے گدھے کی سواری کریں؟”

    "ہاں، یہ صحیح ہے۔” دانیال بولا لیکن فیونا نے منع کر دیا۔ ان کی یہ گفتگو گدھے کے مالک نے سن لی۔ وہ گدھے کو قریب لا کر بولا: "بچو، آؤ، گدھے کی پُر لطف سواری کا مزا لو۔ بچوں کی سواری پر گدھا بہت خوش ہوتا ہے۔”

    فیونا نے سواری سے انکار کر دیا۔ جبران اور دانیال نے گدھے پر سواری کی اور تصویریں بھی بنوائیں۔

    "چلو، اب یہ کھیل ختم کرو۔ ہم یہاں سیاح بن کر تو نہیں آئے۔ ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔” فیونا نے تصویروں کو دیکھا اور مسکرا دی۔

    (جاری ہے…….)

  • پندرھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پندرھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اینگس کچھ لمحوں کے لیے ٹھہرے، پھر گہری سانس لے کر بولے۔ "میں اس ساری کہانی کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں سمجھا ہوں۔ تاریخ نویس کے نوٹس سےجو تصویر بن کر سامنے آئی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے۔ شہنشاہ رالفن کا پایۂ تخت یعنی بورل آج کے مشرق وسطیٰ میں کہیں جزیرہ نمائے عرب کے آس پاس تھا۔ شاید یہ جگہ یمن ہو لیکن میں کچھ یقین سے نہیں کہ سکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ اس علاقے کا نہیں تھا کیوں کہ رالفن مشرق وسطیٰ کا نام نہیں ہے۔ یہ نام روسی زیادہ لگتا ہے یا مشرقی یورپی یا پھر فونیزی۔ بادشاہ کیگان نے بھی اپنی ابتدائی زندگی سرزمین عرب میں گزاری اور اسکاٹ لینڈ کبھی نہیں آیا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے خاندان سمیت ہجرت کر لی۔ یہ 1070 بعد مسیح کا دور تھا۔ یہ برطانیہ پر ولیئم فاتح کے حملے سے کچھ زیادہ بعد کی بات نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا کچھ اندازہ نہیں کہ یمن میں کیگان کے پرانے محل کے ساتھ کیا ہوا، کیوں کہ اس کا ذکر ابھی تک نہیں آیا ہے،ممکن ہے جب میں کتاب کو مزید پڑھوں گا تو مجھے اس سوال کا بھی جواب مل جائے گا۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "جادوئی ہیرے کہاں چھپائے گئے ہیں انکل؟” فیونا نے بے قراری سے پوچھا۔

    "گزشتہ رات میں نے اسے بہت مشکل سے سمجھا ہے، گیلک کوئی آسان زبان نہیں ہے۔ جب کوئی وارث منتر پڑھتا ہے تو یہ اسے ہیرے کے گرد و نواح میں پہنچا دیتا ہے۔ اس کے بعد وارث خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اسے اپنی اندرونی قوتوں اور عقل کو استعمال میں لا کر درست جگہ ڈھونڈنی ہوتی ہے۔ وارث کو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ منتر اسے کس ہیرے کے پاس پہنچاتا ہے۔ جب وہ ایک مقام سے ہیرا حاصل کر لیتا ہے تو منتر اسے اس جگہ دوبارہ نہیں لے جاتا۔ ہر مقام ایسا ہے کہ قیمتی پتھر کا وہاں سے خاص تعلق ہے۔ جادوگر نے انھیں جمع کرنے کے لیے دنیا چھان ماری تھی، وہ ایسی جگہوں پر گیا تھا جنھیں اس وقت لوگ جانتے بھی نہیں تھے۔ ہر پتھر انمول اور نایاب ہے۔ بارہ آدمیوں نے یہ قیمتی پتھر وہاں نہیں چھپائے جہاں سے جادوگر نے انھیں لیا تھا۔ یہ عجیب بات ہے لیکن کیا کیا جائے کہ یہ کتاب اسی طرح کی عجیب چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔”

    "انکل، یہ سب کتنا عجیب ہے، مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ نے ان سب باتوں کو سمجھ لیا ہے۔ مجھے اس بات پر بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ آپ کو گیلک زبان آتی ہے۔” فیونا نے جذباتی ہو کر کہا۔

    اینگس نے سر ہلا کر کہا۔ "فیونا تمھارے پاپا مجھ سے بھی زیادہ بہتر گیلک سمجھتا تھا۔ خیر اب تو یہ فہرست سنو، جہاں قیمتی پتھر چھپائے گئے ہیں۔ اچھا تم لوگ اس طرح کرو کہ یہاں میری کرسی کے قریب آ کر بیٹھو۔ میں انھیں ایک علیحدہ کاغذ پر انگریزی میں نقل کر لیا ہے۔”

    اینگس نے زمین پر ایک تہ شدہ کاغذ پھیلا دیا۔ وہ تینوں بے قراری سے آ کر بیٹھ گئے۔ کاغذ پر تفصیل کچھ اس طرح سے درج تھی:

    ہائیڈرا، یونان… سیاہ آبسیڈین، ایک سیاہ شیشے جیسا پتھر۔ لومنا جادوگر نے کہا تھا کہ یہ آتش فشانی پتھر ہے جو ایک ایسے آتش فشاں پھٹنے سے بنا تھا جو اس زمین کا پہلا آتش فشاں تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سمندر اور خشکی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے۔ تاہم یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ آتش فشاں واقعتاً کہاں پھٹا تھا۔

    آئس لینڈ … مرجان، گلابی مائل سرخ قیمتی تاریخی معدنی پتھر۔ لومنا نے یہ پتھر افغانستان میں پایا تھا۔

    جرائز سیچلز … موتی۔ اسے جزیرہ تاہیٹی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ موتی وہاں کی ایک جھیل میں پڑا تھا۔

