Tag: رفیع اللہ میاں ناول
-
ایک سو اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
جیزے کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا، اس نے کتاب نیچے رکھ دی اور جا کر دروازہ کھول کر کہا: ’’تم نشے میں ہو، جاؤ گھر چلے جاؤ۔‘‘
-
ایک سو اسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
مائری مک ایلسٹر کی آنکھ کھلی تو بارش برس رہی تھی، وہ بستر سے اٹھیں اور کھڑکی پر سے پردے ہٹا دیے۔ انھوں نے جیسے ہی کھڑکی کھولی بارش سے بھیگی مٹی کی خوش بو کمرے میں بھر گئی۔ نہانے سے قبل انھوں نے کچن میں جا کر چائے کے لیے پانی چڑھایا، اور کمرے میں جھانک کر دیکھا تو جونی سو رہا تھا۔ مائری نے سوچا کہ آج جونی کو خریداری کے لیے لے جاؤں گی تو سیکڑوں سال قدیم یہ آدمی یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ آج جدید دور میں ان کے اختیار میں کیا کیا آ چکا ہے۔فیونا اوپر سے نیچے آئی تو ناشتے کا پوچھنے لگی، مائری نے کہا ناشتے میں آج پین کیک اور روغنی میٹھی ٹکیا ویفلز ملیں گے، وہ سن کر خوش ہو گئی لیکن بارش دیکھ کر ہمیشہ کی طرح پریشان ہو کر منھ بنانے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ جونی اور جیزے کے ساتھ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے ناشتے کی چیزیں بالکل نئی تھیں، انھوں نے حیرت سے لیکن مزے لے کر ناشتہ کیا۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ اینگس کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انکل اینگس اور جیفری کرینلارچ کے لیے ٹرین پکڑنے روانہ ہو چکے تھے۔ جیزے کو ابھی تک طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس لیے وہ جاتے ہی بستر پر گر گیا۔ فیونا، جونی، جمی اور جیک کو لے کر مائری شاپنگ کے لیے شہر میں نکل گئیں۔ موسم خاصا سرد تھا تو وہ اونی مصنوعات کی ایک دکان میں گھس گئے جہاں جمی کو اپنی آنکھوں سے میل کھاتا گہرے بھورے رنگ کا ایک اونی جمپر پسند آ گیا۔ جمی نے انھیں بتایا کہ بورل میں انھوں نے ایسے کپڑوں کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا، وہاں تو وہ بس ایک لمبا ڈھیلا سفید رنگ کا چغہ پہنتے تھے اور پاؤں میں سینڈل۔ جمی نے وہ جمپر پہنا تو فیونا سے مسکراتے ہوئے پوچھ بیٹھا: ’’کیا میں اب برطانوی لگ رہا ہوں؟‘‘ فیونا زور سے ہنسی اور اثبات میں سر ہلا دیا، اس نے پرجوش ہو کر کہا ’’کیا آپ مجھے بوریل کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ میں جانتی ہوں کہ یہ جزیرہ نمائے عرب پر واقع ہے جہاں اب یمن ہے۔‘‘
جمی نے گھور کر دیکھا اور کہا کہ یہ ایسی باتیں پوچھنے کی جگہ نہیں ہے، کل اگر یاد دلاؤ گی تو کچھ باتیں بتا دوں گا۔ اس کے بعد سب نے اپنے لیے جمپر پسند کیا اور مائری نے پیسے ادا کر دیے، وہ جمپر پہن کر ہی دکان سے نکلے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے شہر کی ہر چیز حیرت میں مبتلا کر دینے والی تھی، گاڑیاں، ریل گاڑی اور ہر وہ جدید چیز جس کے ذریعے آج کے دور کے انسان نے اپنے لیے زندگی میں بے پناہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ شاپنگ کے بعد وہ دوپہر کے کھانے کے لیے دی ہاگز ہیڈ اِن میں داخل ہو گئے۔ کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل انھوں نے اپنی چھتریاں جھٹک دیں اور کرسی کے ایک طرف ٹکا کر زمین پر رکھ دیں۔ کچن سے آتی بھنے ہوئے گائے کے گوشت، پیاز اور آلوؤں کی مہک نے ان کی بھوک بڑھا دی تھی۔ کھانا کھا کر وہ پھر اینگس کے گھر پہنچ گئے۔
(جاری ہے)
-
ایک سو اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
جونی نے کتاب پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’یہ کتاب ہمیں جادوگروں کے منتروں اور عجیب و غریب جادو کے بارے میں بتاتی ہے، اور اس سے بڑھ کر یہ کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ….. ‘‘
جونی کہتے کہتے رک گیا۔ اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ ناچنے لگی تھی۔ وہ خصوصی طور پر فیونا، جبران اور دانیال پر نظریں جمائے مسکرائے جا رہا تھا۔ وہ تینوں بے چینی سے پہلو بدل کر نہایت غور سے جونی کی طرف ہمہ گوش ہو گئے تھے اور اس وقت تینوں کے منھ تجسس کے مارے کھلے ہوئے رہ گئے تھے۔
