Tag: رفیع اللہ میاں کی تحریریں

  • ایک سو اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے

    وہ دونوں انگور کی بیلوں کے درمیان کھڑے فیونا کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، جبران کے منھ سے نکلا: ’’کیا اور کوئی بھیانک واقعہ ہونے والا ہے ہمارے ساتھ؟‘‘ فیونا نے جواب میں انھیں ڈرانا نہیں چاہا، بلکہ بولی کہ اب بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد انگور کے بیل کی جڑ میں کھدائی کی جائے اور پکھراج نکالا جائے۔ فیونا نے یہ کہہ کر بیٹھ گئی اور مٹی کھودنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے تاکہ جلدی سے اسے نمٹایا جا سکے۔ ابھی انھوں نے تھوڑا ہی کھودا تھا کہ ان کے پیچھے غراہٹوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دانیال نے جلدی سے کھدائی روک کر پیچھے دیکھا اور پھر اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’کتا … یہ تو کتا ہے!‘‘
    فیونا اور جبران نے بھی پلٹ کر دیکھا تو جبران نے کہا: ’’دانی یہ کتا نہیں ہے، لیکن مجھے نہیں پتا یہ کیا چیز ہے، پر ہے بہت غلیظ قسم کی۔‘‘ فیونا نے منھ سے نکلا: ’’تسمانیہ کا شیطان لگ رہا ہے یہ!‘‘

    دانیال حیران ہو گیا: ’’تسمانیہ کا شیطان بھلا کیا چیز ہے؟‘‘ فیونا نے انھیں یاد دلایا کہ جو کتاب انھوں نے خریدی تھی، اس میں اس کی تصویر موجود تھی اور لکھا تھا ’تسمانین ڈیوِل!‘‘ جبران یہ سن کر چونک اٹھا اور بولا کہ اسے بھی یاد آ گیا۔ اس نے کہا یہ ’ٹاز‘ ہے، دانی یاد کرو کارٹون کیریکٹر۔ یہ وہی ہے۔ تب دانی نے پریشان ہو کر کہا: ’’یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ شیطان تیزی سے ہماری ہی طرف آ رہا ہے۔‘‘
    اُس جانور کا جسم گہری بھوری فر سے ڈھکا ہوا تھا، اور اس کے دانت باہر نکلے ہوئے تھے، جن سے رال ٹپک رہی تھی۔ اور اس کے حلق سے بھیانک قسم کی غراہٹ نکل رہی تھی۔ جب وہ کافی قریب آ گیا تو دانی چیخا: ’’کچھ کرو فیونا!‘‘
    فیونا نے جلد سے اپنے اور جانور کے درمیان جادو سے آگ بھڑکا دی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس جانور نے اس پر سے لمبی چھلانگ لگا دی اور ان سے تقریباً بیس فٹ کی دوری پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اتنی خوف ناک چیخ نکالی کہ ان تینوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ جبران اور دانیال کو لگا کہ ان کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا ہے۔ فیونا تیز لہجے میں بولی: ’’کوئی بھی اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلنے کی غلطی نہ کرے، اگر ہم ہلے تو یہ فوراً حملہ آور ہو جائے گا اور لمحوں میں ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘
    اسی لمحے ان کے پیچھے سے ایک تیز غراہٹ سنائی دی۔ وہ بری طرح چونک اٹھے۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا وہاں اسی قسم کا ایک اور جانور کھڑا تھا۔ جبران نے گھبرا کر کہا: ’’اب تو دو دو تسمانوی بھوتیا جانور ہو گئے!‘‘ اس سے قبل کہ وہ کچھ سوچ سکیں، ایک اور جانور انگور کی بیلوں کے درمیان سے چھلانگ لگا کر ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر غرانے لگا۔ اور پھر چوتھا بھی انگور کی بیلوں سے نکل آیا۔ ’’چار ہو گئے، یہ ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘ دانیال روہانسا ہو کر بولا۔ ’’فیونا، فوراً اپنا قد بڑا کر دو اور ان سب کو کچل دو۔‘‘
    اچانک تسمانیہ کے شیطانوں میں سے ایک نے فیونا کے گلے پر چھلانگ لگا دی۔ اس نے جلدی سے گلا بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے۔ عین اسی لمحے گولی چلنے کی دھماکے دار آواز سنائی تھی، جس نے جانوروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ ایک اور فائر ہوا اور جانور ان تینوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص ہاتھوں میں رائفل لیے کھڑا تھا اور چلا کر کہہ رہا تھا: ’’بچو میری طرف آؤ، میں نے پہلے کبھی اتنے بڑے شیطان نہیں دیکھے۔‘‘
    ابھی اس نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ ایک شیطان نے اچھل کر دانیال پر چھلانگ لگا دی، اور اسے نیچے گرا کر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ فیونا اور جبران کے منھ سے چیخیں نکل گئیں۔ اس شخص نے شیطان کی طرف رائفل سیدھی کی اور پھر کافی اونچائی پر کئی ہوائی فائر مار دیے۔ اس بار سارے جانور خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ جبران اور فیونا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دانیال کو اٹھایا اور پوچھا کہ وہ ٹھیک تو ہے۔ دانیال بہت گھبرایا ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے اسے چوٹ نہیں آئی تھی۔ انھیں اس شخص کی آواز سنائی دی: ’’بچو، تم میرے انگور کے باغ میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
    فیونا کے ذہن میں اگرچہ یہ سوال نہیں اٹھا تھا لیکن جیسے ہی اس نے سنا، وہ فوراً ہوشیار ہو گئی۔ اس نے بات بنا کر کہا: ’’میرے اس دوست کو بہت بھوک لگ گئی تھی اس لیے ہم باغ سے کچھ انگور لینے رک گئے تھے لیکن پھر اس سے یہاں کچھ گر گیا تھا جسے ہم تلاش کرنے لگے۔‘‘
    باغ کے مالک نے سپاٹ لہجے میں کہا: ’’میرا نام ونچنزو منزانیو ہے، میں اور میری بیوی ابھی ابھی گھر پہنچے اور ہم نے پورے گھر اور باغ میں سرخ پیٹھ والی مردہ مکڑیاں دیکھیں، یہ سب کیا ہے، کیا آپ کے پاس اس کی بھی کوئی وضاحت ہے؟‘‘
    جبران کو اچانک ایک خیال سوجھا، وہ جلدی سے بولا: ’’جب ہم کھدائی کر رہے تھے، میرا مطلب ہے کہ فیونا کی انگوٹھی تلاش کر رہے تھے، تو یہ مکڑیاں زمین سے باہر نکل آئیں، اور ہم ان سے بچنے کے لیے آپ کے گھر بھاگے تھے۔‘‘
    ’’اور میرے قالین پر آگ کیسے لگی؟‘‘ اب ونچنزو کی آواز نارمل نہیں رہی تھی، بلکہ اس میں غصہ جھلک رہا تھا۔ جبران نے گھبرا کر جلدی سے کہا: ’’دراصل فیونا نے سوچا کہ اگر اس نے انھیں آگ سے نہیں جلایا تو یہ ہمیں کاٹ کھائیں گی۔ لیکن پھر یہ لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں۔‘‘
