Tag: رفیع اللہ میاں کا ناول

  • دو سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا نے چراغ کے جن سے کہا کہ اتنا سب کچھ ایک اشارے میں حاضر کر دیا لیکن اس دسترخوان پر کوئی ایک کانٹا یا چمچ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حکیم نے دانت نکال کر جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں اردن میں چمچے کانٹے استعمال نہیں ہوتے، لوگ انگلیاں ہی استعمال کرتے ہیں، اس لیے اب چپ چاپ کھا لو۔ دانیال مسکرایا میں اور جبران تو اس کے عادی ہیں، اس لیے ہمیں انگلیوں سے کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کے بعد تینوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کھانا ٹھونسا، کیوں کہ کھانے کے بعد جبران اڑن قالین پر ہاتھ اور ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا، اس کا پیٹ پوری طرح پھول گیا تھا۔ فیونا اور دانیال کا بھی یہی حال ہو رہا تھا، فیونا نے اگرچہ کچھ کہا نہیں لیکن کراہتے ہوئے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور پیر پھیلا دیے۔
    پھر حکیم نے تالی بجائی اور سب کچھ غائب ہو گیا۔ حکیم ان تینوں کو خوش دیکھ کر مسکرایا، اور جیب سے نکال کر انھیں الگ الگ قیمتی تحفے بھی دے دیے۔ جبران کو اس نے ایک سکہ دیتے ہوئے کہا یہ نوجوانی سے میرے پاس ہے اور یہ خوش قسمتی کا سکہ ہے، تم جب بھی اسے ہاتھ میں پکڑو مجھے یاد کر لینا۔ دانیال نے کہا آپ نے ہمیں ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آپ کو چراغ میں کیوں ڈال دیا گیا تھا، کیا آپ نے کسی کو قتل کیا تھا۔
    حکیم نے بتایا: ’’اگر تم واقعی جاننا چاہتے ہو تو سنو، 1200 سال پہلے میں یہاں سے بہت دور بغداد کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا، میں نے کبھی چوری بھی نہیں کی۔ میں وہاں بس لوگوں کے مجمع میں قصے سنایا کرتا تھا، ہاں میں ایک قصہ گو تھا۔‘‘
    فیونا جلدی سے بولی: ’’اب ہمارے دور میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی جاتی ہے، قصہ گوئی کا دور ختم ہو چکا ہے۔‘‘
    حکیم بولنے لگا: ’’ ہر رات بازار میں لوگ میری کہانیاں سننے کے لیے رک جاتے تھے۔ لیکن پھر میرے پاس کہانیاں ختم ہو گئیں اور میں وہی پرانی کہانیاں بار بار سناتے ہوئے تھک گیا۔ ایک دن میں نے لوگوں کو ایک لطیفہ سنایا، لیکن کوئی نہیں ہنسا، انھوں نے مجھ سے کہا کہ جلدی کرو اور کہانی ختم کرو۔ اگلی رات میں نے پھر لطیفہ سنایا اور پھر دوسرا سنایا لیکن افسوس کہ میرے علاوہ اس پر کوئی نہیں ہنسا، میرا تو خیال تھا کہ میرے لطیفے کافی مضحکہ خیز ہیں۔ پھر ایک دن سلطان بازار کے پاس آکر رکا، اس نے میرا بڑا ذکر سنا تھا۔ مجھے یہ جان کر بہت جوش آیا اور میں نے ایک بڑی غلطی کر دی، اس رات خاص طور پر میں نے کہانیاں سنانے کی بجائے ایک کے بعد ایک لطیفہ سنایا۔ سلطان کو شدید مایوسی ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ اگر میں نے یہ لطیفے نہ سنانے کا وعدہ نہ کیا تو مجھے جادو کے چراغ میں ڈال دیا جائے گا، اور میں نے انکار کر دیا تو مجھے چراغ میں بند کر کے اسے صحرا میں پھینک دیا گیا۔‘‘
    فیونا نے کہا ایک تحفہ میں بھی آپ کو دینا چاہتا ہوں، پھر اس نے جیب سے ایک چھوٹا سا پیکٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ حکیم حیرت سے اس پیکٹ کو دیکھنے لگا۔ فیونا بولی اسے کھولو اور اس میں موجود اسٹکس میں سے ایک نکال کر منھ میں ڈال لو، اور ہاں اسے ببل گم کہتے ہیں۔
    حکیم نے ان کے کہنے کے مطابق ڈرتے ڈرتے ایک ببل گم منھ میں رکھ کر چبایا، اگلے ہی لمحے اس کے منھ میں مٹھاس پھل گئی۔ کچھ دیر بعد وہ بولا کیا اسے بس یوں ہی چباتے رہنا ہے۔ فیونا ہنس کر بولی، ابھی ایک اور تماشا دکھاتی ہوں ٹھہریں۔ پھر اس نے بھی ایک ببل گم منھ میں ڈال کر چبانا شروع کیا اور پھر اچانک اسے دانتوں سے باہر نکال کر اس میں ہوا بھری اور بلبلا بنا دیا۔ دھیرے دھیرے وہ فیونا کے منھ پر بڑا ہوتا گیا اور پھر اچانک پھٹ گیا اور اس کی بلبلہ اس کی ناک پر پھیل گیا۔ جبران اور دانیال ہنسنے لگے، چراغ والا جن بھی ہنس پڑا۔ فیونا بولی جب بھی آپ فارغ ہوں اور بور ہو رہے ہیں تو ببل گم چبا لیا کریں۔
