Tag: رفیع اللہ میاں کی تحریریں

  • ایک سو بتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا بلونگڑی کے پاس جا کر بولی: ’’ڈرو مت، یہ بوبی تمھیں اب کچھ نہیں کہے گا۔‘‘

    ’’نہیں، میں آگے نہیں آؤں گی۔‘‘ بلونگڑی نے جواب دیا۔ ’’تم نے دیکھا نہیں، کتنا بڑا کتا ہے، اس کے دانت اتنے بڑے بڑے ہیں، یہ تو ایک ہی حملے میں مجھے کاٹ ڈالے گا۔ مجھے اس کے پنجوں سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

    فیونا اسے حوصلہ دینے لگی: ’’تم گھبراؤ مت، میں نے کتے سے بات کر لی ہے، اس کا نام بوبی ہے اور اب یہ تمھیں نہیں کاٹے گا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے مڑ کر کتے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں اس وقت بلی کو جانے دے رہا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا: ’’فیونا، تم اب بلی سے بھی بات کر رہی ہو، آخر یہ جانور کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘

    فیونا ان دونوں کو کتے اور بلی کے جھگڑے کے بارے میں بتانے لگی، پھر بلونگڑی سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے جواب میں کہا ٹمبل۔ فیونا اچھل کر بولی: ’’ارے یہ کیا احمقانہ نام ہے، تمھارا نام فلفّی، جنجر، مارملیڈ یا اسی طرح کا کچھ ہونا چاہیے تھا نا … ٹمبل … ہش !‘‘
    اس نے منھ بنا کر بوبی کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹ اس طرح گول ہوئے جیسے ہنس رہا ہو۔

    ’’کیا یہ کتا ہنس رہا ہے؟‘‘ دانیال نے دل چسپی سے آگے آ کر پوچھا، وہ جھک کر دونوں جانوروں کو قریب سے دیکھنے لگا تھا۔ ’’اے لڑکے، زیادہ قریب مت آؤ، فاصلہ رکھو۔‘‘ بوبی غرّایا تو دانیال جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ فیونا نے بلونگڑی سے کہا: ’’اب ہم جا رہے ہیں، تم جھاڑیوں سے نکل کر میرے پاس آؤ۔ میں تمھیں انکل اینگس کے ہاں لے جاؤں گی، وہاں اور بھی بلیاں ہیں اس لیے تمھاری آمد پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تم وہاں محفوظ رہو گی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، میں آ رہی ہوں لیکن اس کتے کو مجھ سے دور رکھو۔‘‘ بلونگڑی بولی اور رینگ رینگ کر جھاڑیوں سے نکلنے لگی۔ ایسے میں دانیال نے سکون کا لمبا سانس لیا اور بولا: ’’چلو اچھا ہوا، اب ہم اس سے زیادہ اہم کام کر سکیں گے یعنی دنیا کو شیطان سے بچانے کا کام۔‘‘

    وہ تینوں مسز بٹلر کے گھر سے ہوتے ہوئے کچھ ہی دیر میں انکل اینگس کے دروازے پر پہنچ گئے۔ انھوں نے خود دروازہ کھولا: ’’تو تم تینوں ہو، نہیں بلکہ ایک عدد بلی بھی ہے، یقیناً میرے لیے لائی ہوگی۔‘‘

    اسی لمحے فیونا کو بلونگڑی کی باتیں سنائی دینے لگیں، وہ کہہ رہی تھی: ’’یہ کیا بے ہودگی ہے، کیا میں بلی ہوں؟ کیا اس شخص کو اتنا بھی نہیں پتا کہ میں بلی ہوں یا نہیں۔ میں تو مشکل میں پڑ جاؤں گی یہاں۔‘‘

    ’’شش… ‘‘ فیونا نے اسے چپ کرایا اور کہا کہ انکل اینگس بہت اچھے آدمی ہیں اور بلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ فیونا نے اسے اینگس کے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ٹمبل ہے اور اسے انھوں نے جین بٹلر کے کتے سے بچایا ہے۔ اینگس نے اس سے بلی کا بچہ لے لیا اور انھیں اندر بھیج دیا جب کہ بلونگڑی کی دوسری بلیوں کے ساتھ جان پہچان کرانے کے لیے گھرے کے پچھواڑے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ تینوں اندر آئے تو سوائے فیونا کی ممی کے، سب موجود تھے۔ انھوں نے ٹھنڈا پانی پیا اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں جانی اور جیک بھی کتاب لے کر آ گئے۔ جانی نے کتاب اینگس کے بستر پر رکھی اور باقی لوگوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں مائری بھی پہنچ گئیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک بڑا بیکری باکس تھا۔ انھوں نے آتے ہی کہا: ’’اگر کوئی بھوکا ہے تو میں کیک، اسکاؤن، ڈبل روٹی اور پیسٹریاں لائی ہوں۔‘‘

    یہ سن کر سب ہی خوش ہو گئے۔ جانی نے کہا اب تم سب لوگ بیٹھ جاؤ تو بہتر ہوگا۔ سب بیٹھ گئے تو اینگس بھی اندر چلے آئے اور فیونا کی طرف دیکھ کر بولے: ’’تو تم تینوں اپنی اگلی مہم کے لیے تیار ہو؟‘‘

    یہ سن کر مائری ایک دم اچھل کر کھڑی ہو گئیں۔

    (جاری ہے)

