Tag: رفیع اللہ میاں ناول

  • بہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جمی نے کہا: ’’وہ اس قابل ہو جائے گا کہ جادوگر پہلان کو آزاد کر سکے، جو ایک شیطان ہے۔ وہ اس وقت موت کی قید میں ہے، اور وہ صرف اپنی روح کے ذریعے اُس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ گولا حاصل کرنے کے بعد وہ مل کر خوف و دہشت اور خون خرابے کے ساتھ دنیا پر حکومت کرنے لگیں گے۔ کوئی بھی ان کو روک نہیں پائے گا۔ پہلان اسے تمام شیطانی کام کرنے پر اکسائے گا، حتیٰ کہ قتل کرنے پر بھی آمادہ کرے گا۔ اس طرح وہ روح کی قید سے آزاد ہو کر جسمانی صورت میں پھر نمودار ہو جائے گا اور اس کے پاس اپنی ساری طاقتیں واپس آ جائیں گی۔ وہ بات جو اس نوجوان کو معلوم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پہلان کی خواہش کے مطابق کام ہو جائے گا تو وہ اس نوجوان کو مار دے گا کیوں کہ وہ اس کے کسی کام کا نہیں ہے۔‘‘

    یہ سن کر اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں یہ ٹھیک رہے گا کہ آپ یا آپ کا بھائی جیزے یہاں رہے۔‘‘ اینگس کہتے کہتے مسکرائے۔ ’’ٹھیک ہے اس کا نام پونڈ ہے لیکن میں اسے جیزے ہی کہوں گا۔‘‘

    جمی نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس طرح بات دوسروں پر نہیں کھلے گی، کیوں کہ رازداری ضروری ہے، ورنہ یہ معلومات غلط لوگوں کے ہاتھ لگی تو ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ جیزے پہنچ گیا، اس نے آتے ہی کہا: ’’بچّے بہ حفاظت گھر پہنچ گئے۔ آلرائے مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے اسے فیونا کی ماں کے گھر رہنے کی ضرورت سے آگاہ کیا، کیوں کہ یہاں اب سبھی متعلقہ لوگوں خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔‘‘

    جمی نے کہا: ’’ہم یہ بات جانتے ہیں کہ فیونا اپنی ماں کی طرف سے اصل وارث ہے لیکن یہاں جو شخص جھانک رہا تھا وہ بھی معمولی نہیں ہے۔ اس کی رگوں میں بھی کیگان اور دوگان کا خون دوڑ رہا ہے۔‘‘

    اچانک اینگس نے پوچھا کہ جمی فیونا اور مائری سے متعلق کیا جانتا ہے۔ جمی نے کہا: ’’جب دوگان نے شہزادی آنا اور ازابیلا کو اغوا کیا تو اس نے دونوں سے زبردستی شادی رچائی۔ ازابیلا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام ہیگر رکھا گیا۔ دوگان نے بچہ اس سے لے لیا اور پھر دونوں شہزادیوں کو در بہ در ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے ہیگر اپنے باپ کی طرح ظالم اور بد کردار نکلا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نسل کا ہر وارث ایسا ہی ظالم اور بد کردار تھا۔ اگرچہ شہزادی ازابیلا نے انتقام کی قسم کھا لی تھی لیکن وہ کبھی انتقام نہ لے سکی۔ ہیگر نے اس بات کو یقینی بنا لیا تھا کہ اس کی ماں کسی بھی صورت سلطنتِ زناد میں قدم ہی نہ رکھ سکے۔ لیکن دوگان کو ایک بات کا علم نہیں تھا، وہ یہ کہ شہزادی آنا بھی اس کے ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔ جب دونوں شہزادیوں کو زناد سے نکالا گیا تو دوران سفر وہ بھی بیٹے کی ماں بنی۔ جب وہ قلعہ آذر پہنچیں تو اس وقت بچے کی عمر دو سال تھی۔ دونوں شہزادیوں نے دو مقامی بھائیوں کے ساتھ شادی کر لی۔ انھوں نے اپنے اس بچے کی حقیقت کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ آنا کا شوہر رابرٹ فرگوسن ایک بہت اچھا انسان تھا، اس نے آنا کے بچے کو اپنے بیٹے کی طرح پالا، اور بچّے کا نام انھوں نے جوربی رکھ لیا۔ اس کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا اصل باپ کون تھا۔ چناں چہ اس ساری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ مائری اور فیونا بھی دونوں بادشاہوں کیگان اور دوگان کی مشترکہ وارث ہیں۔ انھیں خود اس رشتے کا علم نہیں ہے اور بہتر بھی یہی ہوگا کہ انھیں اس حقیقت کا پتا نہ چلے۔‘‘

    ’’تو شہزادی ازابیلا نے کس سے شادی کی؟‘‘ اینگس نے اگلا سوال کیا۔

    (جاری ہے)

  • اکھتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھیں

    جمی چونک اٹھا: ’’اوہ، تو تم نے اندازہ لگا لیا ہے۔ آج اس جگہ کو یمن کہتے ہیں لیکن اُس وقت وہ یمن نہیں تھا، وہ کارتھز کہلاتا تھا، یا اس کے کہیں آس پاس۔‘‘ جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ساری کہانی جانتے ہیں، کیوں کہ آپ نے کتاب پڑھ لی ہے۔ دراصل بارتولف اور اس کا بھائی رالفن کارتھز کے قریب ہیڈرومیٹم میں رہتے تھے۔ اس وقت کوئی بھی ان میں بادشاہ نہیں تھا۔ وہ دولت مند سوداگر تھے اور جہاز رانی کرتے تھے۔ بارتولف کے پاس بے پناہ دولت اور قوت تھی۔ وہ ایک شیطان صفت آدمی تھا اور اپنے نرم دل بھائی رالفن کو بہت پریشان کرتا تھا۔ یہ عین وہ دور تھا جب پونیزی لڑائیوں کی ابتدا ہو رہی تھی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے رالفن نے بھیس بدل کر اپنے خاندان، دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ ہیڈرومیٹم کو خیرباد کہہ دیا اور صحرائے عرب کے مشرقی حصے کی طرف ہجرت کر لی۔ یہی وہ جگہ ہے جس کو اب آپ یمن کہتے ہیں۔ رالفن نے وہاں جا کر ایک نئی سلطنت آباد کی اور اسے بورل کا نام دیا۔ وہ وہاں کا بادشاہ بن گیا اور اپنی موت تک امن و سکون اور انصاف کے ساتھ حکومت کرتا رہا۔ دوسری طرف بارتولف کو اپنی غلط حرکتوں کے سبب ایک دن کارتھز سے نکل کر بھاگنا پڑ گیا۔ وہ شمالی افریقہ پہنچا اور وہاں اپنی الگ سلطنت آباد کر لی، جسے اس نے زناد کا نام دیا۔ اس کی حکمرانی کے دور میں خون، ظلم اور شیطانی حرکات کا عروج رہا۔‘‘

