Tag: رفیع اللہ میاں ناول

  • چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اندر گھپ اندھیرا تھا، ماحول میں عجیب سی گھٹن تھی۔ انھیں اندر جاتے ہی سردی کا احساس ہوا۔ فیونا کی آواز آئی "اس دیوار کو دیکھو، اس میں کتنے بڑے بڑے پتھر لگائے گئے ہیں۔ ایک ایک پتھر ہاتھی جتنا ہے۔ پتا نہیں، وہ یہ کیسے اٹھا کر لائے ہوں گے۔”
    پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
    وہ دونوں مڑے۔ فیونا دیوار کو ہاتھوں سے چھو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ انھیں اندھیرے میں چیزیں نظر آنے لگیں۔ وہ ایک دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ دانیال بولا "یہ دیوار کائی زدہ ہے، اور وہ دیکھو، وہاں بھی دیوار پر گارگوئل کے بدنما سر لگے ہوئے ہیں۔ یہ تو رہنے کے لیے ایک خوف ناک جگہ ہے، یہاں تو دیواروں پر مکڑی کے جالوں اور چوہوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔”

    فیونا اپنے کپڑے سمیٹ کر بولی "مجھے مکڑی کے جالوں اور مکڑیوں سے سخت نفرت ہے۔”

    "اور مجھے چوہے ناپسند ہیں۔” جبران بولا "امید ہے کہ مجھے چوہے دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔”

    "لیکن یہاں بہت سارے چوہے ہیں۔” انھیں دانیال کی آواز ذرا فاصلے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، اور وہ دونوں تیزی سے مڑے، اور پھر ان کی آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی۔ اب ان کی آنکھیں بھی اندھیرے سے مانوس ہو گئی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑے ہال نما کمرے میں کھڑے تھے جس کی چھت بے حد اونچی تھی۔ وہ تینوں سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ عین اسی وقت ایک کونے میں لومڑ دکھائی دیا۔ فیونا کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر جبران کے پیچھے چھپ گئی۔

    "یہ کیا ہے؟ کیا یہ چوہا ہے؟” اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

    "اب ڈرو نہیں، وہ جا چکا ہے۔ بہرحال وہ چوہا نہیں لومڑ تھا لیکن حیرت ہے کی بات یہ ہے کہ وہ آیا کہاں سے تھا؟” جبران نے کونے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تینوں اسی طرف دیکھنے لگے اور پھر انھیں اچانک نیچے جاتی ہوئی سیڑھیاں نظر آ گئیں۔ "میرا خیال ہے اب ہمیں واپس گھر جانا چاہیے کیوں کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ نیچے جانا مناسب نہیں ہوگا، پتا نہیں یہاں کیا ہو!” جبران بولا، اس کے لہجے میں تشویش کی لہر تھی۔

    فیونا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "ہم واپس نہیں جائیں گے، تم ڈرو مت، یہ دیکھو دیوار پر مشعل موجود ہے۔”

    "کیا یہ اب بھی کام کرتی ہوگی؟” دانیال نے حیرت سے پوچھ لیا۔ جبران نے کہا "اس کا تو ابھی پتا چل جائے گا۔” اور آگے بڑھ کر مشعل کے دستے پر ہاتھ جمایا۔ "چچ…. لکڑی کے دستے پر کوئی سیاہ لیس دار مادہ لگا ہوا ہے، کیا تم میں سے کسی کے پاس ماچس ہے؟”وہ مڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا۔ فیونا نے برا سا منھ بنا کر کہا "ہمارے پاس ماچس کیوں ہونے لگی بھلا؟ تمھیں پتا ہے میری ممی سگریٹ نوشی نہیں کرتیں۔”

    "اوہ، معذرت خواہ ہوں۔” جبران نے جلدی سے کہا اور اپنی پینٹ کی جیب پر ہاتھ مار کر بولا "یہ رہی میرے پاس، صبح پاپا نے ایک کام کے لیے دی تھی اور واپس لینا بھول گئے تھے۔” وہ یہ کہ کر فیونا کے پاس آیا اور بولا "ذرا پکڑنا اسے۔”

    فیونا نے مشعل تھامی تو اس نے بھی چونک کر کہا "ارے یہ کیا لگا ہوا ہے اس پر؟” اس نے جلدی سے اسے سونگھا اور بولی "اس سے تو پگھلے ہوئے کولتار کی سی بو آ رہی ہے۔”

    "یہ غالباً پرانا مٹی کا تیل ہے۔” جبران نے کہا اور دیا سلائی جلا کر مشعل کے سرے کے پاس لے گیا۔ اگلے ہی لمحے مشعل نے آگ پکڑ لی اور ماحول ایک دم سے روشن ہو گیا۔ "مشعل پر جو کچھ بھی لگا ہوا ہے، بہرحال اب تک کام کر رہا ہے۔” دانیال نے فیونا سے مشعل لے کر کہا۔

    تینوں مشعل کی روشنی میں نیچے اترنے لگے۔ جب وہ ایک اور خالی کمرے میں پہنچے تو فیونا نے کہا "یہ تو بالکل ویسا ہی کمرہ ہے، بس یہاں دیوار میں ایک بڑا آتش دان ہے۔”

    جبران بولا "فیونا، یہ بڑا نہیں، بہت بڑا آتش دان ہے۔ یہ تو میرے بیڈ روم جتنا ہے۔ پتا نہیں اتنا بڑا آتش دان بنوانے کی کسی کو کیا ضرورت پیش آ گئی تھی!”