  • ایک سو تیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جونی نے کہا: ’’جب وہ وقت آئے گا تو دیکھیں گے۔‘‘ دونوں زر و جواہر کے درمیان قدیم کتاب ڈھونڈنے لگے، جونی نے کئی دیدہ زیب اور قیمتی زیور اٹھا کر پینٹ کی جیب میں رکھے تو جیک کی توجہ پینٹ کی طرف چلی گئی۔ اس نے کہا: ’’جدید دور کا یہ لباس بھی کتنا عجیب ہے، مجھے تو بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے اس میں۔‘‘
    جونی ہنس پڑا اور کہا کہ اسے یہ لباس بہت پسند آیا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد جب وہ تھک چکے تھے، انھیں آخر کار کتاب مل گئی۔ جونی نے کہا ہمیں اسے ڈریٹن سے دور رکھنا ہوگی، اس کا ایک بھی لفظ اس کے کانوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ دونوں محتاط ہو کر خفیہ دروازے بند کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ جیک نے کہا کہ وہ اوپر مرکزی ہال میں شیشے کی منقش کھڑکیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ دونوں سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ ڈریٹن ابھی ہال سے نکلنے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اسے سیڑھیوں کی طرف سے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سیڑھیوں کی طرف مڑ کر چلایا: ’’پہلان … یہ تم ہو؟‘‘
    جیک اور جونی ایک دم رک گئے۔ جونی سرگوشی میں بولا: ’’میرا خیال ہے یہ ڈریٹن ہے، میں اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
    وہ دونوں اوپر کی طرف دوڑے۔ اس دوران ڈریٹن نے پھر پکارا … پہلان … لیکن اسے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ اسے فوراً خطرہ محسوس ہوا، وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر قلعے کے باہر کی طرف دوڑ پڑا تاکہ کہیں چھپ سکے۔ وہ دونوں جب اوپر ہال میں آئے تو ڈریٹن نہیں تھا۔
    ’’بزدل پھر بھاگ گیا۔‘‘ جونی جھنجھلا کر بولا۔ ’’میں اسے ڈھونڈنے باہر جا رہا ہوں، تم یہاں رک کر منقش شیشے والی کھڑکی دیکھو، ہاں یہ کتاب اپنے پاس رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف دوڑا اور جیک کو قلعے کے اندر اکیلا چھوڑ دیا۔
    ڈریٹن چھپ کر دیکھ رہا تھا، جب اس نے جونی کو باہر نکلتے دیکھا تو جھلا کر بڑبڑایا: ’’یہ پھر وہی آدمی آ گیا ہے، آخر یہ ہے کون؟ میں ایک بار پھر اپنا قد بڑا کر کے اسے قدموں سے کچل دوں گا۔‘‘
    وہ پہاڑیوں اور مجسموں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اور بار بار اپنی جگہ بدل کر جونی پر نظر رکھ رہا تھا۔ ایک موقع پر جونی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا، تب اس کی نظر سدا بہار صنوبری درخت ئیو کی باڑ پر پڑی۔ ’’ارے واہ، یہ تو بھول بھلیاں ہیں، شان دار۔‘‘ وہ خوش ہو کر دوڑتا ہوا اس میں داخل ہو گیا اور ایک کے بعد ایک موڑ مڑ کر دائروں میں گھومنے لگا، یہاں تک کہ وہ بھول بھلیوں کے وسط میں پہنچ گیا۔ اس کے سامنے ایک مجسمہ کھڑا تھا، جس کے قریب جا کر اس نے تختی پڑھی، لکھا تھا … کنگ رالفن، کنگ کیگان کے جدِّ امجد۔ ڈریٹن بڑبڑانے لگا: ’’تو یہ تم ہو بوڑھے بادشاہ، تم سے تو میں زیادہ خوب صورت لگ رہا ہوں، ہونہہ …‘‘
    یکایک اس کے کان کھڑے ہو گئے، شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ اس نے باڑ سے ادھر ادھر جونی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تب وہ تیزی سے مڑا اور مجسمے کے سامنے موجود کنوئیں کے اوپر رکھے ٹوٹے تختوں پر بغیر دیکھے پاؤں رکھ دیے۔ اگلے لمحے اس کے منھ سے ایک خوف زدہ چیخ نکلی اور اس نے خود کو ایک اندھے کنوئیں میں گرتے پایا۔ کنوئیں کی پتھریلی دیواروں سے اس کے کندھے چھل گئے اور سر زخمی ہوا۔ آخر کار ایک زبردست دھپ کے ساتھ وہ ایک سرنگ کی تہہ میں گر پڑا اور پھر اسے کوئی ہوش نہ رہا۔
    دوسری طرف جونی نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ اس کے ہاتھ نہ آ سکا، چناں چہ تھک ہار کر واپس ہال میں پہنچ گیا جہاں جیک ابھی تک اس منقش شیشے والی کھڑکی کو تک رہا تھا، جونی کی سماعت سے اس کی آواز ٹکرائی: ’’تو یہ ہیں بادشاہ کے بچے۔‘‘
    جونی چونک اٹھا۔ جیک رو رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا: ’’کیگان کو دیکھو، کتنا خوش نظر آ رہا ہے اور ملکہ تو ہمیشہ کی طرح بے حد خوب صورت ہے۔‘‘
    جونی نے اپنے دوست کے کندھے تھپتھپائے اور کہا: ’’چلو، یہ کتاب اینگس تک پہنچائیں۔‘‘
    ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی کشتی انھیں مل گئی۔ جیک نے پائن کے سوکھے درختوں پر نظر ڈالی لیکن زبان سے کچھ نہ کہا۔ جونی بڑبڑایا، اچھا ہوا یہ کشتی ہمیں مل گئی، ڈریٹن اب جھیل تیر کر پار کرے گا۔
