Tag: رفیع اللہ میاں کا بلاگ

  • فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    بہ ظاہر فخر (Pride) ایک سیدھا سادہ لفظ دکھائی دیتا ہے، عام طور سے اس کا استعمال بھی معصومانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے پہلو (جن کی نظر میں پہلا پہلو منفی ہے) پر نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ذاتی محنت، مشترکہ انسانی اقدار اور ثقافتی حسن پر فخر جائز ہے۔ وہ دراصل فخر کو بغیر سمجھے اپنانے میں مسئلے کو دیکھتے ہیں، کیوں کہ یہ انسان کو قبائلی تعصب، قوم پرستی اور عدم برداشت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس لیے اس ناسمجھی کے مقابل وہ فخر کو مثبت شعور کے ساتھ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بات نہیں بنتی۔

    خواہ ذاتی محنت ہو یا مشترکہ انسانی اقدار، فخر کا احساس آدمی یا نسل یا قوم یا ثقافت کو بہ ہر صورت مرکز میں لے کر آتا ہے اور ساتھ ہی دوسرے کو کنارے پر دھکیل دیتا ہے۔ لوگ اپنی بقا اور ترقی کے لیے محنت کرتے ہیں، کسی کو کم کسی کو زیادہ کامیابی ملتی ہے۔ کامیاب آدمی اپنی محنت پر فخر کرتا ہے، لیکن ناکام آدمی کیوں اپنی محنت پر فخر نہیں کرتا؟ کیا فخر کا یہ احساس محنت سے جڑا ہے یا کامیابی سے؟ اس سوال کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ کامیاب آدمی کا فخر محنت کو استحقاق (خود کو Privileged سمجھنا) کا معاملہ بنا دیتا ہے۔ یہی معاملہ مشترکہ انسانی اقدار کا ہے۔ بہ ظاہر یہ تو بہت زیادہ مثبت لگتا ہے اور اس میں کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا، یقیناً یہ جائز ہے۔ ضرور جائز ہے لیکن ’انسانی‘ اقدار سے محبت جائز ہے کیوں کہ اس محبت کے تقاضے پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہم ان ’انسانی‘ اقدار پر فخر کرنے لگتے ہیں، زمین کی دیگر حیات خود بہ خود دیوار سے لگ جاتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ انسانی اقدار پر دیگر حیات کے تناظر میں سوال اٹھانا ہماری غیر شدت پسند سوچ کے لیے بھی سخت مشکل امر ہے، اور تقریباً ناقابل قبول ٹھہرتا ہے۔ لیکن استحقاق پر مبنی ہمارے پہلے سے فِکسڈ تصورات خواہ کتنے ہی قابل قبول اور ناگزیر کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں، زمین کی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ انسان کو زمین پر جتنا بھی ’استحقاق‘ حاصل ہے وہ اس کی اپنی تشکیل کردہ ہے۔ انسانی اقدار پر فخر نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ غیر انسانی مخلوق کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔

    فخر کو محسوس کرنے کے نازک لمحے میں اگر آپ اپنے سامنے شعوری طور پر یہ سوال بھی رکھتے ہیں کہ کیا یہ فخر تنوع اور دوسروں کی شناخت کو تسلیم کرتا ہے؟ تب بھی یہ مقابلے کے رجحان کو کم نہیں کرتا۔ جیسے ہی آپ ’دوسرے/غیر‘ کو سوچتے ہیں فخر کا لمحہ غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کو ادراک ہو جاتا ہے کہ آپ خود بھی ’دی آدر‘ ہیں۔ فخر کا لمحہ سیلف/ذات کو ’غیر‘ سے کاٹ دیتا ہے۔ دوسرے اور غیر کو اپنے آپ کے برابر تسلیم کرنے سے اپنی ذات (قومی/ثقافتی) کی استحقاق پر مبنی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ فخر کا احساس Privileged احساس ہے۔ اگر یہ احساس خاص نہیں ہے اور ہر ایک کے لیے عام ہے، تو پھر یہ بے معنی ہے۔

    فخر کے اظہار کو معصومانہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اکثر ’’فخر‘‘ کا اظہار دراصل برتری کے ایک غیر اعلانیہ دعوے میں بدل جاتا ہے۔ جیسے کہ ’’ہم غیرت مند ہیں‘‘ ، ’’ہم بڑے دل والے ہیں‘‘ ، ’’ہم مہمان نواز ہیں‘‘ ! ان جملوں میں اکثر ’ہم‘ کی جگہ اپنی قوم کا نام داخل کیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر ان جملوں میں بھی ’اپنی خصوصیت‘ کا سادہ اظہار ہے، لیکن یہ زبان مکمل طور پر بائنری اپوزیشن پر تعمیر شدہ ہے۔ اس لیے جب انھیں دہرایا جاتا ہے تو دوسروں کو کم تر سمجھنے کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہاں فخر محبت کا اظہار نہیں بلکہ ’’ہم اور تم‘‘ کے مقابلے کا بیان بنا ہوا ہے۔

    کبھی کبھی یہ احساس محرومی کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ انسانی گروہ، انسانی طبقات اور حتیٰ کہ انسان صنفی طور پر بھی ہمیشہ ایک دوسرے کو زیرِ دست لانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ جسے دبایا جاتا ہے، جس کا استحصال کیا جاتا ہے اس کے اندر فخر کا احساس ایک مزاحمتی عمل کے طور پر ابھرتا ہے۔ وہ خود کو جوڑنے اور اپنے آپ کو مجتمع کرنے کے لیے اپنی شناخت پر فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ قابض اور غاصب جس شناخت کو اس کے لیے قابل نفرین بناتا ہے، وہ اسی شناخت کو فخر کے لمحے میں بدل دیتے ہیں تاکہ وہ کم تری کے احساس سے مکمل مغلوب ہو کر ختم نہ ہو جائیں اور غلام نہ بن جائیں۔

    محبت اور فخر میں یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ فخر تکبر کے بغیر نہیں ہے۔ کسی خوش نما اور پُر فضا علاقے میں پیدائش اور پرورش ایک خوش نصیبی ہے۔ لیکن جو لوگ سخت اور سنگلاخ زمینوں پر پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اپنے علاقے کی آب و ہوا اور سخت زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دل جتنا پُر فضا علاقے کے لوگوں کا خوشی اور محبت سے دھڑکتا ہے، اتنا ہی سخت علاقے کے لوگوں کا بھی۔ یہ حیاتیاتی تنوع ہے۔ خوش رنگ رسمیں ہر علاقے کے لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ یہ انسانی ثقافت کی خوبی ہے اور یہ انسانی فطرت بھی ہے کیوں کہ اسے زیادہ جینے کے لیے خوش ہونے کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ تو پُر فضا علاقے کی عادت اور محبت کے اظہار کے لیے ’فخر‘ کا پیمانہ ایسا ہے جیسے مستطیل کو دائرے سے ماپنا۔ اس لیے جب مخصوص علاقے پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ احساس اپنے اندر غیریت کا عنصر لیے ہوئے ہوتا ہے۔ عملی طور پر سنگلاخ علاقے کے آدمی کے چہرے کے سخت نقوش دیکھ کر نرم اور پُر فضا علاقے کے آدمی کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک جو کہانی سنایا کرتی ہے اس کا عنوان تکبر کے علاوہ کچھ اور ممکن ہی نہیں ہے، جسے عام طور پر ’’شکر‘‘ کے عنوان سے چھپا دیا جاتا ہے۔

    یہ بات ہزاروں بار دہرائی جا چکی ہے کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ لیکن شاید بالکل اسی وجہ سے اتنے سارے انسانوں اور قبیلوں اور گروہوں کے درمیان اس کے اندر الگ سے پہچانے جانے کا جذبہ (ذاتی بھی قومی بھی) شدید تر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی نفسیاتی ضرورت بن چکی ہے کہ یا تو وہ خود کو بڑی کہانی بنا دے یا کسی بڑی کہانی کا حصہ بن جائے تاکہ خود کو اپنے آپ کے سامنے اہم محسوس کرا سکے۔ فخر کے احساس کے پیچھے ایسی ہی ایک بڑی کہانی، ایک بڑا بیانیہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس ’’بڑی کہانی‘‘ کو ہم اس کے ثقافتی سرمائے میں بیان ہونے کے عمل سے گزرتے دیکھ سکتے ہیں جو زبان، موسیقی، شاعری، شادی بیاہ کی رسوم اور مجموعی روایات پر مبنی ہے۔ فخر کے احساس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ثقافتی معاملے کو اس کی بالکل ضد یعنی فطرت سے جوڑ کر پیش کرے، تاکہ ایک ’سچ مچ کی‘ بڑی کہانی بنانے میں آسانی ہو۔ فطرت اور ثقافت ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن فخر کا احساس ان دونوں کو بغل گیر کرا دیتا ہے اور ثقافتی مظاہر فطری مظاہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا احساس ہے جو ثقافتی مظاہر (جیسے کہ زبان، لباس، رسوم، رویے) محض اختیاری چیز نہیں بلکہ ’وجودی حقیقت‘ بنا دیتا ہے۔ جب فطرت اور ثقافت کا امتیاز مٹتا ہے تو دوسروں کے بیانیوں کے مقابلے میں اپنا بیانیہ زیادہ جاذب اور مؤثر بن جاتا ہے، یعنی زیادہ پائیدار، زیادہ قدیم، زیادہ خوب صورت۔ مختصر یہ کہ جب محبت اور فخر میں فرق مٹتا ہے تو ثقافت اور فطرت میں بھی فرق دھندلا جاتا ہے۔

    فخر کے بیانیے کو اگر میں بیان کروں تو یہ کہوں گا کہ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو فرد کی شناخت کے ساختیاتی (structural) نظام میں جذب ہو چکا ہے۔ یعنی وہ جس بات پر فخر کر رہا ہے وہ اس کے نزدیک ایک گہری سماجی تشکیل نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت (objective truth) ہے۔ یہ رویہ متبادل امکانات سے محرومی پر منتج ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فخر ایک دھندلا عدسہ ہے، لیکن جب وہ اس سے خود کو اور دنیا کو دیکھتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ عدسہ شفاف ہے۔ فخر کا احساس شعور کی گہرائی میں اترتا ہے اور مزید طاقت ور ہو کر وہیں سے سطح پر نمودار ہوتا ہے، اس لیے شعور میں رچ بس جانے والا بیانیہ آئیڈیالوجی بن جاتا ہے، جس کی خاصیت سے ہم سب واقف ہیں کہ یہ ہمیشہ خود کو برتر بنا کر پیش کرتی ہے اور دوسرے کو اپنا غیر بنا دیتی ہے۔

