Tag: رفیع اللہ میاں ناول
-
ایک سو سترہ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’گدھے، بے وقوف … یہ کیا کر دیا۔ اب وہ ہمارے پیچھے لگ جائیں گے۔‘‘ جادوگر پہلان نے دانت نکوس کر کہا۔ ’’اٹھو اور میرے پیچھے آؤ۔‘‘ ڈریٹن بد حواس ہو کر اٹھا اور چوہوں، چمگادڑوں اور دوسری انجانی زندہ چیزوں کو بھول کر تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا۔ غار میں پہنچ کر اس کی سانسیں پھول گئی تھیں اور وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا تھا۔ سرنگوں کو دیکھ کر اس نے کہا: ’’کہاں سے جانا ہے؟‘‘
یہ سن کر پہلان نے قہقہہ لگایا۔ ’’ان میں سے کون سی سرنگ ہے جو تمھیں یہاں سے آزادی دلا سکتی ہے؟ یہ میں تمھیں نہیں بتاؤں گا۔ تم ایک اجڈ، گنوار اور گاؤدی ہو۔ اپنا راستہ خود تلاش کرو۔ اسی طرح ہی تم انسان کے بچے بنو گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دھوئیں کی صورت تحلیل ہو کر غائب ہو گیا۔ اِس کے ساتھ ہی وہاں جلنے والی بے شمار روشنیاں بھی گُل ہو گئیں، صرف اس کے ہاتھ میں ایک ٹارچ تھی جس کی روشنی مدھم پڑنے لگی تھی۔
’’بہت بہت شکریہ جادوگر!‘‘ ڈریٹن جَل کر چلّایا۔ اوپر سے آنے والی آوازیں نزدیک ہو رہی تھیں۔ وہ دوڑ کر ایک سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا، اور یہ سوچ کر کہ اسے آزمانا چاہیے، اس میں داخل ہو گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا، ٹارچ بھی بجھنے لگی تھی۔ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ اس کے چہرے پر مکڑی کے جالے چپک گئے تھے، جنھیں وہ جلدی جلدی ہٹانے لگا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی اوپر کر کے ادھر ادھر دوڑائی، اور حیران رہ گیا۔ مکڑی کے ہزاروں کی تعداد میں جالوں سے ایک بہت بڑا جال بن گیا تھا جس میں بلا مبالغہ ہزاروں مکڑیاں ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں، ان میں سے بعض بڑی جسامت والی ٹرنٹولا بھی تھیں۔ وہ مڑ کر جانے لگا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اوپر بے شمار مکڑیاں چپک گئی ہیں۔
’’ہٹ جاؤ، دور ہٹو مجھ سے۔‘‘ وہ پوری قوت سے ایسے چلایا جیسے اس کے چیخنے پر وہ ہٹ جائیں گی۔ اس کی آواز گونجتی ہوئی، غار کی طرف چلی گئی۔ وہ مکڑیاں جھٹک کر جوتوں سے مسلنے لگا لیکن ان کی تعداد بہت تھی اور وہ اتنی تیزی سے ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی ٹارچ کی روشنی ایک جالے کی طرف تھی، یکایک اس نے دیکھا کہ جالہ جھلسنے لگا ہے اور مکڑیاں تیزی سے دور ہونے لگی ہیں۔ یہ دیکھ کر اس نے ٹارچ کی روشنی اپنے اوپر موجود مکڑیوں کے قریب کر دی اور وہ فرش پر گر پڑیں۔ اس سے پہلے کہ اس پر مزید مکڑیاں دھاوا بولتیں، وہ دوڑ کر سرنگ سے نکل گیا۔ غار میں پہنچ کر اس نے ایک اور سرنگ پر نظریں جما دیں۔
اسے لگا کہ یہ والی سرنگ ایسی لگ رہی ہے جیسے دریائی ہو، یقیناً دریا کے پانی کی طرح یہ باہر ہی کو جائے گی، لہٰذا اسی میں جانا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ دوسری سرنگ میں داخل ہو گیا۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو سولہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’یہ آواز کیسی تھی؟‘‘ فیونا سیڑھیوں کی طرف دوڑتے ہوئے گئی۔ ’’یہاں نیچے کوئی ہے، یہ سیڑھیاں اور کتنا نیچے جاتی ہیں؟ جونی، کیا یہاں اور بھی کمرے ہیں؟ یہاں کے بارے میں تو صرف آپ ہی جانتے ہیں کیوں کہ آپ یہاں رہتے تھے نا!‘‘
’’جی ہاں، جمی، جیزے اور جیک یہاں کبھی نہیں آئے۔‘‘ جونی کہنے لگا۔ ’’تم لوگ جو کچھ دیکھ چکے ہو، اس قلعے میں اس سے کہیں بڑھ کر راز مدفون ہیں۔ کنگ کیگان نے اسے زیر زمین دریاؤں اور غاروں کے اوپر تعمیر کرایا تھا۔ یہاں ایسی سرنگیں ہیں جو آس پاس کے علاقے میں جا نکلتی ہیں۔ ان میں سدا بہار صنوبری جھاڑیوں والی بھول بھلیاں بھی ہے۔‘‘
فیونا کو یاد آیا کہ وہ اس بھول بھلیاں کو دیکھ چکی ہے، اس لیے وہ بولی: ’’ہاں، میں، جبران اور دانی گئے تھے اس میں۔ بڑی لمبی قد آور جھاڑیاں ہیں۔ وہاں کچھ دیر کے لیے ہم کھو گئے تھے، وہاں ایک مجسمہ بھی ہے، اور بہت ڈراؤنی جگہ ہے۔ زمین میں لکڑی کا ایک دروازہ ہے جو خستہ حال ہے اور میں اس میں گرتے گرتے بچی تھی۔ یقیناً وہ کنواں بھی کسی سرنگ میں جاتا ہوگا۔‘‘