    کچھ دیر بعد دونوں دوسری طرف پہنچ گئے۔ جیک نے کشتی کھینچ کر ایک سدا بہار جھاڑی کَنِیر کے پیچھے اسے چھپا دیا اور دونوں گھر کی طرف تیز قدموں سے چلنے لگے۔ ڈریٹن غار کے اندر زخمی حالت میں بے ہوش پڑا رہا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    فیونا نے جب دیکھا کہ ڈریٹن کسی بے قابو بھینسے کی طرح پتھروں پر اچھلتا، کودتا نیچے اتر رہا ہے، تو وہ ذرا بھی نہیں گھبرائی، اور بہادری کے ساتھ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھ کر سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ جب وہ قریب آیا تو فیونا نے اسے فوراً پہچان لیا۔ ’’تو یہ تم ہو، تم وہی بدمعاش ہو نا جس نے سیچلز میں جبران کو گرا دیا تھا، لیکن تم وہاں پہنچے کیسے تھے؟‘‘
    ڈریٹن اسے یوں بے خوفی سے باتیں کرتے دیکھ کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر رک گیا اور بہ غور دیکھنے لگا۔ ’’سنو مچھر، میں تمھیں اور تمھارے بارے میں اور قیمتی پتھروں اور جادوئی گولے کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میں نے تمھیں تمام پتھر جمع کرنے دیا ہے، جب سارے جمع ہوں گے تو میں تمھیں اور تمھاری ممی کو جان سے مار کر جادوئی گولا لے کر چلا جاؤں گا اس منحوس جگہ سے۔‘‘
    فیونا کو ذرا بھی ڈر نہیں لگا، وہ اسی طرح بہادری سے بولی: ’’تو یہ بات ہے۔ تو تم مجھ سے چھین لو گے … ہونہہ … منھ دھو رکھو اپنا۔ تم شیطان ہو اور بھولو مت کہ اچھائی ہمیشہ برائی پر غالب آ جاتی ہے۔‘‘
    ’’ہاہاہا… تو تمھارے اس مقولے نے کنگ کیگان کی کوئی مدد کیوں نہیں کی۔ کاش میں ابھی اس وقت موجود ہوتا اور اس کا سر قلم ہوتا دیکھ لیتا۔‘‘ ڈریٹن قہقہہ لگا کر بولا۔ فیونا کو اس کے بے رحمانہ الفاظ نے بہت تکلیف دی۔ ایسے میں اس کی نظر دور پیچھے سے آنے والے دو سایوں پر پڑی۔ ان کی آمد سے ڈریٹن بے خبر ہی رہا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ سرنگ سے آنے والے جیزے اور جیک ہیں، انھیں آتے دیکھ کر وہ اور نڈر ہو گئی: ’’تم بزدل ہو ڈریٹن، بالکل کنگ دوگان کی طرح۔ ہمیشہ چھپ کر وار کرتے ہو۔ یاد رکھو، میں تمام قیمتی پتھر جمع کرلوں گی اور تم ایک تک بھی پہنچ نہیں پاؤ گے۔ میں تم پر ایسا منتر پڑھوں گی کہ تم ایک پسّو بن جاؤ گے اور پھر تمھیں آسانی سے اپنے جوتے سے مسل کر زمین کے ساتھ برابر کر دوں گی۔‘‘
    عین اسی وقت جیزے نے دوڑ کر ڈریٹن کے گرد اپنے مضبوط بازوؤں کا پھندا بنا کر اسے جکڑ لیا۔ جیک فیونا کو ہاتھ سے پکڑ کر سرنگ کی طرف دوڑا اور اسے اندر چھوڑ کر پلٹا، لیکن ابھی جیزے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک اس کے سامنے زمین سے آگ کا ایسا بڑا شعلہ اوپر اٹھا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹتا ہے۔ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ گیا۔ آگ نے راستے میں دیوار کھڑی کر دی تھی اور وہ ان دونوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ وہ واپس سرنگ میں آ گیا۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہ ضرور ڈریٹن نے لگائی ہے، اس کے پاس بھی یقیناً وہی طاقتیں ہیں جو میرے پاس ہیں، میں بھی آگ بھڑکا سکتی ہوں۔ جیزے کی حفاظت ضروری ہے، مجھے خود کو بڑا کر کے ڈریٹن پر حملہ کرنا چاہیے۔‘‘
    ’’نہیں فیونا۔‘‘ مائری نے سختی سے کہا: ’’بہ بہت خطرناک ہے، تم یہیں رہو، ہمیں جونی اور جمی کا انتظار کرنا ہے۔‘‘
    ’’یہ خطرناک نہیں ہے ممی، میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں، مجھے جانے دیں۔‘‘ وہ مچلنے لگی تھی، مائری نے اسے اپنے بازوؤں کی گرفت میں رکھا تھا۔ ذرا دیر بعد شعلے بجھ گئے، اور جمی اور جونی بھی پہنچ گئے۔ وہ شعلے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے: ’’یہ شعلے کیسے ہیں، اور جیزے کہاں ہے؟‘‘ جیک نے بتایا کہ جیزے نے ڈریٹن کو پکڑ لیا تھا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ وہ جلدی سے اس مقام پر گئے تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ادھر ادھر تلاش کرنے پر انھیں جیزے جھیل کے کنارے زخمی حالت میں پڑا ہوا مل گیا۔ وہ بے ہوش تھا اور ڈریٹن کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ جونی نے اس کی نبض دیکھی اور اینگس سے کہا کہ اسے طبی امداد کے لیے جلد گھر پہنچانا ہوگا۔ جیک نے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور وہ سب گھر کی طرف چل پڑے۔
    فیونا نے بتایا کہ اس نے ڈریٹن کو سیچلز میں دیکھا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس بھی وہی طاقتیں ہیں۔ جونی کہنے لگا کہ پتا نہیں وہ کس طرح ان ہی جگہوں کا سفر کر رہا ہے، یقیناً پہلان جادوگر اس کی مدد کر رہا ہوگا۔ اس نے کہا: ’’اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود قیمتی پتھر حاصل نہیں کرسکتا، اب ہمیں جتنی جلدی ہو سکے باقی پتھر حاصل کرنے ہوں گے، کیوں کہ حالات خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلان ڈریٹن کو سب کچھ سکھا رہا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ سکے۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو اٹھارہ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھارہ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’میں نے وہاں ٹارچ کی جھلملاہٹ دیکھی ہے۔‘‘ اینگس پرجوش ہو کر بولے: ’’ضرور نیچے کوئی ہے۔‘‘