  • ٹرمپ نے تجارتی جنگ اور فلاحی ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟

    ٹرمپ نے تجارتی جنگ اور فلاحی ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟

    چند دن قبل جب میں نے ’’دنیا کیسے چلتی ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون تحریر کیا، تو اُس وقت تک مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ سماجی تنقید کے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کی ایک کتاب بھی How the World Works (2011) کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ان کے مختلف انٹرویوز، لیکچرز اور تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے عالمی سیاست اور معیشت، میڈیا، اور امریکی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی ہے۔

    میں، یہاں اس کتاب کے مندرجہ جات پر بات کروں گا، جو کہ 4 حصوں پر مشتمل ہیں۔ نمبر ایک: انکل سام سچ میں کیا چاہتے ہیں؟ نمبر دو: چند خوش حال باقی بے چین۔ نمبر تین: راز، جھوٹ اور جمہوریت۔ اور نمبر چار: مشترکہ خیر۔

    ایک نظر اس کے خلاصے پر ڈالتے ہیں۔ چومسکی نے کتاب میں امریکی خارجہ پالیسی کے تاریخی اور موجودہ کردار پر بحث کی ہے، جو دراصل ایک عالمی سامراجی ایجنڈا ہے۔ امریکا نے سرد جنگ کے بعد سے اپنی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی مداخلت، اقتصادی دباؤ، اور سیاسی اثر و رسوخ کا بے دریغ استعمال کیا۔ چومسکی ویتنام جنگ، لاطینی امریکا میں مداخلت، اور مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ پالیسیاں اکثر ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ہوتی ہیں لیکن ان کا اصل مقصد اقتصادی مفادات اور عالمی کنٹرول ہوتا ہے۔ چومسکی کے مطابق امریکی سامراج دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی ہلاکتوں اور عدم استحکام کا باعث بنا۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں دنیا کے 90 سے زائد ممالک متاثر ہوئے، سرد جنگ کے بعد امریکی پالیسیوں نے عالمی عدم مساوات کو بڑھایا، اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ دراصل عالمی بالادستی کی حکمت عملی ہے۔

    نوم چومسکی نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور نجکاری کے اثرات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے نجکاری کے پروگراموں نے ترقی پذیر ممالک میں غربت اور بے روزگاری کو بڑھایا۔ چومسکی کے مطابق نجکاری کا مقصد عوامی دولت کو چند امیروں کے ہاتھوں میں منتقل کرنا ہے، یہ ایک ایسی معاشی پالیسی ہے جو چند لوگوں کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے اور عالمی سطح پر عدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ نجکاری سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے، عالمی مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک پر اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں، اور سرمایہ داری نے بھوک، بے روزگاری، اور سماجی ناانصافی کو بڑھاوا دیا۔

    چومسکی نے کتاب میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہونے والے میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی، اور بتایا کہ میڈیا کارپوریٹ اور حکومتی مفادات کی تابع داری کرتا ہے، حقائق کو مسخ کرتا ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے معلومات کو فلٹر کرتا ہے۔ وہ امریکی میڈیا کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح یہ امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور تنقیدی آوازوں کو دباتا ہے۔ میڈیا عوام کو سچائی سے دور رکھنے کے لیے بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

    اب میں اس کتاب کے چند حصوں کے اہم مباحث آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب کے پہلے حصے کا بہت دل چسپ عنوان ہے: ’انکل سام دراصل کیا چاہتا ہے؟‘‘ نوم چومسکی نے اس حصے میں ’اپنے دائرہ کار کا تحفظ‘ کی ذیلی سرخی جماتے ہوئے لکھا ہے: دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب بیش تر صنعتی حریف جنگ کی وجہ سے کمزور یا تباہ ہو گئے، امریکا کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہو گیا، امریکا کے پاس دنیا کی 50 فی صد دولت آ گئی، اس نے دونوں سمندروں کے دونوں کناروں پر بے مثال تاریخی کنٹرول حاصل کر لیا۔ امریکی منصوبہ سازوں نے دنیا کو اپنے وژن کے مطابق تشکیل دینا شروع کیا، نیشنل سیکیورٹی کونسل میمورینڈم 68 (1950) ایک دستاویز ہے، اس میں پال نٹز نے لکھا کہ سوویت یونین کو کم زور کرنے کے لیے اس کے اندر تباہی کے بیج بوئے جائیں، اس دستاویز میں جو پالیسیاں تجویز کی گئین، ان پر عمل کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ فوجی اخراجات میں بھاری اضافہ ہو اور سوشل سروسز کے اخراجات میں کٹوتی ہو۔ اور اس کے علاوہ ’’حد سے زیادہ رواداری‘‘ کا رویہ بھی ترک کیا جائے تاکہ ملک کے اندر اختلاف رائے کو زیادہ اجازت نہ ملے۔ یہاں نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ سوویت یونین کو کمزور کرنے کے لیے امریکا نے مشرقی یورپ میں نازی جرمنی کے ساتھ اتحاد کر کے بدترین مجرموں پر مشتمل ایک جاسوس نیٹ ورک بنایا، اس نیٹ ورک کے آپریشنز لاطینی امریکا تک بھی پھیل گئے تھے۔

    اب میں اس کتاب کے اُس حصے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے میں نے اس کتاب کو چُنا ہے کہ اس کا تعارف آپ کے سامنے پیش کروں۔ یہاں نوم چومسکی نے ذیلی عنوان ’’انتہائی لبرل نقطہ نظر‘‘ کے تحت امریکا کی امن پسندی پر گہرا طنز کیا ہے۔ جارج کینن کو ’سب سے نمایاں امن پسند‘ لکھتے ہوئے ان کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ کینن نے 1950 تک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کی سربراہی کی، وہ امریکی منصوبہ سازوں میں سب سے ذہین اور واضح سوچ رکھتے تھے۔ اسی کینن نے 1948 میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کے لیے ایک دستاویز لکھی جس کا عنوان ہے ’’پالیسی پلاننگ اسٹڈی 23‘‘۔ یہ ایک انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔

    کینن نے اس میں لکھا: ’’ہمارے پاس دنیا کی تقریباً 50 فی صد دولت ہے، لیکن دنیا کی آبادی کا ہم صرف 6.3 فی صد ہیں، اس صورت حال میں، ہم حسد اور ناراضی کا نشانہ بننے سے نہیں بچ سکتے۔ اس لیے ہمارا اصل کام آنے والے عرصے میں یہ ہے کہ ہم تعلقات کا ایک ایسا سانچہ تیار کریں جس کی مدد سے ہم اس عدم مساوات کی حالت کو برقرار رکھ سکیں۔ اس کے لیے ہمیں ہر قسم کی جذباتی سوچ اور خیالی پلاؤ سے چھٹکارا پانا ہوگا؛ ہمیں صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی کہ ہمارے فوری قومی مقاصد کیا ہیں۔ ہمیں انسانی حقوق، لوگوں کے معیار زندگی بہتر بنانے اور جمہوریت کو فروغ دینے جیسے مبہم اور غیر حقیقی مقاصد کی تکرار بند کرنی ہوگی۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں سیدھے سادھے طاقت کے تصورات کے مطابق معاملات کرنے ہوں گے۔ ہم اُس وقت نظریاتی نعروں کو جتنا کم توجہ دیں، اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘

    کیا آپ نے نوٹ کیا کہ امریکا کے لیے پالیسی تیار کرنے والوں کے لیے 75 سال قبل لکھی گئی اس خفیہ دستاویز میں وہ حیرت انگیز پالیسی ڈیزائن کی گئی ہے جس پر آج اتنے عرصے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمل شروع کر دیا ہے۔ اس پالیسی کو اس سے قبل کسی امریکی صدر نے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ لیکن ٹرمپ نے دوسری مدت سنبھالتے ہی دیگر ممالک کے جاری امدادی پروگرام بند کر دیے۔ ٹرمپ نے اس دستاویز کے عین مطابق ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی شروع کی اور ’یو ایس ایڈ‘ جیسا بڑا اور وسیع ادارہ بند کر دیا۔ پاکستان میں بھی ٹی بی پر قابو پانے کے لیے سب سے بڑی مدد ’یو ایس ایڈ‘ کی طرف سے آ رہی تھی۔ یہ ادارہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے فنڈنگ کرتا تھا۔

    امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام سے دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبے رک گئے، ان منصوبوں میں صحت، تعلیم، ترقی، روزگار کی تربیت، بدعنوانی کے خلاف اقدامات، سیکیورٹی امداد، اور دیگر کوششیں شامل ہیں۔ کینن نے تجویز کیا تھا کہ امریکا کو دیگر ممالک کے ساتھ اپنی طاقت کے بل پر معاملات طے کرنے چاہیئں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی پر عمل کرتے ہوئے دھونس اور دھمکی سے حکومت چلانا شروع کر دیا۔ انھوں نے کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپ کو تجارتی ٹیرف کے ڈنڈے سے دبانا شروع کیا، روس پر تو زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکے لیکن یوکرین کے صدر کو امریکا بلا کر پوری دنیا کے سامنے ذلیل کر دیا، ایران کے ساتھ بھی دھونس دھمکی والا سلسلہ جاری ہے۔ غرض انھوں نے دنیا سے ایک پریشان کن تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے اور اب ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے جھگڑے کا حل تجارت کے ذریعے نکالنا چاہتے ہیں۔

    اب ذرا میکسیکو، ایل سلواڈور، پاناما اور کیوبا جیسے لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ یاد کریں اور نوم چومسکی کے ان جملوں پر غور کریں، وہ لکھتے ہیں: ’’کینن نے 1950 میں لاطینی امریکی ممالک کے لیے جانے والے امریکی سفیروں سے کہا کہ ہمارا بڑا مقصد لاطینی امریکا کے خام مال کا تحفظ ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ایک خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو لاطینی امریکا میں پھیل رہی ہے، یعنی یہ خیال کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے براہ راست ذمہ دار ہے۔‘‘ کینن نے عوام کی فلاح و بہبود کے خیال کو خطرناک بدعت قرار دیا، اور اسے کمیونزم کہا۔ کینن نے اس بدعت کے شکار لوگوں کو دشمن اور غدار کہا، اور پولیس کے ذریعے ان سے طاقت کے ساتھ نمٹنے کی بے جھجھک تلقین کی۔ کینن نے نرم اور لبرل حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط رجیم کو بہتر قرار دیا۔