’’جلدی بتائیں نا پلیز۔‘‘ فیونا مچل کر بول اٹھی۔ ’’تم نے تو ہم سب کو تجسس میں ڈال دیا ہے جونی۔‘‘ مائری سے بھی رہا نہ گیا۔
جونی نے سر ہلا کر کہا: ’’ٹھیک ہے بتاتا ہوں، میں سمجھا کہ شاید آپ میں سے کوئی سمجھ جائے گا لیکن خیر یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ زیلیا کا راستہ کس طرف ہے اور وہاں کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘ فیونا، جبران اور دانیال حیرت اور خوشی کے مارے چیخ اٹھے۔
’’شان دار …. سنسنی خیز … زیلیا کی مہم تو بہت دل چسپ رہے گی۔‘‘ فیونا نے کہا اور یہ بات باقی دونوں کے دل کی بھی آواز تھی۔
جونی نے کہا: ’’ہاں، لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے اس کتاب کو ڈریٹن اور پہلان سے چھپا کر رکھنی ہے … ہر حال میں … اگر یہ کتاب ان کے ہاتھ لگ گئی تو پتا ہے کیا ہوگا؟ یہ کتاب آپ کی اس دنیا کو، ہماری دنیا کو الٹ پلٹ سکتی ہے۔‘‘
یہ سن کر وہ تینوں پریشان نظر آنے لگے۔ ایسے میں اینگس نے کام کی پوچھی: ’’جونی کیا تم زیلیا کی زبان پڑھ سکتے ہو؟‘‘
جونی نے جواب دیا: ’’نہیں لیکن ہم بارہ آدمیوں میں سے ایک اسے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اسے یہاں پہنچنے میں ابھی کافی وقت ہے۔ اس کا نام بون ٹابی ہے۔ ہم میں صرف اسی کو زیلیا کی زبان پڑھنا آتا ہے۔ ہمیں اس کتاب کی حفاظت کرنی ہے جیسا کہ ہم جادوئی گولے کی کرتے آ رہے ہیں۔ اس وقت تک جب تک وہ یہاں آ کر ہمارے ساتھ نہ مل جائے۔‘‘
اینگس کہنے لگے: ’’یہ ساری تفصیلات بہت دل چسپ ہیں اور بہت ساری باتیں مزید ہو سکتی ہیں لیکن بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب ان بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا زیادہ ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے والدین ان کے پریشان ہوں گے۔ فیونا اور مائری تم دونوں بھی اب گھر جاؤ۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو ستاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
وہ اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑی ہو گئی اور مسرت سے چیخ مارتی دوڑی اور ممی کے گلے میں جھول گئی۔ ’’اوہ ممی، کتنی شان دار خبر سنائی ہے آپ نے۔‘‘
’’قلعے میں رہائش کا تو مزا ہی الگ ہوگا۔‘‘ جبران نے ایک شان دار سجے ہوئے قلعے کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن فیونا ہم ایک دوسرے سے بہت دور ہو جائیں گے۔‘‘
فیونا نے دیکھا کہ اس کے دونوں دوستوں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ اداسی کا سایہ بھی پھیل گیا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ مائری نے ان تینوں کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے مسکرا کر کہا: ’’ہم تمھیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ تم اور تمھارے والدین بھی ہمارے ساتھ قلعے میں منتقل ہوں گے۔ ہم ان سے درخواست کریں گے کہ وہ ہمارے ساتھ قلعے میں منتقل ہو جائیں۔ اگر انھوں نے پھر بھی انکار کیا تو ہم ان سے کہیں گے کہ وہ کم از کم تم دونوں کو قلعے میں رہنے کی اجازت دیں۔‘‘
فیونا یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور ممی کا اس بات پر شکریہ ادا کرنے لگی کہ وہ اس کے دوستوں کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ جبران اور دانیال بھی پرجوش ہو گئے تھے اور پرامید تھے کہ دونوں میں سے کوئی ایک بات ہو جائے گی۔ یعنی یا تو وہ سب فیونا کے ساتھ منتقل ہو جائیں گے یا صرف ان دونوں کو قلعے میں عارضی طور پر رہنے کی اجازت مل جائے گی۔
قلعے میں منتقلی کی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ کافی دیر سے خاموش رہنے والے اینگس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: ’’ مائری تم بھول رہی ہو کہ یہ سب کرنے کے لیے پہلے قانونی اجازت ضروری ہے۔‘‘ پھر مائری کو پریشان دیکھ کر خود ہی کہا: ’’لیکن کوئی بات نہیں، میں کل جا کر سرکاری کاغذات کے سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد اینگس نے جونی کو مخاطب کیا: ’’اور ہم اس دوسری کتاب کے بارے میں سننے کے لیے بے چین ہیں، تم نے کہا ہے کہ یہ زیلیا کی زبان میں لکھی گئی ہے؟‘‘