    ’کیا مطلب، لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکال کر کہا۔ جبران نے نے بتایا کہ ان سرخ مکڑیوں کو لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں نے مار ڈالا تھا۔ اس کے بعد جب ہم واپس یہاں آ کر انگوٹھی تلاش کرنے لگے تو کہیں سے یہ تسمانیہ کے شیطان نمودار ہو گئے۔
    ’’کیا کہانی ہے، بہت عجیب۔‘‘ باغ کے مالک نے انھیں گھور کر دیکھا۔ ’’خیر کیا تم لوگوں کو انگوٹھی مل گئی۔‘‘ جبران نے جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ تینوں ڈرے ہوئے تھے کہ اب پتا نہیں باغ کا یہ مالک کیا کہے گا اور کیا کرے گا، لیکن ان کی توقع کے برخلاف اچانک اس نے مسکرا کر دانیال کو مخاط کر کے کہا: ’’تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اندر جاؤ، میری بیوی تمھیں کھانے کو کچھ دے دیں گی، اور میں یہاں ان دونوں کے ساتھ انگوٹھی ڈھونڈنے میں مدد کر دوں گا۔‘‘
    دانیال نے یہ سن کر اسی میں اپنی بھلائی محسوس کی کہ وہ خاموشی سے اندر چلا جائے، اگرچہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ سو کر کہ باغ کا مالک پھر غصے میں نہ آ جائے، وہ سر ہلا کر گھر کی طرف چلا گیا۔
    باغ کے مالک نے اس کے جاتے ہی باقی دونوں سے ان کے نام دریافت کیے، اور پھر بولا کہ چلو انگوٹھی تلاش کرتے ہیں۔ وہ انگور کی بیل کی جڑ میں گھٹنے زمین پر رکھ بیٹھا تو اس کے سرمئی بال اس کی آنکھوں پر گرے۔ لیکن اسی لمحے اس نے فیونا کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو فیونا نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں بیل کی جڑ میں موجود مٹی کی طرح بھوری تھیں۔ فیونا نے جلدی سے نظریں ہٹا کر کہا: ’’وہ ایک بڑی سی انگوٹھی ہے۔‘‘
    ’’کس قسم کی انگوٹھی؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا تو فیونا نے بتایا کہ اس میں پکھراج جڑا ہوا ہے۔ اس نے بات بنائی کہ اسے انگوٹھی کی پروا نہیں لیکن پکھراج اس کے لیے بہت اہم ہے، کیوں کہ وہ خاندانی نشانی ہے۔
    ’’ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا۔‘‘ باغ کے مالک نے کہا۔ اور جبران نے فیونا کی طرف دیکھ کر منھ ہی منھ میں لفظ ’جھوٹی‘ کہا، جسے فیونا نے سمجھ لیا اور اس نے مسکرا کر جواباً آنکھ مار دی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    جبران نے اچانک پوچھا کہ جب وہ قدیم آدمی پکھراج کو یہاں دفنا رہا تھا، تو کیا یہ انگور کے باغ یہاں اس وقت بھی تھے یا کچھ اور تھا یہاں؟ دانیال نے فوراً مسکرا کر کہا شکر کرو کہ کوئی غار تو نہیں ہے۔ جبران نے اسے گھور کر دیکھا۔
    فیونا نے دیکھا کہ یہ ایک بہت بڑا انگور کا باغ تھا، جس میں سبز، گہرے جامنی اور عام جامنی رنگ کے انگوروں کے الگ الگ درخت اگے تھے۔ جبران کے منھ میں پانی بھر آیا، اور بول اٹھا: ’’مجھے انگور چاہیئں، انھیں کھانے کو بہت جی للچا رہا ہے۔‘‘
    فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا کہ کام ختم کر کے واپسی پر خوب کھانا کھائیں گے۔ جبران نے حسرت سے انگور کی بھری ہوئی بیلوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں اگر زندہ بچ گئے تو!‘‘
    فیونا نے اس کی بات نظر انداز کی اور وہاں لکڑی کی باڑ سے ٹیک لگا کر مٹی پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کے دماغ میں دہرایا: ’’پکھراج تم انگور کے اس باغ میں کہاں ہو؟‘‘ اور یکایک اس کے ذہن میں ایک تصویر ابھر آئی۔ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور بے اختیار بولی: ’’مل گیا!‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا کہ جبران اور دانیال کے منھ جامنی رنگ کے انگوروں سے بھرے ہوئے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، دانیال معصومیت سے بولا: ’’سچ میں یہ بہت ذائقہ دار انگور ہیں، تم بھی کھا کر دیکھو۔‘‘ فیونا کو بھی اس کے ہاتھ سے انگور کا خوشہ لینا ہی پڑا، لیکن کھانے کے بعد اس کا موڈ بھی اچھا ہو گیا کیوں کہ وہ واقعی بہت مزے دار تھے۔ فیونا بولی: ’’ذائقہ دار ہیں لیکن احتیاط سے، میری ممی کہتی ہیں کہ زیادہ انگور کھانے سے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘
    ’’سچ میں …!‘‘ دانیال چونک اٹھا۔ جب کہ جبران نے اسے نظر انداز کر کے پوچھا کہ پکھراج کہاں ہے؟ فیونا نے جواب میں ایک آہ بھر کر کہا کہ قیمتی پتھر انھیں انگور کے ایک پودے کے نیچے ملے گا۔ دونوں یہ سن کر پریشان ہو گئے کیوں کہ وہاں ایک لاکھ پودے تو ضرور ہوں گے۔ جبران نے پوچھا کہ کون سا پودا؟ فیونا نے بتایا کہ اگر وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہوں تو انھیں بائیں جانب دسویں قطار پر جا کر وہاں سے اندر کی طرف ساٹھ ویں پودے پر جانا ہوگا۔ ’’اور بوبی ٹریپس کا کیا ہوگا؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔
    انھوں نے طے کیا کہ انھیں مطلوبہ درخت تک بہت احتیاط سے جانا چاہیے، چناں چہ وہ آہستہ آہستہ قدم قدم چل کر جانے لگے۔ جبران کی آنکھیں تیزی سے اطراف میں گھوم رہی تھیں تاکہ اگر کوئی خطرہ ہو تو اسے فوراً دیکھ سکے۔ ساٹھ ویں پودے پر پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا درخت کی جڑ میں بیٹھ گئی اور وہاں سے نرم مٹی ہٹائی۔ کچھ نہیں ہوا تو اس نے مٹی ہاتھ سے کھودی اور مٹھی بھر بھر کر دوسری طرف ڈالنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے۔
    یکایک زمین کو ایک جھٹکا لگا اور وہ ہل کر رہ گئی۔ تینوں بری طرح اچھل پڑے اور خوف کے مارے لڑھکتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ جو گڑھا انھوں نے کھودا تھا وہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ دانیال نے چھلانگ مار کر کھڑے ہو کر کہا: ’’پہلا پھندہ … یہ یہ اس سوراخ کو کیا ہو رہا ہے؟‘‘