    اور پھر وہ لمحہ آ گیا جب حکیم نے رخصت ہونا تھا، وہ اس وقت ریت پر کھڑے تھے، حکیم اپنے اڑن قالین پر بیٹھ گیا اور ان کی طرف جھک کر بولا، کیا تم واقعی جاتے جاتے ایک لطیفہ نہیں سننا چاہو گے مجھ سے؟ تینوں کے منھ سے بہ یک وقت نکلا ’’نہیں۔‘‘ حکیم نے کندھے اچکائے اور ہوا میں اڑتا چلا گیا۔ فیونا نے گہری سانس لے کر ان دونوں کی طرف دیکھا، جبران آہستگی سے بولا، ہمارے بھی جانے کا وقت آ گیا ہے۔ تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا اور فیونا منتر پڑھنے لگی۔۔۔ دالث شفشا یم بٹ ۔۔۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • ایک سو پچاس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پچاس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں اور دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے کسی بھی لمحے سینہ توڑ کر باہر نکل پڑے گا۔ اس نے تھر تھر کانپتے ہوئے دھیرے دھیرے گھوم کر دیکھا۔ اس کے اور ان دونوں کے درمیان نوکیلے دانتوں والا قدیم ٹائیگر کھڑا تھا۔ اتنا بڑا ٹائیگر اس نے کبھی تصویر میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹی کار جتنا تھا اور اس کے جسم پر سیاہ اور نارنجی دھاریاں تھیں۔ اس کے سفید چمکتے دانت پینسل جتنے لمبے تھے اور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔
    ایک بار پھر وہ زبردست گرج کے ساتھ غرایا۔ اس کا رخ فیونا اور جبران کی طرف تھا، وہ دونوں بھی پلٹ کر اسے دیکھنے لگے تھے۔ جبران کی ٹانگیں واضح طور پر کانپ رہی تھیں، فیونا کے ہاتھ سے بھی کدال گر گیا تھا اور اسے اس کا پتا بھی نہیں چلا، وہ تو دہشت زدہ ہو کر سیبر ٹوتھ ٹائیگر کو ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ ’’ہم م م م… خط … رے …‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ اس سے قبل کبھی اتنی دہشت زدہ نہ ہوئی تھی۔ پھر ٹائیگر نے ان کی طرف چند قدم بڑھائے اور جبران فیونا کی طرف کھسک گیا۔ اس کے منھ سے نکلا: ’’تت … تم ٹائیگر کی آنکھوں میں مت دیکھو۔ مم … میں … نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹائیگر اپنی آنکھوں کے ذریعے لوگوں کو جکڑ لیتے ہیں، اگر تم آنکھیں نہیں ملاؤ گی تو یہ حملہ نہیں کرے گا۔‘‘
    اس دوران فیونا نے خود کو کسی حد تک سنبھال لیا تھا، اس لیے وہ جبران کی بات پر جھنجھلا کر بولی: ’’لگتا ہے ٹائیگر کو دیکھ کر تمھاری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے، اگر میں اس کی طرف دیکھوں گی نہیں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ وہ کب حملہ کر کے ہماری تِکا بوٹی کرنے آ رہا ہے!‘‘
    ’’فف … فیونا … جلدی کرو، تمھارے پاس قوتیں ہیں، تم آگ سے اس پر حملہ کر دو۔‘‘ جبران اس کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ آگ روشن ہونے سے ٹائیگر دانی کی طرف مڑ سکتا ہے۔ جبران نے اگلا مشورہ دیا کہ اپنی جسامت بڑھا کر اسے دم سے پکڑ کر دور پھینک دو۔ فیونا نے اس پر اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔ اس نے سوچا کیوں کہ ٹائیگر سے بات کی جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ٹائیگر اچانک مڑا اور دانیال کی طرف دوڑ پڑا۔ جبران نے جبلی طور پر اطمینان کی سانس لی کیوں کہ خطرے کا رخ اب کسی اور کی جانب تھا، لیکن پھر وہ دانیال کی طرف چلا کر بولا: ’’دانی بھاگو۔ یہ تمھیں کھا جائے گا۔‘‘ لیکن دانیال نے جب ٹائیگر کو اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو وہ بھاگنا ہی بھول گیا۔ پتا نہیں ایک دم اسے کیا ہوا، زندگی بچانے کی بے پناہ خواہش اور قوت کی وجہ سے اسے ترکیب سوجھ گئی، اور اس نے خود سے کہا: ’’دانی، مر جاؤ!‘‘
    فیونا اور جبران دیکھ رہے تھے کہ ٹائیگر کسی بھی لمحے دانیال کے قریب پہنچ پر اس پر چھلانگ دے مارے گا لیکن وہ چونک اٹھے۔ دانیال اچانک برف پر گر پڑا تھا۔ دونوں حیرت میں پڑ گئے۔ جبران کے منھ سے گھبراہٹ میں نکلا: ’’یہ … یہ دانی کو کیا ہو گیا!‘‘