    جمی سانس لینے کو رکا تو اینگس جلدی سے بولنے لگے: ’’ہنی بال کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس نے خود کشی کر لی۔ رومیوں نے کارتھز کو برباد کر کے رکھ دیا۔ وہاں کی ساری زمین جلا دی گئی اور زمین میں نمک بویا گیا تاکہ پھر کبھی اس میں کوئی چیز نہ اگ سکے۔ اب اس جگہ کو تیونس کہتے ہیں جہاں پانچ صحرائیں پائی جاتی ہیں۔‘‘

    جمی اینگس کی بات سن کر افسردہ ہو گیا۔ ’’مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا، ظاہر ہے کہ ہیڈرومیٹم بھی تباہ ہوا ہوگا۔ لیکن خیر، ایک بار جب جادوئی گولا اپنی اصل سرزمین تک پہنچ جائے گا، تو ہیڈرومیٹم پھر سے دودھ اور شہد سے بھر جائے گا۔ اب چوں کہ دوگان نہیں رہا ہے اس لیے ہم پرامن زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘ اینگس کو ایک بات یاد آ گئی: ’’اور بورل کا کیا ہوا؟ وہاں رالفن کی سلطنت اور اس کے قلعے کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘

    جمی نے جواب دیا: ’’وہاں کئی نسلوں نے زندگی گزاری۔ جب آخری بادشاہ کیگان نے بورل کو خیرباد کہا تو اس نے اکثر دولت اپنے لوگوں ہی کے لیے چھوڑ دی۔ تمھارے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ بورل کا کیا بنا۔ اتنے عرصے بعد میں اب سوچتا ہوں کہ وہاں دھول اور کھنڈرات کے سوا کچھ بچا بھی ہو گا یا نہیں۔ وہ ایک ایسی سرزمین تھی جو سرسبز تھی، اور ہیروں سے بھری ہوئی تھی۔ ساحل پر ہیرے سمندر سیپیوں کی طرح پڑے ہوتے تھے۔ مچھلیاں بے تحاشا تھیں۔ شہد کی مکھیاں ہمیں نہایت میٹھا عنبریں شہد دیا کرتی تھیں۔ ناریل کے درخت جا بجا اُگے ہوئے تھے اور خوراک کی اتنی کثرت تھی کہ ہرن اور دوسرے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے کے لیے ہمیں تیر کمان اٹھانے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی تھی۔‘‘
    اینگس نے کرسی پر آگے کی طرف جھکتے ہوئے کہا: ’’بہت دل چسپ کہانی ہے، جاری رکھو اسے۔‘‘

    جمی مسکرایا اور بتانے لگا: ’’جو شخص شام کو کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ کنگ دوگان کا وارث ہے۔ جس طرح تاریخ نویس آلرائے کیتھمور نے یہ کتاب لکھی تھی، اسی طرح دوگان کے مؤرخ طالون نے بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ کتاب ضرور اس شخص کے قبضے میں ہے اور وہ یقیناً جادوئی گولے کے بارے میں جانتا ہے اور یہ بھی کہ گولا آپ کے پاس ہے۔ لہٰذا آپ کو ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ جیزے آج رات آپ کے پاس یہیں رہے گا، اور جیسے جیسے دوسرے پہنچتے رہیں گے وہ بھی یہیں رہ کر آپ کی، اس کتاب اور گولے کی حفاظت کرتے رہیں گے۔‘‘

    جمی چند لمحے ٹھہرا اور پھر گھمبیر لہجے میں بولا: ’’پتا ہے، اگر یہ گولا اس شخص کے ہاتھوں لگا تو وہ کیا کچھ کر سکے گا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    جمی ایک لحظے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’لیکن میرا ابھی تک ان سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔ خیر، اب تو میں پہلا کام یہ کروں گا کہ تمھیں بلال کی فیملی میں متعارف کراؤں گا اور تمھارا نام ہو گا جیزے، اور تم ہمارے بھائی ہو۔ سچ یہ ہے کہ ہم بھائی ہی ہوں گے پونڈ، کیوں کہ یہ دنیا ہمارے لیے اجنبی ہے۔ آلروئے کیتھ مور فیونا کی ماں کا مہمان بنا ہوا ہے، کسی نے ان کے گھر میں گھس کر چوری کی ہے، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہو گی اگر یہ حرکت دوگان کے کسی وارث کا کارنامہ ہو۔ اب آؤ میرے ساتھ، میں تمھیں اپنے میزبانوں سے ملاتا ہوں۔‘‘

    جمی اسے اندر کی طرف لے جانے لگا تو مڑ کر بولا: ’’یاد رکھنا …. میں جمی ہوں۔‘‘

    جمی نے دروازہ کھولا اور گلا کھنکار کر کہا: ’’بلال صاحب، آپ حیران ہوں گے لیکن میں آپ کی ملاقات اپنے ایک اور بھائی سے کراؤں گا۔ یہ ہیں میرے بھائی جیزے۔ جب اس نے سنا کہ ہم یہاں پر ہیں تو اس نے بھی مچھلیوں کے شکار کے لیے ہم سے ملنے کا فیصلہ کر لیا، کیا آپ کے ہاں ہمارے لیے کمرا ہوگا؟‘‘

    بلال نے خوش دلی سے جواب دیا: ’’ہیلو جیزے، کیوں نہیں۔ میں بلال ہوں پاکستان نژاد، وہ جو آپ کو جام کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں میری بیوی شاہانہ ہے۔ آپ بے فکر رہیں، ہمارے گھر میں کئی اضافی کمرے ہیں، بس شاہانہ کو کچھ زیادہ پکانا پڑے گا لیکن وہ اس پر برا نہیں مناتیں۔‘‘

    جمی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کا بیٹا جبران کہاں ہے؟ وہ کافی دیر سے نظر نہیں آیا ہے۔‘‘

    بلال نے مسکرا کر کہا کہ وہ فیونا اور دانیال کے ساتھ اینگس کے گھر گیا ہے۔ اس پر جمی نے کہا کہ وہ بھی جیزے کو ساتھ کر کے اینگس کے ہاں جانا چاہ رہا ہے۔ اس کے بعد دونوں اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ جمی اسے یہاں کے بارے میں تفصیلات بتانے لگا، جو اسے خود بھی زیادہ پتا نہیں تھیں۔ جب وہ اینگس کے گھر کے قریب پہنچے تو جمی نے کہا یہ ہے گھر، لیکن اچانک جیزے نے جمی کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا اور کہا: ’’وہ دیکھو جمی، اینگس کے گھر کے باہر کوئی درختوں میں چھپا ہوا ہے، اور کھڑکی سے جھانک رہا ہے۔‘‘ جمی نے ایک کالا سایہ دیکھا اور بولا: ’’یہ ضرور ہمارے لیے پریشانی کھڑی کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دوگان ہی کا کوئی وارث ہے۔ چلو، بچوں کو حفاظت سے گھر پہنچائیں۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    درختوں کی اوٹ سے ڈریٹن نے دیکھا کہ اینگس کے گھر میں روشنی ہے۔ وہ خود کلامی کرنے لگا: ’’کوئی گھر میں ہے، کیا یہ تم ہو اینگس … میرا تو جی چاہتا ہے کہ ایک لات مار کر دروازہ توڑوں اور اندر آ کر تمھارا سر بھی پھوڑ دوں، اور پھر تم سے جادوئی گولا چھین لوں۔‘‘