    فیونا دوڑ کر اس کے اندر چلی گئی اور چلا کر بولی "اندر آجاؤ، یہاں کوئی کالک نہیں ہے۔” اس کی آواز کی بازگشت وہاں دیر تک گونجتی رہی۔ وہ دونوں بھی اندر داخل ہوئے۔ آتش دان اندر سے ٹھنڈا تھا۔ فیونا نے دیوار کو ہاتھ لگایا، اور اچانک کہنے لگی۔ "کیا یہ بھی ان آتش دانوں میں سے ایک ہے جن کی دیواروں میں ایک خصوصی اینٹ لگی ہوتی ہے؟”

    "دانیال چونک اٹھا۔ "کیا تمھارا یہ مطلب ہے کہ وہ اینٹ دبانے سے دیوار میں کوئی خفیہ راستہ نکل آئے گا؟”

    دونوں حیرت سے فیونا کی طرف دیکھنے لگے اور اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ وہ ذرا آگے کی طرف جھک کر سرگوشی میں بولی۔ "جی ہاں۔”

    تینوں کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر دانیال بولا۔ "تو آؤ کوشش کرتے ہیں۔”

    تینوں مختلف سمتوں میں آتش دان کی دیواروں میں موجود ایک ایک اینٹ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ ذرا دیر بعد اچانک انھیں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے سامنے کی دیوار کی اینٹوں نے اپنی جگہ چھوڑی دی تھی، اور وہاں ایک تاریک گلی دکھانی دینے لگی۔ جبران نے کنارے پر جا کر اندھیرے میں جھانک کر دیکھا۔ "یہاں بھی ویسی ہی ٹھنڈ ہے، لگتا ہے آگے جا کر یہاں بھی سیڑھیاں نیچے کی طرف جا رہی ہیں۔”

    اس مرتبہ دانیال کو محسوس ہوا کہ انھیں اندر نہیں جانا چاہیے، اس لیے اس نے کہا۔ ” چلو واپس چلتے ہیں، یہ راستہ مجھے خوف ناک لگ رہا ہے۔” فیونا نے اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔ "پہاڑوں میں رہنے والے تو نڈر ہوتے ہیں، تم کیوں گھبرا رہے ہو!” جبران نے جب اسے ترجمہ کر کے فیونا کی بات سمجھائی تو اسے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے دل سے خوف کو نوچ کر پھینکنے کی کوشش کی۔ "ٹھیک ہے، میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا مسکرا دی۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا اور کہا آؤ۔

    وہ تاریک گلی میں داخل ہو کر سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ سیڑھیاں ایک کمرے میں جا کر ختم ہو گئیں جہاں لکڑی کی ایک میز کے گرد پرانے زمانے کی کرسیاں موجود تھیں۔ جبران نے کمرے سے سیڑھیوں کا سلسلہ مزید نیچے جاتے دیکھ کر حیرت سے کہا۔ "پتا نہیں یہ سیڑھیاں اور کہاں تک نیچے جا رہی ہیں، کیا نیچے کوئی قید خانہ ہے؟ اندر سے یہ قلعہ جتنا بڑا ہے، باہر سے اتنا بڑا نہیں دکھائی دیتا۔”

    فیونا نے کہا "دیواروں پر ان قدیم پردوں کو دیکھو، ان پر کتنی مہارت کے ساتھ رنگین تاروں سے تصاویر بنائی گئی ہیں۔ پردے اتنے پرانے ہیں کہ پھٹنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کسی زمانے میں یہ بے حد خوب صورت لگتے ہوں گے۔”

    "ارے یہاں تو رنگین شیشے والی کھڑکی بھی ہے۔” جبران بولا۔ فیونا پردوں سے نظریں ہٹا کر کھڑکی کو دیکھنے لگی۔ پتا نہیں اس کھڑکی میں کہاں بہت ہلکی سورج کی روشنی اندر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہر چیز پر صدیوں کی گرد جمی ہوئی تھی۔ اچانک دانیال چیخ کر بولا۔ "یہاں آؤ، دیکھو میں نے کیا چیز ڈھونڈ لی ہے۔” دونوں اس کی طرف گئے تو انھوں نے بھی دیوار کے پاس پڑے صندوق کو دیکھ لیا۔ دانیال اسے کھولنے کے لیے اس کا ہینڈل ڈھونڈتے ہوئے بولا۔ "یہ یقیناً یہاں صدیوں سے پڑا رہا ہے۔”

    "یہ ایک ہزار سال سے بھی قدیم لگ رہا ہے۔” فیونا نے اپنا خیال پیش کیا۔ دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ صندوق پر مکڑی کے جالوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ جبران نے جلدی جلدی جالے صاف کیے۔ دانیال نے کہا "چلو اسے کھولتے ہیں۔”

    "نہیں۔” فیونا چلائی۔ "کیا پتا اس میں کوئی بھوت ہویا پھر خون چوسنے والے ہزاروں بھنورے۔”

    جبران نے مسخرے پن سے کہا "ووووو …. لو ہم ڈر گئے… بس!” فیونا اور دانیال اس کے انداز پر بے اختیار ہنس پڑے۔ دانیال نے ہرن کے سینگ والے ہینڈل کو کھینچ کر صندوق کا ڈھکن کھول دیا۔ اندر بھی دھول بھری تھی۔ دانیال کی نظر ایک چاقو پر پڑی، جس کے دستے پر نقش و نگار کندہ تھے۔ "یہ دیکھو، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہ بے حد قدیم چاقو ہے۔” وہ پرجوش انداز میں بولا۔ جبران بھی دل چسپی سے چاقو کو قریب سے دیکھنے لگا جب کہ فیونا کی نظریں کسی اور چیز پر ٹکی ہوئی تھیں۔ صندوق کے کونے میں ایک قدیم کتاب پڑی ہوئی تھی۔

    (جاری ہے…..)

  • پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اپنے خوف کو دور کرنے کے لیے اس نے جبران سے کہا "مجھے تو یہاں تیتر نظر نہیں آ رہے، کیا تم نے اپنے پاپا کو ٹھیک طرح سے سنا تھا؟”

    کشتی ساحل کی ریت سےٹکرانے لگی تو جبران چھلانگ مار کر اترا۔ دانیال بھی اترا۔ دونوں نے کشتی ساحل پر کھینچ لی۔ "میرے پاپا نے کہا کہ تیتر تھے، تو ضرور ہوں گے۔” جبران نے جواب دیا، لیکن اسے خود بھی کہیں تیتر نظر نہیں آئے۔ "ہو سکتا ہے تیتر خوراک کی تلاش میں اڑ چکے ہوں، اور رات کو آرام کرنے قلعۂ آذر میں واپس آئیں۔”

    فیونا نے ساحل پر پنجوں کے بل کھڑے ہو کر دوسرے جزیرے پر دیکھا، جہاں صنوبر کے درخت نظر آ رہے تھے، لیکن اس کی شاخوں پر نوکیلے پتے نہیں تھے۔”صنوبر کو کیا ہو گیا ہے، لگتا ہے اس کے پتے تیتر کھا گئے۔” یہ کہ کر وہ ہنس پڑی۔

    چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    جبران نے اس کے لطیفے پر برا منھ بنا لیا۔ فیونا اور دانیال قلعے کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے۔ قلعے کی دیواریں صدیوں سے ویسی ہی کھڑی تھیں۔ اس کے پتھروں پر مرطوب موسم کی وجہ سے کائی جم چکی تھی۔ وہ جس جزیرے پر کھڑے تھے، اس پر بھی قلعے کے آس پاس صنوبر کے درخت کھڑے تھے لیکن اس کی شاخوں پر بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ فیونا بولی "ان درختوں کو کیا ہوا ہے؟ کہیں یہ آسیب زدہ تو نہیں!” جبران نے اس کی بات دانیال کو سمجھائی تو وہ مسکرانے لگا، اس نے زمین پر اپنی نگاہ جمائی اور بولا "غالباً اس کی وجہ یہ گیلی زمین ہے۔”

    پھر وہ تینوں دوڑتے ہوئے قلعے کی دیوار کے پاس آ کر رک گئے۔ دانیال نے قلعے کے پتھروں پر ہاتھ پھیر کر کہا "یہ گرینائٹ سے بنے ہوئے ہیں، اس پر جگہ جگہ سوراخ ہیں جو غالباً کسی حملے کے نتیجے میں بنے ہیں، ایسا لگتا ہے کسی زمانے میں یہاں زبردست جنگ ہوئی ہے۔”

    فیونا اس کی ذہانت پر حیران ہو گئی، جبران نے اس سے پوچھا "کیا تمھاری ممی نے اس قلعے کی تاریخ کے حوالے سے کچھ بتایا ہے؟ ان کے خاندان میں کون کون رہتا تھا یہاں؟”

    "نہیں، دراصل ممی جب بھی اس کے متعلق کچھ کہتی ہیں تو میں ان کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ میرا خیال ہے کہ تاریخ ایک بیزار کن موضوع ہے۔” اس نے قلعے کی اونچائی کا اندازہ کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ "میرے خیال میں یہ قلعہ تین منزلہ اونچا تو ہوگا۔ دیوار میں کھڑکیاں بھی بنی ہوئی ہیں، شاید ان میں سے حملہ آوروں پر گرم تیل پھینکا جاتا رہا ہو۔” اس نے زمین کی طرف اشارہ کر کے کہا "یہ دیکھو، یہ شاید خندق تھی، جس کا اب محض نشان ہی رہ گیا ہے اور اس میں جھاڑیاں اور گھوکرو کے پودے اُگ آئے ہیں۔”

    ایسے میں دانیال نے ان کی توجہ دیوار پر بنی تصاویر کی طرف دلائی جو کہ عجیب قسم کی تھیں۔ فیونا نے ایک جگہ سے پتے ہٹا کر دیکھا۔ وہاں پتھر پر گارگوئل نامی عجیب و غریب جانور کی تصویر کندہ کی گئی تھی۔ فیونا بولی "ذرا دیکھو اسے، اس کی باہر نکلی آنکھوں اور پھولے ہوئے منھ سے ایسا لگتا ہے جیسے اب یہ چیونگم اُگل دے گا۔” جبران گارگوئل کے بارے میں جانتا تھا کہ یہ ایک عجیب الخلقت مخلوق ہے، اور اس کے سر کو پرانے چرچوں کے اوپر دیوار میں لگایا جاتا ہے۔ اس نے کہا "فیونا گھبراؤ نہیں، گارگوئل کا چہرہ ہوتا ہی بد نما ہے۔”