    اس کتاب میں ایک باب ’’جمہوریتوں کے لیے امریکی وابستگی‘‘ بھی ہے۔ اس باب میں نوم چومسکی نے بہت تشویش ناک معاملے کی نقاب کشائی کی ہے۔ پالیسی سازوں نے ایک طرف امریکا کے بنائے ہوئے نئے عالمی نظام کے لیے تیسری دنیا میں پائی جانے والی قوم پرستی کو بنیادی خطرہ قرار دیا، اور یہ ہدف پیش کیا کہ ایسی کوئی حکومت اقتدار میں نہ آئے، دوسری طرف ’’اصلی جمہوریتوں‘‘ کو ایک مسئلہ قرار دیا گیا، کیوں کہ وہ اس بدعت کا شکار ہو جاتی ہیں کہ امریکی سرمایہ کاروں کی بجائے اپنی آبادی کی ضروریات کو ترجیح دینے لگتی ہیں۔ جب سرمایہ کاروں کے حقوق کو خطرہ ہوتا ہے، جمہوریت کو ختم کرنا پڑتا ہے؛ اگر یہ حقوق محفوظ ہیں، تو قاتل اور تشدد کرنے والے بالکل ٹھیک ہیں۔ صرف یہی، آج جب پاکستان کے حوالے سے پراکیسز کا بڑا شور ہے، نوم چومسکی نے اعتراف کیا ہے کہ ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا میں امریکی دہشت گرد پراکسیز نے صرف قتل عام ہی نہیں کیا، بلکہ بچوں اور عورتوں پر سفاکانہ اور وحشیانہ تشدد کی بد ترین مثالیں بھی قائم کیں۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب موجودہ دنیا میں امریکی کردار کے ہر پہلو کو واضح کر کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ جسے ہر پڑے لکھے پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔

  • دنیا کیسے چلتی ہے؟

    دنیا کیسے چلتی ہے؟

    بنیاد یہ ہے کہ آپ خواہ جنگ کریں، امن قائم کریں، یا قانون سازی کریں __ یہ سب سیاسی سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ اگر آپ دنیا میں کوئی حکومت یا ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، اگر پالیسی وضع کرنا اور طاقت کا توازن بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اہداف سیاسی نظاموں کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

    اس لیے ایک شہری ہونے کے ناتے ہر شخص کی توجہ کا مرکز ملک میں اچھے اور بہتر سیاسی نظام کی تعمیر ہونا چاہیے۔ ایک شہری جو سیاسی طور پر ووٹر ہوتا ہے، کو سیاسی نظام پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ اس پر کتنی ہی پابندیاں عائد کیوں نہ ہو جائیں، وہ یہ بات واضح کہتا رہے کہ شفاف سیاسی نظام کے علاوہ ہر دوسری صورت مسترد ہے۔

    یہ جھگڑا کہ ’’دنیا کن عناصر پر چلی ہے‘‘ مقامی یا قومی سیاست کا سوال ہی نہیں ہے۔ ہزار قسم کے مسائل میں گھرا شہری _ عملاً جس کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت نہ ہو _ نہ اس سوال کا درست جواب فراہم کر سکتا ہے، نہ درست جواب کی نوعیت کو ٹھیک سے سمجھ سکتا ہے۔ پریشانیوں، محرومیوں میں گھرا شہری جذبات کی گرفت میں ہوتا ہے۔

    آج کی حقیقی دنیا آئیڈیلزم اور لبرلزم کی گرفت میں ہے۔ جس نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام تشکیل دے رکھا ہے، جس کے تحت اقوام متحدہ جیسے اداروں، اقتصادی مفادات کی بجائے بین الاقوامی تعاون، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے دھارے بہہ رہے ہیں۔ اس کے لیے صرف طاقت اور معیشت کافی نہیں۔

    دنیا جن عناصر پر چلتی ہے، اگر ہم نے اس کا یہاں تصور کرنا شروع کر دیا، تو اجتماعی سطح پر ہمارے سماجی شعور میں زبردست وسعت پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ کیوں کہ آئیڈیلزم کی ماری اس دنیا کے نظام کی زیریں سطح پر ایک زبردست تنقیدی نظام کا دھارا بھی بہہ رہا ہے۔ ایک ایسا شہری جس نے اپنے خطے میں کبھی ’تعمیری نظام‘ نہ دیکھا ہو، اس کے لیے کسی تنقیدی نظام کا درست تصور کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔

    طاقت، معیشت، فوج، سرحدیں _ یہ سب تلخ حقیقتیں ہیں۔ بد قسمت لوگ ان حقیقتوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہتے ہیں اور ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن سماجی تعمیر کے نظریے کا جال بھی ان سب کے گرد پوری طرح کسا ہوا ہے۔ اس لیے قومی سطح ہی نہیں بین الاقوامی تعلقات کو بھی یہ مختلف نظریات، شناخت، ثقافت، اقدار، اور بیانیوں کا تناظر بھی فراہم کرتا ہے۔ ہماری اسی تلخ دنیا میں رئیلزم اور لبرلزم کے روایتی نظریات بھی چینلج ہوتے رہتے ہیں، یعنی: ’’دنیا جس طرح ہے، وہ اسی طرح ہو سکتی تھی — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسی طرح ہونی ہی تھی۔‘‘

    ریاستوں کا مفاد کیا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ریاستوں کا رویہ کیا ہے؟ اس کی تشکیل اُس کے خیالات اور سماجی شناخت سے ہوتی ہے، مفادات سے نہیں۔ یہ نکتہ اب عام طور پر کوٹ کیا جاتا ہے کہ ’’قومی مفاد‘‘ بھی ایک تشکیل شدہ (constructed) تصور ہے، جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

    امریکا اس کی قریب ترین مثال ہے __ بین الاقوامی سیاست کا اسٹرکچر مادی حقائق سے نہیں بلکہ سماجی تعمیر سے بنتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے بڑی فوج، ایٹمی ہتھیار، اور بڑی معیشت ہے لیکن ایران اور شمالی کوریا سمیت چند ممالک کے علاوہ باقی دنیا امریکی طاقت کو خطرہ نہیں تحفظ کی علامت سمجھتی ہے۔ یعنی یہاں طاقت خود کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ایک بیانیہ ہے جو اس طاقت کے لیے معنی فراہم کر رہا ہے۔ اس لیے خطرے اور تحفظ کی تشریح سماجی تناظرات کے تحت ہوتی ہے۔ امریکا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، 19 ویں صدی میں اس پر شناخت کے حوالے سے تفرُّد پسندی کا بھی دور گزر چکا ہے۔

    اس خطے کے شہری کا عام خیال یہ ہے کہ امریکا کا کردار اس کی فوجی اور ٹیکنالوجی کی، اور معاشی طاقت طے کرتی ہے۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ امریکا کا کردار اس کی ’’قومی شناخت‘‘ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ بیانیاتی شناخت پر استوار ہے جو اسے عالمی نظام کا مربی بنا کر پیش کرتا ہے _ امریکا نے خود کو عالمی سیاست میں ’’جمہوریت کا محافظ‘‘ اور ’’آزادی کا علم بردار‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ سماجی تصور کی مدد سے ممکن ہو سکا، مادی قوت پر نہیں۔ اگر عالمی سلامتی کا بیانیہ (بیانیے ہمیشہ سوالیہ نشان کی زد پر اسی لیے ہوتے ہیں کہ یہ دھوکے پر مبنی ہوتے ہیں) تشکیل نہ دیا جاتا تو افغانستان یا عراق پر حملہ ممکن نہ تھا۔

    سماجی تعامل اور تاریخی تجربات سے سیکھنے والے اگر سیاسی بیانیے طاقت ور نہ ہوتے تو برطانیہ، جاپان اور جرمنی آج اتحادی نہ ہوتے۔ روس، چین اور ایران گہرے رشتوں میں نہ بندھے ہوتے۔ ہمیں طاقت کی تعبیر سماجی سطح ہی پر کرنی پڑتی ہے، اور جب ہم دوستی اور دشمنی کی بات کرتے ہیں تو یہ ہمارا ایک اجتماعی تصور ہوتا ہے، اسی طرح قومی مفاد کوئی فطری چیز نہیں بلکہ سماجی بیانیہ ہے۔ اس لیے ہمیں ایسے سماجی بیانیے تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اندرونی سطح پر ہماری شناخت کے مسائل کو حل کر سکے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری شناخت کو بہتر بنا سکے۔

    کسی نازک وقت کی آزمائش خود ایک کمزور بیانیے کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ تسلسل کے ساتھ آتا رہے تو آخرکار ’’نازک وقت‘‘ کے بیانیے پر لوگوں کا اعتماد کم زور ہو جاتا ہے۔

    تنقیدی نظام کا ایک دھارا فیمینزم بھی ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ایک گالی ہے۔ لیکن دنیا اس دھارے کو قبول کرتی ہے اس لیے یورپ اور امریکا میں عورت کی سماجی صورت حال باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ یہ فکر تو اس اوپر کے سارے بیانیے پر کہے گی کہ یہ مردانہ (patriarchal) انداز فکر ہے۔ کیا ہم اس تنقید کو کھلے دل سے عزت دے سکتے ہیں!