جونی نے کتاب ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا: ’’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ زیلیا ہماری اس دنیا کا حصہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ ہم میں سے کوئی بھی وہاں نہیں جا سکتا کیوں کہ وہ صرف جادوگروں کے لیے ہے۔ غیر جادوگر وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیلیا کسی اور رخ پر ہے۔ مطلب یہ کہ ہم دائیں بائیں، اوپر نیچے، سامنے پیچھے کے رخ سے واقف ہیں لیکن ہم انسانوں نے ابھی تک دماغ کی پوری صلاحیت کو استعمال کرنے پر قدرت حاصل نہیں کی ہے اس لیے ہمارے لیے ایسی باتیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا دماغ اس میں الجھ جاتا ہے کہ ان سمتوں کے علاوہ کوئی اور سمت کیسے اور کہاں ہو سکتی ہے۔ ہاں، میں تم لوگوں کو کچھ باتیں ضرور بتا سکتا ہوں جو جادوگر زرومنا نے مجھ سے کہی تھیں۔ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں نہایت شفاف پانی کے دریا بہتے ہیں اور جو ننھے بلبلوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو پانی سونے کی طرح چمک اٹھتا ہے اور دریا ایسے لگتے ہیں جیسے سونا پگھل کر بہہ رہا ہو۔ وہاں درختوں پر ایک ہی طرح کے اور ایک ہی سائز کے پتے نکلتے ہیں جنھیں حشرات کھاتے نہیں ہیں۔ پھول ایسے رنگوں میں کھلتے ہیں جنھیں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ یہ اتنے شوخ اور چمکیلے ہوتے ہیں کہ اگر عام آدمی ان رنگوں کو دیکھ لے تو اندھا ہو جائے۔ پرندے اتنے نغمگی کے ساتھ گاتے ہیں کہ سننے والا سحر زدہ ہو جائے لیکن ہم انھیں نہیں سن سکتے۔ ہمارے وہ صرف چہچہاہٹ ہوگی اور جادوگروں کے لیے ایک نہایت مسرت بخش نغمہ۔ وہاں جانور پرامن طور پر مل جل کر رہتے ہیں۔ پھل بے تحاشا اگتے ہیں، شہد ہر میز پر رکھتے ہر برتن سے بہتا ہے۔‘‘
جونی زیلیا کے متعلق عجیب و غریب معلومات بیان کرتے کرتے رکا تو جبران سے رہا نہ گیا، فوراً بول اٹھا: ’’تو اتنی شان دار جگہ جادوگر چھوڑنے پر کیوں تیار ہو جاتے ہیں؟‘‘
جونی مسکرایا: ’’جادوگر صرف دو وجوہ پر زیلیا چھوڑتا ہے۔ ایک وجہ یہ کہ اس پر شیطانی حرکتوں کی وجہ سے پابندی لگا دی جائے، دوم یہ کہ وہ دوسروں کی خدمت کا جذبہ اور خواہش لے کر وہاں سے نکلے۔ اکثر جادوگر زیلیا ہی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہیں پر خوش رہتے ہیں۔ بچپن میں وہ اسکول ساحری میں داخل ہو کر جادو کے طور طریقے سیکھتے ہیں۔‘‘
جونی نے مزید بتایا کہ زیلیا میں پیدائش ہی سے بچوں کو صحیح اور غلط کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے، اس لیے اکثر جادوگر انسانوں کی دنیا سے دور رہنا چاہتے ہیں لیکن ان میں سے چند مہم جو قسم کے جادوگر بھی ہوتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کی دنیا میں جا کر ضرورت مندوں کے کام آئیں۔ پہلان اور چند دیگر جادوگروں نے ان تعلیمات کو قبول نہیں کیا اور شیطانی اور باغیانہ حرکتوں کے باعث ہمیشہ کے لیے زیلیا سے نکالے گئے۔ وہ زمین پر چلے آئے اور یہاں شیطان صفت لوگوں کو تلاش کر کے ان کی خدمت پر لگ گئے۔
جونی چپ ہوا تو فیونا بول اٹھی: ’’بہت دل چسپ باتیں ہیں، یہ کتاب کیا کہتی ہے؟‘‘جاری ہے۔۔۔
-
ایک سو چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جونی نے مائری کو جواب دیا کہ ایسا ممکن ہے، چند ماہ کے اندر قلعے کو رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ جب مائری نے قلعے کے باغات سے متعلق بات کی تو جونی نے انھیں بتایا کہ ان بارہ افراد میں سے ایک جولیان ہے جو باغبان تھا اور یہ کہ وہ اس قلعے کو بہت کم وقت میں بحال کر سکتا ہے۔ دونوں قلعے کی تزئین کے فیصلے پر متفق ہو گئے۔ قلعے میں مکڑیوں اور سرنگوں کا بھی مسئلہ تھا جن کے بارے میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں بھر دیا جائے گا اور یہ طے کر وہ اندر چلے گئے تاکہ باقی سب کو بھی اس سے آگاہ کر دیں۔ وہ سب جادوئی چمکتے دمکتے گولے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ مائری نے سب کو مخاطب کیا کہ وہ کچھ بولنا چاہتی ہے۔ سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن جیسے ہی انھوں کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا، دروازے پر دستک سنائی دی۔ سب نے ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اینگس بولے میں دیکھتا ہوں۔ انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو باہر ایک اجنبی کھڑا تھا۔ پانچواں اجنبی!
