Tag: رفیع اللہ میاں ناول

  • ایک سو چونتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چونتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن کو ہوش آیا تو اس نے خود کو غار کے فرش پر پایا۔ وہ بیٹھنے لگا تو درد کے مارے اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے آہستہ آہستہ پہلے دایاں ہاتھ اٹھایا، پھر بایاں اور دونوں ٹانگیں۔ پھر خوش ہوا کہ بدن میں کچھ ٹوٹا نہیں تھا۔ اس نے غار کے سرے کی طرف دیکھا تو یہ ایک ڈھلوان راستہ تھا۔ وہ اٹھنے لگا تو اس کے ساتھ ہی تمام بدن سے ٹیسیں بھی اٹھنے لگیں۔ ہر ٹیس پر اس کے منھ سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکلتیں۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ اسے بے ہوش ہوئے دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔

    ’’پتا نہیں کون سی سرنگ محفوظ ہے ۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میں یہاں سے نکل کر سب سے پہلے اس چڑیل اور اس کے تمام دوستوں کو موت کے گھاٹ اتاروں گا۔‘‘ غصے سے اس کی ناک کے نتھنے پھول پچک رہے تھے اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اسے جزیرے کے کنارے پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ لگا۔ جھیل پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کشتی نظر نہیں آئی۔ اس نے غصے کے عالم میں پیر پٹخے اور پہلان کا نام لے کر چلایا: ’’اب تم بتاؤ پہلان، میں اس جزیرے سے کس طرح نکلوں؟‘‘
    اگلے لمحے غیر متوقع طور پر جھیل کے گہرے پانیوں سے ایک گونجتی آواز اٹھی: ’’تیر کر جاؤ!‘‘
    ڈریٹن بہت تلملایا لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس سے بہ مشکل چلا جا رہا تھا، بہرحال وہ پانی میں اتر گیا، کمر تک پانی آیا تو اس نے غوطہ لگایا۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا، تیرتے ہوئے جھیل پر کرنی پڑی۔ پانی سے نکل کر وہ بری طرح کپکپانے لگا، عادت کے مطابق اس کے منھ سے بڑبڑاہٹ نکلی: ’’ہائے یہ ٹیسیں … اب میں سیدھا اینگس کے گھر جاؤں گا اور ان سب کو موت کی نیند سلا دوں گا، اور وہاں بیٹھ کر گرم گرم چائے پیوں گا۔‘‘
    وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، اس کے قدموں تلے خشک پتے کڑکڑا رہے تھے اور خزاں کی ہواؤں نے اس کے گیلے کپڑے اس کے بدن کے ساتھ چپکا دیے تھے۔ جب وہ کھڑکی کے پاس پہنچ کر جھانک رہا تھا تو عین اسی وقت وہ تینوں منتر پڑھنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔
    ’’یہ تو نکل گئے۔‘‘ اس نے دانت کچکچائے۔ اس نے دیکھا کہ وہ سب آپس میں ہنسی مذاق کرنے لگے ہیں اور کیک اور پیسٹری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس نے سوچا اگر میں اس گھر کو آگ لگا دوں اور ان سب کو جلا کر راکھ کر دوں تو ان کے ساتھ وہ جادوئی گولہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ نہیں مجھے صبر سے کام لینا چاہیے، وہ وقت بھی آ جائے گا جب میں سب سے پہلے اس لڑکی فیونا کا تیاپانچہ کروں گا۔ وہ سوچتی ہے کہ میرا مقابلہ کر سکتی ہے، ہونہہ …!‘‘
    اسی طرح کی باتیں سوچتا، وہ جون اور سوزان مک ایلسٹر کے گھر واپس پہنچ گیا۔ پچھلا دروازہ ایک لات سے کھولا اور اندر پہنچ کر گیلے کپڑے اتار کر پھینکنے لگا۔ نہانے کے بعد وہ کپڑوں کی الماریاں دیکھنے لگا تاکہ کچھ پہن سکے، اور جینز اور براؤن ٹی شرٹ کے ساتھ ساتھ ہائیکنگ بوٹ پسند کر کے پہن لیے۔ جون مک ایلسٹر کا سائز اس پر پورا آ گیا تھا۔ باتھ روم سے قینچیاں بھی مل گئیں، جن کی مدد سے اس نے بال تراش کر چھوٹے کر دیے اور کٹے ہوئے بال سِنک میں ڈال دیے۔ اس کے بعد کانوں سے بالیاں نکال کر آئینے میں اپنا سراپا دیکھا اور سوچنے لگا کہ اب وہ لوگ اسے نہیں پہچان سکیں گے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ تینوں اس بار کس جگہ پہنچے ہوں گے، کوئی ٹھنڈی جگہ نہ ہو، مجھے کوٹ بھی لے لینا چاہیے، دیکھنا تو چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سوچ کر اس نے ایک کوٹ کا انتخاب کیا، اسے پہنا اور جیب تھپتھپا کر رقم کی موجودگی کو محسوس کیا اور پھر منتر پڑھا۔ اگلے لمحے وہ غائب ہو گیا اور اس نے خود کو ایک دریا کے بیچ میں کھڑے پایا۔ اس نے کناروں پر نگاہیں دوڑائیں، وہاں شمال مغربی امریکا کے نہایت وحشی، بھورے بالوں والے ریچھ ادھر ادھر پھر رہے تھے!
