Tag: رفیع اللہ میاں ناول
-
ایک سو چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
شیطان جادوگر پہلان نے اپنے ہی بد تمیز چیلے ڈریٹن کو جادو کے ذریعے سخت اذیت میں مبتلا کر کے چھوڑ دیا تھا، جس میں رات بھر تکلیف سے دوچار رہا۔ آخر کار طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ڈریٹن کو اس اذیت سے رہائی مل گئی۔ وہ فرش پر دیر تک لیٹا بازو اور ٹانگیں رگڑتا رہا جن میں درد کا احساس ابھی بھی زندہ تھا۔ اس نے خوشی محسوس کی کہ رات ختم ہو گئی ہے لیکن اس کے جسم کا ہر حصہ درد سے تاحال کانپ رہا تھا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور قلعہ آذر کے محراب والے دروازے کی طرف چل دیا۔ اسی لمحے جادوگر پہلان نمودار ہوا اور زخموں پر نمک چھڑکنے لگا: ’’کیا تم رات بھر ٹھیک سے سوئے؟ سہانے خواب تو دیکھے ہوں گے؟ نہیں؟ اوہ تو کیا تم اب میری اطاعت کرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘
اگرچہ ڈریٹن کو پہلان پر شدید غصہ آ رہا تھا، جس نے اسے رات بھر تکلیف برداشت کرنے پر مجبور کر دیا تھا، لیکن اس نے طابع داری دکھائی اور سر ہلاتے ہوئے جزیرے کے ساحل پر چلا گیا، جھیل پر پہنچ کر اسے یاد آیا کہ کشتی تو نہیں رہی، اس نے سوچا کہ شکایت کرنا فضول ہے، اس لیے وہ قلعے میں واپس جا کر سرنگ کے ذریعے باہر نکلا۔ سورج کی گرم شعاعیں اسے اپنے درد کرتے بدن پر اچھی محسوس ہوئیں، وہ چلتے چلتے درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر انکل اینگس کے گھر کا جائزہ لینے لگا۔ اس نے ان سب کو کیمپنگ پر جانے کے لیے تیاریاں کرتے اور باتیں کرتے دیکھا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ اینگس باہر آیا اور اس کے پاس جادوئی گیند اور قدیم کتابیں تھیں۔ وہ گاڑی میں نکلنے والے تھے اور ڈریٹن کو ان کا تعاقب کرنا تھا اور اس کے لیے کوئی ذریعہ تلاش کرنا تھا۔ اس لیے وہ شہر کی طرف بھاگا اور وہاں ایک پنساری کی دکان تک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک شہری نے گاڑی روکی، اور ڈریٹن کی خوش قسمتی کہ چابیاں بھی انگنیشن ہی میں چھوڑ دیں اور دکان کے اندر چلا گیا۔ ڈریٹن نے دیر نہ لگائی اور گاڑی میں گھس کر اسٹارٹ کی اور چل دیا۔ دوبارہ اینگس کے گھر پر پہنچ کر اس نے گاڑی کو درختوں کے جھنڈ میں لے جا کر چھپا دیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب وہ روانہ ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے بلی میکفی، جس کی اس نے کار چرائی تھی، اپنی گاڑی غائب دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے واپس پنساری کی دکان میں جا کر پولیس کو کار غائب ہونے کی اطلاع دی۔ ڈریٹن کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، وہ جلد ہی ایک قافلے کی صورت پہاڑوں کی طرف روانہ ہو گئے اور ان کے پیچھے ڈریٹن بھی۔
-
ایک سو تریانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جیک نئے مہمان کو جسے اس نے ایڈوی کہہ کر پکارا تھا، اینگس کے گھر کے اندر لے آیا۔ جمی نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا ’’طویل عرصے بعد تمھیں دیکھ کر خوشی ہوئی جولین۔‘‘
ایڈوی چونک اٹھا: ’’جولین … کیا مطلب، میں تو ایڈوی ہوں۔‘‘
’’ہاں لیکن یہ ایک الگ دنیا ہے، یہاں ایڈوی بہت عجیب لگتا ہے، اس لیے آج کے بعد سے تمھارا نام جولین ہوگا۔‘‘ جمی نے مسکرا کر کہا اور بتایا کہ ان کے نام بھی انھوں نے تبدیل کیے ہیں۔ ساتھ ہی میں اس نے اب تک گزرے واقعات کا خلاصہ بھی بیان کر دیا تاکہ جولین صورت حال سے آگاہ رہے۔ نئے مہمان نے جونی اور جیزے سے متعلق دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ دونوں فیونا اور اس کی ماں مائری کے ساتھ گئے ہیں۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ جولین کو باغبانی کا شوق رہا تھا، جس پر اینگس نے کہا کہ مائری یہ سن کر خوش ہوں گی کیوں کہ انھیں قلعہ آذر میں ان کی بہت ضرورت پڑے گی۔تب جولین کے چہرے پر اچانک پریشانی کے آثار نمودار ہوئے، اس نے کہا: ’’میں مائری سے اپنی ملاقات کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں، یہ سب بہت دل چسپ ہے، لیکن مجھے آپ کو خبردار کرنا چاہیے کہ محل میں کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ میں بھی باقی افراد کی طرح ٹائم پورٹل کے ذریعے یہاں آیا ہوں۔ لیکن جیسے ہی میں محل سے باہر نکلا میں نے وہاں دھوبن بد روحوں کو دیکھا جو قلعے کے اندر جا رہی تھیں۔ وہاں اور قسم کی بد روحیں بھی تھیں، یہ سب غیر معمولی تھا، کیوں کہ وہ سب کے سب ایک ہی کام کر رہی تھیں، یعنی قلعے میں جوش و خروش سے داخل ہو رہی تھیں۔‘‘
جیفرے نے گرم چائے پیالی میں انڈیلتے ہوئے سوال کیا کہ جادوگر پہلان اور ڈریٹن اس وقت کیا کر رہے ہوں گے؟ ان کی طرف سے پریشانی لاحق رہتی ہے۔ جمی نے کہا کہ اس وقت پریشان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، سب کو اچھی سی نیند کر لینی چاہیے کیوں کہ اگلے دن فیونا اور اس کے دوستوں کے ساتھ کیمپنگ کرنے جانا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ کل کا دن بہت تھکا دینے والا ثابت ہو۔
جب وہ سب سو گئے تو انکل اینگس نے زیلیا کی زبان میں لکھی گئی کتاب اٹھا لی اور آتش دان کے سامنے بیٹھ کر ورق گردانی کرنے لگے۔ کتاب میں کچھ علامتیں تھیں جن پر انھوں نے انگلیاں پھیر کر خود کلامی کی: ’’کاش میں سمجھ سکتا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔‘‘ پھر وہ کتاب پڑھتے پڑھتے کب نیند کی وادی میں کھو گئے، انھیں پتا بھی نہیں چلا۔
۔۔۔۔۔۔اگلے دن ناشتے کے بعد دونوں قدیم انسان یعنی جونی اور جیزے، فیونا اور اس کی ممی کے ساتھ انکل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا اور مائری کیمپنگ ٹرپ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جب وہ اینگس کے گھر پر پہنچے تو وہ سب تیار کھڑے تھے، تہہ ہونے والے خیمے تیار تھے۔ تمام انتظامات بھی مکمل تھے، ایک بڑی گاڑی کا اہتمام پہلے ہی سے ہو چکا تھا، جس میں انھوں نے تمام سامان رکھا۔ اس دوران فیونا اور مائری کا جولین کے ساتھ تعارف ہو گیا۔ جیک کو دیکھتے ہی جولین چہکا: ’’آلروئے، آپ کو دیکھ کر اچھا لگا۔ بہت لمبا عرصہ ہو گیا ہے۔‘‘ اور وہ ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اینگس نے فیونا نے اس کے دوستوں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کیوں نہیں آئے، تو فیونا نے بتایا کہ دونوں کسی اور کام میں مصروف تھے۔ اس کے بعد وہ خوب صورت پہاڑی علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔
(جاری ہے ۔۔۔)
-