جونی فیونا کی گفتگو سن کر ماضی میں کھو گیا۔ ’’مجھے یاد ہے کیگان کے مالیوں نے یہ سدا بہار صنوبر اگائے تھے۔ میں نے انھیں بلندی تک اگتے دیکھا تھا۔ انھوں نے یہ بھول بھلیاں چھوٹے شہزادوں اور شاہ زادیوں کے لیے بنایا تھا، اور وہ یہاں خوب کھیلا کرتے تھے۔ مالیوں نے کچھ جھاڑیوں کو جانوروں کی شکل میں تراشا تھا۔ کیا اچھے وقتوں کی یاد دلا دی ہے تم نے۔ اس قلعے میں جا بہ جا سدا بہار صنوبری جھاڑیاں اُگی ہیں، یہاں چند پہاڑیاں اور کئی مجسمے بھی ہیں۔ یہ قلعہ ایک بہت ہی خوب صورت جگہ تھی، خیر یہ باتیں پھر کبھی سہی۔ یہاں جو دریائی سرنگوں کے علاوہ سرنگیں ہیں، وہ کیگان نے حفاظت کے خیال سے بنوائی تھیں، کہ ہو سکتا ہے کبھی ان کے ذریعے فوری فرار کا وقت آ جائے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انھیں بھاگنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔‘‘
’’ہم یہاں کھڑے کھڑے کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اچانک مائری جھلا کر بولیں۔ ’’اگر نیچے کوئی ہے تو ہمیں اسے تلاش کرنا چاہیے۔ وہ ڈریٹن بھی ہو سکتا ہے اور اس صورت میں، میں اس کی گردن مروڑنا چاہوں گی کیوں کہ اس نے دو بار میرا گھر برباد کر دیا تھا۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو پندرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
جونی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دوگان نے ایسا ہی کیا تھا، اور جو بات کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ ہے کہ شہزادی آنا بھی ماں بننے والی تھی۔ ان کا بچہ جاربی دوگان کا بیٹا تھا لیکن آنا نے یہ بات دنیا سے چھپائے رکھی۔ شہزادیاں والدین کے مرنے کے کئی سال بعد قلعہ آذر آئیں، اور یہیں رہنے لگیں۔ یہیں پر انھوں نے شادیاں کیں۔ جاربی کو ایک مقامی دیہاتی نے پالا تھا۔
’’مائری، آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ جیک نے ان کی طرف مڑ کر کہا: ’’آپ کا ورثہ بلاشبہ قابل فخر ہے، کم از کم آدھا تو ضرور ہے۔ شہزادی آنا ایک بہت ہی خوب صورت خاتون تھیں۔ دوگان کے ظلم سے نجات پا کر انھوں نے خوش گوار زندگی گزاری تھی۔‘‘سب سے تعارف کے بعد مائری نے ایک طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’ہزاروں سال قدیم انسانوں سے مل کر مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔ پتا نہیں آج کی رات اور کتنے عجائب دیکھنے کو ملیں گے۔ پتا نہیں کیوں میں اچانک سنسنی سی محسوس کرنے لگی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی شیطانی مخلوق ہو!‘‘
’’مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ جمی بولا: ’’لیکن یہ یہاں کی ہوا کی وجہ سے ہے۔‘‘
مائری نے اپنے بازؤں پر مساج کیا اور دیواروں پر نظریں دوڑانے لگیں۔ ایسے میں انھیں شیشے کی منقش کھڑکی نظر آ گئی۔ ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے حال ہی میں صاف کی گئی ہو۔‘‘
فیونا جلدی سے بولی: ’’ممی، یہ دانی نے صاف کی ہے، یاد رہے کہ ہم یہاں پہلے بھی آ چکے ہیں۔ یہ میز دیکھیں ممی، یہ بہت خاص میز ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں بعد میں بتاؤں گی، ویسے یہ بہت پرانی ہے، حتیٰ کہ کنگ کیگان کے وقتوں سے بھی پہلے کی ہے۔‘‘
جیک، جیزے اور جمی میز کے پاس آ کر بہ غور دیکھنے لگے۔ میز پہچان کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان سے زیادہ اس میز کی اہمیت اور خاصیت سے بھلا کون واقف تھا۔
عین اسی وقت سیڑھیوں پر دھواں سا پھیل گیا جو اُن کی طرف بڑھنے لگا تھا اور پھر چھت کی طرف اٹھ گیا۔ پھر وہ ایک دیوار کے پیچھے چھپ گیا، اُن میں سے کسی نے بھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کی تھی۔ اگلے لمحے پہلان نے پہچان لیا کہ کمرے میں دراصل تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور اور کیگان کے تین آدمی ہیں۔ یہ جان کر وہ تیزی سے مڑا اور سیڑھیاں اترتے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ ڈریٹن کے پاس جانے لگا لیکن وہ اسے سیڑھیوں ہی پر مل گیا۔ ڈریٹن کے گرد دھوئیں کی طرح پھیل کر اس نے تیز لہجے میں کہا: ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو، میں نے تمھیں بڑے غار ہی میں رہنے کے لیے کہا تھا۔ وہ سب قلعے میں آ چکے ہیں!‘‘