    (جاری ہے…)
  • ایک سو تینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابلِ ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ’’مجھے نہیں لگتا اینگس، کہ یہ سب ٹھیک ہے۔‘‘ مائری تشویش کے عالم میں کہنے لگیں: ’’یہ بہت خطرناک لگتا ہے۔ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا؟ اگر میں نے انھیں جانے دیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔‘‘
    فیونا، جس کا منھ ونیلا کیک سے بھرا ہوا تھا، جلدی جلدی کیک نگل کر بولی: ’’ممی، ہمیں کچھ نہیں ہوگا، میں کتنی مرتبہ آپ سے کہہ چکی ہوں۔ انکل، آپ انھیں وہ جادوئی گولا کیوں نہیں دکھاتے!‘‘
    ’’ہاں، تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ اینگس نے سَر ہلاتے ہوئے کہا اور جادوئی گولا لا کر مائری کو دکھایا۔ ’’یہ دیکھو، یہ ہے رالفن کا گولا، کیا یہ شان دار نہیں ہے!‘
    مائری نے حیرت کے ساتھ جادوئی گیند ہاتھوں میں لے کر دیکھی۔ ’’شان دار، یہ بہت خوب صورت ہے، اس میں لگے قیمتی پتھر تو دم بہ خود کر دیتے ہیں، اور ان کے اندر جو ڈریگن بنے ہوئے ہیں، ان کا تو جواب نہیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہوا؟‘‘
    اس بار جونی نے لب کشائی کی: ’’ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو جانے دیتے ہیں، اس دوران ہم آپ کو اس گیند سے متعلق سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ انھیں جانے کے بعد بس چند ہی منٹ لگیں گے اور یہ واپس بھی آ جائیں گے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ جمی نے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’بھئی، اس بار ہو سکتا ہے کہ تم لوگ کسی ٹھنڈے مقام پر پہنچو، اس لیے اپنے کوٹ ساتھ لے کر جاؤ۔ یاد ہے نا کہ ہائیڈرا گرم مقام تھا، آئس لینڈ ٹھندی جگہ تھی اور سیچلز پھر گرم جگی تھی، تو اب ٹھنڈے مقام کی باری ہے۔‘‘
    اینگس بھی ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولے: ’’ٹھہرو، تم لوگوں کو بھوک بھی لگ سکتی ہے، اس لیے بیگ میں بسکٹ ڈال کر جاؤ، اور تمھارے پاس رقم بھی ہے یا نہیں؟‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جیب سے نوٹ نکال کر فیونا کی طرف بڑھائے۔ ’’یہ بھی رکھ لو، اور یہ کیمرہ بھی، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تمھاری مہم کی تصویری جھلکیاں بھی دیکھ سکیں۔‘‘
    مائری نے فیونا کے بیگ میں پانی کی بوتل بھی رکھ دی۔ ایسے میں جونی بھی پیچھے نہیں رہا، اس نے جیب سے قیمتی بریسلٹ نکال کر کہا: ’’فیونا، یہ ملکہ عالیہ کا پسندیدہ کڑا تھا۔ یقیناً وہ جان کر خوش ہوں گی کہ اسے تم نے پہنا، کیوں کہ تم ان کا خون ہو۔‘‘ جونی نے کڑا فیونا کی کلائی میں پہنا دیا۔ ’’دیکھو، کتنا پیارا لگ رہا ہے۔‘‘
    فیونا نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بولی: ’’اب ہمیں مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جا رہے ہیں، اور ممی پریشان مت ہونا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
    ایسے وقت جبران اور دانیال اس کے دونوں اطراف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کے چہروں پر عجیب تاثرات تھے۔ وہ پُر جوش بھی تھے اور ان جانے خدشات میں گرفتار بھی۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑے تھے اور سب کی نظریں ان پر ایسے جمی تھیں جیسے وہ دنیا کی عجیب و غریب مخلوق ہوں۔
    یکایک فیونا چیخی: ’’ممی، ہم جا رہے ہیں!‘‘ تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔ مائری کو لگا کہ وہ کوئی بھیانک سپنا دیکھ رہی ہیں۔ یکایک وہ جاگ پڑی اور انھیں روکنے والی تھیں لیکن ان کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مائری نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے رنگا رنگ تارے جگمگا رہے ہیں۔ ان کی سماعت سے جو آخری الفاظ ٹکرائے تھے، وہ کسی ان جانی زبان میں بولا گیا منتر تھا۔
    دالث شفشا یم! اور پھر ان کی اکلوتی بیٹی اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ وہاں سے غائب ہو چکی تھی!
    (جاری ہے….)
  • ایک سو اکتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھویں
    جبران اور دانیال بستے ہاتھوں میں لیے اسکول کے باہر فیونا کا انتظار کر رہے تھے، وہ کافی دیر بعد اسکول سے نکلی اور آتے ہی بولی کہ آج تو وقت ہی نہیں گزر رہا تھا۔ لیکن جبران نے کہا کہ اسے گھر جانا ہوگا کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ ممی کو کوئی ضروری کام ہو، اور دانیال نے کہا کہ وہ کچھ تھکاوٹ محسوس کر رہا ہے۔ فیونا یہ سن کر پریشان ہو گئی، کہنے لگی: ’’یہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو، آج اگلا قیمتی پتھر حاصل کرنے جانا ہے اور مجھے تم دونوں کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ٹھہری اور پھر بولی: ’’پتا ہے پچھلی رات بڑی خوف ناک تھی۔ ڈریٹن نے تو بس جیزے کو مار ہی ڈالا تھا۔ وہ زخمی ہے اور ہمیں وہاں جانا چاہیے۔‘‘