    ایسے میں جونی نے سب کو مخاطب کیا: ’’میرے پیچھے آؤ، اور دیواروں کے قریب رہو۔ کوئی چیز دیکھو تو اسے نظر انداز کر دو، یہ جگہ صدیوں تک خالی رہی ہے۔ تیز بالکل مت چلو، اگر کوئی آواز سنو تو رک جاؤ۔‘‘
    اس کی ہدایات سن کر مائری نے جلدی سے پوچھا: ’’کیسی آوازیں؟‘‘ ’’جانوروں کی… دیکھو، میں تم لوگوں کو خوف زدہ نہیں کرنا چاہتا لیکن چوہوں، چمگادڑوں، بھیڑیوں اور مکڑیوں وغیرہ سے مسائل ہو سکتے ہیں، اس لیے ایک دوسرے کے قریب رہو۔ میں تم سب کی رہنمائی کروں گا۔ مائری تم میرے پیچھے آنا، اس کے بعد فیونا اور پھر جیک، جیزے اور جمی آئے گا۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ نیچے کی سیڑھیاں اترنے لگے۔ سب نے اپنا اپنا ٹارچ اپنے سامنے رکھا تھا۔ مائری نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’مجھے چمگادڑوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘
    کافی دیر تک سیڑھیاں اترنے کے بعد فیونا نے تھک کر کہا: ’’یہ تو شیطان کی آنت کی طرح طویل ہیں، کب ختم ہوں گی یہ۔ کیا یہ آپ نے بنوائی ہیں جونی؟‘‘
    ’’نہیں فیونا، انھیں کنگ کیگان نے مقامی دیہاتیوں سے بنوایا تھا اور انھیں اچھی خاصی مزدوری دی گئی تھی، ویسے ہم پہنچنے ہی والے ہیں۔‘‘
    دس منٹ بعد وہ غار میں پہنچ گئے۔ اینگس حیرت سے منھ کھول کر پتّھر کے اس کمرے کو دیکھنے لگا جہاں کئی سرنگیں بنی ہوئی تھیں، وہ بات کرتے تو گونجنے لگتی۔ جونی کہنے لگا کہ اسے بھی نہیں پتا کہ یہ سرنگیں درست طور پر کہاں کہاں جاتی ہیں، تاہم ایک سرنگ ایسی ہے جو ایک اور جزیرے پر جا نکلتی ہے، اور ایک سرنگ واپس قلعے میں لے کر جاتی ہے، ایک بھول بھلیاں جاتی ہے اور باقی آس پاس علاقوں میں جا نکلتی ہیں۔ اس نے ایک سرنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے صرف اس سرنگ کا پتا ہے کہ اگر کسی کو فرار ہونا ہو تو اس کے لیے یہ والی سرنگ ہے جو سب سے مختصر ہے اور جھیل لوچ کے کنارے ایک ٹیلے پر جا نکلتی ہے۔‘‘
    ’’تو پھر ہمیں اسی سرنگ میں داخل ہونا ہے۔‘‘ مائری نے فوراً کہا اور ٹارچ کی روشنی میں غار کی چھت اور دیواریں دیکھنے لگیں۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ یہاں کبھی دریا بہتا تھا۔‘‘ جونی نے اثبات میں سر ہلایا اور بتانے لگا کہ کنگ کیگان کی کشتیاں یہیں کھڑی رہتی تھیں، اور وہ بھی ان میں سے ایک کشتی استعمال کرتا تھا جو اب کہیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ جونی نے بتایا کہ جس دن کنگ کیگان کا قتل ہوا، وہ یہاں نیچے آیا تھا اور ایک کشتی پر بیٹھ کر جھیل کی طرف نکل گیا تھا۔
    مائری کو ڈریٹن بدمعاش کو پکڑنے کی جلدی تھی، لیکن اچانک اس کی نظر فرش پر مکڑی پر پڑ گئی۔ فیونا نے ٹارچ کی روشنی اس پر ڈالی اور کہا کہ یہ ٹرنٹولا ہے لیکن اس نے حیرت کا اظہار کیا کہ اسکاٹ لینڈ میں ٹرنٹولا بھی ہیں۔ جونی نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب کیگان اپنی سرزمین چھوڑ کر خزانے اور ساز و سامان کے ساتھ یہاں آیا تھا تو یقیناً اس میں یہ ٹرنٹولا بھی آ گئی ہو گی اور ان غاروں میں ان کی افزائش ہوئی ہوگی۔ اچانک مائری چلائی: ’’یہاں تو ہزاروں کی تعداد میں مکڑیاں سرنگ سے نکل کر غار میں آ رہی ہیں۔‘‘
    جونی نے کہا کہ اب یہاں سے جلدی نکلنا ہے، اس نے سب کو ہوشیار کرایا کہ جیسے ہی کسی سرنگ میں مکڑیوں کا نشان نظر آئے، اس سے فوری طور پر واپس نکلنا ہے۔ مائری ایک سرنگ میں داخل ہوئی اور ٹارچ کی روشنی میں جائزہ لے کر بولی کہ یہ صاف ہے۔ فیونا کچھ سونگھ کر کہنے لگی: ’’یہاں تو عجیب سی سڑاند ہے، دیواریں لیس دار مادے سے لتھڑی ہوئی ہیں۔ مجھے کچھ آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں، کیا ہمیں رک جانا چاہیے؟‘‘
    وہ بھی آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگے۔ فیونا نے کہا کہ کیا یہ ٹرنٹولا کی آوازیں ہیں، چمگادڑوں کی یا پھر بھیڑیے کی!
    اینگس نے کافی دیر بعد منھ کھولا: ’’مجھے حیرت ہو رہی ہے فیونا، تم نے اپنی مہمات کی جو کہانیاں سنائی ہیں، اس کے سامنے تو یہ سب بہت معمولی چیزیں ہیں۔‘‘
    فیونا یہ سن کر چونک اٹھی اور جلدی سے کہا: ’’ارے ہاں، میں تو بڑے بڑے آکٹوپس سے لڑی ہوں، بڑے بڑے بچھوؤں اور ٹرالز سے مقابلہ کر چکی ہوں، یہ چند چمگادڑ کیا چیز ہیں!‘‘
    ’’ٹرالز، بچھو …‘‘ مائری ایک دم مڑ کر بولیں: ’’مجھے تو اس کے بارے میں کسی نے نہیں بتایا۔‘‘
    فیونا اپنی ممی کی تیوریاں دیکھ کر آگے کی طرف دوڑ کر بولی: ’’بعد میں بتا دوں گی ممی، اس وقت تو اس بدمعاش کو پکڑنا ہے نا!‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو سولہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سولہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’یہ آواز کیسی تھی؟‘‘ فیونا سیڑھیوں کی طرف دوڑتے ہوئے گئی۔ ’’یہاں نیچے کوئی ہے، یہ سیڑھیاں اور کتنا نیچے جاتی ہیں؟ جونی، کیا یہاں اور بھی کمرے ہیں؟ یہاں کے بارے میں تو صرف آپ ہی جانتے ہیں کیوں کہ آپ یہاں رہتے تھے نا!‘‘