    ’’ٹھہرو۔‘‘ فیونا پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ٹائیگر اس کے پاس پہنچ کر رک گیا اور اپنی تھوتھنی سے دانیال کو ایک ٹہوکا مارا۔ وہ شاید دیکھنا چاہ رہا تھا کہ دانیال زندہ ہے یا مر گیا۔ دوسری طرف دانیال کو اس کی تھوتھنی سے اٹھنے والی بدبو محسوس ہوئی اور اس نے سمجھا کہ یہ اس کا آخری وقت ہے، اور وہ اللہ کو یاد کرنے لگا۔ ایسے میں جبران نے بے اختیار ہو کر فیونا کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا: ’’تم کچھ کرتی کیوں نہیں ہو، وہ دانی کو کھا جائے گا۔‘‘
    فیونا چپ چاپ ٹائیگر کو دیکھے جا رہی تھی، اس کے ہونٹ بند تھے لیکن آنکھیں چمک رہی تھیں، جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہو۔ جبران اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو اکتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    دوسری طرف ڈریٹن نے ان کا پیچھا جاری رکھا تھا؛ جب اس نے ان تینوں کو ہوٹل ریورزایج اِن میں کمرہ لیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ تینوں رات یہیں گزاریں گے۔ اس نے بھی رات اسی ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے لیے کمرہ لیتے ہوئے جب اس نے فیونا کے کمرے کا نمبر دیکھا تو اس نے کلرک سے ساتھ والے کمرے کی درخواست کی۔ وہ کمرے کی چابی لے کر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج رات ان تین شیطانوں کے ساتھ خوب کھیل کھیلے گا۔ کمرے میں پہنچ کر پہلے تو وہ سو گیا، پھر تین گھنٹے بعد اٹھ کر اس نے خود کو تیار کر لیا۔ اس کے اور فیونا کے کمرے کے درمیان صرف ایک دروازہ تھا۔ اس نے خود کو اتنا چھوٹا کر لیا کہ آسانی سے دروازے کے نیچے سے ہوتا ہوا اندر پہنچ گیا اور پھر اپنے نارمل سائز میں آ گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس نے فون اٹھا کر روم سروس کے لیے آرڈر دیا: ’’مجھے تین عدد آئس کریم چاہیے، اس کے اوپر بہت ساری مکھن ملائی، بارہ سنگھے کی یخنی، روسٹ کی ہوئی اودبلاؤ کی دُم، اور ہاں اس کے ساتھ بہت سارا سان ضرور ہو۔‘‘
    آدھے گھنٹے بعد ویٹر نے دروازے پر دستک دی تو ڈریٹن نے دروازہ کھول کر اسے بھاری ٹپ دی۔ اس کے جانے کے بعد ڈریٹن نے کھانوں کی ٹرے بستر پر الٹ دی، اور تکیے کمبل سمیت دونوں بستر بری طرح خراب کر دیے۔ ’’اب مزا آئے گا۔‘‘ اس نے ایک شیطانی قہقہہ لگایا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبز اور شیمپو کی بوتلیں اٹھائیں اور پورے باتھ روم کی ایسی تیسی کر دی۔ دیواریں، دروازے، سنک، کچھ نہ چھوڑا۔ اس نے کھڑکی کھولی، ہوٹل سے ایک تار قریبی ٹیلی فون کھمبے تک گئی تھی، اس پر کبوتر بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کبوتروں سے کہا: ’’پرندو، اندر آؤ، یہاں گندگی پھیلاؤ۔‘‘
    کبوتروں نے ان کے حکم کو سنا اور اندر باتھ روم میں اڑ کر آ گئے۔ پھر جہاں جہاں وہ بیٹ کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ ڈریٹن نے کھڑکی بند کی اور تولیہ لے کر اسے کبوتروں کی طرف سے زور سے لہرایا، ان کے پر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے۔ اس وقت اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ بڑبڑایا: ’’ریورز ایج اِن کے مہمانوں کے لیے خصوصی سرپرائز!‘‘
    اس کے بعد خود کو دوبارہ ننھا منا کر کے وہ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا، اور قصبے میں گھومنے پھرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
    (جاری ہے…)
  • پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ساحل کی ریت پر لہریں بڑھ بڑھ کر ان کے قدموں کو چھو رہی تھیں۔ جبران اپنے ارد گرد پھیلے حسن کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی ایسا سمندر نہیں دیکھا تھا جو سبز مائل نیلا ہو۔ ’’خوب، ہم ضرور ہوائی میں ہیں۔‘‘ اس نے اعلان کیا، لیکن فیونا نے کہا کہ اس نے ہوائی کی تصاویر پوسٹ کارڈز پر دیکھی ہیں اور وہ ایسی بالکل نہیں تھیں۔ فیونا نے ارد گرد نگاہیں دوڑا کر مسکراتے ہوئے کہا: ’’میرے خیال میں ہم سیچلز میں ہیں۔‘‘

