Tag: رفیع اللہ میاں ناول

  • ایک سو سینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جبران اُبلے ہوئے انڈے کا ایک ٹکڑا منھ میں رکھتے ہوئے بولا: ’’مجھے تو اب بھی بڑی تھکن محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
    ’’میں بھی تھکی ہوئی ہوں۔‘‘ فیونا نے بتایا: ’’ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ جب ٹھندا پانی ڈریٹن کے منھ پر پڑا ہوگا تو اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی، کاش ہم دیکھ سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی۔
    ’’مجھے لگتا ہے اب وہ ہمارے ساتھ کچھ اور برا کرے گا، میں نے نوٹ کیا ہے کہ وہ ہم سے بہت خار کھاتا ہے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا اور کیک کا ٹکڑا منھ میں ڈالا۔
    ’’ہاں، وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن وہ مجھ سے زیادہ قوتیں نہیں رکھتا۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ تینوں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ دانیال نے کہا کہ یہ بات تو ہے کہ اگر اس کی مدد ایک شیطان جادوگر کر رہا ہے تو ہمارے مدد کے لیے بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں۔ فیونا نے اپنا خیال پیش کیا کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا بھی ان کی مدد کر رہا ہے لیکن کس طرح، یہ بھی واضح نہیں ہے۔ ناشتہ کر کے وہ اٹھے تو آٹھ بج رہے تھے۔ جب وہ مقررہ مقام پر پہنچے تو شَین ایک نیلے رنگ کی فور وھیل ایس یو وی کے ساتھ کھڑا ان کا منتظر تھا۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی چہکا: ’’تم بالکل وقت پر پہنچے ہو، میں تینوں کے لیے الگ الگ سامان تیار کرا دیا ہے۔ اس میں اسنیکس، فلش لائٹس، رسیاں، پانی اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں شامل ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم تینوں موسم کے مطابق لباس پہنا ہے یہ اچھا ہے، آج موسم کی پیش گوئی اگرچہ ہمارے حق میں ہے تاہم سردی بڑھ سکتی ہے۔‘‘
    تینوں نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ فیونا نے بٹوہ نکال کر پوچھا: ’’اس پر کتنا خرچہ آئے گا، مجھے امید ہے کہ آپ کو برطانوی کرنسی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ہمارے پاس اس وقت یہی کرنسی ہے۔‘‘

    ’’نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ شین نے اسے رقم بتائی جو فیونا نے ادا کر دی اور پھر گاڑی کلونی نیشنل پارک کی طرف چل پڑی۔

    ڈریٹن نے انھیں جاتے دیکھ لیا تھا لیکن ان کا پیچھا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ تینوں قیمتی پتھر حاصل کر کے لے آئیں گے۔ اس نے سوچا کہ یہ وقت کیسے گزارا جائے، تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے دریائے یوکان کے کنارے سونا چھاننے کا فیصلہ کیا لیکن سردی بہت تھی اس لیے اس نے ایک مقامی دکان کا رخ کر لیا تاکہ دستانے، بوٹ اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں چرائی جا سکیں۔ اسے خریدنا نہیں آتا تھا، بس چوری کرنے ہی کی عادت تھی ہمیشہ سے یا چھیننے کی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو چھیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    وہ تینوں گھنٹہ بھر بیٹھے رہے پھر کمرے میں چلے آئے۔ انھیں نیند آ رہی تھی اور اگلے دن انھیں بہت مصروف گزارنا تھا، اور پتا نہیں کیا واقعات پیش آئیں، جب کہ ڈریٹن کی طرف سے بھی خطرہ موجود تھا، تاہم انھیں یہ امید بھی تھی کہ ڈریٹن اب ان کے راستے میں مزید نہیں آئے کیوں کہ ایک بار اس نے ان کے کمرے میں تباہی مچا کر اپنے نفس کو تسکین پہنچا دی تھی۔ وہ بستر پر لیٹتے ہی سو گئے۔ رات کا کوئی پہر تھا جب دانیال کی نیند ٹوٹی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں اچانک تیز ہو گئی تھیں، اس نے گھبرا کر جبران اور فیونا کو آوازیں دے کر جگا دیا۔
    ’’اٹھو … جبران، فیونا … اٹھو، میں نے کچھ عجیب آوازیں سنی ہیں۔‘‘ وہ دونوں گہری نیند سے اٹھے اور آنکھیں ملنے لگے۔ ’’کیا ہوا دانی؟ تم نے اتنی رات گئے کیوں جگا دیا؟‘‘ فیونا بولی اور تکیے سے ٹیک لگا لیا۔