ایک سو بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’ہاں، تم سب فوری طور پر قلعہ آذر پہنچو، میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دھواں دھواں سا ہاتھ ہلایا اور بد روحیں قلعے کی طرف اڑ گئیں۔ پہلان جادوگر جنگل میں آگے کی طرف چلا گیا اور وہاں بے سدھ سوئے ہوئے ڈریٹن کے اوپر منڈلانے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’سوتے رہو بچے، جب میں تمھاری طرف متوجہ ہوں گا تب تم کئی راتوں کو سو نہیں پاؤ گے، تمھاری ہمت کیسے ہوئے میرا سونا چرانے کی۔‘‘شیطان جادوگر برفیلی ہوا کے جھونکے میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔ عین اسی لمحے ڈریٹن جاگ گیا۔ اسے حیرت ہوئی اور اس نے اپنے بازو رگڑے۔ اسے اچانک ٹھنڈ لگ گئی تھی۔ اسے لگا کہ قلعے میں واپس جانا چاہیے، چناں چہ وہ اٹھا اور چھپائے ہوئے سونے کو وہاں چھوڑ قلعے کی طرف چل پڑا۔
جب پہلان قلعے میں پہنچا تو تمام قسم کی بدروحیں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ان میں خنزیر کے سر اور سرخ ٹوپیوں والی بد روحیں، جھیل کے پانی ایسی اور ایک نتھنے والی ’بین نی یے‘ نامی مادہ دھوبن بد روحیں اور پرندوں کی طرح جھنڈ میں آنے والی بد روحیں شامل تھیں۔ پہلان کے پہنچتے ہی سب بد روحیں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ روفریر نے پوچھا: ’’آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ماسٹر؟‘‘
پہلان انھیں اپنے ساتھ لے کر سیڑھیاں اترتے ایک دروازے پر رک گیا۔ سب اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئیں۔ وہاں پہنچ کر پہلان نے کہا: ’’اس کمرے میں ایک ٹائم پورٹل ہے۔ کچھ لوگ اس سے گزر کر ماضی سے حال میں آ رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کمرے سے جو بھی شخص نکلنے کی کوشش کرے، تم لوگ اسے روکو۔‘‘ روفریر کو بہت عجیب لگا، اس نے اپنی انگارے ایسی چمکتی آنکھوں سے کمرے میں گھوم کر دیکھا اور کہا: ’’تو آپ ہم سے بس یہی چاہتے ہیں کہ ہم اس دروازے کی چوکیداری کریں اور کسی کو اس سے نکلنے نہ دیں۔ اور اس کے لیے آپ نے جھیل کے پانیوں سے یک نتھنی بد روحوں، جنگلوں سے لال ٹوپی والی بد روحوں اور مغرب کی طرف سے جھپٹنے والی ہم پرندوں ایسی بد روحوں کو بلا لیا ہے۔‘‘
پہلان نے تیز لہجے میں کہا: ’’یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جو آدمی پورٹل کے ذریعے ادھر آ رہے ہیں، وہ کنگ کیگان کے زمانے سے آ رہے ہیں۔ وہ ایک مقصد سے یہاں آ رہے ہیں اور تم نے انھیں ہر قیمت پر یہاں روکے رکھنا ہے۔ یاد رکھنا تمھیں جو کرنا ہے وہ کرو لیکن ان میں سے کسی کو جان سے مارو گے نہیں۔‘‘ روفریر نے کہا ٹھیک ہے ماسٹر، اگرچہ کام آسان ہے لیکن آپ کے انعامات پرکشش ہیں، تو ہم خوشی سے یہ کام کریں گے۔ لیکن اچانک اس نے پوچھا: ’’ماسٹر وہ ٹائم پورٹل ہے کہاں، مجھے تو یہاں دکھائی نہیں دیتا، نہ ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘
پہلان نے فرش سے ایک کنکر اٹھایا اور کمرے کے بیچ میں پھینک دیا۔ وہاں ایک مستطیل نما، بجلی کی چمک والی لکیروں جیسا دروازہ ایک لمحے کے لیے نمودار ہوا، پہلان نے کہا کہ یہی ہے پورٹل۔
روفریر سے رہا نہیں گیا تو پھر سوال داغ دیا: ’’اچھا کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ پورٹل کے ذریعے آنے کی کوشش کرنے والے ان آدمیوں سے کیوں ڈر رہے ہیں؟‘‘پہلان نے گہری سانس لی، وہ سب کچھ نہیں بتا سکتا تھا لیکن کچھ تو بتانا تھا، اس نے کہا: ’’میں اس کی کوئی خاص وضاحت نہیں کر سکتا، ہاں ان میں سے ایک ایسا ہے جسے زیلیا کی زبان آتی ہے، اور انسانوں کے پاس میرے وطن کی ایک کتاب موجود ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ماضی سے آنے والا وہ آدمی یہ کتاب ترجمہ کر لے۔ اس لیے مجھے ان سب کو روکنا ہے۔‘‘
ایسے میں فوفیم نے کہا: ’’ماسٹر پہلان، یہاں اس چھوٹے سے کمرے میں میرے لوگ ان تمام دیگر بد روحوں کے ساتھ بے چینی محسوس کر رہے ہیں، ہم اس دروازے کی اکیلے حفاظت کر سکتے ہیں۔‘‘ لیکن پہلان نے سختی سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم سب نے یہیں مل کر یہ کام انجام دینا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرنا ہے، اور وہ کسی بھی قسم کی گڑبڑ برداشت نہیں کرے گا۔ اگر تم ناکام ہوگے تو پھر تمھاری سزا بھی اتنی ہی بری ہوگی، جتنا انعام اچھا ہوگا۔ یہ کہہ کر پہلان انھیں اسی کمرے میں چھوڑ کر نکل گیا۔
جب وہ قلعے کے مرکزی ہال میں پہنچا تو اسے ڈریٹن محراب والے دروازے سے اندر داخل ہوتا نظر آیا، اس نے دل میں کہا بچے، اب میں تمھارا مسئلہ بھی حل کرتا ہوں۔ ڈریٹن اپنے سلیپنگ بیگ پر لیٹ گیا تھا لیکن جیسے ہی اس نے پہلان کی شکل اپنے سامنے آتی دیکھی فواً پھر اٹھ بیٹھا اور تیز لہجے میں شکایت کی: ’’پہلان، تم نے میری کشتی اور میرا سارا سونا ڈبو دیا۔ کیوں؟‘‘
پہلان نے کہا: ’’وہ خزانہ، سونا اور جواہرات تمھارا نہیں ہے۔ یہ سب اسی محل میں رہے گا، جب میں جادوئی گیند واپس حاصل کروں گا اور اپنے بدن میں اسی طرح واپس آ جاؤں گا جیسا کہ پہلے تھا، تو مجھے فوجیں خریدنے کے لیے خزانے کی ضرورت ہوگی۔ اب وہ خزانہ جھیل کے نیچے محفوظ ہے، میں جب چاہوں گا میں اسے نکال لوں گا۔‘‘
ڈریٹن نے اٹھ کر چیختے ہوئے کہا: ’’تو کیا تم مجھے اس میں سے کچھ نہیں دوگے؟ میں یہاں تمھارے کہنے پر سخت محنت کر رہا ہوں اور مجھے کچھ نہیں مل رہا، یہاں تک کہ سونے کے لیے ایک بستر بھی نہیں، تو مجھے میرا حصہ کب ملے گا؟ اس میں سے کچھ سونا میرا بھی ہے۔‘‘
جادوگر پہلان نے کہا: ’’تم نے مجھ پر چلانے کی ہمت کیسے کی۔ تمھیں سونا چاہیے اور سونے کے لیے بستر بھی چاہیے، تو لو ابھی بستر دے دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے بازو اٹھائے، اور اگلے لمحے ڈریٹن کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈل گئی تھیں۔ زنجیروں اطراف میں کھنچنے لگیں اور ڈریٹن کے بازو اور ٹانگیں اطراف میں پھیل گئیں۔ ڈریٹن تکلیف سے چلایا: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو احمق جادوگر، تمھیں میری ضرورت ہے، میرے بغیر جادوئی گیند کیسے حاصل کرو گے؟ مجھے جانے دو احمق!‘‘
جادوگر یہ سن کر ہنس پڑا: ’’ہاں مجھے تمھاری ضرورت ہے لیکن میں تمھارے ساتھ کچھ دیر کے لیے ایسا ضرور کر سکتا ہوں۔‘‘
ڈریٹن اب ذرا بھی حرکت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا، بازور اور ٹانگیں بری طرح مخالف سمتوں میں کھینچے جانے کی وجہ سے اس کے پٹھوں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ پھر اس کی نگاہ آدھ انچ لمبی پر پھڑپھڑاتی مخلوق پر پڑی، جن کی آنکھیں سبز چمک دار اور جسم سیاہ کوئلے کی طرح تھا، اور دم کی طرف ایک تیز سوئی جیسی نکلی ہوئی تھی۔ ڈریٹن نے بے اختیار پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ جادوگر پہلان نے بتایا کہ انھیں ریت کا کیڑا کہتے ہیں اور ان کا تعلق تمھارے ہی آبا و اجداد کی سرزمین ہیڈرومیٹم سے ہے، رولفن اور اس کے بھائی بارتولف کے زمانے میں اس مخلوق نے انسانوں کو بہت اذیت دی تھی۔ ان کا ڈنک بہت خطرناک ہوتا ہے، لیکن ڈنک لگنے کے بعد بھی تم مرو گے نہیں۔ یہ کوئی زہر نہیں ہے بلکہ سوئی کی طرح تیز درد ہوگا۔ پہلان نے کہا: ’’تم نے ٹھیک کہا کہ مجھے تمھاری ضرورت ہے لیکن اب تمھیں سبق سکھانا بھی ضروری ہو گیا ہے، میں نے تمھیں بہت برداشت کر لیا ہے، اس لیے اب درد کے اس بستر سے مزے لو۔‘‘ریت کے کیڑے نے ڈریٹن کے پاؤں پر ایک ڈنک مارا اور اس کی چیخ سے قلعہ گونج اٹھا، اور یکے بعد دیگرے کیڑے اسے کاٹنے لگے اور اس کی چیخوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھیے
وہ تینوں نے ہوبارٹ سے مخصوص منتر پڑھ کر اینگس کے گھر واپس آ گئے تھے۔ ادھر مائری نہیں آئیں تو جونی ان کی تلاش میں ان کے گھر پہنچ گیا لیکن گھر خالی پڑا ہوا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں واپس اینگس کے گھر چلنے لگا تو راستے ہی میں پائی کے ٹکڑے بکھرے دیکھے۔ اسے خدشہ ہوا کہ مائری کسی خطرے میں ہے، چناں چہ اس بار وہ دوڑتا ہوا اینگس کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ فیونا اور اس کے دونوں دوست واپس آ چکے ہیں اور چائی پی رہے ہیں۔ فیونا اسے دیکھتے ہی بول اٹھی: ’’ممی کہاں ہے؟‘‘جونی کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’مائری کہیں نہیں مل رہیں، وہ لاپتا ہو گئی ہیں۔‘‘ وہاں موجود سبھی افراد اچھل پڑے، اور ہر ایک کے منھ سے حیرت اور تشویش بھرے الفاظ نکلے۔ جونی نے انھیں پائی کا ٹوٹا ہوا ڈبا دکھایا اور بتایا کہ اس کے سوا مائری کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ فیونا کے منھ سے نکلا: ’’یہ ضرور ڈریٹن کی کارستانی ہے۔‘‘
اینگس نے اچانک مداخلت کی: ’’میرا خیال ہے کہ پہلے اس قیمتی پتھر کو جادوئی گیند میں پہنچایا جائے، کیوں کہ اگر یہ کہیں کھو گیا تو بڑی مصیبت ہو جائے گی۔‘‘ انھوں نے فیونا کے ہاتھ سے پکھراج لے لیا اور جادوئی گیند میں اس کی مخصوص جگہ میں رکھ دیا۔ قیمتی پتھر جیسے ہی اپنی مخصوص جگہ پر پہنچ گیا، اس کی چمک نے سب کی آنکھیں خیرہ کر دیں۔ گھر کی دیواروں پر جواہرات کی روشنی جھلملانے لگی۔ اینگس نے کہا کہ اب قدیم دور کے ہمارے ایک اور مہمان کو ہم تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ قصبے میں اندھیرا پھیلنے لگا تھا، وہ سب مائری کی تلاش میں نکل گئے تاہم اینگس اور جیفرے جادوئی گولے کے پاس ہی رہے۔ قصبے کے مشہور مقامات کا چکر لگانے کے بعد جب انھیں مائری کا سراغ نہیں ملا تو فیونا نے کہا اب محل جانا چاہیے، اور وہ محل کی طرف چل پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔ڈریٹن کشتی کھیتا ہوا جھیل کے وسط میں کھڑا ہو گیا۔ مائری ایک طرف خاموش بیٹھی ہوئی، ساحل کی طرف دیکھ رہی تھیں، اور سوچ رہی تھیں کہ وہ سب انھیں ڈھونڈنے ضرور آئیں گے۔ جھیل کے وسط میں کشتی روکنے پر مائری نے ڈرتے ہوئے پوچھا: ’’کیا تم مجھے جھیل میں پھینکنا چاہتے ہو؟‘‘ وہ شعلہ بار نگاہوں سے مائری کو دیکھنے لگا لیکن مائری نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا: ’’تم بہت بے رحم ہو، لیکن میں تمھیں بتاؤں کہ تم اس جادوگر کی کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں ہو۔ تمھیں دیکھ کر مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم ایک ہی ورثے کے شراکت دار ہیں۔‘‘
ڈریٹن نے کشتی کے دونوں اطراف میں ٹانگیں پھیلا کر پاگلوں کی طرح کشتی کو زور زور سے ہلانا شروع کر دیا۔ پانی کی چھینٹیں مائری کو بھگونے لگیں۔ وہ چیخ پڑیں: ’’تم کیا کر رہو ہو احمق … کشتی ڈبو دو گے تم۔‘‘ مائری کو خوف زدہ کرنے کے لیے وہ اسے اور زور سے ہلانے لگا اور پھر چلایا: ’’خاموش رہو عورت۔ تم میری کوئی رشتہ دار نہیں ہو۔ مجھے کنگ دوگان سے اچھے جین وراثت میں ملے ہیں، جب کہ تمھیں ان قابل رحم شہزادیوں سے کچرا ملا ہے۔‘‘ ڈریٹن نے کشتی ہلانا بند کر دیا تو مائری نے اس کے گلے میں ہار دیکھ لیا: ’’یہ ہار کیسا ہے؟‘‘
ڈریٹن نے بدتمیزی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تمھارے کسی سوال کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں ہے، لیکن میں یہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ ہر بار جب تمھاری بیٹی اپنے احمق دوستوں کے ساتھ نیا قیمتی پتھر حاصل کرتی ہے تو یہ ہار چمکنے لگتا ہے۔ دیکھو یہ پھر روشن ہو گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ پکھراج بھی مل گیا ہے اور اسے جادوئی گیند میں بھی رکھ دیا گیا ہے۔ دیکھو ان پوائنٹس میں اب پانچ چمک رہے ہیں اور صرف 7 رہ گئے ہیں۔ جیسے ہی یہ بھی روشن ہو جائیں گے پھر میں دکھاؤں گا کہ میں کیا کرتا ہوں تم سب کے ساتھ۔
مائری نے جلدی سے پوچھا: ’’تم کیا کروگے؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں کہا: ’’تمھیں اور تمھارے سبھی خاندان اور دوستوں کو قتل کر دوں گا اور جادوئی گیند لے لوں گا، کیوں کہ وہ میرا ہے، میں ہی اس کا مستحق ہوں۔‘‘
مائری نے کہا: ’’تم بہت قابل رحم ہو ڈریٹن، اپنی باتیں سنو، تم پاگل ہو چکے ہو۔‘‘
ڈریٹن کو بہت غصہ آیا، وہ مائری کو بالوں سے پکڑ کر پٹخنے والا تھا لیکن پھر جھیل کے پانی میں کوئی سایہ دیکھ کر مسکرایا، اور منتر پڑھنے لگا۔ وہ دراصل جھیل کی گہرائیوں سے جھیل کا عفریت بلانا چاہ رہا تھا۔ اس نے مائری کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کزن، اب تمھارے انجام کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
مائری نے دیکھا کہ جھیل کی سطح پر بے تحاشا بلبلے پھوٹنے لگے تھے اور پھر اچانک کشتی سے ذرا سے فاصلے پر کشتی سے بڑا ایک سر بلند ہونے لگا۔ یہ ڈریگن جیسا سر تھا اور بہت بھیانک لگ رہا تھا۔ مائری کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا۔ اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ شاید یہ بھی جادوگر پہلان کا جادوئی شعبدہ نہ ہو، لیکن یہ بات یقینی نہیں تھی۔ پانی سے نکلنے والے خوف ناک اور بد نما عفریت کے منھ سے گرجتی آواز نکلی۔ مائری کے منھ سے اس وقت بے ساختہ چیخ نکلی جب عفریت نے تیزی سے سر نیچے کر کے منھ کھولا اور ان کی طرف آیا، تاکہ انھیں دانتوں میں دبوچ کر جھیل کے پانی کی گہرائی میں لے جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔مائری کی تلاش میں وہ سب جھیل کے کنارے چل رہے تھے، کہ انھیں اچانک چیخ سنائی دی۔ وہ بری طرح چونکے۔ انھوں نے دیکھا کہ دور جھیل کی سطح پر ایک کشتی میں مائری بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک عفریت انھیں کھانے والا ہے۔ فیونا، جبران اور دانیال بہ یک وقت چیخنے چلانے لگے، تاکہ عفریت کی توجہ بٹا سکیں۔ ان کی ترکیب کارگر رہی، اور عفریت ان کی طرف مڑا، پھر ذرا دیر میں پانی میں غائب ہو گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ مائری کشتی میں لڑھک گئی تھیں۔ جبران نے خیال ظاہر کیا کہ شاید وہ بے ہوش ہو گئی ہیں۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی ڈریٹن نے مائری کو سر کے بالوں سے پکڑ کر کشتی سے نیچے پھینکتے دیکھا۔ جونی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جوتے اتار کر جھیل میں چھلانگ لگا دی اور مائری کی طرف تیزی سے تیرنے لگا۔ جبران چلا کر بولا: ہوشیار رہیں، عفریت ابھی بھی جھیل میں ہے۔‘‘
