Tag: رفیع اللہ میاں کی تحریریں

  • ایک سو چھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اینگس ایک کے بعد ایک ہوٹل چیک کرنے لگا کہ کہیں اجنبی لوگ تو نہیں ٹھہرے ہوئے۔ اکثر ہوٹلوں میں تمام کمرے بک تھے۔ اکثریت جوڑوں کی تھی۔ ہائی لینڈ تھیسل ہوٹل کے مالک بونی مک فرلینڈ نے کہا: ’’یہاں کوئی اکیلا شخص نہیں ٹھہرا ہوا، آپ جا کر بی اینڈ بی چیک کریں۔‘‘
    اینگس کو اس کا مشورہ پسند آ گیا، اور وہ سیدھا مک ڈوگل کے بی اینڈ بی پہنچ گئے۔ چھوٹے سے باغیچے میں قرمزی رنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے، وہ پھولوں کے پاس سے گزرے اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔ ’’ہیلو ایلسے!‘‘
    لیکن جب ان کی آواز پر کوئی نہیں آیا تو انھوں نے چیخ کر کہا: ’’کوئی ہے؟‘‘
    ’’اینگس یہ تم ہو؟‘‘ ایلسے اپنے ایپرن پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے آ گئی۔ ’’تمھیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے، میں کچھ پکا رہی تھی، آؤ، کچن میں آ جاؤ۔‘‘
    ’’اچھی خوش بو ہے۔‘‘ اینگس لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایلسے نے خوش ہو کر کہا: ’’اگر تم پسند کرو تو میں اس میں سے کچھ پیک کر کے تمھیں دے دوں گی لے جانے کے لیے، کیوں کہ تمھیں پکا کر کھلانے والی کوئی عورت بھی تو نہیں ہے!‘‘
    ’’نہیں… شکریہ۔‘‘ اینگس نے جھینپ کر کہا۔ ’’میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم نے یہاں کچھ عجیب سے واقعات ہوتے دیکھے ہیں گزشتہ چند دنوں کے دوران۔‘‘
    ’’تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ ایلسے کام روک کر ان کی طرف مڑی۔ ’’حالاں کہ ایسا ہی ہوا ہے یہاں۔ کئی معزز لوگوں سے زیورات چوری ہوئے اور بٹوے غائب ہوئے۔ رات کو یہاں عجیب سی آوازیں سنی جاتی ہیں۔ کیا تمھارا اشارہ ان ہی کی طرف ہے؟‘‘
    ’’کیسی عجیب آوازیں؟‘‘ اینگس نے پوچھا۔ ’’چھت پر چلنے پھرنے اور کچھ ٹوٹنے کی آوازیں۔ چند مہمانوں نے ناشتے پر شکایت کی کہ رات کو ان کی کھڑکیوں کے زور سے بند ہونے کی آوازیں آئی ہیں۔ ایک نے تو شکایت کی کہ اس کی کھڑکی کے پاس کسی کا ہیولا گزرا۔‘‘
    ’’اوہ… یہ تو بہت عجیب ہے۔ کیا خیال ہے یہاں کوئی بھوت ہے؟‘‘ اینگس نے ایلسے کو ڈرانے کے لیے کہا۔ ’’ہم اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے میں رہ رہے ہیں، کس کو پتا، ہو سکتا ہے یہاں کوئی افسردہ بھوت رہتا ہو!‘‘
    ایلسے اچھل پڑی۔ ’’یہاں بی اینڈ بی میں بھوت!‘‘ وہ ایک ہاتھ میں چمچا پکڑے آنکھیں پھاڑ کر بولی: ’’ٹھیک ہے، یہ بہت پرانا ہے لیکن بھوت اور یہاں، نہیں اینگس، یہ فضول بات ہے!‘‘
    اینگس نے مسکرا کر فوراً موضوع بدلا: ’’اچھا بتاؤ یہاں کوئی اکیلا شخص آ کر ٹھہرا ہوا ہے؟‘‘ ایلسے نے انھیں گھور کر دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر کہا: ’’ہاں، برطانیہ سے ایک شخص آیا ہوا ہے۔ وہ ایک لکھاری ہے، اسے پرسکون اور خاموشی والی جگہ چاہیے تھی۔ اچھا نوجوان ہے، بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے، اس کا نام ڈریٹن اسٹیلے ہے۔‘‘
    ’’ڈریٹن اسٹیلے۔‘‘ اینگس نے دہرایا۔ ’’کیا وہ اس وقت یہاں موجود ہیں، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
    ’’ہاں، وہ دوسری منزل پر ہے، چلو، مل آتے ہیں۔‘‘ دونوں سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر آ گئے۔ ایلسے نے ایک کمرے کے دروازے پر دستک دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اندر موجود ڈریٹن نے کمرے کے باہر آوازیں اور پھر دستک سنی تو اسے خطرے کا احساس ہوا۔ وہ فوراً کھڑکی کھول کر نیچے باغیچے میں کود گیا۔