    ’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟‘‘ جبران اس کی طرف مڑا۔ فیونا نے بدستور مسکرا کر جواب دیا: ’’ضرور کہہ سکتی ہوں، کیوں کہ وہ دیکھو، سامنے ایک نوٹس بورڈ لگا ہے، جس پر لکھا ہے کہ ہم روے زمین پر سب سے خوب صورت جگہ یعنی سیچلز میں ہیں، اور ہم جزیرہ ماہی کے ساحل پر ہیں۔‘‘

    دانیال حیران ہوا، اور پوچھ بیٹھا کہ فیونا کو یہ معلومات کہاں سے ملیں۔ فیونا نے پھر مسکرا کر کہا کہ یہ بھی اسی بورڈ پر لکھا ہوا ہے۔ دانیال نے اس کے بعد بورڈ پر نگاہ دوڑائی تو اسے پورا نقشہ نظر آ گیا، جبران بھی قریب جا کر پڑھنے لگا۔
    ’’اس ساحل کو پریوں کا دیس کہا جاتا ہے … اوہ … تو کیا یہاں آئس لینڈ کی طرح پریاں ہیں؟‘‘ جبران منھ بنا کر چونک اٹھا۔ دراصل آئس لینڈ پر پریوں کے ساتھ ٹرالز بھی تھے، اس لیے اب پریوں کا خیال بھی اس کے لیے کوئی خوش نما نہیں رہا تھا۔ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہاں ہمارا سامنا ٹرالز سے ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اسے پریوں کا دیس اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں کی ریت ایسی چمکتی ہے جیسے پری، یا شاید کسی اور وجہ سے ایسا کہا جاتا ہو، بہرحال چلو سیپیاں چنتے ہیں۔‘‘

    فیونا ساحل کی طرف دوڑی اور سیپیاں اٹھا کر جیب میں ڈالنے لگی۔ دانیال نے جوتے اتارے اور خوشی سے چلاتے ہوئے سمندر کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس نے بتایا کہ پانی اچھا خاصا گرم ہے۔ تینوں سامنے دیکھنے لگے، سورج کی کرنیں لہروں پر پڑنے لگی تھیں، اور یہ منظر بڑا ہی دل فریب تھا۔ جبران کو شرارت سوجھی تو اس نے دانیال کو دھکا دے کر پانی میں گرا دیا اور اس کے کپڑے بھیگ گئے، اس پر فیونا نے اسے بری طرح ڈانٹا۔ کچھ دیر بعد تینوں ٹاؤن جانے کا راستہ تلاش کرنے لگے۔ وہ ساحل سے سڑک پر آ گئے، کنارے کھڑے انھیں کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک کار وہاں سے گزری۔ انھوں نے جلدی سے کار کو رکنے کا اشارہ کیا، جس میں ادھیڑ عمر میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کار روکی تو جبران نے آگے بڑھ کو پوچھا: ’’کیا آپ ہمیں ٹاؤن تک لے جاسکتے ہیں؟‘‘
    انھوں نے ان پر ایک نگاہ ڈالی اور پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کہا، ان کے اندر بیٹھتے ہی کار چل پڑی۔ ادھیڑ عمر ڈرائیور کا نام بوٹلی تھا، انھوں نے خشک لہجے میں پوچھا: ’’مجھے حیرت ہے کہ تین بچے بن ماں باپ اس جیسی جگہ گھومتے ہوئے آ نکلے ہیں۔ فیری لینڈ ساحل پر آخر تم لوگوں کا کیا کام تھا؟ اور تمھارے والدین کہاں ہیں؟‘‘