    دانیال نے بتایا کہ اس نے ایک آواز سنی تھی، جیسے کوئی کھڑکی کھرچ رہا ہو۔ جبران نے یہ سن کر اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر دیکھا۔ اس نے کھڑکی بھی کھول کر نیچے دیکھا لیکن کچھ نہیں تھا۔
    ’’دانی، کھڑکی پر ہوا کی وجہ سے آوازیں پیدا ہوئی ہوں گی۔ کچھ نہیں ہے، سو جاؤ۔‘‘ جبران نے کہا اور واپس بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ فیونا نے بھی سونے کے لیے کہہ دیا۔ انھیں سوئے ہوئے بھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ دانیال کی آنکھ ایک بار پھر کھل گئی۔ آواز اب کہ بہت واضح طور پر سنائی دی تھی، اس نے پھر فیونا کو جگا دیا۔
    ’’میں نے آواز سنی ہے، میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا، کھڑکی کے باہر ضرور کچھ ہے۔‘‘
    ’’اوہو، دانی تم ہمیں سونے نہیں دو گے، تمھیں وہم ہو رہا ہے۔‘‘ فیونا نے اس بار جھنجھلا کر کہا۔ لیکن دانیال بہ ضد تھا، اس نے تجویز بھی دی کہ فیونا کچھ دیر یوں ہی لیٹی رہی اور سوئے نہ، وہ آواز ضرور سن لے گی۔ فیونا نے ہامی بھر لی اور تکیے سے ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد کھڑکی پر کھرچنے کی آواز آئی تو وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ اس کا دل بھی تیز تیز دھڑکنے لگا۔ آدھی رات کو کھڑکی پر کوئی پراسرار آواز کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ بستر سے اترتے ہوئے بولی: ’’جیسے ہی آواز دوبارہ آئے گی ہم کھڑکی کھول کر باہر دیکھیں گے، آؤ تم بھی۔‘‘
    وہ دونوں کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ جبران کی نیند بھی دوبارہ ٹوٹ گئی تھی، وہ انھیں کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھ کر وجہ پوچھنے لگا۔ فیونا نے بتایا کہ دانی کا کہا ٹھیک تھا۔ جبران کا خیال فوری طور پر بھوت کی طرف چلا گیا، اس نے بھوت کا ذکر کیا تو فیونا نے اسے گھور کر کہا چپ رہا، یہ ڈریٹن کی حرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن دانیال نے حیرت سے پوچھا کہ اتنی اونچائی پر دانیال کیسے کھڑکی تک پہنچ سکتا ہے۔ فیونا نے اسے یاد دلایا کہ وہ بھی قد بڑھا سکتا ہے، اور وہ ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ایسے میں فیونا کو اچانک خیال سوجھا۔ اس نے جبران سے باتھ روم سے برف کے پانی والی بالٹی منگوا لی۔ وہ تیار کھڑے تھے، جیسے ہی شیشے پر کھرچنے کی آواز سنائی دی، دانیال نے کھڑکی کھول دی۔ وہاں واقعی ڈریٹن تھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، جبران نے اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی بالٹی الٹ دی۔
    انھیں ڈریٹن کی بے ساختہ چیخ سنائی دی۔ ٹھنڈا پانی اس کے چہرے پر پڑا تو وہ ایک دم حواس باختہ ہو گیا اور فوراً سکڑ کر اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔ دانیال نے کھرکی پھر بند کر دی اور تینوں خوشی سے کمرے میں ناچنے لگے۔ ’’واؤ، ہم نے اس شیطان کو مزا چکھ ا دیا!‘‘ جبران اور فیونا قہقہے لگانے لگے۔ انھیں اطمینان ہوا کہ اب ڈریٹن انھیں پریشان کرنے کی مزید جرات نہیں کرے گا۔ کچھ دیر بعد وہ پھر بستروں میں گھس گئے۔ رات کے تین بج رہے تھے، کچھ ہی دیر میں تینوں نیند کی وادی میں گم ہو گئے۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو چوالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چوالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    منیجر غصے سے چلایا: ’’یہ تم لوگوں نے کمرے کا کیا حشر کر دیا ہے، اتنی گندگی … اُف … مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔‘‘ اس نے باتھ روم میں بھی جا کر دیکھا۔ وہ سخت حیران بھی تھا اور اسے شدید غصہ بھی آ رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں نے اپنی زندگی میں اس قسم کی خوف ناک بے ہودگی نہیں دیکھی، تم لوگوں کو اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔‘‘