    اس نے دیکھا کہ اس کے نیکلس سے روشنی پھوٹنے لگی ہے۔ وہ بے اختیار چونک اٹھا اور بڑبڑانے لگا: ’’تو اس کا مطلب ہے کہ اب یہاں دو ہیرے آ چکے ہیں، لیکن ان ہیروں کا بھلا یہاں کیا کام؟ ان کا ٹھکانا تو میرے پاس ہے، میں ہوں اس کا اصل مالک۔‘‘

    وہ احتیاط سے چلتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا اور اندر جھانکا۔ اندر اینگس کے ساتھ فیونا، جبران اور دانیال بھی تھے۔ وہ حیران ہو گیا کہ یہ تینوں یہاں کیا کر رہے ہیں، اور سوچنے لگا کہ ان میں سے لڑکی ضرور ایک فیونا ہوگی۔ آخر کار اس نے گولا بھی دیکھ لیا۔ وہ اینگس کے عین سامنے میز پر رکھا پڑا تھا۔ اس میں دو نگینے جڑے ہوئے تھے۔ جادوئی گیند دیکھ کر ڈریٹن کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے حاصل کرنے کے لیے کیا کرے۔ اچانک اسے ایک خیال سوجھا اور اپنی عادت سے مجبور ہو کر بڑبڑانے لگا: ’’اب تک صرف دو ہیرے حاصل ہوئے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ میں انھیں کیوں حاصل کروں؟ میں بھی کتنا احمق ہوں۔ یہ حاصل کرنے کے بعد باقی ہیروں کے لیے خوار پھرتا رہوں گا۔ اس سے بہتر یہ نہیں ہے کیا کہ ان چالاک بچوں ہی کو سارے ہیرے ڈھونڈ نکالنے دیا جائے اور جب سارے آ جائیں تو پھر آسانی سے انھیں قتل کر کے گولا اور ہیرے دونوں حاصل کر لوں۔‘‘

    یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گیا اور ابھی سے ہنگامہ کرنے کا ارادہ بدل لیا۔

    (جاری ہے)

  • چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    میگنس نے خاکی سوٹ پہن رکھا تھا، لیکن اب وہ گہرے نیلے میں بدل چکا تھا۔ ٹوپی ہلکے نیلے رنگ کی ہو گئی تھی اور یہی رنگ جوتوں کا تھا۔ اس کی آنکھیں قمقموں کی طرح چمک اٹھی تھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ تینوں جہاں کھڑے تھے، وہیں بت بن کر کھڑے رہ گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے سامنے ایک زندہ بھتنا کھڑا ہے۔ جبران کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’تت … تت … تم سچ مچ بھتنے ہو؟‘‘

    فیونا بھی یہ دیکھ کر تھوڑی سی گھبرا گئی تھی: ’’تت … تم … تو بالکل نیلے گلیشیئر کی طرح چمک رہے ہو۔‘‘

    بھتنا بولا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ نہیں آئے ہو، اور میں ہیمے میں ٹرالز کے بارے میں بھی جانتا ہوں، میں نے تم تینوں کی نگرانی کے لیے اپنی ننھی دوست انیکا کو بھیجا تھا۔‘‘

    تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اوہ … تو وہ انیکا تھی، جس نے ہماری مدد کی تھی۔ وہ دھن بھی انیکا کی تھی اور پفن پرندوں کو بھی اس نے ہمارے ساتھ بھیجا۔‘‘

    میگنس نے پراسرا مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی سے سر ہلا دیا۔ ’’واؤ … یہ سب کتنا شان دار لگ رہا ہے۔ میں یہاں آئس لینڈ میں کھڑا ایک بھتنے سے بات کر رہا ہوں۔ میں اس سے قبل کبھی کسی بھتنے سے نہیں ملا۔ دراصل مجھے ان کے وجود پر یقین ہی نہیں تھا۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا۔ اس کے بعد تینوں نے باری باری میگنس بھتنے سے مصافحہ کیا، فیونا نے کہا کہ چھوٹی سے روشنی پری کو ہماری مدد کرنے پر شکریہ کہہ دینا، اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔ میگنس نے کہا: ’’آئس لینڈ ایک جادوئی جگہ ہے۔ یہاں بھتنے، بونے، پریاں اور حتیٰ کہ ٹرالز بھی ہیں۔ اکثر ٹرالز اپنے آپ میں گم رہتے ہیں لیکن وہ والے دراصل شیطان کے زیر اثر تھے۔‘‘

    ایسے میں جبران نے اس کے عجیب جوتوں پر ایک نظر ڈال کر پوچھا: ’’کیا میگنس آپ کا اصل نام ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ بھتنے نے جواب دیا کہ اس کا اصل نام تھوری ہیلا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہاں کے لوگ جان گئے کہ میں بھتنا ہوں تو مجھے کبھی بھی کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اسی لمحے ہلکی سی روشنی اس کے گرد جھلملانے لگی۔ وہ چونک کر بولا: ’’اوہ… انیکا… تم عین وقت پر آ گئی ہو، دیکھو تمھارے دوست رخصت ہو رہے ہیں یہاں سے۔‘‘

    اگلے لمحے ان کے سامنے ایک ننھی سی ہلکی نیلی پری نمودار ہو گئی، ظاہر ہے کہ اس کے دو پر تھے اور اس کے بال سنہری تھے۔ دانیال بول اٹھا: ’’اس پری کی آنکھیں بھی تمھاری طرح نیلی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں یہی تو ہماری پہچان ہے۔ ہم انسانوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، لیکن جو ہمارے بارے میں جانتے ہیں وہ ہمیں ان آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں۔‘‘ بھتنا مسکرا کر بولا۔

    ’’ہیلو انیکا …‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ انیکا فوراً بھتنے کے پیچھے چھپ گئی۔ میگنس بولا: ’’روشنی کی پریوں کو کبھی مت چھونا، ورنہ جل جاؤ گی، اچھا اب میں اپنے کام پر جاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر پہلے والے لباس میں آ گیا۔ تینوں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو گئے۔ میگنس نے جاتے جاتے ہانک لگائی: ’’مجھے مت بھولنا۔‘‘