انھوں ںے دیکھا کہ ڈریٹن کشتی کھیتا ہوا اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ جونی بروقت مائری تک پہنچا اور انھیں پکڑ کر کنارے پر لے آیا۔ فیونا روتی ہوئی اپنی ممی سے لپٹ گئی۔ مائری نے انھیں بتایا کہ وہ ڈریٹن ہی تھا۔ فیونا اس بات پر بھی حیران ہو رہی تھی کہ جھیل میں واقعی کوئی عفریت ہے، جیسا کہ روایتی طور پر اس سے متعلق ایک کہانی مشہور تھی لیکن کبھی کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا، جونی نے کہا کہ یہ دراصل ان رازوں میں سے ایک راز ہے جو کبھی حل نہیں ہوتا، شکر ہے کہ مائری محفوظ ہے۔
اس کے بعد جبران اور دانیال اپنے گھر چلے گئے، فیونا اپنی ممی کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی، جونی ان کے گھر ہی پر ٹھہرا ہوا تھا تاکہ ان کی حفاظت کر سکے۔ اینگس کے گھر پر جیک نے جیسے دروازہ اپنے پیچھے بند کیا اچانک دستک ہونے لگی۔ جیک نے پھر دروازہ کھولا تو سامنے جولیان کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جیک کے منھ سے نکلا: ’’ایڈوے!‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے
وہ دونوں انگور کی بیلوں کے درمیان کھڑے فیونا کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، جبران کے منھ سے نکلا: ’’کیا اور کوئی بھیانک واقعہ ہونے والا ہے ہمارے ساتھ؟‘‘ فیونا نے جواب میں انھیں ڈرانا نہیں چاہا، بلکہ بولی کہ اب بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد انگور کے بیل کی جڑ میں کھدائی کی جائے اور پکھراج نکالا جائے۔ فیونا نے یہ کہہ کر بیٹھ گئی اور مٹی کھودنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے تاکہ جلدی سے اسے نمٹایا جا سکے۔ ابھی انھوں نے تھوڑا ہی کھودا تھا کہ ان کے پیچھے غراہٹوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دانیال نے جلدی سے کھدائی روک کر پیچھے دیکھا اور پھر اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’کتا … یہ تو کتا ہے!‘‘
فیونا اور جبران نے بھی پلٹ کر دیکھا تو جبران نے کہا: ’’دانی یہ کتا نہیں ہے، لیکن مجھے نہیں پتا یہ کیا چیز ہے، پر ہے بہت غلیظ قسم کی۔‘‘ فیونا نے منھ سے نکلا: ’’تسمانیہ کا شیطان لگ رہا ہے یہ!‘‘دانیال حیران ہو گیا: ’’تسمانیہ کا شیطان بھلا کیا چیز ہے؟‘‘ فیونا نے انھیں یاد دلایا کہ جو کتاب انھوں نے خریدی تھی، اس میں اس کی تصویر موجود تھی اور لکھا تھا ’تسمانین ڈیوِل!‘‘ جبران یہ سن کر چونک اٹھا اور بولا کہ اسے بھی یاد آ گیا۔ اس نے کہا یہ ’ٹاز‘ ہے، دانی یاد کرو کارٹون کیریکٹر۔ یہ وہی ہے۔ تب دانی نے پریشان ہو کر کہا: ’’یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ شیطان تیزی سے ہماری ہی طرف آ رہا ہے۔‘‘
اُس جانور کا جسم گہری بھوری فر سے ڈھکا ہوا تھا، اور اس کے دانت باہر نکلے ہوئے تھے، جن سے رال ٹپک رہی تھی۔ اور اس کے حلق سے بھیانک قسم کی غراہٹ نکل رہی تھی۔ جب وہ کافی قریب آ گیا تو دانی چیخا: ’’کچھ کرو فیونا!‘‘
فیونا نے جلد سے اپنے اور جانور کے درمیان جادو سے آگ بھڑکا دی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس جانور نے اس پر سے لمبی چھلانگ لگا دی اور ان سے تقریباً بیس فٹ کی دوری پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اتنی خوف ناک چیخ نکالی کہ ان تینوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ جبران اور دانیال کو لگا کہ ان کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا ہے۔ فیونا تیز لہجے میں بولی: ’’کوئی بھی اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلنے کی غلطی نہ کرے، اگر ہم ہلے تو یہ فوراً حملہ آور ہو جائے گا اور لمحوں میں ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘
اسی لمحے ان کے پیچھے سے ایک تیز غراہٹ سنائی دی۔ وہ بری طرح چونک اٹھے۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا وہاں اسی قسم کا ایک اور جانور کھڑا تھا۔ جبران نے گھبرا کر کہا: ’’اب تو دو دو تسمانوی بھوتیا جانور ہو گئے!‘‘ اس سے قبل کہ وہ کچھ سوچ سکیں، ایک اور جانور انگور کی بیلوں کے درمیان سے چھلانگ لگا کر ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر غرانے لگا۔ اور پھر چوتھا بھی انگور کی بیلوں سے نکل آیا۔ ’’چار ہو گئے، یہ ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘ دانیال روہانسا ہو کر بولا۔ ’’فیونا، فوراً اپنا قد بڑا کر دو اور ان سب کو کچل دو۔‘‘
اچانک تسمانیہ کے شیطانوں میں سے ایک نے فیونا کے گلے پر چھلانگ لگا دی۔ اس نے جلدی سے گلا بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے۔ عین اسی لمحے گولی چلنے کی دھماکے دار آواز سنائی تھی، جس نے جانوروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ ایک اور فائر ہوا اور جانور ان تینوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص ہاتھوں میں رائفل لیے کھڑا تھا اور چلا کر کہہ رہا تھا: ’’بچو میری طرف آؤ، میں نے پہلے کبھی اتنے بڑے شیطان نہیں دیکھے۔‘‘
ابھی اس نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ ایک شیطان نے اچھل کر دانیال پر چھلانگ لگا دی، اور اسے نیچے گرا کر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ فیونا اور جبران کے منھ سے چیخیں نکل گئیں۔ اس شخص نے شیطان کی طرف رائفل سیدھی کی اور پھر کافی اونچائی پر کئی ہوائی فائر مار دیے۔ اس بار سارے جانور خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ جبران اور فیونا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دانیال کو اٹھایا اور پوچھا کہ وہ ٹھیک تو ہے۔ دانیال بہت گھبرایا ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے اسے چوٹ نہیں آئی تھی۔ انھیں اس شخص کی آواز سنائی دی: ’’بچو، تم میرے انگور کے باغ میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
فیونا کے ذہن میں اگرچہ یہ سوال نہیں اٹھا تھا لیکن جیسے ہی اس نے سنا، وہ فوراً ہوشیار ہو گئی۔ اس نے بات بنا کر کہا: ’’میرے اس دوست کو بہت بھوک لگ گئی تھی اس لیے ہم باغ سے کچھ انگور لینے رک گئے تھے لیکن پھر اس سے یہاں کچھ گر گیا تھا جسے ہم تلاش کرنے لگے۔‘‘
باغ کے مالک نے سپاٹ لہجے میں کہا: ’’میرا نام ونچنزو منزانیو ہے، میں اور میری بیوی ابھی ابھی گھر پہنچے اور ہم نے پورے گھر اور باغ میں سرخ پیٹھ والی مردہ مکڑیاں دیکھیں، یہ سب کیا ہے، کیا آپ کے پاس اس کی بھی کوئی وضاحت ہے؟‘‘
جبران کو اچانک ایک خیال سوجھا، وہ جلدی سے بولا: ’’جب ہم کھدائی کر رہے تھے، میرا مطلب ہے کہ فیونا کی انگوٹھی تلاش کر رہے تھے، تو یہ مکڑیاں زمین سے باہر نکل آئیں، اور ہم ان سے بچنے کے لیے آپ کے گھر بھاگے تھے۔‘‘
’’اور میرے قالین پر آگ کیسے لگی؟‘‘ اب ونچنزو کی آواز نارمل نہیں رہی تھی، بلکہ اس میں غصہ جھلک رہا تھا۔ جبران نے گھبرا کر جلدی سے کہا: ’’دراصل فیونا نے سوچا کہ اگر اس نے انھیں آگ سے نہیں جلایا تو یہ ہمیں کاٹ کھائیں گی۔ لیکن پھر یہ لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں۔‘‘