    تنقید کا ایک دھارا یہ کہتا ہے کہ بین الاقوامی نظام مغربی طاقتوں کا تشکیل کردہ ہے، اور وہ اپنے نوآبادیاتی مفادات، شناخت، اور بیانیے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا اس تنقید کو بھی قبول کرتی ہے اور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی سطح پر خود کو اس حوالے سے بہتر بناتی رہتی ہے۔

    دراصل، دنیا کیسے چلتی ہے، اس حوالے سے طاقت کے نظام، سیاسی و اقتصادی ڈھانچے کو جوں کا توں مان لینا خود ایک مسئلہ ہے، اس لیے روایتی مفروضات کو چیلنج کرتے رہنا چاہیے۔ یعنی دنیا کی محض تشریح کافی نہیں، اسے بدلنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔

    دنیا کیسے چلتی ہے؟ یہ دیکھیں کہ اس وقت عالمی نظام میں اقدار اور ثقافتی معیارات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ غلامی، نوآبادیات اور ایٹمی ہتھیار ایک وقت میں جائز سمجھے جاتے تھے، مگر اب ناقابلِ قبول ہیں۔ تاریخی عمل کے ذریعے انسانی حقوق اور جمہوریت ہی نے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ جیسے اصول نے بھی ایک عام قدر کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    آج کی دنیا کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے فلسفیانہ تصورِ ‘‘ساخت’’ یا زیر سطح نظاموں (underlying structures) کا مطالعہ بھی ضروری ہے، بنیادی طور پر یہ لسانیات (سوئس ماہر لسانیات فرڈیننڈ سوسیور نے بیسویں صدی کی ابتدا میں میں یہ تصور پیش کیا) اور ثقافتی بشریات (Cultural anthropology__ کلاڈ لیوی اسٹراس نے اس کا بشریات پر اطلاق کیا) کے شعبے کا تصور تھا، لیکن اس میں اتنی فکری کشش تھی کہ یہ فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، سماجیات، ادب اور بین الاقوامی تعلقات جیسے متنوع شعبوں تک پھیل گیا۔ اس تصور نے دراصل غیر مرئی ساختوں (invisible structures) کی دریافت کی، اور پتا چلا کہ کسی بھی نظام کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ تصور ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ کوئی مظہر خواہ کسی بھی شعبے کا ہو، ساخت (structure) کے تصور میں یہ صلاحیت ہے کہ اُس مظہر کے اساسی پیٹرنز یا سسٹمز کو بے نقاب کر سکے، اور بتا سکے کہ دراصل معانی کیسے پیدا ہو رہے ہیں۔ آج ساختیات کا یہ تصور طاقت، شناخت، ثقافت، قانون اور بین الاقوامی نظام کو سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کسی شے کا مطلب اس کے مخالف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ اس کی انفرادی حقیقت سے۔ ساختیات نے بتایا کہ نظریہ خود بہ خود پیدا نہیں ہوتا، نہ یہ کسی انسان کی سوچ ہوتی ہے، نہ کوئی آفاقی سچائی _ بلکہ یہ ثقافتی نظام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ترقی کا نظریہ مغرب کے مخصوص تاریخی، لسانی، اور معاشی ساخت سے پیدا ہوا۔

    اگر ہم عالمی نظام کی ساخت کو سمجھنا شروع کریں گے تو ہمارے راستے میں مارکسی نظریات بھی مدد کے لیے کھڑے ہوں گے، ان کے بغیر فہم کی ہماری کوشش علمی نہیں ہوگی، بلکہ تعصب کا شکار ہو جائے گی۔ یعنی زبان، ذہن، بیانیے، اور ثقافتی کوڈز کا تجزیہ ہی کافی نہیں، مادّی حقیقت سب سے اہم ہے، کیوں کہ سماجی شعور مادی حالات سے پیدا ہوتا ہے۔ لوئی التسر نے ساختیات اور مارکسزم کو ملا کر ایک امتزاجی نقطہ نظر پیش کیا۔ ساختیات اگرچہ غیر سیاسی ہے لیکن سیاست کے شعبے پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔ لیکن ساختیات تاریخ سے کٹی ہوئی ہے اس لیے مارکسی فہم اس گیپ کو بھرتی ہے۔

    اسی طرح، ساختیات سے آگے کی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ خود یہ تصور بھی کافی کرخت اور بے لوچ ہے، جس کی وجہ سے یہ محدود ہو گیا ہے۔ کیوں کہ جب معانی، ساخت، اور شناخت جیسے قضیوں کا مزید تجزیہ کیا گیا تو دریافت ہوا کہ ان میں استحکام نہیں ہے؛ معنی سیال ہے، سیاق بدلتے ہی معنیٰ بھی بدل جاتا ہے۔ ساختیات نے بتایا کہ ہر نظام میں ایک ساخت اور مستقل مرکز ہوتا ہے، پوسٹ اسٹرکچرلزم نے واضح کیا کہ مرکز کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔ یہ فلسفیانہ تناظر ہمیں عالمی سیاست کے ’’مراکز‘‘ کو سمجھنے میں وسیع مدد فراہم کرتے ہیں۔ کہ کس طرح کوئی مرکز ہمیشہ قائم نہیں رہتا، یعنی، تاریخ بدلتی رہتی ہے، ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔

    ساخت نظر نہیں آتی، لیکن ہمیں اپنے معنی کے ذریعے متاثر کرتی ہے۔ انسان، ادارے، نظریات — سب ان ہی ساختوں کے ’’زیر اثر‘‘ ہوتے ہیں۔ شناختیں، تصورات اور معانی ان ساختوں کی پیداوار ہیں، پہلے سے موجود structures of meaning ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں بتاتی ہیں کہ دیکھو دنیا کی حقیقتیں بس یہی ہیں! ہم ہر پل ان ساختوں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ان سے روگردانی پر یہ ساختیں ہم سے ناراض دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ ساختیں سماجی قوتوں کو ہماری سرکوبی کے لیے متحرک کر دیتی ہیں۔ طے شدہ معنی والی ان ساختوں پر سوال اٹھانا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔

    کیوں کہ، ایک اور حقیقت بھی ہے، جسے ہم آسانی سے فراموش کرتے رہتے ہیں __ یہ کہ ریاستیں اور انسان اپنے بیانیے، شناخت اور اقدار وقت کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں، اور کرتے رہتے ہیں۔

  • ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ایک اچھے صحافی کا مشاہدہ بہت شان دار ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات اور چیزوں کو دیکھ کر ایسے پیٹرنز کی نشان دہی کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی مدد سے سماجی اور سیاسی صورت حال کی ایک حقیقت سے قریب تر تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ذکر ہے فیض اللہ خان اور ان کی واحد کتاب ’’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ کا۔

    مشاہدے اور پیٹرن کی صفحہ 185 پر یہ خوب صورت مثال ملاحظہ کریں: ’’ملک بھر میں کہیں بھی طالبان حملہ کریں، میڈیا کے مطابق اس میں پاکستانی، ازبک، عرب اور چیچن ملوث ہیں۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا کہ درجنوں پاکستانی اس حملے میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے، لیکن کبھی بھی کسی کی لاش یا گرفتار پاکستانی فورسز سے متعلق کسی شخص کی فوٹیج نہیں دکھائی جا سکی۔‘‘ اب اس پیٹرن کو دیکھیں تو عین یہی آپ کو پاکستانی میڈیا میں بھی دکھائی دے گا اور بھارتی میڈیا میں بھی۔ ایسے کئی پیٹرن فیض اللہ نے کتاب میں نشان زد کیے ہیں، جو بے وجہ نہیں معلوم ہوتے۔ وہ زیرک صحافی ہیں، انھوں نے ذہانت سے اس خطے کے سماجی، سیاسی اور عسکری ذہنیت کا خاکہ کھینچا ہے۔

    جب کتاب کی بات کی جاتی ہے تو اردو میڈیا سے جڑے ایک پاکستانی صحافی سے کچھ زیادہ امید نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا باب میرے لیے حیرت انگیز تھا۔ روایتی طور پر ٹی وی رپورٹنگ سے وابستہ کسی صحافی سے لمبی اور ادبی نوعیت کی تحریر کی امید کم ہی رکھی جا سکتی ہے۔ ایسے میں اپنی پہلی کتاب کا آغاز اتنے شان دار طریقے سے کرنا کہ اس پر عالمی ادبی معیار کا گمان ہو، جیسے روسی، چینی، یا لاطینی امریکی یا کوئی ترکی ادیب اپنی کتاب کا آغاز کر رہا ہو! یہ باب کسی ناول کے باب کی طرح ہے اور اس کی علامتی ویلیو یہ ہے کہ ’’حقیقت فکشن بھی ہو سکتی ہے اور فکشن حقیقت بھی۔‘‘ شاید اسی نکتے کو ایک اور طرح سے محسوس کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے لکھا کہ اگر فیض اللہ خان افغان صحافی ہوتا اور پاکستانی انٹیلیجنس کے ہتھے چڑھتا، تب بھی وہ ایسی ہی آپ بیتی لکھتا اور اس کا نام بھی ڈیورنڈ لائن کا قیدی ہی ہوتا۔

    دراصل یہ کتاب اپنے عنوان ہی نہیں اپنے مواد میں بھی علامتوں کے ذریعے متعدد ’’حقائق‘‘ سے روشناس کراتی ہے۔ میرے لیے یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ اس کتاب میں فیض اللہ خان کی اتنی بڑی صلاحیت کا ادراک ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد 8 سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور انھوں نے ابھی تک اس فطری تحفے کی ’’ذمہ داری‘‘ قبول نہیں کی ہے۔ ذمہ داری قبول کرنا ایک نہایت قابل قدر انسانی رویہ ہے لیکن گزشتہ دو ڈھائی عشروں سے یہ رویہ عالمی سیاست کے اسٹیج پر تنظیمی عسکریت پسندی یا تنظیمی دہشت گردی سے بری طرح جڑ کر ایک بدنام علامت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیمیں بم دھماکوں میں انسانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرکے مذہب کے نام پر ’’فخر‘‘ کا اظہار کرکے انسانیت کو شرمندہ کرتی ہیں، ایسے میں فیض اللہ جیسے قلم کار کو زبان میں موجود علامتوں کے ذریعے طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی اپنی صلاحیت کو زیادہ جوش اور تحرک کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ڈیورنڈ لائن کا قیدی رہا ہو کر اپنے گھر تو آ گیا ہے اور اس نے ایک کتھا بھی سنا دی ہے، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیدی ابھی تک پوری طرح رہا نہیں ہوسکا ہے۔ وہ تا حال علامتوں کی بے درد زنجیروں سے جھوجھ رہا ہے۔ ان زنجیروں سے رہائی کا واحد طریقہ اپنی صلاحیت کا ادراک ہے اور ایک اگلی کتاب۔
    اس کتاب میں ایسی کئی چیزیں ہیں جن پر کافی تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے، لیکن میری یہ تحریر ایک تعارفی تحریر ہے جس میں میں نے اس کے متن کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھا ہے۔ اس کتاب کا عنوان برطانوی سامراج کو قبول نہ کرنے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ برطانیہ نے کالونی میں اپنے مفادات کی خاطر یہ لائن کھینچ کر قبائل کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا۔ آج بھی، جب کہ یہ لائن نو آبادیاتی یادگار ہے، دونوں طرف کے قبائل اسے تسلیم کرنے سے اصولی طور پر انکاری ہیں۔ لیکن کتاب کا یہ عنوان اپنے ساتھ اتنے واضح علامتی معنی لیے ہونے کے باوجود اس کے ناشر زاہد علی خان نے ’’عرض ناشر‘‘ میں افغانوں سے متعلق حقیقت سے عاری اور حماقت سے بھری ایسی باتیں لکھی ہیں، کہ گمان گزرتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کے ڈائناسارز کو جان بوجھ کر نظر انداز کر کے، من پسند اور مخصوص سوچ کی تشکیل کردہ ایسے معنی کے ہاتھوں اغوا ہو رہے ہیں، جو ہے تو مچھر اتنا لیکن پیش کیا جاتا ہے نمرود کے قاتل کے طور پر!