    ’’جی ہاں، جمی، جیزے اور جیک یہاں کبھی نہیں آئے۔‘‘ جونی کہنے لگا۔ ’’تم لوگ جو کچھ دیکھ چکے ہو، اس قلعے میں اس سے کہیں بڑھ کر راز مدفون ہیں۔ کنگ کیگان نے اسے زیر زمین دریاؤں اور غاروں کے اوپر تعمیر کرایا تھا۔ یہاں ایسی سرنگیں ہیں جو آس پاس کے علاقے میں جا نکلتی ہیں۔ ان میں سدا بہار صنوبری جھاڑیوں والی بھول بھلیاں بھی ہے۔‘‘
    فیونا کو یاد آیا کہ وہ اس بھول بھلیاں کو دیکھ چکی ہے، اس لیے وہ بولی: ’’ہاں، میں، جبران اور دانی گئے تھے اس میں۔ بڑی لمبی قد آور جھاڑیاں ہیں۔ وہاں کچھ دیر کے لیے ہم کھو گئے تھے، وہاں ایک مجسمہ بھی ہے، اور بہت ڈراؤنی جگہ ہے۔ زمین میں لکڑی کا ایک دروازہ ہے جو خستہ حال ہے اور میں اس میں گرتے گرتے بچی تھی۔ یقیناً وہ کنواں بھی کسی سرنگ میں جاتا ہوگا۔‘‘
    جونی فیونا کی گفتگو سن کر ماضی میں کھو گیا۔ ’’مجھے یاد ہے کیگان کے مالیوں نے یہ سدا بہار صنوبر اگائے تھے۔ میں نے انھیں بلندی تک اگتے دیکھا تھا۔ انھوں نے یہ بھول بھلیاں چھوٹے شہزادوں اور شاہ زادیوں کے لیے بنایا تھا، اور وہ یہاں خوب کھیلا کرتے تھے۔ مالیوں نے کچھ جھاڑیوں کو جانوروں کی شکل میں تراشا تھا۔ کیا اچھے وقتوں کی یاد دلا دی ہے تم نے۔ اس قلعے میں جا بہ جا سدا بہار صنوبری جھاڑیاں اُگی ہیں، یہاں چند پہاڑیاں اور کئی مجسمے بھی ہیں۔ یہ قلعہ ایک بہت ہی خوب صورت جگہ تھی، خیر یہ باتیں پھر کبھی سہی۔ یہاں جو دریائی سرنگوں کے علاوہ سرنگیں ہیں، وہ کیگان نے حفاظت کے خیال سے بنوائی تھیں، کہ ہو سکتا ہے کبھی ان کے ذریعے فوری فرار کا وقت آ جائے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انھیں بھاگنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔‘‘
    ’’ہم یہاں کھڑے کھڑے کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اچانک مائری جھلا کر بولیں۔ ’’اگر نیچے کوئی ہے تو ہمیں اسے تلاش کرنا چاہیے۔ وہ ڈریٹن بھی ہو سکتا ہے اور اس صورت میں، میں اس کی گردن مروڑنا چاہوں گی کیوں کہ اس نے دو بار میرا گھر برباد کر دیا تھا۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس دل چسپ ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ اس اوزار کو ساتھ لے آئے ہیں، یہ تو بہت کارآمد معلوم ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے سلنڈر نما اوزار کو ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اینگس نے مسکرا کر کہا: ’’اسے ٹارچ کہتے ہیں، تم اسے سوئچ کے ذریعے جلا سکتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے اس کی ٹارچ کو روشن کر دیا۔ ’’حیرت انگیز!‘‘ جیک بے اختیار بولا: ’’اس نے تو سارا کمرہ روشن کر دیا ہے۔‘‘ جیک نے بڑی دل چسپی کے ساتھ اس کی روشنی دیواروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ پہلے تو وہ بڑا خوش دکھائی دیا لیکن پھر یکایک اس نے کمرے کو پہچان لیا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہو گئی۔ اس نے بے تابی سے ٹارچ کی روشنی فرش پر ڈالی: ’’کنگ کیگان کو اسی کمرے میں قتل کیا گیا تھا۔۔۔ میں اس درد اور خوف کو ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں!‘‘ جیک کے لہجے میں واقعی درد جھلکنے لگا تھا۔
    ’’تم ٹھیک کہتے ہو جیک۔‘‘ جمی نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’اگرچہ اس واقعے کے وقت ہم موجود نہیں تھے لیکن میں بھی اس درد اور خوف کو محسوس کر سکتا ہوں، جو اس عظیم شاہی خاندان کو آخری لمحات میں محسوس ہوا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اینگس کی طرف مڑ کر پوچھا: ’’ہم یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘
    اینگس نے فکر سے بھری اپنی نگاہیں قدیم دیواروں پر جما کر جواب دیا: ’’یہاں کوئی بہت ہی پراسرار کھیل کھیلا جا رہا ہے، اور میرے خیال میں اس کھیل کی کلید قلعے کی دیواروں میں چھپی ہے!‘‘
    جمی کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی، اس نے استفسار کیا: ’’ہم جادوئی گولہ حاصل کر چکے ہیں اور اب ایک ایک کر کے قیمتی پتھر جمع کر رہے ہیں، جب تک بارہ کے بارہ اپنی جگہ نہ پہنچیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں ہمیں یہاں سے کیا ملنے کی توقع ہو سکتی ہے؟‘‘
    جمی جیسے ہی چپ ہوا، اسے کوئی آواز سنائی دی۔ اس نے جلدی سے کمرے کے دروازے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی۔ ’’خاموش… وہاں کوئی ہے!‘‘ اس نے سب کو اشارہ کیا۔ سب خاموشی سے اوپر سے کمرے میں اترنے والی سیڑھیوں پر نظریں جما کر دیکھنے لگے۔ سیڑھیوں پر ٹارچ کی روشنیاں جھلملانے لگی تھیں۔ اگلے لمحے انھوں ںے جونی، جیزے، فیونا اور مائری کو دیکھ کر سکون کی سانس لی۔ ان سب کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹارچ تھی۔ اینگس نے مائری کو دیکھا تو حیران ہو گئے اور چونک کر فیونا سے مخاطب ہوئے کہ وہ اپنی ماں کو بھی لے آئی۔
    ’’اینگس، میں سب کچھ جان گئی ہوں۔‘‘ مائری نے انھیں ڈانٹنے والے لہجے میں کہا۔ ’’تم ان کے ساتھ شامل تھے اور مجھے اس سے معاملے سے بالکل بے خبر رکھا، تم نے آخر ایسا کیسے کیا؟‘‘
    اینگس نے شرمندہ ہو کر کہا: ’’میں معذرت خواہ ہوں مائری، لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا میں نے تمھاری بہتری ہی کے لیے کیا۔‘‘