    یوکون، کینیڈا … زمرد۔ اسے کولمبیا کے بارانی جنگلات سے حاصل کیا گیا تھا۔

    تسمانیہ … پکھراج۔ یہ پتھر روس میں یورال کی پہاڑیوں سے ملا تھا۔

    اردن… یاقوت۔ جادوگر لومنا نے یہ پتھر برما سے چرایا تھا۔

    میکسیکو … امبر۔ یہ پتھر بحر بالٹک کی لہروں میں بہ کر ساحل پر آ گیا تھا۔

    نیپال… اوپل۔ یہ پتھر رنگ تبدیل کرتارہتا ہے۔ یہ آسٹریلیا میں ملا تھا۔

    اسپین… نیلم۔ یہ مڈغاسکر سے لومنا کو ملا تھا۔

    ارجنٹینا… تنزانائٹ۔ نیلے رنگ کا یہ قیمتی پتھر تنزانیہ سے ملا تھا۔

    ملاوی… الماس۔ یہ جنوبی افریقا کے علاقے لیسوتھو سے ملاتھا۔

    منگولیا… الیگزنڈرائٹ۔ اگرچہ یہ پہلی مرتبہ روس سے ملا تھا تاہم لومنا کو یہ انڈیا سے ملا تھا۔

    "تو بچو، تم سمجھ گئے ہو کہ کون سا پتھر کہاں چھپایا گیا ہے اور یہ اصلاً کہاں سے حاصل کیا گیا تھا۔” اینگس نے انھیں مخاطب کیا۔

    "یہ سب بہت دل چسپ ہے، میں نے ان میں سے چند نام پہلی مرتبہ سنے ہیں۔” جبران بولا۔ فیونا نے کہا میں نے بھی۔

    (جاری ہے….)

  • تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "جبران، کیا تم گھر جاؤ گے؟” فیونا نے اینگس کے گھر سے نکلتے ہی پوچھا۔ جبران نے کہا نہیں، میرا خیال ہے پاپا مسٹر تھامسن کے ساتھ باہر گئے ہوں گے، جب کہ ممی گھر کے کاموں میں مصروف ہوں گی، اور عرفان اور سوسن کھیل رہے ہوں گے، اس لیے گھر جانے کی ضرورت نہیں۔”

    "ٹھیک ہے، تو پھر میں گھر سے فلیش لائٹ اور کیمرہ لے لیتی ہوں۔” فیونا نے کہا اور دونوں اس کے ساتھ چلنے لگے۔ فیونا کی ممی باغیچے میں مصروف تھیں، فیونا نے جلدی جلدی مطلوبہ چیزیں اٹھائیں اور پھر وہ قلعۂ آذر کی طرف روانہ ہو گئے۔

    "اس مرتبہ ہمیں بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یعنی گیند ڈھونڈنے کے لیے سارا قلعہ چھان مارنا ہوگا۔” فیونا نے چلتے چلتے کہا۔

    "تو پھر آؤ، دوڑ کر چلیں۔” جبران نے اثبات میں سر ہلاکر کہا۔ تینوں دوڑتے ہوئے جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ کشتی اسی مقام پر موجود تھی جہاں انھوں نے گزشتہ روز چھوڑی تھی۔ فیونا نے تین فلیش لائٹس ساتھ لی تھیں اس لیے تینوں کے پاس ایک ایک موجود تھی۔ وہ کشتی کھول کر اسے قلعۂ آذر کی طرف کھینے لگے۔ اس مرتبہ وہ بے خوفی سے دوڑتے ہوئے قلعے کے اندر چلے گئے اور سیدھا آتش دان کے پاس رکے۔ خفیہ دروازہ تاحال کھلا تھا۔ انھوں نے فلیش لائٹس روشن کیں، اور سیڑھیاں اتر کر خفیہ کمرے میں آ گئے۔ فیونا نے کوٹ کی جیب سے شیشے صاف کرنے والا اسپرے نکال کر جبران کو تھمایا اور کہا۔ "تم یہ کھڑکی صاف کرو، پتا چلے یہ کیسی لگتی ہے، میں اور دانی جادوئی گولا ڈھونڈتے ہیں۔”

    "ٹھیک ہے۔” جبران نے اسپرے لیا اور صندوق پر چڑھ کر کھڑکی صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ فیونا اور دانیال جادوئی گولا ڈھونڈنے لگے۔ فیونا ایک طویل راہداری میں گئی اور وہاں بنے کمروں میں تلاشی کے بعد نکل کر بولی۔ "یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔”

    "مجھے مل گیا۔” اچانک دانیال چیخا۔ "میں نے اسے ڈھونڈ لیا۔”

    فیونا کو اگرچہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن دانیال کی پرمسرت چیخ ہی سمجھانے کے لیے کافی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ فیونا دوڑ کر اس کے پاس گئی اور اس کے ہاتھ سے وہ چیز لے لی۔ "تو یہ ہے جادوئی گولا۔ یہ تو میری سوچ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔” انھوں نے دیکھا کہ یہ ایک سنہری گیند تھی اور اس میں رکھنے کے لیے بارہ عدد سوراخ نما جگہیں بنی ہوئی تھیں، جن میں جادوئی ہیرے رکھے جانے تھے۔”

    جبران نے کہا جادوئی گولا تومل گیا اب ہمیں میز کے نیچے تختی دیکھنی ہے۔ فیونا آگے بڑھ کر میز کے نیچے جھانکنے لگی۔ "ہاں یہی میز ہے، اف مجھے تویقین نہیں آ رہا ہے کہ ہم نے یہ کیا دریافت کر لیا ہے۔ اسے پڑھنے کے لیے انکل اینگس کو ہی آنا پڑے گا۔ اس تختی کو اکھاڑنے کےلیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تختی چوبی میز ہی کا حصہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ سونے کی بنی ہے۔ ویسے میں اسے اکھاڑنا ہرگز پسند نہیں کروں گی، یہ لومنا جادوگر کے لیے ہے۔”