    وہ تینوں سڑک پر آ گئے، اور نیلی جھیل کے لیے بس پکڑ لی۔ جھیل کا پانی گہرا نیلا تھا، اوپر سے ٹھنڈا لگ رہا تھا لیکن حقیقت میں خاصا گرم تھا اور اس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کی حرارت ایک سو چار فارن ہائٹ تھی۔ دراصل اس میں ایک میل گہرائی میں بجلی پیدا کرنے والے پمپ لگے ہوئے تھے۔ وہ پمپ سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کر کے باقی پانی کو جھیل میں چھوڑ دیتے تھے۔ تینوں اس میں نہانے کے بعد پھر بس میں بیٹھ کر ٹاؤن پہنچ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر آئس لینڈ کی کرنسی تبدیل کروا لی اور پھر ان ہی پہاڑیوں کی طرف چل دیے جہاں وہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئے تھے۔ تینوں عین اسی مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ وہ خاموشی سے آئس لینڈ کو دیکھنے لگے۔

    دانیال بولا: ’’مجھے آئس لینڈ بہت یاد آئے گا، خصوصاً پفن اور میگنس۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم آئس لینڈ کے ایک بھتنے کو جانتے ہیں۔‘‘

    فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’کیا تم دونوں تیار ہو … ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔‘‘

    اس کے ساتھ ہی وہ واپسی کا منتر پڑھنے لگی۔ ’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘ ان کی سماعتوں سے جبران کی آواز ٹکرائی: ’’الوداع اے آئس لینڈ۔‘‘

    لیکن ابھی اس کے منھ سے پورا جملہ ادا نہیں ہو پایا تھا کہ انھوں ںے خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

    (جاری ہے)

  • ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا ٹوٹی ہوئی چٹانوں پر چڑھ کر غار کے اندھیرے سے روشنی میں آ گئی۔ پفن نامی پرندوں کی تلاش میں وہ پہاڑوں کی طرف احتیاط سے دوڑنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ پفن پہاڑی کی کھڑی چٹانوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ سب سے قریبی کھڑی چٹان کو ڈھونڈنے لگی۔ راستے میں آنے جانے والوں سے پوچھنے کے بعد فیونا ایک کھڑی چٹان کی طرف دوڑ پڑی۔ پتھروں اور سبزے والی جگہوں سے گزرنے کے بعد جب وہ کھڑی چٹان کے اوپر پہنچ گئی تو رک کر اپنی بے ترتیب سانسیں درست کرنے لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پفن نامی پرندوں کو وہاں دیکھ کر خوش ہو گئی۔ وہ پیٹ کے بل لیٹ کر احتیاط سے کھڑی چٹان کے اوپری کنارے پر پہنچ گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے سمندر کو دیکھ کر اس کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ چٹان پر لیٹے لیٹے پریشانی کے عالم بڑبڑانے لگی: ’’میں اب ان پرندوں کو اپنے پیچھے کس طرح لگا لوں؟ کیا کوئی میری مدد کر سکتا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘

    سمندر کی لہریں چٹان کی دیوار سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اس ٹکراؤ میں ایک عجیب سی دھن تھی، ایک آہنگ تھا۔ یہ دھن اور آہنگ وہ ہوا کے ذریعے اوپر تک پہنچنے والے ننھے چھینٹوں کے ساتھ سن رہی تھی۔ اسے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا لیکن سوچتے سوچتے وہ بے خیالی میں منھ سے سیٹی کی مانند ویسے ہی دُھن نکالنے لگی جو سمندر کی لہریں چٹان سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہی تھی۔

    ’’ہیں … یہ دھن میں بھلا کیوں گنگنانے لگی ہوں، مجھے تو آتا بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ تعجب سے بڑبڑائی۔ لیکن اس نے وہ دھن گنگنانا نہیں چھوڑا۔ ایسے میں اچانک چند پرندے اڑ کر چٹان کی چوٹی پر آ گئے، اور فیونا انھیں دیکھ کر حیرت کے مارے اچھل پڑی۔

    ’’ارے یہ تو کمال ہو گیا، یعنی مجھے ہیملن کا پچرنگی بانسری بجانا والا بننا پڑے گا، جب میں سیٹی بجاؤں گی تو یہ پرندے میرے پیچھے پیچھے اڑ کر آئیں گے۔ اگرچہ میری سیٹی اتنی اصلی نہیں ہے تاہم یہ اثر کر رہی ہے۔‘‘

    فیونا زیادہ بلند آواز سے وہ مخصوص دھن منھ سے نکالنے لگی اور اس نے دیکھا سیکڑوں پرندے اڑ کر آئے اور آس پاس گھاس پر بیٹھ گئے۔ فیونا خوشی سے چہکنے لگی: ’’بہت خوب میرے پیارے پرندو، مجھے تمھاری دھاری دار چونچیں اور نارنجی پنجے بے حد پسند ہیں، ٹھیک ہے اب تم سب میرے پیچھے آؤ۔‘‘

    فیونا پہاڑی سے اتر کر گنگنانے لگی اور سیکڑوں کی تعداد میں آنے والے پرندے جلد ہی ہزاروں کی تعداد میں بدل گئے۔ وہ لاوا غار کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ چلتے چلتے وہ بڑبڑائی: ’’جس نے بھی میری مدد کی ہے، اس کا بہت بہت شکریہ۔‘‘

    غار کے پاس پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو سحر زدہ ہو گئی۔ اس نے خود کلامی کی: ’’اوہ یہ تو ایک لاکھ ہوں گے۔ لیکن اب مزا آئے گا، میری یہ پرندوں کی فوج درندوں کی ایسی تیسی کر دے گی۔‘‘

    وہ پرندوں کے سامنے اس طرح کھڑی تھی جیسے کوئی کمانڈر اپنی فوج کے آگے تن کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے بلند آواز میں کہا: ’’میں تم سب سے ایک کام لینا چاہتی ہوں، یہ سوراخ تم سب کو نظر آ رہا ہے نا۔‘‘ فیونا نے انگلی سے غار کے دہانے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اگر تم اس کے اندر اڑ کر جاؤ گی تو تمھیں اندر چار عدد ٹرال ملیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سب ان پر حملہ کر دو۔ ان کی موٹی ناکیں، ان کے بد نما انگوٹھے، ان کی آنکھیں، کان اور جو کچھ تم چاہو نوچ لو۔ اور اس وقت تک انھیں نوچتے رہو جب تک وہ غار سے باہر نہ نکلیں۔ کیا تم سب میری بات سمجھ گئے ہو؟‘‘