    فیونا کے لہجے میں التجا تھی، جبران نے کہا ٹھیک ہے لیکن امید ہے کہ وہ کسی مشکل میں نہیں پڑے گا، دانیال نے بھی کہا کہ ان دونوں میں سے کسی کو کچھ ہو گیا تو بلال انکل اور شاہانہ آنٹی برداشت نہیں کر پائیں گے۔ فیونا ان کو دلاسا دینے لگی کہ ان کے ساتھ خیر کی قوتیں ہیں جو اُن کی مدد کرتی رہتی ہیں اس لیے انھیں کچھ نہیں ہوگا۔ وہ تینوں چل پڑے اور راستے میں جِین بٹلر کے گھر سے گزرے تو فیونا نے دیکھا کہ نیم قطبی جزائر کا اسکاتستانی کتا شاہ بلوط کے قریب پنجے نکالے غرّا رہا تھا۔ درخت کے ساتھ بلی کا ایک بچہ پڑا خوف سے کانپ رہا تھا۔
    جبران غصے سے بولا: ’’ارے ایک ننھی بلونگڑی کو ڈرا رہا ہے یہ گندا کتا۔‘‘ وہ تینوں اس کی طرف دوڑ کر گئے۔ فیونا نے پاس پہنچ کر کہا: ’’گندے کتے، بلونگڑی کو جانے دو۔‘‘
    کتے نے پنجے گرا کر اس کی طرف دیکھا۔ فیونا کہہ رہی تھی: ’’تم کتے ہمیشہ بلیوں کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہو! تم ایک گندے کتے ہو، چلو بھاگو یہاں سے۔‘‘
    ’’کیوں … میں تو ایک کتا ہوں، اور کتے ہمیشہ بلیوں کا پیچھا کرتے ہیں۔‘‘ فیونا مزید قریب ہو کر بولی: ’’اگر میں تمھیں سہلاؤں تو تم مجھے کاٹو گے تو نہیں، نہیں ناں؟‘‘
    ’’نہیں میں تمھیں نہیں کاٹوں گا۔‘‘ کتے نے کہا تو فیونا اسے سہلانے لگی، کتا بولا: ’’تمھارے ہاتھ کا لمس مجھے اچھا محسوس ہو رہا ہے، اسی طرح سہلاتی رہو، تم بہت اچھی ہو۔‘‘
    فیونا اور کتے کے درمیان یہ گفتگو چل رہی تھی اور جبران دانیال حیران کھڑے تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فیونا کی بات کے جواب میں کتا بھونک رہا ہے اور فیونا ایسے دکھائی دے رہی ہے جیسے اسے سمجھ رہی ہو۔ جبران نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا تم کتے کے ساتھ باتیں کر رہی ہو؟‘‘ دانیال بھی تجسس کے ساتھ قریب آ کر کتے اور فیونا کے درمیان ہونے والی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دونوں کو تو صرف فیونا کی باتیں ہی سمجھ میں آ رہی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’ہاں، میں اس کے ساتھ باتیں کر رہی ہوں اور ہم خیال رسانی کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں۔ یہ کتا چاہتا ہے کہ میں اس کی پیٹھ سہلاؤں۔‘‘
    یہ کہہ کر فیونا نے کتے کے کان رگڑے، کتے نے کہا ہاتھ مت روکو، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ فیونا نے پوچھا: ’’تمھارا نام کیا ہے پپی؟‘‘
    کتا بولا: ’’میرا نام بوبی ہے، گریفرائر کے بوبی کی طرح، لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ کوئی زیادہ تخلیقی نام نہیں ہے، اور تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
    ’’مجھے فیونا کہتے ہیں، یہ جبران اور یہ دانیال ہے، انھیں بھی مت کاٹنا، اور ہاں اس بے چاری بلونگڑی کو تم نے ڈرا کر تقریباً مار ہی ڈالا ہے۔ بتاؤ تم اسے تکلیف کیوں دے رہے ہو؟‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو انتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’ہاں وہ یہیں کہیں ہے، ذرا روشنی اس طرف ڈالنا۔‘‘ جونی نے کہا تو جیک نے اس طرف کی دیوار پر روشنی ڈالی۔ جونی کو مطلوبہ جگہ دکھائی دے گئی۔ اس نے ایک اینٹ پر دونوں ہاتھوں کا دباؤ ڈالا تو دیوار میں حرکت پیدا ہو گئی اور سیڑھیوں پر ذرات گرنے لگے۔ دیوار میں ایک دروازہ نمودار ہوا۔ دونوں اپنے سامنے موجود ایک چوکور کمرے میں داخل ہو گئے۔ یہ لمبائی اور چوڑائی میں پانچ فٹ کا کمرہ تھا جس میں وہ جھک کر داخل ہوئے۔ جیک نے دروازے کے راستے میں ایک پتھر رکھا تاکہ وہ بند نہ ہو جائے اور پوچھا: ’’تم یہاں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’ایک اور درازہ۔‘‘ جونی مسکرایا۔ جیک حیران ہوا اور بولا کہ کیا وہ کمرہ اس سے بھی چھوٹا ہوگا۔ لیکن جونی نے بتایا کہ وہ دروازہ انھیں نسبتاً بڑے کمرے میں لے جائے گا۔ جونی نے محسوس کیا کہ جیک بند جگہوں سے ڈر رہا ہے، اس نے دل چسپی سے اس کا ذکر کر دیا۔ جیک بولا: ’’اس خوف کا تعلق میرے بچپن سے ہے۔ کبھی موقع ملا تو میں تفصیل کے ساتھ بتا دوں گا، فی الوقت تم دوسرا دروازہ تلاش کرو۔‘‘

    جانی نے اندازے سے ایک اینٹ کو دبایا تو آس پاس کی کئی اینٹیں اپنی جگہ سے سرکنے لگیں اور وہاں تقریباً دس فٹ چوڑا شگاف نمودار ہو گیا۔ اس نے جیب سے کچھ نکال کر اندر کمرے میں گھوم کر دیوار سے لٹکی مشعلیں روشن کر دیں۔

    جیک حیرت سے سانس بھرنا بھول گیا تھا، اس کا منھ کھلا تھا اور پھر وہ کھلا ہی رہ گیا۔ یہ کمرہ سونے سے بھرا ہوا تھا۔ شمع دان، صراحیاں، پراتیں، مالائیں اور دوسری بہت ساری چیزیں، جو سونے سے بنائی جا سکتی ہیں، وہاں موجود تھیں۔ چمک دمک والی چیزوں کے درمیان یاقوت، زمرد، ہیرے اور نیلم بکھرے پڑے تھے اور یہ اتنے بڑے تھے جتنی انسان کی ہتھیلی۔

    جیک نے کافی دیر بعد سانس لی اور کہا: ’’اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ تمھیں یہ کمرہ یاد رہا۔ میں جانتا تھا کہ کنگ کیگان اپنے ساتھ اپنی دولت کا ایک حصہ لایا تھا لیکن یہ اس مقدار میں ہو گا، یہ معلوم نہ تھا۔‘‘