    فیونا نے مڑ کر جبران کی طرف دیکھا۔ وہ صندوق سے اتر گیا تھا۔ فیونا نے فلیش لائٹ کھڑکی کی طرف کر دی۔ "تم نے تو اسے چمکا دیا ہے۔” وہ مسکرا دی۔ یہ خوب صورت شیشہ تھا جس پر نقش و نگار بنے تھے۔ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا اور اس کی روشنی شیشے پر منعکس ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے دیوار پر مختلف رنگوں کی شکلیں نمودار ہو گئیں جو پہلے شیشے پر دھول جمنے کی وجہ سے نظر نہیں آتی تھیں۔

    فیونا کہنے لگی۔ "میرے خیال میں اس پر یہ تصویر بادشاہ کیگان کی ہے، میز پر جادوئی گولا رکھا ہے اور اس کے گرد بادشاہ کی بیوی بچے بیٹھے ہیں، ہیروں پر روشنی پڑ رہی ہے جس سے رنگین شعاعیں پھوٹ رہی ہیں اور یہ اس کے بچوں پر پڑ رہی ہیں۔” فیونا تصویر پر موجود تفصیلات باریک بینی سے بیان کرنے لگی۔ "اور یہ دیکھو ڈریگنز، یہ پتھروں سے نکل رہے ہیں، وہی ڈریگنز جو پتھروں پر تراشے گئے ہیں۔ بادشاہ نے ستاروں والا ہار پہنا ہوا ہے۔ ارے ہاں۔” اچانک فیونا بری طرح چونک اٹھی۔ "یہ ہار کہاں گیا؟ کیا تم میں سے کسی نے اسے دیکھا؟”

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر دیکھا۔ دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ جبران نے کہا "عین ممکن ہے اسے دوگان کے آدمیوں نے چرا لیا ہو۔” فیونا نے سر ہلا کر کیمرہ سیدھا کیا اور پھر روشنی کا ایک جھماکا ہوا۔ "میرے خیال میں یہ ایک اچھی تصویر ہوگی۔” فیونا نے تبصرہ کیا۔

    چند منٹ بعد تینوں قلعے کے دروازے سے باہر کھڑے تھے۔ "اُف، آج تو بہت دیر ہو گئی۔ چلو جلدی جلدی چلتے ہیں۔” جبران پریشان ہو کر بولا۔ جھیل کے دوسرے کنارے پہنچ کر انھوں نے پرانی جگہ پر کشتی باندھ دی۔ اس نے کہا "اندھیرا پھیلنے لگا ہے، اچھا خدا حافظ، کل ہفتہ ہے صبح کو تمھارے انکل کے گھر پر ملتے ہیں۔”

    جبران نے جادوئی گولا دانیال سے لے کر فیونا کے حوالے کر دیا۔ "فیونا، اس وقت تمھارا ہی گھر محفوظ جگہ ہے جہاں یہ ساری چیزیں چھپائی جا سکتی ہیں، کیوں کہ نہ تمھارے بھائی ہیں نہ بہنیں۔”

    فیونا نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو کر دوسرے راستے پر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔

    (جاری ہے….)

  • گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ تینوں حیرت سے یہ تفصیل سن رہے تھے۔ اینگس مزید بتانے لگے۔ "اس کی ساتویں بیوی امبر تھی، بیس برس کی، جب کہ شادی کے وقت رالفن اڑتیس کا ہو چکا تھا۔ وہ اسکیتھین نسل سے تھی اور ویسیگوتھز اور ونڈالز کے ساتھ جنگ کے دوران پکڑی گئی تھی۔ اس کی آٹھویں بیوی ایٹروسکن تھی۔”

    "انکل میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں سے تھی، ایٹروسکن شمالی اٹلی میں رہتے ہیں، میں نے ان کے متعلق اسکول میں پڑھا۔” فیونا نے جلدی سے اپنی معلومات سے کام لیا۔

    "بالکل درست، اس کا نام کارینا تھا، اس کی عمر بھی بیس سال ہی تھی، جب کہ بادشاہ کی عمر چالیس تھی۔ نویں بیوی سیلٹک تھی، اس کے بال آتشیں سرخ تھے، وہ بے حد خوب صورت تھی، اور وہ غالباً آئرلینڈ سے تھی۔ وہ رالفن سے بہت چھوٹی تھی، اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی جب کہ رالفن تیتالیس سال کا ہو چکا تھا۔”

    "عمر کا یہ فرق تو واقعی بہت زیادہ ہے۔” فیونا جلدی سے بول اٹھی۔

    "ہاں، لیکن اس زمانے میں ایسا ہونا کوئی خاص بات نہیں تھی۔ دسویں بیوی کا نام ٹائنا تھا، جس کا تعلق قبرص سے تھا۔ وہ اور بھی چھوٹی تھی، کیوں کہ اس کی عمر شادی کے وقت صرف سترہ برس تھی، اور رالفن چھیالیس کا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی گیارہویں بیوی آنات تھی، جو مصری تھی۔ کتاب میں لکھا ہے کہ آنات کو الیگزینڈریا میں رالفن شاہی خاندان سے بھگا کر لایا تھا۔ شروع میں اس واقعے سے ہر طرف ہنگامہ مچ گیا تھا لیکن پھر دونوں میں محبت ہو گئی اور انھوں نے شادی بھی کر لی۔ اس کی عمر بہ مشکل پندرہ سال تھی، جب کہ بادشاہ پچاس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہ آنات کے خاندان کے ساتھ مصالحت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ مصر کے ساتھ تجارت کرنے لگا۔ اس کی آخری بیوی چھوٹی سی ہیلینا اسپارٹا سے تھی، جسے اب تم یونان کے نام سے جانتے ہو۔ ہیلینا بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس کی عمر شادی کے وقت صرف دس سال تھی۔”

    "کیا…. صرف دس سال!” فیونا کی آنکھیں نکل آئیں۔ "یعنی مجھ سے بھی ایک سال چھوٹی۔”