    ’’میری بہتری…؟‘‘ مائری نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’تمھیں اس سے متعلق وضاحت کرنی ہے بعد میں۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ اینگس نے زور زور سے سر ہلا کر جان چھڑائی۔ مائری نے پوچھا کہ وہ سب یہاں کیوں آئے ہیں۔ جیک نے جواب میں کہا کہ کسی چیز کی تلاش میں ہیں۔ اس بار فیونا نے کمرے کی دیواروں پر نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’لیکن ایسی کیا چیز ہے؟‘‘
    جیک نے کہا کہ اس کا تو نہیں پتا لیکن جب ملے گی چیز تو سب جان جائیں گے۔ ایسے میں جونی، جو اس سے پہلی بار مل رہا تھا، بانہیں پھیلا کر آگے آ گیا: ’’آرٹر، میرے دوست، ہم ایک طویل عرصے بعد مل رہے ہیں، مجھے بہت خوشی ہو ر ہی ہے۔‘‘
    دونوں گلے ملے تو جونی نے مائری کا تعارف کرایا: ’’یہ مائری ہے، فیونا کی ممی، کنگ کیگان اور بدقسمتی سے کنگ دوگان کی مشترکہ وارث۔‘‘
    ’’تمھارا مطلب ہے کہ شہزادی ازابیلا کے واسطے سے وارث!‘‘ جیک بولا: ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ دوگان نے شہزادی ازابیلا سے اس کا بیٹا ہیگر چھین لیا تھا، اور اسے پال پوس کر اپنی ہی ماں کا دشمن بنا دیا تھا۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’تم اتنے چڑچڑے کیوں ہو؟‘‘ یہ کہہ کر پہلان نے اسے ایک ٹارچ تھما دی۔ ڈریٹن نے ٹارچ کی روشنی خود سے بے حد قریب رکھی، اور کہا: ’’ابھی ایک سیکنڈ پہلے تو یہ ٹارچ تمھارے پاس نہیں تھی، کہاں سے آئی یہ؟‘‘
    پہلان اس کے بے وقوفانہ سوال پر جھلا کر بولا: ’’بھولو مت کہ میں ایک جادوگر ہوں، بس اپنا منھ بند رکھو اور میرے قریب رہو۔ ہمیں مزید گہرائی میں جانا ہے۔ مجھے لگتا ہے تم کم زور دل ہو لیکن خیال رکھو کہ یہاں نیچے غار میں کچھ چیزوں سے سامنا ہو سکتا ہے!‘‘
    ’’چیزیں …!‘‘ ڈریٹن نے خوف زدہ ہو کر دہرایا: ’’کیسی چیزیں؟‘‘
    پہلان کی آواز آئی: ’’چمگادڑ، چوہے، بھیڑیے اور اس طرح کی دیگر چیزیں۔‘‘
    ’’بس یہی چیزیں؟‘‘ ڈریٹن نے اس بار طنزیہ لہجے میں کہا۔ پہلان نے اسے خبردار کیا: ’’مجھے یقین نہیں لیکن تم میرے قریب ہی رہنا۔‘‘ دونوں کچھ دیر تک خاموشی سے سیڑھیاں اترتے گئے۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل سیڑھیاں پاتال میں اترتی محسوس ہوتی تھیں۔ ڈریٹن کو خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘
    لیکن پہلان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرا دیر بعد اس نے پھر منھ کھولا: ’’کس نے بنائی ہیں اتنی ساری سیڑھیاں، لگتا ہے کئی برس لگے ہوں گے۔‘‘ پہلان بدستور خاموش رہا۔ وہ نیچے ہی نیچے اترتے جا رہے تھے یہاں تک کہ ایک بہت بڑے غار میں پہنچ گئے۔ اچانک بہت سارے چمگادڑ ڈریٹن کے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ پر جھپٹے۔ اس کے ہاتھ سے ٹارچ گر پڑی۔ اسی لمحے پہلان کے ہاتھوں کی تالی سنائی دی اور لمحوں میں تمام چمگادڑ جل کر راکھ میں تبدیل ہو گئے اور غار میں روشنی ہو گئی۔
    ’’ہونہہ … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘ اس بار پہلان نے اسی کے لہجے میں کہنے کی کوشش کرتے ہوئے اس پر طنز کیا۔ ’’مجھے قائل کرنے کے لیے تمھیں واقعی بہادری دکھانی پڑے گی سمجھے!‘‘
    ڈریٹن نے شرمندہ ہو کر کہا:’’مجھے نہیں پتا تھا کہ ہم اس طرح اچانک کسی غار میں پہنچ جائیں گے، یہاں تو کئی سرنگ ہیں، یہ کہاں جاتے ہیں۔‘‘
    پہلان ابھی اس بات کا جواب دے ہی رہا تھا کہ بری طرح ٹھٹھکا۔ پھرکی کی طرح گھوم کر چیخنے جیسی آواز میں بولا: ’’احمق لڑکے، کیا تم نے کسی کو اپنے پیچھے لگا لیا تھا، تم قلعے میں دوسرے لوگوں کو لے آئے ہو!‘‘ ڈریٹن حیران ہو گیا، اسے بھی آوازیں سنائی دیں۔ ’’میں کسی کو اپنے پیچھے لگا کر نہیں لایا۔ جو بھی آیا ہے وہ اپنے طور پر منصوبے سے آیا ہوگا، اور یہ غالباً فیونا اور اس کے دوست ہی ہوں گے، وہ پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکے ہیں۔‘‘
    ’’فیونا…!‘‘ پہلان جادوگر چونک اٹھا۔ ’’تم یہیں ٹھہرو، میں دیکھ کر آتا ہوں کہ کون ہے قلعے میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک کالے دھوئیں میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔
    ڈریٹن اندھیرے غار میں گرینائٹ سے بنی دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گیا اور ٹارچ عین اپنے سامنے کر دی تاکہ اگر ’چیزوں‘ میں سے کوئی اچانک سامنے آئے تو وہ اسے دیکھ سکے۔ وہ سوچنے لگا کاش میں بھی اسی طرح دھواں بن کر غائب ہونا سیکھ لوں، کتنا مزا آئے گا!
    (جاری ہے…)
  • ایک سو گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    مائری نے سخت لہجے میں کہا: ’’آپ میرے بغیر کہیں نہیں جا رہے، فیونا، تم جا کر کوئی گرم چیز پہن لو، کیوں کہ تم اب سیچلز میں نہیں ہو۔ ہم آپ کے ساتھ ہی جا رہے ہیں، اور اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں ہوگی۔ جب ہم گھر لوٹیں گے تو میں فیونا کے ساتھ اطمینان سے تفصیل کے ساتھ بات کروں گی، پھر آپ کے ساتھ بھی بات ہوگی۔‘‘