    جونی کہنے لگا: ’’یہ دولت ہم نے وائی کنگ کے چند لشکروں، غرق شدہ ہسپانوی بادبانی جہازوں اور قلعوں پر لشکر کشی کر کے حاصل کی تھی۔ حالاں کہ ہم نے ہمیشہ اپنا دفاع کیا لیکن یہ دولت ہمیں حاصل ہوئی۔ بہرحال، میں تمھیں بتا دوں کہ میں دولت نہیں ڈھونڈ رہا، میں تو ایک کتاب کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کرو۔ یہ چمڑے، سونے اور لکڑی سے بنائی گئی کتاب ہے اور اس کی جِلد کندہ کی گئی ہے۔ تم دیکھتے ہی پہچان لو گے۔‘‘

    دونوں کمرے میں پڑے ڈھیر میں سے پیالے اور جام وغیرہ ہٹا ہٹا کر کتاب تلاش کرنے لگے۔ جیک نے اچانک ایک خیال آنے پر کہا کہ ہم ان میں سے اس کے وارثین مائری اور فیونا کے لیے بھی کچھ لے جا سکتے ہیں۔ جونی نے سر ہلایا، اور جیک نے ایک اور خیال کے تحت کہا: ’’جب سارے قیمتی پتھر جادوئی گولے میں پہنچا دیے جائیں گے تو ہمیں ایک عجیب سفر پر جانا پڑے گا، کیا تم نے سوچا ہے کہ تب مائری اور ان کی بیٹی فیونا کا کیا ہوگا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • ایک سو اٹھائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’میرے پاس اپنی والی کتاب ہے، لیکن تمھیں اس کی کیا ضرورت پڑ گئی؟’’ ڈریٹن نے جواب دیا لیکن پہلان گرجا: ’’میرے سوال کا جواب دو، کیا تم وہ کتاب حاصل کر چکے ہو؟‘‘
    ڈریٹن کا خون غصے سے جوش مارنے لگا لیکن اس نے خود پر قابو کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے نہیں پتا وہ کہاں رکھی ہے، اس کے گھر میں کئی آدمی رہ رہے ہیں اور کتاب کی حفاظت ہو رہی ہے۔‘‘
    ’’ایک تیسری کتاب بھی ہے جو اس قلعے میں چھپائی گئی ہے۔‘‘ پہلان نے انکشاف کیا۔ ’’مجھے یہ کتاب چاہیے، یہ زیلان زبان میں لکھی گئی ہے جو میرے وطن کی زبان ہے۔ یہ کتاب یہیں پر ہے، میں اسے محسوس کر سکتا ہوں۔‘‘
    ’’کہاں ہے؟‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے پوچھا۔ ’’میں نہیں جانتا لیکن اس میں بہت سارے منتر ہیں اور راز کی دیگر باتیں ہیں۔ اگر یہ ہمارے ہاتھ لگ جائے تو میری قوتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
    ڈریٹن نے پوچھا کہ اس کتاب میں کس قسم کے منتر ہیں۔ پہلان بتانے لگا کہ اکثر ایسے جادو ہیں جنھیں سکھانے کے لیے اسے انسانی جسم حاصل کرنا ضروری ہے، اور وہ اس وقت محض ایک بھوت ہے، یا صرف ایک دھواں۔ پہلان نے کہا: ’’میں نے تمھیں اس قابل بنا دیا ہے کہ جو طاقت اس لڑکی فیونا کو ملے گی، وہ تمھیں بھی حاصل ہو جائے گی۔ بس، میں تمھارے لیے یہی کچھ کر سکتا ہوں۔ ہاں اگر تم تیسری کتاب ڈھونڈ کر لے آؤ تو ہو سکتا ہے کہ اس سے کچھ مدد ملے۔ تم ابھی سے اس کی تلاش شروع کر دو۔ اب مجھے جانا ہے، سورج کی روشنی زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔ تم آج رات پھر آنا۔‘‘ پہلان یہ کہہ کر غائب ہو گیا اور ڈریٹن وہاں اکیلا رہ گیا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو چھبیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھبیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’ایک لڑکی کا نام گیلس تھا، وہ بے حد خوب صورت تھی۔ وہ اپنے بڑے بھائی کو ہمیشہ کسی مشکل میں ڈال کر خوش ہوتی تھی۔ اس کے بال مٹیالے بھورے رنگ کے تھے، جنھیں وہ گُوندھ کر رکھتی تھی۔ ملکہ اس کے بالوں کی چُٹیا بنا کر ربن سے باندھ دیتی تھی۔ اسے بالوں میں پھول لگانا پسند تھا۔ یہ خوب صورت لڑکی کافی حد تک ازابیلا سے مشابہ تھی، اس کی آنکھیں نیلی تھیں۔ وہ مہارت سے باجا بجاتی تھی، میں نے کئی بار بیٹھ کر اس سے باجا سنا۔‘‘ جانی کہتے کہتے رکا، وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئے تھے، انھیں وہاں کشتی دکھائی نہیں دی۔ جانی پھر ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔
    ’’رایَد تیسرا بچہ تھا۔ اپنے والد کے آبا و اجداد کی طرح اس کے بال سیاہ تھے۔ اس کی آنکھیں گہری کتھئی رنگ کی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ چپ چاپ رہتا ہے اور اس کا زیادہ تر وقت قلعے کے اندر کتابیں پڑھنے میں گزرتا ہے۔ لیکن میری آنکھوں کا تارا گِلی این تھی۔ وہ بچّی مجھے بہت پسند تھی، اس کا گول مٹول چہرہ اور اس پر بڑی بڑی آنکھیں دل موہ لیتی تھیں۔ وہ آنا کی طرح تھی۔ مجھے وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں۔ جب میں لوٹ کر قلعے میں داخل ہوا، تو ان کے جسم جلے ہوئے تھے۔ میں انھیں اس حال میں دیکھ کر نڈھال ہو کر گر گیا۔ آہ، وہ معصوم صورت گِلی این اپنے گھنگھریالے بالوں کے ساتھ خون میں لت پت پڑی تھی!‘‘
    جانی چپ ہوا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جیک نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا۔ کئی منٹ تک جانی اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا، پھر بڑے جلے ہوئے دل کے ساتھ بولا: ’’جادوگر پہلان اور کنگ دوگان کی اولاد نے ہمارے بادشاہ کے ساتھ جو کچھ کیا، انھیں اس کی سزا ضرور ملے گی۔‘‘
    جیک بھی بول اٹھا: ’’جی ہاں، مجھے یقین ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنے اعمال کا مزا ضرور چکھیں گے۔‘‘
    انھوں نے جھیل کے کنارے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کشتی نظر نہیں آئی۔ پھر جیک چونک کر بولا: ’’وہاں دیکھو، دوسرے کنارے پر، قلعے کے پاس ہے کشتی۔ واہ بہت مزا آئے گا اگر اس وقت ڈریٹن اپنے اُس خبیث جادوگر کے ساتھ قلعے کے اندر ہو۔ کیا آپ اندر جانے کا کوئی دوسرا راستہ جانتے ہیں؟‘‘