    ’’مسٹر براؤن، یہ ہم نے نہیں کیا، ہم باہر سے ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئے ہیں۔‘‘ فیونا نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بتایا۔ لیکن منیجر غرا کر بولا: ’’مجھے بے وقوف مت سمجھو، میں روم سروس سے بات کر چکا ہوں، تم نے کھانے کے لیے آرڈر دیا تھا۔ جس ویٹر نے کھانا پہنچایا تھا اس نے کہا تھا کہ تمھارے بڑے بھائی نے آرڈر دے کر یہاں اس کمرے میں کھانا وصول کیا۔‘‘
    ’’میرا کوئی بڑا بھائی نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غصے میں آ کر پیر فرش پر مارا۔ ’’کوئی یہاں اندر آیا تھا اور اس نے دھوکے سے کھانا منگوایا اور یہ سب کیا اس نے۔‘‘
    ’’کچھ بھی ہو، یہ کمرہ تم لوگوں کی ذمہ داری ہے، تمھیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ میں تم لوگوں کو ایک اور کمرہ دے دوں گا لیکن رش بہت ہے، صرف ایک کمرہ ہی رہ گیا ہے جو کہ سوٹ ہے اور اس کا کرایہ دگنا ہے۔‘‘
    ’’مسٹر براؤن!‘‘ دانیال نے غصے سے کہا: ’’یہ گندگی ہم نے نہیں پھیلائی ہے لیکن ہم اس کی ادائیگی کر دیں گے، مگر اچھی طرح سنیں کہ آپ اچھا نہیں کر رہے ہیں ہمارے ساتھ۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ منیجر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ’’آئیں میرے ساتھ، جو جو چیز خراب ہو گئی ہے، اس کی فہرست بنا کر میں تمھیں جرمانے کی رقم بتاؤں گا اور پھر تم نے نئے کمرے کا کرایہ ادا کرنا ہے۔‘‘
    وہ تینوں اس کے پیچھے چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد وہ نئے کمرے میں موجود تھے۔ یہ سوٹ تھا اور انھیں پسند آ گیا تھا لیکن تینوں کا دل خراب ہو رہا تھا، ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی تھی۔
    ’’چلو، چھت پر جا کر آرورا بوریلس دیکھتے ہیں اور اس شام کو جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، اسے بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا تو انھوں نے خاموشی سے اپنا اپنا کوٹ اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو تینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    تینوں نے نورِ فجر دیکھنے سے قبل کمرے میں جا کر غسل لینے کا فیصلہ کیا اور میز پر بل کے ساتھ ویٹرس کے لیے ٹپ بھی چھوڑ دی اور اوپر آ گئے۔ فیونا نے دروازے کے تالے میں چابی گھمائی اور دروازہ جیسے ہی کھلا، سڑی بد بو کا ایک جھونکا آیا اور وہ تینوں اچھل پڑے۔

    ’’یہ کیسی بد بو ہے؟‘‘ فیونا پریشان ہو گئی۔ ’’ارے یہ آوازیں کیسی ہیں؟‘‘ دانیال تیزی سے باتھ روم کے بند دروازے کی طرف بڑھا: ’’ایسا لگتا ہے کہ اندر پرندے ہوں۔‘‘
    انھوں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا، بہت ہی برا حشر بنا تھا کمرے کا۔ بد بو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ وہ چٹکی سے ناک دبانے پر مجبور ہو گئے تھے، اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد انھیں سانس لینے کے لیے ناک کھولنی پڑ رہی تھی۔ دانیال نے باتھ روم کے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی اور کہا: ’’مجھے لگتا ہے اندر کبوتر بند ہیں، غٹر غوں کی آوازیں آ رہی ہیں، کیا میں یہ دروازہ کھول دوں؟‘‘ اس نے دونوں کی طرف دیکھا۔
    جبران نے حیران ہو کر کہا: ’’لیکن کبوتر اندر کیسے آ گئے! کیا تم دونوں میں سے کسی نے کھڑکی کھلی چھوڑ دی تھی؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بستر پر بچھے ہوئے کمبل پر بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی فوراً اچھل پڑا۔ ’’اس میں کچھ ہے، مجھے چپچپا سا محسوس ہوا۔‘‘
    دانیال اور فیونا بستر کے قریب آ گئے: ’’تم کمبل اٹھا کر دیکھو، نیچے کیا ہے؟‘‘ دانیال نے کہا۔
    ’’نن … نہیں۔‘‘ جبران گھبرا کر بولا: ’’پپ … پتا نہیں اندر کوئی لاش نہ ہو۔‘‘ فیونا نے منھ بنا کر کہا یہاں کسی لاش کا کیا کام، بستر میں کوئی لاش ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے میں دانیال کی آواز آئی، تو پھر باتھ روم میں کبوتر کہاں سے آ گئے؟ فیونا کو یہ سن کر غصہ آ گیا، اور انھیں ڈرپوک کا طعنہ دے کر آگے آئی اور کمبل کا ایک کونا پکڑ کر اسے الٹ دیا۔ اس کے نیچے کھانا پھیلا کر پورے بستر اور تکیوں کا ستیاناس کیا گیا تھا۔ فیونا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ’’اب سمجھ آ گیا، یہاں کوئی داخل ہوا تھا اور کھانا بستر پر ڈال کر گندگی پھیلا کر چلا گیا، میں ابھی منیجر سے بات کرتی ہوں۔‘‘