    ’’اوہ شاید وہ یہاں نہیں ہیں۔‘‘ ایلسے نے کہا۔ ’’میں تو سمجھی تھی کہ وہ اپنے کمرے میں ہی ہیں۔ خیر تمھیں تو پتا ہے کہ میں یہاں آنے جانے والوں کو یاد نہیں رکھ پاتی۔‘‘
    اینگس نے کہا کہ اگر وہ آئے تو انھیں کال کر کے مطلع کر دے۔ اینگس جانے لگے تو ایلسے نے انھیں اپنے چند اسپیشل رول کاغذ کے لفافے میں ڈال کر زبردستی تمھا دیے، ساتھ میں اورنج مارملیڈ کی ایک چھوٹی سی بوتل بھی دے دی۔ اینگس نے شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ ڈریٹن ان کا تعاقب کرنے لگا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اینگس اس کے بارے میں کیوں پوچھتا پھر رہا ہے۔ اینگس بھی ڈریٹن سے متعلق اپنا دماغ دوڑانے لگے، اور چلتے چلتے بڑبڑانے لگے: ’’میرا خیال ہے میں نے گم شدہ وارث ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘
    (جاری ہے….)
  • ایک سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
    وہ بھاگے چلے جا رہے تھے، ان کے سروں پر بڑے بڑے چمگادڑ اڑ رہے تھے لیکن انھیں اس سے بھی بڑے خطرے کا سامنا تھا اس لیے وہ ان سے نہیں ڈرے۔ جب بڑا خطرہ سامنے ہو تو چھوٹے خطرے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ جبران گھبرا کر بولا: ’’قذاق بہت قریب پہنچ گئے ہیں، مجھے ان کی بو آ رہی ہے۔‘‘
    انھوں نے سنا، ایک قذاق اپنی بے سری آواز میں گا رہا تھا …. یو ہو ہو اور اک بوتل ۔۔۔ !
    دانیال یہ سن کر قہقہ لگا کر بولا: ’’ارے یہ تو واقعی انتہائی بے وقوف ہیں،ان کی سوچ بس بوتل اور تختے تک محدود ہے، کیا ان میں کوئی ایک بھی عقل مند نہیں ہے۔‘‘
    اچانک ان کی سماعتوں سے ایک چیختی ہوئی آواز ٹکرائی اور ان کے قدم بے ساختہ جہاں تھے وہیں جم گئے۔ وہ آواز کہہ رہی تھی: ’’بدمعاشو… ہے نا ایک عقل مند پائریٹ اور وہ میں ہوں۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ عین ان کے سامنے جھاڑیوں سے ایک انتہائی بدوضع اور خوف ناک شکل والا قذاق کود کر ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنی شکل مزید بگاڑ کر بولا: ’’حیران ہو گئے نا کہ میرے پاس بھی دماغ ہے ۔۔۔۔ ارغ ۔۔۔‘‘
    اس کے چہرے پر بڑے بڑے بال تھے، اور سر کے گہرے بھورے رنگ کے چپڑے بال رنگین رومال سے باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔وہ حیرت اور خوف سے قذاق کو دیکھ رہے تھے کہ اسی اثنا میں باقی سمندری ڈاکو بھی پہنچ گئے اور سب نے دائرہ بنا کر انھیں گھیرے میں لے لیا۔ ایک بولا: ’’سردار، ان بدمعاشوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟‘‘
    بدوضع اور بد نما قذاق مسکرایا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کے منھ میں سامنے کے تین دانت غائب تھے، اور ایک خلا نظر آ رہا تھا۔ اس کے باقی دانتوں پر کوئی بدبودار اور غلیظ مادہ چپکا ہوا تھا جس کی بو دس فٹ دور کھڑے ان تینوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا: ’’ارے بونی جان، تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے، چوں کہ ہمارے پاس بحری جہاز نہیں ہے اس لیے ہم انھیں تختے پر نہیں لے کر جا سکتے۔‘‘
    ان میں سے ایک پائریٹ جس کا نام بگ ٹومی تھا، نے تجویز پیش کی کہ انھیں کسی اونچے درخت سے لٹکا کر پھانسی دی جائے، کوے اور چوہے ان کے جسم مزے سے کھا جائیں گے۔‘‘
    اچانک فیونا چلا کر بولی: ’’نہیں… تم سب ہم سے دور رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے موتی نکال لیا اور بولی: ’’یہ ایک جادوئی بال ہے، اگر میں تم لوگوں کے سامنے کردوں تو تم سب بندر بن جاؤ گے۔‘‘
    تمام قذاق یہ سن کر ہنسنے لگے۔ ان کا سردار کیپن وِل منھ بگاڑ کر بولا: ’’اووو… ارے تم نے مجھے ڈرا دیا۔‘‘
    فیونا نے اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے تھوک نگلا اور بولی: ’’تو ٹھیک ہے، اگر تم اتنے بہادر ہو تو آگے بڑھو اور اسے حاصل کر لو۔‘‘ کہتے کہتے فیونا ٹھہری اور چند لمحے بعد بولی: ’’ڈر گئے نا!‘‘