    وہ دہشت زدہ آنکھوں سے کھودے ہوئے گڑھے کو دیکھ رہے تھے اور پھر انھوں نے دیکھا کہ وہاں سے پہلے سیاہ مکڑیاں نکلنے لگیں اور پھر سرخ۔ جس رفتار سے مکڑیاں نکل رہی تھیں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں رہی ہوں گی۔ فیونا چلائی: ’’مجھے مکڑیوں سے نفرت ہے۔‘‘ اور بھاگنے لگی۔ اسے بھاگتے دیکھ کر جبران اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے، ان کے پیچھے خوف ناک شکلوں اور سرخ پیٹھ والی مکڑیاں دوڑتی جا رہی تھیں۔ تھوڑا سا آگے جا کر فیونا نے مڑ کر دیکھا، مکڑیاں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جبران بولا: ’’سامنے ایک گھر ہے کیا اس کے اندر چلیں؟‘‘ فیونا نے دروازے پر رک کر دستک دے ڈالی، لیکن کوئی ہل جل محسوس نہیں ہوئی تو فیونا نے جلدی سے دروازہ کھولا اور تینوں اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو آوازیں دیں لیکن وہ واقعی خالی تھا۔ دانیال نے سوال اٹھایا کہ کیا مکڑیاں گھر میں نہیں آ سکیں گی؟ جبران کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر وہ گھر کے اندر ہر جگہ نظر آئیں گی اور اس طرح کی مکڑیاں زہریلی ہوتی ہیں، ایسا اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ اچانک دانیال کو کچھ یاد آیا، اس نے فیونا کو جلدی سے مخاطب کیا: ’’فیونا، تم تو جادو کر سکتی ہو، ان مکڑیوں سے بات کر کے ان سے جان چھڑاؤ نا۔ ان سے کہو کہ واپس چلی جائیں۔‘‘
    یہ سن کر فیونا نے آنکھیں بند کر لیں اور دماغی طور پر مکڑیوں سے رابطہ کر کے بولنے لگیں: ’’مکڑیو، ہم پر حملہ کرنا بند کرو۔ دور جاؤ، ہم تمھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے۔‘‘
    وہ جس کمرے میں تھے اس کی کھڑکی پر پہنچنے والی ایک مکڑی نے فیونا کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم ہمیں کنٹرول نہیں کر سکتی، پہلا جادو تمھارے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہے، ہم تمھیں پکڑنے اور مارنے آ رہے ہیں۔‘‘
    جبران نے جلدی سے پوچھا: ’’کیا مکڑیاں واپس جا رہی ہیں؟‘‘ فیونا نے بتایا کہ مکڑیوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تب دانیال نے کہا کہ دوسری طاقتوں میں سے کسی کا استعمال کرو۔ جبران نے دیکھا کہ ایک مکڑی سامنے کے دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی، وہ جلدی سے اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھا اور اسے جوتے تلے مسل دیا۔ دانیال نے کہا اگر اور مکڑیاں داخل ہو گئیں تو ہم انھیں جوتوں تلے مسل کر ختم نہیں کر سکیں گے۔ اتنے میں دوسری مکڑی اندر چلی آئی اور پھر یکے بعد دیگرے مکڑیاں اندر داخل ہونے لگیں۔ فیونا نے فوراً آگ کا تصور کیا اور پھر ایک شعلے نے وہاں موجود تمام مکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ دانیال یہ دیکھ کر چلایا: ’’فیونا احتیاط کے ساتھ، تم انھیں آگ سے نہیں جلا سکتی، ورنہ پورا گھر آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہم بھی جل جائیں گے۔‘‘
    فیونا نے کہا کہ اس کے ذین میں ایک خیال آیا ہے، یہ کہہ کر وہ پچھلے دروازے کی طرف بھاگ کر گئی اور گھر سے باہر نکل گئی، جہاں زمین پر مکڑیوں کی ایک چادر بچی ہوئی تھی۔ وہ ان کے اوپر سے انھیں کچلتی ہوئی دوڑتی چلی گئی۔ اس نے وہاں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دیکھی تھیں، جنھیں ’ڈیڈی لانگ لیگز‘ کہا جاتا ہے۔ جب وہ ان کے قریب پہنچیں تو اس نے انھیں مخاطب کر کے کہا: ’’لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں، آ کر اپنے ان دوستوں کو پکڑو اور ان سرخ پیٹھ والی مکڑیوں کو مار ڈالو، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
    مکڑیوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے فیونا، ہم اپنے دوستوں کو بلاتی ہیں، ہم یہاں کے آس پاس کی سب سے زہریلی مکڑیاں ہیں، اگرچہ ہم انسانوں کے لیے مہلک نہیں ہیں لیکن دوسری مکڑیوں کے لیے بہت زہریلی ہیں۔‘‘
    فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی لمحے اسے گھر کے اندر سے چیخیں سنائی دیں۔ پھر فیونا کو گھر کے پیچھے موجود ایک کھیت سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، اور اس نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دوڑتی چلی آ رہی ہیں، اور سرخ پیٹھ والی مکڑیوں ہڑپ رہی ہیں۔ خطرہ دیکھ کر مکڑیاں بھاگنے لگیں تو لمبی ٹانگوں والیوں نے ان کا پیچھا کیا، فیونا نے دیکھا کہ وہاں مردہ مکڑیوں کا ایک قبرستان بن گیا ہے۔ وہ زور سے ہنسی۔ جبران اور دانیال بھی گھر سے نکل آئے اور وہ بھی خطرناک مکڑیوں کا حشر دیکھنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے اوپر بے شمار لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں رینگ رہی ہیں لیکن وہ مزے سے کھڑی ہے اور انھیں ہٹانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ فیونا نے کہا: ’’یہ میرے دوست ہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈالرز جیبوں میں ٹھونسنے کے بعد ڈریٹن نے وہاں مزید رکنا بے کار سمجھا۔ اسے یقین تھا کہ فیونا اور اس کے دوست زمرد حاصل کر چکے ہوں گے، لہٰذا وہ ایک عمارت کے پیچھے گیا اور غائب ہو گیا، اس کے بعد اس نے خود کو مک ایلسٹر کے گھر میں کھڑے پایا۔ آس پاس نظر دوڑانے کے بعد اس نے کود کلامی کی، مجھے جا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ تینوں بدمعاش قیمتی پتھر حاصل کر چکے ہیں یا نہیں۔ اور پھر وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ کھڑکی کے نیچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر وہ اندر جھانکنے لگا اور دیکھا کہ زمرد آ چکا ہے۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔
    ۔۔۔
    وہ تینوں جیسے اینگس کے گھر میں نمودار ہوئے، فیونا کی ممی مائری بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ’’شکر ہے تم سلامت لوٹ آئے۔‘‘ اینگس نے کہا میں نے کہا تھا کہ یہ بس تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آئیں گے۔ انھیں فیونا تھکی تھکی لگی۔ فیونا نے جیب سے زمرد نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔ جبران نے بھی گلے سے کیمرہ اتار کر واپس کر دیا۔ اینگس نے ان کی داستان سننے سے قبل زمرد رالفن کے گولے میں رکھنا ضروری سمجھا، اور وہ سب گولہ لے کر دیوان خانے میں آ گئے۔ اینگس نے پتھر جیسے ہی جادوئی گیند میں مخصوص خانے میں رکھی، باقی تین پتھروں کی مانند زمرد بھی جھلملانے لگا، اور انھوں نے اس کی روشنی دھیرے دھیرے تیز ہوتے دیکھی۔