    کوئی بھی پرندہ الفاظ میں تو کچھ نہ کہہ سکا البتہ انھوں نے اپنی مخصوص آوازوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ فیونا غار کی طرف بڑھنے لگی، دہانے پر پہنچ کر وہ مڑی اور کہا: ’’ابھی باہر ٹھہرو تم سب، میں پہلے اندر جا کر دانیال کو بتاتی ہوں، جب میں گانے لگوں تو تم سب اندر آ کر ٹرالز پر حملہ کر دینا۔ اس دوران میں اور دانیال مل کر جبران کو آزاد کر کے بھاگ جائیں گے، اب میں اندر جاتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی جب کہ پرندے غار کے دہانے پر منڈلانے لگے۔ دانیال نے اسے اندر آتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آ گئی۔’’اوہ فیونا تم واپس آ گئی، میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا اس دوران، کیا تم مدد لے آئی ہو؟‘‘

    فیونا نے کہا کہ جو میں لے کر آئی ہوں اس پر تم کبھی یقین نہیں کر پاؤ گے۔ میرے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پرندے ہیں، تم یہیں ٹھہرو ذرا۔ پھر وہ غار میں بے خوفی کے ساتھ آگے بڑھی، اس نے دیکھا تینوں ٹرالز نے آگ بھڑکا دی تھی اور اب لکڑی کے ٹکڑے کاٹ رہے تھے۔ اس نے انھیں بہادری سے للکارا: ’’ہیلو گندے اور بدبودار درندو، میں تم سے بالکل نہیں ڈرتی۔‘‘

    دانیال کو یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ ایک بدلی ہوئی فیونا کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بھی آنکھیں گھما کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ ’’فیونا … تم کیا کرنے والی ہو؟‘‘ جبران کی چیخ وسیع غار میں انھیں ایک سرگوشی کی طرح سنائی دی۔ ٹرال کو شاید اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اس لیے اس نے اپنا بھاری بھر کم پیر فرش پر پڑے جبران کی پیٹھ کر رکھ دیا۔ جبران کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ فیونا غصے میں چلائی: ’’بے وقوف درندو، تم میرے دوست کو لنچ سمجھ کر نہیں کھا سکتے، میں تم سب کا بندوبست کر کے آئی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ گنگنانے لگی اور ٹرال غضب ناک ہو کر فیونا کی طرف بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ٹرال خود کو روشنی سے بچا رہے تھے۔ غار کے فرش پر ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چند ہڈیوں پر ابھی تک گوشت باقی تھا۔ دانیال ان ہڈیوں کو دیکھ کر بری طرح دہشت زدہ ہو گیا، اسے متلی آ گئی اور جلدی سے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ فیونا بھی سامنے دیکھ رہی تھی، تینوں ٹرال غار کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’میرے خیال میں یہ آگ جلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا، اس کی حالت بھی دانیال سے کچھ کم نہ تھی۔ کلیجہ اس کے منھ کو آ رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن جبران نظر نہیں آ رہا تھا، اس نے دانیال کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا اسے جبران نظر آیا۔ دانیال نے بھی نظریں دوڑائیں اور پھر خوشی سے چلایا: ’’وہ رہا … دیوار کے ساتھ کوئی لیٹا ہے، اور وہ جبران ہی کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

    تب انھیں نظر آیا کہ ایک چوتھے ٹرال نے جبران کے ہاتھ پیر اپنے موٹے بالوں سے باندھ دیے تھے۔ یہ موٹے بال رسیوں کا کام کر رہے تھے۔ فیونا نے کہا: ’’یہاں بہت ساری سرنگیں ہیں اگر ہم جبران کو چھڑا لیں تو یہاں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے لیکن جبران کو ہم کس طرح ان سے چھین سکتے ہیں؟ پہلے تو ہمیں ان تین درندوں کے پاس سے گزرنا ہو گا اور پھر اس ٹرال کو بھی چکمہ دینا ہوگا جو عین جبران کے سامنے بیٹھا ہے اور جس نے اپنے جسم کے گندے بالوں سے اسے باندھ رکھا ہے۔ ہمارے پاس یہ رسی نما بال کاٹنے کے لیے چاقو بھی نہیں۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر کہا۔

    فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں کوئی تصور آ جائے جو یہ بتائے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس نے مقامی پرندے پفن کے ایک غول کو دیکھا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول کر کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ ان درندوں کو یہاں سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’کیسی ترکیب ہے؟‘‘ دانیال نے خوش ہو کر پوچھ لیا۔ فیونا دانیال کو سرنگ میں پیچھے کی طرف لے گئی اور بولی: ’’دانی، تم یہاں کھڑے ہو کر ٹرالز پر نظر رکھو۔ اگر وہ جبران کو کھانے لگے تو تم دوڑ کر ایک دم چیخنا شروع کر دو۔ اس طرح تم میرے آنے تک انھیں پریشان رکھنا، یا ان کی توجہ ہٹانے کے لیے جو کچھ تم کر سکتے ہو کرنا۔‘‘

    ’’کک… کیا… تم کہاں جا رہی ہو؟ نہیں تم مجھے یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ تم جبران کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘ دانیال نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

    دیکھو دانی، مجھے پتا ہے کہ تم خوف زدہ ہو لیکن اب معاملہ حل ہونے جا رہا ہے۔ جبران کو کچھ نہیں ہوگا، اور تمھیں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے کچھ پرندوں کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی کے ساتھ مڑی اور اندھیرے میں گم ہو گئی۔

    ’’پرندے … کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ اس کے جاتے ہی دانیال بولا لیکن اس کی آواز سرنگ میں گونج کر رہ گئی۔ وہ دیوار کے پاس بیٹھ کر ٹرالز کو دیکھنے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’جبران بہادر بنو …. جبران بہادر بنو!‘‘

    (جاری ہے)

  • ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ’’رک جاؤ جبران، واپس آ جاؤ، ہم نے یہ مہم ایک ٹیم کی صورت سر کرنی ہے، ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ فیونا نے اسے آواز دی۔ ’’بہادر بنو اور جلدی واپس آؤ، دیکھو یہ ٹرال نہیں غالباً روشنی کی وجہ سے کسی چیز کا عکس بن رہا ہے۔‘‘

    جبران کے قدم رک گئے۔ وہ مڑ کر واپس ان کے پاس آ گیا لیکن وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ آگ نے پورے غار کو روش کیا ہوا تھا، جس میں وہ ہر چیز کو دیکھ سکتے تھے، تاہم آخری سرا اب بھی اندھیرے میں تھا۔ فیونا چند منٹ مزید خاموش کھڑی سوچتی رہی اور پھر بولی: ’’مرجان بس ذرا سا اور آگے ہے، میں وہ جگہ بھی دیکھ سکتی ہوں جہاں پتھر کو چھپایا گیا ہے۔ بس چند ہی قدم آگے ہے۔‘‘