’کیا مطلب، لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکال کر کہا۔ جبران نے نے بتایا کہ ان سرخ مکڑیوں کو لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں نے مار ڈالا تھا۔ اس کے بعد جب ہم واپس یہاں آ کر انگوٹھی تلاش کرنے لگے تو کہیں سے یہ تسمانیہ کے شیطان نمودار ہو گئے۔
’’کیا کہانی ہے، بہت عجیب۔‘‘ باغ کے مالک نے انھیں گھور کر دیکھا۔ ’’خیر کیا تم لوگوں کو انگوٹھی مل گئی۔‘‘ جبران نے جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ تینوں ڈرے ہوئے تھے کہ اب پتا نہیں باغ کا یہ مالک کیا کہے گا اور کیا کرے گا، لیکن ان کی توقع کے برخلاف اچانک اس نے مسکرا کر دانیال کو مخاط کر کے کہا: ’’تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اندر جاؤ، میری بیوی تمھیں کھانے کو کچھ دے دیں گی، اور میں یہاں ان دونوں کے ساتھ انگوٹھی ڈھونڈنے میں مدد کر دوں گا۔‘‘
دانیال نے یہ سن کر اسی میں اپنی بھلائی محسوس کی کہ وہ خاموشی سے اندر چلا جائے، اگرچہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ سو کر کہ باغ کا مالک پھر غصے میں نہ آ جائے، وہ سر ہلا کر گھر کی طرف چلا گیا۔
باغ کے مالک نے اس کے جاتے ہی باقی دونوں سے ان کے نام دریافت کیے، اور پھر بولا کہ چلو انگوٹھی تلاش کرتے ہیں۔ وہ انگور کی بیل کی جڑ میں گھٹنے زمین پر رکھ بیٹھا تو اس کے سرمئی بال اس کی آنکھوں پر گرے۔ لیکن اسی لمحے اس نے فیونا کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو فیونا نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں بیل کی جڑ میں موجود مٹی کی طرح بھوری تھیں۔ فیونا نے جلدی سے نظریں ہٹا کر کہا: ’’وہ ایک بڑی سی انگوٹھی ہے۔‘‘
’’کس قسم کی انگوٹھی؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا تو فیونا نے بتایا کہ اس میں پکھراج جڑا ہوا ہے۔ اس نے بات بنائی کہ اسے انگوٹھی کی پروا نہیں لیکن پکھراج اس کے لیے بہت اہم ہے، کیوں کہ وہ خاندانی نشانی ہے۔’’ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا۔‘‘ باغ کے مالک نے کہا۔ اور جبران نے فیونا کی طرف دیکھ کر منھ ہی منھ میں لفظ ’جھوٹی‘ کہا، جسے فیونا نے سمجھ لیا اور اس نے مسکرا کر جواباً آنکھ مار دی۔
(جاری ہے)
-
ایک سو چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھیے
اگلی صبح وہ دس بجے اٹھے۔ دانیال نے جوتے پہنتے ہوئے فیونا سے پوچھا کہ پکھراج کو کہاں تلاش کرنا ہے، اور کیا اس نے اس سلسلے میں کوئی خواب دیکھ لیا ہے یا نہیں۔ فیونا نے تیار ہوتے ہوئے جواب دیا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے کہ میں اس مقام کو پہچان لوں گی، لیکن فی الوقت یہ نہیں پتا کہ وہ ہے کہاں پر۔ ہمیں بس شہر میں جانا ہوگا اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
جبران نے ان کا دھیان ناشتے کی طرف مبذول کرایا: ’’میں نے دیکھا تھا کہ اس ہوٹل میں مزے کا ناشتہ ملے گا، اور لنچ تو باہر ہی کرنا پڑے گا۔‘‘کچھ دیر بعد وہ ہوٹل کے دروازے سے باہر نکلے تو فیونا نے بتایا کہ اس نے سیاحوں کی گائیڈ بک میں ایک جگہ کا نام پڑھا تھا جسے بیٹری پوائنٹ کہتے ہیں۔ جبران نے پوچھا کہ کیا پکھراج وہیں پر ہے، لیکن فیونا نے کہا کہ اسے نہیں معلوم۔ جبران اسے گھورنے لگا تو فیونا نے کہا تم لوگ یہاں ٹھہرو، میں سوچتی ہوں کچھ۔ یہ کہہ کر اس نے پاس کی دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ یک بہ یک اس کے ذہن میں انگور کے ایک باغ کی تصویر ابھری۔ اس نے آنکھیں کھول لیں تو دونوں اسے بے تابی سے گھور رہے تھے۔ فیونا نے منھ بنا کر کہا تم ایسے بے قوفوں کی طرح گھور کیوں رہے ہو۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے لگا شاید تم سو گئی ہو!‘‘
فیونا بولی: ’’میں سو نہیں گئی تھی، ہمیں بس ایک انگور کے باغ کو ڈھونڈنا ہے، یعنی ہمیں لوگوں سے پوچھنا ہے کہ انگور کے باغات کا علاقہ کہاں پر ہے۔‘‘
انھیں کچھ فاصلے پر کتابوں کی ایک دکان نظر آئی جو گلی کے اندر واقع تھی۔ دانیال نے کہا تسمانیہ سے متعلق جاننے کے لیے ایک کتابچہ خریدنا چاہیے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جبران نے کتاب کھول کر دیکھا تو انھیں ایک نقشے سے معلوم ہوا کہ سمندر ان سے بس پانچ منٹ کی واک کے فاصلے پر ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں یہاں پینگوئن بھی دیکھنے کو ملیں گے جو یہاں پریاں کہلاتی ہیں۔ تاہم جبران نے کہا کہ وہ اس علاقے کے قریب نہیں ہیں۔ فیونا نے ساحل کی ریت پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ چند ہی لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھول کر پوچھا کہ کتاب سے پتا چلا کہ انگور کے باغات کہاں ہیں؟ دانیال نے بتایا کہ کتاب سے پتا چلتا ہے کہ تسمانیہ میں انگور کے سیکڑوں باغات ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ایک فون بوتھ کی تلاش میں سڑک کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے انھیں ایک نام بتایا کہ ان کا مطلوبہ انگور کا باغ وہاں ہے، اس جگہ کو جاننے کے لیے انھوں نے فون بوتھ میں پڑی فون ڈائریکٹری کھنگالی تو پتا چلا کہ ان کی مطلوبہ جگہ ہوبارٹ شہر ہی میں نہیں ہے، اور یہ کہ انھیں ایک لمبا سفر کرنا پڑے گا۔
فیونا نے کہا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں ٹیکسی لینی پڑے گی۔ وہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے، جب ٹیکسی آئی تو فیونا نے ڈرائیور کو پتا سمجھایا۔ ڈرائیور نے مشکوک انداز میں ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس کرائے کے پیسے بھی ہیں یا نہیں۔ فیونا نے مسکرا کر کہا بے فکر ہو جاؤ، اچھی ٹپ بھی ملے گی، بس ہمیں وہاں لے جاؤ۔
جب وہ ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور نے عقبی آئینے سے میں دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم لوگ تو بہت چھوٹے ہو، ادھر ادھر کیسے گھوم رہے ہو۔ تمھارے لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ سے آئے ہو۔‘‘
فیونا نے دیکھا کہ ریڈیو کے قریب ڈیش بورڈ پر ڈرائیور کا لائسنس چپکایا گیا تھا، اور اس پر ڈرائیور کا نام ڈیوڈ لکھا ہوا تھا۔ فیونا نے کہا: ’’مسٹر ڈیوڈ، ہمارے والدین بزنس میٹنگ میں ہیں۔ ہم جہاں جا رہے ہیں اس باغ کے مالک میرے والدین کے دوست ہیں، والدین ہم سے بعد میں وہاں ملیں گے۔‘‘
ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ ان کا سفر تقریباً ایک گھنٹے کا ہے، اس لیے وہ آرام سے ٹیک لگا کر سو بھی سکتے ہیں۔ فیونا نے اس سے پوچھا کہ کیا تسمانیہ میں واقعی پینگوئن ہیں؟ ڈیوڈ نے بتایا کہ ہاں لیکن وہ دوسری سمت میں ہیں، البتہ اگر چڑیا گھر جائیں تو وہاں دوسرے جانوروں کے ساتھ پینگوئن بھی مل جائیں گے۔ اس کے بعد ان کا باقی سفر خاموشی سے کٹا۔ جب وہ مطلوبہ انگور کے باغ پہنچے تو ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وہ تینوں ٹیکسی سے اتر گئے اور فیونا نے اسے کرایہ ادا کیا۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ یہ ہے وہ جگہ یہاں پکھراج موجود ہے۔(جاری ہے….)