    کیپن ول کی ہنسی ایک دم رک گئی۔ اس کے سر پر بندھا رومال ڈھیلا ہو کر اس کی آنکھ پر آیا۔ آنکھ پر بندھی پٹی گر گئی اور اس کی دوسری آنکھ بھی نظر آ گئی۔ جبران یہ دیکھ کر حیرت سے بولا: ’’ارے، اس کی دوسری آنکھ تو سلامت ہے، اس نے بلاوجہ چھپائی ہوئی تھی.‘‘
    کیپن ول نے جلدی سے پٹی آنکھ پر دوبارہ چڑھائی اور سر پر رومال کس کر باندھا اور پھرتی سے خنجر نکال کر غرایا: ’’میرے خیال میں تمھاری زبان کاٹنی ہی پڑے گی، بہت بولتے ہو تم۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو ایک ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ایک ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا گھٹنوں کے بل ریت پر بیٹھ کر جبران سے بولی: ’’ایک بڑا سا پتھر لے آؤ، اب اسے توڑنے کی باری ہے۔‘‘
    دانیال نے آنکھیں پھاڑ کر دو مونہے سمندری خول کو گھورا اور بڑبڑایا: ’’فیونا، کیا تم نے اسی خول سے آکٹوپس کو موت کے گھاٹ اتارا تھا؟‘‘
    فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ اس میں گھبرانے کی کون سی بات ہے۔ جبران نے ایک پتھر لا کر فیونا کو تھما دیا۔ فیونا نے صدفہ نوک کی طرف سے ریت میں دھنسا دیا اور اس کے اوپر پتھر مارنے لگی لیکن کئی بار ایسا کرنے پر بھی سخت خول ٹوٹ نہیں پایا۔ خول سے بدبودار پانی کے چھینٹے اڑ کر ان کے ہاتھوں پر لگے۔ جبران اور دانیال خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹے اور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگے۔
    ’’کک … کیا یہ زہر ہے … مم … میرے ہاتھ جل نہ جائیں۔‘‘ دانیال خوف کے مارے ہکلانے لگا۔ فیونا نے جھک کر اسے سونگھا اور بتایا کہ یہ زہریلا نہیں ہے بلکہ سمندری پانی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور پتھر جبران کے حوالے کر کے کہا: ’’میں خول کو دونوں ہاتھوں میں پکڑتی ہو اور تم اس پر پتھر مارو۔‘‘
    جبران نے ایسا ہی کیا لیکن اس بار پھر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ فیونا خول کو گھما کر بہ غور دیکھنے لگی، اور پھر کچھ سوچ کر اس کے اندر انگلیاں پھسا کر اس کا اوپری چھلکا زور لگا کر توڑنے لگی۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ یہ ترکیب کارگر ہو رہی ہے، اس کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہو گئے تھے لیکن اچانک دانیال گھبرا کر بولا: ’’رک جاؤ فیونا… پلیز رک جاؤ… دیکھو ہمارے پیروں تلے زمین سرکنے لگی ہے۔‘‘
    لیکن فیونا نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اور سمندری خول کھولنے کی جدوجہد میں لگی رہی۔ جبران بولا: ’’ارے وہ تیسرا پھندہ کیا ہو سکتا ہے؟ یاد ہے نا، ہر قیمتی پتھر کے لیے تین پھندے … جیسے ہی ہم اسے کھولیں گے کوئی خطرناک بات ہو جائے گی۔‘‘
    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ویسے ایک بات ہے، اب ہم سمندر میں نہیں ڈوبیں گے اور آکٹوپس بھی یہاں نہیں آ سکتا۔ یہاں ٹرال بھی نہیں ہے اور زلزلے بھی نہیں آئیں گے۔‘‘
    دانیال نے فوراً لقمہ دیا: ’’لیکن ہزار پا اور بڑے بڑے حشرات تو آ سکتے ہیں۔ یاد ہے جیکس نے یہی کہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ان جھاڑیوں میں کوئی خوف ناک چیز ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ جیسے ہی خول ٹوٹے گا، وہ نکل کر ہمیں ہڑپ کر جائے گی!‘‘ لیکن فیونا نے ہاتھ نہیں روکے اور پوری قوت صرف کر کے آخر کار اس نے خول کھول لیا، جس میں سے ایک بہت ہی چمک دار اور خوب صورت ہیرا برآمد ہوا، جو سمندری پانی کی وجہ سے چپچپا ہو رہا تھا۔ یہ موتی تھا … ایک بہت ہی خوب صورت اور قدیم موتی!