ڈریٹن ٹارچ تھامے تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ ’’میری سانسیں پھولنے لگی ہیں، یہاں تو ہزاروں سیڑھیاں ہیں، اور کتنا نیچے ہے یہ غار!‘‘ ’’ہونہہ… چند ہی قدم اٹھا کر تھک گئے ہو لڑکے۔‘‘ پہلان نے طنز کیا۔ ’’جلدی کرو، کیا تم مزید تیز نہیں چل سکتے۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا، کیوں کہ وہ بار بار پیچھے مڑ کر ڈریٹن کا انتظار کرنے لگتا تھا۔
ڈریٹن نے ٹارچ اپنے سامنے رکھا تھا تاکہ کوئی مخلوق سامنے آئے تو اس سے نمٹ سکے۔ اچانک کوئی چیز اوپر سے آئی اور اس کے ہاتھ سے ٹکرا گئی۔ اس کی توجہ اس طرف ہو گئی اور وہ اپنے راستے میں آئے ہوئے لکڑی کے پرانے اور ٹوٹے کریٹ کو نہیں دیکھ سکا۔ غلط قدم پڑتے ہی اس نے ایک جھٹکا کھایا، توازن بگڑا اور اگلے لمحے وہ سیڑھیوں پر گلاٹیاں کھاتا ہوا نیچے گرنے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو روکا۔ لیکن اس کے گرنے اور کریٹ کی آواز سے قلعے میں دور تک بازگشت پھیل گئی تھی!
(جاری ہے…)
-
ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس دل چسپ ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
’’مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ اس اوزار کو ساتھ لے آئے ہیں، یہ تو بہت کارآمد معلوم ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے سلنڈر نما اوزار کو ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اینگس نے مسکرا کر کہا: ’’اسے ٹارچ کہتے ہیں، تم اسے سوئچ کے ذریعے جلا سکتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے اس کی ٹارچ کو روشن کر دیا۔ ’’حیرت انگیز!‘‘ جیک بے اختیار بولا: ’’اس نے تو سارا کمرہ روشن کر دیا ہے۔‘‘ جیک نے بڑی دل چسپی کے ساتھ اس کی روشنی دیواروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ پہلے تو وہ بڑا خوش دکھائی دیا لیکن پھر یکایک اس نے کمرے کو پہچان لیا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہو گئی۔ اس نے بے تابی سے ٹارچ کی روشنی فرش پر ڈالی: ’’کنگ کیگان کو اسی کمرے میں قتل کیا گیا تھا۔۔۔ میں اس درد اور خوف کو ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں!‘‘ جیک کے لہجے میں واقعی درد جھلکنے لگا تھا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو جیک۔‘‘ جمی نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’اگرچہ اس واقعے کے وقت ہم موجود نہیں تھے لیکن میں بھی اس درد اور خوف کو محسوس کر سکتا ہوں، جو اس عظیم شاہی خاندان کو آخری لمحات میں محسوس ہوا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اینگس کی طرف مڑ کر پوچھا: ’’ہم یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘
اینگس نے فکر سے بھری اپنی نگاہیں قدیم دیواروں پر جما کر جواب دیا: ’’یہاں کوئی بہت ہی پراسرار کھیل کھیلا جا رہا ہے، اور میرے خیال میں اس کھیل کی کلید قلعے کی دیواروں میں چھپی ہے!‘‘
جمی کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی، اس نے استفسار کیا: ’’ہم جادوئی گولہ حاصل کر چکے ہیں اور اب ایک ایک کر کے قیمتی پتھر جمع کر رہے ہیں، جب تک بارہ کے بارہ اپنی جگہ نہ پہنچیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں ہمیں یہاں سے کیا ملنے کی توقع ہو سکتی ہے؟‘‘
جمی جیسے ہی چپ ہوا، اسے کوئی آواز سنائی دی۔ اس نے جلدی سے کمرے کے دروازے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی۔ ’’خاموش… وہاں کوئی ہے!‘‘ اس نے سب کو اشارہ کیا۔ سب خاموشی سے اوپر سے کمرے میں اترنے والی سیڑھیوں پر نظریں جما کر دیکھنے لگے۔ سیڑھیوں پر ٹارچ کی روشنیاں جھلملانے لگی تھیں۔ اگلے لمحے انھوں ںے جونی، جیزے، فیونا اور مائری کو دیکھ کر سکون کی سانس لی۔ ان سب کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹارچ تھی۔ اینگس نے مائری کو دیکھا تو حیران ہو گئے اور چونک کر فیونا سے مخاطب ہوئے کہ وہ اپنی ماں کو بھی لے آئی۔