    وہ تینوں وہاں سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر موجود دو بڑے ستونوں کے درمیان پہنچ گئے۔ جبران نے کہا "یہاں غالباً قلعے کا دروازہ تھا۔” وہ دروازے سے گزر گئے۔ اندر انھیں ایک قسم کے سدا بہار درخت کی باڑ نظر آئی، جس کی شاخیں ایک دوسرے سے جڑی، اوپر کی طرف اٹھی ہوئی ہوتی ہیں، جیسے کوئی ہاتھ کی انگلیاں اوپر کی طرف گولائی میں پھیلائے۔ اس کے پتے ہموار اور سوئی جیسے ہوتے ہیں اور اس میں چھوٹا سرخ پھول لگتا ہے۔ جبران انھیں دیکھ کر حیرت سے چلایا "ارے یہ تو بھول بھلیاں ہے۔”

    تینوں دوڑ کر اس کی طرف گئے اور دو رویہ درختوں کے درمیان رک گئے۔ فیونا بولی "میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہاں رہنے والوں نے اپنے بچوں کے لیے یہ سدا بہار درخت لگائے تھے۔” اس نے جبران کی طرف دیکھ کر پوچھا "کیا اس کے اندر چلیں؟”

    "یہ بھول بھلیاں ہے، کہیں اس کے اندر ہم کھو نہ جائیں۔” جبران جھجکا۔

    "گھبراؤ نہیں۔” اس بار دانیال بولا "مزا آئے گا۔ ہم ایک دوسرے کے قریب قریب رہیں گے، لیکن خیال رہے کہ ان درختوں میں کانٹے بہت ہیں، کہیں خود کو زخمی نہ کروا بیٹھو۔”

    فیونا نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے، اور پھر تینوں بھول بھلیوں میں داخل ہو گئے۔ درختوں کے درمیان بنی ہوئی پگڈنڈی میں سوکھے پتے اور شاخیں بکھری پڑی تھیں۔ سدا بہار درختوں پر عشق پیچاں کی شاخوں نے چھتیں سی بنا لی تھیں۔ یہ درخت قلعے کی اندرونی دیوار کے ساتھ ساتھ دور تک اُگے ہوئے تھے اور کہیں کہیں ان کی دیوار پندرہ فٹ بلند ہو گئی تھی جن پر عشق پیچاں کی موٹی گول شاخوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ جبران نے حیرت سے پوچھا "قلعے کی دیواروں کے پاس اندر کی طرف ان درختوں کو اُگانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟”

    تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ فیونا نے جواب دیا "شاید انھوں نے باغیچے کو ہواؤں سے بچانے کے لیے یہ اُگائے ہوں۔”

    "ٹی وی پر میں نے ایک شو دیکھا تھا، ایک شخص نے یہ سدا بہار درخت جانوروں کی شکل میں تراشے تھے، شاید واقعی یہ بھی بچوں کے لیے اگائے گئے ہوں۔” جبران نے کہا۔ فیونا بولی "ایسا لگتا ہے جیسے یہاں بھوت ہوں۔ تم دونوں کا کیا خیال ہے ان باڑوں میں کسی قسم کی کوئی مخلوق ہو سکتی ہے؟”

    جبران نے جلدی سے کہا "ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں کوئی بھوت ووت نہیں۔ یہاں پرندوں کے گھونسلے یا چوہے یا پھر کوئی لومڑی ہو سکتی ہے۔”

    وہ راستے پر چلتے چلے جا رہے تھے، اس میں ذرا ذرا دیر بعد موڑ آ رہے تھے۔ وہ اس بھول بھلیاں کے اختتام پر ابھی نہیں پہنچے تھے۔ انھیں اطمینان تھا کہ اپنے قدموں کے نشانات پر وہ واپس جا سکتے ہیں۔ اچانک ان تینوں کے قدم رک گئے۔ ان کے سامنے ایک مجسمہ کھڑا تھا جس کے سامنے زمین میں کنوئیں جیسا سوراخ بنا تھا، جس پر لکڑی کا دروازہ پڑا تھا۔ جبران تیزی سے آگے بڑھا اور مجسمے سے دھول صاف کرنے لگا، یہ ماربل سے بنایا گیا تھا۔

    ” یہ کس کا مجسمہ ہے؟” فیونا بڑبڑائی۔

    "اس پر لکھا ہے کنگ رالفن۔” جبران نے اعلان کیا۔ دانیال نے پوچھا "یہ کون تھا؟”

    "پتا نہیں، شاید ان بادشاہوں میں سے ایک تھا جو اس قلعے میں رہتے تھے، اس کا چہرہ کتنا شان دار ہے۔” جبران نے جواب دیا۔ اس نے تلوار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "مجھے تو یہ تلوار بہت پسند آ گئی ہے۔”

    "مجھے یاد دلانا، اس کے بارے میں ممی سے پوچھوں گی۔” فیونا نے کہا اور سوراخ کے ٹوٹے پھوٹے دروازے پر قدم رکھ دیا۔ لکڑی کا دروازہ یکایک تڑخ کر ٹوٹا اور فیونا لڑکھڑا گئی، اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکلی۔ دانیا ل نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے واپس کھینچ لیا۔

