Tag: رفیع اللہ میاں کی تحریریں

  • ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ایک اچھے صحافی کا مشاہدہ بہت شان دار ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات اور چیزوں کو دیکھ کر ایسے پیٹرنز کی نشان دہی کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی مدد سے سماجی اور سیاسی صورت حال کی ایک حقیقت سے قریب تر تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ذکر ہے فیض اللہ خان اور ان کی واحد کتاب ’’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ کا۔

    مشاہدے اور پیٹرن کی صفحہ 185 پر یہ خوب صورت مثال ملاحظہ کریں: ’’ملک بھر میں کہیں بھی طالبان حملہ کریں، میڈیا کے مطابق اس میں پاکستانی، ازبک، عرب اور چیچن ملوث ہیں۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا کہ درجنوں پاکستانی اس حملے میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے، لیکن کبھی بھی کسی کی لاش یا گرفتار پاکستانی فورسز سے متعلق کسی شخص کی فوٹیج نہیں دکھائی جا سکی۔‘‘ اب اس پیٹرن کو دیکھیں تو عین یہی آپ کو پاکستانی میڈیا میں بھی دکھائی دے گا اور بھارتی میڈیا میں بھی۔ ایسے کئی پیٹرن فیض اللہ نے کتاب میں نشان زد کیے ہیں، جو بے وجہ نہیں معلوم ہوتے۔ وہ زیرک صحافی ہیں، انھوں نے ذہانت سے اس خطے کے سماجی، سیاسی اور عسکری ذہنیت کا خاکہ کھینچا ہے۔

    جب کتاب کی بات کی جاتی ہے تو اردو میڈیا سے جڑے ایک پاکستانی صحافی سے کچھ زیادہ امید نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا باب میرے لیے حیرت انگیز تھا۔ روایتی طور پر ٹی وی رپورٹنگ سے وابستہ کسی صحافی سے لمبی اور ادبی نوعیت کی تحریر کی امید کم ہی رکھی جا سکتی ہے۔ ایسے میں اپنی پہلی کتاب کا آغاز اتنے شان دار طریقے سے کرنا کہ اس پر عالمی ادبی معیار کا گمان ہو، جیسے روسی، چینی، یا لاطینی امریکی یا کوئی ترکی ادیب اپنی کتاب کا آغاز کر رہا ہو! یہ باب کسی ناول کے باب کی طرح ہے اور اس کی علامتی ویلیو یہ ہے کہ ’’حقیقت فکشن بھی ہو سکتی ہے اور فکشن حقیقت بھی۔‘‘ شاید اسی نکتے کو ایک اور طرح سے محسوس کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے لکھا کہ اگر فیض اللہ خان افغان صحافی ہوتا اور پاکستانی انٹیلیجنس کے ہتھے چڑھتا، تب بھی وہ ایسی ہی آپ بیتی لکھتا اور اس کا نام بھی ڈیورنڈ لائن کا قیدی ہی ہوتا۔

    دراصل یہ کتاب اپنے عنوان ہی نہیں اپنے مواد میں بھی علامتوں کے ذریعے متعدد ’’حقائق‘‘ سے روشناس کراتی ہے۔ میرے لیے یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ اس کتاب میں فیض اللہ خان کی اتنی بڑی صلاحیت کا ادراک ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد 8 سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور انھوں نے ابھی تک اس فطری تحفے کی ’’ذمہ داری‘‘ قبول نہیں کی ہے۔ ذمہ داری قبول کرنا ایک نہایت قابل قدر انسانی رویہ ہے لیکن گزشتہ دو ڈھائی عشروں سے یہ رویہ عالمی سیاست کے اسٹیج پر تنظیمی عسکریت پسندی یا تنظیمی دہشت گردی سے بری طرح جڑ کر ایک بدنام علامت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیمیں بم دھماکوں میں انسانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرکے مذہب کے نام پر ’’فخر‘‘ کا اظہار کرکے انسانیت کو شرمندہ کرتی ہیں، ایسے میں فیض اللہ جیسے قلم کار کو زبان میں موجود علامتوں کے ذریعے طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی اپنی صلاحیت کو زیادہ جوش اور تحرک کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ڈیورنڈ لائن کا قیدی رہا ہو کر اپنے گھر تو آ گیا ہے اور اس نے ایک کتھا بھی سنا دی ہے، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیدی ابھی تک پوری طرح رہا نہیں ہوسکا ہے۔ وہ تا حال علامتوں کی بے درد زنجیروں سے جھوجھ رہا ہے۔ ان زنجیروں سے رہائی کا واحد طریقہ اپنی صلاحیت کا ادراک ہے اور ایک اگلی کتاب۔
    اس کتاب میں ایسی کئی چیزیں ہیں جن پر کافی تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے، لیکن میری یہ تحریر ایک تعارفی تحریر ہے جس میں میں نے اس کے متن کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھا ہے۔ اس کتاب کا عنوان برطانوی سامراج کو قبول نہ کرنے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ برطانیہ نے کالونی میں اپنے مفادات کی خاطر یہ لائن کھینچ کر قبائل کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا۔ آج بھی، جب کہ یہ لائن نو آبادیاتی یادگار ہے، دونوں طرف کے قبائل اسے تسلیم کرنے سے اصولی طور پر انکاری ہیں۔ لیکن کتاب کا یہ عنوان اپنے ساتھ اتنے واضح علامتی معنی لیے ہونے کے باوجود اس کے ناشر زاہد علی خان نے ’’عرض ناشر‘‘ میں افغانوں سے متعلق حقیقت سے عاری اور حماقت سے بھری ایسی باتیں لکھی ہیں، کہ گمان گزرتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کے ڈائناسارز کو جان بوجھ کر نظر انداز کر کے، من پسند اور مخصوص سوچ کی تشکیل کردہ ایسے معنی کے ہاتھوں اغوا ہو رہے ہیں، جو ہے تو مچھر اتنا لیکن پیش کیا جاتا ہے نمرود کے قاتل کے طور پر!

    یہ ایک تاریخی مظہر ہے کہ حاکم قوت ہمیشہ خود کو بہ ظاہر آسان اور سادہ علامتوں کی صورت میں پیش کیا کرتی ہے تاکہ عام لوگ اپنے اندھے جذبات کی مدد سے انھیں فوراً سمجھ سکیں اور ان سے جڑ سکیں اور انھیں تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ انھیں بس یہ محسوس ہو کہ وہ پوری طرح سمجھ چکے ہیں حالاں کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھے ہوتے۔ زبان اگرچہ خود ساری کی ساری علامتوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن روزانہ زندگی میں بولے جانے والے الفاظ کے واضح معنی اور زبان کے متفقہ گرامر کے ذریعے لوگوں کے درمیان رابطہ کاری بہ آسانی ممکن ہو جاتی ہے اور لوگ گفتگو کے ذریعے آسانی سے ایک دوسرے کا فوری مدعا سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن علامتوں کی ایک سطح وہ ہوتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دے کر انھیں غلط طور سے استعمال کرنے کے لیے بے حد مددگار ہوتی ہے۔ دھوکا یوں کہ ان کے ذریعے حقیقی صورت حال پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو کیا یاد رکھنا چاہیے، اس کے لیے ان کے سامنے یہی تشکیل شدہ معروف علامتیں رکھ کر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ ’’خیر کی قوت‘‘ ہیں اور ان کا مقابل ’’بدی‘‘ کی بدترین علامت ہے۔ اس کی مثال ہمیں کتاب کے شروع میں ’’عرضِ ناشر‘‘ میں ملتی ہے جس میں امریکی ڈالروں اور امریکی میزائلوں کی شرم ناک جنگ کی سیاہ تاریخ کو ’’پاکستان افغان مہاجرین کے لیے ماں کی علامت‘‘ اور ’’پڑوس ملک کے لیے انسانی تاریخ کا ناقابل فراموش رویہ‘‘ جیسے بیانیے میں چھپایا گیا ہے۔ اسی لیے چالیس لاکھ (افغان مہاجرین) کے ہندسے کو ایک ایسی عالمی اپیل کی صورت میں دہرایا جاتا ہے جس پر ’’افغانستان پر روس کے قبضے‘‘ کے بڑے جھوٹ کی رنگین چادر چڑھی ہوئی ہے۔ افغانوں کے خلاف پروپیگنڈا ہمیں ابھی افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کی شد و مد سے شروع کی گئی مہم کے دوران بھی ملتی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے حقیقی صورت حال پر مبنی رپورٹس کافی تشویش ناک ہیں۔ تاہم یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔

    دل چسپ امر یہ ہے کہ پہلے ہی باب میں فیض اللہ نے افغان سیکیورٹی اہل کاروں کے لہجوں میں ایسی خوف ناک نفرت سے سامنا کرایا ہے، جو ہرگز بدی کی کسی ماورائی علامت سے جنم نہیں لیتی، بلکہ اس کی تشکیل نفرت انگیز زمینی حقائق کرتے ہیں۔ اسے ڈیورنڈ لائن کی تاریخی علامت کے تناظر میں دیکھیں تو افغان قبائل نے جو مسلسل مزاحمت برطانوی کالونیلز کی در اندازیوں اور مداخلتوں کے سامنے کی، وہی مزاحمت انھوں نے پوسٹ کالونیل دور میں سرحد پار سے ہونے والی مداخلتوں کے جواب میں بھی کی، اور اس نفرت کو اسی مزاحمت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر پروپیگنڈا مسلسل اور طاقت ور ہو تو فیض اللہ بھی ’’ہم نے آپ کو مہمان کا درجہ دیا‘‘ (صفحہ 208) والے مقبول ڈسکورس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی پہلے آپ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کے ساتھ گھستے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کے پرامن شہری بے گھر ہوتے ہیں اور مہاجرین (جدید دنیا کی ایک نئی اچھوت برادری) بن جاتے ہیں، اور پھر انھیں سہولیات سے محروم جھونپڑیوں کے شہر میں بھیڑ بکریوں کی طرح بسا کر خود کو ’’عظیم مہمان نواز‘‘ کا خطاب دے دیتے ہیں۔

