Tag: رفیع اللہ میاں ناول

  • ایک سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
    وہ بھاگے چلے جا رہے تھے، ان کے سروں پر بڑے بڑے چمگادڑ اڑ رہے تھے لیکن انھیں اس سے بھی بڑے خطرے کا سامنا تھا اس لیے وہ ان سے نہیں ڈرے۔ جب بڑا خطرہ سامنے ہو تو چھوٹے خطرے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ جبران گھبرا کر بولا: ’’قذاق بہت قریب پہنچ گئے ہیں، مجھے ان کی بو آ رہی ہے۔‘‘
    انھوں نے سنا، ایک قذاق اپنی بے سری آواز میں گا رہا تھا …. یو ہو ہو اور اک بوتل ۔۔۔ !
    دانیال یہ سن کر قہقہ لگا کر بولا: ’’ارے یہ تو واقعی انتہائی بے وقوف ہیں،ان کی سوچ بس بوتل اور تختے تک محدود ہے، کیا ان میں کوئی ایک بھی عقل مند نہیں ہے۔‘‘
    اچانک ان کی سماعتوں سے ایک چیختی ہوئی آواز ٹکرائی اور ان کے قدم بے ساختہ جہاں تھے وہیں جم گئے۔ وہ آواز کہہ رہی تھی: ’’بدمعاشو… ہے نا ایک عقل مند پائریٹ اور وہ میں ہوں۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ عین ان کے سامنے جھاڑیوں سے ایک انتہائی بدوضع اور خوف ناک شکل والا قذاق کود کر ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنی شکل مزید بگاڑ کر بولا: ’’حیران ہو گئے نا کہ میرے پاس بھی دماغ ہے ۔۔۔۔ ارغ ۔۔۔‘‘
    اس کے چہرے پر بڑے بڑے بال تھے، اور سر کے گہرے بھورے رنگ کے چپڑے بال رنگین رومال سے باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔وہ حیرت اور خوف سے قذاق کو دیکھ رہے تھے کہ اسی اثنا میں باقی سمندری ڈاکو بھی پہنچ گئے اور سب نے دائرہ بنا کر انھیں گھیرے میں لے لیا۔ ایک بولا: ’’سردار، ان بدمعاشوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟‘‘
    بدوضع اور بد نما قذاق مسکرایا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کے منھ میں سامنے کے تین دانت غائب تھے، اور ایک خلا نظر آ رہا تھا۔ اس کے باقی دانتوں پر کوئی بدبودار اور غلیظ مادہ چپکا ہوا تھا جس کی بو دس فٹ دور کھڑے ان تینوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا: ’’ارے بونی جان، تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے، چوں کہ ہمارے پاس بحری جہاز نہیں ہے اس لیے ہم انھیں تختے پر نہیں لے کر جا سکتے۔‘‘
    ان میں سے ایک پائریٹ جس کا نام بگ ٹومی تھا، نے تجویز پیش کی کہ انھیں کسی اونچے درخت سے لٹکا کر پھانسی دی جائے، کوے اور چوہے ان کے جسم مزے سے کھا جائیں گے۔‘‘
    اچانک فیونا چلا کر بولی: ’’نہیں… تم سب ہم سے دور رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے موتی نکال لیا اور بولی: ’’یہ ایک جادوئی بال ہے، اگر میں تم لوگوں کے سامنے کردوں تو تم سب بندر بن جاؤ گے۔‘‘
    تمام قذاق یہ سن کر ہنسنے لگے۔ ان کا سردار کیپن وِل منھ بگاڑ کر بولا: ’’اووو… ارے تم نے مجھے ڈرا دیا۔‘‘
    فیونا نے اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے تھوک نگلا اور بولی: ’’تو ٹھیک ہے، اگر تم اتنے بہادر ہو تو آگے بڑھو اور اسے حاصل کر لو۔‘‘ کہتے کہتے فیونا ٹھہری اور چند لمحے بعد بولی: ’’ڈر گئے نا!‘‘
    کیپن ول کی ہنسی ایک دم رک گئی۔ اس کے سر پر بندھا رومال ڈھیلا ہو کر اس کی آنکھ پر آیا۔ آنکھ پر بندھی پٹی گر گئی اور اس کی دوسری آنکھ بھی نظر آ گئی۔ جبران یہ دیکھ کر حیرت سے بولا: ’’ارے، اس کی دوسری آنکھ تو سلامت ہے، اس نے بلاوجہ چھپائی ہوئی تھی.‘‘
    کیپن ول نے جلدی سے پٹی آنکھ پر دوبارہ چڑھائی اور سر پر رومال کس کر باندھا اور پھرتی سے خنجر نکال کر غرایا: ’’میرے خیال میں تمھاری زبان کاٹنی ہی پڑے گی، بہت بولتے ہو تم۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو دو ویں قسط: پر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو دو ویں قسط: پر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا انھیں اپنے اتنے قریب دیکھ کر اسپرنگ کی طرح اچھلی اور چلاتے ہوئے دوڑی: ’’بھاگوووو…‘‘ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ذرا ہی دیر میں وہ جبران اور دانیال سے بھی آگے نکل گئی۔
    اچانک ان کی سماعتوں سے ایک قذاق کی چیخ سے مشابہ آواز ٹکرائی، وہ کہہ رہا تھا: ’’یہ ہمارے خزانے کے پیچھے جا رہے ہیں … پکڑو انھیں اور تختے پر لے آؤ۔‘‘
    ایک اور قذاق چلایا: ’’یہ تختہ کیا ہے گدھے… ہمارا جہاز کہاں ہے؟‘‘
    سارے کے سارے بحری ڈاکو اب ان تینوں کے پیچھے چیختے چلاتے اور تلواریں لہراتے دوڑ رہے تھے۔ دوڑے دوڑتے فیونا بولی: ’’واؤ زبردست … پہلے وائی کنگ اور اب یہ پائریٹس … جب ہم گھر لوٹیں گے تو جمی اور جیزے کو ان پھندوں کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔‘‘