    ’’بہت شان دار۔‘‘ جمی نے کہا: ’’مجھے یاد ہے یہ اُس وقت بھی ایسا ہی تھا جب کنگ کیگان نے گولے سے انھیں ہٹایا اور ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک دیا۔ آج ہم یہاں اسکاٹ لینڈ میں ایک چھوٹے سے گھر میں پھر اکھٹے ہو گئے ہیں اور وہی جادوئی گیند ہمارے سامنے ہے۔‘‘
    جیک نے کہا: ’’یہ سب کچھ بہت عجیب ہے لیکن ہے ناقابل فراموش۔‘‘ دیگر افراد نے بھی اس کی تائید کی، تب جیک نے چونک کر کہا: ’’جونی، ہم نے جو دوسری کتاب حاصل کی ہے، وہ ان کو دکھانی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تکیے کے نیچے سے کتاب نکال لی۔
    ’’ایک اور کتاب؟‘‘ سب سے پہلے اینگس چونکے۔ ’’کیا یہ بھی پہلی والی کتاب کی طرح ہے؟‘‘
    جونی نے کہا: ’’اینگس یہ جو کتاب تمھارے سامنے میز پر دھری ہے، یہ میری ہے۔ میں نے جو دیکھا، سنا اور محسوس کیا، وہ سب اس میں درج کر دیا۔ جب کہ یہ دوسری کتاب جادوگر زرومنا سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
    جونی نے جیک کے ہاتھ سے دوسری کتاب لی اور اینگس کے پاس بیٹھ کر کہا: ’’دیکھو، یہ دونوں کتابیں اوپر سے ایک جیسے لگتی ہیں۔ یہ چمڑے، لکڑی اور سونے سے تیار کی گئی ہیں اور دونوں زرومنا نے بنائی ہیں۔ لیکن اندر سے یہ مختلف ہیں۔ میں نے اپنی کتاب قدیم سیلٹک زبان میں لکھی ہے جب کہ زرومنا نے اپنی کتاب اپنے علاقے زیلیا کی زبان میں لکھی ہے، اور یاد رہے کہ پہلان جادوگر کا تعلق بھی زیلیا سے تھا۔‘‘
    ایسے میں خاموش بیٹھی ہوئیں مائری نے اچانک مداخلت کی: ’’زیلیا؟ یہ کہاں ہے؟‘‘
    ’’یہ جادوگروں کی سلطنت ہے لیکن مجھے نہیں پتا کہ یہ کہاں واقع ہے۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تمام جادوگر وہیں سے آئے تھے۔‘‘ جونی نے بتایا: ’’جادوگر زرومنا نے زیلیا سے آ کر کنگ رالفن سے درخواست کی تھی کہ اسے ان کا خاص جادوگر مقرر کیا جائے اور رالفن نے یہ درخواست قبول کر لی۔ تم لوگوں نے اس کے قتل کی کہانی تو سن ہی لی ہے، اسی طرح کنگ کیگان کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، بہت با رعب تھا وہ، شان دار شخصیت والا۔ اس کے بال لمبے اور گہرے بھورے تھے۔ دور سے لگتا تھا کہ سیاہ ہیں جو اس کے شانوں پر لہراتے تھے۔ وہ سر پر نوک دار جامنی رنگ کی ٹوپی پہنتا تھا اور اس کا عجیب و غریب ڈیزائنوں سے بھرا چوغہ فرش کو چھو رہا ہوتا تھا۔ اس کی ناک لمبی لیکن آنکھیں موتیوں کی طرح چمکتی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کی آنکھیں سفید تھیں، اس کی پتلیاں بھی رنگین نہیں تھیں، بس سفید اور چمک دار تھیں۔ اس نے ہمیں زیلیا کے بارے میں بتایا تھا، میرے خیال میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا جا سکتا ہے۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی تو خود کو صاف ستھرا پا کر خوش ہوا اور کرسٹل کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس نے کرسٹل سے کہا کہ اپنا جادو باقی دونوں پر بھی آزماؤ ورنہ وہ ٹھنڈ کے مارے جم جائیں گے۔ کرسٹل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ہاتھ ایک بار پھر بلند کر کے جھٹکا دیا۔ اگلے لمحے جبران اور فیونا لٹو کی مانند گھومنے لگے، اور جب دونوں رکے تو پوری طرح خشک ہو چکے تھے۔ تینوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، وہ محفوظ بھی تھے اب اور ان کے پاس قیمتی پتھر بھی آ چکا تھا۔ کرسٹل نے آزادی کے لیے فیونا کا شکریہ ادا کیا اور پھر رخصت لے کر گلیشیئر کی بلندی کی طرف چلی گئی۔ جبران نے گہری سانس لی اور کہا: ’’یہ دوسری پری تھی، پہلی والی نے آئس لینڈ میں ہماری مدد کی تھی اور یہ والی، اگرچہ ہمیں قید رکھنا اس کی ذمہ دار تھی لیکن یہاں ہماری مدد کر کے گئی ہے۔‘‘
    ’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ اس بار ہم کسی جزیرے پر نہیں آئے۔ یعنی یہ وائٹ ہارس کوئی جزیرہ نہیں ہے۔‘‘ دانیال نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ فیونا بولی: ’’لگتا ہے پریوں اور جزیروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ بے چاری پری کتنی دور آ کر پھنس گئی تھی۔ ویسے اگر چند اور پریاں ہماری مہم میں ہم سے ملیں تو کچھ برا تو نہیں۔‘‘ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر زمرد کی موجودی کو محسوس کیا: ’’شکر ہے زمرد میری جیب سے گرا نہیں۔ میرے خیال میں اب شَین کو ڈھونڈا جائے، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘
    ’’وہ تو ہمارے لیے بہت پریشان ہو رہا ہوگا۔‘‘ دانیال نے کہا۔ تینوں اس طرف چلنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ شین دور ایک گھاس والی چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھا ہے۔ انھیں دیکھتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر کچھ کہنے لگا۔ قریب پہنچنے پر ہی انھیں معلوم ہوا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
    ’’کہا مر گئے تھے تم لوگ۔ میں نے کتنا تلاش کیا تم تینوں کو اور تمھارا سامان کہاں ہے؟‘‘ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔
    ’’اگر ہم بتائیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔‘ فیونا نے معصوم بن کر جواب دیا: ’’مثلاً یہ کہ نوکیلے دانتوں والے قدیم ٹائیگر نے ہمارا پیچھا کیا تھا اور گلیشیئر کے بڑے بڑے ٹکڑے ہم پر گرے تھے اور ہم موت کے منھ سے بال بال بچے، اور گلیشیئر کے اندر بند جھیل بڑے غلط موقع پر دیوار توڑ کر ہمیں بہا کر لے جانے والی تھی لیکن ہم اس میں بھی بچ گئے۔‘‘
    ’’یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو۔ نوکیلے دانتوں والا ٹائیگر، گلیشیئر کا ٹوٹنا، کیا تم جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادی ہو۔ اب تم میرے ساتھ ہی رہو گے سب لیکن تم لوگ بھاگ کر کیوں گئے تھے۔ میں تو کوئی زیادہ دور نہیں گیا تھا، جلد ہی پلٹ آیا اور تم تینوں کو غائب پایا۔ تم نے یقیناً مجھے دھوکا دیا تھا۔‘‘
    وہ بولتا ہی جا رہا تھا اور تینوں سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر مزید کچھ بولیں گے تو شین کا پارہ مزید چڑھے گا لہٰذا خاموش رہے۔ جب اس کا غصہ اتر گیا تو نرمی سے بولا: ’’چلو شکر ہے کہ تم تینوں سلامت ہو، میں تو واپس جا کر ریسکیو ٹیم کو لانے کی سوچ رہا تھا۔‘‘