’’اینگس، میں سب کچھ جان گئی ہوں۔‘‘ مائری نے انھیں ڈانٹنے والے لہجے میں کہا۔ ’’تم ان کے ساتھ شامل تھے اور مجھے اس سے معاملے سے بالکل بے خبر رکھا، تم نے آخر ایسا کیسے کیا؟‘‘
اینگس نے شرمندہ ہو کر کہا: ’’میں معذرت خواہ ہوں مائری، لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا میں نے تمھاری بہتری ہی کے لیے کیا۔‘‘
’’میری بہتری…؟‘‘ مائری نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’تمھیں اس سے متعلق وضاحت کرنی ہے بعد میں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ اینگس نے زور زور سے سر ہلا کر جان چھڑائی۔ مائری نے پوچھا کہ وہ سب یہاں کیوں آئے ہیں۔ جیک نے جواب میں کہا کہ کسی چیز کی تلاش میں ہیں۔ اس بار فیونا نے کمرے کی دیواروں پر نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’لیکن ایسی کیا چیز ہے؟‘‘
جیک نے کہا کہ اس کا تو نہیں پتا لیکن جب ملے گی چیز تو سب جان جائیں گے۔ ایسے میں جونی، جو اس سے پہلی بار مل رہا تھا، بانہیں پھیلا کر آگے آ گیا: ’’آرٹر، میرے دوست، ہم ایک طویل عرصے بعد مل رہے ہیں، مجھے بہت خوشی ہو ر ہی ہے۔‘‘
دونوں گلے ملے تو جونی نے مائری کا تعارف کرایا: ’’یہ مائری ہے، فیونا کی ممی، کنگ کیگان اور بدقسمتی سے کنگ دوگان کی مشترکہ وارث۔‘‘
’’تمھارا مطلب ہے کہ شہزادی ازابیلا کے واسطے سے وارث!‘‘ جیک بولا: ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ دوگان نے شہزادی ازابیلا سے اس کا بیٹا ہیگر چھین لیا تھا، اور اسے پال پوس کر اپنی ہی ماں کا دشمن بنا دیا تھا۔‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’تم اتنے چڑچڑے کیوں ہو؟‘‘ یہ کہہ کر پہلان نے اسے ایک ٹارچ تھما دی۔ ڈریٹن نے ٹارچ کی روشنی خود سے بے حد قریب رکھی، اور کہا: ’’ابھی ایک سیکنڈ پہلے تو یہ ٹارچ تمھارے پاس نہیں تھی، کہاں سے آئی یہ؟‘‘
پہلان اس کے بے وقوفانہ سوال پر جھلا کر بولا: ’’بھولو مت کہ میں ایک جادوگر ہوں، بس اپنا منھ بند رکھو اور میرے قریب رہو۔ ہمیں مزید گہرائی میں جانا ہے۔ مجھے لگتا ہے تم کم زور دل ہو لیکن خیال رکھو کہ یہاں نیچے غار میں کچھ چیزوں سے سامنا ہو سکتا ہے!‘‘
’’چیزیں …!‘‘ ڈریٹن نے خوف زدہ ہو کر دہرایا: ’’کیسی چیزیں؟‘‘
پہلان کی آواز آئی: ’’چمگادڑ، چوہے، بھیڑیے اور اس طرح کی دیگر چیزیں۔‘‘
’’بس یہی چیزیں؟‘‘ ڈریٹن نے اس بار طنزیہ لہجے میں کہا۔ پہلان نے اسے خبردار کیا: ’’مجھے یقین نہیں لیکن تم میرے قریب ہی رہنا۔‘‘ دونوں کچھ دیر تک خاموشی سے سیڑھیاں اترتے گئے۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل سیڑھیاں پاتال میں اترتی محسوس ہوتی تھیں۔ ڈریٹن کو خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘
لیکن پہلان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرا دیر بعد اس نے پھر منھ کھولا: ’’کس نے بنائی ہیں اتنی ساری سیڑھیاں، لگتا ہے کئی برس لگے ہوں گے۔‘‘ پہلان بدستور خاموش رہا۔ وہ نیچے ہی نیچے اترتے جا رہے تھے یہاں تک کہ ایک بہت بڑے غار میں پہنچ گئے۔ اچانک بہت سارے چمگادڑ ڈریٹن کے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ پر جھپٹے۔ اس کے ہاتھ سے ٹارچ گر پڑی۔ اسی لمحے پہلان کے ہاتھوں کی تالی سنائی دی اور لمحوں میں تمام چمگادڑ جل کر راکھ میں تبدیل ہو گئے اور غار میں روشنی ہو گئی۔
’’ہونہہ … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘ اس بار پہلان نے اسی کے لہجے میں کہنے کی کوشش کرتے ہوئے اس پر طنز کیا۔ ’’مجھے قائل کرنے کے لیے تمھیں واقعی بہادری دکھانی پڑے گی سمجھے!‘‘
ڈریٹن نے شرمندہ ہو کر کہا:’’مجھے نہیں پتا تھا کہ ہم اس طرح اچانک کسی غار میں پہنچ جائیں گے، یہاں تو کئی سرنگ ہیں، یہ کہاں جاتے ہیں۔‘‘