-
ایک سو پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
فیونا اور باقی افراد انکل اینگس کے گھر پہنچ چکے تھے، اچانک فیونا چونک اٹھی: ’’امی ابھی تک نہیں آئیں، کافی دیر ہو گئی ہے، وہ اتنا وقت کیوں لے رہی ہیں؟‘‘
بات تو پریشانی والی تھی لیکن اس وقت کسی نے کچھ خاص محسوس نہیں کیا، اور انکل اینگس نے فیونا کو تسلی دی کہ آتی ہی ہوں گی۔ انھوں نے جیب سے کچھ رقم نکالی اور فیونا کو دیتے ہوئے تنبیہہ کی کہ اس بار پیسے سمجھداری کے ساتھ خرچ کرے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ اب فیونا کے پاس جادوئی طاقتیں بھی ہیں، خصوصاً اب وہ سونا اور زیورات اور زمین میں دبی ہوئی دولت تلاش کرنے کی طاقت رکھتی ہے، اور اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
جبران اور دانیال فرش پر بیٹھے فیونا اور اینگس کی باتیں دل چسپی سن رہے تھے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور کہا ہم تیار ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور فیونا نے منتر پڑھا۔۔۔۔ دالث شفشا ۔۔۔ اور اگلے لمحے وہ روشنی کے چکر میں غائب ہو گئے تھے۔
اینگس نے کہا کہ بچے چلے گئے، میں ذرا مائری کی تلاش میں جاتا ہوں، ان کو آنے میں اتنی دیر نہیں ہونی چاہیے تھی، مجھے امید ہے بچوں کی واپسی سے پہلے ہم دونوں لوٹ آئیں گے۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئے اور جونی نے ان کے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔ان تینوں نے خود کو ایک ایسی جگہ پایا جہاں آس پاس ہریالی تھی، جس کا مطلب تھا کہ بہار کا موسم ہے، جب کہ وہ اسکاٹ لینڈ میں پیچھے خزاں چھوڑ کر آئے تھے۔ فیونا نے دونوں سے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہیں اس وقت۔ جبران نے موسم کی مناسبت سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر گلوب کے نقشے پر دیکھا جائے تو اس وقت ہم خط استوا کے جنوب میں ہیں لہٰذا ہم یا تو ارجنٹائن میں ہیں، ملاوی میں یا تسمانیہ میں۔
دانیال نے دلیل دی کہ نہ تو وہ ملاوی جیسے چھوٹے جزیرے پر ہیں، نہ ہی افریقہ میں، اس لیے بچتا ہے تسمانیہ یعنی آسٹریلیا کی ریاست۔
فیونا نے آس پاس دیکھا کہ وہاں ازالیا نامی جھاڑی نما درخت تھے، کمیلیا نامی سرخ پھولوں والے پودے تھے، گلاب اور چیری کے بھی تھے۔ جبران نے ان کی توجہ ایک عمارت کی طرف دلائی جس پر لکھا کہ یہ تسمانیہ کا نباتاتی گارڈن ہے۔ اس کے بعد ہی انھیں یقین آیا کہ وہ واقعی تسمانیہ میں ہیں۔
انھوں نے وقت دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ لندن سے دس گھنٹے آگے تھے۔تسمانیہ میں صبح کے چار بج رہے تھے اور وہاں ہلکا سا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پکھراج کی تلاش سے قبل حسب معمول وہ کوئی ہوٹل تلاش کرنے لگے کیوں کہ انھیں کچھ دیر کے لیے نیند لینی تھی۔ فیونا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ’’پھر ایک ہوٹل کی تلاش!‘‘جب وہ باغات سے گزر کر شہر کی روشنیوں میں پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ تسمانیہ کے دارالحکومت ہوبارٹ میں ہیں۔ انھوں نے سڑک کنارے کچھ ہوٹل دیکھے۔ ایک ہوٹل پر لکھا تھا ’’بارامونڈی بیرک۔‘‘ جبران نے کہا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی فوجی کیمپ ہو، دعا ہے کہ ہمیں کاٹ کی چارپائیوں پر نہ سونا پڑے۔‘‘
جب وہ اندر گئے تو کاؤنٹر پر فیونا سے عمر میں بس تھوڑی ہی بڑی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ نائٹ منیجر لڑکی نے انھیں دیکھتے ہی کہا: ’’بچے اتنے سویرے کیسے نکل آئے، تمھارے والدین کہاں ہیں؟‘‘ وہاں صوفے پڑے ہوئے تھے، فیونا نے باقی دونوں کو وہاں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نائٹ منیجر کی طرف مڑ کر وضاحت کرنے لگی کہ گاڑی میں تھوڑی سی گڑ بڑ ہو گئی ہے، والدین اسے ٹھیک کروا کر ابھی پہنچ ہی جائیں گے، انھوں نے ہمیں بھیجا کہ ہم کمرہ بک کر لیں۔
نائٹ منیجر کا نام اسٹیفنی تھا، اس نے کہا کہ کئی بستروں والا کمرہ چاہیے ہوگا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر انھیں ہوٹل کا سب سے بڑا خالی کمرہ دے دیا گیا۔ کمرہ دوسری منزل پر تھا، تینوں اوپر پہنچ گئے۔ فیونا نے انھیں بتایا کہ اچھی بات یہ ہوئی کہ منیجر نے بغیر کسی سوال کے برطانوی کرنسی قبول کر لی۔ تینوں کمرے میں پہنچ کر الگ الگ بستروں پر ڈھیر ہو گئے۔
(جاری ہے)
-
ایک سو چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن فیونا کی ممی کو اغوا کر کے قلعے پہنچا تو فوراً سیڑھیوں سے نیچے اتر کر انھیں غار میں لے گیا، اور ایک دیوار کے ساتھ زنجیر سے باندھ دیا۔ پھر وہ سرنگ کے ذریعے دوڑتا ہوا جھیل کے پاس پہنچ گیا اور پہلان جادوگر کو آوازیں دینے لگا۔ پہلان نے اسے بار بار آ کر پریشان نہ کرنے کا کہنا تھا لیکن وہ یہ بتانے کے لیے بے چین ہو رہا تھا کہ وہ مائری کا ’تحفہ‘ لے کر آیا ہے۔
جھیل کی سطح لرز اٹھی اور لہروں میں اچھال پیدا ہو گیا، ڈریٹن نے دیکھا کہ جھیل کے پانی کا ایک مینار سا اوپر کی جانب اٹھا اور اس کی سماعت سے تیز آواز ٹکرائی: ’’اب کیا کہنے آئے ہو؟‘‘
ڈریٹن نے بولا: ’’غار میں آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے، آؤ دیکھو۔‘‘جادوگر پہلان پانی سے نکلا اور ڈریٹن کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ سرنگ کے ذریعے غار میں پہنچ گئے۔ پہلان نے مائری کو بندھا دیکھا تو حیران ہو گیا، ان کا چہرہ پائی سے گندا ہو رہا ہے۔ وہ پہلان کو دیکھتے ہی بول اٹھیں: ’’تم کون ہو؟‘‘
ڈریٹن نے بتایا کہ یہ پہلان ہے، کنگ دوگان کا جادوگر۔ پہلان کو اس پر غصہ آ گیا: ’’میں اپنا جواب خود دے سکتا ہوں احمق۔‘‘ پھر وہ مائری کی طرف متوجہ ہوا، اور کیگ کیگان کے اولاد کی یہاں موجودگی پر خوشی کا اظہار کرنے لگا۔ پھر وہ مائری کو ایک بڑے سانپ کا روپ دھار کر بچوں کی طرح ڈرانے کی کوشش کرنے لگا۔ دیکھنے میں یہ بھیانک اژدہا لگ رہا تھا جو کانٹے دار سرخ زبان باہر نکال کر مائری کی طرف رینگنے لگا، اس کی خوف ناک آنکھوں کی کشش بے پناہ بڑھ گئی تھی۔ مائری نے چیخ کر کہا: ’’مجھے سانپوں سے نفرت ہے، دور ہو جاؤ مجھ سے۔‘‘
سانپ دھیرے دھیرے ہوا میں بلند ہو گیا جیسے مائری پر جھپٹنے والا ہو، پھر وہ کنڈلی مار کر رقص سا کرنے لگا۔ ڈریٹن کو خود سانپوں سے نفرت تھی اس لیے وہ دور ہو کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اچانک سانپ نے جھپٹ کر مائری کے گلے میں اپنے دانت گاڑ دیے اور وہاں سے خون کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا۔ مائری کے حلق سے نکلنے والی چیخ گلے ہی میں دب گئی۔ اس کے منھ سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ سانپ ان سے دور ہٹ گیا اور مائری نے اچانک آنکھیں کھول لیں۔ ان کے کانوں سے جادوگر پہلان کا قہقہہ ٹکرایا: ’’ہاہا… ہاہا… ہاہاہا، میں نے تمھیں بے وقوف بنا دیا۔ مائری جلدی سے گلے پر ہاتھ پھیر کر دیکھنے لگیں کہ کیا سچ میں وہ زخمی نہیں ہوئی ہیں۔ حقیقت جان کر انھیں اطمینان ہو گیا لیکن اگلے ہی لمحے وہ کرخت لہجے میں بولنے لگیں: ’’تم لوگ کس قسم کے بیمار ذہن لوگ ہو، دوسروں کو خوف زدہ کر کے خوشی حاصل کرتے ہو، اور جادو کر کے خود کو طاقت ور محسوس کرتے ہو… افسوس ہے تم پر!‘‘