    ’’ہم معذرت خواہ ہیں مسٹر شَین!‘‘ فیونا نے بہ مشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل ہماری عادت ہے کہ ہم والدین کو بھی اسی طرح اکیلے چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے ہیں۔‘‘
    تینوں چپ چاپ جیپ میں بیٹھ کر وائٹ ہارس کی طرف چل پڑے۔ شین نے کہا کہ تم نے بیگ کھو دیے ہیں جس کے لیے اضافی رقم دینی ہوگی۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    دانیال بڑبڑایا: ’’شفاف پری!‘‘ فیونا بولی: ’’ہیلو کرسٹل فیری، میرا نام فیونا ہے، یہ دانی اور جبران۔ کیا تم یہاں گلیشیئر کے اندر رہا کرتی ہو؟‘‘
    ’’میں یہاں سے بہت دور شمال کی طرف دوسری پریوں کے ساتھ رہا کرتی تھی۔‘‘ ان کے کانوں سے شفاف پری کی آواز ٹکرانے لگی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ پری کی آواز میں دکھ ہے۔ ’’ہم سیر کرنے نکلے تھے کہ ایک دن زبردست طوفان آیا۔ تیز ہوا کے تھپیڑوں نے مجھے زمین پر دے مارا اور میں بے ہوش ہو گئی۔ جب بیدار ہوئی تو خود کو اس گلیشیئر میں قید پایا۔ پتا ہے، میں کتنے عرصے سے یہاں قید ہوں؟ ایک ہزار سال سے!‘‘
    ’’ایک ہزار سال سے!‘‘ تینوں کے منھ سے حیرت کے مارے بہ یک وقت نکلا۔ دانیال ایک طرف سر جھکا کر دیکھنے لگا تاکہ اس کے ننھے پر واضح طور پر دیکھ سکے۔ ’’کیا دوسری پریوں نے تمھیں تلاش نہیں کیا؟‘‘ اس نے پوچھ لیا۔ کرسٹل پری نے جواب دیا کہ ضرور تلاش کیا ہوگا لیکن پھر مایوس ہو گئی ہوں گی۔ اس نے کہا: ’’میں آج تک یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی ہوں لیکن مجھے کوئی راستہ نہیں ملا۔ اب تم آ گئے ہو تو راستہ بن گیا ہے۔ یہ جو رنگین قلمیں نظر آ رہی ہیں دراصل یہ میں نے وقت گزاری کے لیے انھیں رنگوں سے سجایا ہے۔ زمین کے اوپر خوش رنگ پھول مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ برف کی یہ قلمیں خوب صورت ہیں نا؟‘‘
    اس سے پہلے کہ کوئی جواب دیتا، دانیال نے فیونا کی طرف جھک کر سرگوشی کی کہ اگر یہ سچ مچ میں پری نہ نکلی تو کیا ہوگا، اگر یہ تیسرا پھندا ہوا تو؟ فیونا نے جواباً دانت کچکچائے: ’’بے وقوف مت بنو دانی، یہ پری برف کے گالے کی طرح معصوم ہے۔‘‘
    ’’کیا تم تینوں میرا گھر دیکھنا چاہو گے؟‘‘ وہ غار کے اندر کی طرف اڑتے ہوئے بولی۔ ’کیوں نہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا: ’’تم بہت پیاری ہو، کیا میں تمھاری تصویر بناؤں؟‘‘
    ’’ہاں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میرے پیچھے آؤ۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ اڑ کر اندر جانے لگی۔ فیونا اور جبران اس کے پیچھے چلنے لگے تو دانیال نے بھی مجبوراً قدم اٹھائے۔ اس نے پھر سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا ہم اس پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ کیا پتا یہ تیسرا پھندا ہو اور ہمیں پھنسانے لے جا رہی ہو۔‘‘دانیال پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ برف میں ہمیشہ کے لیے قید ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن فیونا ناگواری سے کہنے لگی: ’’دیکھو دانی، کیا کرسٹل کسی شیطان کی طرح نظر آتی ہے؟ کیا وہ ایک پھندا دکھائی دیتی ہے؟ اس نے خود ہی کہا ہے کہ وہ تو ایک ہزار سال سے یہاں قید ہے … بے چاری!‘‘
    کرسٹل انھیں برف کی قلموں کے آس پاس سے گزار کر لے جا رہی تھی، وہاں انھیں مزید جھلملاتے رنگ دکھائی دیے، جو سرخ، زرد اور نارنجی تھے۔ جبران نے ان کی بھی تصویر لی۔ اچانک انھیں اپنے پیچھے کچھ چٹخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ دانیال نے جلدی سے مڑ کر دیکھا اور گھبرا کر بولا: ’’فیونا، مڑ کر دیکھو، برف کی دیوار سخت ہو گئی ہے۔ ہم کرسٹل کے برفیلے غار میں قید ہو چکے ہیں!‘‘
    تینوں گھبرا کر اس دیوار کی طرف دوڑ کر گئے اور اسے زور زور سے لاتیں مارنے لگے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ دانیال بڑبڑایا: ’’میں شرط لگا سکتا ہوں یہ کرسٹل کی کارستانی ہے۔‘‘
    جبران پاگلوں کی طرح چلا کر بولا: ’’مارو… اسے زور سے مارو، تاکہ یہ دیوار ٹوٹ جائے۔ ہمیں باہر نکلنے کے لیے اسے توڑنا ہی ہوگا ورنہ یہ غار ہماری قبر بن جائے گا۔‘‘
    فیونا مڑ کر کرسٹل کو آوازیں دینے لگی: ’’کرسٹل فیری، تم کہاں ہو؟‘‘
    جبران نے جھنجھلا کر کہا: ’’تم اسے کیا آوازیں دے رہی ہو، وہ تو غائب ہو گئی ہے۔ میں یہاں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ وہ ایک دم روہانسا ہو گیا اور پھر اچھل اچھل کر برف کی دیوار کو لاتیں مارنے لگا۔ دانیال بھی اپنی کوشش کر رہا تھا لیکن برف کی دیوار ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ پتھر کی ہو۔ پھر اس نے ٹھہر کر مایوسی سے کہا: ’’نہیں، یہ نہیں ٹوٹے گی، ہم یہیں مر جائیں گے، میں شروع سے جانتا تھا یہ پری بہت گندی ہے۔‘‘
    فیونا نے کہا: ’’ٹھہرو، ہم اس دیوار کو نہیں توڑ سکتے۔ ہمیں کرسٹل سے بات کرنی ہوگی، کہاں گئی وہ، میں جاتی ہوں اس کے پیچھے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑی۔ جبران بدستور برف کی دیوار پر ضربیں لگا رہا تھا پھر بولا: ’’دانی، تم اسے اپنے بوٹ سے توڑنے کی کوشش کرتے رہو، یہ برف ہے ضرور ٹوٹ جائے گی۔ میں فیونا کے پاس جاتا ہوں، ہو سکتا ہے اس کو مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘
    جبران فیونا کے پاس آیا تو وہ کرسٹل سے کہہ رہی تھی: ‘‘کیا مطلب ہے تمھارا، ہم یہاں سے کیوں نہیں جا سکتے؟‘‘
    (جاری ہے۔۔۔)
  • ایک سو اڑتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    دریائے ڈِنجک تک جانے والی سڑک سانپ کی مانند بل کھاتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ شَین نے انھیں سینٹ الیاس پہاڑی سلسلے اور کینیڈا کی اونچی چوٹی ماؤنٹ لوگان کے بارے میں بتایا، پھر کہا: ’’میں نے تمھارے سامان میں چھوٹے کیمرے بھی رکھے ہیں، انھیں نکال کر یہ خوب صورت مناظر اپنے پاس محفوظ کر سکتے ہو، تم نے ایسی جگہیں پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔‘‘