اینگس اسے دیکھ کر پہلے جو جھجکے اور پھر اسے بھی اندر لے آئے۔ سب اس کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آتے ہی بولا: ’’مجھے کیٹر کہتے ہیں۔ اوہو آرٹر، کووان، پونڈ، آلرائے تم چاروں کیسے ہو، کیا ہو رہا ہے یہاں؟‘‘
’’بیٹھ جاؤ کیٹر۔‘‘ جونی نے گہری سانس لی۔ ’’یہ اینگس ہے، اس گھر کا مالک اور یہ مائری، یہ ان کی بیٹی فیونا، اور یہ دونوں اس کے دوست دانیال اور جبران۔ ان بچوں نے قلعہ آذر میں جادوئی گولے کو ڈھونڈ نکالا تھا اور یہ تینوں اب قیمتی پتھر جمع کرنے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ یہ ابھی کچھ ہی دیر قبل زمرد حاصل کر کے آئے ہیں اسی لیے تم زرومنا کے وعدے کے مطابق وقت کی گزرگاہ سے ہو کر یہاں آئے ہو۔ ہم ایک ایک کر کے ظاہر ہو رہے ہیں۔‘‘
جونی کی وضاحت سن کر وہ بولا: ’’قلعہ آذر وہی جگہ ہے نا جو میں نے تلاش کی تھی۔ یہ کون سا سال ہے؟‘‘ وہ ان کے لباس دیکھ کر پوچھ بیٹھا۔
’’دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ میں ہیں۔ کنگ کیگان ہم سے جدا ہونے کے بعد اسکاٹ لینڈ آئے تھے اور یہاں اس قلعے کو تعمیر کیا تھا۔ مائری اور فیونا ان کے وارث ہیں۔‘‘ جونی نے اسے بتایا۔
ایسے میں اچانک جیک نے اسے مخاطب کیا: ’’آج کے بعد تمھارا نام جیفری ہے کیوں کہ ہمارے قدیم نام اس دور میں بہت عجیب لگتے ہیں۔لوگ سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے ابھی مزید کچھ سننے کو ملے گا فی الحال مائری کچھ کہنے جا رہی ہیں، انھیں سنتے ہیں۔‘‘
جیفری نے اثبات میں سر ہلایا، اسی لمحے اس کی نظر ہار پر پڑی۔’’اوہو، یہ تو ملکہ سمانتھا کا ہار ہے۔‘‘جونی بولا ’’ہاں یہ میں نے دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ ملکہ سمانتھا بھی یہی چاہتی۔ بہرحال، تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم نے بھی اپنے نام تبدیل کیے ہیں۔ میں جونی ہوں، کووان جمی ہے، پونڈ جیزے ہے اور آرٹر کا نام جیک ہے۔‘‘
مائری نے کھانس کر سب کو پھر اپنی طرف متوجہ کیا، اور جیفری کو مخاطب کر کے بولیں: ’’تم دوسروں سے مختلف نظر آ رہے ہو، تمھاری آنکھیں نیلی ہیں اور بال ہلکے رنگ کے ہیں۔‘‘ جیفری نے اس پر بتایا کہ اس کے والد گال کے رہنے والے تھے اور والدہ عرب تھیں بورل کی۔ جیفری پھر بورل کے بارے میں بتانے لگا: ’’گال لوہے کے زمانے میں مغربی یورپ کا ایک علاقہ تھا، جو فرانس، لگزمبرگ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ، شمالی اٹلی، نیدرلینڈز اور جرمنی پر مشتمل تھا۔‘‘
مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے میں سمجھ گئی، اب میں کچھ کہنا چاہتی ہوں، دراصل میں قلعہ آذر کی نئے سرے سے آرائش اور مرمت کرنے کا سوچ رہی ہوں تاکہ ہم وہاں منتقل ہو سکیں۔‘‘یہ سن کر فیونا اچھل پڑی۔ اس کے لیے یہ خبر سب سے زیادہ سنسنی خیز تھی۔
(جاری ہے)
-
ایک سو پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جونی یادداشتوں میں جیسے ڈوب گیا تھا، وہ بولتا گیا: ’’پہان بھی وہیں رہتا تھا لیکن وہ شیطان کے جھانسے میں آ گیا اور لالچ کے مارے غلط راستے پر چل پڑا۔ اور پھر اس کے زیلیا میں داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد اس نے کنگ دوگان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا۔ بس، اس کے بعد ہی مسائل پیدا ہونے لگے۔ اس کے پردادا بارتولف بھی ایک جادوگر تھا، مجھے اس وقت اس کا نام صحیح طور سے یاد نہیں آ رہا ہے، مجھے کتاب میں دیکھنا پڑے گا۔‘‘
ناول کی پچھلی اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
جونی کہتے کہتے خاموش ہوا تو مائری نے کھڑے ہو کر کہا: ’’جونی، یہ سب تو بس ایک کہانی ہی ہے، مجھ سے تو اتنی ساری باتیں ہضم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔ جادوگر، شہنشاہ اور شیطان صفت لوگ … یہ سب تو قصے کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے کچھ دیر کے لیے باہر کھلی ہوا میں جانا چاہیے، ورنہ مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔ حقیقت میں ایسی چیزیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئیں۔