    فیض اللہ نے بہت معصومیت کے ساتھ اپنے بھی دو دل چسپ ڈسکورسز تشکیل دیے ہیں، جن سے عام افغان باشندے کی نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی طرز عمل سے متعلق بھی ایک مخصوص سوچ کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔ یعنی مصنف کی تحریر سے عندیہ ملتا ہے کہ افغان سے متعلق ایک خاص رائے قائم کی جائے۔ ان میں سے پہلا ڈسکورس دیکھیں: ’’افغان شک کی بنیاد پر کوئی بھی الزام لگا کر حتمی سمجھتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 114)۔ دراصل یہ واقعہ اس وقت کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ سے متعلق ہے، جس کے بارے میں افغان قیدیوں کا کہنا تھا کہ اس نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے ایسا کوئی معاہدہ کیا تھا یا نہیں، عام شہری ہمیشہ سیاست دانوں کے حوالے سے اس قسم کے اندھا دھند یقین کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو کسی سیاست دان کے یہودی ایجنٹ ہونے اور کسی کے بھارتی ایجنٹ ہونے کا ’’یقین‘‘ لاحق رہا ہے، اور جو ان دو ممالک کا نہیں، وہ امریکی ایجنٹ تو ہوتا ہی ہے، جماعت اسلامی تو امریکی ڈالروں کے حوالے سے مخالفین میں بہت بدنام رہی ہے۔ لیکن بے خبر رکھے گئے عوام کا یہ عمومی رویہ اگر مخصوص قوم کی خصوصیت بنا کر پیش کیا جائے تو اسے کلامیہ (ڈسکورس) سازی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    دوسرا دل چسپ ڈسکورس اس طرح تشکیل پاتا ہے: ’’افغان انرجی ڈرنک کے دیوانے ہیں۔‘‘ (صفحہ 117)۔ اس طرح کے بیانات میں امر واقعہ کا انکار ممکن نہیں ہوتا، لیکن جملے کا معنیٰ بہ ظاہر اتنا ہی نہیں ہوتا۔ ڈسکورسز کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ یہ طاقت اور سیاسی معنی سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ وقت پڑنے پر آسانی سے اپنا رنگ اور اپنی صورت بدل لیتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی طاقت اور سیاسی صورت حال بدلتی ہے، ڈسکورس والی نام نہاد حقیقت بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ افغان اگر انرجی ڈرنک کے ’’دیوانے‘‘ ہیں تو اسے افغانستان میں طویل غیر ملکی مداخلتوں (بالخصوص امریکی) کے تناظر سے ہٹ کر دیکھنا منصفانہ اظہار نہیں ہے۔ اسی طرح تو افغان ڈالر کے بھی دیوانے ہیں لیکن اس کا ’’امریکی استعماری‘‘ تناظر کتنا شرم ناک اور ہول ناک ہے۔ اس طرح کے ڈسکورسز ایک قوم کو ایک خاص رنگ اور ڈھنگ میں پیش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ایک خاص تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔
    یہ کتاب اگرچہ ایک اچھی دستاویز کی طرح ہے تاہم افغان سماج کا تجزیہ ایک زیادہ غیر جانب دار رویے کا طالب ہے۔ اوپر صفحہ 185 کا جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد افغان میڈیا میں پاکستان کی مخالفت کا خصوصی ذکر موجود ہے لیکن جس سماجی تجزیے کی ضرورت تھی وہ موجود نہیں۔ مثال کے طورر پر اس اقتباس سے قبل سرمایہ کاری (بالخصوص انفراسٹرکچر میں) کے حوالے سے بھارت افغانستان دو طرفہ تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک اچھا سماجی تجزیہ کار یہ بنیادی سوال اٹھائے گا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی قربت اور اشتراک کے باوجود اس سرمایہ کاری کی طرف پاکستان نہیں گیا؟ افغانستان صرف ڈیورنڈ لائن ہی پر نہیں، ملک کے اندر مداخلت پر بھی شاکی رہا ہے۔ طویل عرصے تک اس مداخلت کے باوجود پاکستان کا یہ کردار افغانستان کے اندر تعمیر و ترقی کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اس تجزیے کی عدم موجودی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افغان میڈیا کا یہ پاکستان مخالف رویہ کسی پراسرار قوت کے طابع ہو۔ حالاں کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر چودہ اگست کو یہ میڈیا پاکستان کے حوالے سے کوئی خبر نہیں چلاتا اور پندرہ کو ہندوستان کی آزادی پر خصوصی نشریات ترتیب دیتا ہے تو اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کا کاروباری اور سرمایہ کاری پارٹنر ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے وہاں کس چیز میں سرمایہ کاری کی ہے؟

    میرا خیال ہے کہ یہ کتاب اپنے زبردست متن کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ ویلیو رکھتی ہے، جیسا کہ فیض االلہ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کو پہلے انگریزی میں چھپوائیں، میں اس مشورے سے خود کو متفق پاتا ہوں۔ تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں آنے والی کتابوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں زبردست طور سے ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے، تاکہ ایک طرف زبان اور اس کے گرائمر کے حوالے سے ان میں سقم نہ رہے، دوسری طرف متن کو اتنا چست کیا جا سکے کہ اس میں کوئی جملہ یا پیراگراف اضافی محسوس نہ ہو، اور کوئی واقعہ ایسا نہ لگے کہ اسے زبردستی بٹھایا گیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا قیدی میں ایڈیٹنگ کی بہت زیادہ ضرورت ہے، ایک طرف اگر کاما اور ڈیش کا عدم استعمال پریشان کرتا ہے، تو دوسری طرف ان کا غلط استعمال تقریباً ہر صفحے پر ملتا ہے۔ مندرجہ بالا ان تمام خامیوں کے باوجود یہ ایک اچھی دستاویز ہے، جس میں کچھ دل چسپ حقائق ایسے بھی ملتے ہیں، جنھیں ہم سامراجی رویوں کے نتائج کے تاریخی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں۔ صفحہ 160 پر لکھا گیا ہے کہ ابو بکر البغدادی نے علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو جن عراقی فورسز پر امریکا نے اربوں ڈالرز لگائے تھے، انھوں نے کوئی مزاحمت کیے بغیر علاقے چھوڑ دیے۔ اب حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی باز آمد پر اسی تاریخ نے خود کو دہرایا۔

    جو بائیڈن کے زیر صدارت جب امریکا نے آخرکار افغانستان سے نکلنے کے فیصلے کو اگست 2021 میں عملی صورت دے دی تو یہ بات میڈیا میں اس طرح بریکٹ نہیں ہوئی، جس طرح فیض اللہ خان نے القاعدہ کی خراسان شاخ کی شوریٰ کے ایک رکن شیخ جعفر کے انٹرویو کے ذریعے واضح کی، کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا سے کئی سال قبل القاعدہ کی تمام عسکری اور فکری قیادت افغانستان سے نکل کر عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور الجزائر جیسے ممالک میں منتقل ہو چکی تھی (صفحہ 144)۔

    یہ کتاب اپنے مواد میں بے حد اہم ہے، اور فیض اللہ کا طرز تحریر کافی دل چسپ ہے، یعنی کتاب خود کو آخر تک پڑھواتی ہے۔

  • ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    بات تلخ ہے لیکن اس تلخیوں بھرے معاشرے کی حقیقت ہے۔ لوگ شاید یہ سوچتے ہوں کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا سچ میں وہ نائیک کو سننے کے لیے انھیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟

    سوشل میڈیا پر میں نے 100 کے قریب پوسٹوں کا بہ غور مطالعہ کیا۔ مجھے یہ نتیجہ ملا کہ وہ انھیں سننا نہیں چاہتے، بلکہ ان کے ذریعے اپنے عقائد کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مخالف عقائد کا ابطال ہو، ان کی تذلیل ہو۔ جو مخالف عقائد والے ان کی آمد کے خلاف ہیں، وہ انھیں اس لیے نہیں مسترد کر رہے ہیں کہ وہ ان کے عقائد کو کسی نئی اور بڑی دلیل کے ساتھ غلط قرار دیں گے۔ بلکہ اس لیے کہ ان کی آمد سے مقامی سطح پر جاری مسلکی چپقلش کو مزید ہوا ملے گی، اور ان کی تذلیل کا نیا موقع تخلیق ہوگا۔

    ہر دو طرف کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ نائیک کے پاس کوئی نئی دلیل نہیں ہے۔ وہ در حقیقت دلیل کا آدمی ہے ہی نہیں، وہ حوالہ جات کا آدمی ہے۔ اس لیے جہاں دلیل ’تخلیق‘ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں حوالہ غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ایسے کئی معاملات ہیں جہاں ذاکر نائیک کے غیر متعلقہ حوالہ جات مضحکہ خیز حد تک صورت حال کو خراب کر دیتے ہیں، اور مذہبی منافرت کو ہوا ملتی ہے۔

    اب اس سارے پس منظر کو دیکھیں تو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے۔ یہ افراد اپنی دینی تربیت میں تو جیسے ہوں گے، ہوں گے؛ ان کی ثقافتی تربیت نہیں ہو سکی ہے۔ جدید دنیا میں ملازمین کو ثقافتی آگاہی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ثقافت اور سوچ اور فکر والے افراد کے ساتھ بہتر طور پر کام کر سکیں اور کام کے حوالے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں۔

    طلبہ کی ثقافتی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ نسل، جنس، مذہب، فکر اور رائے کے اختلاف کی نوعیت سمجھتے ہوئے، مل کر درپیش چینلجز سے نمٹنا سیکھ سکیں۔ ذاکر نائیک کی آمد کا مذکورہ تنازعہ اکثر تنازعات کی طرح ثقافتی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک دوسرے کے عقائد اور رائے اور خیالات کو بے رحمی سے مسترد کرنا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ مہمان کی آمد کے ساتھ اس بے رحمی میں اضافے کا بھرپور خدشہ ہے۔
    ثقافتی تربیت کی عدم موجودی کے باعث انسان کے سماجی رویوں میں بہتری اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور اس تربیت کی مدد سے مختلف لوگوں کے متنوع نقطہ نظر اور پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ان کو سراہنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ غلط فہمیوں کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔

    ایک فریق اور بھی ہے، جو مذہب بے زار ہے، جس کی رائے ہے کہ ذاکر نائیک جیسے مہمان اس ملک سے دور رہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا انھیں پاکستان آنا چاہیے؟ وہ نائن الیون کے بعد امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور برطانیہ کے دورے کر چکے ہیں۔ پانچ اور دس سالہ ویزے ملے انھیں۔ 2006 میں ویلز میں بھی ایک قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نے ان کی آمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پھر یہ تسلیم کیا گیا کہ ذاکر نائیک مذاہب کے درمیان مماثلت پر بات کرتے ہیں اور غیر متنازعہ افراد میں سے ایک ہیں۔ کسی بھی شخص پر صرف اس لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ اس کی رائے دوسرے لوگوں کو ناگوار لگتی ہے۔ اب برطانیہ اور کینیڈا میں مخصوص گروپس کے دباؤ کی وجہ سے ان پر پابندی عائد ہے۔

    اس قضیے کا ایک اہم ترین سوال سیاسی ہے۔ اگلے مہینے کے ابتدائی ہفتے میں ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کا دورہ پاکستان متوقع ہے، اور انھی دنوں ملائیشیا ہی میں مقیم ذاکر نائیک بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ یہ سیاسی گٹھ جوڑ ہی اس قضیے کا بڑا سوال ہے۔ اسے اس پسِ منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں نائیک کو ملائیشیا میں بہت اثر و رسوخ حاصل ہوا ہے، کچھ لوگ اگر ان کی موجودی کو مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث سمجھتے ہیں تو کچھ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملائی مسلم برتری کے کمپلیکس میں اضافہ کیا ہے۔ یوں اگر اعلان نہ بھی کیا جاتا ہے تو انھیں پاکستان میں ایک اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت حاصل ہوگی۔

    یہاں مختلف عقائد کے افراد سوشل میڈیا پر نائیک کے آنے پر لڑ رہے ہیں، بہ ظاہر یہ اختلاف اور لڑائی سادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائیک کی آمد کا تمام قضیہ ہی ایک ڈسکورس ہے۔ جس میں ایک بار پھر سیاست اور مذہب بغل گیر ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور‌ خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)
  • ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر اردو تراجم کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ایسی آرا سامنے آتی رہی ہیں کہ ایک تاثر تشکیل پاتا ہے جیسے اردو ترجمہ پڑھنا بہ ذات خود ایک کم تر اور پست ذہن کا کام ہو۔ کچھ لوگ انگریزی زیادہ اچھے سے پڑھ لیتے ہیں اور وہ ایک ادائے دل بری سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو براہ راست انگریزی ہی میں کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں (جیسے اردو ترجمہ پڑھنا ایسا ہو جیسے ہماری زبان میں کچھ پیشوں اور کچھ ذاتوں کو ’نیچ‘ کے درجے پر رکھ دیا گیا ہے)۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ جو انگریزی کتاب وہ پڑھ رہے ہیں، وہ انگریزی میں نہیں لکھی گئی، بلکہ خود کسی دوسری زبان سے کیا گیا ترجمہ ہے۔ یعنی مسئلہ ترجمہ نہیں ہوتا، بلکہ انگریزی زبان سے جڑی ’برتری‘ کی غیر منطقی سوچ ہوتی ہے۔ جس نے نفسیات میں گھر کر لیا ہے۔ یہ پوسٹ کولونیل دور کی ایک حقیقت ہے۔ اور قابل ہم دردی بھی۔