    جونی پریشان ہو گیا: ’’میرے خیال میں آپ کا جانا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ مائری نے دو ٹوک لہجے میں کہا: ’’ہم جا رہے ہیں، اگر میری بیٹی اس بادشاہ کی وارث ہے تو ہمارا حق ہے کہ ہمیں ہر بات کا پتا ہو اور ہر معاملے میں شامل رہیں۔‘‘

    فیونا واپس آ گئی تو مائری نے جبران اور دانیال کے متعلق پوچھ لیا کہ کیا وہ خیریت سے گھر پہنچ چکے ہیں اور کیا ان کے والدین کو یہ سب معلوم ہے۔ جیزے نے بتایا کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ چکے ہیں، اور یہ کہ ان کے والدین کو کچھ نہیں پتا، اور یہی بہتر ہے کہ انھیں کچھ بھی پتا نہ چلے۔ مائری نے اپنا اونی سویٹر اٹھا کر پہنا اور کہا: ’’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!‘‘

    وہ سب گھر سے نکلے تو مائری نے دروازہ لاک کر دیا، اور سبھی قلعہ آذر کی جانب چل پڑے۔

    (جاری ہے…)

  • ایک سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ڈریٹن عین اس وقت کھڑکی پر پہنچا تھا جب اینگس نے موتی گولے میں رکھا۔ وہ عادت کے مطابق بڑبڑایا: ’’تو اب صرف نو رہ گئے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے گلے میں لٹکے نیکلس پر نظر دوڑائی۔ ستارے کی تیسری نوک چمکنے لگی تھی۔ اس نے مکاری سے دل ہی دل میں کہا: ’’بہت اچھی جا رہی ہو فیونا، لگی رہو۔ لیکن یہ ڈریگن دیوار پر کیوں چمک رہے ہیں، خیر، مجھے اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہی ڈریگنز ہیں۔ یہاں میرا بہت سارا وقت ضائع ہو رہا ہے اور میں اس گندے گاؤں میں مزید ایک ہفتے کے لیے ہرگز نہیں ٹھہرنا چاہتا۔‘‘
    اسی وقت کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اینگس نے دروازے پر پہنچ کر کوئی بات کی اور پھر دروازہ کھول دیا۔ ایک شخص اندر داخل ہوا، اس نے سب سے ہاتھ ملایا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے سے واقف ہوں لیکن یہ نیا شخص کون ہے؟ وہ حیرت سے سوچنے لگا۔ کہیں ان قیمتی پتھروں کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا؟ اس کا مطلب ہے کہ مجھے قلعے جا کر جادوگر سے بات کرنی پڑے گی۔ یہ سوچ کر وہ احتیاط کے ساتھ درخت سے اترا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ’’آہا… آرٹر، تمھیں اتنے طویل عرصے بعد دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔‘‘ جیزے نے کہا اور اسے گلے لگا لیا۔ جمی نے بھی ایسا ہی کیا۔ ایسے میں جبران نے چاکلیٹ بسکٹ منح میں ڈالتے ہوئے عجیب سوال پوچھ لیا: ’’آپ نے کیسے جانا کہ آپ نے یہیں آنا ہے؟‘‘
    آرٹر پہلی بار ان پر نظر ڈال کر چونکا۔ ’’یہ کون ہیں جمی؟‘‘
    جمی نے تعارف کرایا کہ یہ فیونا، جبران اور دانیال اور یہ فیونا کے انکل اینگس ہیں۔ سب ہی جادوئی گولے سے منسلک ہو چکے ہیں!‘‘
    ’’جادوئی گولا!‘‘ آرٹر اچھل پڑا۔ ’’اوہ… تو آخر کار وہی ہوا جس کا مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے۔‘‘ اس نے جادوئی گولے پر نظر ڈالی اور کہا: ’’تو یہ ہے وہ موتی، کتنا عرصہ ہو گیا ہے اب اس بات کو۔ ویسے یہ کون سا سال ہے؟‘‘
    ’’تمھیں یقین نہیں آئے گا سن کر۔‘‘ جیزے نے جواب دیا: ’’یہ اکیسویں صدی ہے۔‘‘
    ’’اوہ… اچھا، ان بچوں میں کنگ کیگان کا وارث کون ہے؟‘‘
    ’’میں …‘‘ اچانک فیونا بول اٹھی۔ ’’میں ہوں اور جونی کے مطابق کنگ دوگان کی وارث بھی ہوں۔‘‘
    ’’جونی … جونی کون ہے؟‘‘ آرٹر حیران ہوا۔ اینگس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’آلرائے کیتھمور۔‘‘
    ’’لیکن ہم مختلف ناموں سے کیوں پکارے جا رہے ہیں؟‘‘ آرٹر نے پریشان ہو کر پوچھا۔ اینگس بتانے لگے کہ اس صدر میں ان کے نام بہت عجیب لگتے ہیں، اس لیے کوآن کا نام جمی رکھا گیا، پونڈ کا جیزے اور خود آرٹر جیک کے نام سے رہے گا۔
    ’’جیک … یہ بھلا کیسا نام ہے؟‘‘ آرٹر نے منھ بنا لیا۔ جیزے نے مسکرا کر کہا کہ جدید نام ایسے ہی ہوتے ہیں۔