پہلان ابھی اس بات کا جواب دے ہی رہا تھا کہ بری طرح ٹھٹھکا۔ پھرکی کی طرح گھوم کر چیخنے جیسی آواز میں بولا: ’’احمق لڑکے، کیا تم نے کسی کو اپنے پیچھے لگا لیا تھا، تم قلعے میں دوسرے لوگوں کو لے آئے ہو!‘‘ ڈریٹن حیران ہو گیا، اسے بھی آوازیں سنائی دیں۔ ’’میں کسی کو اپنے پیچھے لگا کر نہیں لایا۔ جو بھی آیا ہے وہ اپنے طور پر منصوبے سے آیا ہوگا، اور یہ غالباً فیونا اور اس کے دوست ہی ہوں گے، وہ پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکے ہیں۔‘‘
’’فیونا…!‘‘ پہلان جادوگر چونک اٹھا۔ ’’تم یہیں ٹھہرو، میں دیکھ کر آتا ہوں کہ کون ہے قلعے میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک کالے دھوئیں میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔
ڈریٹن اندھیرے غار میں گرینائٹ سے بنی دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گیا اور ٹارچ عین اپنے سامنے کر دی تاکہ اگر ’چیزوں‘ میں سے کوئی اچانک سامنے آئے تو وہ اسے دیکھ سکے۔ وہ سوچنے لگا کاش میں بھی اسی طرح دھواں بن کر غائب ہونا سیکھ لوں، کتنا مزا آئے گا!(جاری ہے…)
-
ایک سو دس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
جونی مائری کے گھر پر تھا، انھوں نے کھانا کھایا، جونی نے کھانے کی بڑی تعریف کی۔ باتوں کے دوران اچانک جونی کہنے لگا: ’’مائری، میں آپ کو کچھ بتانا چاہ رہا تھا، لیکن کسی مناسب موقع کا انتظار کر رہا تھا، اب مجھے لگتا ہے کہ وہ بات مجھے کہہ دینی چاہیے۔‘‘
’’تو کیا آپ کے خیال میں یہ مناسب وقت ہے؟‘‘ مائری نے حیران ہو کر کہا۔ ’’تم نے تو مجھے تجسس میں ڈال دیا ہے۔‘‘
جونی چند لمحے خاموش رہا، پھر کہنے لگا: ’’مائری، میرا نام جونی نہیں ہے، نہ جمی اور جیزے میرے بھائی ہیں!‘‘
مائری کے لیے یہ بات بجلی کے جھٹکے سے کم نہ تھی، وہ بے اختیار چونک اٹھی، اور ان کے دماغ میں کئی طرح کے خیالات گونج اٹھے، تو کون ہیں یہ لوگ؟ اپنی شناخت کیوں چھپائی؟ کیا مقصد ہے ان کا؟ لیکن اس کے باوجود مائری نے خود پر قابو پایا، اور پھر خاموشی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئیں اور پردہ ہٹا دیا اور تاروں بھرا آسمان نظر آنے لگا۔ مائری نے یکایک پلٹ کر تیز لہجے میں کہا: ’’آپ کا نام جونی نہیں ہے، اور یقیناً آپ کا تعلق لندن سے بھی نہیں ہے، پھر آپ کون ہیں؟ میں نے پہلے ہی محسوس کیا تھا کہ یہاں کچھ عجیب و غریب باتیں رونما ہونے لگی ہیں۔‘‘
جونی پریشان ہو گیا۔ ’’آپ صوفے پر بیٹھ جائیں، میں ان حالات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
مائری خاموشی سے بیٹھ گئیں اور جونی بتانے لگا: ’’میں آلرائے کیتھمور ہوں، ایک قدیم انسان۔ جمی کا نام کوآن اور جیزے کا پونڈ ہے۔ یہ ایک بے حد الجھی ہوئی کہانی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں!‘‘
’’بہتر ہوگا کہ شروع سے آغاز کریں آلرائے۔‘‘ مائری نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ انھوں نے اس بات کو بالکل ان سنی کر دیا تھا کہ وہ ایک قدیم انسان ہے، وہ اسے کوئی شاعرانہ جملہ سمجھی تھیں۔
’’نہیں… مجھے جونی کہہ کر پکاریں، یہ زیادہ اچھا اور ضروری بھی ہے۔‘‘ اس کے بعد جونی نے فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر کو ساری کہانی سنانے میں ایک گھنٹہ لے لیا۔ مائری دم بخود ہو کر سنتی جا رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بت بن گئی ہوں۔ جونی کے ہونٹوں سے الفاظ نکل کر ان کے کانوں میں گھس رہے تھے اور بس … اس کے سوا انھیں کسی چیز کا ہوش نہیں رہا تھا۔ جونی خاموش ہوا تو مائری کافی دیر تک اسی کیفیت میں بے حس و حرکت بیٹھی رہیں، پھر یکایک کسی اسپرنگ کی طرح اچھل پڑیں۔
’’ناقابل یقین ہے، آپ کی ہر بات ناقابل یقین ہے۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میری بیٹی فیونا جادو کے ذریعے دنیا بھر کا سفر کر رہی ہے، اور اس سفر کے دوران خطرناک جادوئی پھندوں سے اس کا سامنا ہو رہا ہے، اور حتیٰ کہ یہاں بھی کوئی شیطان اسی وجہ سے ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے ہے!‘‘
عین اسی لمحے گھر کا دروازہ آواز کے ساتھ کھلا۔ جیزے فیونا کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوا۔ وہ دوڑتی ہوئی آئی اور اپنی ممی کے گلے میں جھول گئی۔ ’’ممی، جیزے مجھے انکل اینگس کے گھر سے یہاں تک لائے ہیں۔‘‘