    دانیال نے جبران سے اینگس والا کیمرہ مانگا تو اس نے سامان سے نکال کر دے دیا۔ دانیال نے گاڑی کے فرنٹ کے شیشے سے سامنے دیکھا، گاڑی نے ابھی ابھی ایک موڑ لیا تھا۔ ’’کیا یہ گلیشیئر ہے؟‘‘ وہ برف کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کو مگن ہو کر دیکھنے لگا۔ ’’ہاں ڈِنجک گلیشیئر، کتنا شان دار ہے نا!‘‘ یہ کہہ کر اس نے گاڑی روک دی اور وہ سب باہر نکلے۔ تینوں کے منھ سے بے ساختہ حیرت کے کلمات نکلے۔ شَین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کہا کہ اب اپنا اپنا سامان سنبھال لو کیوں کہ آگے چڑھائی چڑھنی تھی۔ جبران نے نیلی برف کو حیرت سے دیکھا جو بہت خوب صورت دکھائی دے رہی تھی لیکن اس پر گندگی بھی نظر آ رہی تھی۔ شین نے بتایا کہ جب گلیشیئرز حرکت کرتے ہیں تو گندگی اس پر جمع ہونے لگتی ہے۔ شَین برف کے دریا کے کنارے ایک چٹان پر چڑھا اور کہا: ’’ہمیں ایک طویل راستے پر چڑھتے جانا ہے اس لیے سب پانی پی لیں۔‘‘
    فیونا ایک چٹان پر بیٹھ گئی اور بوتل نکال کر پانی پی لیا، پھر آنکھیں بند کر کے جیسے مراقبے میں چلی گئی۔ بند آنکھوں کے سامنے اسے تصور میں زمرّد ایک گلیشیئر کے اندر دکھائی دینے لگا۔ اس جگہ پتھروں سے بنی ایک نشانی بھی موجود تھی۔ ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر جبران اور دانیال کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہی۔ وہ اٹھ کر جبران کے پاس آئی اور سرگوشی میں کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ زمرّد کہاں ہے، جب ہم اس کے قریب پہنچیں گے تو تم اور دانی مل کر شَین کی توجہ کہیں اور کر دینا اور اس دوران میں اسے کھود کر نکال لوں گی۔‘‘
    جبران نے کن اکھیوں سے شین کی طرف دیکھ کر جوابی سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا تم جان لیوا پھندوں کو بھول گئی ہو؟ کیا وہ ان کا شکار نہیں ہو سکتا؟‘‘
    ’’ارے ہاں میں تو بھول گئی تھی۔‘‘ فیونا کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ ’’ایک ہی راستہ ہے، ہمیں اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ہم آرام کرنے کے بہانے رک جائیں گے، پھر جیسے ہی اس کی آنکھیں بند ہوں گی، ہم دوڑ کر اس سے چھپ جائیں گے۔ جب تک وہ ہمیں ڈھونڈ نکالے گا، ہم اپنا کام کر چکے ہوں گے۔‘‘
    جبران کو اس کی یہ ترکیب کچھ زیادہ کارگر نہیں لگی تاہم اس نے ہامی بھرلی۔ اس کا خیال تھا کہ شَین بہت ہوشیار شخص معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر اس نے آنکھیں ہی بند نہیں کیں تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ فیونا نے کندھے اچکا کر کہا: ’’تب پھر مجبوری ہوگی!‘‘ یہ سن کر جبران چونک اٹھا اور اس بات کا مطلب پوچھنے لگا۔ فیونا نے کہا: ’’ظاہر ہے مجھے اسے ضرب لگا کر بے ہوش کرنا پڑے گا، بھلا ہم اس کا اور کیا علاج کریں گے؟‘‘
    (جاری ہے….)
  • ایک سو سینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جبران اُبلے ہوئے انڈے کا ایک ٹکڑا منھ میں رکھتے ہوئے بولا: ’’مجھے تو اب بھی بڑی تھکن محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
    ’’میں بھی تھکی ہوئی ہوں۔‘‘ فیونا نے بتایا: ’’ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ جب ٹھندا پانی ڈریٹن کے منھ پر پڑا ہوگا تو اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی، کاش ہم دیکھ سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی۔
    ’’مجھے لگتا ہے اب وہ ہمارے ساتھ کچھ اور برا کرے گا، میں نے نوٹ کیا ہے کہ وہ ہم سے بہت خار کھاتا ہے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا اور کیک کا ٹکڑا منھ میں ڈالا۔
    ’’ہاں، وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن وہ مجھ سے زیادہ قوتیں نہیں رکھتا۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ تینوں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ دانیال نے کہا کہ یہ بات تو ہے کہ اگر اس کی مدد ایک شیطان جادوگر کر رہا ہے تو ہمارے مدد کے لیے بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں۔ فیونا نے اپنا خیال پیش کیا کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا بھی ان کی مدد کر رہا ہے لیکن کس طرح، یہ بھی واضح نہیں ہے۔ ناشتہ کر کے وہ اٹھے تو آٹھ بج رہے تھے۔ جب وہ مقررہ مقام پر پہنچے تو شَین ایک نیلے رنگ کی فور وھیل ایس یو وی کے ساتھ کھڑا ان کا منتظر تھا۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی چہکا: ’’تم بالکل وقت پر پہنچے ہو، میں تینوں کے لیے الگ الگ سامان تیار کرا دیا ہے۔ اس میں اسنیکس، فلش لائٹس، رسیاں، پانی اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں شامل ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم تینوں موسم کے مطابق لباس پہنا ہے یہ اچھا ہے، آج موسم کی پیش گوئی اگرچہ ہمارے حق میں ہے تاہم سردی بڑھ سکتی ہے۔‘‘
    تینوں نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ فیونا نے بٹوہ نکال کر پوچھا: ’’اس پر کتنا خرچہ آئے گا، مجھے امید ہے کہ آپ کو برطانوی کرنسی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ہمارے پاس اس وقت یہی کرنسی ہے۔‘‘

    ’’نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ شین نے اسے رقم بتائی جو فیونا نے ادا کر دی اور پھر گاڑی کلونی نیشنل پارک کی طرف چل پڑی۔

    ڈریٹن نے انھیں جاتے دیکھ لیا تھا لیکن ان کا پیچھا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ تینوں قیمتی پتھر حاصل کر کے لے آئیں گے۔ اس نے سوچا کہ یہ وقت کیسے گزارا جائے، تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے دریائے یوکان کے کنارے سونا چھاننے کا فیصلہ کیا لیکن سردی بہت تھی اس لیے اس نے ایک مقامی دکان کا رخ کر لیا تاکہ دستانے، بوٹ اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں چرائی جا سکیں۔ اسے خریدنا نہیں آتا تھا، بس چوری کرنے ہی کی عادت تھی ہمیشہ سے یا چھیننے کی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    بس اسپیکر سے رینجر کی آواز گونج اٹھی: ’’ہم وائٹ ہارس پہنچ گئے ہیں، ہمارے ساتھ سفر کا لطف اٹھانے کا بہت شکریہ۔‘‘