    جبران اور دانیال چپ رہے۔ فیونا نے پہلے ہی سے اس قسم کے سوال کا جواب تیار رکھا ہوا تھا، اس لیے وہ بولی: ’’انھوں نے کافی دیر پہلے یہاں اتار دیا تھا، اب ہم ساحل پر تھک گئے ہیں اور ان کا انتظار کیے بغیر اپنے ہوٹل جانا چاہتے ہیں۔‘‘
    بوٹلی نے حیرت سے کہا: ’’اوہ گاڈ، پتا ہے تم لوگ ٹاؤن سے کتنے دور ہو، میرے خیال میں تم لوگ وکٹوریہ میں ٹھہرے ہوئے ہو نا؟‘‘ ’’وکٹوریہ؟‘‘ فیونا نے سوالیہ انداز میں کہا۔

    ’’جی ہاں، مرکزی ٹاؤن، یقیناً آپ کو اپنے ہوٹل کا نام یاد ہوگا۔‘‘ بوٹلی کی بیوی نے اپنی طرف کی کھڑکی کا شیشہ چڑھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے لانگ ڈرائیونگ پر نکلنے کی خواہش کی تھی، ورنہ اس طرف تو لوگ نہیں آتے، تم لوگوں کو اپنے والدین کے آنے کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا۔‘‘

    فیونا بولی: ’’جی آپ نے درست کہا، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ اس طرف آئے۔ مجھے اپنے ہوٹل کا نام یاد تو نہیں ہے، ہاں اگر دیکھ لوں تو پہچان لوں گی۔ آپ ہمیں بس ٹاؤن تک پہنچا دیں۔‘‘

    بوٹلی نے اپنی بیوی کی خواہش پر مقامی لوک گانے لگا دیے، باقی راستہ انھوں نے خاموشی سے وہ گانے سن کر گزارا، آخر کار وہ ٹاؤن پہنچ گئے۔ بوٹلی نے کار روکی تو تینوں نے اترنے میں دیر نہیں لگائی، فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ کار چلی گئی تو اس نے چاروں طرف نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’تو یہ ہے وکٹوریہ، سیچلز کا دارالحکومت!‘‘

    (جاری ہے …)

  • انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح جب آسمان پر بادل پھیلے ہوئے تھے اور درمیان میں کہیں کہیں سے سورج کی کرنیں گیل ٹے پر پڑ رہی تھیں، افق پر نقرئی شعلے بھڑک رہے تھے، ایسے میں ایڈن برگ سے نکلی ہوئی ریل گاڑی گیل ٹے کے اسٹیشن پر رک گئی۔ اس وقت جزائر آرکنے سے ایک رات کی مسافت طے کرنے والی بطخیں لوچ جھیل پر اتری تھیں۔

    ڈریٹن نے جب ریل گاڑی کی وسل سنی تو ایک کنڈکٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی رکنے والے ہیں۔ اس وقت اس نے بڑبڑا کر کہا تھا: ’’اف اتنا طویل اور بے زار کن سفر تو میں نے زندگی بھر نہیں کیا تھا۔‘‘

    کارن وال میں بورڈنگ کے بعد اسے لندن میں وکٹوریہ اور پھر ایڈن برگ ہی میں ویورلے اسٹیشن پر ایک ہی رات میں ریل گاڑیاں تبدیل کرنی پڑی تھیں۔ وہ سوٹ کیس اور بیگ اٹھا کر اپنے گلے میں نیکلس کی موجودی کو یقینی بناتے ہوئے ریل گاڑی سے اترا۔ اس نے خود کو ایک جوہڑ میں پایا جو رات کی تیز بارش سے بن گیا تھا۔

    وہ نفرت سے بڑبڑایا: ’’غلیظ جگہ اور یہ منحوس سردی!‘‘ اس نے جلدی سے کوٹ کے بٹن بند کر دیے اور بڑبڑانے لگا کہ یہ تو کارن وال سے بھی بدتر جگہ ہے۔ اس کے قریب ہی اسٹیشن کا کنڈکٹر گارڈن بروس ایک شخص سے کہہ رہا تھا: ’’یہ ہے آپ کی ٹرین، یہ کریان لارچ جا رہی ہے، آپ کب واپس آئیں گے اینگس؟‘‘

    ’’میں کل دوپہر تک لوٹوں گا۔ میرا یہ دورہ مختصر ہے۔ بس ضرورت کے مطابق ہی کچھ تجارت کروں گا۔‘‘ اینگس نے ریل گاڑی میں چڑھتے وقت کہا۔ ریل گاڑی چل پڑی۔ ڈریٹن اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس نے کنڈکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا، شاید وہ اس کے چہرے کے تاثرات کو سمجھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ ڈریٹن کا حلیہ بھی عجیب تھا، اس کے کانوں میں کئی سارے چھلے لٹک رہے تھے۔ ’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں جناب؟‘‘