    اردو ترجمے سے متعلق عام طور سے ترجمے کے کئی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ مجھے ان میں سے کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، میں ان میں دو مزید اہم نکتے شامل کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اسے عام قارئین کے لیے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہو، کیوں کہ اس قسم کی باتیں مخصوص اصطلاحات میں کی جاتی ہیں، تاکہ طویل وضاحتی اقتباسات سے بچا جا سکے، ورنہ ایک ہی بات کے متعدد پہلوؤں کو تفصیلاً بیان کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ میری بات سہولت سے سمجھ میں آ سکے۔

    ثقافتی ڈسکورس (کلامیہ): تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ یعنی جس زبان میں ادب لکھا گیا ہے، وہ زبان جس معاشرے میں بولی جاتی ہے، اس معاشرے میں وہ زبان کس طرح اور کیوں معنی سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک عام جملہ گرائمر کے اصولوں کی پیروی کرتا ہے، لیکن ایک ڈسکورس جملے اور جملوں کے درمیان ربط سے پیدا ہونے والا ایک نیا معنیٰ ہے، جو زیادہ تر سیاسی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی کالونی کے طور پر برصغیر سے متعلق یہ جملہ بہت عام رہا ہے، اور لوگ اسے اپنے مضامین میں کوٹ کرتے رہے ہیں: ’’برصغیر کے عوام ثقافتی اور علمی طور پر پس ماندہ ہیں۔‘‘ اپنے ظاہری معنی میں یہ ایک عام سا جملہ تھا لیکن دراصل یہ کالونیل دور کے ’’آقاؤں‘‘ کا انھیں ’’تہذیب یافتہ‘‘ کرنے کا حیلہ تھا۔ اسی سے جڑا ہوا ایک جملہ اب بھی عام ہے، ’’برصغیر کے عوام آج تک ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکے‘‘ یہ بھی اپنے ظاہری معنی سے کہیں زیادہ معنی اور سیاسی معنی کا حامل جملہ ہے۔ اس کے ذریعے آج کے پوسٹ کالونیل دور کے ’’آقا‘‘ ان افراد پر حملہ کرتے ہیں جو ’’مقامی سامراج‘‘ کو بے نقاب کرتے ہیں اور وہ جواب میں انھیں کبھی ’’مغرب کے پروردہ‘‘ کبھی وطن اور کبھی دین کے ’’غدار‘‘ قرار دیتے ہیں۔

    کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے معاشرے کے لوگوں کی سوچ کتنی تہہ دار ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے رہنما اصول کس گہرائی کے ساتھ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔

    معنی کا فہم: مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟

    یعنی مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے، تو محض اس کا قاموسی معنیٰ (لغت/ڈکشنری) ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزا محسوس ہوتے ہیں۔ اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    لغت میں مترجم کو متبادل لفظ تو مل جائے گا، لیکن جیسا کہ ساختیات بتاتی ہے کہ معنیٰ کا بھی معنیٰ ہوتا ہے، اگر اس معنی کا فہم حاصل نہیں ہو سکا ہے تو ترجمے کے عمل میں ثقافتی صورت حال ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے۔ ایک عام سے جملے کا ایک عام سا ترجمہ ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اس جملے کا ایک معنیٰ تہذیبی اور سیاسی تناظر میں بھی تشکیل پاتا ہے، اس معنی تک پہنچنے کے لیے مترجم کو ڈسکورس کے جدید لسانیاتی اور فلسفیانہ تصور سے شناسائی مددگار ہوتی ہے۔

    اوپر میں نے زبان کے محاسن کی بات کی ہے، اس کا اشارہ کلام کے محاسن کی طرف تھا۔ ہم اپنی گفتگوؤں اور تحاریر میں عموماً اپنے آئیڈیاز پیش کیا کرتے ہیں۔ ادب میں ہم اس مقصد کے لیے کلام کے محاسن سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اپنے بیان میں معنی کی ایک سے زائد پرتیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان ایک سے زائد اور مختلف پرتوں تک رسائی ترجمے کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اکثر اسی سبب ترجمہ ناقص قرار پاتا ہے، یا مترجم خود کو ایک مشکل صورت حال میں گرفتار پاتا ہے۔

    معنی کے فہم کے سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ تراجم کے ضمن میں عموماً یہ مذکور کیا جاتا ہے کہ معنیٰ ثقافتی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ اس بات کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ مترجم کے پاس ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے رشتہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ترجمے کے اندر بھی معنی سازی کا عمل متن کی زبان کے اپنے ثقافتی تناظر میں آگے بڑھتا ہے۔ یعنی ترجمہ اگر کسی فکشن کے متن کا ہے تو صرف کہانی ہی منتقل نہیں ہوتی، اس میں موجود ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظریات کا ایک پیکج بھی ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ مترجم اگر ثقافتی یا تہذیبی تصادم جیسے کسی نظریے پر یقین رکھتا ہو، تو اصل میں وہ نقب زن ہے مترجم نہیں۔ اپنے تصادمی سوچ کے باوجود وہ دوسری زبان کے متون میں دل چسپی لے رہا ہے لیکن ترجمے کے عمل میں اسے پورا پیکج قبول نہیں۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک طرف اگر وہ اُس متن کے معنی کے پیکج کو مسترد کرتا ہے تو دوسری طرف عین استرداد کے اُسی لمحے میں وہ معنی کے اس نظام کو منہدم کر کے اپنی پسند کی معنویت تشکیل دے دیتا ہے۔ یعنی معنی کے ایک نظام کا انہدام از خود ایک اور نظام کی تشکیل کے مترادف ہوتا ہے۔ اس طرح تصادمی سوچ ترجمے کے عمل کو مہملیت کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس عمل میں موجود ایک حماقت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے جو ترجمے کے میدان کو تہذیبوں کے تصادم کا میدان سمجھ کر کارفرما ہوتی ہے۔

    اس تمام قضیے کی جو بنیادی الجھن ہے وہ اس سوال کی صورت میں ہے کہ جس زبان کے متن کا ترجمہ ہدف ہے، کیا وہ برتر زبان ہے؟ کیا ترجمہ اس کے آگے محض حاشیائی اہمیت کا حامل ہے؟ میں نے اس پر ڈی کنسٹرکشن کو متعارف کرانے والے فلسفی ژاک دریدا کی فکر کے تناظر میں جتنا غور کیا ہے، اس کی جڑیں میں نے کسی زبان میں مسلسل آنے والی تبدیلی و ترقی کے عمل میں پیوست پائی ہیں۔ کوئی بھی متبادل لفظ ترجمے کی زبان ہی کا لفظ ہونا چاہیے، اس یونیورسل رعایت کے ساتھ کہ زبانیں مشترک الفاظ کا ایک ذخیرہ بھی رکھتی ہیں۔ زبان کو ایک اصطلاح کی منتقلی کے دوران خود کو وسعت آشنا بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ جاپانی پروفیسر کے ساتھ ژاک دریدا کی خط و کتابت میں "ڈی کنسٹرکشن” کے جاپانی متبادل پر گفتگو ہوئی اور خود انگریزی و فرانسیسی میں اس اصطلاح کے اندر موجود پیچیدگی زیر بحث آئی، لیکن دریدا کا مؤقف تھا کہ اس کا جاپانی متبادل جاپانی زبان کے اپنے پس منظر میں ہونا چاہیے۔ ایک زبان دوسری پر تسلط قائم نہیں کر سکتی۔ ایک اصطلاح کے لیے دوسری زبان میں موزوں متبادل کی تلاش کی یہ کوشش اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ زبان کے ماہرین کے درمیان یہ معمول کی ایک سرگرمی ہے۔ زبان میں اگر ترقی کا عمل جاری ہے تو وہ دیگر زبانوں کے ثقافتی پیکجز سے نہ تو گبھراتی ہے نہ اس کے آگے خود کو اس کا "دوسرا” محسوس کرتی ہے۔

  • دو سو چھ ویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو چھ ویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    "جن ایک ایسے آدمی کو جانتے ہیں جو سبز پہننا پسند کرتا ہے؟ یہ مزاحیہ ہے، ہے نا؟” حکیم ہنستے ہنستے اپنے اطراف میں ریت پر گھومنے لگا۔ ٹرین کی گرج کی طرح ایک شور نے زمین کو ہلا دیا۔ "اوہ۔ میرے جانے کا وقت۔” وہ جانے لگا لیکن ہچکچاتا رہا۔ تیزی سے بات کرتے ہوئے، اس نے کہا، "میں جانے سے پہلے، میرے پاس آپ کے لیے کچھ ہے۔ یہاں، کالم. چراغ تمہارا ہے۔ اس کی اچھی طرح حفاظت کریں اور اس کے اندر کسی جن کو نہ پھنسائیں۔ فیونا، آپ کو اور ایلسپیٹ کو اپنے تحائف کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مجھے جانا ہوگا۔ میں آپ کو چھپانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ ابھی!” جن غائب ہو گیا۔
    اچانک چراغ والا جن اچھل کر بولا ’’میرے جانے کا سمے آ گیا، میں تو نکل رہا ہوں، اور تمھیں بھی مشورہ ہے کہ کہیں چھپ جاؤ۔‘‘ ابھی وہ تینوں اس کی بات سمجھے بھی نہیں تھی، ایک طرف تو حکیم غائب ہو گیا، دوسری طرف انھوں نے اپنی طرف ایک بھورے رنگ کی دیوار تیزی سے بڑھتی دیکھی، جس میں سے گرج کی آواز آ رہی تھی۔ جبران چلایا: ’’یہ ریت کا طوفان ہے، بھاگو!‘‘ اور وہ تینوں دوڑے پڑے۔
    انھیں چھپنے کے لیے قلعے کا ایک گوشہ ملا، جہاں بیٹھ کر انھوں نے خود کو جادوئی قالین سے ڈھانپ لیا۔ قالین کے نیچے وہ ریت کے طوفان کی دہشت ناک آواز سنتے رہے۔ ریت کے ذرے انھیں ایسے چبھ رہے تھے جیسے مکھیوں کے غول ڈنک مار رہا ہو۔ شور اتنا تھا کہ انھیں کان بہرے ہونے کا احساس ہونے لگا اور ہوا اتنی گاڑھی ہو چکی تھی کہ ان کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب انھوں نے سانس لینے کی جدوجہد کی تو پھیپھڑے درد سے پھٹنے لگے۔
    اچانک ان کے ہاتھوں سے قالین بھی چھوٹ گیا۔ فیونا بہ مشکل بول پائی کہ یہ تیسرا پھندا ہے۔ ریت کے طوفان نے قالین کو اڑایا اور وہ پل بھر میں غائب ہو گیا۔ اور پھر ان کو بھی ریت نے ڈھانپنا شروع کر دیا۔ فیونا تکلیف کے عالم میں سانس روک روک بولی: ’’ہمارا دم گھٹنے والا ہے۔ ریت ہمیں ڈھانپ لے گی اور ہم سانس نہیں لے پائیں گے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں جبران اور دانیال کے حواس سے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ تینوں ایک دوسرے سے لپٹے بیٹھے تھے، اور اس عالم میں تین گھنٹے گزر گئے۔ ریت ان کی گردنوں تک جمع ہو گئی تھی، اور وہ اس میں دفن ہونے جا رہے تھے۔ طوفان تھمنے لگا تو دانیال کی ڈوبتی آواز آئی: ’’میں اپنا ہاتھ نہیں ہلا پا رہا ہوں۔‘‘
    ایسے میں فیونا کو یاد آیا کہ وہ موسم بدل سکتی ہے، اس نے جلدی سے بارش سے بھرے بادلوں کے بارے میں سوچا۔ اور ذرا دیر میں صحرا میں بارش شروع ہو گئی، ان تینوں کو اپنے چہروں پر، جو اُس وقت ریتے باہر تھے، چھینٹے پڑنے کا احساس ہوا۔ اگلے ایک گھنٹے تک بارش برسنے کے بعد ہوا میں ریت کے طوفان کے اثرات ختم ہو گئے، اور جگہ جگہ ریت میں پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں سی بن گئیں۔ دانیال نے دیکھا کہ کچھ ہی فاصلے پر جادوئی قالین بھی زمین پر گرا پڑا تھا۔
    کچھ ریت پانی میں بہہ گئی تھی اور باقی کو انھوں نے ہٹایا اور باہر نکلے، انھوں نے اپنے سروں پر قوس قزح کو دیکھا، تو ان کے موڈ کچھ بہتر ہوئے۔ ایسے میں چراغ والا جن پھر نمودار ہو گیا۔ اس نے تالی بجائی اور قالین تین گنا بڑا ہو گیا، اور اس پر ماربل کی خوب صورت میز نمودار ہو گئی جس کے پائے صندل کی لکڑی کے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ میز پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ قالین پر چار عدد خوب صورت اور نرم رنگین تکیے بھی اب نظر آ رہے تھے۔ حکیم نے کہا: ’’یہ چار اس لیے ہیں کہ اب میں بھی تم لوگوں کے ساتھ اس پر سفر کروں گا۔‘‘ اس نے بتایا ’’چاندی کے ان تین خوب صورت جگوں میں انگور، انار لیموں کا رس ہے۔ ان پلیٹوں میں انگور، کھجور، خربوزے، کیلے اور کیوی کے پھل چنے گئے ہیں جنھیں کاٹا گیا ہے۔ اور ان پلیٹوں میں چکن، گائے کا بھنا گوشت، مسالے دار چٹنی، میمنے کے کباب، بادام اور پائن والے چاول، اور چپاتیاں ہیں۔ اور ہاں یہ والی ڈش ملوخیہ کہلاتی ہے، یہ چکن اور چاول کے ساتھ پالک کا اسٹو ہے، اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘
    اتنی چیزیں دیکھ کر ان کی بھوک چمک اٹھی، اور چہروں پر خوشی کے اثرات اور گہرے ہو گئے۔
    جاری ہے…
  • ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    تاریخ ایک ایسی شے ہے جس کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ لوگ اس سے سبق لیتے ہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟ ایسا کون سا نمایاں سبق ہے جو گزشتہ پانچ سو سالوں سے نہایت تیزی سے ترقی کرتے انسان نے تاریخ سے حاصل کیا ہے، اور اسے مد نظر بھی رکھا؟