    ’’تعارف ہو گیا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ’’جیک، اب تم بیٹھ جاؤ، فیونا مجھے سیچلز کے سفر کی روداد سنا رہی ہے۔‘‘
    ’’جیک، آپ نے موتی پر بہت ہی خراب قسم کا جادو کر دیا تھا۔‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا۔ ’’جبران، دانی اور مجھے اسے حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ عظیم الجثہ آکٹوپس اور خونی لہروں کے باعث موت کے منھ میں جاتے جاتے بچے ہم!‘‘
    ’’لیکن پائریٹس بہت ہی احمق تھے، آپ کچھ بہتر کر سکتے تھے۔‘‘ اچانک جبران نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
    ’’ٹھیک ہے آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گا۔‘‘ جیک نے جھینپ کر کہا۔ فیونا نے انھیں سیچلز کے سفر کی ساری کہانی سنا دی تو اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں، میں نے دشمن کو ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    ’’انکل اینگس کہاں ہیں؟‘‘ فیونا نے جمی اور جیزے کو صوفے پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔ ’’اور ہمیں گئے کتنی دیر ہوئی ہے؟‘‘
    جمی انھیں دیکھ کر اٹھا اور بولا: ’’ہیلو، تو تم لوٹ آئے، بس چند ہی منٹ ہوئے تم لوگوں کو۔ اور تمھارے انکل ذرا باہر چلے گئے ہیں کچھ معلومات اکٹھی کرنے۔ تمھارا سفر کیسا رہا، قیمتی پتھر لے آئے؟‘‘
    فیونا نے جیب سے موتی نکالا اور جمی کے حوالے کرتے ہوئے کہا: ’’ہم سیچلز پہنچ گئے تھے، بڑا مزا آیا۔‘‘
    جمی نے موتی لے کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ’’کتنا شفاف ہے موتی۔‘‘ وہ کچھ دیر تک قیمتی پتھر کو دیکھتا رہا پھر بولا: ’’تمھارے انکل نے کہا تھا کہ ان کی واپسی تک کچھ نہ کیا جائے، اس لیے جب وہ واپس آئیں گے تو یہ پتھر جادوئی گیند میں رکھا جائے گا، تب تک تم سے سفر کی تفصیلات سنی جائیں۔‘‘
    وہ سب انگیٹھی کے پاس کرسیوں پر بیٹھے اور گپ شپ کرنے لگے۔ ایک گھنٹہ بعد اینگس لوٹے۔ بچوں کو دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ فیونا بھی انھیں دیکھ کر اپنے سفر اور واپسی اور موتی کے بارے میں بتانے لگی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے یہ قیمتی پتھر گولے میں رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
    وہ سب جادوئی گولے کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ اینگس نے موتی لے کر جادوئی گولے میں بنے ایک سوراخ میں رکھ دیا، پہلی ہی کوشش میں موتی درست سوراخ میں رکھا گیا تھا اس لیے تینوں قیمتی پتھر پہلے کہیں زیادہ روشن ہو گئے۔
    ’’ایک موتی کے اندر کوئی ڈریگن کیسے منقش کر سکتا ہے؟‘‘ جبران دیوار پر تین ڈریگنز کی شبیہیں جھلملاتے دیکھ کر بولا۔
    ’’جادوگر حیرت انگیز ہوتے ہیں۔‘‘ جمی نے خواب ناک لہجے میں کہا: ’’وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایک روز تمھیں زرومنا جادوگر سے ملنے کا موقع ملے گا۔‘‘
    تینوں کی حیرت اور جوش سے بھری نگاہیں جمی پر جم گئیں۔ ایسے میں جیزے بول پڑا: ’’اس کا مطلب ہے کہ آرٹر جلد یہاں پہنچ جائے گا!‘‘
    ’’آرٹر…؟‘‘ جبران چونکا۔ ’’عجیب سا نام ہے، کیا آپ کا مطلب ہے آرتھر؟‘‘ جبران نے سر کھجاتے ہوئے پوچھ لیا۔
    ’’نہیں، میرا مطلب آرٹر ہی ہے، بہرحال، وہ جیک کے نام سے آئے گا۔‘‘ جیزے نے جواب دیا۔
    ’’آپ سب کے دو دو نام ہیں، بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔‘‘ جبران نے کہا تو جیزے نے مسکرا کر کہا: ’’تو یہی بہتر ہے نا کہ ہمیں جمی، جیزے، جونی اور جیک کہہ کر پکارا جائے۔ ہمارے اصل نام بھول جائیں تو اچھا ہے۔‘‘
    ’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ جبران بولا۔ ’’سب کے نام ج سے شروع ہوتے ہیں، یاد رکھنے میں آسانی ہوگی۔‘‘
    (جاری ہے)