ڈریٹن چلا کر بولا: ’’منھ بند رکھو عورت، اگر خیریت چاہتی ہو منھ بند رکھو سمجھی!‘‘ اچانک وہاں موجود سانپ غائب ہو گیا اور جادوگر پھر نمودار ہوا۔ اس نے مائری سے کہا کہ وہ اپنے باپ دادا کی طرح نڈر بننے کی کوشش کر رہی ہے، ایک آگ ہے وجود کے اندر، تو چلو ڈریگن بن کر دکھاتا ہوں۔ ڈریٹن نے قہقہہ لگا کر کہا: ’’اب یہ تمھیں زندہ بھوننے والا ہے مائری، سنبھل جاؤ۔‘‘
پہلان نے ڈریگن بن کر غار کی چھت کی طرف منھ کر کے بھیانک آواز نکالی اور پھر اس سے آگ کے شعلے برآمد ہوئے۔ غار میں ایک دم کالا دھواں پیدا ہوا جو مائری کے حلق میں چلا گیا اور وہ کھانسنے لگیں۔ جب دھواں چھٹ گیا تو اچانک ڈریگن نے منھ مائری کی طرف کر کے کھولا اور آگ کے ایک دریا نے ان کے جسم کو لپیٹ میں لے لیا۔ ڈریٹن خوف زدہ ہو کر دیکھنے لگا کہ مائری کا بدن جل کر سیاہ ہو گیا ہے، اور مائری کے حلق سے اذیت سے بھری چیخیں نکل رہی ہیں۔ خوف کے مارے ڈریٹن کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے تھے، اور اچانک اسے الٹی آ گئی۔ الٹی کر کے جیسے ہی وہ سیدھا ہو گیا مائری کو وہاں سلامت موجود پایا۔
مائری نے سرگوشی جیسی آواز میں کہا: ’’تم قابل نفرت ہو، شیطان ہو، میں تمھاری موت کا انتظار کروں گی۔‘‘ پہلان جادوگر واپس اپنی حالت میں آ گیا تھا، اس نے غصے سے ڈریٹن سے کہا لے جاؤ اس عورت کو جھیل پر اور اسے وہاں کی بھیانک مخلوق کی خوراک بنا دو، یاد رکھنا اسے زندہ نہیں بچنا چاہیے۔‘‘
ڈریٹن اچھلا اور بولا کہ کیا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پہلان نے کہا کہ ان کے پاس فیونا موجود ہے تو اس کی ممی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور مائری پر کچھ دیر کے لیے جو نیند سی طاری ہوئی تھی وہ اس سے جاگ اٹھیں۔ مائری نے ڈریٹن کو مخاطب کر کے کہا: ’’تم بھی بہت برے ہو ڈریٹن لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس جادوگر کی طرح پھر بھی نہیں ہو، تمھارے اندر امید کا دیا روش ہو سکتا ہے۔ اس لیے تم پہلان جادوگر کو بھول جاؤ اور ہمارے آ ملو، ہم تمھیں آگے آنے والے حالات سے بچائیں گے۔‘‘
ڈریٹن نے مائری کی بات خاموشی سے سنی اور پھر غرا کر بولا: ’’تمھیں کیا پتا کہ میں پہلان سے بھی بدتر ہوں، اب میں تمھیں کھولنے جا رہا ہوں، اگر کوئی مضحکہ خیز کوشش کی تو یہیں جان سے مار ڈالوں گا۔ جادوگر کو سن لیا ہے نا ہمیں اب تمھاری مزید ضرورت نہیں ہے۔‘‘
زنجیریں ڈھیلی ہونے کے بعد مائری کو کچھ بہتر محسوس ہونے لگا، لیکن ان میں لڑنے کی طاقت نہیں تھی، درد نے ان کے جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اب بھی محسوس کر سکتی تھیں کہ شعلے انھیں جلا رہے ہیں اور سانپ کے دانت ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ ڈریٹن نے جھک کر انھیں اٹھایا اور کندھے پر ڈال کر کشتی تک لا کر اندر پھینک دیا۔
جاری ہے ۔۔۔
-
ایک سو تریاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے
ڈریٹن ان لوگوں میں سے تھا جو زیادہ انتظار نہیں کر سکتے، جو چیز حاصل کرنی ہو اسے پوری بدمعاشی کے ساتھ زور بازو سے حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا، جادوئی گولا تب تک حاصل کرنا مشکل تھا جب تک تمام ہیرے ڈھونڈ کر نہیں لائے جاتے، اور ان کے لیے مختلف قسم کے دور دراز اور خطرناک علاقوں کا جادوئی سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ اس میں وقت تو لگنا ہی تھا۔ اینگس کے گھر سے بھاگنے کے بعد وہ جھیل پہنچ گیا تھا، کشتی چلا کر جب وہ دوسری طرف اترا تو جھنجھلایا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا: ’’اس طرح آگے پیچھے جاتے ہوئے میں اب تھک چکا ہوں، ایک تو یہ کشتی چلانا بھی ایک عذاب ہے۔‘‘ اس نے چار و ناچار کشتی ایک درخت سے باندھ دی۔
قلعے کی طرف جاتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اب کون سی طاقت اس کے پاس آ گئی ہے کیوں کہ فیونا اور اس کے دوست نیا ہیرا جو لے کر آ گئے تھے۔ جادوگر پہلان اسے بتا چکا تھا، اس نے یاد کیا اور پھر اچھل پڑا۔ ’’اوہ تو اب میرے پاس سونا اور ہیرے جواہرات تلاش کرنے کی طاقت آ گئی ہے۔‘‘ سوچتے سوچتے وہ قلعے کے اندر پہنچ گیا تھا۔ اپنے سلیپنگ بیگ پر بیٹھ کر اسے خیال آیا کہ اس قلعے میں بھی تو خزانہ ہو سکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ بے قراری سے اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ خزانہ کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ اگلے ہی لمحے حیرت انگیز طور پر اسے خواب جیسی کیفیت میں ہیرے جواہرات سے بھرا ایک روشن کمرہ دکھائی دیا۔ وہ پرجوش ہو گیا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ لیکن وہ کمرہ ہے کہاں؟ اس نے پھر آنکھیں بند کر کے تصور کیا اور پھر اسے پورا نقشہ دکھائی دینے لگا۔ ’’میں نے ڈھونڈ لیا۔‘‘ اس کے منھ سے چیخ نکل گئی اور وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
ٹارچ لے کر وہ سیڑھیوں پر نیچے اتر گیا، وہاں اس نے دیوار کے ایک پتھر پر ہاتھ سے دباؤ ڈالا تو سیڑھیوں کے نیچے ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور وہاں ایک دیوار کھل گئی۔ وہ جلدی سے کمرے کے اندر چلا گیا لیکن وہاں کوئی سونا نہیں تھا۔ یہ ایک بہت چھوٹا کمرہ تھا۔ اسے بہت غصہ آیا اور اسی عالم میں اس نے دیوار پر ایک پتھر پر زور سے مکا مار دیا۔ اچانک وہاں بھی ایک دروازہ کھل گیا جس سے اندر جاتے ہی اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ یہ کمرہ سونے اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک لمحہ دیر کیے بغیر چھلانگ لگا کر سونے کے ڈھیر پر کود گیا اور مٹھی میں چیزیں بھر بھر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور بے اختیار چلانے لگا: ’’میں امیر ہو گیا ۔۔۔ میں امیر ہو گیا۔‘‘
اس نے خزانے میں سے چھانٹ کر زمرد اور ہیرے اپنی جیبوں میں بھرے اور پھر اوپر محل کی طرف چلا گیا۔ وہ اتنا بے چین تھا کہ محل کے اندرونی حصے سے باہر نکل کر شکستہ پل پر جا کر کھڑا ہو گیا اور رات کے اندھیرے میں زور زور سے سانسیں بھرنے لگا۔
وہاں سے گزرتے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے۔ لیکن اس نے ہر چیز سے بے نیاز کشتی میں ایک بار پھر جھیل پار کی اور کشتی کو ایک قریبی درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے فیونا کے گھر کی طرف جانے لگا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اب۔ اس نے دیکھا کہ مائری اور فیونا جبران کے گھر گئے اور وہاں سے ان دونوں کو لے کر فیونا کے گھر کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے باقی افراد سے کہا کہ وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑیں، وہ گھر سے کچھ اٹھا کر لا رہی ہیں۔ ادھر وہ چل پڑے اور ادھر مائری گھر کے اندر جا کر کچھ ہی دیر میں واپس آ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس وقت باقی افراد دور جا چکے تھے اور مائری اکیلی تھیں۔ ڈریٹن دوڑ کر ان کے پیچھے چلا گیا اور پیچھے سے آواز دے کر پوچھا: ’’ڈبے میں کیا ہے؟ کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