    ڈریٹن نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس وقت اس کا دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا تھا۔ ’’میں ڈریٹن اسٹیلے ہوں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا: ’’دراصل میں ایک کتاب لکھنے یہاں آیا ہوں، اور کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں مجھے تنہائی اور سکون میسر آئے۔ میری بدقسمتی ہے کہ اینگس نکل گئے، ہم بہت پرانے دوست ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے اینگس کے بارے میں سراسر جھوٹ بولا تھا، اور اس چالاکی پر وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، اس نے پوچھا: ’’کیا اینگس اب بھی قصبے میں رہتا ہے؟‘‘

    کنڈکٹر نے جواب دیا: ’’وہ اسی گھر میں رہ رہا ہے جس میں اس نے اپنی زیادہ تر جوانی گزاری ہے۔‘‘

    ’’کیا اس نے شادی کی ہے؟‘‘ ڈریٹن نے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا اور چہرے پر مسکراہٹ طاری کر دی لیکن کنڈکٹر کے چہرے پر سنجیدگی اسی طرح طاری رہی۔ ’’نہیں، اینگس نے کبھی شادی نہیں۔ نہ مجھے اس سے کوئی توقع ہے۔ آپ کہاں ٹھہریں گے؟‘‘

    ’’مجھے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں میں ناشتہ بھی کر سکوں اور آرام کے لیے ایک بستر بھی مل سکے۔ کیا یہاں قریب میں کوئی بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہے؟‘‘

    ’’ابھی تو بہت سویرا ہے اور آج اتوار بھی ہے، لیکن اگر آپ مرکزی اسٹریٹ چلے جائیں تو آپ کو مک ڈوگل کا بیڈ اینڈ بریک فاسٹ دکھائی دے گا۔ دروازے پر دستک دے کر ایلسے سے کہنا کہ آپ کو کنڈکٹر گارڈن نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو جگہ دے دیں گی۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور چلا گیا۔

    ڈریٹن کو خدشہ تھا کہ کنڈکٹر اس کی موجودی کے بارے میں پتا کرنے بھی آسکتا ہے اس لیے وہ مک ڈوگل کے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہی آیا۔ اس نے اپنا سامان بستر پر رکھ دیا اور کمرے سے نکل کر ’’ڈونٹ ڈسٹرب‘‘ کی تختی دروازے پر لٹکا دی، اور پھر کچن کا رخ کر لیا۔ ایلسے نے ناک پر جمی عینک ذرا سی اوپر کی جانب کھسکا کر پوچھا: ’’کیا میں آپ کو ناشتے میں کچھ دوں؟‘‘

    ’’بہت اچھا خیال ہے، یعنی نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ ڈریٹن نے دانت نکال کر حتی الامکان اپنے لہجے کو خوش گوار بناتے ہوئے کہا۔ ایلسے نے کہا: ’’دیگر مہمان کھانے کے کمرے میں بیٹھے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر سستا لیں۔ میں جلد ہی آپ کے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں، ویسے آپ کیا پسند کریں گے، چائے، کافی یا مالٹے کا جوس؟‘‘

    اس نے اپنی شخصیت کا اچھا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو مالٹے کا جوس لے کر آئیں میرے لیے۔‘‘

    ’’بہت بہتر جناب اسٹیلے، آپ جا کر بیٹھ جائیں، میں بس آتی ہوں۔‘‘

    ڈریٹن کھانے کے کمرے میں داخل ہوا تو چونک اٹھا۔ وہاں سب ہی لوگ بوڑھے تھے اور ان کے ہمراہ ان کی بیویاں تھیں جن کے چہرے اسے رنجیدہ نظر آئے۔ اپنے درمیان ایک جوان کو دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور گیل ٹے کی روایت کے مطابق ایک ایک کر کے سب اسے خوش آمدید کہنے لگے۔ ڈریٹن چوں کہ اپنی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجبوراً سب سے ہاتھ ملایا، تاہم جیسے ہی وہ کسی سے ہاتھ ملاتا فوراً ہی ہٹا دیتا۔ ذرا دیر بعد اس کے سامنے میز پر بھاری ناشتہ سج چکا تھا۔ اس نے بھنا گوشت، ساسیج، انڈا آملیٹ اور گندم کے توس کھائے اور آخر میں ایک گلاس مالٹے کا جوش بھی نوش کیا۔ پیٹ بھرنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب اس کے پیٹ میں مزید گنجائش نہیں رہی تو اس نے ایلسے کو دیکھ کر کہا: ’’ذرا سنیے ایلسے! کیا میں آپ کو اس طرح پکار سکتا ہوں؟‘‘