    فیونا بے ساختہ بولی: ’’واؤ … اس کی قیمت تو ضرور دس لاکھ پاؤنڈ ہوگی۔‘‘
    جبران کی نظریں بھی موتی کا طواف کرنے لگی تھیں جب کہ دانیال کی نظریں آس پاس تیزی سے گھوم رہی تھیں۔ وہ بے حد خوف زدہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب کچھ ہونے والا ہے … بہت ہی خطرناک …!‘‘
    اور پھر وہی ہوا جس اسے ڈر تھا!
    عین فیونا کے پیچھے اچانک ریتیلی زمین پھٹی اور ایک دل دہلا دینے والا ہاتھ برآمد ہوا۔ اس ہاتھ میں ایک چمکتی تلوار لہرا رہی تھی۔ دانیال دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا۔ یکایک ان دونوں کو بھی احساس ہوا کہ کوئی بری بات ہو گئی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مڑ کر پیچھے دیکھنے لگے۔ زمین پھاڑ کر جو ہاتھ باہر نکلا تھا اب وہ اکیلا نہیں تھا، بلکہ کئی اور ہاتھ بھی قطار در قطار نکل آئے تھے، اور ان میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اور ہر ہاتھ میں ایک تلوار تھی۔ ایسے میں دانیال جھاڑیوں کی طرف بھاگتے ہوئے چیخا: ’’میں نے کہا تھا نا کہ زمین کے اندر کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
    ’’ٹھہر جاؤ …‘‘ جبران بھی دوڑ پڑا۔ ’’میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا اور خوف سے چلایا: ’’یہ بحری قزاق ہیں۔‘‘
    زمین سے نکلنے والے ہاتھ اب محض ہاتھ نہیں رہے تھے بلکہ وہ پورے انسانوں کا روپ اختیار کر چکے تھے، یعنی قدیم بحری ڈاکو اپنی قبروں سے نکل آئے تھے۔ انھوں نے سیاہ و سفید دھاریوں والی شرٹ اور پھٹی ہوئی سیاہ پینٹیں پہنی تھیں، جب کہ سروں پر سرخ رومال بندھے ہوئے اور آنکھوں پر پٹیاں تھیں۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
    ڈریٹن کی آنکھیں کھلیں تو اسے شدید تکلیف کا احساس ہونے لگا۔ اس نے زندگی میں کبھی غسل آفتابی نہیں کیا تھا، سر سے پیر تک اس کی جلد میں جلن اور دکھن ہو رہی تھی۔ وہ رو پڑا: ’’اوہ … بہت تکلیف ہو رہی ہے!‘‘
    قریب سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص چھتری تھامے گزرا، اس نے ڈریٹن کو تکلیف میں دیکھ کر مشورہ دیا: ’’بیٹا، تم نے سورج کی کرنوں سے خود کو نادانی میں بری طرح جلا دیا ہے، جاؤ اور ایلوویرا نامی پودے کا عرق اپنے جسم پر ملو، اس سے تمھیں درد سے نجات مل جائے گی۔‘‘
    ڈریٹن بجائے شکریہ ادا کرنے کے، اس ادھیڑ عمر شخص سے بدتمیزی کرنے لگا۔ ’’اوئے بڈھے، کیا میں نے تم سے مشورہ مانگا ہے، اپنا کام کرو، چل نکل یہاں سے۔ میں کوئی بے وقوف ہوں، پتا ہے مجھے کہ خود کو سورج کی تیز روشنی سے جلا چکا ہوں۔‘‘ ادھیڑ عمر شخص نے برا سا منھ بنا کر کہا: ’’آج رات تمھیں اس کا اصل مزا آئے گا، اور میں اس کا سوچ کر ہی ابھی سے لطف لے رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا اور ڈریٹن نے غصے سے اپنا تولیہ جھٹکے سے اٹھا لیا، جس کے ساتھ ریت بھی اڑی، جو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں پر جا گری۔ ایک بچہ روتے ہوئے بولا: ’’ممی، اس احمق آدمی نے میرے سینڈوچ پر ریت جھاڑ دی ہے۔‘‘