مائری نے مڑ کر دیکھا تو ڈریٹن کو سامنے پا کر وہ خوف سے برف بن گئیں۔ ان کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ صرف پائی ہے ڈریٹن، بچوں کے لیے لے جا رہی ہوں۔‘‘
’’پائی؟ اوہ میرا پسندیدہ۔‘‘ اس نے جھپٹا مار کر فیونا کی ممی کے ہاتھ سے ڈبہ چھین لیا، اور کھول کر اپنی انگلیاں اس کے اندر ڈبو دیں، اور پھر باہر نکال لیں۔ اپنی انگلیاں منھ میں ڈال کر وہ بولا: ’’یہ تو بیری کا ذائقہ ہے، واہ۔‘‘
اچانک اس نے ایک پائی اٹھا کر مائری کے سر پر دے مارا۔ وہ چیخ اٹھیں: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم نے میرے بال خراب کر دیے۔‘‘ ڈریٹن نے سفاکی اور بدتمیزی کی حد کر دی۔ ’’یہ تو کچھ نہیں، یہ دیکھو۔‘‘ اور اس نے ایک اور پائی نکال کر مائری کے چہرے پر پھینک دی۔ اور پھر ایک اور مائری کے سر پر دے ماری۔ وہ چلانے لگیں: ’’رک جاؤ، یہ کیا بدتمیزی کر رہے ہو تم ڈریٹن، رک جاؤ۔‘‘
ڈریٹن نے بدتمیزی سے کہا: ’’اوہ آپ کا حلیہ تو پوری طرح بگڑ چکا ہے، آپ ایسا کریں میرے ساتھ قلعے میں چلیں اور وہاں یہ سب دھو لینا۔‘‘ مائری نے کہا کہ وہ اسے گھر میں بھی دھو سکتی ہیں۔ ڈریٹن نے لپک کر مائری کو بازو سے پکڑا اور چلایا۔ ’’میں کہہ رہا ہوں چلو میرے ساتھ۔‘‘ وہ مائری کو گھسیٹنے لگا تو ان کے منھ سے کراہیں نکل گئیں۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ ڈریٹن نے انھیں بہت تکلیف دی۔ گھسٹتے ہوئے ان کا پورا وجود ہل کر رہ گیا تھا۔ ایسا ان کی زندگی میں کبھی ان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ ’’مت گھسیٹو مجھے، رک جاؤ پلیز۔‘‘ وہ روناسی ہو کر بولیں۔ لیکن ڈریٹن غصے سے غرایا: ’’منھ بند کرو اپنا، ایک تو تم عورتیں ہر وقت شکایتیں کرتی رہتی ہو، رونا دھونا ختم نہیں ہوتا تم لوگوں کا۔ اب اگر تم نے منھ سے آواز نکالی تو جھیل کے اندر پھینک دوں گا۔‘‘
(جاری ہے….)
-
ایک سو بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشہ اقساط پڑھیں
فیونا نے پوچھا کہ یہ کب سے یہاں پڑا ہوا ہے؟ جیزے نے جواب دیا کہ بس آدھا گھنٹا ہی ہوا ہوگا۔ جیزے اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ ڈریٹن اسٹیلے نے آخر بالیاں کیوں پہنی ہوئی ہیں، بالیاں تو عورتیں پہنتی تھیں۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مرد کو بالیاں پہنے نہیں دیکھا تھا۔ فیونا نے مسکرا کر بتایا کہ اب دنیا بدل چکی ہے، مرد بھی بالیاں پہنتے ہیں اور کسی کسی کے ساتھ تو بالیاں اچھی لگتی ہیں لیکن اس ڈریٹن کے ساتھ بالکل نہیں، یہ تو ایک درندے کی طرح لگتا ہے۔
جب وہ سب چائے نوش کر رہے تھے تو ایسے میں ڈریٹن دھیرے دھیرے ہوش میں آ گیا۔ اسے سر میں درد محسوس ہونے لگا جہاں جیزے کی زبردست ٹھوکر لگی تھی۔ اس نے دیکھا کہ فیونا اور دوسرے لوگ بیٹھے چائے کے گھونٹ بھر رہے ہیں اور ان کے درمیان گپ شپ چل رہی ہے۔ وہ ڈریٹن سے بالکل غافل ہو چکے تھے، ایسے میں ڈریٹن کو محسوس ہوا کہ نشہ اترنے کے بعد اس کی طاقتیں واپس آ گئی ہیں۔ اس نے سوچا کہ اب یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ اس نے جادو کے زور سے خود کو چھوٹا کر دیا، اور اتنا سکڑ گیا کہ رسیوں سے بہ آسانی نکل آیا۔ اس نے خود کو ایک چوہے کے سائز جتنا بنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ ڈر ڈر کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا رہا۔ دروازے پر پہنچ کر وہ اس کے نیچے آسانی سے رینگ کر باہر نکل گیا۔ عین اسی وقت جیفری اور اینگس اپنے سفر سے واپس پہنچے تھے، ڈریٹن فورا وہاں پڑی دودھ کی بوتل کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ دونوں اسے نہ دیکھ سکے۔ جیسے وہ اندر چلے گئے ڈریٹن اپنے نارمل سائز میں آ گیا اور محل کی جانب سے تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
جیفری اور اینگس بھی چائے کے ساتھ دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ایسے میں جیزے نے اینگس سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ڈریٹن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
انکل اینگس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ مجھے تو ڈریٹن نظر نہیں آیا۔‘‘
جیزے نے یہ سن کر پیچھے دیکھا اور اچھل پڑا۔ ’’ارے، ڈریٹن کہاں چلا گیا؟ میں نے تو اسے رسیوں کے ساتھ مضبوطبی سے باندھا تھا، اس نے کیسے چھڑایا خود کو؟‘‘ جیک نے کہا کہ اس نے تو دروازہ کھلنے کی آواز بھی نہیں سنی۔ فیونا نے کہا: ’’میں جانتی ہوں کہ اس نے یہ کیسے کیا، وہ سکڑ کر دروازے کے نیچے سے باہر گیا ہے۔‘‘
جونی نے اہم بات کی: ’’یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ ڈریٹن جادوئی گولے اور کتابوں کے لیے اتنی بری طرح سے تڑپ رہا ہے کہ ان کے حصول کے لیے کوئی بھی غیر معقول کام کرنے سے نہیں کتراتا۔ اس لیے ہم اب اور بھی زیادہ احتیاط کرنی ہوگی اور دیگر قیمتی پتھروں کے حصول کو بھی تیز تر کرنا ہوگا۔‘‘
فیونا کرسی سے اٹھ کر جیفری کے پاس گئی اور سخت ناراضی والے لہجے میں اسے مخاطب کیا: ’’گلیشیئر میں ہماری ملاقات کرسٹل سے ہوئی تھی۔ یاد ہے نا آپ کو وہ۔ شکر ہے کہ اب وہ آزاد ہے لیکن آپ آخر کیسے اتنے طویل عرصے کے لیے اسے گلیشیئر کے اندر رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ وہ گلیشیئر تو ویسے بھی تقریباً ٹوٹنے والا تھا اور ایسا ہوتا تو کرسٹل آزاد ہو جاتی اور زمرد بھی کھو جاتا۔‘‘
جیفری یہ سن کر چونک اٹھا: ’’اوہ تو آپ کرسٹل سے ملے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس بات کا مجھے خیال تک نہ آیا کہ وہ اس پر ناخوش ہوگی۔‘‘ اس نے اپنی بھوری آنکھیں فیونا پر جما کر کہا: ’’یہ بہت پرانی بات ہے، لیکن مجھے افسوس ہے اس پر اور میں معذرت خواہ ہوں اس کے لیے۔‘‘
جونی نے مداخلت کی اور کہا کہ جبران اور دانیال کو لانے کا وقت ہے تاکہ اگلے قیمتی پتھر کے لیے جایا جا سکے۔ اس کے بعد وہ مائری اور فیونا کو لے کر اینگس کے گھر سے نکل گیا۔ وہ جبران کے گھر پہنچے تو مائری نے شاہانہ اور بلال سے درخواست کی کہ وہ جبران اور دانیال کو اینگس کے ہاں کچھ دیر کے لیے لے جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مہمانوں کو چائے کی پیش کش کی لیکن وہ جلدی میں تھے، جبران اور دانیال کو لے کر واپس ہو لیے۔ بلال نے جونی سے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آئے تاکہ شکار پر نکلیں۔ بلال نے کہا کہ وہ انھیں بندوق کے ساتھ بطخ کا شکار سکھائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ہرن، خرگوش اور تیتر بھی ہاتھ آ سکیں۔ جونی نے بھی جلدی میں ہامی بھر لی۔
(جاری ہے….)