    تاریخ ایک ایسا اندھیرا ہے جس میں چلنے والی گولی کے بارے میں کبھی پتا نہیں چلتا کہ ٹریگر دبانے والا کون تھا! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کے صفحے پر جا بہ جا روشنی کے دائرے بنے نظر آتے ہیں لیکن ان روشن دائروں کے آس پاس ایسے ان گنت دائرے بھی بنے ہوئے ہیں جو تیز روشنیوں میں دکھائی نہیں دیتے، یہی تاریخ کے صفحے کے وہ اندھیرے دائرے ہیں جن میں رونما ہونے والے درد ناک واقعات صدیوں سے سسک رہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا، محض چند عشروں کی سیاہی کے آگے بھی یہ ’سچ سنانے کی ہمت‘ جٹا نہیں پائے۔ ایسے واقعات میں ایک واقعہ 14 سالہ ننھے جاں باز اقبال مسیح کا بھی ہے، جس کا سینہ منھ اندھیرے رائفل سے داغ دیا گیا۔ بندوق کی دھمک تھی یا ایک روشن روح پر اندھیرے شیطان کا بھیانک حملہ، کہ پیچھے کھڑی پرانی سی سائیکل لرز کر مٹی پر گر پڑی۔

    قصہ ایک ڈاکیومنٹری کا

    راوا (Rava) ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے ایسے گوشے ’بے نقاب‘ کیے جا رہے ہیں، جو اپنے وقت پر تو اخبار کی محض ایک سُرخی بن کر رہ گئے تھے، تاہم کہیں پر ان روشن اور کہیں پر ان تاریک دائروں میں بہت سارا ’سچ‘ یا تو ہمیشہ کے لیے دب گیا، یا اس طرح لوگوں کے سامنے ابھر کر نہ آ سکا، جس طرح آنا چاہیے تھا۔ راوا فلمز نے یہ کہانیاں تاریخ کی مٹی کھود کر نکالیں اور انھیں اسکرین کی زینت بنا دیا۔ دل چسپ امر یہ ہے ایک طرف جب کہ پاکستان میں سنیما انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، دوسری طرف راوا فلمز کے تحت بننے والی ڈاکیومنٹری فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما اسکریننگ ہو رہی ہے؛ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور جرات مندانہ قدم ہے۔ راوا نے اپنا مشن بنایا ہوا ہے کہ پاکستان میں اس ژانرا کو فروغ ملے، اسی لیے تواتر کے ساتھ نہایت منفرد موضوعات پر ڈاکیومنٹریز بنائی جا رہی ہیں۔

    راوا نے اپنے یو ٹیوب چینل پر جو تازہ ترین ڈاکیومنٹری جاری کی ہے، اس کا عنوان ہے: ’’قتل معصوم _ اقبال مسیح _ ننھا جاں باز‘‘ جس کی اسکریننگ حسبِ سابق طارق روڈ پر واقع ارینا سنیما میں کی گئی۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟یہ ڈاکیومنٹری سید عاطف علی نے بنائی ہے، ڈراما انڈسٹری میں اپنا آخری ڈراما ’خان‘ بنانے کے بعد انھوں نے اگلے پڑاؤ کی طرف سفر شروع کیا، انھوں نے فلمیں ’پری‘ (2018) اور ’پیچھے تو دیکھو‘ (2022) بنائیں، اور اب راوا ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت انھیں ’فری ہینڈ‘ مل گیا ہے کہ وہ جس موضوع پر چاہے ڈاکیومنٹری بنا لیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈراما ہو یا فلم میکنگ، ناظرین کو نئے تجربات سے روشناس کرایا جائے، انھیں سماج کے ایسے گوشوں اور ایسے تصورات سے متعارف کرایا جائے جو انھیں کچھ نیا سوچنے پر مائل کر سکے، چناں چہ انھوں نے سرپھری عشق کے نام سے بھی ایسا ہی ایک ڈراما بنایا تھا جو محرم پر ہم ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا۔ اب انھوں نے ڈاکیومنٹریز کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جو مختلف رنگوں کے ان گنت شیڈز سے بھری ہوئی ہے۔ راوا کے روح رواں سابق بریگیڈیئر طارق رفیق کے ساتھ مل کر عاطف علی نے متعدد ڈاکیومنٹریز ’تخلیق‘ کی ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین تخلیق ایک ایسے 14 سالہ بچے کی کہانی ہے جس نے پاکستان میں ’بونڈڈ لیبر‘ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک کہانی جو درد بھری ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر دیتی ہے۔ اس کا اسکرین پلے بھی سید عاطف علی نے بلال حسین کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔

    فیکٹری میں بچے گروی رکھیں

    آج جب کہ پاکستان کے جدید شہروں بلکہ دیہات تک میں بھی کوئی اس بات کو سوچ نہیں سکتا کہ ننھے بچوں کو گروی رکھ کر بھی سرمایہ داروں سے قرض کا حصول کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود یہ قبیح حمل کہیں نہ کہیں جاری ہے۔ یہ مزدوری کی ایک نہایت غلیظ شکل تھی جس میں ایک شخص کارخانہ دار سے قرض لیتا اور اسے چکانے کے لیے پھر اپنے بچے بہ طور مزدور گروی رکھ کر لگوا دیتا۔ یہ بچے اپنے باپ کے لیے گئے قرض کی رقم اپنی محنت سے چکاتے۔ اسے ’بونڈڈ چائلڈ لیبر‘ کہا جاتا ہے، جو زیادہ تر ملک میں قالین بافی کی صنعت میں رائج تھی۔ اس نے ہزاروں بچوں سے ان کی معصومیت چھینی، کھیلنے کودنے کے دن چھین کر ان پر گھر کا قرض چکانے کا سنگین ترین بار ڈالا۔ پاکستان میں بننے والے قالین بیرون ملک جاتے تھے اور ملکی برآمدات کا یہ ایک اہم ذریعہ تھا، ایک ایسا ذریعہ جس میں مصنوعات بچوں کے خون سے رنگ تھیں۔
    خون کا یہی رنگ دکھانے کے لیے سید عاطف علی اور راوا فلمز نے ’’اقبال مسیح‘‘ کے نام سے یہ ڈاکیومنٹری بنائی ہے۔

    اقبال مسیح سے ملیے!

    16 اپریل 1995 ک شام تھی جب رکھ باؤلی کے اطراف کھیتوں میں دو فائر گونجے اور ایک چودہ سالہ بچے کی لاش مٹی پر گر گئی۔ یہ ضلع شیخوپورہ کے قصبے مریدکے کے گاؤں رکھ باؤلی کا قصہ ہے جہاں 1983 میں اقبال مسیح پیدا ہوا تھا۔ اس کے بڑے بھائی کی شادی پر والد نے ارشد نامی ایک قالین باف سے قرض لیا اور پھر ادائیگی نہ کر سکنے پر اقبال کو محض 4 سال کی عمر میں اس کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور وہ اس طرح دن میں چودہ گھنٹے قالین بنانے کے کام پر لگ گیا لیکن وہ قرض کبھی ادا نہ ہوا۔ دس سال کی عمر میں وہ ایک دن آخر کار غلامی کا یہ پھٹہ اتار کر بھاگ گیا لیکن نو آبادیاتی نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے مامور پولیس نے اسے پکڑ کر پھر کارخانے دار کے حوالے کر دیا۔ بھاگنے کی کوششوں میں آخرکار ایک دن وہ کامیاب ہو گیا، اور چائلڈ لیبر کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کے پاس جا پہنچا، جس کا نام تھا ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘ (بی ایل ایل ایف)۔ یہ تنظیم اس دکھ بھری کتھا کا ایک اہم حصہ ہے اور خود اس پر بھی الزام ہے کہ اس درد بھری کہانی کو جنم دینے میں اس کا بھی کوئی ’نادیدہ کردار‘ ہے۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟

    گیارہ سال کی عمر میں بھی 4 فٹ سے کم قد والے اقبال مسیح کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی، اور چہرے مہرے کے ایسے نقوش تھے کہ جبری مشقت کے شکار بچوں کے لیے جب وہ تحریک کا حصہ بنا تو جس طرح جنگل میں آگ پھیلتی ہے، اسی طرح اس کی شہرت پاکستان سے نکل کر عالمی سطح پر پہنچ گئی۔ اسے عالمی سطح پر زندگی میں اور بعد از مرگ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جس دن اس کی ننھی زندگی کا چراغ گُل کر دیا گیا، وہ دن پاکستان میں قالین سازی پر بہت بھاری پڑا، اور دنیا نے جلد ہی پاکستانی قالین قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اس میں معصوم بچوں کے ارمانوں اور ان کے مستقبل کا خون شامل ہے۔