    جانی بتانے لگا کہ ایک زمانہ گزر گیا ہے اس تمام علاقے پر، ہم اسی جھیل کے کنارے کنارے اُسی غار ہی میں جا سکتے ہیں جہاں ہم گزشتہ رات گئے تھے۔ قلعے کی زمینوں میں ایسی جگہیں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہاں ہیں اور قلعہ وہاں۔ بہتر ہو گا کہ ہم وہ غار تلاش کر لیں۔
    ’’تو کیا اور کوئی راستہ نہیں ہے؟‘‘ جیک نے پھر پوچھا۔ ’’ہاں، کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس تلاش کے دوران ان خطرناک مکڑیوں یا ان سے بھی زیادہ دہشت ناک چیزوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔‘‘ جانی نے جواب دیا۔
    ’’تو ٹھیک ہے، غار ہی تلاش کرتے ہیں۔‘‘ جیک نے ٹھنڈی سانس کھینچی۔ انھیں غار اور درختوں کے جھنڈ والی جگہ ڈھونڈنے میں پندرہ منٹ لگ گئے، پھر آخر انھیں وہ جگہ دکھائی دے گئی جہاں جیزے گرا تھا۔ وہ دونوں غار میں داخل ہو گئے۔ جانی نے کہا: ’’ڈریٹن نیچے نہیں ہے، لیکن جب تک ہم یہاں ہیں تو میں چند چیزیں ڈھونڈنا چاہتا ہوں یہاں۔‘‘
    جیک نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ جانی کی بات نہیں سمجھ سکا تھا۔ جانی نے بتایا کہ یہاں کچھ ایسی خفیہ جگہیں ہیں جہاں ملکہ نے اپنے زیورات اور کنگ کیگان نے اپنی کتابیں چھپائی تھیں۔ وہ آگے بڑھتے ہوئے بولا: ’’اس غار میں کچھ نہیں ہے لیکن جب ہم سیڑھیوں کے پاس جائیں ے تو وہاں چند خفیہ جگہیں ہیں۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو پچیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پچیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    سورج کی گرم شعاعیں صنوبر کے جُھنڈ میں سے چھنتی ہوئی اینگس کے گھر کی کھڑکی میں داخل ہو رہی تھیں۔ اینگس نے آنکھیں کھولیں اور کندھے مسلتے ہوئے سستی اتارنے لگے۔ جمی اور جیک بھی اٹھ کر بیٹھ چکے تھے۔ ’’صوفے پر سونا اتنا آرام دہ نہیں ہوتا، جتنا میرا خیال تھا۔‘‘ اینگس بڑبڑایا۔

    ’’آئندہ فرش پر سوتے ہیں، میں کوئی شکایت نہیں کروں گا۔‘‘ جیک نے کمبل تہہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں اپنے وقت میں ساحل کی ریت اور کبھی گھاس پر بھی راتیں گزار چکا ہوں۔ میرے پاس تو بارش سے بچنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔‘‘ جمی نے سر گھما کر جیزے کی طرف نگاہ کی۔ ’’جیزے اب کیسا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے قریب جا کر بولا: ’’کیا تم جاگ گئے ہو؟‘‘
    جیزے نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ ’’میں اب ٹھیک ہوں، مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی عظیم الجثہ ریچھ نے اٹھا کر پھینکا ہو۔ ویسے میں کتنی دیر سویا رہا ہوں؟‘‘
    ’’صرف ایک رات میرے دوست۔‘‘ جمی نے جواب دیا۔ ’’اینگس کیا آپ ہمارے لیے ناشتے میں کچھ بنا سکتے ہیں، انڈے تو ہوں گے نا؟ مجھے بھوک لگی ہے اور یقیناً جیزے کو بھی۔‘‘
    اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سب سے قریب اینگس ہی تھے، انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو جونی کو دیکھ کر چہکے: ’’اندر آؤ جونی، ہم ناشتے سے متعلق بات کر رہے تھے، یہاں میرے پاس چند انڈے اور چند دن کی پرانی ڈبل روٹی ہی پڑی ہے۔‘‘
    ’’اوہ یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ جونی اندر داخل ہو کر بولا۔ ’’میں اسے سب کے لیے تیار کر دیتا ہوں لیکن اگر گوشت ہو تو کیا بات ہے۔‘‘
    اینگس نے کہا کہ گوشت تو نہیں ہے البتہ گزشتہ رات کا اسٹو برتن میں پڑا ہے۔ جیک نے کہا کہ اس وقت تو ہر چیز اچھی لگ رہی ہے، اس لیے لے آؤ۔ لیکن جانی نے جب انڈے بنانے کے لیے ادھر ادھر چولھے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو اسے چولھا کہیں نہیں ملا، وہ حیرت سے بولا: ’’اینگس، آپ کا کیا خیال ہے، میں انڈے کیسے پکاؤں گا، یہاں تو چولھا ہی نہیں ہے۔‘‘
    اینگس مسکرائے: ’’آتش دان کے قریب کھانا پکانے والا جالی دار برتن پڑا ہوا ہے، اسی سے کام چلانا پڑے گا۔‘‘
    ایسے میں جیک نے اچانک کہا: ’’میں سوچ رہا ہوں کہ ہم میں سے چند کو اس وقت قلعہ آذر جانا چاہیے، کیوں کہ گزشتہ رات ہم وہاں آس پاس کچھ زیادہ نہیں دیکھ پائے تھے، جانی کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے؟‘‘
    جانی نے پھینٹے ہوئے انڈے آگ پر رکھے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
    ۔۔۔۔
    خشک ڈبل روٹی، انڈہ آملیٹ اور آئرش اسٹو کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد جانی اور جیک قلعہ آذر کے لیے نکل گئے۔ جیک آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’کل رات جب میں یہاں پہنچا تو یہ پہلی بار تھا جب میں نے قلعہ آذر دیکھا، میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا وجود بھی ہے۔ جب میں نے پہلی بار کنگ کیگان اور آپ کو دیکھا تھا تو یہ وہ وقت تھا جب ہم اسکاٹ لینڈ جا رہے تھے۔ کنگ کیگان نے ہمیں قیمتی جواہرات چھپانے بھیجا تو مہینوں گزر گئے تھے اور کوئی شناسا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا، یہاں تک کہ آپ سے ملاقات ہو گئی۔‘‘