    "دراصل ہیلینا نے اپنی پسند سے اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ وہ بادشاہ سے بے حد محبت کرتی تھی، ان کے دس بچے ہوئے۔”

    "دس بچے۔” فیونا اور جبران نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کھی کھی کرنے لگے۔ "اچھا سنو، شہنشاہ رالفن کے ڈیڑھ سو بچے جوانی ہی میں مر گئے تھے۔” اینگس نے کتاب کا صفحہ غور سے پڑھتے ہوئے کہا۔ "بلاشبہ یہ ایک بہت ہی شان دار خزانہ ہے جو تمھیں ملا ہے۔ یہ آج کے لیے تمھارا تاریخ کا سبق ہوا۔ اچھا، پھر ہوا یہ کہ جادوگر نے بادشاہ کو جادوئی گولا پیش کر دیا جس کے ساتھ ایک ہار بھی تھا۔ لومنا نے جب اس تحفے کی طاقتوں کی وضاحت کی تو بادشاہ نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کی بہت تعریف کی۔ لیکن یہ بات چھپی نہ رہ سکی، کیوں کہ گولا جس سنار نے تیار کیا تھا اس نے لوگوں سے یہ راز کہہ دیا۔

    رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس کے بارے میں مشہور ہو گیا۔ دور دراز سے لوگ حملہ آور ہو کر اس جادوئی گولے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شخص تو تقریباً کامیاب بھی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی جادوئی گولا اس کے ہاتھ نہ آ سکا، ہاں جادوگر لومنا اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ آور اسے بادشاہ سمجھا تھا۔ لومنا اس وقت میز کے سامنے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حملہ آور نے اس کے دل میں تلوار گھونپ دی۔ اس واقعے سے شہنشاہ رالفن نہایت رنجیدہ ہو گیا۔ اس نے اس میز کو قومی نشان کا اعزاز بخشا، اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اس میز پر نہیں بیٹھا۔”
    یکایک جبران اپنی جگہ سے اٹھا اور یوں بولنے لگا جیسے خواب میں بول رہا ہو۔ "کیا یہ وہی میز ہو سکتی ہے جو ہم نے کل قلعۂ آذر میں دیکھی تھی، ہو سکتا ہے اس پر خون کے دھبے اب بھی موجود ہوں؟”

    "عین ممکن ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ لومنا نے سونے کی ایک تختی پر اپنا نام کھدوا کر اس میز پر اندر کی جانب لگا دی تھی۔” اینگس پھر کتاب کے مندرجات سنانے لگا۔

    دانیال نے پوچھا "جادوگر کو کس نے قتل کیا؟”

    "بارتولف نامی ایک شیطان بادشاہ نے، جو زناد نامی سرزمین سے آیا تھا، وہ ایک بزدل بادشاہ تھا۔ اور وہ رالفن ہی کا بھائی تھا لیکن اس کی طرح بہادر نہیں تھا۔ بارتولف کی چار بیویاں تھیں، جن کے نام صورت، جدائل، شہرت اور مزدل تھے۔ یہ بیویاں وہ اپنے ساتھ ہیڈرومیٹم ہی سے لایا تھا، وہ فونیزی نژاد تھیں، یعنی آج کے لبنان کے علاقے میں واقع قدیم تہذیب سے، بدقسمتی سے بارتولف اپنی بیویوں کے حق میں بہت ہی برا ثابت ہوا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ان پر ظلم کرتا تھا۔ اس نے اپنے بھائی رالفن کو قتل کرنے کے لیے اپنے انتہائی ماہر قاتل بھیجے لیکن غلطی سے انھوں نے جادوگر لومنا کو قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد محافظوں نے قاتلوں کو پکڑا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ کافی عرصے بعد جب بادشاہ رالفن کا انتقال ہو گیا تو جادوئی گولا اور بارہ قیمتی ہیروں والا ہار نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بادشاہ کیگان پیدا ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پینتالیسویں نسل تک ان میں بیٹے ہی پیدا ہوتے رہے۔ وہ میز بھی ان کے پاس رہی۔ کوئی بھی لومنا کی اچھائی کو بھلانا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ بادشاہ کیگان اور اس کا قلعہ ہائی لینڈ کے قبائل اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ مالکولم کینمور سے کیسے اوجھل رہا؟ وہ لازمی طور پر اسکاٹ لینڈ بھیس بدل کر آتا ہوگا۔ اس نے یہاں کچھ وقت بھی گزارا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز شخص کے روپ ہی میں ٹھہرا ہوگا۔” اینگس کے ماتھے پر لکیریں ابھر آئیں۔

    "وہ لازماً عربی لباس میں آیا ہوگا ،اسی طرح اس کے خدمت گار اور محافظ بھی عربی وضع قطع میں رہے ہوں گے۔” جبران نے اپنا خیال پیش کیا۔

    (جاری ہے….)

  • دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "شہنشاہ رالفن نے لومنا کو اپنا جادوگر بنا لیا لیکن وہ اسے صرف اچھے کاموں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جنگوں میں بھی جادوگر مدد کے لیے آگے آتا لیکن رالفن اسے منع کر دیتا۔ بادشاہ لومنا سے دو مواقع پر مدد لیا کرتا تھا؛ ایک جب اسے اپنی رعایا کی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرنا ہوتا تھا، دوم جب اچانک قحط پڑ جاتا تھا۔ قحط کی صورت میں بادشاہ لومنا کو غذا کی فراہمی کے کام پر لگا دیتا تھا۔ ایک جنگ کے دوران رالفن شدید زخمی ہو گیا۔ لومنا کو اپنے بادشاہ سے بہت پیار تھا، اور وہ اس کا شکر گزار بھی تھا، اس نے بادشاہ کی جان بچا لی۔ جب رالفن صحت یاب ہو گیا تو لومنا نے عرض کیا کہ وہ انھیں ایک خاص تحفہ دینا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا، اور ساری دنیا میں گھوم پھر کر بارہ ہیرے جمع کیے۔ پھر ایک سنار سے کہہ کر ایک سنہری گیند بنوائی، ایک ایسی گیند جس پر یہ بارہ ہیرے رکھنے کی جگہیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ باتیں اس نے بہت راز میں رکھیں۔ ان میں سے ہر ہیرا رالفن کی ایک ایک بیوی کے لیے تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے ہر حال میں بارہ ہی ہیرے جمع کرنے ہیں کیوں کہ رالفن اپنی تمام بیویوں کو بہت چاہتا تھا، یہ اور بات تھی کہ اس کی بیویاں حسد میں مبتلا تھیں۔ ہر ایک خود کو زیادہ اہم ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوتی تھی۔ یہاں ان بیویوں کی فہرست بھی دی ہوئی ہے، کیا آپ لوگ اسے سنا پسند کریں گے؟”