    اقبال مسیح کو کس نے مارا؟

    یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں جتنی بھی کوششیں کی گئیں، بار آور نہ ہو سکیں۔ عالمی دباؤ اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی خصوصی ہدایات کے باوجود ایک دن اس کیس کو ہمیشہ کے لیے فائلوں میں بند کر دیا گیا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جس ملک میں لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا آج تک کوئی تعین نہیں ہو سکا، تو وہاں اقبال مسیح کے قاتل کیسے پکڑے جائیں گے۔ لیکن راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے اس موضوع کو ایک بار پھر بند فائلوں کی گرد جھاڑ کر باہر نکال لیا ہے۔ اور سید عاطف علی نے اپنی فلم میکنگ اور ہدایت کاری کے شان دار ہنر کو بروئے کار لا کر اتنی خوب صورتی سے اسے ’تخلیق‘ کی سطح پر لا کر پیش کیا ہے کہ دیکھنے والا آخری لمحے تک یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کوئی فیچر فلم نہیں ایک سچی کہانی ایک ڈاکیومنٹری دیکھ رہا ہے، جس میں کوئی فکشن نہیں ہے جو اسے حقیقت کی دنیا سے دور لے جا کر مبہوت کر دینے والے مناظر میں گم کر دے۔ فلم اور ڈرامے کے معروف نقاد حنیف سحر نے اس ڈاکیومنٹری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’راوا ڈاکیو منٹریز میں مسلسل نکھار آ رہا ہے، ہر نئی ڈاکیومنٹری پہلے سے زیادہ مستند اور سنیما ٹوگرافی کے کمالات کے اضافے کا ایک اطلاع نامہ ثابت ہو رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا ’’پہلی بار ایسا معلوم ہوا کہ عاطف علی نے اپنے ڈرامے کے تجربے کو بہت ہی مہین اور خاموش پیرائے میں نفاست سے استعمال کیا، وہ بھی ایسے کہ احساسات درہم برہم ہوئے اور پتا بھی نہیں چلا کہ آپ ڈراما نہیں بلکہ ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    آپ ڈاکیومنٹری دیکھ لیتے ہیں اور سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اقبال مسیح کو کس نے مارا؟ اور ایک ضمنی سوال یہ بھی کہ گولی کس نے چلائی تھی؟ اس بات سے یہ غلط فہمی نہ ابھرے کہ اگر جواب فراہم نہیں ہوا تو اس ڈاکیومنٹری کا مقصد کیا تھا۔ مقصد تو بہت واضح ہے کہ تاریخ کے ایک تاریک دائرے میں چھپے اس دردناک کہانی کے ’سچ‘ کی تلاش میں جنھوں نے امیدیں تج دی تھیں، اور تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، انھیں پھر چونکایا جا سکے کہ ان پر ایک قرض یہ بھی ہے کہ وہ اقبال مسیح کے قاتلوں کا پتا چلائیں۔

    ڈاکیومنٹری پر سوال

    راوا کی اس خوب صورت پیش کش میں سنیماٹوگرافی، ویژولز اور ایڈیٹنگ کا بہترین کام کیا گیا ہے۔ بالخصوص کرائم سین کی پیش کش بے حد عمدہ ہے۔ ساؤنڈ ایفکٹس میں بھی کوئی خامی نہیں رہنے دی گئی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ ہم کوئی عالمی معیار کی ڈاکیومنٹری نہیں دیکھ رہے ہیں، محدود وسائل میں، بلاشبہ، یہ ایک عالمی معیار کی پیش کش ہے۔

    لیکن اس ڈاکومنٹری کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کی کہانی/اسکرین پلے میں ایک اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہ طور ریسرچر فہمیدہ یوسفی اور بلال حسین نے اس قصے کے اہم پہلوؤں کو جمع کیا، لیکن بہ طور حساس رائٹر شاید عاطف علی سے بونڈڈ چائلڈ لیبر کا یہ سماجی ثقافتی پہلو نظر انداز ہو گیا کہ ایک خاندان کس طرح اپنے قرضوں کا بوجھ ایک معصوم چار سالہ بچے پر لاد سکتا ہے؟ چناں چہ، اس پیش کش میں ہمیں اقبال مسیح کے بھائیوں کی مظلومیت پوری طرح دکھائی دیتی ہے لیکن ان سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ ایک بڑے بھائی کی شادی کا قرضہ ایک معصوم بچے کے خون سے ادا کرنے کے لیے انھوں نے رضا مندی کیسے دکھائی؟ ایک غریب ہمیشہ خود کو غریب کہلوا کر بڑے سے بڑے سماجی اور اخلاقی جرائم کی ذمہ داری سے خود کو بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ یہی ایک موقع تھا جب انھیں اس کڑے سوال کا سامنا ضرور کرنا تھا۔

    یہ ڈاکیومنٹری اپنے آغاز ہی سے ناظرین کو پوری طرح جکڑنے کی خاصیت رکھتی ہے۔ اس میں جذبات اور رشتوں اور سیاسی سفاکیوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس لیے بلاشبہ یہ سید عاطف علی کی اب تک بہترین کاوش ہے۔ لیکن اپنے مواد (کونٹینٹ) کے اعتبار سے اس میں ایک چونکانے والا موقع وہاں آتا ہے جب اچانک ڈاکیومنٹری کی فضا بدل جاتی ہے اور ایک مجرم ہونے کا سارا فوکس این جی او ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘کے سربراہ احسان اللہ خان پر آ جاتا ہے۔ یہ اتنی چابک دستی سے ہوتا ہے کہ ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا یہی اس ڈاکیومنٹری کا مقصد ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کے اسٹائل پر اچانک مرکوز ہوتی یہ توجہ آخر کار دھیرے دھیرے تحلیل ہونے لگتی ہے لیکن ذہن میں اپنے پیچھے دھوئیں کی ایک لکیر ضرور چھوڑ جاتی ہے۔

    اور اختتام پر پہنچنے کے بعد ایک ہی سوال ذہن میں رہ جاتا ہے، ایک دکھ بھرا سوال ۔۔۔۔ کیا اس معصوم بچے کے قاتل کا کبھی پتا نہیں چل پائے گا؟ یہ تو ایک اور دھبّا ہوگا جو یہاں کی ۔۔۔۔ ہمارے پاکستان کی ’’مقامی انسانیت‘‘ کو مزید داغ دار کرے گا۔ بلاشبہ جس انسانیت کا معیار دنیا میں اب رائج ہے، ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں۔ ہمارے لیے اب بھی دنیا ہمارے نو آبادیاتی سماج میں سمٹی ہوئی ہے جہاں اقبال مسیح کی موت ایک غریب بچے کی موت ہے، ایسی موت جو یہاں روز کسی نہ کسی بہانے واقع ہوتی رہتی ہے۔۔۔ اور اربابِ اختیار کہہ دیتے ہیں اقبال مسیح مر گیا، تو کیا ہوا، اسے مرنا ہی تھا، اب دوسری دنیا میں سکون سے جی رہا ہوگا!

  • مارکیز کا آخری ناول اور انعام ندیم کا ترجمہ

    مارکیز کا آخری ناول اور انعام ندیم کا ترجمہ

    اردو میں غیر ملکی ادب کے تراجم کا سلسلہ کم و بیش اردو فکشن جتنا پرانا ہے۔ آپ میر امن دہلوی تک جائیں یا ان سے بھی قبل ملا وجہی تک، اردو ترجمہ اور فکشن کا ساتھ بہت پرانا اور ابتدائی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے تراجم کے سلسلے میں ایک نمایاں جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، شاید اشاعتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں ایک مثبت اشارہ پایا جاتا ہے، اگرچہ یہ مترجِمین کے لیے اب بھی کوئی منافع بخش عمل نہیں ہے۔ شاید کوئی پبلشر آپ سے آپ کا ناول اتنے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کرے جتنے اطمینان کے ساتھ کوئی ترجمہ قبول کرے۔

    تراجم کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اس سلسلے میں جو سب سے اہم بات ہے، وہ یہ ہے کہ، تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان  ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔ جو دو زبانوں اور دو ثقافتوں کے درمیان معاملہ کررہا ہے۔

    ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“

    اسی طرح مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟ مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے تو محض اس کا قاموسی معنیٰ ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزہ محسوس ہوتے ہیں اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“ یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ہر کام آسان چاہیے، یا یہ کہ جتنا لکھا ہے، اُسے کافی سمجھا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ناول لکھ رہا ہے تو یہ اس کے تخلیقی جذبے کی سنجیدگی کا غماز عمل ہے۔ لیکن اگر وہ غیر ملکی ادب کا ترجمہ کر رہا ہے تو اس میں تخلیقی جذبہ کارفرما تو ہے ہی، اس میں فکری سنجیدگی کی ایک اعلیٰ سطح بھی کارفرما ہے۔ اس کے بغیر ترجمے کا سارا عمل ہی بے معنی اور مہمل ہو جاتا ہے۔ تو یہاں سنجیدگی کا اتنا بار ہے، ایسے میں ترجمے کے عمل کے سلسلے میں یہ جملہ بولنا یا لکھنا کہ ”یہ کوئی آسان کام نہیں“ خود ایک مہمل بات ہے۔ ترجمہ کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو، مترجم کا بے پناہ جذبہ اسے اس کے لیے ممکن بنا دیتا ہے۔

    ترجمہ خود میری پروفیشنل لائف کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ میں ٹائم اور نیوز ویک کی ٹائٹل اسٹوریز ترجمہ کرتا رہا ہوں۔ آرٹ بک والڈ کے کالم ترجمہ کرتے ہوئے کئی بار مجھے دانتوں تلے پسینہ آیا۔ نوبیل انعام یافتہ شیمس ہینی کی نظمیں ترجمہ کرتے ہوئے اس عمل میں مستور بے پناہ سنجیدگی کی ضرورت کو میں نے گہرائی سے محسوس کیا۔ اور حال ہی میں ژاک دریدا کے ایک مضمون کا ترجمہ کرتے ہوئے میں نے اس اضطراب کو محسوس کیا جو کسی اور زبان کے متن کے زیادہ سے زیادہ درست مفہوم تک رسائی کے لیے بار بار ایڈیٹنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔

    میڈیا سے وابستگی نے ترجمے کے عمل کی کچھ باریکیوں سے بھی روشناس کرایا۔ ان میں ایک یہ بھی شامل ہے جس کی مثال میں نے اس کتاب میں مارکیز کے تعارف والے صفحے پر پائی۔ لکھا ہے کہ مارکیز کی دیگر تصانیف میں ”وبا کے دنوں میں محبت“ ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“ وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ مارکیز نے ان عنوانات سے کوئی ناول نہیں لکھے۔ ہم سمیت پوری دنیا تک یہ ناول انگریزی زبان میں پہنچے ہیں۔ کسی بھی ناول کا ترجمہ کرتے ہوئے کتاب پر عنوان کا بھی ترجمہ کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے، لیکن مصنف کے ناولوں کی فہرست اگر مذکور کرنی ہو تو پھر ان عنوانات کا ترجمہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ انٹرنیٹ پر ہم انگریزی عنوان ہی لکھ کر اس کے بارے میں دستیاب تمام معلومات تک رسائی کر سکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ انعام ندیم کے تعارف میں کتابوں کے عنوانات میں یہ غلطی نہیں دہرائی گئی ہے۔

    ترجمہ کرتے ہوئے ایک بہت عام غلطی بار بار دہرائی جاتی ہے، لفظ کا ترجمہ ہو جاتا ہے لیکن احساس کی ترجمانی رہ جاتی ہے۔ مترجم کو متن کی قرات کے دوران الفاظ اور جملوں کے قاموسی مفہوم پر پوری توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے لیکن اچھا مترجم ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی لفظ یا جملہ پڑھ کر جو مفہوم اس کے ذہن میں آ رہا ہے، وہ تو ایک طرف، لیکن اسے پڑھ کر اسے محسوس کیا ہوا ہے، یہ اس کے لیے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ادبی تراجم تب تک مکمل نہیں ہو پاتے جب تک متن کے پیدا کردہ احساس تک رسائی نہیں کی جاتی۔ ہم ایسے بھی تراجم دیکھتے ہیں جو نہ تو ہمارے اندر کوئی قابل قدر احساس پیدا کرتے ہیں، نہ ان سے مصنف کے فن کے بارے میں کوئی قابل قدر خیال جنم لیتا ہے۔ مجھے انعام ندیم کا یہ ترجمہ پڑھتے ہوئے خوشی ہوئی کہ انھوں نے مارکیز کے احساس کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔

    ابھی جب میں ثقافتی ڈسکورس کی بات کر رہا تھا، تو شاید کسی کے ذہن میں اس کے شناخت کیے جانے کا سوال اٹھا ہو۔ یعنی یہ کسی بھی چیز کے مفہوم پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ ایک جگہ تو یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ اسے بالکل ٹھیک ٹرانسلیٹ کر لیں، اور ایک جگہ آپ کو اس سے بچنا ہوتا ہے کہ کہیں کسی لفظ کا ترجمہ کرتے ہوئے اضافی ڈسکورس شامل نہ ہو جائے۔ میں اس کی مثال اس کتاب سے دینا چاہتا ہوں۔ اردو ترجمے میں اینا مگدالینا جب سفر سے گھر لوٹتی ہے تو شوہر سے بات کرتے ہوئے دو بار لفظ ’’طہارت‘‘ ادا کرتی ہے۔ یہ لفظ پڑھتے ہوئے ذہن کو جھٹکا لگتا ہے کہ کیا وہ شریعت محمدی پر عمل پیرا تھی! طہارت اور پاکیزگی ایسی اصطلاحات ہیں جو جسم کی صفائی سے کہیں بڑھ کر مفہوم کی حامل ہیں۔ اگر اینا مگدالینا کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ اس کے جسم سے پسینے کی وجہ سے بو آ رہی ہے، تو اس کے لیے زبان کسی اور لفظ کا تقاضا کرتا ہے، جو اضافی مفاہیم سے Loaded نہ ہو۔

    انعام ندیم نے چھ ناول ترجمہ کیے ہیں، اور ان کا یہ پہلا ترجمہ ہے جو میں پڑھ سکا ہوں۔ انھوں نے انگریزی جملے کی ساخت کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مارکیز نے کس قسم کے جملوں کی مدد سے کہانی سناتے ہوئے جذبات سے بھری ہوئی سچویشنز تخلیق کی ہیں۔ مارکیز کی داستان گوئی ہمارے اس دور کی ایک مثالی داستان گوئی ہے۔ یہ بات میں نہ صرف دوسروں کی تقلید میں کہہ رہا ہوں بلکہ خود میری بھی اس وجہ سے یہی رائے ہے کہ ان کے ناول پڑھتے ہوئے میں ان میں پوری طرح خود کو کھو دیتا ہوں۔ مارکیز کا یہ فن اس ناولٹ میں بہت ہی سکڑی ہوئی حالت میں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مارکیز نے بے حد اختصار سے کام لیا ہے، جس کی وجہ سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے ایک طویل داستان کی تلخیص پیش کی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک تلخیص میں تمام داستانوی رنگوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے، ایسے میں انگریزی کے مقابل اردو جیسی چھوٹی زبان میں اس کی منتقلی کسی چیلنج سے کم امر نہیں۔ انعام ندیم نے اس چیلنج کو قبول کیا، اور مارکیز کے ناول کا انگریزی ترجمہ Until August کے عنوان سے مارکیٹ میں آتے ہی ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر اس کا اردو ترجمہ ’’ملتے ہیں اگست میں‘‘ کے عنوان سے پیش کر دیا۔

    مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔

    یہ ناول ایک خاتون کی جنسی سرگرمیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس کا بنیادی سرا ایک پُراسرار معاملے سے جڑا ہے۔ یہ مارکیز کا دستخطی اسٹائل ہے، وہ اپنے ناولوں میں جادوئی حقیقت نگاری کا عنصر اسی طرح لے کر آتے ہیں۔ مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔ انعام ندیم نے ایسے حصوں سے گزرتے ہوئے پوری طرح اپنے ہنر کا اظہار کیا ہے اور بعض مقامات کو رواں اور خوب صورت نثر میں منتقل کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور دل پذیر ترجمہ ہے، اور اسے بک کارنر نے بہت خوب صورتی سے چھاپا ہے۔ اس کتاب کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ انعام ندیم نے صرف ناول ہی نہیں، بلکہ وہ مسودہ جسے مارکیز نے خود ایڈٹ کیا تھا، وہ بھی اس کتاب کا حصہ بنا دیا ہے۔

  • دو سو دو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو دو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اونٹ کے جانے کے بعد فیونا اور وہ دونوں قصر کے دروازے میں داخل ہو گئے۔ اندر بھی گرمی تھی، اور آس پاس کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ باقی دونوں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے جب کہ دانیال نے یہ کہہ کر کہ وہ تو اپنا جادوئی چراغ بھول ہی گیا ہے، اسے نکال لیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا یہ بس ایک چراغ ہے، یہاں لوگ انھیں تیل جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیوں کہ یہاں بہت سے لوگوں کے پاس بجلی نہیں ہے۔

    دانیال نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی، اور چند قدم آگے بڑھ کر قلعے کی پتھر کی اونچی دیوار کے سائے میں بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنی ہلکی نیلی قمیض کا کونا پکڑ کر چراغ پر رگڑا تاکہ اسے صاف کرے، کہ اگلے ہی لمحے وہ بری طرح اچھل پڑا۔ چراغ ایک دم سے گرم ہو کر لرزنے لگا تھا اور اس میں سے ایک عجیب سا ڈراؤنا شور نکلنے لگا۔ اس نے گھبرا کر چراغ ہاتھوں سے گرا دیا۔ اور دوڑ کر فیونا کے پاس چلا گیا۔ فیونا اس کے چہرے کی حالت اور منھ سے نکلتی ٹوٹی پھوٹی بات سن کر ہنسنے لگی۔ ’’دانی، یہاں صرف ایک ہی چیز ہے جو عجیب و غریب حرکتیں کر رہی ہے، اور وہ تم ہو۔‘‘

    دانیال نے کہا اگر تم لوگوں کو یقین نہیں ہے تو آؤ خود دیکھو۔ فیونا نے مذاق اڑاتے ہوئے جبران سے کہا آؤ دانی ہمیں چراغ والا جن دکھائے گا۔ وہ جیسے ہی اس کونے میں پہنچے جہاں دانیال نے چراغ گرایا تھا تو انھیں چکر کاٹتے سبز دھوئیں نے گھیر لیا۔ دانی نے جلدی سے بتایا کہ یہ چراغ میں سے نکلا ہے۔ وہ دونوں بھی حیرت سے سبز دھوئیں کو دیکھنے لگے، دانیال کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی، کیوں کہ وہ سچا ثابت ہوا تھا۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں نے انسانی شکل اختیار کر لی۔ دانیال چیخا: ’’یہ دیکھو، میں نے کہا تھا نا کہ یہ جینی ہے!‘‘

    ان کے سامنے کھڑی مخلوق نے ناراض اور گونجتی ہوئی آواز میں کہا ’’میں تمھیں عورت دکھائی دیتی ہوں کیا؟ میں جینی نہیں جن ہوں۔‘‘

    فیونا نے نوٹ کیا کہ اس کی دھوئیں جیسی جلد ہلکی سبز تھی، سر پر ایک چمک دار سلنڈر سی سبز ٹوپی جمی تھی، جس کے اوپری سرے پر ایک پھندنا لٹک رہا تھا، اس کی پینٹ دیودار کے درخت کی طرح تھیلی دار اور گہرے سبز رنگ کی تھی، جب کہ زیتون ایسی سبز واسکٹ پہنی تھی جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ وہ موٹے بازوؤں والا جن تھا اور اس نے پیروں میں سنہری چپل پہنی ہوئی تھی۔
    اچانک دانیال نے پوچھا ’’کیا تم ہماری تین خواہشات پوری کرو گے؟‘‘

    جن نے ایک بار پھر ناراض ہوتے ہوئے کہا ’’میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ایک جن ہوں، اور جن خواہشات پوری نہیں کرتے بلکہ جینی کرتی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا ’’مجھے اس فرق کا نہیں پتا۔ تم ایک جادوئی چراغ سے آئے ہو، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک جن ہو اور خواہشات پوری کر سکتے ہو۔‘‘

    جن نے کہا میرا نام حکیم ہے، میں سلطان دیبوجی کے زمانے کا ایک جن ہوں۔ مجھ سے بس تھوڑا سا بکری کا دودھ گر گیا تھا جس پر سلطان نے مجھے پیتل کے اس چراغ میں بند کر دیا۔ ویسے یہ کون سی صدی ہے؟ جبران نے جواب دیا کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ وہ اچھل کر بولا ’’اس کا مطلب ہے کہ میں اس چراغ میں 1200 سال سے بند ہوں؟ بکری کا تھوڑا سا دودھ گرنے کے لیے۔‘‘

    کچھ لمحوں بعد وہ خوش ہو کر بولا آپ سب کا شکریہ، میں اب خوش ہوں کہ آزاد ہو گیا ہوں۔ مجھے اب جانا چاہیے۔ ویسے تم لوگوں نے ٹوپیاں اچھی پہنی ہیں۔ دانیال نے چیخ کر کہا ’’رکو ذرا، تمھیں ہماری تین خواہشیں پوری کرنی چاہیے، ہم نے تمھیں آزاد جو کیا ہے۔‘‘ لیکن جن نے کہا ہرگز نہیں۔ اس پر دانیال نے کہا اچھا دو خواہشیں تو پوری کرو، لیکن جن نے انکار میں سر ہلایا۔ ایسے میں فیونا نے مسکرا کر کہا چلو ایک خواہش ہی پوری کر دو۔ پر جن نے کہا ’’بالکل نہیں، ہاں، میں آپ کو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں۔‘‘

    فیونا جلدی سے بولی’’ ہمیں مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ جن نے کہا تو کیا جادوئی قالین چلے گا؟ دانیال اچھل کر بولا اوہ کیوں نہیں، زبردست۔ اس پر حکیم نے اپنا سبز دھواں دار ہاتھ ہوا میں لہرایا اور عربی میں کچھ بڑبڑایا، اگلے ہی لمحے ان کے قدموں میں ایک جادوئی قالین بچھا نظر آ رہا تھا۔ انھیں یہ بالکل ویسا ہی لگا جیسا کہ انھوں نے مادبا میں دیکھا تھا۔ حکیم نے بتایا کہ انھیں صرف جادوئی لفظ دہرانا ہے اور یہ اڑنے لگے گا۔ اور جب وہ واپس جائیں تو اس قالین کو قصر میں چھوڑ کر جائیں۔ سلامہ ۔۔۔ اب میں جا رہا ہوں میری نئی آزادی مجھے بلا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا۔

    فیونا نے اچانک کہا کہ جن نے تو وہ جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں، اب ہم اس پر کیسے اڑیں گے؟‘‘ وہ جن کو بار بار آوازیں دینے لگے لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ وہ تھک کر وہاں بیٹھ گئے۔ جبران نے فیونا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ یاقوت کہاں ہے؟ کیا اس قلعے میں ہے؟ فیونا نے بتایا کہ وہ یہیں پر ہے لیکن اسے صرف سورج نکلنے کے وقت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

    جبران حیران رہ گیا: ’’اس بار وقت کی یہ پابندی کیوں بھلا؟‘‘ فیونا نے حیرت انگیز بات بتائی کہ یاقوت کو صرف سورج کی روشنی میں دیکھا جا سکے گا، نہ پہلے نہ بعد میں۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سارا دن اور ساری رات یہاں بیٹھے رہنا ہے۔ فیونا تو کچھ ہی دیر میں وہاں سو گئی، جب کہ جبران ویران قلعے میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور دانیال اسکیچز بنانے لگا، اس نے دراصل جن کی تصویر بنانی تھی۔

    کئی گھنٹوں بعد جب فیونا نیند سے جاگ گئی تو جبران بھی واپس آ گیا تھا، انھیں ہلکی سی بھوک لگ رہی تھی۔ فیونا نے بیگ سے تین انار نکالے جسے دیکھ کر جبران اور دانیال خوش ہو گئے، لیکن یہ چیز فیونا کے لیے نئی تھی، اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کھانا کیسے ہے۔ جبران نے بتایا کہ اسے کھول کر اس کے اندر موجود دانے کھانے ہیں اور یہ بہت میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔

    (جاری ہے…)