    یہ ایک تاریخی مظہر ہے کہ حاکم قوت ہمیشہ خود کو بہ ظاہر آسان اور سادہ علامتوں کی صورت میں پیش کیا کرتی ہے تاکہ عام لوگ اپنے اندھے جذبات کی مدد سے انھیں فوراً سمجھ سکیں اور ان سے جڑ سکیں اور انھیں تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ انھیں بس یہ محسوس ہو کہ وہ پوری طرح سمجھ چکے ہیں حالاں کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھے ہوتے۔ زبان اگرچہ خود ساری کی ساری علامتوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن روزانہ زندگی میں بولے جانے والے الفاظ کے واضح معنی اور زبان کے متفقہ گرامر کے ذریعے لوگوں کے درمیان رابطہ کاری بہ آسانی ممکن ہو جاتی ہے اور لوگ گفتگو کے ذریعے آسانی سے ایک دوسرے کا فوری مدعا سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن علامتوں کی ایک سطح وہ ہوتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دے کر انھیں غلط طور سے استعمال کرنے کے لیے بے حد مددگار ہوتی ہے۔ دھوکا یوں کہ ان کے ذریعے حقیقی صورت حال پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو کیا یاد رکھنا چاہیے، اس کے لیے ان کے سامنے یہی تشکیل شدہ معروف علامتیں رکھ کر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ ’’خیر کی قوت‘‘ ہیں اور ان کا مقابل ’’بدی‘‘ کی بدترین علامت ہے۔ اس کی مثال ہمیں کتاب کے شروع میں ’’عرضِ ناشر‘‘ میں ملتی ہے جس میں امریکی ڈالروں اور امریکی میزائلوں کی شرم ناک جنگ کی سیاہ تاریخ کو ’’پاکستان افغان مہاجرین کے لیے ماں کی علامت‘‘ اور ’’پڑوس ملک کے لیے انسانی تاریخ کا ناقابل فراموش رویہ‘‘ جیسے بیانیے میں چھپایا گیا ہے۔ اسی لیے چالیس لاکھ (افغان مہاجرین) کے ہندسے کو ایک ایسی عالمی اپیل کی صورت میں دہرایا جاتا ہے جس پر ’’افغانستان پر روس کے قبضے‘‘ کے بڑے جھوٹ کی رنگین چادر چڑھی ہوئی ہے۔ افغانوں کے خلاف پروپیگنڈا ہمیں ابھی افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کی شد و مد سے شروع کی گئی مہم کے دوران بھی ملتی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے حقیقی صورت حال پر مبنی رپورٹس کافی تشویش ناک ہیں۔ تاہم یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔

    دل چسپ امر یہ ہے کہ پہلے ہی باب میں فیض اللہ نے افغان سیکیورٹی اہل کاروں کے لہجوں میں ایسی خوف ناک نفرت سے سامنا کرایا ہے، جو ہرگز بدی کی کسی ماورائی علامت سے جنم نہیں لیتی، بلکہ اس کی تشکیل نفرت انگیز زمینی حقائق کرتے ہیں۔ اسے ڈیورنڈ لائن کی تاریخی علامت کے تناظر میں دیکھیں تو افغان قبائل نے جو مسلسل مزاحمت برطانوی کالونیلز کی در اندازیوں اور مداخلتوں کے سامنے کی، وہی مزاحمت انھوں نے پوسٹ کالونیل دور میں سرحد پار سے ہونے والی مداخلتوں کے جواب میں بھی کی، اور اس نفرت کو اسی مزاحمت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر پروپیگنڈا مسلسل اور طاقت ور ہو تو فیض اللہ بھی ’’ہم نے آپ کو مہمان کا درجہ دیا‘‘ (صفحہ 208) والے مقبول ڈسکورس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی پہلے آپ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کے ساتھ گھستے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کے پرامن شہری بے گھر ہوتے ہیں اور مہاجرین (جدید دنیا کی ایک نئی اچھوت برادری) بن جاتے ہیں، اور پھر انھیں سہولیات سے محروم جھونپڑیوں کے شہر میں بھیڑ بکریوں کی طرح بسا کر خود کو ’’عظیم مہمان نواز‘‘ کا خطاب دے دیتے ہیں۔

    فیض اللہ نے بہت معصومیت کے ساتھ اپنے بھی دو دل چسپ ڈسکورسز تشکیل دیے ہیں، جن سے عام افغان باشندے کی نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی طرز عمل سے متعلق بھی ایک مخصوص سوچ کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔ یعنی مصنف کی تحریر سے عندیہ ملتا ہے کہ افغان سے متعلق ایک خاص رائے قائم کی جائے۔ ان میں سے پہلا ڈسکورس دیکھیں: ’’افغان شک کی بنیاد پر کوئی بھی الزام لگا کر حتمی سمجھتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 114)۔ دراصل یہ واقعہ اس وقت کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ سے متعلق ہے، جس کے بارے میں افغان قیدیوں کا کہنا تھا کہ اس نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے ایسا کوئی معاہدہ کیا تھا یا نہیں، عام شہری ہمیشہ سیاست دانوں کے حوالے سے اس قسم کے اندھا دھند یقین کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو کسی سیاست دان کے یہودی ایجنٹ ہونے اور کسی کے بھارتی ایجنٹ ہونے کا ’’یقین‘‘ لاحق رہا ہے، اور جو ان دو ممالک کا نہیں، وہ امریکی ایجنٹ تو ہوتا ہی ہے، جماعت اسلامی تو امریکی ڈالروں کے حوالے سے مخالفین میں بہت بدنام رہی ہے۔ لیکن بے خبر رکھے گئے عوام کا یہ عمومی رویہ اگر مخصوص قوم کی خصوصیت بنا کر پیش کیا جائے تو اسے کلامیہ (ڈسکورس) سازی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    دوسرا دل چسپ ڈسکورس اس طرح تشکیل پاتا ہے: ’’افغان انرجی ڈرنک کے دیوانے ہیں۔‘‘ (صفحہ 117)۔ اس طرح کے بیانات میں امر واقعہ کا انکار ممکن نہیں ہوتا، لیکن جملے کا معنیٰ بہ ظاہر اتنا ہی نہیں ہوتا۔ ڈسکورسز کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ یہ طاقت اور سیاسی معنی سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ وقت پڑنے پر آسانی سے اپنا رنگ اور اپنی صورت بدل لیتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی طاقت اور سیاسی صورت حال بدلتی ہے، ڈسکورس والی نام نہاد حقیقت بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ افغان اگر انرجی ڈرنک کے ’’دیوانے‘‘ ہیں تو اسے افغانستان میں طویل غیر ملکی مداخلتوں (بالخصوص امریکی) کے تناظر سے ہٹ کر دیکھنا منصفانہ اظہار نہیں ہے۔ اسی طرح تو افغان ڈالر کے بھی دیوانے ہیں لیکن اس کا ’’امریکی استعماری‘‘ تناظر کتنا شرم ناک اور ہول ناک ہے۔ اس طرح کے ڈسکورسز ایک قوم کو ایک خاص رنگ اور ڈھنگ میں پیش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ایک خاص تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔
    یہ کتاب اگرچہ ایک اچھی دستاویز کی طرح ہے تاہم افغان سماج کا تجزیہ ایک زیادہ غیر جانب دار رویے کا طالب ہے۔ اوپر صفحہ 185 کا جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد افغان میڈیا میں پاکستان کی مخالفت کا خصوصی ذکر موجود ہے لیکن جس سماجی تجزیے کی ضرورت تھی وہ موجود نہیں۔ مثال کے طورر پر اس اقتباس سے قبل سرمایہ کاری (بالخصوص انفراسٹرکچر میں) کے حوالے سے بھارت افغانستان دو طرفہ تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک اچھا سماجی تجزیہ کار یہ بنیادی سوال اٹھائے گا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی قربت اور اشتراک کے باوجود اس سرمایہ کاری کی طرف پاکستان نہیں گیا؟ افغانستان صرف ڈیورنڈ لائن ہی پر نہیں، ملک کے اندر مداخلت پر بھی شاکی رہا ہے۔ طویل عرصے تک اس مداخلت کے باوجود پاکستان کا یہ کردار افغانستان کے اندر تعمیر و ترقی کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اس تجزیے کی عدم موجودی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افغان میڈیا کا یہ پاکستان مخالف رویہ کسی پراسرار قوت کے طابع ہو۔ حالاں کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر چودہ اگست کو یہ میڈیا پاکستان کے حوالے سے کوئی خبر نہیں چلاتا اور پندرہ کو ہندوستان کی آزادی پر خصوصی نشریات ترتیب دیتا ہے تو اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کا کاروباری اور سرمایہ کاری پارٹنر ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے وہاں کس چیز میں سرمایہ کاری کی ہے؟

    میرا خیال ہے کہ یہ کتاب اپنے زبردست متن کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ ویلیو رکھتی ہے، جیسا کہ فیض االلہ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کو پہلے انگریزی میں چھپوائیں، میں اس مشورے سے خود کو متفق پاتا ہوں۔ تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں آنے والی کتابوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں زبردست طور سے ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے، تاکہ ایک طرف زبان اور اس کے گرائمر کے حوالے سے ان میں سقم نہ رہے، دوسری طرف متن کو اتنا چست کیا جا سکے کہ اس میں کوئی جملہ یا پیراگراف اضافی محسوس نہ ہو، اور کوئی واقعہ ایسا نہ لگے کہ اسے زبردستی بٹھایا گیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا قیدی میں ایڈیٹنگ کی بہت زیادہ ضرورت ہے، ایک طرف اگر کاما اور ڈیش کا عدم استعمال پریشان کرتا ہے، تو دوسری طرف ان کا غلط استعمال تقریباً ہر صفحے پر ملتا ہے۔ مندرجہ بالا ان تمام خامیوں کے باوجود یہ ایک اچھی دستاویز ہے، جس میں کچھ دل چسپ حقائق ایسے بھی ملتے ہیں، جنھیں ہم سامراجی رویوں کے نتائج کے تاریخی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں۔ صفحہ 160 پر لکھا گیا ہے کہ ابو بکر البغدادی نے علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو جن عراقی فورسز پر امریکا نے اربوں ڈالرز لگائے تھے، انھوں نے کوئی مزاحمت کیے بغیر علاقے چھوڑ دیے۔ اب حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی باز آمد پر اسی تاریخ نے خود کو دہرایا۔