    اس نے جواب میں خاموشی سے سر ہلا کر اجازت دی۔ ڈریٹن نے کہا: ’’دراصل میں اپنے پرانے دوست اینگس کے ہاں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ایلسے نے کہا: ’’کیا آپ اینگس مک ایلسٹر کی بات کر رہے ہیں، لیکن وہ تو آج صبح ہی کریان لارچ چلا گیا ہے، لیکن کل دوپہر تک آجائیں گے۔ کیا آپ یہاں رہیں گے یا نہیں؟‘‘

    ڈریٹن نے کہا: ’’جی ہاں، میں یہیں رہوں گا۔ ویسے اب اس کا گھر کہاں ہے، کیا اسی پرانے گھر میں ہے وہ؟‘‘

    ایلسے نے جواب دیا: ’’وہ اسی پرانے گھر ہی میں رہ رہے ہیں، جو اینسٹر اسٹریٹ کے آخر میں ہے، نمبر 23۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • پینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اسٹور روم میں ڈریٹن تمام صندوقوں کو چھان مار رہا تھا۔ ایک صندوق سے پرانے کپڑے باہر پھینکتے ہوئے اس نے چیخ کر کہا: ’’اُف یہ کیا گندگی ہے، پتا نہیں کیسی عورت ہے یہ۔ اب یہ کپڑے یہاں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے خالی صندوق کمرے کے ایک طرف پھینک دیے۔ وہ جس چیز کی تلاش میں تھا، اسے ڈھونڈنے میں ناکامی پر اس کا غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا تھا۔ بالآخر اسے ایک پرانے پیانو کے پیچھے گتے کا ایک ڈبا نظر آ گیا جس میں کتابیں اور کاغذات پڑے تھے۔

    ’’آخرکار یہ میرے ہاتھ لگ ہی گیا۔‘‘ اس نے خوش ہو کر کہا۔ کمرے میں ساری چیزیں اسی طرح بکھری ہوئی چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میز کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے ایک قدیم کتاب نکال لی۔ اپنا ایک بازو جھاڑو کی طرح میز پر پھیر کر اس نے تمام اشیا فرش پر گرا دیں اور کتاب میز پر رکھ کر پہلا صفحہ کھولا، اور پھر بلند آواز سے پڑھنے لگا: ’’کنگ دوگان کی تاریخ: تصنیف ٹالون ہارمڈن۔‘‘

    اس کے بعد تین گھنٹوں پر ڈریٹن محو ہو کر یہ کتاب پڑھتا چلا گیا۔ جس میں لکھا تھا کہ کنگ دوگان نے بادشاہ کیگان کی دو بیٹیاں شہزادی ازابیلا اور شہزادی آنا کو اغوا کیا۔ دوگان نے ازابیلا سے زبردستی شادی کی، ان کے ہاں ہیگر نامی بیٹا پیدا ہوا۔ دوگان نے ان دونوں بہنوں کو اپنی سلطنت سے دور رکھا اور بیٹا اپنے پاس رکھ لیا۔ ازابیلا نے قسم کھائی کہ وہ ایک دن بچہ چھیننے کا انتقام ضرور لے گی۔ ہیگر ایک ایسا بچہ تھا جس کا تعلق دوگان اور کیگان دونوں سلطنتوں سے تھا۔ جب دوگان مر گیا تو اس نے وہ بارہ ہیروں والا نیکلس پہن لیا جسے کیگان کی سلطنت سے چرا کر لایا گیا تھا۔ ہیگر دوگان کا ایک ہی بچہ تھا، اس لیے وہ ہی تخت کا وارث ٹھہرا۔ ازابیلا اور آنا بعد میں اپنے والد کی سلطنت لوٹ گئی تھیں لیکن وہ دنیا میں نہیں رہا تھا۔

    ڈریٹن پڑھتے پڑھتے پُر جوش ہو گیا تھا۔ ’’ڈیڈ نے بھی کیسی کیسی چیزیں چھپا کر رکھی ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پھر اس نے صفحہ پلتا اور آگے پڑھنے لگا: ’’ہیگر اور اس کی آنے والی نسلوں نے ملک زناد پر تین صدیوں تک حکومت کی اور پھر اس خاندان میں لڑکوں کی پیدائش رک گئی۔ چناں چہ تخت کی وراثت بیٹیوں اور ان کی بیٹیوں کو منتقل ہو گئی۔‘‘