  • ایک سو تریانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تریانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جیک نئے مہمان کو جسے اس نے ایڈوی کہہ کر پکارا تھا، اینگس کے گھر کے اندر لے آیا۔ جمی نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا ’’طویل عرصے بعد تمھیں دیکھ کر خوشی ہوئی جولین۔‘‘
    ایڈوی چونک اٹھا: ’’جولین … کیا مطلب، میں تو ایڈوی ہوں۔‘‘
    ’’ہاں لیکن یہ ایک الگ دنیا ہے، یہاں ایڈوی بہت عجیب لگتا ہے، اس لیے آج کے بعد سے تمھارا نام جولین ہوگا۔‘‘ جمی نے مسکرا کر کہا اور بتایا کہ ان کے نام بھی انھوں نے تبدیل کیے ہیں۔ ساتھ ہی میں اس نے اب تک گزرے واقعات کا خلاصہ بھی بیان کر دیا تاکہ جولین صورت حال سے آگاہ رہے۔ نئے مہمان نے جونی اور جیزے سے متعلق دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ دونوں فیونا اور اس کی ماں مائری کے ساتھ گئے ہیں۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ جولین کو باغبانی کا شوق رہا تھا، جس پر اینگس نے کہا کہ مائری یہ سن کر خوش ہوں گی کیوں کہ انھیں قلعہ آذر میں ان کی بہت ضرورت پڑے گی۔
    تب جولین کے چہرے پر اچانک پریشانی کے آثار نمودار ہوئے، اس نے کہا: ’’میں مائری سے اپنی ملاقات کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں، یہ سب بہت دل چسپ ہے، لیکن مجھے آپ کو خبردار کرنا چاہیے کہ محل میں کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ میں بھی باقی افراد کی طرح ٹائم پورٹل کے ذریعے یہاں آیا ہوں۔ لیکن جیسے ہی میں محل سے باہر نکلا میں نے وہاں دھوبن بد روحوں کو دیکھا جو قلعے کے اندر جا رہی تھیں۔ وہاں اور قسم کی بد روحیں بھی تھیں، یہ سب غیر معمولی تھا، کیوں کہ وہ سب کے سب ایک ہی کام کر رہی تھیں، یعنی قلعے میں جوش و خروش سے داخل ہو رہی تھیں۔‘‘
    جیفرے نے گرم چائے پیالی میں انڈیلتے ہوئے سوال کیا کہ جادوگر پہلان اور ڈریٹن اس وقت کیا کر رہے ہوں گے؟ ان کی طرف سے پریشانی لاحق رہتی ہے۔ جمی نے کہا کہ اس وقت پریشان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، سب کو اچھی سی نیند کر لینی چاہیے کیوں کہ اگلے دن فیونا اور اس کے دوستوں کے ساتھ کیمپنگ کرنے جانا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ کل کا دن بہت تھکا دینے والا ثابت ہو۔
    جب وہ سب سو گئے تو انکل اینگس نے زیلیا کی زبان میں لکھی گئی کتاب اٹھا لی اور آتش دان کے سامنے بیٹھ کر ورق گردانی کرنے لگے۔ کتاب میں کچھ علامتیں تھیں جن پر انھوں نے انگلیاں پھیر کر خود کلامی کی: ’’کاش میں سمجھ سکتا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔‘‘ پھر وہ کتاب پڑھتے پڑھتے کب نیند کی وادی میں کھو گئے، انھیں پتا بھی نہیں چلا۔
    ۔۔۔۔۔۔
    اگلے دن ناشتے کے بعد دونوں قدیم انسان یعنی جونی اور جیزے، فیونا اور اس کی ممی کے ساتھ انکل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا اور مائری کیمپنگ ٹرپ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جب وہ اینگس کے گھر پر پہنچے تو وہ سب تیار کھڑے تھے، تہہ ہونے والے خیمے تیار تھے۔ تمام انتظامات بھی مکمل تھے، ایک بڑی گاڑی کا اہتمام پہلے ہی سے ہو چکا تھا، جس میں انھوں نے تمام سامان رکھا۔ اس دوران فیونا اور مائری کا جولین کے ساتھ تعارف ہو گیا۔ جیک کو دیکھتے ہی جولین چہکا: ’’آلروئے، آپ کو دیکھ کر اچھا لگا۔ بہت لمبا عرصہ ہو گیا ہے۔‘‘ اور وہ ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اینگس نے فیونا نے اس کے دوستوں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کیوں نہیں آئے، تو فیونا نے بتایا کہ دونوں کسی اور کام میں مصروف تھے۔ اس کے بعد وہ خوب صورت پہاڑی علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔
    (جاری ہے ۔۔۔)
  • ایک سو بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’ہاں، تم سب فوری طور پر قلعہ آذر پہنچو، میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دھواں دھواں سا ہاتھ ہلایا اور بد روحیں قلعے کی طرف اڑ گئیں۔ پہلان جادوگر جنگل میں آگے کی طرف چلا گیا اور وہاں بے سدھ سوئے ہوئے ڈریٹن کے اوپر منڈلانے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’سوتے رہو بچے، جب میں تمھاری طرف متوجہ ہوں گا تب تم کئی راتوں کو سو نہیں پاؤ گے، تمھاری ہمت کیسے ہوئے میرا سونا چرانے کی۔‘‘
    شیطان جادوگر برفیلی ہوا کے جھونکے میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔ عین اسی لمحے ڈریٹن جاگ گیا۔ اسے حیرت ہوئی اور اس نے اپنے بازو رگڑے۔ اسے اچانک ٹھنڈ لگ گئی تھی۔ اسے لگا کہ قلعے میں واپس جانا چاہیے، چناں چہ وہ اٹھا اور چھپائے ہوئے سونے کو وہاں چھوڑ قلعے کی طرف چل پڑا۔
    جب پہلان قلعے میں پہنچا تو تمام قسم کی بدروحیں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ان میں خنزیر کے سر اور سرخ ٹوپیوں والی بد روحیں، جھیل کے پانی ایسی اور ایک نتھنے والی ’بین نی یے‘ نامی مادہ دھوبن بد روحیں اور پرندوں کی طرح جھنڈ میں آنے والی بد روحیں شامل تھیں۔ پہلان کے پہنچتے ہی سب بد روحیں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ روفریر نے پوچھا: ’’آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ماسٹر؟‘‘
    پہلان انھیں اپنے ساتھ لے کر سیڑھیاں اترتے ایک دروازے پر رک گیا۔ سب اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئیں۔ وہاں پہنچ کر پہلان نے کہا: ’’اس کمرے میں ایک ٹائم پورٹل ہے۔ کچھ لوگ اس سے گزر کر ماضی سے حال میں آ رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کمرے سے جو بھی شخص نکلنے کی کوشش کرے، تم لوگ اسے روکو۔‘‘ روفریر کو بہت عجیب لگا، اس نے اپنی انگارے ایسی چمکتی آنکھوں سے کمرے میں گھوم کر دیکھا اور کہا: ’’تو آپ ہم سے بس یہی چاہتے ہیں کہ ہم اس دروازے کی چوکیداری کریں اور کسی کو اس سے نکلنے نہ دیں۔ اور اس کے لیے آپ نے جھیل کے پانیوں سے یک نتھنی بد روحوں، جنگلوں سے لال ٹوپی والی بد روحوں اور مغرب کی طرف سے جھپٹنے والی ہم پرندوں ایسی بد روحوں کو بلا لیا ہے۔‘‘
    پہلان نے تیز لہجے میں کہا: ’’یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جو آدمی پورٹل کے ذریعے ادھر آ رہے ہیں، وہ کنگ کیگان کے زمانے سے آ رہے ہیں۔ وہ ایک مقصد سے یہاں آ رہے ہیں اور تم نے انھیں ہر قیمت پر یہاں روکے رکھنا ہے۔ یاد رکھنا تمھیں جو کرنا ہے وہ کرو لیکن ان میں سے کسی کو جان سے مارو گے نہیں۔‘‘ روفریر نے کہا ٹھیک ہے ماسٹر، اگرچہ کام آسان ہے لیکن آپ کے انعامات پرکشش ہیں، تو ہم خوشی سے یہ کام کریں گے۔ لیکن اچانک اس نے پوچھا: ’’ماسٹر وہ ٹائم پورٹل ہے کہاں، مجھے تو یہاں دکھائی نہیں دیتا، نہ ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘
    پہلان نے فرش سے ایک کنکر اٹھایا اور کمرے کے بیچ میں پھینک دیا۔ وہاں ایک مستطیل نما، بجلی کی چمک والی لکیروں جیسا دروازہ ایک لمحے کے لیے نمودار ہوا، پہلان نے کہا کہ یہی ہے پورٹل۔
    روفریر سے رہا نہیں گیا تو پھر سوال داغ دیا: ’’اچھا کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ پورٹل کے ذریعے آنے کی کوشش کرنے والے ان آدمیوں سے کیوں ڈر رہے ہیں؟‘‘
    پہلان نے گہری سانس لی، وہ سب کچھ نہیں بتا سکتا تھا لیکن کچھ تو بتانا تھا، اس نے کہا: ’’میں اس کی کوئی خاص وضاحت نہیں کر سکتا، ہاں ان میں سے ایک ایسا ہے جسے زیلیا کی زبان آتی ہے، اور انسانوں کے پاس میرے وطن کی ایک کتاب موجود ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ماضی سے آنے والا وہ آدمی یہ کتاب ترجمہ کر لے۔ اس لیے مجھے ان سب کو روکنا ہے۔‘‘
    ایسے میں فوفیم نے کہا: ’’ماسٹر پہلان، یہاں اس چھوٹے سے کمرے میں میرے لوگ ان تمام دیگر بد روحوں کے ساتھ بے چینی محسوس کر رہے ہیں، ہم اس دروازے کی اکیلے حفاظت کر سکتے ہیں۔‘‘ لیکن پہلان نے سختی سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم سب نے یہیں مل کر یہ کام انجام دینا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرنا ہے، اور وہ کسی بھی قسم کی گڑبڑ برداشت نہیں کرے گا۔ اگر تم ناکام ہوگے تو پھر تمھاری سزا بھی اتنی ہی بری ہوگی، جتنا انعام اچھا ہوگا۔ یہ کہہ کر پہلان انھیں اسی کمرے میں چھوڑ کر نکل گیا۔
    جب وہ قلعے کے مرکزی ہال میں پہنچا تو اسے ڈریٹن محراب والے دروازے سے اندر داخل ہوتا نظر آیا، اس نے دل میں کہا بچے، اب میں تمھارا مسئلہ بھی حل کرتا ہوں۔ ڈریٹن اپنے سلیپنگ بیگ پر لیٹ گیا تھا لیکن جیسے ہی اس نے پہلان کی شکل اپنے سامنے آتی دیکھی فواً پھر اٹھ بیٹھا اور تیز لہجے میں شکایت کی: ’’پہلان، تم نے میری کشتی اور میرا سارا سونا ڈبو دیا۔ کیوں؟‘‘
    پہلان نے کہا: ’’وہ خزانہ، سونا اور جواہرات تمھارا نہیں ہے۔ یہ سب اسی محل میں رہے گا، جب میں جادوئی گیند واپس حاصل کروں گا اور اپنے بدن میں اسی طرح واپس آ جاؤں گا جیسا کہ پہلے تھا، تو مجھے فوجیں خریدنے کے لیے خزانے کی ضرورت ہوگی۔ اب وہ خزانہ جھیل کے نیچے محفوظ ہے، میں جب چاہوں گا میں اسے نکال لوں گا۔‘‘
    ڈریٹن نے اٹھ کر چیختے ہوئے کہا: ’’تو کیا تم مجھے اس میں سے کچھ نہیں دوگے؟ میں یہاں تمھارے کہنے پر سخت محنت کر رہا ہوں اور مجھے کچھ نہیں مل رہا، یہاں تک کہ سونے کے لیے ایک بستر بھی نہیں، تو مجھے میرا حصہ کب ملے گا؟ اس میں سے کچھ سونا میرا بھی ہے۔‘‘