    "اُف میرے خدا، میری تو جان ہی نکل گئی۔ شکریہ دانی۔” فیونا نے زور زور سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

    "احتیاط کرو فیونا، یہ تو کسی جگہ کے داخلے کا راستہ لگ رہا ہے۔” جبران نے فکر مندی سے کہا۔

    فیونا کے قدم رکھنے کی وجہ سے لکڑی کا ایک حصہ ٹوٹ کر نیچے گر گیا تھا، اس لیے اس میں سوراخ بن گیا۔ دانیال نے پیٹ کے بل لیٹ کر کنوئیں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ اس نے ایک پتھر اٹھا کر اندر پھینکا، پھر اس کی بازگشت سے اندازہ لگایا کہ کنواں کافی گہرا ہے۔ "اس بھول بھلیوں کے درمیان کوئی خفیہ راستہ کیوں بنایا گیا ہے؟” فیونا اس کے گرد احتیاط سے گھومی۔ "اور وہ بھی اس مجسمے کے عین سامنے۔”

    "پتا نہیں کیا مقصد تھا اس کا۔” جبران نے کہا ” میرا خیال ہے کہ اب ہمیں یہاں سے واپس جانا چاہیے، یہاں تو ہر طرف یہ لمبی باڑ ہے، جس میں بہ مشکل روشنی نیچے آتی ہے۔ راستہ تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا فیونا، اب تم ہی واپسی کا راستہ ڈھونڈتے ہوئے آگے چلو۔”

    فیونا آگے آکر آسمان کی طرف دیکھنے لگی، جہاں ان کے سروں پر بہت اوپر سدا بہار درختوں کی چوٹیاں اور ان پر مارننگ گلوری یعنی عشق پیچاں کی شاخیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ اچانک وہ بولی "ہاں سورج اس طرف ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس طرف مغرب ہے، چلو اس راستے پر چلتے ہیں۔” وہ انھیں لے کر چل پڑی۔ ذرا ہی آگے جا کر انھیں راستے میں پرندوں کے نہانے کے لیے ایک چھوٹا سا ٹب ملا۔ "ارے یہ کتنا پیارا ٹب ہے۔” وہ بولی "لیکن اس میں پانی نہیں ہے، لیکن یہ بہت خوب صورتی سے بنایا گیا ہے، چلو، مجھے یقین ہے اب جلد ہی ہم اس بھول بھلیوں سے نکل جائیں گے۔”

    فیونا کا دعویٰ درست تھا، کوئی پانچ منٹ بعد وہ تینوں باہر کھڑے تھے۔ "مزا آگیا۔” فیونا بولی "میں تو ایک بار پھر اس میں جانا چاہوں گی۔”

    "چلو باقی قلعہ بھی دیکھتے ہیں۔” دانیال بولا، اور تینوں آگے بڑھے۔ "یہاں ہر طرف مجسمے لگے ہیں، واپسی پر انھیں دیکھیں گے۔” جبران نے کہا ۔

    قلعے کے کونوں میں گول ٹاور کھڑے تھے۔ طرز تعمیر سے اندازہ ہوتا تھا جیسے اسے نارمنوں یعنی شمالی فرانس کے حملہ آوروں نے تعمیر کیا ہو۔ چلتے چلتے انھیں لکڑی کا ایک پُل نظر آ گیا جو جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ دانیال اس کے قریب چلا گیا۔ وہاں موٹی موٹی زنجیریں دیکھ کر وہ پُرخیال انداز میں بولا”اس پُل کو ان زنجیروں کے ذریعے اوپر نیچے کیا جاتا تھا، کوئی اس پر چڑھنا مت، کیوں کہ یہ بے حد خستہ ہو چکا ہے۔” وہ احتیاط سے چلتے ہوئے ایک محرابی دروازے کے عین سامنے پہنچ کر رک گئے۔ "کیا ہمیں اندر داخل ہونا چاہیے؟” جبران نے دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

    "ہاں، بلاشبہ، کیا تمھیں ڈر لگ رہا ہے؟” فیونا نے اسے چھیڑا۔ "میں نے تو سنا ہے کہ لڑکے بہادر ہوتے ہیں۔” یہ کہ کر وہ ہنس پڑی۔ محرابی دروازے کے دوسری طرف گھپ اندھیرا تھا۔ فیونا بولی "تو پہلے کون جائے گا اندر؟” یہ کہ کر وہ جبران کی طرف دیکھنے لگی۔

    "کیا مطلب…. کیا پہلے میں جاؤں اندر؟” جبران جھجکتے ہوئے بولا۔ "ہاں۔” فیونا شرارت سے مسکرا دی۔

    "تو ٹھیک ہے۔” جبران نے طویل سانس کھینچی۔ اس نے اپنی ساری ہمت جمع کی اور پھر محرابی دروازے میں قدم رکھ دیا۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے اندر داخل ہوئے۔

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    مائری سڑک پار کر کے مک ایوانز بچر شاپ کی طرف جانا چاہتی تھیں کہ اچانک ان کے سامنے ایک بس آکر رک گئی۔ بس کے پائیدان سے ایک وجیہ صورت آدمی اچھل کر ان کے سامنے آ رُکا۔

    "ذرا سنیے خاتون، کیا مجھے کسی ایسے شخص کا پتا دے سکتی ہیں جو مجھے بتائے کہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے بہترین جگہ کون سی ہے؟”