    ٹھہرو فیونا، پہلے باتھ روم کا جائزہ تو لیں۔‘‘ دانیال نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی کبوتر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے اور وہ تینوں خود کو ان سے بچانے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ باتھ روم کے فرش اور دیواروں پر شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اور کبوتر کی بیٹ جا بہ جا پڑی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر فیونا کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ ’’میں سمجھ گئی ہوں، یہ سب اس خبیث ڈریٹن کی حرکت ہے، اسی نے آ کر یہ سب کیا ہے۔‘‘
    ’’لیکن فیونا، تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو، کیا پتا کہ یہاں ہمارے کسی نادیدہ دشمن نے ایسا کیا ہو۔‘‘ دانیال بولا۔
    ’’میں ابھی معلوم کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور کبوتروں کو ٹیلی پیتھی کے ذریعے مخاطب کیا: ’’کبوترو، تم جہاں سے آئے ہو، وہاں واپس چلے جاؤ، اور یہ بتاتے جاؤ کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
    ایک کبوتر نے جواب دیا کہ انھیں ڈریٹن نے حکم دیا تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ڈریٹن اپنی شیطانی قوت سے انھیں نقصان پہنچا دیتا۔ کبوتر نے فیونا کا نام لے کر معذرت بھی کی، جس پر فیونا حیران ہوئی کہ اسے نام کیسے معلوم ہوئے۔ کبوتر نے کہا پرندے فطرت کا حصہ ہوتے ہیں، جب کوئی ان سے بات کرتا ہے تو فطرت انھیں اس کا نام بتا دیتی ہے، اور یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا اور ڈریٹن مکمل شیطان ہے۔ فیونا نے یہ سن کر سر ہلایا اور پھر کھڑکی کھول دی، سارے کبوتر اڑ کر باہر چلے گئے۔
    وہ تینوں اس واقعے سے سخت غصے میں تھے، فیونا انٹرکام پر ہوٹل کے منیجر کو اطلاع دینے لگی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو بیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    سارے دن کے سیر سپاٹے کے بعد تینوں خوب تھک گئے تھے۔ بھوک زوروں پر تھی، فیونا نے پوچھا کہ پہلے کمرے میں جا کر نہایا جائے یا پیٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ دانیال نے کہا کہ اس کے پیٹ میں تو چوہوں نے تیسری عالمی جنگ برپا کر دی ہے، اس لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ جبران نے بھی تائید کر دی اور ساتھ میں امید ظاہر کی کہ ہوٹل کا ریستوران کچھ ڈھنگ کا ہوگا۔ تینوں ہوٹل کی لابی سے گزر کر ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے۔ یہ ایک کمرہ نما جگہ تھی جہاں دس میزیں ادھر ادھر لگائی گئی تھیں۔ ہر میز پر ایک ایک موم بتی روشن تھی اور ساتھ ایک ننھا مسالہ بھرا بارہ سنگھا رکھا ہوا تھا۔ دیواروں پر بارہ سنگھے اور ریچھوں کے بڑے بڑے سر نکلے ہوئے تھے۔ جبران نے انھیں دیکھ کر برا منھ بنایا اور کہا: ’’کوئی بارہ سنگھا یا ریچھ مرا ہوگا تو انھوں نے اس کی کھال کے اندر چیزیں بھر کر انھیں یہاں لٹکا دیا۔‘‘
    ’’میرے خیال میں یہ حقیقی نہیں ہیں، مینو دیکھ کر اپنے لیے ڈش پسند کرو۔‘‘ فیونا نے کہا۔
    دانیال بولا: ’’میں تو بارہ سنگھے کی پسلیاں اور ہرن کا قورمہ اور اس کے ساتھ یوکان کے گولڈ پوٹیٹو، گرم ڈبل روٹی اور موزبیری جیلی کا آرڈر دوں گا۔‘‘ جبران آنکھیں دکھا کر بولا: ’’اس کے لیے انھیں ایک بارہ سنگھا اور ہرن مارنا پڑے گا۔‘‘
    فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’جبران، میں تو اود بلاؤ کی بُھنی ہوئی دم کھانے جا رہی ہوں۔ ہاں، مجھے پتا ہے کہ کسی غریب اود بلاؤ نے اپنی جان دی ہوگی، اس کے بعد کہیں جا کر اس کی دم میرے حصے میں آئے گی۔ لیکن یہ ہے دل چسپ۔ ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ میں بھی یوکان کے گولڈ پوٹیٹو وِد ڈبل روٹی منگواؤں تو اچھا رہے گا۔ سائیڈ میں نرم بٹر مِلک بسکٹ اچھے رہیں گے۔‘‘