    جو بائیڈن کے زیر صدارت جب امریکا نے آخرکار افغانستان سے نکلنے کے فیصلے کو اگست 2021 میں عملی صورت دے دی تو یہ بات میڈیا میں اس طرح بریکٹ نہیں ہوئی، جس طرح فیض اللہ خان نے القاعدہ کی خراسان شاخ کی شوریٰ کے ایک رکن شیخ جعفر کے انٹرویو کے ذریعے واضح کی، کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا سے کئی سال قبل القاعدہ کی تمام عسکری اور فکری قیادت افغانستان سے نکل کر عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور الجزائر جیسے ممالک میں منتقل ہو چکی تھی (صفحہ 144)۔

    یہ کتاب اپنے مواد میں بے حد اہم ہے، اور فیض اللہ کا طرز تحریر کافی دل چسپ ہے، یعنی کتاب خود کو آخر تک پڑھواتی ہے۔

  • ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    بات تلخ ہے لیکن اس تلخیوں بھرے معاشرے کی حقیقت ہے۔ لوگ شاید یہ سوچتے ہوں کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا سچ میں وہ نائیک کو سننے کے لیے انھیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟

    سوشل میڈیا پر میں نے 100 کے قریب پوسٹوں کا بہ غور مطالعہ کیا۔ مجھے یہ نتیجہ ملا کہ وہ انھیں سننا نہیں چاہتے، بلکہ ان کے ذریعے اپنے عقائد کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مخالف عقائد کا ابطال ہو، ان کی تذلیل ہو۔ جو مخالف عقائد والے ان کی آمد کے خلاف ہیں، وہ انھیں اس لیے نہیں مسترد کر رہے ہیں کہ وہ ان کے عقائد کو کسی نئی اور بڑی دلیل کے ساتھ غلط قرار دیں گے۔ بلکہ اس لیے کہ ان کی آمد سے مقامی سطح پر جاری مسلکی چپقلش کو مزید ہوا ملے گی، اور ان کی تذلیل کا نیا موقع تخلیق ہوگا۔

    ہر دو طرف کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ نائیک کے پاس کوئی نئی دلیل نہیں ہے۔ وہ در حقیقت دلیل کا آدمی ہے ہی نہیں، وہ حوالہ جات کا آدمی ہے۔ اس لیے جہاں دلیل ’تخلیق‘ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں حوالہ غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ایسے کئی معاملات ہیں جہاں ذاکر نائیک کے غیر متعلقہ حوالہ جات مضحکہ خیز حد تک صورت حال کو خراب کر دیتے ہیں، اور مذہبی منافرت کو ہوا ملتی ہے۔

    اب اس سارے پس منظر کو دیکھیں تو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے۔ یہ افراد اپنی دینی تربیت میں تو جیسے ہوں گے، ہوں گے؛ ان کی ثقافتی تربیت نہیں ہو سکی ہے۔ جدید دنیا میں ملازمین کو ثقافتی آگاہی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ثقافت اور سوچ اور فکر والے افراد کے ساتھ بہتر طور پر کام کر سکیں اور کام کے حوالے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں۔

    طلبہ کی ثقافتی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ نسل، جنس، مذہب، فکر اور رائے کے اختلاف کی نوعیت سمجھتے ہوئے، مل کر درپیش چینلجز سے نمٹنا سیکھ سکیں۔ ذاکر نائیک کی آمد کا مذکورہ تنازعہ اکثر تنازعات کی طرح ثقافتی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک دوسرے کے عقائد اور رائے اور خیالات کو بے رحمی سے مسترد کرنا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ مہمان کی آمد کے ساتھ اس بے رحمی میں اضافے کا بھرپور خدشہ ہے۔
    ثقافتی تربیت کی عدم موجودی کے باعث انسان کے سماجی رویوں میں بہتری اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور اس تربیت کی مدد سے مختلف لوگوں کے متنوع نقطہ نظر اور پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ان کو سراہنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ غلط فہمیوں کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔

    ایک فریق اور بھی ہے، جو مذہب بے زار ہے، جس کی رائے ہے کہ ذاکر نائیک جیسے مہمان اس ملک سے دور رہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا انھیں پاکستان آنا چاہیے؟ وہ نائن الیون کے بعد امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور برطانیہ کے دورے کر چکے ہیں۔ پانچ اور دس سالہ ویزے ملے انھیں۔ 2006 میں ویلز میں بھی ایک قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نے ان کی آمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پھر یہ تسلیم کیا گیا کہ ذاکر نائیک مذاہب کے درمیان مماثلت پر بات کرتے ہیں اور غیر متنازعہ افراد میں سے ایک ہیں۔ کسی بھی شخص پر صرف اس لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ اس کی رائے دوسرے لوگوں کو ناگوار لگتی ہے۔ اب برطانیہ اور کینیڈا میں مخصوص گروپس کے دباؤ کی وجہ سے ان پر پابندی عائد ہے۔

    اس قضیے کا ایک اہم ترین سوال سیاسی ہے۔ اگلے مہینے کے ابتدائی ہفتے میں ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کا دورہ پاکستان متوقع ہے، اور انھی دنوں ملائیشیا ہی میں مقیم ذاکر نائیک بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ یہ سیاسی گٹھ جوڑ ہی اس قضیے کا بڑا سوال ہے۔ اسے اس پسِ منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں نائیک کو ملائیشیا میں بہت اثر و رسوخ حاصل ہوا ہے، کچھ لوگ اگر ان کی موجودی کو مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث سمجھتے ہیں تو کچھ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملائی مسلم برتری کے کمپلیکس میں اضافہ کیا ہے۔ یوں اگر اعلان نہ بھی کیا جاتا ہے تو انھیں پاکستان میں ایک اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت حاصل ہوگی۔

    یہاں مختلف عقائد کے افراد سوشل میڈیا پر نائیک کے آنے پر لڑ رہے ہیں، بہ ظاہر یہ اختلاف اور لڑائی سادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائیک کی آمد کا تمام قضیہ ہی ایک ڈسکورس ہے۔ جس میں ایک بار پھر سیاست اور مذہب بغل گیر ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور‌ خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)
  • ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر اردو تراجم کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ایسی آرا سامنے آتی رہی ہیں کہ ایک تاثر تشکیل پاتا ہے جیسے اردو ترجمہ پڑھنا بہ ذات خود ایک کم تر اور پست ذہن کا کام ہو۔ کچھ لوگ انگریزی زیادہ اچھے سے پڑھ لیتے ہیں اور وہ ایک ادائے دل بری سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو براہ راست انگریزی ہی میں کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں (جیسے اردو ترجمہ پڑھنا ایسا ہو جیسے ہماری زبان میں کچھ پیشوں اور کچھ ذاتوں کو ’نیچ‘ کے درجے پر رکھ دیا گیا ہے)۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ جو انگریزی کتاب وہ پڑھ رہے ہیں، وہ انگریزی میں نہیں لکھی گئی، بلکہ خود کسی دوسری زبان سے کیا گیا ترجمہ ہے۔ یعنی مسئلہ ترجمہ نہیں ہوتا، بلکہ انگریزی زبان سے جڑی ’برتری‘ کی غیر منطقی سوچ ہوتی ہے۔ جس نے نفسیات میں گھر کر لیا ہے۔ یہ پوسٹ کولونیل دور کی ایک حقیقت ہے۔ اور قابل ہم دردی بھی۔

    اردو ترجمے سے متعلق عام طور سے ترجمے کے کئی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ مجھے ان میں سے کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، میں ان میں دو مزید اہم نکتے شامل کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اسے عام قارئین کے لیے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہو، کیوں کہ اس قسم کی باتیں مخصوص اصطلاحات میں کی جاتی ہیں، تاکہ طویل وضاحتی اقتباسات سے بچا جا سکے، ورنہ ایک ہی بات کے متعدد پہلوؤں کو تفصیلاً بیان کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ میری بات سہولت سے سمجھ میں آ سکے۔

    ثقافتی ڈسکورس (کلامیہ): تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ یعنی جس زبان میں ادب لکھا گیا ہے، وہ زبان جس معاشرے میں بولی جاتی ہے، اس معاشرے میں وہ زبان کس طرح اور کیوں معنی سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک عام جملہ گرائمر کے اصولوں کی پیروی کرتا ہے، لیکن ایک ڈسکورس جملے اور جملوں کے درمیان ربط سے پیدا ہونے والا ایک نیا معنیٰ ہے، جو زیادہ تر سیاسی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی کالونی کے طور پر برصغیر سے متعلق یہ جملہ بہت عام رہا ہے، اور لوگ اسے اپنے مضامین میں کوٹ کرتے رہے ہیں: ’’برصغیر کے عوام ثقافتی اور علمی طور پر پس ماندہ ہیں۔‘‘ اپنے ظاہری معنی میں یہ ایک عام سا جملہ تھا لیکن دراصل یہ کالونیل دور کے ’’آقاؤں‘‘ کا انھیں ’’تہذیب یافتہ‘‘ کرنے کا حیلہ تھا۔ اسی سے جڑا ہوا ایک جملہ اب بھی عام ہے، ’’برصغیر کے عوام آج تک ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکے‘‘ یہ بھی اپنے ظاہری معنی سے کہیں زیادہ معنی اور سیاسی معنی کا حامل جملہ ہے۔ اس کے ذریعے آج کے پوسٹ کالونیل دور کے ’’آقا‘‘ ان افراد پر حملہ کرتے ہیں جو ’’مقامی سامراج‘‘ کو بے نقاب کرتے ہیں اور وہ جواب میں انھیں کبھی ’’مغرب کے پروردہ‘‘ کبھی وطن اور کبھی دین کے ’’غدار‘‘ قرار دیتے ہیں۔

    کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے معاشرے کے لوگوں کی سوچ کتنی تہہ دار ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے رہنما اصول کس گہرائی کے ساتھ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔

    معنی کا فہم: مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟

    یعنی مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے، تو محض اس کا قاموسی معنیٰ (لغت/ڈکشنری) ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزا محسوس ہوتے ہیں۔ اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    لغت میں مترجم کو متبادل لفظ تو مل جائے گا، لیکن جیسا کہ ساختیات بتاتی ہے کہ معنیٰ کا بھی معنیٰ ہوتا ہے، اگر اس معنی کا فہم حاصل نہیں ہو سکا ہے تو ترجمے کے عمل میں ثقافتی صورت حال ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے۔ ایک عام سے جملے کا ایک عام سا ترجمہ ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اس جملے کا ایک معنیٰ تہذیبی اور سیاسی تناظر میں بھی تشکیل پاتا ہے، اس معنی تک پہنچنے کے لیے مترجم کو ڈسکورس کے جدید لسانیاتی اور فلسفیانہ تصور سے شناسائی مددگار ہوتی ہے۔

    اوپر میں نے زبان کے محاسن کی بات کی ہے، اس کا اشارہ کلام کے محاسن کی طرف تھا۔ ہم اپنی گفتگوؤں اور تحاریر میں عموماً اپنے آئیڈیاز پیش کیا کرتے ہیں۔ ادب میں ہم اس مقصد کے لیے کلام کے محاسن سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اپنے بیان میں معنی کی ایک سے زائد پرتیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان ایک سے زائد اور مختلف پرتوں تک رسائی ترجمے کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اکثر اسی سبب ترجمہ ناقص قرار پاتا ہے، یا مترجم خود کو ایک مشکل صورت حال میں گرفتار پاتا ہے۔

    معنی کے فہم کے سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ تراجم کے ضمن میں عموماً یہ مذکور کیا جاتا ہے کہ معنیٰ ثقافتی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ اس بات کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ مترجم کے پاس ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے رشتہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ترجمے کے اندر بھی معنی سازی کا عمل متن کی زبان کے اپنے ثقافتی تناظر میں آگے بڑھتا ہے۔ یعنی ترجمہ اگر کسی فکشن کے متن کا ہے تو صرف کہانی ہی منتقل نہیں ہوتی، اس میں موجود ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظریات کا ایک پیکج بھی ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ مترجم اگر ثقافتی یا تہذیبی تصادم جیسے کسی نظریے پر یقین رکھتا ہو، تو اصل میں وہ نقب زن ہے مترجم نہیں۔ اپنے تصادمی سوچ کے باوجود وہ دوسری زبان کے متون میں دل چسپی لے رہا ہے لیکن ترجمے کے عمل میں اسے پورا پیکج قبول نہیں۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک طرف اگر وہ اُس متن کے معنی کے پیکج کو مسترد کرتا ہے تو دوسری طرف عین استرداد کے اُسی لمحے میں وہ معنی کے اس نظام کو منہدم کر کے اپنی پسند کی معنویت تشکیل دے دیتا ہے۔ یعنی معنی کے ایک نظام کا انہدام از خود ایک اور نظام کی تشکیل کے مترادف ہوتا ہے۔ اس طرح تصادمی سوچ ترجمے کے عمل کو مہملیت کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس عمل میں موجود ایک حماقت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے جو ترجمے کے میدان کو تہذیبوں کے تصادم کا میدان سمجھ کر کارفرما ہوتی ہے۔

    اس تمام قضیے کی جو بنیادی الجھن ہے وہ اس سوال کی صورت میں ہے کہ جس زبان کے متن کا ترجمہ ہدف ہے، کیا وہ برتر زبان ہے؟ کیا ترجمہ اس کے آگے محض حاشیائی اہمیت کا حامل ہے؟ میں نے اس پر ڈی کنسٹرکشن کو متعارف کرانے والے فلسفی ژاک دریدا کی فکر کے تناظر میں جتنا غور کیا ہے، اس کی جڑیں میں نے کسی زبان میں مسلسل آنے والی تبدیلی و ترقی کے عمل میں پیوست پائی ہیں۔ کوئی بھی متبادل لفظ ترجمے کی زبان ہی کا لفظ ہونا چاہیے، اس یونیورسل رعایت کے ساتھ کہ زبانیں مشترک الفاظ کا ایک ذخیرہ بھی رکھتی ہیں۔ زبان کو ایک اصطلاح کی منتقلی کے دوران خود کو وسعت آشنا بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ جاپانی پروفیسر کے ساتھ ژاک دریدا کی خط و کتابت میں "ڈی کنسٹرکشن” کے جاپانی متبادل پر گفتگو ہوئی اور خود انگریزی و فرانسیسی میں اس اصطلاح کے اندر موجود پیچیدگی زیر بحث آئی، لیکن دریدا کا مؤقف تھا کہ اس کا جاپانی متبادل جاپانی زبان کے اپنے پس منظر میں ہونا چاہیے۔ ایک زبان دوسری پر تسلط قائم نہیں کر سکتی۔ ایک اصطلاح کے لیے دوسری زبان میں موزوں متبادل کی تلاش کی یہ کوشش اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ زبان کے ماہرین کے درمیان یہ معمول کی ایک سرگرمی ہے۔ زبان میں اگر ترقی کا عمل جاری ہے تو وہ دیگر زبانوں کے ثقافتی پیکجز سے نہ تو گبھراتی ہے نہ اس کے آگے خود کو اس کا "دوسرا” محسوس کرتی ہے۔

  • ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    تاریخ ایک ایسی شے ہے جس کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ لوگ اس سے سبق لیتے ہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟ ایسا کون سا نمایاں سبق ہے جو گزشتہ پانچ سو سالوں سے نہایت تیزی سے ترقی کرتے انسان نے تاریخ سے حاصل کیا ہے، اور اسے مد نظر بھی رکھا؟

    تاریخ ایک ایسا اندھیرا ہے جس میں چلنے والی گولی کے بارے میں کبھی پتا نہیں چلتا کہ ٹریگر دبانے والا کون تھا! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کے صفحے پر جا بہ جا روشنی کے دائرے بنے نظر آتے ہیں لیکن ان روشن دائروں کے آس پاس ایسے ان گنت دائرے بھی بنے ہوئے ہیں جو تیز روشنیوں میں دکھائی نہیں دیتے، یہی تاریخ کے صفحے کے وہ اندھیرے دائرے ہیں جن میں رونما ہونے والے درد ناک واقعات صدیوں سے سسک رہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا، محض چند عشروں کی سیاہی کے آگے بھی یہ ’سچ سنانے کی ہمت‘ جٹا نہیں پائے۔ ایسے واقعات میں ایک واقعہ 14 سالہ ننھے جاں باز اقبال مسیح کا بھی ہے، جس کا سینہ منھ اندھیرے رائفل سے داغ دیا گیا۔ بندوق کی دھمک تھی یا ایک روشن روح پر اندھیرے شیطان کا بھیانک حملہ، کہ پیچھے کھڑی پرانی سی سائیکل لرز کر مٹی پر گر پڑی۔

    قصہ ایک ڈاکیومنٹری کا

    راوا (Rava) ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے ایسے گوشے ’بے نقاب‘ کیے جا رہے ہیں، جو اپنے وقت پر تو اخبار کی محض ایک سُرخی بن کر رہ گئے تھے، تاہم کہیں پر ان روشن اور کہیں پر ان تاریک دائروں میں بہت سارا ’سچ‘ یا تو ہمیشہ کے لیے دب گیا، یا اس طرح لوگوں کے سامنے ابھر کر نہ آ سکا، جس طرح آنا چاہیے تھا۔ راوا فلمز نے یہ کہانیاں تاریخ کی مٹی کھود کر نکالیں اور انھیں اسکرین کی زینت بنا دیا۔ دل چسپ امر یہ ہے ایک طرف جب کہ پاکستان میں سنیما انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، دوسری طرف راوا فلمز کے تحت بننے والی ڈاکیومنٹری فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما اسکریننگ ہو رہی ہے؛ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور جرات مندانہ قدم ہے۔ راوا نے اپنا مشن بنایا ہوا ہے کہ پاکستان میں اس ژانرا کو فروغ ملے، اسی لیے تواتر کے ساتھ نہایت منفرد موضوعات پر ڈاکیومنٹریز بنائی جا رہی ہیں۔

    راوا نے اپنے یو ٹیوب چینل پر جو تازہ ترین ڈاکیومنٹری جاری کی ہے، اس کا عنوان ہے: ’’قتل معصوم _ اقبال مسیح _ ننھا جاں باز‘‘ جس کی اسکریننگ حسبِ سابق طارق روڈ پر واقع ارینا سنیما میں کی گئی۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟یہ ڈاکیومنٹری سید عاطف علی نے بنائی ہے، ڈراما انڈسٹری میں اپنا آخری ڈراما ’خان‘ بنانے کے بعد انھوں نے اگلے پڑاؤ کی طرف سفر شروع کیا، انھوں نے فلمیں ’پری‘ (2018) اور ’پیچھے تو دیکھو‘ (2022) بنائیں، اور اب راوا ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت انھیں ’فری ہینڈ‘ مل گیا ہے کہ وہ جس موضوع پر چاہے ڈاکیومنٹری بنا لیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈراما ہو یا فلم میکنگ، ناظرین کو نئے تجربات سے روشناس کرایا جائے، انھیں سماج کے ایسے گوشوں اور ایسے تصورات سے متعارف کرایا جائے جو انھیں کچھ نیا سوچنے پر مائل کر سکے، چناں چہ انھوں نے سرپھری عشق کے نام سے بھی ایسا ہی ایک ڈراما بنایا تھا جو محرم پر ہم ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا۔ اب انھوں نے ڈاکیومنٹریز کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جو مختلف رنگوں کے ان گنت شیڈز سے بھری ہوئی ہے۔ راوا کے روح رواں سابق بریگیڈیئر طارق رفیق کے ساتھ مل کر عاطف علی نے متعدد ڈاکیومنٹریز ’تخلیق‘ کی ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین تخلیق ایک ایسے 14 سالہ بچے کی کہانی ہے جس نے پاکستان میں ’بونڈڈ لیبر‘ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک کہانی جو درد بھری ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر دیتی ہے۔ اس کا اسکرین پلے بھی سید عاطف علی نے بلال حسین کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔

    فیکٹری میں بچے گروی رکھیں

    آج جب کہ پاکستان کے جدید شہروں بلکہ دیہات تک میں بھی کوئی اس بات کو سوچ نہیں سکتا کہ ننھے بچوں کو گروی رکھ کر بھی سرمایہ داروں سے قرض کا حصول کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود یہ قبیح حمل کہیں نہ کہیں جاری ہے۔ یہ مزدوری کی ایک نہایت غلیظ شکل تھی جس میں ایک شخص کارخانہ دار سے قرض لیتا اور اسے چکانے کے لیے پھر اپنے بچے بہ طور مزدور گروی رکھ کر لگوا دیتا۔ یہ بچے اپنے باپ کے لیے گئے قرض کی رقم اپنی محنت سے چکاتے۔ اسے ’بونڈڈ چائلڈ لیبر‘ کہا جاتا ہے، جو زیادہ تر ملک میں قالین بافی کی صنعت میں رائج تھی۔ اس نے ہزاروں بچوں سے ان کی معصومیت چھینی، کھیلنے کودنے کے دن چھین کر ان پر گھر کا قرض چکانے کا سنگین ترین بار ڈالا۔ پاکستان میں بننے والے قالین بیرون ملک جاتے تھے اور ملکی برآمدات کا یہ ایک اہم ذریعہ تھا، ایک ایسا ذریعہ جس میں مصنوعات بچوں کے خون سے رنگ تھیں۔
    خون کا یہی رنگ دکھانے کے لیے سید عاطف علی اور راوا فلمز نے ’’اقبال مسیح‘‘ کے نام سے یہ ڈاکیومنٹری بنائی ہے۔

    اقبال مسیح سے ملیے!