    ایک ایک کر کے سب بس سے اترنے لگے۔ ڈریٹن کے خراٹوں نے بتایا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ فیونا نے شین سے کہا کہ وہ یاد رکھیں کہ کل گلیشیئرز دکھانے لے جانا ہے۔ شین نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ فیونا نے ڈریٹن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’کاش یہ اگلے سال تک یوں ہی سوتا رہے!‘‘
    تینوں بس اسٹیشن سے نکل کر ٹاؤن کی طرف چل پڑے۔ ’’میرا خیال ہے کہ حسب معمول سب سے پہلے کوئی بینک تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا تو فیونا نے کہا کہ کینیڈا ہونے کی وجہ سے یہاں برطانوی کرنسی چل سکتی ہے، اگر ضرورت پڑی تو بعد میں تبدیل کر لیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہوٹل تلاش کرنا ہوگا، کیوں کہ آج رات یہیں گزارنی ہوگی۔ جبران کے پوچھنے پر کہ آج کون سا دن ہے، فیونا نے کہا: ’’اسکاٹ لینڈ میں اس وقت جمعہ کی سہ پہر ہے تو یہاں یوکان میں جمعہ کی صبح۔‘‘ انھوں نے وہاں ایک قطار میں کئی ہوٹل دیکھے لیکن اب ان میں انتخاب کا مرحلہ باقی تھا۔ تینوں ایک کے بعد ایک ہوٹل دیکھنے لگے لیکن کسی نے بھی انھیں متاثر نہیں کیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہماری عادتیں بگڑ گئی ہیں، سیچلز میں اتنا شان دار ہوٹل دیکھنے کے بعد شاید ہی ہمیں کوئی دوسرا پسند آ جائے۔ چلو، ان میں سے ایک چُن کر اسے اندر سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک سائن بورڈ کی طرف اشارہ کیا: ’’یہ کیسا رہے گا؟ ریورز ایج اِن!‘‘
    تینوں اندر گئے، کاؤنٹر پر فیونا نے برطانوی کرنسی دی تو معلوم ہوا کہ کرنسی کارآمد ہے، تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انھیں ایک کمرے کی چابی دی گئی تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔ جبران نے کاؤنٹر سے اٹھایا ہوا بروشر دکھا کر کہا کہ اس میں وائٹ ہارس سے متعلق کچھ حقائق درج ہیں۔ فیونا نے کہا کہ اسے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی دل چسپ بات ہوگی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے تو یہ دو بستروں پر مشتمل ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ جبران ایک بیڈ پر بیٹھ کر بولا: ’’یہ یوکان کا کیپیٹل ہے اور یہاں کی آبادی صرف 28 ہزار ہے۔‘‘ فیونا دوسرے بیڈ پر چھلانگ مار کر بیٹھ گئی اور کہا: ’’حیرت ہے اتنی پیاری جگہ ہے اور لوگ اتنے کم!‘‘
    ’’آگے تو سنو۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’یہاں کا پرندہ بڑے سائز والا پہاڑی کوا ہے اور یہاں سونے کی تلاش کرنے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ میمتھ یعنی عظیم الجثہ قدیم ہاتھی اور نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز اسی علاقے میں گھومتے پھرتے تھے۔‘‘
    ’’ہاں، یہ ہوئی نا بات۔‘‘ دانیال اچھل کر بولا: ’’میں تو نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز سے ملنا چاہوں گا۔‘‘
    فیونا نے ہوٹل سے باہر نکل کر گھومنے کی رائے دی تو باقی دونوں بھی فوراً تیار ہو گئے۔ وہ دریائے یوکان کے کنارے چلنے لگے، دانیال نے دیکھا کہ دریا میں سالمن مچھلی بہاؤ کی مخالف سمت میں تیر رہی ہے، وہ حیران ہوا تو جبران نے بتایا کہ سالمن ہمیشہ الٹی سمت تیرتی ہے۔ جبران نے ان کے سامنے اپنا ایک عجیب تصور بیان کر دیا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی جسامت والا میمتھ کھڑا ہے، اس کے لمبے لمبے بال لہرا رہے ہیں اور وہ اپنی سونڈ پانی میں ڈال کر پانی پی رہا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن اس کے قریب سے تیزی کے ساتھ گزرا تھا، اور اس نے کالر اٹھایا ہوا تھا تاکہ فیونا اسے ٹھیک طور سے نہ دیکھ سکے۔ وہ فیونا کے ساتھ آنکھیں بھی ملانا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے بس میں سر جھکا کر چڑھا تھا۔ جب ایک نوجوان جوڑا اس کے برابر میں بیٹھنے کے لیے آیا تو اس نے انھیں گھورا اور ہلنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجبوراً دوسری سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈریٹن نے آنکھیں بند کر لیں اور وائٹ ہارس تک کا یہ سفر برداشت کرنے لگا۔

    جبران نے کیمرہ واپس فیونا کے بیگ میں رکھتے ہوئے کہا کہ وہ لیٹ گیا ہے لیکن اس میں عجیب بات کیا ہے؟ فیونا نے کہا: ’’مجھ پر ریچھ کا حملہ کوئی اتفاق نہیں تھا، ڈریٹن نے ضرور اسے مجھ پر حملے کا حکم دیا ہوگا۔‘‘
    ’’ڈریٹن … کیا وہ یہاں ہے؟‘‘ دانیال اس کا نام سن کر چونک اٹھا۔ ’’اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟‘‘ فیونا بتانے لگی کہ اس کے بال لمبے سیاہ ہیں اور کانوں میں بالیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ دانیال نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا کہ اس نے تو بالیاں نہیں پہنیں، اور بال بھی چھوٹے ہیں۔ جبران بولا کہ ہو سکتا ہے اس نے بال ترشوا لیے ہوں اور بالیاں بھی اتار دی ہوں، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ دانیال نے پوچھا کہ اب وہ کہاں جا رہے ہیں، تو جبران نے جواب دیا: ’’یوکان کے کیپیٹل وائٹ ہارس، جو ایک بڑا شہر ہے اور جنوبی یوکان میں الاسکا ہائی وے پر واقع ہے۔‘‘
    فیونا نے رینجر کو جبران کے قریب بیٹھتے دیکھ کر مسکرا کر کہا: ’’ایکسکیوز می سر!‘‘
    رینجر نے مسکرا کر کہا: ’’میرا نام شَین جَینکن ہے۔‘‘
    ’’تو مسٹر شین، کیا یہاں آس پاس گلیشیئرز ہیں؟‘‘
    ’’گلیشیئرز ۔۔۔‘‘ شین نے حیران ہو کر دہرایا: ’’یہ ملک ہی گلیشیئرز کا ہے۔‘‘
    ’’آپ مجھے فیونا پکار سکتے ہیں، اور یہ جبران اور دانی ہے۔‘‘
    ’’تم تینوں کہاں سے آئے ہو؟ تمھارا لہجہ برطانوی طرز کا ہے۔‘‘
    ’’جی ہم اسکاٹ لینڈ سے آئے ہیں۔‘‘
    ’’اسکاٹ لینڈ … بہت خوب۔‘‘ شین بولا: ’’تو تمھارے والدین کہاں ہیں؟ اکثر والدین اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اکیلے وحشی ریچھوں کو دیکھنے نکل پڑیں۔‘‘
    یہ سن کر تینوں کے پیٹ میں مروڑ شرو ہو گیا۔ یہ سوال ان کے لیے ہمیشہ بڑا پریشان ہوتا تھا، فیونا نے جلدی سے بات بنائی: ’’دراصل انھیں پیٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی، اس لیے وہ نہیں آئے اور ہمیں اس لیے آنے دیا کیوں کہ وہ ہم پر بہت بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