    جبران نے منھ بنایا اور کہا: ’’میں صرف پوٹیٹو، بٹر ملک اور سلاد لوں گا۔‘‘ تھوڑی دیر جب ویٹرس آئی تو فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ پڑھ کر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’مس روتھ، کیا یہ موز بیری جیلی بارہ سنگھے کی ہے؟‘‘ ویٹرس نے جواب دیا: ’’نہیں، یہ کرابیری سے بنائی جاتی ہے، ہم اسے موز بیری اس لیے کہتے ہیں تاکہ سیاح اس میں دل چسپی لیں۔‘‘
    ویٹرس آرڈر لے کر چلی گئی اور وہ تینوں خاموشی سے کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ دیواروں پر سونے کی کانوں کے دنوں کی تصاویر لٹکی ہوئی تھیں۔ کھانا ختم کرنے کے بعد جب ویٹرس نے فیونا کو بل دیا تو پوچھنے لگی کہ کیا وہ تینوں پہلی بار وائٹ ہارس آئے ہیں۔ فیونا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ اس سے قبل ہم یہاں کبھی نہیں آئے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آج رات آرورا بوریلس ضرور دیکھیں، یہ ایک رنگین نظارہ ہوتا ہے۔ فیونا نے کہا کہ اس نے یہ نظارہ اسکاٹ لینڈ میں بھی دیکھا ہے لیکن ویٹرس کا کہنا تھا کہ اتنا روشن نظارہ اور کہیں نہیں ہوتا۔ روتھ نے بتایا کہ انھیں بس اتنا کرنا ہے کہ آج رات اس ہوٹل کی چھت پر پہنچ جانا ہے، جہاں ہوٹل کے مہمانوں کے لیے نشستیں رکھوائی گئی ہیں۔دانیال نے اس کے جاتے ہی آرورا بوریلس کے بارے میں پوچھ لیا۔ فیونا بتانے لگی کہ زمین پر شمال بعید کے علاقے میں جو نارتھ پول کہلاتا ہے، وہاں سورج سے برقی ذرات خارج ہو کر جمع ہو جاتے ہیں، جس سے روشنی کی رنگین پٹی بن جاتی ہے۔ یہ روشنیاں آرورا بوریلس یعنی انوارِ قطبی کہلاتی ہیں۔ اور اس کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آرورا قدیم روم کی ایک دیوی کا نام ہے جو فجر کی دیوی کہلاتی ہے۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو چالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    دانیال نے جلدی سے لقمہ دیا: ’’اور میں دیکھ رہا ہوں کہ نوکیلے دانتوں والا ایک ٹائیگر اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا اُسے گھور رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ جبران نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا اور ڈپٹ کر بولا: ’’تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔‘‘ دانیال نے جلدی سے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا اور پھر ہنسنے لگا۔ فیونا ان کے دونوں کے درمیان آ کر بولی کہ اب پھر سے جھگڑنے مت لگ جانا۔ اس نے انھیں ایک جگہ آثار قدیمہ کے لیے ہونے والی کھدائی کے بارے میں بتایا جسے اس نے آتے ہوئے دیکھا تھا، اس نے خیال پیش کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کچلی دار یعنی نوکیلے دانتوں والے قدیم شیر کی ہڈیاں دیکھنے کو مل جائیں۔ دونوں تیار ہو گئے، اور دس منٹ بعد ہی وہ آثار قدیمہ کی ایک سائٹ پر موجود تھے، جہاں کھدائی ہو رہی تھی۔ فیونا نے وہاں ایک شخص سے پوچھا: ’’کیا آپ ہمیں ہڈیا وغیرہ دکھا سکتے ہیں؟‘‘
    وہاں موجود شخص نے بتایا کہ یہ جگہ ابھی عام لوگوں کے لیے نہیں کھولی گئی ہے، اگر انھیں پتھر میں بدلنے والی قبل از تاریخ کی باقیات یعنی فوسلز دیکھنے ہیں تو انھیں قریبی میوزیم جانا چاہیے۔ وہ وہاں سے میک برائڈ میوزیم پہنچ گئے۔ دانیال کو سیبر ٹوتھ ٹائیگر کے کرپان جیسے دانت دیکھنے کا شوق تھا، جبران کو میمتھ کی ہڈیاں دیکھنی تھیں جب کہ فیونا کو سونے سے بنی قدیم اشیا۔ تینوں اپنی اپنی پسند کی چیزیں دیکھنے لگے۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہاں تو یوکان میں پائے جانے والے سونے کی پوری تاریخ موجود ہے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہاں گھڑ سوار شاہی پولیس ہوا کرتی تھی، اب معلوم ہو رہا ہے کہ کینیڈا کی پولیس گھڑ سوار پولیس کہلاتی ہے۔‘‘
    وہ اس وقت ایسے لوگوں کی تصاویر دیکھ رہی تھی جو دریا کنارے گھٹنوں پر بیٹھے پراتوں کے ذریعے پانی میں مٹی چھان رہے تھے اور سونا الگ کر رہے تھے۔ جبران نے دیکھا کہ وہاں ایک ایسی لکڑی بھی ہے جو پتھر بن چکی ہے۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    بس اسپیکر سے رینجر کی آواز گونج اٹھی: ’’ہم وائٹ ہارس پہنچ گئے ہیں، ہمارے ساتھ سفر کا لطف اٹھانے کا بہت شکریہ۔‘‘