جونی نے کتاب بند کی اور اٹھتے ہوئے کہا: ’’میں اس کتاب کے بارے میں بعد میں بتاؤں گا، ابھی مجھے لگتا ہے کہ مائری کو سمجھانا ضروری ہے۔‘‘
وہ باہر نکلا تو مائری صنوبر کے درخت کے پاس کھڑی ہوا میں اڑنے والی بطخوں کی ڈار کو دیکھ رہی تھیں۔ بطخیں وی کی شکل میں جھیل کی طرف اڑ رہی تھیں۔ جونی نے کہا: ’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ایک عام انسان کے ساتھ اس طرح کی عجیب و غریب اور خطرناک واقعات ہونے لگتے ہیں تو وہ پریشان ہو جاتا ہے، اسے یقین نہیں آتا۔ حالاں کہ سب کچھ اس کے سامنے کھل کر آ جاتا ہے۔‘‘
مائری نے کہا: ’’مجھے بدمزاج مت سمجھنا پلیز، تم ٹھیک نے کہا، ایسا ہی کچھ ہوا ہے میرے ساتھ۔ یہ فضا دیکھو، ہوا میں صنوبر کی مہک، فضا میں بطخوں کی قیں قیں، اور ہوا کی کی یہ نرم لہریں مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہیں اور ان سے لطف اٹھاتی ہوں۔‘‘ جونی مسکرایا اور ایک ہار ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا: ’’یہ دیکھو، قدیم ہار، یہ ملکہ سرمنتھا کا ہار ہے، انھیں بہت پسند تھا، آپ یہ پہنیں گی تو آپ کو یہ سب سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘‘
مائری نے نیکلس پہنا تو انھیں ایسے لگا جیسے وہ واقعی شاہی خاندان کی وارث ہیں۔ اچانک مائری خواب آلود لہجے میں بولیں: ’’جونی، ابھی کچھ دیر قبل میں قلعہ آذر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ مجھے پاگل مت سمجھنا لیکن میں چاہتی ہوں کہ قلعہ آذر میری ملکیت میں آ جائے۔ وہ میرے آبا و اجداد سے تعلق رکھتا ہے، میں اسے صاف ستھرا کر کے اس میں منتقل ہونا چاہتی ہوں۔ لیکن تب ہی ممکن ہوگا جب ہم جھیل لوچ کی بلاؤں سے نجات حاصل کر لیں۔‘‘
’’ارے وہاں کوئی بلا نہیں ہے۔‘‘ جونی نے قہقہہ لگایا۔ ’’وہ تو ڈریٹن اور پہلان نے لوگوں کو قلعے سے دور رکھنے کے لیے تماشے دکھائے تھے، ورنہ جھیل تو بہت پرسکون ہے۔ جہاں تک قلعے کا تعلق ہے تو اس میں بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ہاں اب تم اکیلی نہیں ہو تمھاری مدد کرنے والے بہت سارے لوگ آ چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی قلعہ آذر میں ایک بار پھر رہائش کا خیال بہت جوش دلاتا ہے۔‘‘
’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ مائری کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ تصور میں خود کو قلعہ آذر میں کسی ملکہ کی طرح گھومتے پھرتے دیکھنے لگیں۔
’’میں سوچ رہی ہوں کہ ہمیں وہاں بجلی اور پانی کے انتظامات کرنے ہوں گے۔ قلعے کو اندر سے گرم رکھنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑے گا اور جگہ جگہ بننے والے سوراخوں کو بند کرنا ہوگا۔ کیا ہم یہ کر سکیں گے؟‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈالرز جیبوں میں ٹھونسنے کے بعد ڈریٹن نے وہاں مزید رکنا بے کار سمجھا۔ اسے یقین تھا کہ فیونا اور اس کے دوست زمرد حاصل کر چکے ہوں گے، لہٰذا وہ ایک عمارت کے پیچھے گیا اور غائب ہو گیا، اس کے بعد اس نے خود کو مک ایلسٹر کے گھر میں کھڑے پایا۔ آس پاس نظر دوڑانے کے بعد اس نے کود کلامی کی، مجھے جا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ تینوں بدمعاش قیمتی پتھر حاصل کر چکے ہیں یا نہیں۔ اور پھر وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ کھڑکی کے نیچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر وہ اندر جھانکنے لگا اور دیکھا کہ زمرد آ چکا ہے۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔
۔۔۔وہ تینوں جیسے اینگس کے گھر میں نمودار ہوئے، فیونا کی ممی مائری بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ’’شکر ہے تم سلامت لوٹ آئے۔‘‘ اینگس نے کہا میں نے کہا تھا کہ یہ بس تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آئیں گے۔ انھیں فیونا تھکی تھکی لگی۔ فیونا نے جیب سے زمرد نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔ جبران نے بھی گلے سے کیمرہ اتار کر واپس کر دیا۔ اینگس نے ان کی داستان سننے سے قبل زمرد رالفن کے گولے میں رکھنا ضروری سمجھا، اور وہ سب گولہ لے کر دیوان خانے میں آ گئے۔ اینگس نے پتھر جیسے ہی جادوئی گیند میں مخصوص خانے میں رکھی، باقی تین پتھروں کی مانند زمرد بھی جھلملانے لگا، اور انھوں نے اس کی روشنی دھیرے دھیرے تیز ہوتے دیکھی۔
’’بہت شان دار۔‘‘ جمی نے کہا: ’’مجھے یاد ہے یہ اُس وقت بھی ایسا ہی تھا جب کنگ کیگان نے گولے سے انھیں ہٹایا اور ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک دیا۔ آج ہم یہاں اسکاٹ لینڈ میں ایک چھوٹے سے گھر میں پھر اکھٹے ہو گئے ہیں اور وہی جادوئی گیند ہمارے سامنے ہے۔‘‘
جیک نے کہا: ’’یہ سب کچھ بہت عجیب ہے لیکن ہے ناقابل فراموش۔‘‘ دیگر افراد نے بھی اس کی تائید کی، تب جیک نے چونک کر کہا: ’’جونی، ہم نے جو دوسری کتاب حاصل کی ہے، وہ ان کو دکھانی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تکیے کے نیچے سے کتاب نکال لی۔
’’ایک اور کتاب؟‘‘ سب سے پہلے اینگس چونکے۔ ’’کیا یہ بھی پہلی والی کتاب کی طرح ہے؟‘‘
جونی نے کہا: ’’اینگس یہ جو کتاب تمھارے سامنے میز پر دھری ہے، یہ میری ہے۔ میں نے جو دیکھا، سنا اور محسوس کیا، وہ سب اس میں درج کر دیا۔ جب کہ یہ دوسری کتاب جادوگر زرومنا سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
جونی نے جیک کے ہاتھ سے دوسری کتاب لی اور اینگس کے پاس بیٹھ کر کہا: ’’دیکھو، یہ دونوں کتابیں اوپر سے ایک جیسے لگتی ہیں۔ یہ چمڑے، لکڑی اور سونے سے تیار کی گئی ہیں اور دونوں زرومنا نے بنائی ہیں۔ لیکن اندر سے یہ مختلف ہیں۔ میں نے اپنی کتاب قدیم سیلٹک زبان میں لکھی ہے جب کہ زرومنا نے اپنی کتاب اپنے علاقے زیلیا کی زبان میں لکھی ہے، اور یاد رہے کہ پہلان جادوگر کا تعلق بھی زیلیا سے تھا۔‘‘
ایسے میں خاموش بیٹھی ہوئیں مائری نے اچانک مداخلت کی: ’’زیلیا؟ یہ کہاں ہے؟‘‘
’’یہ جادوگروں کی سلطنت ہے لیکن مجھے نہیں پتا کہ یہ کہاں واقع ہے۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تمام جادوگر وہیں سے آئے تھے۔‘‘ جونی نے بتایا: ’’جادوگر زرومنا نے زیلیا سے آ کر کنگ رالفن سے درخواست کی تھی کہ اسے ان کا خاص جادوگر مقرر کیا جائے اور رالفن نے یہ درخواست قبول کر لی۔ تم لوگوں نے اس کے قتل کی کہانی تو سن ہی لی ہے، اسی طرح کنگ کیگان کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، بہت با رعب تھا وہ، شان دار شخصیت والا۔ اس کے بال لمبے اور گہرے بھورے تھے۔ دور سے لگتا تھا کہ سیاہ ہیں جو اس کے شانوں پر لہراتے تھے۔ وہ سر پر نوک دار جامنی رنگ کی ٹوپی پہنتا تھا اور اس کا عجیب و غریب ڈیزائنوں سے بھرا چوغہ فرش کو چھو رہا ہوتا تھا۔ اس کی ناک لمبی لیکن آنکھیں موتیوں کی طرح چمکتی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کی آنکھیں سفید تھیں، اس کی پتلیاں بھی رنگین نہیں تھیں، بس سفید اور چمک دار تھیں۔ اس نے ہمیں زیلیا کے بارے میں بتایا تھا، میرے خیال میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا جا سکتا ہے۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیں
شین نے انھیں ان کے ہوٹل پر اتار دیا۔ اترتے ہی جبران بولا: ’’اب ہمیں فوری طور پر گھر جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس اپنی اپنی چیزیں پوری ہیں، تو دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ فیونا نے بھی کہا کہ اب گھر چلتے ہیں۔ دانیال نے پوچھا: ’’کیا ہمیں اُس مقام پر نہیں جانا پڑے گا جہاں ہم پہلی بار نمودار ہوئے تھے؟‘‘’’نہیں۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’پہلے میں بھی ایسا سمجھتی تھی لیکن اب مجھے پتا چل گیا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، بس صرف اُسی علاقے میں ہمیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟‘‘ جبران نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’بس ہو گیا معلوم۔‘‘ اس نے کندھے اچکا کر کہا ’’اب دریائے یوکان کی طرف چلو۔‘‘
جب وہ دریا کے پاس آئے تو انھیں بہت سارے لوگ گیلے کپڑوں کے ساتھ ملے، جن کے چہرے سرخ ہو رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سب دریا میں خوب نہائے ہوں۔ جبران نے کہا: ’’گلیشیئر سے جو سیلابی ریلا آیا تھا کیا یہ سب اس میں بھیگے ہیں، کیا اتنی دور تک وہ ریلا آیا ہوگا؟‘‘
’’ہو سکتا ہے۔‘‘ فیونا بولی: ’’میرے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔ گھر جانے کا وقت آ گیا ہے۔ میں واپسی کا منتر پڑھنے لگی ہوں۔‘‘
فیونا نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر ایک دم کھول کر دھڑکتے دل کے ساتھ منتر پڑھنے لگی …. دالث شفشا یم بِٹ …
(جاری ہے…)
-
ایک سو باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
دریائے یوکان پر لوگوں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ وائٹ ہارس آنے والے اکثر سیاح سونا چھاننے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکال رہے تھے۔ ان میں سے ایک ڈریٹن بھی تھا جس نے کرائے پر چھلنی خریدی تھی اور پھر دریا کے کنارے ایک جگہ منتخب کر کے ریت چھاننے بیٹھ گیا تھا۔ اس کے ایک طرف امریکا سے آئی ہوئی ایک فیملی بیٹھی تھی اور دوسری طرف ادھیر عمر میاں بیوی بیٹھے ریت چھان رہے تھے۔ڈریٹن کافی دیر سے جھک کر دریا میں چھلنی ڈال کر نکالتا تھا اور چھاننے کے بعد اس میں ریت اور کنکر کے سوا کچھ نہ پاتا تھا۔ سونے پر سہاگا، اس کے ایک طرف بیٹھی فیملی کے لوگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد خوشی سے چیخ اٹھتے تھے کیوں کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی اپنی چھلنی میں سونے کی چمک دار ڈلی موجود پاتا۔ یہ دیکھ کر وہ جلن اور حسد کے مارے تپنے لگا۔ دیگر لوگ بھی دریا کنارے بیٹھے کبھی کبھی مسرت بھری چیخ کے ساتھ اچھل پڑتے تھے، اور ڈریٹن کو آگ لگ جاتی تھی۔
وہ غصے کے مارے سوچنے لگا کہ آخر وہ ہی کیوں ناکام ہو رہا ہے۔ باقی سب کو سونے کے ڈلے مل رہے ہیں اور وہ مسلسل محروم ہے۔ وہ اٹھا اور اپنی کمر سیدھی کرنے لگا، کیوں کہ وہ کافی دیر سے اکڑوں بیٹھا تھا، اس لیے اس کی کمر، گردن اور گھٹنے درد کرنے لگے تھے۔ اس نے دریا کنارے لوگوں پر ایک نگاہ ڈال کر زیر لب کہا: ’’تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے اب دوسرے پلان پر عمل کرنا ہوگا، ٹھیک ہے تو شروع ہو جاؤ ڈریٹن!‘‘
وہ چہل قدمی کرتے ہوئے قریب بیٹھی فیملی کے پاس سے گزرنے لگا تو قصداً پھسل کر گرنے کی اداکاری کی اور اس دوران ایک بچے کو دھکا دے کر اس نے دریا میں گرا دیا۔ بچے کے والدین اور بہن بھائی اپنی اپنی چھلنی ہاتھوں سے گرا کر گھبراتے ہوئے اسے بچانے دوڑے۔ جب کہ ڈریٹن نے اطمینان کے ساتھ ان کے ایک جگہ جمع کیے گئے سونے کے ڈلے اپنی جیب میں منتقل کر دیے۔ جب فیملی والے بچے کو نکال کر بھیگے ہوئے اپنی جگہ پر آئے تو سونا غائب پا کر افسوس کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ ڈریٹن نے اگلے ایک گھنٹے میں بھرپور کارروائیاں کیں اور کئی لوگوں کو سونے کے ڈلوں سے محروم کر دیا اور پھر بھری جیبوں کے ساتھ قریبی بینک جا کر رقم کے عوض سونے کے ڈلوں کا تبادلہ کر لیا۔ جب وہ بینک سے نکلا تو کئی ہزار کینیڈین ڈالرز سے اس کی جیبیں پھولی ہوئی تھیں۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی تو خود کو صاف ستھرا پا کر خوش ہوا اور کرسٹل کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس نے کرسٹل سے کہا کہ اپنا جادو باقی دونوں پر بھی آزماؤ ورنہ وہ ٹھنڈ کے مارے جم جائیں گے۔ کرسٹل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ہاتھ ایک بار پھر بلند کر کے جھٹکا دیا۔ اگلے لمحے جبران اور فیونا لٹو کی مانند گھومنے لگے، اور جب دونوں رکے تو پوری طرح خشک ہو چکے تھے۔ تینوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، وہ محفوظ بھی تھے اب اور ان کے پاس قیمتی پتھر بھی آ چکا تھا۔ کرسٹل نے آزادی کے لیے فیونا کا شکریہ ادا کیا اور پھر رخصت لے کر گلیشیئر کی بلندی کی طرف چلی گئی۔ جبران نے گہری سانس لی اور کہا: ’’یہ دوسری پری تھی، پہلی والی نے آئس لینڈ میں ہماری مدد کی تھی اور یہ والی، اگرچہ ہمیں قید رکھنا اس کی ذمہ دار تھی لیکن یہاں ہماری مدد کر کے گئی ہے۔‘‘
’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ اس بار ہم کسی جزیرے پر نہیں آئے۔ یعنی یہ وائٹ ہارس کوئی جزیرہ نہیں ہے۔‘‘ دانیال نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ فیونا بولی: ’’لگتا ہے پریوں اور جزیروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ بے چاری پری کتنی دور آ کر پھنس گئی تھی۔ ویسے اگر چند اور پریاں ہماری مہم میں ہم سے ملیں تو کچھ برا تو نہیں۔‘‘ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر زمرد کی موجودی کو محسوس کیا: ’’شکر ہے زمرد میری جیب سے گرا نہیں۔ میرے خیال میں اب شَین کو ڈھونڈا جائے، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘
’’وہ تو ہمارے لیے بہت پریشان ہو رہا ہوگا۔‘‘ دانیال نے کہا۔ تینوں اس طرف چلنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ شین دور ایک گھاس والی چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھا ہے۔ انھیں دیکھتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر کچھ کہنے لگا۔ قریب پہنچنے پر ہی انھیں معلوم ہوا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
’’کہا مر گئے تھے تم لوگ۔ میں نے کتنا تلاش کیا تم تینوں کو اور تمھارا سامان کہاں ہے؟‘‘ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔
’’اگر ہم بتائیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔‘ فیونا نے معصوم بن کر جواب دیا: ’’مثلاً یہ کہ نوکیلے دانتوں والے قدیم ٹائیگر نے ہمارا پیچھا کیا تھا اور گلیشیئر کے بڑے بڑے ٹکڑے ہم پر گرے تھے اور ہم موت کے منھ سے بال بال بچے، اور گلیشیئر کے اندر بند جھیل بڑے غلط موقع پر دیوار توڑ کر ہمیں بہا کر لے جانے والی تھی لیکن ہم اس میں بھی بچ گئے۔‘‘’’یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو۔ نوکیلے دانتوں والا ٹائیگر، گلیشیئر کا ٹوٹنا، کیا تم جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادی ہو۔ اب تم میرے ساتھ ہی رہو گے سب لیکن تم لوگ بھاگ کر کیوں گئے تھے۔ میں تو کوئی زیادہ دور نہیں گیا تھا، جلد ہی پلٹ آیا اور تم تینوں کو غائب پایا۔ تم نے یقیناً مجھے دھوکا دیا تھا۔‘‘
وہ بولتا ہی جا رہا تھا اور تینوں سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر مزید کچھ بولیں گے تو شین کا پارہ مزید چڑھے گا لہٰذا خاموش رہے۔ جب اس کا غصہ اتر گیا تو نرمی سے بولا: ’’چلو شکر ہے کہ تم تینوں سلامت ہو، میں تو واپس جا کر ریسکیو ٹیم کو لانے کی سوچ رہا تھا۔‘‘
’’ہم معذرت خواہ ہیں مسٹر شَین!‘‘ فیونا نے بہ مشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل ہماری عادت ہے کہ ہم والدین کو بھی اسی طرح اکیلے چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے ہیں۔‘‘
تینوں چپ چاپ جیپ میں بیٹھ کر وائٹ ہارس کی طرف چل پڑے۔ شین نے کہا کہ تم نے بیگ کھو دیے ہیں جس کے لیے اضافی رقم دینی ہوگی۔
(جاری ہے…)