    ’’او کے، تم گلیشیئرز کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھی؟ یوکان میں یوں تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں سے دور ایک جگہ ہے جسے کلونی نیشنل پارک کہا جاتا ہے، یہ وادئ گلیشیئر کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
    فیونا نے کوئی جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر لیا: ’’کیا آپ کچھ اضافی رقم کمانا چاہیں گے؟‘‘ شین کے چہرے پر یہ سن کر خوشی کا رنگ بکھر گیا اور بولا: ’’کیوں نہیں، ضرور، بتاؤ تمھیں کیا چاہیے۔‘‘
    ’’ہمیں کلونی لے جائیں، ہم گلیشیئرز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والدین برا نہیں منائیں گے، وہ ہمیشہ ہمیں اکیلے جانے دیتے ہیں۔‘‘
    ’’جی ہاں، میں تم تینوں کو لے جا سکتا ہوں۔‘‘ شین نے جواب دیا۔ ’’مجھے ایک جیپ کرائے پر لینی پڑے گی، اچھا خاصا کرایہ لگے گا۔‘‘
    اس کے بعد وہ خاموشی سے وائٹ ہارس کی طرف سفر طے کرنے لگے۔ بس کے شیشوں سے باہر کے خوب صورت مناظر دیکھ کر وہ تعریف پر مجبور ہوتے رہے۔ انھیں برفانی ہرن، بارہ سنگھے، جنگلی بھینسے، پہاڑی بکرے اور اکا دکا سفید سر عقاب بھی نظر آیا۔ جبران کو سڑک کے کنارے جھاڑیوں کے درمیان بیری جیسے پھل کے درخت بھی نظر آئے، جب اس نے شین سے اس کا ذکر کیا تو وہ بولا: ’’یہ بیری ہی ہے، یوکان بیری کے حوالے سے ایک مشہور جگہ ہے، تم نے جو بیری دیکھی یہ گوز بیری کہلاتی ہے۔‘‘
    ’’ہم نے کبھی گوز بیری نہیں کھائی، یا کم از کم میں نے تو نہیں کھائی۔‘‘ جبران بولا۔ اس نے فیونا کی طرف دیکھا تو اس کی توجہ ڈریٹن کی طرف تھی۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: میں اس شیطان کو خوب پہچانتی ہوں، وہ سوچ رہا ہے کہ وہ خود کو ڈرپوک ظاہر کر رہا ہے لیکن میں اس کی مکاری سے واقف ہوں۔ بے وقوف ڈریٹن۔ وہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اسے پہچانا بھی نہیں ہو گا … ہونہہ ۔۔۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو تینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابلِ ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ’’مجھے نہیں لگتا اینگس، کہ یہ سب ٹھیک ہے۔‘‘ مائری تشویش کے عالم میں کہنے لگیں: ’’یہ بہت خطرناک لگتا ہے۔ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا؟ اگر میں نے انھیں جانے دیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔‘‘
    فیونا، جس کا منھ ونیلا کیک سے بھرا ہوا تھا، جلدی جلدی کیک نگل کر بولی: ’’ممی، ہمیں کچھ نہیں ہوگا، میں کتنی مرتبہ آپ سے کہہ چکی ہوں۔ انکل، آپ انھیں وہ جادوئی گولا کیوں نہیں دکھاتے!‘‘
    ’’ہاں، تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ اینگس نے سَر ہلاتے ہوئے کہا اور جادوئی گولا لا کر مائری کو دکھایا۔ ’’یہ دیکھو، یہ ہے رالفن کا گولا، کیا یہ شان دار نہیں ہے!‘
    مائری نے حیرت کے ساتھ جادوئی گیند ہاتھوں میں لے کر دیکھی۔ ’’شان دار، یہ بہت خوب صورت ہے، اس میں لگے قیمتی پتھر تو دم بہ خود کر دیتے ہیں، اور ان کے اندر جو ڈریگن بنے ہوئے ہیں، ان کا تو جواب نہیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہوا؟‘‘
    اس بار جونی نے لب کشائی کی: ’’ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو جانے دیتے ہیں، اس دوران ہم آپ کو اس گیند سے متعلق سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ انھیں جانے کے بعد بس چند ہی منٹ لگیں گے اور یہ واپس بھی آ جائیں گے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ جمی نے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’بھئی، اس بار ہو سکتا ہے کہ تم لوگ کسی ٹھنڈے مقام پر پہنچو، اس لیے اپنے کوٹ ساتھ لے کر جاؤ۔ یاد ہے نا کہ ہائیڈرا گرم مقام تھا، آئس لینڈ ٹھندی جگہ تھی اور سیچلز پھر گرم جگی تھی، تو اب ٹھنڈے مقام کی باری ہے۔‘‘
    اینگس بھی ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولے: ’’ٹھہرو، تم لوگوں کو بھوک بھی لگ سکتی ہے، اس لیے بیگ میں بسکٹ ڈال کر جاؤ، اور تمھارے پاس رقم بھی ہے یا نہیں؟‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جیب سے نوٹ نکال کر فیونا کی طرف بڑھائے۔ ’’یہ بھی رکھ لو، اور یہ کیمرہ بھی، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تمھاری مہم کی تصویری جھلکیاں بھی دیکھ سکیں۔‘‘
    مائری نے فیونا کے بیگ میں پانی کی بوتل بھی رکھ دی۔ ایسے میں جونی بھی پیچھے نہیں رہا، اس نے جیب سے قیمتی بریسلٹ نکال کر کہا: ’’فیونا، یہ ملکہ عالیہ کا پسندیدہ کڑا تھا۔ یقیناً وہ جان کر خوش ہوں گی کہ اسے تم نے پہنا، کیوں کہ تم ان کا خون ہو۔‘‘ جونی نے کڑا فیونا کی کلائی میں پہنا دیا۔ ’’دیکھو، کتنا پیارا لگ رہا ہے۔‘‘
    فیونا نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بولی: ’’اب ہمیں مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جا رہے ہیں، اور ممی پریشان مت ہونا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
    ایسے وقت جبران اور دانیال اس کے دونوں اطراف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کے چہروں پر عجیب تاثرات تھے۔ وہ پُر جوش بھی تھے اور ان جانے خدشات میں گرفتار بھی۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑے تھے اور سب کی نظریں ان پر ایسے جمی تھیں جیسے وہ دنیا کی عجیب و غریب مخلوق ہوں۔
    یکایک فیونا چیخی: ’’ممی، ہم جا رہے ہیں!‘‘ تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔ مائری کو لگا کہ وہ کوئی بھیانک سپنا دیکھ رہی ہیں۔ یکایک وہ جاگ پڑی اور انھیں روکنے والی تھیں لیکن ان کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مائری نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے رنگا رنگ تارے جگمگا رہے ہیں۔ ان کی سماعت سے جو آخری الفاظ ٹکرائے تھے، وہ کسی ان جانی زبان میں بولا گیا منتر تھا۔
    دالث شفشا یم! اور پھر ان کی اکلوتی بیٹی اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ وہاں سے غائب ہو چکی تھی!
    (جاری ہے….)