    ایک ایک کر کے سب بس سے اترنے لگے۔ ڈریٹن کے خراٹوں نے بتایا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ فیونا نے شین سے کہا کہ وہ یاد رکھیں کہ کل گلیشیئرز دکھانے لے جانا ہے۔ شین نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ فیونا نے ڈریٹن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’کاش یہ اگلے سال تک یوں ہی سوتا رہے!‘‘
    تینوں بس اسٹیشن سے نکل کر ٹاؤن کی طرف چل پڑے۔ ’’میرا خیال ہے کہ حسب معمول سب سے پہلے کوئی بینک تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا تو فیونا نے کہا کہ کینیڈا ہونے کی وجہ سے یہاں برطانوی کرنسی چل سکتی ہے، اگر ضرورت پڑی تو بعد میں تبدیل کر لیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہوٹل تلاش کرنا ہوگا، کیوں کہ آج رات یہیں گزارنی ہوگی۔ جبران کے پوچھنے پر کہ آج کون سا دن ہے، فیونا نے کہا: ’’اسکاٹ لینڈ میں اس وقت جمعہ کی سہ پہر ہے تو یہاں یوکان میں جمعہ کی صبح۔‘‘ انھوں نے وہاں ایک قطار میں کئی ہوٹل دیکھے لیکن اب ان میں انتخاب کا مرحلہ باقی تھا۔ تینوں ایک کے بعد ایک ہوٹل دیکھنے لگے لیکن کسی نے بھی انھیں متاثر نہیں کیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہماری عادتیں بگڑ گئی ہیں، سیچلز میں اتنا شان دار ہوٹل دیکھنے کے بعد شاید ہی ہمیں کوئی دوسرا پسند آ جائے۔ چلو، ان میں سے ایک چُن کر اسے اندر سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک سائن بورڈ کی طرف اشارہ کیا: ’’یہ کیسا رہے گا؟ ریورز ایج اِن!‘‘
    تینوں اندر گئے، کاؤنٹر پر فیونا نے برطانوی کرنسی دی تو معلوم ہوا کہ کرنسی کارآمد ہے، تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انھیں ایک کمرے کی چابی دی گئی تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔ جبران نے کاؤنٹر سے اٹھایا ہوا بروشر دکھا کر کہا کہ اس میں وائٹ ہارس سے متعلق کچھ حقائق درج ہیں۔ فیونا نے کہا کہ اسے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی دل چسپ بات ہوگی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے تو یہ دو بستروں پر مشتمل ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ جبران ایک بیڈ پر بیٹھ کر بولا: ’’یہ یوکان کا کیپیٹل ہے اور یہاں کی آبادی صرف 28 ہزار ہے۔‘‘ فیونا دوسرے بیڈ پر چھلانگ مار کر بیٹھ گئی اور کہا: ’’حیرت ہے اتنی پیاری جگہ ہے اور لوگ اتنے کم!‘‘
    ’’آگے تو سنو۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’یہاں کا پرندہ بڑے سائز والا پہاڑی کوا ہے اور یہاں سونے کی تلاش کرنے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ میمتھ یعنی عظیم الجثہ قدیم ہاتھی اور نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز اسی علاقے میں گھومتے پھرتے تھے۔‘‘
    ’’ہاں، یہ ہوئی نا بات۔‘‘ دانیال اچھل کر بولا: ’’میں تو نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز سے ملنا چاہوں گا۔‘‘
    فیونا نے ہوٹل سے باہر نکل کر گھومنے کی رائے دی تو باقی دونوں بھی فوراً تیار ہو گئے۔ وہ دریائے یوکان کے کنارے چلنے لگے، دانیال نے دیکھا کہ دریا میں سالمن مچھلی بہاؤ کی مخالف سمت میں تیر رہی ہے، وہ حیران ہوا تو جبران نے بتایا کہ سالمن ہمیشہ الٹی سمت تیرتی ہے۔ جبران نے ان کے سامنے اپنا ایک عجیب تصور بیان کر دیا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی جسامت والا میمتھ کھڑا ہے، اس کے لمبے لمبے بال لہرا رہے ہیں اور وہ اپنی سونڈ پانی میں ڈال کر پانی پی رہا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو سینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جب رینجر نے ٹرینکولائزر ڈارٹ (بے ہوشی کے تیر) کے ذریعے ریچھ کو مار گرایا تو ڈریٹن کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ لیکن وہ بھی یہ سوچ کر باقی لوگوں میں شامل ہو گیا تاکہ لاپروا دکھائی دے، اور کسی کی نظروں میں نہ آ جائے۔ قریب آ کر اس نے دیکھا کہ فیونا بالکل ٹھیک ہے تو جھنجھلا کر سوچنے لگا کہ یہ منحوس لڑکی ہر بار کسی نہ کسی طرح بچ ہی جاتی ہے۔