    اینگس نے ٹھہر کر ان کی جانب دیکھا۔ فیونا کو ان بیویوں کے ناموں میں دل چسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن اس نے دیکھا کہ خود اینگس کے چہرے پر جوش کے آثار چھائے ہوئے ہیں، تو اس نے بے دلی سے کہا۔ "جی انکل سنائیے۔” وہ اینگس کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی تھی، کیوں کہ وہ دیکھ رہی تھی کہ اینگس کو کتاب میں دی ہوئی معلومات میں بے حد دل چسپی محسوس ہو رہی ہے۔ اینگس سنانے لگا۔ "ان میں ہر بیوی دنیا کے مختلف علاقے سے آئی ہوئی تھی، اور رالفن کی پہلی بیوی کا نام پولا تھا، وہ پونِک تھی۔”

    "پونِک… اس کا کیا مطلب ہے؟” جبران نے ناک کھجائی۔

    "اس کا مطلب ہے کہ پولا ہیڈرمیوٹم سے آئی تھی۔ جب ان کی شادی ہوئی تو اس وقت دونوں کی عمر صرف بیس سال تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ رالفن یا تو بورل سے وہاں گیا تھا یا پھر وہ کسی دور میں وہاں رہا ہوگا۔ جو لوگ کارتھیج کے آس پاس رہتے تھے، وہ پونیشیائی نسل سے تعلق رکھتے تھے، اسے مختصر طور پر پونِک کہتے تھے۔”

    "اس میں تو کافی تفصیل درج ہے۔” جبران حیران ہوا۔

    "ہاں ، آگے سنو۔” اینگس سر اٹھائے بغیر بولے۔ "اس کی دوسری بیوی فرانک تھی، اس کا نام بطینی تھا۔ اس سے پہلے کہ تم میں سے کوئی پوچھے میں خود بتا دیتا ہوں کہ فرانکس دراصل فرانسیسی تھے، جنھیں آج ہم فرنچ کہتے ہیں۔ اس وقت رالفن کی عمر تئیس برس تھی جب کہ بطینی انیس سال کی تھی۔ تیسری بیوی کا نام آبدی تھا، وہ ناک تھی۔”

    تینوں ہنسنے لگے۔ "یہ ناک کیا ہے؟” فیونا بے خیالی میں اپنی ناک مسلنے لگی۔ "یہ کون سا ملک ہے؟”

    "بری بات ہے، اگر تم لوگ کسی بات کے بارے میں علم نہیں رکھتے تو اس کے متعلق ہنسنا نہیں چاہیے۔” اینگس نے بہ ظاہر ناراضی کا اظہار کیا۔

    "سوری …. سوری انکل۔” انھوں نے جلدی سے معذرت کی۔ وہ بتانے لگے۔ "ناکس دراصل افریقا میں نائجیریا کی ثقافت والے لوگ ہیں۔ وہ لوہے سے چیزیں بنانے میں ماہر تھے۔ وہ اس وقت بہ مشکل سترہ سال کی تھی، اور غالباً شہزادی تھی، جب کہ بادشاہ رالفن اب چھبیس برس کا ہو گیا تھا۔ اس کی چوتھی بیوی حضرہ رومن تھی۔ اس کی عمر بھی انیس سال تھی جب کہ رالفن انتیس سال کا تھا۔ پانچویں بیوی جرمن تھی جس کا نام گریسلڈا تھا، وہ تمام بیویوں میں سب سے زیادہ خوب صورت تھی۔ اس کے بال نقرئی سنہری تھے اور آنکھیں سمندر کی طرح نیلی تھیں۔ رالفن کی عمر اس سے شادی کے وقت بتیس سال تھی اور گریسلڈا اٹھارہ سال کی تھی، چھٹی بیوی کا نام لیلا تھا، وہ بھارت سے تھی۔”

    "بھارت… میں نے تو یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا۔” فیونا جلدی سے بولی۔ اس سے پہلے کہ اینگس جواب دیتا، جبران نے فوراً بول پڑا۔ "میں بتاتا ہوں، یہ انڈیا کا سنسکرت نام ہے، اور ہمارا پڑوسی ملک ہے۔”

    "ہاں انڈیا سنا ہے میں نے۔” فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔

    اینگس کتاب پڑھنے لگے۔ "لیلا کے بال لمبے سیاہ تھے اور اسی طرح آنکھیں بھی سیاہ کٹار تھیں۔ جب ان کی شادی ہوئی تو بادشاہ پینتیس سال کا جب کہ لیلا اکیس برس کی تھی۔

    (جاری ہے….)

  • نویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    انھوں نے احتیاط کے ساتھ کے خستہ صفحات الٹے اور بولے۔ "یہ تو بے حد دل چسپ کتاب ہے، تم لوگوں کو یہ کہاں سے مل گئی؟ یہ تو کسی بہت قدیم ایلوری کیتھ مور نامی مصنف نے لکھی ہے۔ یہ کہانی شہنشاہ کیگان سے متعلق ہے جو یہاں سے بہت دور ایک جگہ رہتا تھا، اس کے پاس دولت اور خزانوں کے انبار تھے۔”

    اینگس کتاب کا پہلا صفحہ الٹتے ہی بولتے چلے گئے۔ "اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ کئی لوگ اس کی جان کے دشمن بن گئے اور یہ دولت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے۔ اس کتاب کی خطاطی بہت ہی پیاری ہے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے اتنی خوب صورت خطاطی دیکھ کر، کیوں کہ آج تک میں نے ایسی خطاطی نہیں دیکھی۔ ارے، تم لوگوں نے بتایا نہیں کہ یہ کتاب تمھیں کہاں سے ملی؟”

    فیونا اپنے دوستوں کی طرف دیکھنے لگی، پھر ایک طویل سانس لے کر بولی۔ "انکل، میں اس وقت تک آپ کو یہ نہیں بتا سکتی جب تک آپ ہمارے ساتھ اسے راز رکھنے کا وعدہ نہ کریں۔ آپ میری ممی سے اس کا ذکر نہیں کریں گے۔”

    اینگس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "میرا خیال ہے تم لوگ مجھ پر اعتبار کر سکتے ہو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے اپنے ہی تک محدود رکھوں گا۔” یہ سن کر فیونا نے انھیں قلعۂ آذر میں داخل ہونے کی پوری کہانی سنا دی۔ وہ سر ہلا کر بولے "تو یہ بات ہے، بہت دل چسپ!”

    جبران پہلی مرتبہ بولا۔ "کیا اس کتاب میں اور بھی کچھ لکھا ہے؟ کوئی نقشہ وغیرہ؟”

    "بہت کچھ لکھا ہے اس میں، بے قرار مت ہو،میں بتاتا ہوں۔” اینگس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ "اس میں لکھا ہے کہ شہنشاہ کیگان کے پاس جادوئی طاقت تھی جو اسے کسی خاص جادوئی گولے سے حاصل ہوئی تھی۔ جب وہ اسے استعمال کرتا تھا تو اس میں ان بارہ چیزوں کے کرنے کی صلاحیت آ جاتی تھی۔ اس میں یہ سارے نام لکھے ہوئے ہیں، کیا انھیں دہراؤں؟”

    اینگس جو خود بھی کتاب کی تحریر میں کھو گئے تھے، سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ تینوں یک زبان ہو کر چلائے۔ "ہاں، ہاں بتا دیں۔”

    "تو غور سے سنو، نمبر ایک، سب سے پہلے اس کے پاس ایسی صلاحیت آ جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ غاروں اور زمین میں دفن خزانوں کو کھوج سکتا تھا۔ وہ کسی نقشے کو دیکھتا، اس کے درست مقام کو سمجھ لیتا اور پھر اپنے آدمیوں کے ذریعے وہ مدفون خزانہ نکال لیتا، اسی لیے وہ اتنا دولت مند تھا۔”

    یہ سن کر فیونا نے ٹھنڈی سانس بھری۔ "یہ واقعی ایک زبردست قوت ہے۔ کاش میرے پاس بھی زیورات ہوں تو ہم کسی بڑے شہر کو منتقل ہوں اور مزید بیزار ہونے سے بچ جائیں۔”

    "فیونا، دولت سب کچھ نہیں ہوا کرتی، یہ دیکھو کہ اس نے شہنشاہ کیگان کے ساتھ کیا کیا؟” اینگس نے فوراً کہا "خیر، سنو، دوسری طاقت یہ تھی کہ وہ لوگوں کو اشیا میں تبدیل کرنے پر قادر ہو جاتا تھا۔”

    "کیا مطلب؟ کس قسم کی چیزوں میں؟” جبران چونک اٹھا۔ "ایسا تو کتاب میں کچھ نہیں لکھا۔” اینگس نے جواب دیا۔ "لیکن ہم خود بھی اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ مثلاً انسان کو پتھر، بوتل یا درخت میں تبدیل کرنا وغیرہ ۔” کہتے کہتے اینگس کی آنکھوں میں پراسرار چمک آ گئی۔ "کچھ ایسے لوگ ہیں جنھیں میں بہت شوق سے چیزوں میں تبدیل کرنا چاہوں گا۔”

    وہ تینوں مسکرانے لگے۔ اینگس نے کہانی جاری رکھی۔ "اس کے پاس جو تیسری قوت تھی، وہ خود کو نظروں سے غائب کرنے سے متعلق تھی۔ وہ جانوروں کے ساتھ باتیں کرسکتا تھا، انھیں اپنے حکم پر چلا سکتا تھا، جب کہ موسم، سمندر اور پانیوں پر بھی اس کا اختیار ہو جاتا تھا۔ وہ کئی زبانیں سمجھنے لگتا اور دوسروں کا دماغ پڑھ سکتا تھا۔ اور وہ خود کو کہیں بھی پہنچا سکتا تھا، دور دراز کے ملکوں میں بھی۔ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ خود کو چھوٹا بڑا بھی بنا سکتا تھا، اور کہیں بھی اچانک ایک اشارے سے آگ بھڑ کا سکتا تھا۔ آخری یعنی نمبر بارہ یہ کہ وہ وقت میں بھی سفر کر لیتا تھا، یعنی ماضی میں بھی چلا جاتا تھا۔”

    "یہ ناممکن ہے، کوئی بھی انسان یہ سارے کام نہیں کر سکتا۔ ایسا تو کوئی بھی جادو نہیں پایا جاتا۔” فیونا نے اچانک رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا "کم سے کم میں تو اس پر یقین نہیں کر سکتی، کہیں آپ ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں انکل اینگس؟”

    "میری بچی، میں تمھارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، کتاب میں یہی کچھ لکھا ہے۔ اب تم اس پر یقین کرتی ہو یا نہیں، یہ تم پر منحصر ہے۔” اینگس نے کتاب کے اندر انگلی رکھ کر کتاب بند کر کے کہا۔