    جادوگر پہلان نے کہا: ’’تم نے مجھ پر چلانے کی ہمت کیسے کی۔ تمھیں سونا چاہیے اور سونے کے لیے بستر بھی چاہیے، تو لو ابھی بستر دے دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے بازو اٹھائے، اور اگلے لمحے ڈریٹن کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈل گئی تھیں۔ زنجیروں اطراف میں کھنچنے لگیں اور ڈریٹن کے بازو اور ٹانگیں اطراف میں پھیل گئیں۔ ڈریٹن تکلیف سے چلایا: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو احمق جادوگر، تمھیں میری ضرورت ہے، میرے بغیر جادوئی گیند کیسے حاصل کرو گے؟ مجھے جانے دو احمق!‘‘
    جادوگر یہ سن کر ہنس پڑا: ’’ہاں مجھے تمھاری ضرورت ہے لیکن میں تمھارے ساتھ کچھ دیر کے لیے ایسا ضرور کر سکتا ہوں۔‘‘
    ڈریٹن اب ذرا بھی حرکت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا، بازور اور ٹانگیں بری طرح مخالف سمتوں میں کھینچے جانے کی وجہ سے اس کے پٹھوں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ پھر اس کی نگاہ آدھ انچ لمبی پر پھڑپھڑاتی مخلوق پر پڑی، جن کی آنکھیں سبز چمک دار اور جسم سیاہ کوئلے کی طرح تھا، اور دم کی طرف ایک تیز سوئی جیسی نکلی ہوئی تھی۔ ڈریٹن نے بے اختیار پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ جادوگر پہلان نے بتایا کہ انھیں ریت کا کیڑا کہتے ہیں اور ان کا تعلق تمھارے ہی آبا و اجداد کی سرزمین ہیڈرومیٹم سے ہے، رولفن اور اس کے بھائی بارتولف کے زمانے میں اس مخلوق نے انسانوں کو بہت اذیت دی تھی۔ ان کا ڈنک بہت خطرناک ہوتا ہے، لیکن ڈنک لگنے کے بعد بھی تم مرو گے نہیں۔ یہ کوئی زہر نہیں ہے بلکہ سوئی کی طرح تیز درد ہوگا۔ پہلان نے کہا: ’’تم نے ٹھیک کہا کہ مجھے تمھاری ضرورت ہے لیکن اب تمھیں سبق سکھانا بھی ضروری ہو گیا ہے، میں نے تمھیں بہت برداشت کر لیا ہے، اس لیے اب درد کے اس بستر سے مزے لو۔‘‘
    ریت کے کیڑے نے ڈریٹن کے پاؤں پر ایک ڈنک مارا اور اس کی چیخ سے قلعہ گونج اٹھا، اور یکے بعد دیگرے کیڑے اسے کاٹنے لگے اور اس کی چیخوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن بنیادی طور پر ایک نہایت لالچی شخص تھا، اس لیے پل پل اس کی طبیعت بدل رہی تھی۔ جب مائری کو اس نے جھیل میں پھینکا تو کشتی کو دوبارہ اس غار کی طرف لے گیا جہاں سے قلعہ آذر میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ رات کا وقت تھا، وہ کشتی سرنگ کی طرف کھینچ کر لے گیا تاکہ کوئی اور اسے نہ ڈھونڈ سکے۔ اور پھر قلعے کی اس منزل پر چلا گیا جہاں اس نے سونا اور زیورات چھوڑے تھے۔ اس نے سوچا کہ اب اس کے پاس اتنا سونا اور جواہرات ہیں کہ اسے جادوئی گیند کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب باقی زندگی عیش سے بسر کی جا سکتی ہے۔ اس نے دل میں کہا پہلان، تم بھی بھول جاؤ اور جادوئی گیند خود حاصل کرو اب۔ میں تو اس مقابلے سے باہر ہو گیا ہوں۔ پھر اس نے خزانے سے بہت سارا ایک لکڑی کے کریٹ میں باندھا اور کشتی تک لے گیا۔ جب اس نے کشتی کے نچلے حصے میں اسے خالی کیا تو خیال آیا کہ اب اسے اپنے گھر ٹرورو کیسے پہنچاؤں گا، تب اسے جواب ملا کہ بحری راستے ہی سے جائے گا یہ۔ ڈریٹن کے لیے یہ کافی نہیں تھا، اس نے کئی چکر لگائے اور کریٹ بھر بھر کر کشتی پر لاتا رہا۔ پھر اس نے کشتی کو جھیل میں ڈال دیا۔ رات کافی پر سکون تھی، آسمان ستاروں سے ڈھکا ہوا تھا، جھیل کے پانی پر کشتی دھیرے سے تیر رہی تھی، ہوا بھی خوش گوار تھی۔ وہ تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اتنے سارے سونے جواہرات کو کہاں چھپائے گا، جہاں وہ مضبوط باکس تلاش کر کے انھیں اس میں پیک کرے گا اور پھر اپنے گھر بھیج دے گا۔
    اس کی توجہ کشتی کے نیچے پانی کی طرف چلی گئی، اسے لگا کہ پانی سیاہ سے دودھیا ہونے لگا ہے، وہ حیران ہوا اور آسمان میں چاند کی طرف دیکھا کہ کہیں یہ اس کا پھیلتا سایہ تو نہیں، لیکن ایسا نہیں تھا۔ پھر یکایک کشتی کے پچھلے کنارے کی طرف جھیل کے پانی میں ایک بھنور بن گیا اور کشتی اس کی طرف پوری قوت سے کھنچنے لگی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ جادوگر پہلان کی کارستانی ہے، اس لیے وہ پوری قوت سے دوسرے کنارے کی طرف کشتی چلانے لگا اور بھنور اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ذرا ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ جھیل کا پانی نیچے اتر کر کم ہونے لگا ہے، پانی اس گہرے بھنور میں جا کر غائب ہو رہا تھا۔ وہ چلایا: ’’پہلان، مجھے اکیلا چھوڑ دو!‘‘ لیکن صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس نے محسوس کر لیا کہ وہ سونے کی ایک چیز بھی نہیں لے جا پائے گا تو اس نے کشتی سے چھلانگ لگا دی اور کنارے کی طرف تیرنے لگا، لیکن بھنور اسے بھی اپنی طرف کھینچنے لگا۔
    آخر کار ڈریٹن نے جادو کے ذریعے اپنا قد بڑا کر دیا اور کنارے پر پہنچ گیا۔ وہاں سے وہ کشتی کو ساری دولت کے ساتھ اس بھنور میں گر کر کہیں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔ پھر وہ لمبے لمبے قدم بھرتا واپس قلعے والے کنارے کی طرف چلا گیا اور سیدھا محل جا پہنچا۔ وہ بھی ایک ضدی تھا، دولت چھوڑ کر جانا اس کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے اس نے مزید سونا اور جواہرات اٹھا کر پینٹ کی جیبوں میں خوب بھر لیے، اور پھر محل سے نکل کر قد بڑا کر کے جھیل پار کر لی۔ اب کے اس نے خود اعتمادی محسوس کی، کیوں کہ وہ سونا لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا، اور پھر وہ جنگل میں اسے کہیں چھپانے کی جگہ تلاش کرنے لگا۔ اس نے ایک درخت کا انتخاب کیا اور اس کی جڑ میں مٹی کھودی اور اپنی جیبیں اس میں خالی کر دیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ مٹی کے اس چھوٹے سے ٹیلے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس سے بے خبر کہ جھیل کی جانب سے ایک دھند اس کی طرف لپکتی آ رہی ہے۔ ہوا درختوں کے درمیان سے سرسراتے ہوئے گزر رہی تھی۔ پہلان کا دھواں جیسا وجود درختوں کے جھنڈ کے پیچھے رک گیا، اور ایک سرگوشی کے ذریعے جنگل کی تمام بد روحوں کو بلانے لگا۔ سب سے پہلے سرخ ٹوپیوں والی بدشکل بد روحیں نمودار ہو گئیں، ان کی ٹوپیاں انسانی خون سے بھیگی ہوئی تھیں۔ ’’آپ نے ہمیں بلایا ماسٹر۔‘‘ یہ فوفیم تھا جس نے آتے ہی پہلان جادوگر کے آگے سر جھکایا اور باقی سرخ ٹوپیوں والے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ’’آپ کا کیا حکم ہے آقا؟‘‘ فوفیم کے حلق سے نکلنے والی آواز خاصی کریہہ تھی۔
    پہلان نے کہا: ’’سب کو لے کر قلعہ آذر میں مجھ سے ملو۔ میرے پاس تمھارے لیے کچھ کام ہے۔‘‘
    سرخ ٹوپیوں والی بہت کریہہ قسم کی مخلوق تھی، یہ انسانوں سے بڑے تھے، ان منھ اور سر خنزیر کی مانند تھے اور گالوں پر بد نما مسّے تھے، جبڑوں سے ہاتھ دانت کی طرح دانت باہر نکلے تھے، سر کے بال غلیظ اور الجھے ہوئے، باقی جسم پر بھی لمبے لمبے بال تھے۔ اور انھوں نے پیروں میں لوہے کے زنگ آلود جوتے پہن رکھے تھے اور ہاتھوں کی انگلیاں دراصل نوکیلے خم دار پنجے تھے۔
    پہلان نے پوچھا: ’’جیسا کہ میں نے کہا مجھے تم لوگوں سے کام ہے، تو تم اس کام کے کیا لوگے؟‘‘ ایک اور بد روح نے کھڑے ہو کر جواب دیا: ’’میں ڈوکومک ہوں، ہم تو بس آپ کی خدمت پر مامور ہیں اس وقت، ماسٹر، آپ حکم کریں۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، تو قلعہ آذر جاؤ، میں تمھیں انعام ضرور دوں گا۔‘‘ فوفیم اور ڈوکومک نے حکم کی تعمیل بجا لائی اور تمام سرخ ٹوپیوں والوں کو لے کر قلعے کی طرف چلے گئے۔
    ان کے جاتے ہی پہلان نے ایک بار پھر سرگوشی کی اور اس بار اس نے اسکاٹ لینڈ کی لوک داستانوں کی ایک مادہ روح ’بین نی یے‘ کو طلب کیا۔ اسے موت کا ہرکارہ سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ عجیب اور خوف ناک عورت کسی کے کپڑے دھو دے تو وہ مر جاتا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں جھیل کے پانی سے ہلکی نیلی شکلیں نمودار ہو کر تیزی سے پہلان کی طرف تیرنے لگیں۔ پاس آ کر انھوں نے کہا کہ کیا حکم ہے ان کے لیے۔ پہلان نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کا صرف ایک نتھنا تھا، اور ایک پھیلا ہوا دانت۔ اس کے پاؤں جالی دار تھے۔ پہلان نے انھی دیکھ کر کہا: ’’دھوبی عورتو! میں نے تمھیں ایک خاص مقصد کے لیے بلایا ہے، ویسے تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
    ان میں سے ایک لیڈر دھوبن آگے بڑھ کر بولی کہ اس کا نام ایریا ہے، اور کیا اسے دھلائی کی ضرورت ہے۔ پہلان نے ان سے کہا کہ اگر وہ اس کی بات مانیں گے تو وہ انھیں مرنے والے انسانوں کی بے شمار دولت دے دے گا۔
    ایریا نے کہا: ’’آقا، آپ جانتے ہیں کہ ہم وہ عورتیں ہیں جو زچگی کے دوران مر گئی تھیں، ہم پر تو ہمیشہ کی پھٹکار پڑ چکی ہے، اور سزا یہ ہے کہ بس کام کرتے جائیں، تو تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
    پہلان نے کہا کہ تم سب قلعہ آذر جاؤ، ایک کام ہے، اور وعدہ ہے کہ اتنا کام دوں گا کہ تمھاری ضرورت سے بھی زیادہ ہوگا۔ یہ سن کر وہ روحیں بھی قلعے کی طرف چل پڑیں۔ اس کے بعد شیطان جادوگر نے ایک گہری سانس لی اور اسے اونچی آوازوں کے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن یہ آوازیں انسان نہیں سن سکتے تھے۔ اگلے ہی لمحے مغرب کی طرف سے پرندوں کے جھنڈ کی مانند بد روحیں اڑتی ہوئی آئیں، اور زمین پر اترتے ہی انسان نما شکلیں اختیار کر لیں۔ ان کا لیڈر روفریر آگے بڑھ کر بولا: ’’آپ نے ہمیں طلب کیا ماسٹر۔‘‘
    (جاری ہے)