    دانیال پر خوف کے مارے بدحواسی طاری ہو گئی تھی۔ وہ بولا: ’’تم ٹھیک ہو نا فیونا؟‘‘ پھر اس نے ریچھ کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’ریچھ نے اچانک تم پر حملہ کیوں کر دیا؟‘‘ اسی وقت قریب ہی کھڑی ایک عورت نے تبصرہ کیا: ’’یہ ضرور بہت قریب چلی گئی ہو گی اور ریچھ نے سمجھا ہوگا کہ کہیں یہ اس کے بچوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
    ’’ریچھ کے بچے …‘‘ جبران کے منھ سے نکلا اور اس نے جلدی سے آس پاس دیکھا تو بے ہوش ریچھ کے دو بچے ماں کی طرف دوڑتے آ رہے تھے۔ قریب آ کر وہ اس کے بال سہلانے لگے۔ جبران نے پھر کیمرہ سنبھالا اور ان کی تصاویر کھینچنے لگا۔
    رینجر نے فیونا کو ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا: ’’تم ٹھیک ہو نا، یہ ریچھ عموماً کسی کو کچھ نہیں کہتے، پتا نہیں اس نے تم پر حملہ کیوں کیا!‘‘
    ایسے میں اچانک فیونا کا خیال ڈریٹن کی طرف چلا گیا تو وہ آس پاس موجود لوگوں میں اسے تلاش کرنے لگی۔ اس کی نظریں ایک لڑکے پر جم گئیں، اس نے اونی ٹوپی سے سر اور گردن کو چھپایا ہوا تھا اور اسے گھور رہا تھا لیکن وہ اس کا چہرہ صاف طور پر نہ دیکھ سکی۔
    ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور اپنے کپڑوں سے مٹی اور ٹہنیاں ہٹانے لگی۔ ’’میں بھیگ گئی ہوں، کیا آپ کے پاس کمبل ہوگا؟‘‘ لوگ وہاں سے چھٹنے لگے اور اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہونے لگے۔ رینجر نے کہا کہ اس کے پاس کمبل نہیں ہے اور وہ وائٹ ہارس واپس جا رہے ہیں اگر وہ بھی ان کے ساتھ جائیں تو ہیٹر کے قریب بیٹھ سکیں گے۔ رینجر نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے ان تینوں کو بس میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
    فیونا نے رینجر کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور وہ تینوں بس میں چڑھ کر سب سے آگے بیٹھ گئے، باقی مسافر ایک ایک کر کے چڑھنے لگے تو فیونا ہر ایک کو بہ غور دیکھنے لگی۔ جب ڈریٹن چڑھا تو اس نے گردن جھکائی ہوئی تھی۔ فیونا اسے دیکھتی رہی، وہ بس کی پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا اور سیٹ پر اس طرح ٹانگیں پھیلا کر لیٹا کہ دور سے نظر نہیں آ رہا تھا، فیونا نے جبران کو اشارہ کیا: ’’یہ لڑکا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، وہ جو پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔‘‘ جبران اور دانیال دونوں نے مڑ کر اس طرف دیکھا تو فیونا بڑبڑائی: ’’یہ ڈریٹن ہے، میں اسے خوب جانتی ہوں۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو چھتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن کو سردی کے جھونکے نے موسم کا مزاج سمجھا دیا۔ اس نے کوٹ کی جیب سے اونی ٹوپی نکال کر ایسے جمائی کہ گردن بھی اس میں چھپ گئی۔ اس نے نگاہیں دوڑائیں تو کچھ فاصلے پر توقع کے عین مطابق وہ تینوں اسے نظر آ گئے۔ اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے سوچا، چلو فیونا کو ذرا یہ تو سمجھا دوں کہ یہاں اس کے ساتھ کیا کچھ پیش آسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اب اس کو بھی جانوروں سے باتیں کرنے والی طاقت مل چکی ہے، اس لیے اس نے ایک وحشی ریچھ کو فیونا پر حملہ آور کروانے کا سوچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک ریچھ فیونا کی طرف بڑھنے لگا ہے، اس نے ریچھ کو حکم دیا کہ جاؤ اور اس لڑکی کی آنکھیں اپنے پنجوں سے نکال کر پھینک دو!
    فیونا اُس وقت گلیشیئرز کا تصور کر کے گھاس پر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی اور گال سہلا رہی تھی جس پر مچھروں نے جا بہ جا کاٹ لیا تھا۔ وہ دریا کی طرف گئی اور ٹھنڈے، برفیلے پانی سے چہرہ دھویا تاکہ کاٹنے سے ہونے والی کھجلی کچھ کم ہو جائے۔ وہ جیسے ہی جھکی، اسے اپنے پیچھے لوگوں کے چلانے کا شور سنائی دیا۔ اس نے جلدی سے سر اٹھا کر دیکھا، ایک وحشی ریچھ اس کی طرف دوڑتا چلا آ رہا تھا اور اس کے دانتوں میں ایک سالمن مچھلی پھنسی ہوئی جھول رہی تھی۔ قریب آ کر وہ رکا اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر بھیانک آواز میں دھاڑنے اور گرجنے لگا۔