    یکایک ایک گونج دار آواز نے ان کے دل دہلا دیے۔ ’’یہ … یہ کیا تھا… چچ … چلو فیونا واپس چلتے ہیں۔‘‘ جبران پر بری طرح گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔

    غار کے آخری سرے سے ایک اور گڑگڑاہٹ جیسی آواز گونجی۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’یہ ٹرال کی آواز ہے۔‘‘

    پھر ایک چیز ان کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔ جبران چلایا: ’’یہ ہمیں کھانے آ رہا ہے۔‘‘
    تقریباً بیس فٹ اونچا ٹرال ان کے سامنے کھڑا تھا اور سبز آنکھوں سے انھیں اوپر دیکھ رہا تھا۔ ’’اس کی ناک واقعی بہت بڑی ہے۔‘‘ دانیال کے منھ سے ڈری سی آواز نکلی۔ اچانک ٹرال غرایا۔ اس کی گونج دار آواز سے انھیں کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
    فیونا کو اس سے ڈر بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ تو بہت کاہل مخلوق ہے، لیکن لگتا ہے اسے غصہ آ رہا ہے۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ کوئی ترکیب سوچو کہ اس سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ٹرال نامی اس درندے کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جس کے چیتھڑے اس کے بازوؤں سے لٹک رہے تھے۔ اس کی ٹانگوں کی جلد یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ چھیلی گئی ہو۔ اس کے جسم پر موٹے موٹے بال اگے ہوئے تھے۔ اس نے جوتے نہیں پہنے تھے اور وہ دانیال کے پمفلٹ میں لکھی گئی تفصیل کے عین مطابق تھا۔

    دانیال بولا: ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ یہ درندے سورج کی روشنی سے سخت نفرت کرتے ہیں کیوں کہ اگر سورج کی شعاعیں ان سے ٹکرائیں گی تو یہ جل جائیں گے۔ اس لیے فیونا تم ڈھیر سے ساری آگ بھڑکا کر اسے مار سکتی ہو۔‘‘

    جبران کسی اور تجویز کے انتظار کے حق میں نہیں تھا، اس لیے وہ پلٹا اور بھاگنے کے لیے پر تولنے لگا۔ اچانک غیر متوقع سی بات ہو گئی تھی، ٹرال آگے کی طرف ایک قدم بڑھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ آگے کی طرف خاصا جھک بھی گیا تھا، جیسے انھیں پکڑنا چاہتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک بار پھر کان پھاڑ غراہٹ کے ساتھ چیخا تھا۔ دانیال اور فیونا بچاؤ کی جبلت کے تحت تیزی سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن جبران کی ٹانگیں ڈر کے مارے لڑکھڑا گئیں، جس کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ درندے نے ہاتھ بڑھا کر اسے شرٹ سے پکڑ کر فضا میں بلند کر لیا۔

    ’’بچاؤ … بچاؤ … درندے نے مجھے پکڑ لیا ہے۔‘‘ جبران غار کی چھت کے قریب جھولتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں چلایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے، درندہ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ’’یہ … یہ کیا ہو گیا فیونا، ٹرال تو جبران کو کھا جائے گا۔‘‘ دانیال ڈر اور بے چینی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ ’’ہم یہاں کھڑے نہیں رہ سکتے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
    ’’مجھے سوچنے دو … مجھے سوچنے دو۔‘‘ فیونا کے چہرے پر اب خوف کی جگہ غصہ چھا گیا تھا۔ ’’کاش اس وقت وہ ڈریگن ہمارے پاس ہوتا۔‘‘

    ’’لیکن ڈریگن ہمارے پاس نہیں ہے، جلدی کرو فیونا، وہ اسے دور لے جا رہا ہے، کیا وہاں کوئی دوسرا غار بھی ہے؟‘‘

    اسی لمحے جبران کی چیخ اندھیرے میں گونج کر رہ گئی تھی۔ فیونا لاوے سے بنے ایک پتھر پر بیٹھ کر بولی: ’’میرے خیال میں ہمیں پہلے قیمتی پتھر مرجان کو حاصل کرنا چاہیے، اس کے بعد جبران کے پیچھے جانا چاہیے، کیوں کہ درندہ اسے نہیں کھائے گا۔ کم از کم اتنی جلدی نہیں، کیوں کہ ٹرالز کو کچا گوشت پسند نہیں ہوتا، انھیں اپنی خوراک آگ پر بھون کر کھانا پسند ہے۔‘‘

    ’’فیونا …‘‘ دانیال چلایا۔ ’’وہ درندہ جبران کو زندہ بھوننے جا رہا ہے اور تم مرجان کے متعلق سوچ رہی ہو۔‘‘

    ’’دیکھو دانیال، مجھے غلط مت سمجھو۔ مجھے پھر سے اپنے اندر سے ایسے اشارے مل رہے ہیں اور میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ جبران کچھ دیر تک محفوظ رہے گا اور اتنی دیر میں ہم مرجان حاصل کر لیں گے۔ جب قیمتی پتھر ہمارے ہاتھ آئے گا تو ہمارے پاس مزید قوت آ جائے گی۔ پھر ہم یہ قوت جبران کو چھڑانے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘

    یہ کہہ کر فیونا کھڑی ہو گئی۔ ’’مرجان بہت قریب ہے۔ میں اسے محسوس کر سکتی ہوں۔ یاد ہے نا انکل اینگس نے کیا کہا تھا۔ قیمتی پتھر سے خاص قسم کی لہریں خارج ہوتی ہیں اور میں اسے محسوس کر رہی ہوں، وہ مجھے بلا رہا ہے۔‘‘

    دانیال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس حالت میں زیادہ بہتر کیا ہے۔ وہ فیونا کی طاقتوں کی مدد کے آگے مجبور تھا۔ اس نے یاد دلایا کہ ابھی یہاں مزید پھندے بھی باقی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔ فیونا نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی، پھر دونوں غار میں آگے بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    دانیال نے چوں کہ پمفلٹ بہت اچھی طرح پڑھ لیا تھا اس لیے اسے یہ ساری معلومات یاد تھیں۔ جبران کو اس کی بات پر یقینی نہیں آیا اور بولا: ’’قزاق اور آئس لینڈ میں؟‘‘

    ’’جی ہاں، یہ 1627 کا ایک سچا قصہ ہے۔ قزاقوں نے انھیں افریقہ لے جا کر غلاموں کی طرح فروخت کر دیا تھا۔ انھوں نے بہت سارے مردوں کو جان سے بھی مار دیا تھا۔‘‘

    ’’کک … کیا اب بھی قزاق یہاں آ سکتے ہیں؟‘‘ جبران گھبرا گیا۔

    فیونا ہنس پڑی: ’’بے وقوف، وہ چار سو سال پرانی بات ہے، اب یہاں بحری قزاق نہیں ہیں۔‘‘

    تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد آخر کار کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی۔ کشتی پانی میں ڈول رہی تھی۔ وہ تینوں لڑکھڑاتے ہوئے ساحل پر اترے۔ جبران کو چکر آنے لگے تھے اور وہ آگے پیچھے ڈول رہا تھا جیسے ابھی تک کشتی ہی میں سوار ہو۔

    ’’پریشان مت ہو، کچھ دیر میں تمھاری طبیعت سنبھل جائے گی۔‘‘ فیونا نے اسے تسلی دی۔ اس کی اور دانیال کی طبیعت اب درست تھی، ان دونوں کی بھوک خوب چمک اٹھی تھی۔ فیونا نے کہا: ’’سب سے پہلے کھانا!‘‘

    ’’میرا جی نہیں کر رہا ہے، ہاں تم دونوں جا کر کھا سکتے ہو۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا اسے سمجھانے لگی کہ کھانا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ آگے کا کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو، اور دن کس طرح گزرے، اور کھانے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔ تینوں ایک کیفے کی طرف بڑھے اور وہاں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر فیونا کا منھ بن گیا: ’’لو، یہاں تو کیلے اور پپرونی پیزا دستیاب ہیں۔ یہاں بھی وہی ڈشیں ہیں۔ دودھ میں پفن اور گھوڑے کا گوشت، کچی مچھلیاں … اوع … یہ کون کھائے گا۔‘‘

    ’’مت کرو ان چیزوں کا ذکر۔‘‘ جبران نے سر پکڑ لیا۔ ’’میں تو یہاں مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ کھانوں کی بو سے میری طبیعت مزید خراب ہو ری ہے۔ میں باہر جا کر تم دونوں کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔

    دونوں نے مجبوراً کیلے اور پپرونی کے پیزا کا آرڈر دے دیا۔ ڈشیں آگئیں تو جلدی جلدی کھا کر اور باہر نکل آئے۔

    ’’کچھ بہتر محسوس کر رہے ہو اب؟ چہرے کی رونق تو لوٹ آئی ہے۔‘‘ فیونا نے پوچھا۔ جبران نے مسکرا کر سر ہلایا۔ دانیال نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اچھا، اب کیا کریں، کھانا بھی کھا چکے۔ یہاں وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ذرا سوچو، اگر کوئی شخص 1200 میں یہاں آ کر قیمتی پتھر چھپاتا ہے، تو اب تک تو وہ اس لاوے میں کہیں دفن ہو چکا ہوگا۔‘‘

    فیونا بولی: ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اسے کچھ زیادہ دیر تک تلاش کرنا پڑے گا، اسے ڈھونڈ نکالنا کچھ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’لیکن ہم ان پتھریلی پہاڑیوں میں قیمتی پتھر کو کہاں کہاں تلاش کریں گے؟‘‘ جبران بولا۔

    ’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مرجان ہمیں ایک لاوا غار میں ملے گا۔‘‘

    ’’اور اب یہ لاوا غار کیا شے ہے؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔

    فیونا بتانے لگی: ’’لاوا غار اس وقت وجود میں آتا ہے جب اوپر کی سطح کا گرم بہتا لاوا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، تاہم اس کے نیچے گرم لاوا بہتا رہتا ہے اور اس طرح ایک ٹیوب بن جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ لاوا سخت ہونے لگتا ہے اور ایک غار کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ مرجان کسی ٹنوں لاوے کے نیچے نہیں چھپا ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کسی غار میں ہے، یہ جزیرہ کچھ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ چلو اسے ڈھونڈنے کا آغاز کرتے ہیں۔ ہاں، ایک بات یاد رکھنا کہ لاوا بہت کاٹ دار ہوتا ہے، اگر ہم نے احتیاط نہیں برتی تو یہ ہمیں لمحوں میں کئی ٹکڑوں میں بدل دے گا۔‘‘

    قیمتی پتھر کی جستجو میں تینوں لاوے کی زمین کی طرف بڑھنے لگے۔ دانیال بولا: ’’یہ زمین ناہموار ہے لیکن اچھی لگ رہی ہے۔‘‘

    وہاں جگہ جگہ پتھر پڑے ہوئے تھے اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر گھاس کی چادریں تنی ہوئی تھیں۔ جبران کو کچھ نظر آیا تو اس نے کہا: ’’ارے وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی چیز حرکت کر رہی تھی۔ جبران نے کہا: ’’اوہ یہ تو چٹان ہے جو حرکت کر رہی ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • پچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’پتا نہیں کہاں چلا گیا بے وقوف؟‘‘ فیونا سڑک کے کنارے بنی دکانوں کی طرف دیکھنے لگی۔ جبران نے کہا چلو ان دکانوں میں دیکھتے ہیں۔ دونوں ایک ایک کر کے دکان دیکھنے لگے لیکن وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ ان کی پریشانی اور بڑھ گئی۔ اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا اور دانیال کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ ’’اب کیا ہو گا؟‘‘ جبران روہانسا ہو گیا۔

    ’’میرے خیال میں ہم ہوٹل چل کر دیکھتے ہیں، شاید وہ وہاں پہنچ چکا ہو۔‘‘ فیونا خود کو جیسے دلاسا دینے لگی۔ لیکن وہ اور کیا کرسکتے تھے، اس لیے ہوٹل پہنچ گئے۔ فیونا تیزی سے میگنس کی طرف بڑھی اور اس سے پوچھا: ’’کیا آپ نے دانیال کو آتے دیکھا یہاں؟‘‘

    ’’نہیں، میں تو سارا دن یہیں موجود رہا ہوں، وہ واپس نہیں آیا، کیا وہ کہیں کھو گیا ہے؟‘‘ میگنس نے جواب میں کہا: ’’گھبراؤ نہیں، رکجاوک زیادہ بڑا قصبہ نہیں ہے، وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔‘‘

    ’’آؤ یہیں پر اس کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘ فیونا بے چینی سے بولی اور دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ ’’پتا نہیں یہ لڑکے اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔‘‘ وہ غصے اور پریشانی میں بڑبڑانے لگی۔

    ’’اس کے پاس رقم موجود ہے، اس لیے وہ ٹیکسی کر کے یہاں آ سکتا ہے۔‘‘ جبران نے تسلی دی۔ ’’میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ یہاں ٹیکسی بھی ہوں گے، اسے تو ہوٹل کا نام تک یاد نہ ہوگا۔‘‘ فیونا کو رہ رہ کر اس پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں دروازے کی طرف دیکھتے رہے۔ آدھا گھنٹے بعد دانیال ہوٹل کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ تب تک میگنس بھی ڈیوٹی ختم کر کے جا چکا تھا۔ فیونا اسے دیکھ کر اچھلی اور دوڑ کر اس کے قریب گئی: ’’کہاں رہ گئے تھے تم، ہماری تو جان ہی نکل گئی تھی۔‘‘ فیونا نے اس کے کوٹ کا کونا پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھا دیا۔