    وہ صنوبر کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے دور نظر آنے والی جھیل پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ جانی مسکرانے لگا: ’’یہ جگہ بے انتہا خوب صورت تھی، باغیچے طرح طرح کے پھولوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں باغ میں گھنٹوں گزارا کرتا تھا۔‘‘
    جیک نے کچھ سوچ کر پوچھا: ’’میں آنا اور ازابیلا کے علاوہ کسی اور بچے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، مجھے دیگر بچوں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔‘‘ جانی بتانے لگا: ’’ایک بچے کا نام سرڈِک تھا، وہ سب سے بڑا تھا۔ کیا بچہ تھا وہ… اس کے بال سونے کی دھاگوں کی طرح چمکتے تھے۔ جب سورج نکلتا ہے تو سمندر کی لہروں پر اس کی کرنیں موتیوں کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ سرڈِک کے بال مجھے یہی یاد دلاتے تھے۔ اس کے بال اس کی ماں کی طرح گھنگھریالے تھے۔ اس کی آنکھیں بنفشی جھیلوں کی طرح تھیں۔ وہ جب نکلتا تھا تو پرندوں کی شامت آ جاتی تھی، وہ سارا دن پرندوں اور تتلیوں اور جنگلی جانوروں کے پیچھے بھاگتا رہتا تھا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو چوبیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چوبیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    اگلی صبح فیونا اپنی ممی کے ساتھ الجھ رہی تھی۔’’لیکن ممی، میں آج اسکول نہیں جانا چاہتی، ہمیں اگلے مقام سے قیمتی پتھر حاصل کرنا ہے۔ انکل اینس اور دیگر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے جزبز ہو کر احتجاج کیا۔
    ’’فیونا، کان کھول کر سن لو، تمھیں اسکول جانا ہے۔ اینگس اس بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تم اسکول کے بعد وہاں چلی جانا، مجھے بھی کام پر جانا ہے، میں بھی وہاں سے سیدھی اینگس کے ہاں آ جاؤں گی۔ اب کوئی بحث نہیں، اسکول جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر مائری مک ایلسٹر نے اسکول بیگ اور ٹفن اس کے حوالے کر دیا۔ فیونا نے غصے میں بیگ اور ٹفن لیا اور ماتھے پر بوسہ لیے بغیر دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کرتے ہوئے چلی گئی۔ مائری نے ٹھنڈی آہ بھری اور دروازہ بند کر کے بیکری کی طرف چل پڑی۔
    اسکول سے ایک فرلانگ پہلے ہی فیونا کو جبران بھی مل گیا۔ وہ بھی بجھے دل کے ساتھ اسکول جا رہا تھا۔ چلتے چلتے فیونا اسے گزشتہ رات کے واقعات بتانے لگی۔ ’’تم گھر چلے گئے تو ہم اس کے بعد قلعہ آذر گئے۔ وہاں زیر زمین ایک غار تھا اور بہت سارے سرنگ تھے۔ ڈریٹن نے اپنی جسامت بڑھا کر جیزے کو اٹھایا اور دور پھینک دیا، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔‘‘
    ’’ذرا ٹھہر جاؤ، تھوڑا آہستہ آہستہ بولو۔‘‘ جبران نے تجسس سے کہا۔ فیونا نے اس کے سامنے ساری کہانی بیان کر دی اور کہا: ’’مجھے تو بہت غصہ آ رہا ہے، ممی نے مجھے زبردستی اسکول کے لیے بھیجا ہے، وہ بھی کام سے واپسی پر انکل اینگس کے ہاں آ رہی ہیں۔‘‘
    ’’کیا مطلب…‘‘ جبران چونک اٹھا۔ ’’کیا تمھاری ممی سب کچھ جان گئی ہیں؟ کیا وہ میری ممی کو بتا تو نہیں دیں گی؟‘‘
    ’’انھوں نے کہا تو ہے کہ وہ سب کچھ راز رکھیں گی۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’لیکن کچھ پتا نہیں ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی زخمی ہو جاتا ہے تو اس صورت میں وہ تمھارے والدین کو بھی ضرور مطلع کریں گی۔‘‘
    باتیں کرتے کرتے وہ اسکول کے دروازے پر پہنچ گئے، اسی لمحے گھنٹی بجنے لگی۔ ’’اچھا، اسکول کے بعد ملتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور دونوں اپنی اپنی کلاس کی طرف چلے گئے۔
    ۔۔۔۔۔
    ڈریٹن کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک اجنبی جگہ پا کر وہ اچھل کر بیٹھ گیا۔
    ’’کہاں ہوں میں؟‘‘ وہ اپنی طبیعت کے عین مطابق بدحواس ہو کر بڑبڑایا۔ تب اسے یاد آیا کہ رات کو وہ غیر قانونی طور پر ایک گھر میں گھسا تھا۔ اس نے بازو اور ٹانگیں پھیلا کر کسل مندی دور کی اور سیدھا باورچی خانے میں گھس گیا۔ گھر کے دوازے کے پاس بہت سارے خطوط پڑے تھے جو صبح صبح ڈاکیے نے آ کر پھینکے تھے۔ اس نے یہ جاننے کے لیے کہ گھر میں کون رہتا ہے، ایک لفافہ اٹھا کر دیکھا۔ لکھا تھا، جون اینڈ سوزن مک ایلسٹر۔ اس نے منھ بنا کر کہا: ’’ایک تو اس فضول ٹاؤن میں مک ایلسٹرز بہت رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے خط پھینک دیا لیکن پھر اچانک ایک خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی لفافے میں رقم ہو۔ اس نے جلدی جلدی سارے لفافے پھاڑ کر دیکھ لیے لیکن کسی میں بھی پیسے نہیں تھے۔ واپس باروچی خانے میں آ کر کھانے کی چیزیں تلاش کرنے لگا لیکن الماری میں سیریل کے پیالے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اس نے غصے میں پیالہ فرش پر پٹخ دیا، پھر ریفریجریٹر کھول کر کھانے پینے کی ساری چیزیں فرش پر بکھیر دیں۔