    تینوں جھاڑیوں میں اندھا دھند بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ سخت جھاڑیوں اور کانٹوں سے بچنا ممکن نہیں تھا اس لیے انھیں جا بہ جا خراشیں آ گئی تھیں۔ دوڑتے دوڑتے وہ ایک کھلی جگہ میں آ گئے۔ تینوں رک کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ فیونا نے سانسوں کو قابو کرتے ہوئے کہا: ’’تم دونوں نے نوٹ کیا، یہ سب بالکل ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔‘‘
    جبران بولا: ’’میں پائریٹس کے متعلق پڑھا ہے، یہ عقل مند نہیں تھے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں پکڑ لیں کیوں نہ ہم کوئی چال چل کر ان سے چھٹکارا پا لیں، یہ سب بے وقوف ہیں اور مردہ بھی!‘‘
    دانیال نے کہا کہ یہ لوگ بے وقوف ہو سکتے ہیں اور کسی زمانے میں یہ مرے بھی ہوں گے لیکن اب یہ زندہ ہیں اور ان کے ہاتھوں میں تیز دھار تلواریں بھی ہیں۔ دانیال سانس لینے رکا اور حیران ہو کر بولا: ’’ارے انھوں نے آنکھوں پر پٹیاں کیوں باندھ رکھی ہیں، اور یہ ارغ کیا چیز ہے، کیا واقعی بحری قذاق اسی قسم کی آوازیں نکالا کرتے تھے؟ میں تو سمجھا تھا کہ یہ صرف کارٹون اور فلموں میں ہوتا ہے۔‘‘
    ان دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن فیونا اچانک بولی کہ انھیں جانا کس طرف ہے؟ یہ کہہ کر اس نے کلائی پر بندھی گڑھی پر نظر ڈالی، لیکن وہ سمندری پانی سے خراب ہو چکی تھی۔ جبران کی گھڑی واٹر پروف تھی، جس کے مطابق جیکس کی واپسی میں صرف پینتالیس منٹ رہ گئے تھے، اور وہ پک اپ پوائنٹ سے بھی بہت دور تھے۔ دانیال نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اس سمت چلتے ہیں، وہ ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ لیکن فیونا نے کہا: ’’انھیں پتا ہے کہ ہم نے موتی حاصل کر لیا ہے، اور انھیں ایک ایسا منتر آتا ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں ڈھونڈ نکال سکتے ہیں۔‘‘
    دانیال نے پوچھا: ’’کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کا خزانہ چرا لیا ہے؟‘‘
    فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔ انھیں آوازیں سنائی دینے لگیں، فیونا نے دونوں کو اپنے پیچھے آنے کو کہا اور وہ ایک بار پھر جھاڑیوں کے درمیان دوڑنے لگے۔ وہ جتنا تیز دوڑ سکتے تھے، دوڑتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے بحری ڈاکو چیختے اور نعرے لگاتے ہوئے آ رہے تھے۔ ’’پکڑو… ان بدمعاشوں کو… لے چلو انھیں تختے پر!‘‘
    (جاری ہے…)
  • ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا چیخ کر بولی: ’’اندر غوطہ لگاؤ، لہر کی واپسی تک پانی کے اندر ہی رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے غوطہ لگا لیا۔ ذرا دیر بعد وہ سطح پر ابھرے اور سانس لینے لگے۔
    دانیال بولا: ’’مجھے غار کا دہانہ اب نظر نہیں آ رہا ہے۔ غار پانی سے مکمل طور پر بھر چکا ہے، اب تو ہمیں پانی کے اندر ہی اندر تیر کر باہر نکلنا ہے۔‘‘ جبران نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’اور اس صدفے کا کیا کروں، میں تو اس کے ساتھ تیر نہیں سکتا۔‘‘
    ’’یہ مجھے دے دو۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’میں خود کو پھر بڑا کرنے والی ہوں، تم دونوں میری شرٹ مضبوطی سے پکڑ لینا۔ وہ دیکھو ایک اور لہر آ رہی ہے، جب یہ واپس ہونے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی باہر نکلنا ہے … سنبھل جاؤ اب!‘‘
    فیونا نے جیسے ہی جملہ پورا کیا، لہر نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں نے لمبی سانس لی اور فیونا کی شرٹ پکڑ لی۔ انھیں محسوس ہوا کہ فیونا کا قد تیزی کے ساتھ بڑا ہونے لگا ہے۔ لہر واپس ہونے لگی تو فیونا بھی ان دونوں کو ساتھ لے کر دہانے کی طرف تیرنے لگی۔ دہانے پر پہنچ کر دونوں کو اچانک ایسا لگا کہ انھیں پھر کسی عظیم الجثہ آکٹوپس نے گھیر لیا ہے۔ جبران چیخا: ’’فیونا، لہر آ رہی ہے اور یہ تو بہت ہی بڑی ہے۔‘‘
    ’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ فیونا نے اطمینان سے کہا: ’’اب ہم غار سے نکل آئے ہیں اور میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں۔‘‘ دونوں نے دیکھا کہ فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے بھی بڑی ہو گئی ہے۔ اس نے اطمینان سے چند ہی قدم اٹھائے اور وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ جب وہ لہروں کی پہنچ سے دور ہو گئے تو فیونا نے دونوں کو نیچے اتارا اور اپنی عام جسامت میں آ گئی۔
    ’’اوہ فیونا، تم تو کسی وھیل جتنی بڑی ہو گئی تھی۔‘‘ جبران نے ریت پر اترتے ہی حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے مڑ کر غار کی طرف دیکھا لیکن اب وہاں پانی ہی پانی تھا، غار پانی کے اندر مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔
    ’’ٹھیک ہے فیونا۔‘‘ جبران کہنے لگا: ’’اب اس صدفے کو توڑو اور اس میں سے موتی نکال لو، تاکہ ہم یہاں سے جلد از جلد روانہ ہو سکیں، ہمیں جیکس کو بھی ڈھونڈنا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں
    تھوڑی دیر بعد وہ آکٹوپس، جو اس کی تلاش میں تھا، کے سر پر نمودار ہو گئی۔ اس نے سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی آنکھ میں گھسیڑ دیا۔ آکٹوپس نے درد سے مچل کر ایک ٹانگ اسے پکڑنے کے لیے لہرائی لیکن وہ پھرتی کے ساتھ اچھل کر دوسری آنکھ کے قریب پہنچی اور سیپی کا سرا دوسری آنکھ میں بھی گھونپ دیا۔ آکٹوپس نے تکلیف کے مارے چیخ ماری اور آٹھوں ٹانگیں سر کی طرف لے گیا۔
    جبران خوشی سے چلایا: ’’واؤ، فیونا نے اسے اندھا کر دیا ہے، ارے وہ دیکھو، ابھی وہ ایک بار پھر بڑی ہو رہی ہے۔‘‘ دانیال بھی خوشی سے چلانے لگا۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے ساتھ ساتھ سیپی بھی بڑی ہونے لگی اور ایک خطرناک ہتھیار کا روپ دھار گئی۔ فیونا نے بڑے ہونے کے بعد سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی کھوپڑی میں دے مارا۔ سر پر یہ وار مہلک ثابت ہوا اور آکٹوپس کی اٹھی ہوئی ٹانگیں یک لخت گر کر پانی میں ڈوب گئیں۔ ذرا دیر بعد آکٹوپس ایک ڈھیر کی طرح پانی کی سطح پر دو پتھروں کے درمیان ادھر ادھر ڈول رہا تھا۔ فیونا اپنے نارمل قد میں آئی اور پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ ’’تم نے اسے بہادری سے مار دیا ہے فیونا۔‘‘ جبران نے اس کی تعریف کی۔
    ’’اگر میں نہ مارتی تو یہ ہم تینوں کو مار دیتا، اور کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘ فیونا نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ زندگی میں پہلی بار اس کے ہاتھوں کسی جان دار کا اس طرح قتل ہوا تھا، اس لیے وہ نہ خوشی محسوس کر رہی تھی نہ دکھ۔ دانیال نے توجہ دلائی کہ اس کے کپڑوں پر بے تحاشا گندگی پھیل گئی ہے۔ فیونا کے کپڑوں پر سے سرخ رنگ کا لیس دار مادہ پھسل پھسل کر گر رہا تھا، جس سے عجیب سی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ دانیال نے اچانک کہا ’’دیکھو پانی کتنا اونچا ہو چکا ہے، غار آدھا بھر گیا ہے۔ ہمیں جلد از جلد صدفہ اٹھا کر لانا ہے اور اسے باہر نکل کر ہی توڑیں گے۔‘‘
    فیونا بھی چونک اٹھی، اس نے جبران سے کہا کہ اب اسے مزید گہرائی میں جانا ہوگا، لہریں اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ جبران پانی میں کود گیا اور وہ دونوں اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ ذرا ہی دیر بعد وہ نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں وہی صدفہ تھا۔ دونوں کے چہروں پر خوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فیونا بولی: ’’واؤ، یہ تو خاصا بڑا ہے، میرے خیال میں دو مونہے صدفے میں موتی کی جسامت بڑھتی رہتی ہے۔‘‘
    دانیال نے مدد کر کے جبران کو پتھر پر چڑھایا، اور اسی لمحے ایک بہت بڑی لہر غار کے اندر داخل ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے، تینوں اس کی زد میں آ گئے۔ وہ پتھر سے پانی میں گر گئے لیکن گرتے گرتے فیونا چلائی: ’’جبران تم اس صدفے کو گرنے مت دینا۔‘‘
    لہر غار سے ٹکرا کر واپس چلی گئی تو تینوں پھر پتھر پر چڑھے۔ جبران نے صدفہ مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا، اسے دیکھ کر فیونا اور دانیال کی آنکھوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ دانیال بولا: ’’ہمیں جلد از جلد اس غار سے نکلنا ہوگا، ورنہ اگر اسی طرح لہریں آتی رہیں گی تو ہم یہیں مر جائیں گے۔‘‘
    وہ تینوں غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے، فیونا نے انھیں خبردار کیا کہ لہریں بے حد خطرناک معلوم ہوتی ہیں، اور پتھروں سے پٹک پٹک کر انھیں جان سے مار سکتی ہیں۔ تینوں پانی میں اتر کر تیر رہے تھے، ابھی وہ دہانے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک اور بڑی لہر آئی اور انھیں اپنے ساتھ اندر دھکیل گئی۔ انھیں لگا جیسے پتھروں پر دھوبی کی طرح لہروں نے انھیں پٹکا ہو۔ لہر واپس چلی گئی تو تینوں پانی سے سر نکال کر سانس لینے لگے، انھیں لگا کہ یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ دانیال نے کہا: ’’مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہی دوسرا پھندا ہے۔ دیکھو پانی اور غار کی چھت میں محض دو تین فٹ کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے، اور ہم ڈوب کر مر جائیں گے۔‘‘
    اسے لمحے ایک اور بڑی لہر اندر داخل ہو گئی۔
    (جاری ہے….)
  • ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا پانی میں گری تو اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا اور وہ پانی میں بے اختیار ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ جبران اور دانیال چیخ چیخ کر اسے خود کو بچانے کے لیے کہتے رہے۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ آکٹوپس کا ایک کوڑا اس کی دوسری ٹانگ سے بھی لپٹ چکا ہے، اور اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوا کہ آکٹوپس کی خون چوسنے والی کنڈلی بھی اس کی ٹانگ کے ساتھ لگ گئی ہے، یہ محسوس کرتے ہوئے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ اسی لمحے اس کے بازو سے بھی ایک ٹانگ لپٹی۔ فیونا نے تیزی سے آکٹوپس کی ٹانگوں پر اپنے آزاد ہاتھ سے مکے برسائے لیکن اس سے آکٹوپس مزید غصے میں آ گیا۔ اس کی چھ لہراتی اور لچکتی ٹانگیں بری طرح کھلبلانے لگیں اور فیونا کے جسم پر جہاں خالی جگہ دیکھی، وہاں سے لپٹ گئیں اور اسے پانی کے اندر کھینچنے لگیں۔ دانیال بے اختیار چیخا: ’’جبران وہ ڈوب رہی ہے، ہمیں اس کو بچانا ہے۔‘‘
    یہ کہہ کر دانیال پانی میں کود گیا اور تیرتا ہوا سیدھا آکٹوپس کے منھ کے قریب جا پہنچا اور اس کے منھ پر مکے برسانے لگا۔ جبران ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گیا تھا، اس نے سوچا تک نہ تھا کہ دانیال اس طرح کی جی داری کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے۔ یہ تو خود کو موت کے منھ میں دھکیلنے والی بات تھی۔ وہ پریشانی کے عالم میں پتھر پر بیٹھ گیا تھا اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک دانیال نے پانی سے سر ابھارا اور سانس لے کر بولا: ’’جبران … ہماری مدد کرو!‘‘
    دانیال دوبارہ ڈبکی لگا کر پانی میں چلا گیا، لیکن اس کے اس جملے سے جبران کو جھٹکا لگا اور جیسے وہ نیند سے یک لخت بیدار ہو گیا ہو۔ وہ اچھل کر پانی میں کود گیا اور فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ اندر ہی اندر شدید خوف زدہ بھی تھا لیکن وہ سمجھ گیا تھا کہ بچنے کا اب ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ آکٹوپس کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ اچانک آکٹوپس نے عجیب حرکت کر ڈالی۔ اس نے سیاہی کی پچکاری ماری اور پانی کا رنگ کالا ہو گیا۔
    کالے پانی میں ان تینوں کے لیے کچھ دیکھنا ناممکن ہو گیا۔ اسی لمحے آکٹوپس کی ساتویں ٹانگ جبران کے ٹخنے اور آٹھویں دانیال کے گھٹنے سے لپٹ گئی۔ اس کے بعد اس نے ٹانگیں پھیلا کر اوپر اٹھا لیں۔ تینوں نے پانی سے باہر نکل کر لمبی لمبی سانسیں لیں، لیکن اب وہ ہوا میں بلند تھے اور ہاتھ پاؤں مار رہے تھے تاکہ آکٹوپس کی مضبوط گرفت سے آزاد ہو سکیں۔ اچانک ایک اور حیرت انگیز بات واقع ہو گئی۔ فیونا اچانک غائب ہو گئی تھی۔ ان دونوں کو تو حیرت ہونی ہی تھی تاہم آکٹوپس بھی حیرت کا شکار ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یکایک جبران اور دانیال کو بھی اپنی گرفت سے آزاد کر دیا تھا، جس پر وہ دونوں تیزی سے تیرتے ہوئے پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
    جبران نے پریشان ہو کر کہا کہ فیونا کہاں غائب ہو گئی ہے، اس کے لہجے میں خوف اور سخت تشویش کا تاثر جھلک رہا تھا۔ دانیال نے ہکلا کر کہا: ’’تت … تمھارا … مطلب ہے کہ اسے آکٹوپس نے نگل لیا!‘‘ دانیال کی صورت یوں ہو گئی تھی جیسے وہ ابھی رو دے گا۔
    ’’میں یہاں ہوں … میں یہاں ہوں!‘‘ یکایک انھیں آواز سنائی دی۔ یہ باریک آواز تھی، وہ دونوں اچھل پڑے اور پانی میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ’’ارے وہ رہی فیونا۔‘‘ دانیال خوشی سے چلایا۔ جبران نے مڑ کر دیکھا تو پتھر کے پیچھے اسے بھی بالشت بھر فیونا نظر آ گئی۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر بولا: ’’فیونا تم کتنی ننھی منھی ہو گئی ہو… اوہ مائی گاڈ … یہ کیسا جادو ہے!‘‘
    ’’ہاہاہا …‘‘ فیونا ہنسی تو انھیں ایک باریک ہنسی سنائی دی۔ اس نے کہا: ’’مجھے ایک نوکیلی سیپی ملی ہے اور میں اس سے اس منحوس آکٹوپس کا تیاپانچہ کرنے والی ہوں۔‘‘
    یہ کہہ کر اس نے غوطہ کھایا اور پانی میں غائب ہو گئی۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    ڈریٹن نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا لیکن وہ ان تینوں کو پہچان گیا تھا۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ جبران اس سے ٹکرا گیا تھا۔ جب وہ تینوں آگے چلے گئے تو ڈریٹن ان سے فاصلہ رکھ کر پیچھا کرنے لگا۔ تینوں ایک کیفے میں گئے، کھانا کھایا اور پھر سمندر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ دور سے انھیں جاتے دیکھتا رہا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کے پیچھے ہرگز نہیں جائے گا بلکہ یہیں پر ان کی واپسی کا انتظار کرے گا۔ یہی سوچ کر وہ ایک دکان کی طرف بڑھا اور وہاں سے ایک بڑے سائز کا تولیہ خریدا، پھر ریت پر آ کر شمسی غسل کے لیے لیٹ گیا، اور آنکھیں موند کر سو گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔

    تھوڑی دور آگے جا کر وہ ٹھہر گئے۔ وہاں دور تک قطاروں میں مختلف اقسام کے تاڑ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ ناریل کے درختوں کی بھی ایک قطار تھی۔ جبران نے کہا کہ ناریل توڑنے چاہیئں، لیکن فیونا کا خیال تھا کہ ناریل ابھی کچے ہیں۔ جبران اور دانیال پتھر لے کر ناریل گرانے کی کوشش کرنے لگے، اور فیونا ایک طرف بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے قیمتی پتھر موتی کے اصل مقام کے بارے میں معلوم کرنے لگی۔ ناریل اتنی اونچائی پر تھے کہ ان کے پھینکے پتھر وہاں تک بہ مشکل پہنچ رہے تھے۔ دانیال نے درخت کو ہلانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ دوسری طرف فیونا نے اچانک آنکھیں کھولیں اور خوشی سے چلائی: ’’چھوڑو ناریل ۔۔۔ یہاں آؤ، مجھے پتا چل گیا ہے کہ موتی کہاں چھپا ہے؟‘‘

    دونوں دوڑ کر اس کے قریب چلے آئے۔ دانیال نے بے تابی سے احمقانہ سوال کر دیا: ’’کہاں چھپا ہے، کیا ان بڑے ناریل میں سے کسی ایک میں ہے؟‘‘ یہی نہیں بلکہ وہ مڑ کر قریبی درخت کی طرف منھ اٹھا کر دیکھنے بھی لگا۔

    فیونا نے منھ بنا کر کہا کہ وہ ایک غار میں چھپایا گیا ہے۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر ریت پر بیٹھ گیا۔ ’’ایک بار پھر ہمیں غار میں جانا پڑے گا اور وہاں زلزلے آئیں گے اور ٹرال جیسی بھیانک مخلوق سے واسطہ پڑے گا۔‘‘

    فیونا جھلا کر بولی: ’’اٹھ جاؤ جبران، بہت ڈرپوک ہو تم۔ موتی ایک غار ہی میں ہے لیکن یہ غار زیر آب ہے۔‘‘

    ’’پانی کے اندر۔‘‘ دانیال اچھل پڑا۔ اس نے آنکھیں نکال کر کہا: ’’ہم پانی کے اندر کوئی غار کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس مطلوبہ سامان ہے؟ اور یہ بات بھی ہے کہ میں ایک بار پھر بھیگنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے بارے میں تو تبھی پریشان ہوں گے جب ہم یہ کرنے جائیں گے، وہ قریب ہی ہے، جہاں پتھروں کے ڈھیر پڑ ہیں، بس وہیں پر۔ جبران کہنے لگا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ بحری ڈاکوؤں کا جہاز ایک خزانہ لے کر ساحل پر آتا ہے اور وہ یہاں کسی غار میں اسے دفن کر دیتے ہیں۔ ویسے مزا آئے گا نا جب ہم خزانہ بھی ڈھونڈ نکالیں گے، جس کے بارے میں جیکس نے بتایا تھا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے خیال میں جیکس نے جھوٹ بولا تھا۔ دانیال سمندر کی بڑی بڑی لہروں کو دیکھ رہا تھا، اسے سونامی کا خیال آ گیا، جس کا اس نے باقی دونوں کے سامنے اظہار بھی کر دیا، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ فیونا نے کہا: ’’ان پتھروں پر ذرا احتیاط سے چلو، یہ پھسلواں بھی ہیں اور ان کے کنارے بھی تیز ہیں، ویسے مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا سامنا کسی سونامی سے ہوگا۔‘‘

    آخر کار وہ پتھروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں سے انھیں کیکڑے نکلتے دکھائی دیے، ذرا دیر میں وہ ایک غار کے سامنے پہنچ گئے۔ غار کا دہانہ اس انداز میں ان کے سامنے نمودار ہوا تھا جیسے گہرائی سے اوپر کی طرف ابھرا ہو۔ وہ محتاط ہو کر اندر داخل ہوئے۔ لہریں غار کے اندر جا رہی تھیں تاہم یہ لہریں بہت چھوٹی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’موتی زیر آب ہے اور ایک بڑے دو مونہے سیپی میں پڑا ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ہمیں شاپنگ کی ضرورت ہے،‘‘ دانیال بولا: ’’ہم یہاں اس جزیرے پر ان کپڑوں میں نہیں گھوم پھر سکتے۔ میرے کپڑوں سے سمندر جیسی بو آ رہی ہے، مجھے اپنے بالوں میں برش بھی کرنا ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، چلو پہلے شاپنگ کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے اترے تو فیونا بولی: ’’یہاں ذرا ٹھہرو، اور کاؤنٹر والے شخص پر نظر رکھو، جیسے ہی وہ ادھر ادھر کسی کام میں لگ جائے، تب فوراً باہر نکلو۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھ سے والدین کے بارے میں پوچھے۔‘‘

    انھیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا، ایک نوجوان جوڑا آ کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ تینوں تیزی کے ساتھ آگے بڑھے اور ان کی آڑ میں برآمدے سے ہوتے ہوئے ہوٹل سے باہر نکل گئے۔ سڑک پر آتے ہی جبران بولا: ’’ہوٹل کے برآمدے میں اتنی عجیب و غریب اور خوب صورت چیزیں ہیں کہ وہاں سے نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا۔‘‘ فیونا نے ہنس کر اس کی تائید کی، اور کہا کہ جب کاؤنٹر والا چھٹی کرے گا تو وہ برآمدے میں وقت گزاریں گے۔

    وہ تینوں سڑک کنارے دکانوں کے اندر جھانکنے لگے، وہ دکانوں میں سجی اشیا دیکھنے میں اتنے مگن تھے کہ راستے میں کھڑے اس شخص کو بھی نہیں دیکھ سکے جو رقم گن رہا تھا۔ جبران اچانک اس سے جا ٹکرایا۔ راستے میں کھڑے شخص نے لپک کر اسے گردن سے پکڑ لیا۔ ’’کیا کر رہے ہو، اندھے ہو کیا…!‘‘ وہ شخص بھڑک کر بولا: ’’اچھا تو تم میرے پیسے چرانا چاہتے ہو؟‘‘ جبران یہ دیکھ کر گھبرا گیا اور گڑگڑانے لگا: ’’نن … نہیں جناب، میں غغ … غلطی سے ٹکرایا!‘‘

    اس دوران دانیال اور فیونا بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے، اس شخص نے دونوں کو گھور کر دیکھا اور ڈپٹ کر پوچھا: ’’تم دونوں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’کک … کچھ نہیں۔‘‘ فیونا ایک دم گھبرا گئی: ’’آپ اسے چھوڑ دیں، جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا۔‘‘

    ’’اوہو…‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولا: ’’تم تو بڑی بہادر لڑکی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جبران کو دھکا دے کر پیچھے گرا دیا اور وہ بے چارا چاروں شانے چت ہو گیا۔ اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔

    ’’میں سمجھتا ہوں تم سب کی چالاکی کو۔‘‘ وہ غرّا کو بولا۔ ’’تم پر کڑی نظر رکھوں گا میں۔ اگر تم پھر میرے راستے میں آئے تو تمھاری خیر نہیں ہے، مجھ سے دور ہی رہنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگاتا ہوا چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی دونوں دوڑ کر جبران کے پاس آ گئے اور اسے اٹھایا۔ فیونا اچانک بولی: ’’حیرت ہے اس شخص کا لہجہ بالکل انگریزوں والا تھا۔‘‘

    ’’وہ بدمعاش گینڈا تھا۔‘‘ جبران غصے میں بولا۔ کچھ دیر تک وہ اس ناخوش گوار واقعے پر تبصرے کرتے رہے اور پھر شاپنگ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ایک دکان سے فیونا نے اپنے لیے گلابی رنگ کا سوٹ خریدا جس پر جگہ جگہ سوزن کاری سے اسٹار فش بنائی گئی تھی۔ دانیال نے نیلے رنگ کی مختصر پینٹ اور سفید ٹی شرٹ اور ایک عدد بالوں کا برش خرید لیا۔ اس کی ٹی شرٹ پر سیچلز کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ جبران نے ہلکے سبز رنگ کی مختصر پینٹ پسند کی، اس نے بھی سفید ٹی شرٹ خریدی جس پر کھجور کے درخت کی تصویر تھی۔ تینوں نے اپنے لیے چپل بھی خریدی، اور اس کے بعد وہ ہوٹل واپس آ گئے اور کپڑے بدل لیے۔ انھوں نے پرانے کپڑے یونہی بستروں پر پھینک دیے۔ نئے کپڑوں میں وہ زیادہ بہتر محسوس کر رہے تھے، تینوں ہوٹل سے پھر نکل آئے، اس وقت موسم میں بھرپور نمی تھی، فیونا نے کہا: ’’ہمیں ایک کشتی کرائے پر لینی ہوگی، سلہوٹ آئس لینڈ جانے کے لیے ہم کسی ٹور گروپ کے ساتھ نہیں جائیں گے، چلو پہلے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘
    انھوں نے ایک پرائیویٹ کشتی بُک کر لی تو ان کے پاس ایک گھنٹہ تھا، جس کے بعد ہی کشتی نے روانہ ہونا تھا۔ ایسے میں جبران بولا: ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے!‘‘

    (جاری ہے…)

  • چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    تینوں کے جانے کے بعد اینگس کے چہرے پر ایسے گہرے تاثرات چھا گئے جیسے وہ کوئی بہت اہم بات سوچ رہے ہوں۔ ان کے سامنے جمی اور جیزے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، اور کمرے میں خاموشی تھی۔ یکایک اینگس نے یوں اچانک سر اٹھا کر ہلایا جیسے وہ کوئی اہم فیصلہ کر چکے ہوں۔ چند لمحوں بعد انھوں نے جمی اور جیزے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’جب فیونا اور اس کے دوست واپس آئیں تو انھیں بتانا کہ میں ٹاؤن گیا ہوں۔ اب اس شخص کے بارے میں کھوج لگانے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ گیل ٹے میں اپنی موجودی ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ میں ہوٹلوں اور سرائے میں جا کر اس کے بارے میں معلومات حاصل کروں گا، اور آپ دونوں یہاں بیٹھ کر چائے پئیں۔‘‘ اینگس نے رک کر کہا: ’’مرتبان میں چاکلیٹ بسکٹ بھی موجود ہیں، اطمینان سے مزے لیں، اور ہاں وہ تینوں جلد ہی لوٹ آئیں گے، انھیں یہیں پر روکے رکھیں اور میرے آنے تک جادوئی گولے کو مت چھوئیں۔‘‘

    جمی اور جیزے نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا اور اینگس دروازہ کھول کر چلے گئے۔
    ۔۔۔۔

    ڈریٹن چونک اٹھا۔ اس کے گرد مختلف رنگ جھلملانے لگے تھے۔ خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی تھی۔ لیکن جب اس نے اپنی بند آنکھیں کھول دیں تو وہ حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں کھڑا تھا۔ ڈریٹن خوشی کے مارے بڑبڑانے لگا: ’’زبردست … زبردست … میں یہاں صحیح سلامت پہنچ گیا ہوں۔‘‘ اس نے جیبوں میں ہاتھ ڈالے تو اس سے چند نوٹ نکل آئے۔ ’’ہونہہ … یہ تو اس جیسی جگہ کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔‘‘ اس نے سامنے سڑک پر پُر تعیش ہوٹلوں کی قطار پر نگاہ دوڑائی، پھر اپنی بری عادت کے مطابق بولا: ’’کوئی بات نہیں، جو چیز خرید نہیں سکتا، وہ چرا تو سکتا ہوں۔‘‘

    اس نے کوٹ اور شرٹ اتار کر پھینک دیے اور جینز اور جوتوں کو رہنے دیا۔اس کے قریب سے ایک جوڑا گزرا، ان کی چمکتی ہوئی جلد کو دیکھ کر ڈریٹن کو اپنا پھیکا رنگ برا لگنے لگا۔ وہ نئے کپڑوں کے لیے کوئی شاپنگ سینٹر ڈھونڈنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے ایک شاپنگ سینٹر مل گیا، اس نے مقامی لباس پسند کر کے چپکے سے اٹھایا اور پھر مہارت کے ساتھ شاپنگ سینٹر سے نکل گیا اور درختوں کے جھنڈ میں واپس جا کر اس نے کپڑے تبدیل کر لیے۔ ایک مرتبہ پھر وہ گلیوں میں نکل آیا اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑبڑانے لگا: ’’ویسے یہ جگہ ہے کون سی؟ اور وہ تین کہاں گئے؟‘‘ اسے ایک ہوٹل نظر آیا تو اس کے قدم اسی طرف اٹھنے لگے۔
    (جاری ہے)

  • اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    فیونا نے اینگس کے دروازے پر دستک دی اور پھر صبر کرنے کی بجائے چلّا کر آواز دی: ’’انکل اینگس… دوازہ کھولیں!‘‘

    اینگس نے دروازہ کھولا تو حیرت سے فیونا کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں دیکھنے لگے۔ فیونا نے بتایا کہ کوئی پھر گھر میں گھس آیا تھا۔ وہ اندر چلے گئے۔ فیونا نے ان کے استفسار پر واقعے کی تفصیل سنائی اور کہا: ’’اس مرتبہ اس نے تالے کھولنے کے لیے خاص قسم کے اوزار استعمال کیے، اور اس نے اسپرے پینٹ کا ڈبہ بھی بے پرواہی سے صحن میں پھینکا، اسے فنگر پرنٹس کا بھی خوف نہیں۔‘‘
    اینگس نے واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے کن پٹی سہلاتے ہوئے کہا: ’’فیونا، میرے خیال میں اب بہتر ہوگا کہ تم اگلے ہیرے کے لیے سفر پر روانہ ہو جاؤ۔ کیوں کہ یہ ہیرے جتنے جلد حاصل کیے جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘

    فیونا یہ سن کر پریشان ہو گئی اور بولی: ’’انکل، آپ نے یہ بات جمی اور جیزے کے سامنے کیوں کی، یہ تو اس معاملے سے ناواقف ہیں!‘‘

    اینگس مسکرائے: ’’میری بچی، یہ تینوں بھائی اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں، اور ہم ان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔‘‘

    لیکن فیونا کی پریشانی کم نہ ہوئی، وہ ایک ٹک ان تین ’’بھائیوں‘‘ کی طرف دیکھنے لگی۔ جمی نے سنجیدگی سے کہا: ’’پریشان مت ہو فیونا، ہم یہاں آپ ہی کی مدد کرنے آئے ہیں۔ میں اور جیزے یہاں آپ کے انکل کے ساتھ رہیں گے اور جادوئی گولے کی حفاظت کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ دراصل گزشتہ دنوں کے دوران یہاں جو عجیب و غریب واقعات ہونے لگے ہیں، انھیں دیکھنے کے بعد ہم نے جادوئی گولے کی حفاظت کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