    ’’یار کہاں رہ گئے تھے تم، ہم نے قصبہ چھان مارا تمھارے پیچھے۔‘‘ جبران نے بھی اطمینان کی سانس لی لیکن لہجے میں ناراضی تھی۔

    ’’خریداری کر رہا تھا۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

    ’’اوہ پتا نہیں کیا خرید رہے تھے تم۔‘‘ فیونا کو پھر غصہ آنے لگا۔

    ’’دراصل میں تمھارے لیے کچھ خرید رہا تھا۔‘‘ دانیال نے شرما کر کہا اور کوٹ سے ایک پیکٹ نکالا۔ ’’مجھے اس لیے پروا نہیں تھی کہ جانتا تھا تم لوگ ہوٹل پہنچ کر انتظار کرو گے، میں اسے پیک کروا رہا تھا، جب باہر نکلا تو تم لوگ جا چکے تھے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، لیکن آئندہ خیال رکھنا۔‘‘ جبران نے اسے تنبیہہ کر دی۔ ’’اور یہ کیا ہے؟ ذرا کھولنا اسے فیونا۔‘‘

    فیونا نے پیکٹ کھول کر دیکھا۔ اندر سے ایک خوب صورت ہار نکل آیا۔ ’’واؤ، یہ تو بہت پیارا ہے۔‘‘ ہار کے ساتھ چَین پر ایک چھوٹا سا سہنری چوہا لٹکا ہوا تھا۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے یاد ہے تم قلعہ آذر میں چوہے سے ڈر گئی تھی، اب تو تمھارے پاس تمھارا اپنا چوہا ہو گیا ہے، جسے تم ہر وقت گلے میں لٹکائے پھر سکتی ہو، اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ تمھیں چوہوں سے ڈر محسوس نہ ہو۔‘‘

    ’’شکریہ، یہ واقعی پیارا ہے، چوہے میں دل کی جگہ پر ایک نگینہ بھی جڑا ہوا ہے۔‘‘ فیونا نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’اچھا اب میری بات بھی سنی جائے۔‘‘ جبران نے مداخلت کی۔ ’’مجھے شدید بھوک لگی ہے، پہلے کچھ کھاتے ہیں اور پھر ہوٹل کے سوئمنگ پول میں کودتے ہیں۔‘‘

    ’’کیا یہاں پیراکی کا لباس مل جائے گا۔‘‘ فیونا خوشی سے اچھل پڑی۔ ’’ہاں کرائے پر مل جاتا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔ تینوں کھانے کے لیے بنے مخصوص ہال میں داخل ہوئے اور ایک میز کے گرد خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر انھوں نے اپنے لیے آئس لینڈ کی مخصوص ڈشیں منگوائیں۔ فیونا نے مقامی پین کیک، بھیڑ کا سوپ اور اسکائر منگوا لیے۔ پوچھنے پر انھیں معلوم ہوا کہ اسکائر تازہ پنیر چھان کر تیار کی جاتی ہے جو دہی کی طرح لگتی ہے۔ جبران نے بھیڑ کے نکمین پارچے اور مٹر سوپ منگوائے، جب کہ دانیال نے مینو دیکھ کر کہا: ’’میں تو کوئی بالکل ہی مختلف چیز منگواؤں گا۔‘‘

    اس کی بات سن کر ویٹر فوراً بولا: ’’جناب ہمارے ہاں گھوڑے اور اودبلاؤ کا گوشت بھی دستیاب ہے۔‘‘

    ویٹر کی بات سن کر فیونا اور جبران چونک پڑے۔ انھوں نے منھ بنا لیے تھے لیکن دانیال نے مسکرا کر کہا: ’’میں وھیل والی ڈش کھاؤں گا۔‘‘ ویٹر نے کہا یہ بہت مزے دار ہے، آپ کو پسند آئے گی۔

    ویٹر کے جانے کے بعد دونوں نے دانیال کو آڑے ہاتھوں لیا: ’’کیا تم پاگل ہو گئے ہو، یہاں انھوں نے وھیل جیسے خوب صورت آبی جانور کو مارا ہے اور تم اسے کھاؤ گے۔‘‘ فیونا نے تیز لہجے میں کہا۔ جبران نے بھی برا منھ بنا کر کہا: ’’دانی، وھیل کا گوشت بھی کوئی کھانے کی چیز ہے، مجھے تو سوچ کر ہی متلی ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’ارے تم دونوں خوامخوا ناراض ہو رہے ہو۔ میرا اگر اس سے پیٹ نہیں بھرا تو اس کے بعد گھوڑے کا اور پھر اودبلاؤ کی ڈش بھی منگوالوں گا۔‘‘ دانیال نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔

    ’’تم اودبلاؤ بھی کھا جاؤ گے۔‘‘ فیونا نے آنکھیں نکال لیں۔ ’’کبھی نہیں، تم ایسا نہیں کر سکتے۔ ورنہ… ورنہ پھر ہم دوست ہی نہیں ہو سکتے۔‘‘

    ’’تو کیا تمھارا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اودبلاؤ کھا لیا تو تم میرے ساتھ دوستی نہیں کرو گی۔‘‘ دانیال نے حیران ہو کر کہا تو فیونا نے کہا: ’’میرا مطلب یہ ہے کہ تم اودبلاؤ مت کھانا۔‘‘

    ان کی گفتگو جاری تھی کہ ویٹر ان کی پسند کی ڈشیں لے آیا۔ پھر تینوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ فیونا اور جبران بار بار سر اٹھا کر دانیال کی طرف دیکھتے رہے اور برے برے منھ بناتے رہے۔

    ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے تم چربی چبا رہے ہو۔‘‘ فیونا آخرِ کار بول اٹھی۔ دانیال نے فوراً پلیٹ آگے کر دی: ’’ارے یہ تو بہت مزے کا ہے، تم دونوں بھی چکھو نا۔‘‘

    ’’نہیں … نہیں … شکریہ، ہم نے نہیں کھانا۔‘‘ دونوں نے جلدی سے معذرت کی۔ کچھ دیر بعد ویٹر نے آ کر پلیٹیں اٹھائیں اور جاتے جاتے دانیال کو مخاطب کیا: ’’جی جناب، ڈش کیسی لگی؟‘‘

    ’’بہت مزے دار۔‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

    بھاری بل ادا کرنے کے بعد وہ سوئمنگ پول چلے گئے۔ جیبوں کا سارا سامان ایک لاکر میں رکھا دیا اور پھر دو گھنٹے تک خوب پیرا کی کا لطف اٹھایا اور پھر کمرے میں جا کر بستروں پر لیٹتے ہی نیند کی میٹھی وادیوں میں کھو گئے۔

    (جاری ہے….)