’’شکریہ کوآن۔‘‘ مائری نے جیزے کی جانب دیکھ کر سپاٹ لہجے میں کہا۔ فیونا یوں پیچھے ہٹ گئی جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ ’’ممی، کیا آپ جانتی ہیں کہ ان کا نام کوآن ہے؟‘‘
جونی نے جلدی سے کہا کہ اس نے ساری باتیں بتا دی ہیں۔ مائری فیونا کی طرف مڑ کر بولیں: ’’اور تم کہاں سے آ رہی ہو، لگتا ہے کسی لمبے سفر سے آئی ہو، دیکھو چہرہ دھوپ سے سانولا پڑ گیا ہے۔‘‘
’’میں، جبران اور دانی سیچلز پہنچ گئے تھے۔‘‘ فیونا بتانے لگی۔ مائری حیران ہو گئی۔ فیونا نے کہا کہ یہ بحر ہند میں افریقی ساحلوں پر بہت سارے جزیروں کا مجموعہ ہے، جسے سیچلز کہتے ہیں۔ مائری کی آنکھیں حیرت سے یہ جان کر پھٹ گئیں کہ ان کی چھوٹی سی بیٹی اتنی دیر میں افریقہ پہنچ گئی تھی۔ انھوں نے صوفے پر بیٹھ کر ٹیک لگا کر کہا: ’’یہ سب ناقابل یقین ہے!‘‘
’’کیا تم نے موتی حاصل کر لیا؟‘‘ جونی نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ موتی جادوئی گولے میں رکھا جا چکا ہے، اور انکل اینگس نے اس بدمعاش کا بھی پتا لگا لیا ہے، اس کا نام ڈریٹن اسٹیلے ہے، اور وہ یہیں گیل ٹے میں ہے۔ فیونا نے یہ بھی بتایا کہ جمی اور جیک یعنی آرٹر انکل اینگس کے ساتھ قلعہ آذر چلے گئے ہیں، وہاں وہ آپ کا اور جیزے کا انتظار کریں گے۔
جونی صوفے سے اٹھا تو مائری بھی اچانک اٹھ گئی، اچانک ان کے چہرے کا رنگ بالکل بدل چکا تھا، ذرا دیر پہلے والی حیرت اب سختی میں بدل گئی تھی۔
(جاری ہے)
-
ایک سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
ڈریٹن عین اس وقت کھڑکی پر پہنچا تھا جب اینگس نے موتی گولے میں رکھا۔ وہ عادت کے مطابق بڑبڑایا: ’’تو اب صرف نو رہ گئے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے گلے میں لٹکے نیکلس پر نظر دوڑائی۔ ستارے کی تیسری نوک چمکنے لگی تھی۔ اس نے مکاری سے دل ہی دل میں کہا: ’’بہت اچھی جا رہی ہو فیونا، لگی رہو۔ لیکن یہ ڈریگن دیوار پر کیوں چمک رہے ہیں، خیر، مجھے اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہی ڈریگنز ہیں۔ یہاں میرا بہت سارا وقت ضائع ہو رہا ہے اور میں اس گندے گاؤں میں مزید ایک ہفتے کے لیے ہرگز نہیں ٹھہرنا چاہتا۔‘‘
اسی وقت کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اینگس نے دروازے پر پہنچ کر کوئی بات کی اور پھر دروازہ کھول دیا۔ ایک شخص اندر داخل ہوا، اس نے سب سے ہاتھ ملایا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے سے واقف ہوں لیکن یہ نیا شخص کون ہے؟ وہ حیرت سے سوچنے لگا۔ کہیں ان قیمتی پتھروں کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا؟ اس کا مطلب ہے کہ مجھے قلعے جا کر جادوگر سے بات کرنی پڑے گی۔ یہ سوچ کر وہ احتیاط کے ساتھ درخت سے اترا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’آہا… آرٹر، تمھیں اتنے طویل عرصے بعد دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔‘‘ جیزے نے کہا اور اسے گلے لگا لیا۔ جمی نے بھی ایسا ہی کیا۔ ایسے میں جبران نے چاکلیٹ بسکٹ منح میں ڈالتے ہوئے عجیب سوال پوچھ لیا: ’’آپ نے کیسے جانا کہ آپ نے یہیں آنا ہے؟‘‘
آرٹر پہلی بار ان پر نظر ڈال کر چونکا۔ ’’یہ کون ہیں جمی؟‘‘جمی نے تعارف کرایا کہ یہ فیونا، جبران اور دانیال اور یہ فیونا کے انکل اینگس ہیں۔ سب ہی جادوئی گولے سے منسلک ہو چکے ہیں!‘‘
’’جادوئی گولا!‘‘ آرٹر اچھل پڑا۔ ’’اوہ… تو آخر کار وہی ہوا جس کا مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے۔‘‘ اس نے جادوئی گولے پر نظر ڈالی اور کہا: ’’تو یہ ہے وہ موتی، کتنا عرصہ ہو گیا ہے اب اس بات کو۔ ویسے یہ کون سا سال ہے؟‘‘
’’تمھیں یقین نہیں آئے گا سن کر۔‘‘ جیزے نے جواب دیا: ’’یہ اکیسویں صدی ہے۔‘‘
’’اوہ… اچھا، ان بچوں میں کنگ کیگان کا وارث کون ہے؟‘‘’’میں …‘‘ اچانک فیونا بول اٹھی۔ ’’میں ہوں اور جونی کے مطابق کنگ دوگان کی وارث بھی ہوں۔‘‘
’’جونی … جونی کون ہے؟‘‘ آرٹر حیران ہوا۔ اینگس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’آلرائے کیتھمور۔‘‘