    جبران اور دانیال ایسے میں خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے۔ فیونا نے اپنے طور سے بات کو سمجھا تو ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ سارے بھائی ہماری بہت مدد کرتے ہیں۔‘‘

    وہ جبران اور دانیال سے مخاطب ہو کر بولی: ’’چلو … اب چلتے ہیں، نئی جگہ اگلا پتھر ہمارا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

    وہ دونوں تیزی سے آگے بڑھے اور فیونا کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ فیونا ابھی منتر دہرانے ہی والی تھی کہ اسے دھوئیں کی بو محسوس ہوئی۔ دانیال نے حیرت سے کہا: ’’یہ کس چیز کی بو ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ناک اوپر کر کے ہوا میں سونگھنے لگا۔
    ۔۔۔
    ڈریٹن جب اینگس کے گھر کے قریب پہنچا تو چند لمحوں کے لیے رک گیا، پھر دبے قدموں پچھلی طرف کی کھڑکی کے پاس پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اندر جھانکنے لگا۔ اندر چھ افراد کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مکروہ قسم کی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ اس نے سوچا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ اینگس اکیلا ہو گا اور وہ آسانی سے اس کی گردن کی ہڈی توڑ دے گا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کے پاس بھی دو طاقتیں ہیں … جادوئی طاقتیں!

    ’’تو کیوں نہ آگ والی پراسرار طاقت کو آزمایا جائے۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ جادوگر پہلان نے اسے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ گولا چاہتا ہے تو یہاں کسی کو نقصان نہ پہنچائے لیکن اس نے پہلان کی نصیحت کو نظر انداز کر دیا اور عین اس لمحے جب تینوں بچے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کچھ کرنے والے تھے، ان کے سروں پر موجود چھپر کے ایک کونے نے آگ پکڑ لی، اور ذرا سی دیر میں وہاں دھواں بھر گیا۔ وہ یہ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’آہا، ان کے ساتھ تو یہی ہونا چاہیے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا اور جھاڑیوں کی طرف دوڑا اور وہیں چھپ کر اینگس کے گھر کو جلتا دیکھنے لگا۔

    (جاری ہے)

  • اٹھتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ڈریٹن کیشائر روڈ پر مائری کے گھر کی طرف رواں دواں تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اچھا ہے سب لوگ کام پر چلے گئے ہیں۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ذرا دیر بعد وہ مائری کے گھر کے پچھواڑے پہنچ گیا۔ نہ صرف دروازہ بلکہ تمام کھڑکیاں بھی بند تھیں۔ وہ ذرا بھی پریشان نہ ہوا، کیوں کہ اس طرح کے بند دروازے اس کے لیے کھولنا ذرا بھی مشکل نہ تھا، لہٰذا کچھ ہی دیر میں اس نے دروازہ کھول لیا۔ اندر داخل ہونے کے بعد اس نے احتیاطاً بلند آواز سے کہا: ’’کوئی ہے گھر میں؟‘‘

    اس کا خیال تھا کہ اگر کسی نے جواب دیا تو وہ فوراً بھاگ جائے گا لیکن گھر میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے گھوم پھر کر دیکھا، سارے گھر کو پھر سے درست کر دیا گیا تھا، ہر چیز اپنی جگہ سلیقے سے سجا دی گئی تھی۔ وہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بڑبڑایا: ’’میرے لیے تو بہت شرم کی بات ہے کہ میں اسے دوبارہ برباد کر دوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باورچی خانے میں گیا اور اطمینان سے الماری کے برتن اٹھا کر فرش پر پھینک دیے۔ وہاں ایک سیاہ رنگ کا اسپرے پینٹ اس کے ہاتھ آ گیا۔ ’’یہ ہوئی نا بات!‘‘ وہ ہنسا اور پھر سارے گھر کی دیواروں، الماریوں، دروازوں اور ہر چیز پر وہ قدیم نشانات بنا دیے جو اس نے قدیم کتاب میں دیکھے تھے، حتیٰ کہ مائری کے جوتوں کے اندر بھی۔ اس کے بعد اس نے اسپرے صحن میں پھینک دیا اور گھر سے نکل گیا۔
    ۔۔۔۔

    فیونا اور مائری کے اعزاز میں دی گئی پارٹی بہت شان دار رہی۔ تمام مہمانوں نے اس کا خوب لطف لیا۔ بلاشبہ شاہانہ نے بہت محنت کی تھی، انھوں نے کئی قسم کی نہایت لذیذ ڈشیں تیار کی تھیں۔ پارٹی ختم ہوئی تو سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ جبران اور اس کے والد بھی مچھلی کے شکار سے واپس پہنچ گئے۔ وہ مچھلی صاف کرنے میں لگے تھے کہ اچانک جبران کی نظر گھڑی پر پڑی تو چونک اٹھا: ’’اوہ بہت دیر ہو گئی۔‘‘

    اس نے اپنے والدین کو مخاطب کیا: ’’ممی پاپا، میں انکل اینگس کے ہاں جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ دانیال باغیچے میں کھڑا تھا، وہ بھی ساتھ ہو لیا اور دونوں اینگس کے ہاں پہنچ گئے۔ فیونا وہاں نہیں تھی۔ اینگس نے جونی سے کہا کہ وہ فیونا کے گھر ذرا ان کی خیریت معلوم کرے۔ یہ سن کر جونی اچھل پڑا: ’’اوہ، میں تو بھول ہی گیا تھا، مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ اتنا وقت گزر گیا ہے۔‘‘ جونی نے کتاب بند کر کے رکھ دی اور چل پڑا۔

    (جاری ہے)