    مائری نے اس کی طرف دیکھا، اور سوچا کہ کیا اسے واقعی کسی شخص کی تلاش ہے۔ مائری نے کہا "میں آپ کو ایک ایسے شخص کا نمبر دے سکتی ہوں جو پڑوسی قصبے میں رہتا ہے، آپ حیران ہوں گے لیکن بلال احمد کو گیل ٹے کے باسیوں سے بھی زیادہ یہاں کے ماہی گیری پوائنٹس کے بارے میں معلومات ہیں۔ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، وہ پاکستانی نژاد ہے، فارغ اوقات میں اس کا بہترین مشغلہ یہاں مچھلیوں کا شکار ہے۔”

    "شکریہ خاتون، میرا نام جونی تھامسن ہے، میں لندن سے آیا ہوں، اور آپ ؟” اجنبی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے پوچھا۔

    "میں مائری مک ایلسٹر ہوں۔”

    "معلوم ہوتا ہے آپ مسٹر بلال کو کافی عرصے سے جانتی ہیں۔”

    "جی ہاں، ہم ایک عرصے سے ایک ہی آفس میں کام کر رہے ہیں۔” مائری نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بلال کا نمبر اور گھر کا پتا لکھ کر انھیں دے دیا۔ "ان سے کہنا مائری نے بھیجا ہے، کیا آپ یہاں زیادہ دن رہیں گے؟” مائری نے روانی میں پوچھا لیکن پھر حیران ہو گئیں، کہ اس نے یہ بات کیوں پوچھی۔

    جونی تھامسن نے کہا "میرے بھائی جمی آئندہ ایک دو دن میں مجھ سے ملیں گے، ہم یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارا قیام طویل ہو جائے، مجھے امید ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔”

    اسی وقت بس کے ڈرائیور نے سیٹی بجا کر انھیں متوجہ کر دیا، تو وہ مائری سے رخصت ہو کر چلا گیا۔ مائری حیرت سے اس کے متعلق سوچنے لگیں، انھوں نے کئی برسوں سے یہاں اس جیسا وجیہ شخص نہیں دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ مائری نے سر جھٹک کر سڑک پار کیا اور دکان کی طرف بڑھنے لگیں۔

    جاری ہے……

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشمتل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "افوہ مما … ایک تو یہاں ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے۔” فیونا نے ممی سے شکایت کی، جیسے وہ اس کا کوئی حل نکال لیں گی۔ "مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پورے سال ایک بھی پورا دن ہم نے خشک دیکھا ہو۔”

    فیونا کی مما مائری مک ایلسٹر کھڑی کے شیشے کے پار دیکھنے لگیں۔ وہ دونوں مک ڈونی کے چائے خانے، جس کی پیشانی پر ٹی روم کا بورڈ آویزاں تھا، میں بیٹھی تھیں۔ چائے خانے کے باہر آس پاس سبزہ نظر آ رہا تھا، یہ سر سبز منظر نگاہوں کو بے حد بھلا محسوس ہوتا تھا۔ مائری نے طویل سانس کھینچ کر کہا۔ "فیونا، تمھیں یہ جگہ پسند ہے تو پھر اس طرح کی شکایتیں کیوں کرتی رہتی ہو۔ان گلابی پھولوں والی سدا بہار جھاڑیوں کو تم کہیں اور دیکھ سکو گی کیا؟” فیونا کی مما نے کرسی سے باقاعدہ اٹھ کر گلی میں ایک طرف روندراں کی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا تھا، جس میں گلابی رنگ کے بڑے بڑے پھول کھلے تھے۔

    "اوہ مما پلیز، بیٹھ جائیں، ویٹرس چائے لا رہی ہے۔” فیونا نے قدرے غصے سے کہا، اسے ممی کا اس طرح اٹھ کر جھاڑی کی طرف اشارہ کرنا عجیب لگا۔ مائری بیٹھ گئیں۔ ویٹرس نے انگلش چائے کی دو پیالیاں میز پر رکھ دیں جن سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

    "شکریہ فلورا” فیونا نے ویٹرس کا خوش دلی سے شکریہ ادا کیا اور ممی کی طرف دیکھ کر بیزاری سے کہنے لگی۔ "وہ تو ٹھیک ہے، پر ممی، میں بے حد بور ہو جاتی ہوں۔ ہر وقت بارش…بارش…کوئی بھی کام نہیں ہو پاتا۔”

    فیونا نے چائے کا گھونٹ بھرااور مکھن لگے کیک Scone سے ایک ٹکڑا کاٹ کر منھ میں رکھا۔ کیک کا ٹکڑا لینے کے بعد اس نے مک ڈونی کا اپنا تیار کردہ نارنگی کے مربے کے ڈبا اپنی طرف کھسکایا۔

    مائری نے نیپکن سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ "جیسا ذائقہ اس مربے اور سکون کا ہے، ویسا تمھیں کسی بڑے شہر میں بھی نہیں ملے گا۔ میری بھی ساری زندگی یہاں گیل ٹے سے زیادہ دور نہیں گزری، اور دیکھو ہشاش بشاش ہوں، تم بھی یہاں خوش رہو گی۔”