’’لیکن ہم مختلف ناموں سے کیوں پکارے جا رہے ہیں؟‘‘ آرٹر نے پریشان ہو کر پوچھا۔ اینگس بتانے لگے کہ اس صدر میں ان کے نام بہت عجیب لگتے ہیں، اس لیے کوآن کا نام جمی رکھا گیا، پونڈ کا جیزے اور خود آرٹر جیک کے نام سے رہے گا۔
’’جیک … یہ بھلا کیسا نام ہے؟‘‘ آرٹر نے منھ بنا لیا۔ جیزے نے مسکرا کر کہا کہ جدید نام ایسے ہی ہوتے ہیں۔
’’تعارف ہو گیا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ’’جیک، اب تم بیٹھ جاؤ، فیونا مجھے سیچلز کے سفر کی روداد سنا رہی ہے۔‘‘
’’جیک، آپ نے موتی پر بہت ہی خراب قسم کا جادو کر دیا تھا۔‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا۔ ’’جبران، دانی اور مجھے اسے حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ عظیم الجثہ آکٹوپس اور خونی لہروں کے باعث موت کے منھ میں جاتے جاتے بچے ہم!‘‘
’’لیکن پائریٹس بہت ہی احمق تھے، آپ کچھ بہتر کر سکتے تھے۔‘‘ اچانک جبران نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔’’ٹھیک ہے آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گا۔‘‘ جیک نے جھینپ کر کہا۔ فیونا نے انھیں سیچلز کے سفر کی ساری کہانی سنا دی تو اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں، میں نے دشمن کو ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
’’انکل اینگس کہاں ہیں؟‘‘ فیونا نے جمی اور جیزے کو صوفے پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔ ’’اور ہمیں گئے کتنی دیر ہوئی ہے؟‘‘
جمی انھیں دیکھ کر اٹھا اور بولا: ’’ہیلو، تو تم لوٹ آئے، بس چند ہی منٹ ہوئے تم لوگوں کو۔ اور تمھارے انکل ذرا باہر چلے گئے ہیں کچھ معلومات اکٹھی کرنے۔ تمھارا سفر کیسا رہا، قیمتی پتھر لے آئے؟‘‘
فیونا نے جیب سے موتی نکالا اور جمی کے حوالے کرتے ہوئے کہا: ’’ہم سیچلز پہنچ گئے تھے، بڑا مزا آیا۔‘‘
جمی نے موتی لے کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ’’کتنا شفاف ہے موتی۔‘‘ وہ کچھ دیر تک قیمتی پتھر کو دیکھتا رہا پھر بولا: ’’تمھارے انکل نے کہا تھا کہ ان کی واپسی تک کچھ نہ کیا جائے، اس لیے جب وہ واپس آئیں گے تو یہ پتھر جادوئی گیند میں رکھا جائے گا، تب تک تم سے سفر کی تفصیلات سنی جائیں۔‘‘
وہ سب انگیٹھی کے پاس کرسیوں پر بیٹھے اور گپ شپ کرنے لگے۔ ایک گھنٹہ بعد اینگس لوٹے۔ بچوں کو دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ فیونا بھی انھیں دیکھ کر اپنے سفر اور واپسی اور موتی کے بارے میں بتانے لگی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے یہ قیمتی پتھر گولے میں رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
وہ سب جادوئی گولے کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ اینگس نے موتی لے کر جادوئی گولے میں بنے ایک سوراخ میں رکھ دیا، پہلی ہی کوشش میں موتی درست سوراخ میں رکھا گیا تھا اس لیے تینوں قیمتی پتھر پہلے کہیں زیادہ روشن ہو گئے۔
’’ایک موتی کے اندر کوئی ڈریگن کیسے منقش کر سکتا ہے؟‘‘ جبران دیوار پر تین ڈریگنز کی شبیہیں جھلملاتے دیکھ کر بولا۔
’’جادوگر حیرت انگیز ہوتے ہیں۔‘‘ جمی نے خواب ناک لہجے میں کہا: ’’وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایک روز تمھیں زرومنا جادوگر سے ملنے کا موقع ملے گا۔‘‘
تینوں کی حیرت اور جوش سے بھری نگاہیں جمی پر جم گئیں۔ ایسے میں جیزے بول پڑا: ’’اس کا مطلب ہے کہ آرٹر جلد یہاں پہنچ جائے گا!‘‘’’آرٹر…؟‘‘ جبران چونکا۔ ’’عجیب سا نام ہے، کیا آپ کا مطلب ہے آرتھر؟‘‘ جبران نے سر کھجاتے ہوئے پوچھ لیا۔
’’نہیں، میرا مطلب آرٹر ہی ہے، بہرحال، وہ جیک کے نام سے آئے گا۔‘‘ جیزے نے جواب دیا۔
’’آپ سب کے دو دو نام ہیں، بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔‘‘ جبران نے کہا تو جیزے نے مسکرا کر کہا: ’’تو یہی بہتر ہے نا کہ ہمیں جمی، جیزے، جونی اور جیک کہہ کر پکارا جائے۔ ہمارے اصل نام بھول جائیں تو اچھا ہے۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ جبران بولا۔ ’’سب کے نام ج سے شروع ہوتے ہیں، یاد رکھنے میں آسانی ہوگی۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو پانچ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