    16 اپریل 1995 ک شام تھی جب رکھ باؤلی کے اطراف کھیتوں میں دو فائر گونجے اور ایک چودہ سالہ بچے کی لاش مٹی پر گر گئی۔ یہ ضلع شیخوپورہ کے قصبے مریدکے کے گاؤں رکھ باؤلی کا قصہ ہے جہاں 1983 میں اقبال مسیح پیدا ہوا تھا۔ اس کے بڑے بھائی کی شادی پر والد نے ارشد نامی ایک قالین باف سے قرض لیا اور پھر ادائیگی نہ کر سکنے پر اقبال کو محض 4 سال کی عمر میں اس کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور وہ اس طرح دن میں چودہ گھنٹے قالین بنانے کے کام پر لگ گیا لیکن وہ قرض کبھی ادا نہ ہوا۔ دس سال کی عمر میں وہ ایک دن آخر کار غلامی کا یہ پھٹہ اتار کر بھاگ گیا لیکن نو آبادیاتی نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے مامور پولیس نے اسے پکڑ کر پھر کارخانے دار کے حوالے کر دیا۔ بھاگنے کی کوششوں میں آخرکار ایک دن وہ کامیاب ہو گیا، اور چائلڈ لیبر کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کے پاس جا پہنچا، جس کا نام تھا ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘ (بی ایل ایل ایف)۔ یہ تنظیم اس دکھ بھری کتھا کا ایک اہم حصہ ہے اور خود اس پر بھی الزام ہے کہ اس درد بھری کہانی کو جنم دینے میں اس کا بھی کوئی ’نادیدہ کردار‘ ہے۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟

    گیارہ سال کی عمر میں بھی 4 فٹ سے کم قد والے اقبال مسیح کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی، اور چہرے مہرے کے ایسے نقوش تھے کہ جبری مشقت کے شکار بچوں کے لیے جب وہ تحریک کا حصہ بنا تو جس طرح جنگل میں آگ پھیلتی ہے، اسی طرح اس کی شہرت پاکستان سے نکل کر عالمی سطح پر پہنچ گئی۔ اسے عالمی سطح پر زندگی میں اور بعد از مرگ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جس دن اس کی ننھی زندگی کا چراغ گُل کر دیا گیا، وہ دن پاکستان میں قالین سازی پر بہت بھاری پڑا، اور دنیا نے جلد ہی پاکستانی قالین قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اس میں معصوم بچوں کے ارمانوں اور ان کے مستقبل کا خون شامل ہے۔

    اقبال مسیح کو کس نے مارا؟

    یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں جتنی بھی کوششیں کی گئیں، بار آور نہ ہو سکیں۔ عالمی دباؤ اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی خصوصی ہدایات کے باوجود ایک دن اس کیس کو ہمیشہ کے لیے فائلوں میں بند کر دیا گیا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جس ملک میں لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا آج تک کوئی تعین نہیں ہو سکا، تو وہاں اقبال مسیح کے قاتل کیسے پکڑے جائیں گے۔ لیکن راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے اس موضوع کو ایک بار پھر بند فائلوں کی گرد جھاڑ کر باہر نکال لیا ہے۔ اور سید عاطف علی نے اپنی فلم میکنگ اور ہدایت کاری کے شان دار ہنر کو بروئے کار لا کر اتنی خوب صورتی سے اسے ’تخلیق‘ کی سطح پر لا کر پیش کیا ہے کہ دیکھنے والا آخری لمحے تک یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کوئی فیچر فلم نہیں ایک سچی کہانی ایک ڈاکیومنٹری دیکھ رہا ہے، جس میں کوئی فکشن نہیں ہے جو اسے حقیقت کی دنیا سے دور لے جا کر مبہوت کر دینے والے مناظر میں گم کر دے۔ فلم اور ڈرامے کے معروف نقاد حنیف سحر نے اس ڈاکیومنٹری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’راوا ڈاکیو منٹریز میں مسلسل نکھار آ رہا ہے، ہر نئی ڈاکیومنٹری پہلے سے زیادہ مستند اور سنیما ٹوگرافی کے کمالات کے اضافے کا ایک اطلاع نامہ ثابت ہو رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا ’’پہلی بار ایسا معلوم ہوا کہ عاطف علی نے اپنے ڈرامے کے تجربے کو بہت ہی مہین اور خاموش پیرائے میں نفاست سے استعمال کیا، وہ بھی ایسے کہ احساسات درہم برہم ہوئے اور پتا بھی نہیں چلا کہ آپ ڈراما نہیں بلکہ ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    آپ ڈاکیومنٹری دیکھ لیتے ہیں اور سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اقبال مسیح کو کس نے مارا؟ اور ایک ضمنی سوال یہ بھی کہ گولی کس نے چلائی تھی؟ اس بات سے یہ غلط فہمی نہ ابھرے کہ اگر جواب فراہم نہیں ہوا تو اس ڈاکیومنٹری کا مقصد کیا تھا۔ مقصد تو بہت واضح ہے کہ تاریخ کے ایک تاریک دائرے میں چھپے اس دردناک کہانی کے ’سچ‘ کی تلاش میں جنھوں نے امیدیں تج دی تھیں، اور تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، انھیں پھر چونکایا جا سکے کہ ان پر ایک قرض یہ بھی ہے کہ وہ اقبال مسیح کے قاتلوں کا پتا چلائیں۔

    ڈاکیومنٹری پر سوال

    راوا کی اس خوب صورت پیش کش میں سنیماٹوگرافی، ویژولز اور ایڈیٹنگ کا بہترین کام کیا گیا ہے۔ بالخصوص کرائم سین کی پیش کش بے حد عمدہ ہے۔ ساؤنڈ ایفکٹس میں بھی کوئی خامی نہیں رہنے دی گئی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ ہم کوئی عالمی معیار کی ڈاکیومنٹری نہیں دیکھ رہے ہیں، محدود وسائل میں، بلاشبہ، یہ ایک عالمی معیار کی پیش کش ہے۔

    لیکن اس ڈاکومنٹری کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کی کہانی/اسکرین پلے میں ایک اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہ طور ریسرچر فہمیدہ یوسفی اور بلال حسین نے اس قصے کے اہم پہلوؤں کو جمع کیا، لیکن بہ طور حساس رائٹر شاید عاطف علی سے بونڈڈ چائلڈ لیبر کا یہ سماجی ثقافتی پہلو نظر انداز ہو گیا کہ ایک خاندان کس طرح اپنے قرضوں کا بوجھ ایک معصوم چار سالہ بچے پر لاد سکتا ہے؟ چناں چہ، اس پیش کش میں ہمیں اقبال مسیح کے بھائیوں کی مظلومیت پوری طرح دکھائی دیتی ہے لیکن ان سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ ایک بڑے بھائی کی شادی کا قرضہ ایک معصوم بچے کے خون سے ادا کرنے کے لیے انھوں نے رضا مندی کیسے دکھائی؟ ایک غریب ہمیشہ خود کو غریب کہلوا کر بڑے سے بڑے سماجی اور اخلاقی جرائم کی ذمہ داری سے خود کو بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ یہی ایک موقع تھا جب انھیں اس کڑے سوال کا سامنا ضرور کرنا تھا۔

    یہ ڈاکیومنٹری اپنے آغاز ہی سے ناظرین کو پوری طرح جکڑنے کی خاصیت رکھتی ہے۔ اس میں جذبات اور رشتوں اور سیاسی سفاکیوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس لیے بلاشبہ یہ سید عاطف علی کی اب تک بہترین کاوش ہے۔ لیکن اپنے مواد (کونٹینٹ) کے اعتبار سے اس میں ایک چونکانے والا موقع وہاں آتا ہے جب اچانک ڈاکیومنٹری کی فضا بدل جاتی ہے اور ایک مجرم ہونے کا سارا فوکس این جی او ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘کے سربراہ احسان اللہ خان پر آ جاتا ہے۔ یہ اتنی چابک دستی سے ہوتا ہے کہ ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا یہی اس ڈاکیومنٹری کا مقصد ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کے اسٹائل پر اچانک مرکوز ہوتی یہ توجہ آخر کار دھیرے دھیرے تحلیل ہونے لگتی ہے لیکن ذہن میں اپنے پیچھے دھوئیں کی ایک لکیر ضرور چھوڑ جاتی ہے۔

    اور اختتام پر پہنچنے کے بعد ایک ہی سوال ذہن میں رہ جاتا ہے، ایک دکھ بھرا سوال ۔۔۔۔ کیا اس معصوم بچے کے قاتل کا کبھی پتا نہیں چل پائے گا؟ یہ تو ایک اور دھبّا ہوگا جو یہاں کی ۔۔۔۔ ہمارے پاکستان کی ’’مقامی انسانیت‘‘ کو مزید داغ دار کرے گا۔ بلاشبہ جس انسانیت کا معیار دنیا میں اب رائج ہے، ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں۔ ہمارے لیے اب بھی دنیا ہمارے نو آبادیاتی سماج میں سمٹی ہوئی ہے جہاں اقبال مسیح کی موت ایک غریب بچے کی موت ہے، ایسی موت جو یہاں روز کسی نہ کسی بہانے واقع ہوتی رہتی ہے۔۔۔ اور اربابِ اختیار کہہ دیتے ہیں اقبال مسیح مر گیا، تو کیا ہوا، اسے مرنا ہی تھا، اب دوسری دنیا میں سکون سے جی رہا ہوگا!