    فیونا نے شیشے کے پار آسمان پر پھیلے ہوئے بادلوں کو دیکھا، جن سے مسلسل بارش کے موٹے موٹے قطرے برس رہے تھے اور ان میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی۔ اس نے کہا "مجھے غلط مت سمجھیں ممی، گیل ٹے میں رہنا مجھے بھی پسند ہے، لیکن اتنی چھوٹی سی جگہ میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں، اگر میں کسی بڑے شہر میں رہوں گی تو نئے لوگوں سے ملاقات ہوگی۔” فیونا نے کیک سے ایک اور ٹکڑا لیا اور بولنے لگی "اپنے ارد گرد دیکھو نا، یہاں ہم دونوں ہی ہیں، کوئی تیسرا شخص ہمارے ساتھ نہیں، میں بیزار ہو جاتی ہوں مما۔”

    اسی وقت چائے خانے کے دروازے کے سامنے ایک خاتون رُکی، جس کا چہرہ سیاہ چھتری میں چھپا ہوا تھا۔ چھتری تہ ہو گئی تو مائری نے اسے پہچان لیا۔ نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔

    "فیونا، آپ کو میری طرف سے گڈ ڈے اور آپ کو بھی مائری۔” انھوں نے آتے ہی کہا۔ "اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟”

    "کیوں نہیں۔” مائری نے مسکرا کر کہا اور میز کے اندر سے تیسری کرسی کھینچ کر نکال لی۔نیلی نے چھتری میز کے سہارے ٹکا دی اور برساتی اتار کر کرسی کی پشت پر ڈال دی۔کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے گرما گرم چائے اور چھوٹی ڈبل روٹی کا آرڈر دے دیا۔ چائے آئی تو نیلی نے فیونا کی طرف جھک کر کہا۔ "یہاں کی چھوٹی ڈبل روٹی اچھی ہے لیکن اتنی بھی نہیں جیسا کہ میں بناتی ہوں۔” فیونا ہنس پڑی۔”میں جانتی ہوں۔”

    نیلی نے ڈبل روٹی کھاتے ہوئے پوچھا "آج کل کیسا محسوس ہو رہا ہے فیونا؟” اس سے پہلے کہ فیونا جواب دیتی، مائری نے مداخلت کر دی۔ "فیونا یہاں کی مسلسل بارش سے تنگ آ چکی ہے اور اب سوچ رہی ہے کہ کسی بڑے شہر میں جا کر رہا جائے۔”

    نیلی نے چونک کر کہا "ہاں، ہم نے بھی وقتاً فوقتاً ایسا ہی محسوس کیا ہے لیکن پھر وقت گزر ہی گیا، میں بہت سفر کر چکی ہوں اور ہر مرتبہ جب یہاں گیل ٹے لوٹ آئی تو بے انتہا مسرت ملی۔” یہ سن کر فیونا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "آپ بہت سفر کر چکی ہیں، کیا آپ افریقا یا آسٹریلیا یا امریکا بھی گئی ہیں؟”

    نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ بتانے لگیں "افسوس میں ان ممالک کے سفر پر کبھی نہیں جا سکی، دراصل میں اسکول ٹیچر تھی اس لیے زیادہ سفر نہ کر سکی لیکن پھر میرے پیارے شوہر گیون کی وفات کے بعد میں نے بہت سفر کیے۔ میں برطانیہ کا زیادہ تر حصہ دیکھ چکی ہوں، حتیٰ کہ آئرلینڈ بھی جا چکی ہوں لیکن افریقا نہیں جا سکی۔ اس زمین کے سب سے دور کے گاؤں کارن وال اپنی بہن پینی لوپ سے کئی مرتبہ ملنے گئی ہوں، لیکن ہاں فیونا، آپ کے نانا نانی نے ان علاقوں کا سفر کیا تھا۔” یہ کہ کر انھوں نے مائری کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر اداسی کے سائے پھیل گئے تھے۔ وہ جلدی سے بولیں "معذرت خواہ ہوں، میں نے آپ کے والدین کا ذکر کر دیا ہے، میں جانتی ہوں کہ ایان اور ہیتھر کی کشتی کے اندوہ ناک حادثے میں موت آپ کے لیے بے انتہا دکھ کا باعث ہے۔”

    "کوئی بات نہیں نیلی، اب تو انھیں گزرے بہت وقت ہو چکا ہے، انھیں سفر بہت پسند تھا، ممی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ان کا پسندیدہ مقام مصر ہے، جب کہ ڈیڈ کہا کرتے تھے کہ انھیں جنوبی افریقا پسند ہے۔”

    اگلے ایک گھنٹے تک نیلی اور مائری گفتگو کرتے رہے، انھوں نے دنیا کے ہر موضوع پر باتیں کیں، یہاں تک کہ فیونا بے زار ہو گئی۔ اس کے والد کا انتقال پانچ برس قبل ایک حادثے میں ہوا تھا، اس نے اچانک ممی کو مخاطب کیا۔ "مما، آپ کے دیگر سارے رشتے دار کہاں ہیں؟ نانا نانی کے انتقال کا تو مجھے پتا ہے لیکن آپ کے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہاں تو ہر رشتے دار کا تعلق ڈیڈ ہی سے ہے۔ آخر آپ کے کزنز کے ساتھ میری ملاقات کب ہوگی؟”