    "مجھے اس پر یقین ہے۔” جبران ایک دم سے بول اٹھا۔ "مجھے بھی۔” دانیال نے بھی کہا۔ "لیکن شہنشاہ نے یہ جادوئی گیند کہاں سے حاصل کی تھی؟”

    جبران نے دانیال کی بات اینگس کو ترجمہ کر کے سنائی، اینگس کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے کہ ہر بات کے اختتام پر جبران دانیال کے کان میں کھسر پھسر شروع کر دیتا تھا۔ اب ان کی سمجھ میں آیا کہ دانیال کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ اینگس نے کتاب دوبارہ کھول کر دونوں کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اعتبار کیا اور اسے مذاق نہیں سمجھا۔

    وہ مزید بتانے لگے "اس میں لکھا ہے کہ میسح سے تقریباً دو سو سال قبل ایک قدیم جادوگر نے کیگان کے آباو اجداد میں کسی کو یہ دیا تھا۔ کیگان سے بہت پیچھے کی نسلوں میں اس کے پینتالیسویں پردادا شنہشاہ رالفن ہوا کرتا تھا، جس کی سلطنت کا نام بورل تھا۔” اینگس نے بتایا کہ انھوں نے بورل نام کی جگہ کے بارے میں کبھی نہیں پڑھا، یا سنا۔ انھوں نے کہا "شہنشاہ رالفن کی بارہ عدد بیویاں تھیں، اور اس کے پاس جو جادوگر تھا، وہ بے حد ماہر تھا اور اس کا نام لومنا تھا۔”

    "بارہ بیویاں…!” تینوں چیخ اٹھے۔

    اینگس نے یہ کہ کر اپنی بات جاری رکھی کہ پرانے زمانے میں زیادہ شادیاں کرنا عام بات تھی۔ "جادوگر لومنا دراصل جادوگروں کی سرزمین زیلیا سے آیا تھا۔ اس نے رالفن کے پاس آ کر درخواست کی کہ اگر بادشاہ سلامت اسے اپنا جادوگرِ خاص مقرر کر دیں، تو یہ اس کی عزت افزائی ہوگی۔”

    فیونا نے ایک بار پھر اعتراض کر دیا۔ "بھلا جادوگر کب سے لوگوں سے کہنے لگے کہ وہ انھیں اپنا جادوگر بنا لیں، مجھے اس پر یقین نہیں ہے۔”

    "فیونا، یہ میں اپنی طرف سے نہیں سنا رہا ہوں، بلکہ کتاب میں جو لکھا ہے وہی پڑھ رہا ہوں، اور یہ مت بھولو کہ یہ کتاب تم ہی میرے پاس لے کر آئی ہو۔” اینگس نے سپاٹ لہجے میں کہا اور گلا صاف کر کے بتانے لگے۔ "یہ بات ہر طرف مشہور ہو گئی تھی کہ شہنشاہ رالفن اس زمین کا سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ وہ ایک بہادر جنگجو تھا۔ اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی، لیکن لوگوں کو اس سے اس کی نرم دلی اور عدل کی وجہ سے پیار تھا۔ وہ صرف اپنی رعایا ہی کے لیے اچھا نہیں تھا بلکہ وہ اپنی بارہ بیویوں کو بھی بہت چاہتے تھے۔ ان بیویوں سے رالفن کے ڈیڑھ سو بچے تھے۔”

    "ڈیڑھ سو بچے…” جبران اچھل پڑا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”

    "بھئی، اگر تمھاری بھی بارہ بیویاں ہوں تو اتنے بچے تمھارے بھی ہو سکتے ہیں۔”فیونا نے مسکرا کر شرارت آمیز لہجے میں کہا۔

    "ناممکن… میں تو ایک بھی شادی نہیں کرنے والا، بارہ تو دور کی بات۔” جبران فوراً بولا اور پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا۔

    "تم لوگ اپنی ہی بولو گے یا مجھے اسے ختم کرنے دو گے؟” اینگس نے مداخلت کی اور پھر کتاب پر نظریں جما دیں۔

    (جاری ہے….)

  • ساتویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ساتویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "یہ کیا ہے؟” وہ ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جھکی اور کتاب اٹھا لی۔ کتاب پوش چمڑے کا تھا۔ اٹھاتے ہی اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جھڑنے لگے۔ فیونا کتاب لے کر فرش پر بیٹھ گئی اور اسے کھول کر دیکھنے لگی۔ جبران اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ "یہ کون سی زبان میں لکھی گئی ہے، کیا تم اسے پڑھ سکتی ہو؟”

    تینوں کی آنکھیں کتاب پر جمی ہوئی تھیں۔ ایسے میں دانیال بولا۔ "یہ تو مجھے ویسی ہی زبان لگ رہی ہے جیسی لائبریری کی باہر والی دیوار پر لکھی گئی ہے۔” فیونا بولی۔ "یہ اسکاٹ لینڈ کی قدیم مقامی زبان گیلک ہے، مجھے تھوڑی سی پڑھنا آتی ہے یہ زبان، تاہم میری ممی زیادہ بہتر طور پر جانتی ہیں۔”

    دانیال نے مشعل قریب کر دی۔ اس کی روشنی میں فیونا کی سبز مائل نیلی آنکھیں عجیب طرح سے چمکنے لگیں۔ وہ مزید جھک کر پڑھنےکی کوشش کرنے لگی۔ چند لمحوں بعد اس نے کہا۔ "میں اس میں سے چند الفاظ پڑھ سکتی ہوں، یہ لکھا ہے آیونمھاس …. یہ گیلک زبان میں خزانے کو کہتے ہیں۔ یہ کسی خزانے کے بارے میں کچھ لکھا ہے لیکن یہ بے حد پرانا ہے، اسے پڑھنا بہت مشکل ہے۔”