    ایک بوتل میں ٹماٹر کی چٹنی دیکھ کر بولا، لگتا ہے یہاں ہر شخص ٹماٹر کی چٹنی کا دیوانہ ہے۔ وہ بوتل لے کر لیونگ روم میں آ گیا اور چھت ایک گول دائرہ بنا ڈالا۔ پھر ٹی وی اور صوفوں پر چٹنی ڈال دی۔ پورے گھر کا خانہ خراب کر کے اس نے دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کر دیا اور قلعہ آذر کی طرف چل دیا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو بائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط اس لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں
    ڈریٹن نے ایک ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور جھٹک دیا۔ یکایک زمین سے آگ کا ایک بہت بڑا گولا نمودار ہو کر اوپر کی طرف اٹھا۔ آگ کے گولے نے ان دونوں اور باقی افراد کے درمیان ایک دیوار سی کھڑی کر دی۔
    ’’دیکھ ماسٹر پونڈ، اب میرے اور تمھارے سوا یہاں کوئی نہیں ہے۔‘‘ جیزے ڈریٹن کے منھ سے اپنا اصل نام سن کر حیران ہوا۔
    ’’کیا ہوا پونڈ، بڑے حیران دکھائی دینے لگے ہو، حیرانی اس بات پر ہے نا کہ میں تمھارا اصل نام کیسے جانتا ہوں۔ میں تمھارے اور تمام بارہ کے ٹولے کے بارے میں جانتا ہوں۔ پہلان مجھے ہر چیز کے بارے میں بتا چکا ہے۔ میرے خیال میں تمھیں یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ جو جادوئی طاقت تمھارے پاس ہے وہ میرے پاس بھی ہے۔‘‘
    جیزے نے جواب دیا تو اس کے لہجے میں طنز واضح تھا: ’’منّے، تمھارے جادوئی شعبدے مجھے خوف زدہ نہیں کر سکتے۔ تم اپنے آبا کی طرح بے وقوف ہو۔ اوہو … تو اب حیران ہونے کی باری تمھاری ہے۔ جی ہاں، میں دوگان کو جانتا ہوں، میں نے اس خبیث سے بہت مرتبہ جنگ لڑی ہے۔ لیکن سنو، وہ پھر بھی شکل و صورت سے معقول آدمی تھا تم تو انتہائی نامعقول لگتے ہو، تم نے تو عورتوں کی طرح بالیاں پہنی ہوئی ہیں۔ عورتوں کی طرح لمبے بال چھوڑے ہیں، یقیناً تم لڑتے بھی عورت کی طرح ہو گے۔‘‘
    ڈریٹن غصے سے بُھنّا کر بولا: ’’ابھی دکھاتا ہوں کہ میں کیسے لڑتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا قد تین گنا بڑا کر دیا۔ پھر اس نے سر جھکا کر جیزے کی طرف دیکھا تو وہ بونا نظر آ رہا تھا۔ اس نے اپنے بہت بڑے ہاتھ میں اسے پکڑا اور دور اچھال دیا۔ جیزے ہوا میں تیرتا ہوا، درختوں سے ٹکراتا ہوا جھیل کنارے جا گرا۔ وہاں بھڑکتی آگ کے شعلے یک لخت سرد ہو گئے اور صرف جلتی لکڑیاں رہ گئیں۔ ڈریٹن کو اس بات پر شدید غصہ آ رہا تھا کہ وہ جیزے کو جان سے نہیں مار سکتا تھا۔ وہ فوراً نارمل قد میں آ گیا اور درختوں کے جھنڈ میں دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے اسے خیال آیا کہ اب وہ بی اینڈ بی نہیں جا سکتا اس لیے رہائش کے لیے کوئی اور جگہ ڈھونڈنی ہوگی۔ وہ کسی بھی صورت ایک اور رات باہر نہیں گزارنا چاہتا تھا اس لیے ٹاؤن کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک اسے ایک اور خیال آ گیا کہ اس کی ساری رقم تو کمرے ہی میں ہے اس لیے ایلسے کے ہاں ایک بار جانا ضروری ہے۔
    ایلسے نے دروازہ کھولا تو ڈریٹن داخل ہو کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ ایلسے بولی: ’’کہاں تھے تم، میں تمھارا ہی انتظار کر رہی تھی!‘‘
    ’’میں یہاں سے جا رہا ہوں۔‘‘ ڈریٹن چلایا۔
    ’’آج رات؟‘‘ ایلسے کے منھ سے نکلا۔ ’’نہیں، ابھی، اسی وقت۔‘‘ ڈریٹن نے منھ پھاڑ کر بدتمیزی سے جواب دیا اور کمرے میں جا کر اپنی ہر چیز بیگ میں ٹھونس کر زپ بند کر دی، کمرے سے نکل سیڑھیاں اترنے لگا۔ آخری سیڑھی پر قدم رکھ کر وہ ایک دم رک گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایلسے اور دیگر کئی لوگ آتش دان کے قریب بیٹھ کر چاکلیٹ اور بسکٹ کھا رہے ہیں اور گپ شپ میں مگن ہیں۔ ڈریٹن کی آنکھوں میں شیطانی چمک ابھری۔ اس نے ان کا رخ کیا اور قریب جا کر زور سے کھانس کر سب کو متوجہ کیا۔
    ’’سنو، میں یہاں سے جا رہا ہوں اس لیے تم سب اپنی اپنی جیبیں میرے اس بیگ میں خالی کر دو۔‘‘ ایلسے یہ سن کر اسپرنگ کی طرح اچھلی: ’’یہ کیا بکواس ہے ڈریٹن!‘‘
    لیکن ڈریٹن نے بے رحمی سے اسے دھکا دے کر کرسی میں گرا دیا: ’’چپ رہ بڈھی، منھ بند رکھو اور جلدی سے اپنی جیبیں اور ہینڈ بیگز سے تمام چیزیں نکال کر میرے حوالے کرو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جوتے سے ایک لمبے چمک دار پھل والا چاقو نکال کر ان کے سامنے لہرایا۔ ’’جلدی کرو، مجھے اس کا استعمال کرنے پر مجبور مت کرو۔ ایلسے پہلی خاتون ہوگی جسے میں زخمی کروں گا اس چاقو سے۔‘‘