    کتاب کا آخری صفحہ پڑھنے کے بعد ڈریٹن نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور گہری سانس لی۔ ’’تو میں بادشاہ دوگان اور شہزادی ازابیلا کا وارث ہوں۔‘‘ اس نے کتاب بند کر دی اور اپنی ماں کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے الماری کھولی اور ماں کی چیزیں باہر پھینک کر ان کا سوٹ کیس نکال لیا۔ سوٹ کیس خالی تھا لیکن تھا بہت بھاری۔ وہ سوٹ کیس اپنے کمرے میں لے گیا اور جو چیزیں اس نے اپنے لیے کارآمد سمجھیں، اٹھا کر سوٹ کیس میں ٹھونس دیں۔ پھر گلے میں نیکلس ڈال کر سیڑھیاں اترنے لگا۔

    ’’کہاں جا رہے ہو ڈریٹن؟‘‘ ماں کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس نے مڑ کر آگ بگولا ہو کر کہا: ’’چپ رہو تم، میں یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ تم آئندہ میری شکل نہیں دیکھ سکو گی۔‘‘

    ’’تمھیں صندوق میں کیا ملا؟‘‘ پینی لوپ نے بیٹے کی سخت بات بھی نظر انداز کر کے پوچھ لیا، وہ یہ پوچھنے سے خود کو نہ روک سکی تھیں۔

    ’’مجھے پتا چلا ہے کہ میں بادشاہوں کی اولاد ہوں۔ میرا ڈیڈ بھی بادشاہوں کی اولاد تھا لیکن تم نہیں۔ میں اپنے آبا و اجداد کے خزانے کا مستحق ہوں، اس لیے اسکاٹ لینڈ جا رہا ہوں، تم بھی وہاں کی ہو نا … کیا نام ہے اس گھٹیا سی جگہ کا نام جہاں تم پیدا ہوئی؟‘‘

    ’’گیل ٹے۔ میری ایک بہن بھی وہاں رہتی ہے۔‘‘ پینی لوپ نے جواب دیا۔

    ’’گیل ٹے تو ہائی لینڈز ہی میں کہیں ہے نا؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا، جس پر پینی لوپ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ڈریٹن نے ان کی بہن کے بارے میں بھی بدتمیزی شروع کر دی: ’’مجھے تمھاری اس موٹی بدشکل بہن سے کوئی دل چسپی نہیں ہے، میں بس خزانے کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور نکل گیا۔ پینی لوپ نے اس کی موٹر سائیکل کی آواز سنی اور دکھ سے سوچا: ’’کیسا خزانہ!‘‘

    دوپہر کے وقت ریل گاڑی اسٹیشن سے نکلی۔ اگلی صبح کو اسے ایڈن برگ پہنچنا تھا۔ ڈریٹن نے اپنے سونے کا کیبن تلاش کر کے بیگ طاق میں پھینکا اور سوٹ کیس سے کتاب نکال کر دوگان کے شیطان جادوگر اور اس کی طاقتوں کے بارے میں پڑھنے لگا:

    ’’چوں کہ ہیگر کی رگوں میں دو خاندانوں کا خون دوڑ رہا تھا اس لیے اس کے پاس خصوصی طاقتیں تھیں۔ یہ شیطانی قوتیں بہت خطرناک تھیں۔ وہ اچھائی اور برائی دونوں کا جادو کر سکتا تھا۔‘‘

    ڈریٹن دل چسپی سے کتاب بلند آواز میں پڑھنے لگا۔ اس نے جادوئی گیند کے بارے میں بھی پڑھا۔ اس نے خود کلامی کی: ’’تو دوگان کی طاقتوں کے ساتھ ساتھ میں کیگان کے جادوئی گولے کی بارہ طاقتوں کا بھی حق دار ہوں۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں سیاہی مائل شعلے چمک اٹھے۔ ’’جب میں اسے اپنے قبضے میں لے لوں گا اور منتر پڑھوں گا تو شیطان جادوگر پہلان کو ماضی کی تاریکیوں سے طلب کر سکوں گا، اور پھر اس سے یہ بھی سیکھ لوں گا کہ ان طاقتوں کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے جادوئی گولا اور بارہ قیمتی پتھر حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اسے پانے کی صرف ایک جگہ ہے … گیل ٹے … اسکاٹ لینڈ میں واقع قلعہ آذر! واہ کتنی دل چسپ بات ہے۔ میری ماں بھی اسی گاؤں کی ہے جہاں قلعہ واقع ہے۔ مجھے توقع ہے کہ مجھ سے پہلے اسے کسی اور نے نہیں پایا ہوگا۔‘‘

    اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ ’’سب سے پہلے تو میں اپنی پیاری ماں کو مینڈک بنا کر اسے مگرمچھوں کے تالاب میں پھینک دوں گا، کیوں کہ وہ ایک بے کار شے ہے۔‘‘

    ڈریٹن تب تک مطالعہ کرتا رہا، جب تک نیند اس پر غالب نہیں آ گئی، اور وہ اس عالم میں سو گیا کہ ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرا ہاتھ سختی سے نیکلس پر جما ہوا تھا۔

    (جاری ہے…)