    اسے جبران کی آواز سنائی دی: ’’فیونا، بھاگو وہاں سے!‘‘ یہ کہہ کر وہ کیمرہ آنکھ سے لگا کر تصویر اتارنے لگ گیا۔ دوسری طرف فیونا جہاں کھڑی تھی وہاں بت بن گئی تھی۔ ریچھ کسی بھی لمحے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ سکتا تھا۔ فیونا کو لگا کہ موت اس سے چند قدموں کے فاصلے پر آ گئی ہے اور اس بار وہ اپنا بچاؤ کرنا بھی بھول گئی۔ یکایک ریچھ نے دھاڑنا بند کر دیا اور وہ جھول کر پانی میں جا گرا۔ فیونا کو لگا کہ ریچھ اس پر آ رہا ہے، اس لیے وہ خوف کے مارے پیچھے کی طرف جا گری۔ دور کھڑا پارک رینجر، جس نے بے ہوش کرنے والا تیر پھینک کر ریچھ کو بے ہوش کر دیا تھا، دوڑتا ہوا آ گیا۔ اس کے ساتھ جبران اور دانیال اور دیگر لوگ بھی دوڑتے ہوئے آ رہے تھے۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو پینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھیں‌
    فیونا کے پیر دریا کے برفیلے پانی میں بھیگ گئے تھے۔ بھورے بالوں والے ریچھ، جن میں سے کچھ کا قد چھ فٹ اونچا تھا اور چند چھوٹے، ننھے بچے دکھائی دے رہے تھے، تیز رفتار پانی کے درمیان کھڑے تھے اور سالمن مچھلیوں کا انتظار کر رہے تھے کے پانی میں بہتے ہوئے آ کر ان کے کھلے منھ میں پہنچ جائیں۔
    فیونا نے سردی محسوس کی تو شکر ادا کیا کہ وہ کوٹ لے کر نکلے تھے۔ وہ تینوں دریا سے دور جاتے ہوئے سرکنڈے کی جھاڑیوں کی طرف بڑھے۔ ایسے میں دانیال بولا: ’’ہم الاسکا میں ہیں، میں نے ایک تصویر میں ریچھ کو منھ میں مچھلی پکڑے دیکھا تھا، اور یہ الاسکا کی تھی۔‘‘ جبران نے کہا کہ وہ الاسکا میں نہیں ہو سکتے، کیوں کہ فہرست میں جن جگہوں کا ذکر ہے یہ ان میں سے ہے ہی نہیں، یہ شاید الاسکا کے قریب کی کوئی جگہ ہے۔ فیونا بولنے لگی: ’’ہم یوکان میں ہیں جو الاسکا کے ساتھ ہی ہے۔ اس علاقے کا نام اسی دریا کے نام پر ہے یعنی یوکان، جو الاسکا کی زبان وِچِن کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے سفید پانی کا دریا، اور یہ یوکان اور الاسکا دونوں جگہ بہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اچانک اپنے گال پر تھپڑ مار دیا۔ ’’اُف، ان مچھروں کا کیا کریں، یہ تو کروڑوں کی تعداد میں ہیں، ہمارے ہاں کے مچھر تو ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔‘‘
    جبران نے بھی بھنبھناتے مچھروں کے غول پر ہاتھ مار کر اسے منتشر کرنے کی ناکام کوشش کی اور کہا: ’’پانی کو دیکھو، یہ دریا ہے یا مچھروں کی چادر تنی ہوئی ہے!‘‘
    ان تینوں سے کچھ فاصلے پر سیاح اپنے کیمروں سے ریچھ کی تصاویر لے رہے تھے۔ جبران نے فیونا سے کیمرہ لیا اور کہا: ’’میں ذرا جنگلی پھولوں کی تصاویر لے لوں۔‘‘
    ’’کیا مطلب ہے تمھارا!‘‘ دانیال تیز لہجے میں بولا: ’’پھولوں کی تصویر تو تم گھر پر بھی لے سکتے ہو، جب کہ یہ بھورے بالوں والے ریچھ ہم پھر نہیں دیکھ پائیں گے۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا کر کہا اور ریچھوں اور مچھلیوں کی چند تصاویر بنانے کے بعد پھولوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ’’یہ دیکھو، یہ بالکل بنفشہ کی طرح کے پھول ہیں۔‘‘ وہ ایک پھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: ’’یہ دراصل روغنی پھول ہے جس کے پتوں پر لیس دار مادہ ہوتا ہے اور یہ حشرات کو پکڑ لیتے ہیں، یہی حشرات ان پودوں کی غذا ہے۔‘‘
    دانیال یہ سن کر حیران ہوا: ’’تمھارا مطلب ہے کہ یہ پودے کیڑے کھاتے ہیں؟‘‘ وہ دل چسپی سے ان کیڑے خور پودوں کو دل چسپی سے جھک کر قریب سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بتایا کہ یہ بٹروارٹ کہلاتے ہیں۔ فیونا نے انھیں ٹوکا کہ زمّرد ڈھونڈنے جانا ہے۔ جبران نے وہاں موجود پیلے رنگ کے قطبی گل لالہ کی ایک تصویر بنائی۔ دانیال ریچھوں کو دیکھنے کے لیے دریا کی طرف چلا گیا جب کہ فیونا خشک گھاس والی ایک جگہ دیکھ کر وہاں گئی اور بیٹھ گئی۔ اس نے آنکھیں موند لیں تو تصور میں ایک بہت بڑا گلیشیئر نظر آیا۔ نیلی برف میں سے بڑے بڑے ٹکڑے ٹوٹ کر الگ ہو رہے تھے، اور تب اس نے ان کی تہہ میں زمرد کو دیکھ لیا۔
    (جاری ہے)