    ایلسے کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ وہاں موجود مہمانوں نے فوری طور پر اپنی جیبیں خالی کر کے سب کچھ ڈریٹن کے حوالے کر دیا۔ ڈریٹن قہقہے لگاتا وہاں سے نکل گیا۔ پانچ منٹ تک دوڑتے رہنے کے بعد وہ ٹھہر گیا اور سانسیں درست کرنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ اب تک وہ پولیس کو طلب کر چکے ہوں گے اور اس ٹاؤن میں اسے ’مطلوب‘ قرار دیا جا چکا ہوگا۔ ڈریٹن گھروں کے سامنے سے گزرتا ہوا کھڑکیوں سے اندر جھانکتا جا رہا تھا، کہ کوئی گھر خالی مل جائے تو اندر گھس کر آرام کر لے۔ آخر کار راب رائے لین میں اسے ایسا ہی گھر نظر آ گیا۔ کھڑکی کھلی تھی، وہ بہ آسانی اندر کود گیا اور سیدھا ریفریجریٹر کی طرف گیا۔ کھانے پینے کا سامان وافر مقدار میں موجود تھا۔ ٹھونس ٹھونس کر کھانے کے بعد وہ کنگ سائز بیڈ پر گر کر سو گیا۔ اس نے اپنے گندے جوتے بھی اتارنا گوارا نہیں کیا تھا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو انیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن کو اپنے پیچھے آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ وہ تیزی کے ساتھ اندھیرے اور ہوا دار سرنگ میں دوڑتا جا رہا تھا۔ ٹارچ کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آخر کار وہ سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جب وہ سرنگ سے باہر نکلا تو اس نے خود کو صنوبر کے جھنڈ میں پایا۔ اس نے مڑ کر ٹارچ لوچ جھیل میں پھینک دیا۔ سرنگ کا دہانہ ایک ٹیلے سے نکلا ہوا تھا، اسے ٹیلے کے اوپر چڑھنے کا راستہ نظر آیا تو بغیر کوئی دوسری سوچ، وہ اوپر چڑھنے لگا۔ ٹیلے پر چڑھنا اتنا آسان بھی نہ تھا، اسے درختوں کی جڑیں اور پتھر تھامنے پڑ رہے تھے، اور وہ ہر دو قدم بعد واپس نیچے کی طرف پھسل پڑتا تھا۔ سرنگ کے دہانے کے عین اوپر پہنچ کر اس نے کئی بڑے پتھر اٹھا کر دیکھے اور بڑبڑایا۔ ’’ہونہہ… یہ یقیناً ٹھیک رہیں گے، ان میں سے کئی ایک کے سر تو آسانی سے پھاڑ سکوں گا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔
    ’’وہ رہا دہانہ ممی … درخت یہاں سے بھی نظر آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا خوشی سے اچھل کر بولی اور بھاگ کر دہانے سے باہر نکلی۔ عین اسی وقت ڈریٹن نے اسے نشانہ بنایا لیکن بھاری پتھر اس کی کھوپڑی کی بجائے اس کے پیروں میں آ گرا۔ وہ چیخ مار کر اچھلی۔ جیک قریب تھا، چلا کر بولا: ’’سنبھل کر فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔
    ’’یہ کیا تھا؟‘‘ مائری کے لہجے میں خوف تھا۔ انھیں اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ جیک انھیں چپ رہنے کا اشارہ کر کے احتیاط کے ساتھ باہر نکلا اور اوپر دیکھنے لگا۔ ایک پتھر اس کے بالوں کو چھوتا ہوا زمین پر لگا۔ وہ تیزی سے پلٹا اور بولا: ’’اوپر کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ ہم سرنگ سے باہر نکلیں۔‘‘
    اینگس نے غار کی چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ ڈریٹن ہے … صرف وہی تھا جو غار میں موجود تھا، اس لیے یہ وہی ہے۔ یہی اس کا اسٹائل ہے، وہ بزدل ہمارا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
    صورت حال ایسی تھی کہ ان میں سے جو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، اوپر سے ایک پتھر آ جاتا۔ ایسے میں جونی کو ایک خیال سوجھا۔ ’’اس طرح تو ہم باہر نہیں نکل سکیں گے، اس لیے میں اور جمی واپس قلعے جاتے ہیں، اس وقت تک تم میں سے کوئی نہ کوئی کچھ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اسے مصروف رکھے، ہم پیچھے سے آ کر اسے بے خبری میں پکڑ لیں گے۔‘‘
    باقیوں کا اس کا خیال پسند آیا، اور وہ دونوں الٹے قدموں لوٹ گئے، جب کہ فیونا نے پرجوش ہو کر کہا: ’’میں دوڑ کر باہر نکلتی ہوں، میں چھوٹی ہوں اس لیے نشانہ بنانا آسان نہیں ہوگا۔‘‘ لیکن مائری جلدی سے بولیں: ’’میں ایسا بالکل نہیں سمجھتی، میں ہرگز نہیں چاہتی کہ تمھارا سر پھٹا ہوا دیکھوں، سمجھی!‘‘
    ’’لیکن ممی، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، میں بہت تیز دوڑ سکتی ہوں، وہ چاہے بھی تو مجھے نشانہ نہیں بنا سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انتظار کیے بغیر دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ توقع کے مطابق اوپر سے آیا ہوا پتھر اسے چھو نہ سکا۔ وہ درختوں کے درمیان کھڑے ہو کر اندھیرے میں غار کے اوپر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر کار، جب اسے ایک انسانی ہیولا نظر آ گیا تو وہ چلا کر بولی: ’’کیا یہ تم ہی ہو احمق ڈریٹن… یہی نام ہے نا تمھارا … اب کس بات کا انتظار ہے، پھینکو پتھر، مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا!‘‘
    فیونا کی طرف سے طنز کے تیز آئے تو ڈریٹن اپنے مزاج کے عین مطابق آگ بگولہ ہو گیا، اور نہایت غضب ناک آواز میں غرایا: ’’چیونٹی کی نسل، تم آئی ہو میرے مقابلے پر، تمھیں تو ابھی مسل کر رکھ دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے یکے بعد دیگرے کئی پتھر فیونا کی طرف اچھالے لیکن اس نے بہ آسانی خود کو بچا لیا۔
    ’’تمھاری آواز جانی پہچانی ہے، کیا میں تمھیں جانتی ہوں بدمعاش؟ تم بچوں کی طرح چھپے ہوئے کیوں ہو، اور سامنے کیوں نہیں آ رہے؟‘‘ تین اور پتھر ہوا میں سنسناتے ہوئے اس کی طرف بڑھے، لیکن فیونا ایک طرف ہو گئی اور پتھر آگے جا کر گرے۔ وہ خوشی سے اچھلتے ہوئے اسے مزید غصہ دلانے کے لیے بولی: ’’آہا … تمھارے پتھر بھی تمھاری طرح بے وقوف ہیں، مجھے دیکھتے ہوئے پاس سے گزر جاتے ہیں اور مجھے چھو بھی نہیں پاتے!‘‘
    یہ سن کر ڈریٹن کے منھ سے خوف ناک غراہٹ نکلی: ’’میں ابھی تمھیں مچھر کی طرح مسل کر رکھ دیتا ہوں۔‘‘ اور پتھروں پر اچھلتا، پھسلتا نیچے اتر کر فیونا کی طرف بڑھنے لگا۔
    (جاری ہے…)