    "خزانہ…!” جبران کی نقری بھوری آنکھوں میں چمک آ گئی۔ وہ جوش سے بولا۔ "کیا اس میں کوئی نقشہ وغیرہ ہے؟”

    "میں کچھ کہہ نہیں سکتی، کیوں کہ اس میں چیزیں واضح نہیں ہیں۔” فیونا نے جواب دیا۔ جبران جلدی سے بولا۔ "تم نے ایک بار اپنے انکل اینگس کا ذکر کیا تھا، کیا وہ گیلک نہیں پڑھ سکتے؟”

    "کیوں نہیں۔ وہ ماہر ہیں۔ وہ اور میرے پاپا ایک ساتھ گیلک پڑھ چکے ہیں۔” فیونا نے جواب دیا۔

    "تو پھر چلو، یہ کتاب ان کو دے کر معلوم کرتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟” جبران نے کتاب لے کر کوٹ کے بٹن کھولے اور اسے اندر رکھ کر بٹن بند کر کے کوٹ کو پینٹ میں اڑس لیا، تاکہ کتاب نیچے سے نکل نہ جائے، اور پھر چاقو بھی لے کر اپنے اونی موزے میں اڑس لیا۔ تینوں واپس محرابی دروازے پر پہنچ گئے۔ دانیال نے مشعل کے سرے پر پاؤں مار کر اسے بجھا دیا اور واپس اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا کیوں کہ انھیں اس کی دوبارہ ضرورت پڑھ سکتی تھی۔ فیونا کشتی میں بیٹھ کر بولی۔ "جبران، میں نے ابھی تک ایک بھی تیتر نہیں دیکھا، تم اپنے پاپا سے ضرور کہنا کہ مسٹر لیمنٹ کو کچھ پتا نہیں ہے۔”

    جبران منھ بنا کر بولا۔ "ہاں ہم نے کوئی ایک عفریت بھی تو نہیں دیکھا، بے حد مایوسی ہوئی!” تینوں ہنس پڑے۔ سورج غروب ہو رہا تھا، اس کے شعلوں ایسا رنگ جھیل کے پانی پر منعکس ہو رہا تھا۔ دوسری طرف اترنے کے بعد انھوں نے کشتی اس کی مخصوص جگہ پر درخت سے باندھ دی اور ایک بار پھر کتاب کو دیکھنے لگے۔ جبران نے کتاب نکال کر فیوناکے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ "فیونا، یہ تم گھر لے جاؤ، کیوں کہ میں اسے اپنے گھر میں چھپا نہیں سکتا۔ میری ممی اور پاپا اسے دیکھ لیں گے۔ اگر انھوں نے نہیں دیکھا تو عرفان اور سوسن سے چھپی نہیں رہ سکے گی۔ کل ہم اسکول کے بعد تمھارے انکل اینگس کو دیکھنے جائیں گے۔”

    تینوں گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا کا گھر زیادہ قریب تھا۔ جبران اور دانیال اس سے ہاتھ ملا کر گھر کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ انھیں بہت دیر ہو چکی تھی۔ فیونا گھر میں داخل ہوئی تو اس کی ممی باورچی خانے میں مچھلی تل رہی تھیں۔ "فیونا، جاؤ ہاتھ دھو کر آؤ، مچھلی تیار ہے۔ نئے دوستوں کے ساتھ ایڈونچر کیسا رہا؟” انھوں نے باورچی خانے ہی سے ہانک لگائی۔

    "زبردست ممی!” اس نے کہا اور دوڑ کر اپنے کمرے میں گئی۔ کتاب اپنے بستر کے نیچے چھپا دی اور پھر ہاتھ دھو کر باورچی خانے میں داخل ہو گئی۔ "ہم م م … اچھی خوش بو ہے۔”

    "بیٹھ جاؤ یہاں اور مزے لے لے کر کھاؤ۔” مائری بولیں اور ایک چھوٹی طشتری میز پر رکھ دی۔ "پتا ہے آج میں نے تمھارے لیے خصوصی میٹھا بھی تیار کر رکھا ہے۔” فیونا کی آنکھوں میں یہ سن کر چمک آ گئی۔ وہ چہک کر بولی۔ "ضرور آپ نے مارزیپن تیار کیا ہے، کیوں کہ آپ کو پتا ہے بادام، چینی اور انڈوں سے تیار کیا جانے والا یہ کھیر مجھے بہت پسند ہے۔”

    مائری مسکرا دیں۔ "پتا ہے، آج میری ملاقات ایک دل چسپ آدمی سے ہوئی۔”

    "کیا وہ واقعی دل چسپ شخص تھا؟” فیونا نے مچھلی کھاتے ہوئے بے کار سوال کر دیا۔ مائری نے سنجیدگی سے کہا۔ "اس کا نام جونی تھامسن ہے، اور وہ لندن سے یہاں آیا، جلد ہی اس کا بھائی اس سے ملنے والا ہے، وہ دونوں یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے اور مچھلیوں کے علاوہ دیگر شکار بھی کھیلیں گے۔ میں نے اسے جبران کے ڈیڈ کے پاس بھیج دیا۔”

    "آہا مما، یہ تو بڑی دل چسپ کہانی ہے، سچ مچ میں دل چسپ آدمی لگ رہا ہے۔”

    "تم یہ مچھلیاں اور کھیر کھاؤ، اب تھامسن کے متعلق اور کوئی با ت نہیں ہوگی۔” وہ اچانک درشت لہجے میں بولیں۔

    رات کو جب مائری اینا فرگوسن مک ایلسٹر اپنے بستر پر لیٹیں، تو باہر خزاں کے آغاز کی ہوائیں شور مچا رہی تھیں۔ وہ شہر کے لیے اپنے سفر کے متعلق سوچتے سوچتے سو گئیں۔دوسرے کمرے میں فیونا بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔ وہ قدیم جادوؤں، بونوں اور دور دراز کے علاقوں کے خواب دیکھنے لگی۔

    (جاری ہے…)