ہوٹل کے باہر ایک دکان سے انھوں نے اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے خریدے۔ دکان میں داخل ہونے سے قبل انھوں نے اپنے جسموں سے ریت جھاڑی تھی تاکہ دکان گندی نہ ہو۔ خریداری کے بعد وہ ہوٹل کے کمرے میں آ گئے۔ نہا دھونے کے بعد تینوں نئے کپڑے پہن کر لفٹ کی طرف بڑھے۔ ایسے میں جبران نے فیونا کو مخاطب کیا: ’’تم نے موتی کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ اس نے فیونا کے خالی ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’پریشان مت ہو، وہ میں نے مومو کی جیب میں رکھ لیا ہے اور بالکل محفوظ ہے۔ میں اس لمبی فراک میں بہت اطمینان محسوس کر رہی ہوں۔ دیکھو اس کی جیبیں بھی گہری ہیں، کوئی بھی چیز آسانی سے چھپ سکتی ہے۔‘‘
فیونا کہتے کہتے رکی اور پھر ان دونوں پر نگاہ ڈال کر بولی: ’’تم دونوں پر بھی نیا لباس بہت جچ رہا ہے۔‘‘
دانیال نے شرما کر کہا کہ تمھارے بالوں میں یہ سرخ ربن اور پھول بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ تینوں مسکراتے ہوئے، کھانے کے لیے بنے ہال میں پہنچ گئے۔ بھوک زوروں پر تھی لیکن وہ ہوٹل کی مخصوص سجاوٹ کو اب بھی حیرت سے دیکھ رہے تھے، ویٹر نے انھیں کھڑکی کے پاس والی میز پر بٹھایا اور ایک ایک مینو ان کے حوالے کر دیا، جو بالکل سی شیل کی طرح لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ویٹر واپس آ کر پوچھنے لگا کہ انھوں نے کون کون سے آئٹم منتخب کیے ہیں۔ فیونا سب سے پہلے بول اٹھی: ’’مجھے آکٹوپس کری اور کوکونٹ مِلک چاہیے۔‘‘
’’ہیں … آکٹوپس کری … یہ کیا چیز ہے؟‘‘ جبران چونک اٹھا۔ سوال کا جواب ویٹر دینے لگا لیکن اس سے پہلے اپنا تعارف کرانا نہیں بھولا: ’’جی میں بتاتا ہوں۔ میرا نام فلپ ہے، میں یہاں آپ کا ویٹر ہوں۔ دراصل آکٹوپس کری یہاں کا خاص سالن ہے۔ آکٹوپس میں بینگن، زعفران، کری مسالا، لہسن، آکٹوپس کے مزید چھوٹے ٹکڑے بھرے جاتے ہیں اور اس پر ادرک اور دار چینی چھڑکی جاتی ہے۔ یہ بے حد ذائقہ دار سالن ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔‘‘
دانیال نے مینو پر نگاہ ڈالنے کے بعد ویٹر کو مخاطب کیا: ’’مسٹر فلپ، مجھے تو پہلے کیکڑے کا سوپ چاہیے، اس کے بعد شاہی مچھلی لائیے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے جناب‘‘ ویٹر نے اثبات میں سر ہلایا اور جبران کی طرف مڑ کر آرڈر پوچھا۔ ’’میرے لیے تلی ہوئی شرمپ لا دیں۔‘‘ جبران نے جواب دیا اور اپنا مینو بند کر کے اس کے حوالے کر دیا۔ ویٹر کہنے لگا کہ تلی ہوئی شرمپ کے ساتھ کوکونٹ مِلک میں پکائے گئے کیلوں کی سویٹ ڈش بھی شامل ہے، جس پر پنیر چھڑکا جاتا ہے۔‘‘
’’بہت خوب، یقیناً مجھے پسند آئے گی یہ ڈش۔‘‘ ویٹر کچھ دیر بعد سب کی پسند کے کھانے لے کر آ گیا۔ تینوں نے مزے لے کر کھایا اور پیٹ بھرنے کے بعد تگڑی ٹپ چھوڑ کر اپنے کمرے میں آ گئے۔ دانیال بولا: ’’تو اب چلنے کی تیاری ہو!‘‘
فیونا نے کہا کہ اس کا تو بالکل جی نہیں چاہ رہا کہ واپس جائے، اور گیل ٹے میں بور ہوتی پھرے، لیکن موتی لے جانا بھی ضروری تھا۔ جبران کے بھی یہی جذبات تھے۔ فیونا نے جا کر ہوٹل کے کلرک کو بل دیا تو اس نے مشکوک نگاہوں سے گھورا۔ بل ادا کرنے کے بعد تینوں پام کے درختوں کے پاس آ گئے اور ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور بولی: ’’تم دونوں تیار ہو نا!‘‘
دونوں نے سر ہلایا اور ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کھڑے ہو گئے۔ ایک بار پھر دور دراز کے جزیرے سے ان کی واپسی کا وقت آ گیا تھا، ان کے چہروں پر گھبراہٹ کے آثار تھے۔ انھیں ایک بار پھر جادوئی منتر کے ذریعے ہزاروں میل کا سفر طے کرنا تھا اور وہ یہ سفر کئی مرتبہ طے کر چکے تھے لیکن ہر بار جب وہ اس سفر سے گزرتے تھے، تو ان جانا خوف انھیں گھیر لیتا تھا۔ کیا پتا، کبھی جادو میں کوئی گڑبڑ ہو، اور وہ پھر کبھی گھر نہ پہنچ سکیں۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے اور پھر فیونا کے لب ہلنے لگے:
’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘
(جاری ہے…)