    "ہو جائے گی کسی دن۔” مائری نے چائے کا آخری گھونٹ بھر کر کہا جو بالکل ٹھنڈی پڑ چکی تھی، لیکن انھیں ٹھنڈی چائے ہی پسند تھی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ فیونا یہاں بیٹھے بیٹھے بے زار ہو چکی ہے، اس لیے بولیں۔ "میرا خیال ہے بارش رک چکی ہے۔” انھوں نے اٹھ کر باہر جھانک کر دیکھا تو بارش واقعی رک چکی تھی۔ مائری نے بل ادا کیا اور نیلی کو خدا حافظ کہہ کر فیونا کے ساتھ باہر نکل گئیں۔

    "دیکھو فضا کتنی مہک اٹھی ہے، دور دور سے سیاح یہاں آکر ہماری جھیلوں اور دریا میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، پھولوں سے ڈھکے پہاڑوں کی سیر کرتے ہیں۔” یہ کہ کر مائری نے گہری سانس لی، اور اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے کی مہکی ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں بھرا، جو اسکاٹش ہائی لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ انھوں نے کہا ” ذرا دریائے ٹے کو دیکھو، ٹراؤٹ مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے، اور سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دریا میں موتی تیر رہے ہیں، اور ذرا یاد کرو، تم کتنی مرتبہ جھیل لوچ ڈرول میں تیراکی کر چکی ہو، اور نہ جانے کتنی مرتبہ تم وہاں مچھلیاں بھی پکڑنے جا چکی ہو۔ یہ سب کیا ہے، محض اس لیے کہ تمھیں یہ سب پسند ہے، تمھیں یہاں رہنا پسند ہے۔”

    وہ دونوں اس وقت ڈینڈ لون پُل پر کھڑے نیچے دریائے ٹے کے بہتے پانی کو دیکھ رہے تھے۔ مائری پھر بولنے لگیں” اس پُل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات سو سال سے قائم ہے، یہ پُل اس وقت بنایا گیا تھا جب قلعہ آذرکی تعمیر عمل میں آئی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ یہ روایت درست نہیں، یہ پل اتنا قدیم نہیں ہو سکتا۔”

    فیونا نے پُل کی قدامت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا اور بولی "میں تو اتنا جانتی ہوں کہ جو حسن یہاں ہے وہ کہیں اور نہیں۔” اس نے دور نظر آنے والی جھیل لوچ نس پر نظر ڈالی، چھوٹے جزیروں نے اس کے آبنوی پانی پر جگہ جگہ دھبے ڈال دیے تھے۔ یہ جزیرے شاہ بلوط، برچ، صنوبر اور سفیدے سے ڈھکے ہوئے تھے، رنگوں کی ایک بہار جوبن پر تھی۔

    "فیونا، ذرا ان پرندوں کی طرف دیکھو، کیا تم نے اس جیسی نغمگی سنی ہے؟” مائری پرندوں کی بولیوں میں گم سی ہو گئی تھیں۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا "گھبراؤ نہیں ماں، میں بھی مانتی ہوں کہ گیل ٹے رہنے کے لیے سب سے بہترین جگہ ہے۔” دونوں ماں بیٹی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دریائے ٹے کے کنارے چلتے چلے جا رہے تھے۔ فیونا نے دور ایک بڑے سے جزیرے پر قدیم کھنڈرات پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا "ممی ، کیا آپ قلعہ آذر کبھی گئی ہیں؟”

    "پتا ہے اس جزیرے پر موجود گاؤں سکارا برے تقریباً چھ ہزار سال پرانا ہے۔” ممی بتانے لگیں "قلعہ آذر میں پتا نہیں ایسی کیا بات ہے کہ میں اس کے اندر قدم رکھنے سے گھبراتی ہوں۔ یہ سوچ کر ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں جب سے یہاں ہوں، وہاں کبھی نہیں گئی اور میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم وہاں جاؤ، وہ ایک پراسرار جگہ ہے، اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔”

    فیونا نے اس پر کچھ نہیں کہا، لیکن چند لمحوں بعد اچانک بولی۔ "ممی، میرے چند دوست آنے والے ہیں ابھی، میں آپ کو بتانا بھول گئی تھی۔ جبران پاکستانی نژاد ہے، پڑوسی گاؤں میں اپنے ممی پاپا کے ساتھ رہتا ہے، اس کا ایک کزن پاکستان سے وزٹ پر آیا ہے، میں نے ان کو گھر پر آنے کی دعوت دے دی ہے۔”

    "یہ تو تم نے بہت اچھا کیا ہے فیونا، بہت اچھی بات ہے، تمھیں یہاں نئے دوست مل گئے ہیں۔ مائری نے خوش ہو کر کہا تو فیونا بولی "ممی کیا آپ مہمانوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر سکتی ہیں؟”مائری نے مسکرا کر کہا "کیوں نہیں، راستے میں مک ایوانز بچر کی دکان سے کچھ چیزیں لے لیتے ہیں۔”

    "لیکن ممی، وہ آنے ہی والے ہوں گے، میں گھر چلی جاتی ہوں، آپ خریداری کر کے آئیں۔” فیونا نے ممی کا ہاتھ پیار سے سہلاتے ہوئے کہا۔ ممی نے کہا "ٹھیک ہے بھئی، ایسا ہی کرتی ہوں۔” فیونا نے ممی سے اجازت لی اور تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑی۔

    جاری ہے …..