    ڈریٹن نے نہایت بدتمیزی سے قریب آ کر بچے کا خالی ٹفن باکس اٹھا کر اس میں ریت بھری اور اسے بچے کے بالوں میں الٹ دیا۔ خالی باکس دوبارہ بھر کر پکنک پر آئی ہوئی فیملی کے کھانے پینے کے سامان سے بھری ٹوکری میں الٹ دیا اور بچے کی ممی سے بولا: ’’اپنے اس چوزے کو سمجھاؤ کہ چوں چوں بند کرے، نہیں تو ابھی اس کا کچومر نکال دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹفن سمندر میں اچھال دیا، اور پھر ہوٹل کی طرف چل دیا۔
    کچھ ہی فاصلے پر کاسمیٹک کی ایک دکان نظر آئی تو اس میں داخل ہوا، اس پر لکھا تھا ’’سن اینڈ فن۔‘‘اس کے بدن پر اب بھی ریت چپکی ہوئی تھی جو دکان کے اندر بھی گر رہی تھی۔ سیلز مین کو یہ دیکھ کر بہت برا لگا، اس نے آگے بڑھ کر نہایت مؤدب لہجے میں کہا: ’’سر، براہ مہربانی آپ باہر جا کر اپنے جسم سے ریت جھاڑ کر آئیں، ہم آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
    ڈریٹن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا: ’’ارے تم اتنے مزاحیہ لہجے میں کیوں بول رہے ہو، کیا تم احمق ہو؟‘‘
    سیلز مین نے دیگر کسٹمرز کی موجودگی میں اپنی بے عزتی محسوس کی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا: ’’آپ کو میرے لہجے میں کیا سروکار ہے؟ آپ باہر جائیں اس سے پہلے کہ میں پولیس کو طلب کروں۔‘‘
    ڈریٹن نے مسکرا کر زبردست جھرجھری لی اور تمام ریت دکان کے اندر ہی جھاڑ دی، اور پھر اطمینان سے دکان سے نکل کر ایک بار پھر سمندر کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ بچے نے اپنا ٹفن اٹھا لیا تھا۔ ڈریٹن نے اس کے ہاتھ سے ٹفن چھینا اور اس میں پھر ریت بھر دی۔ بچے کی ماں نے جلدی سے بچے کو ایک طرف اپنی آڑ میں چھپا لیا۔ ڈریٹن مڑا اور دکان کے اندر چلا گیا۔ اس نے ہاتھ پیچھے رکھے تھے، سیلز مین اسے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور بولا: ’’آپ پھر آ گئے اندر، فوراً باہر نکل جائیں۔‘‘
    دیگر کسٹمرز اسے دیکھ کر تیزی سے باہر نکلے۔ انھیں ڈر لگا تھا کہ کہیں یہ بد مست بھینسا انھیں نشانہ نہ بنا دے۔ ڈریٹن نے سیلز مین سے کہا: ’’ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں لیکن پہلے آپ یہ بتا دیں کہ آپ کا لہجہ کس قسم کا ہے؟‘‘
    سیلز مین نے ایک لمحہ ٹھہر کر نرمی سے جواب دیا: ’’یہ کرول لہجہ ہے، میرے ورثے کا ایک حصّہ!‘‘
    ’’اوہ…‘‘ ڈریٹن نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا اور اسے دھکا دیتے ہوئے اسی کے لہجے میں نقل اتاری: ’’تو ورثے کی زبان میں بات ہو رہی ہے۔‘‘
    سیلز مین اس کے دھکے سے لڑکھڑا گیا تھا، اور سنبھلنے سے پہلے ہی ڈریٹن نے اس کے سَر پر ریت ڈال دی۔ جس سے اس کے بال، کپڑے اور فرش گندا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔ ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے اس دوسری دکان نظر آ گئی، وہ اندر داخل ہوا اور ریک سے ایلوویرا جل، لوشن اور سن اسکرین اٹھا کر تولیے میں لپیٹ لیے۔ سیلز مین کسی دوسرے کسٹمر کے ساتھ مصروف تھا اس لیے وہ اطمینان کے ساتھ باہر نکل گیا، اس کے بعد وہ ہوٹل پہنچ کر نہایا۔ نہانے کے بعد اس نے سوچا کہ شاید ان چالاک بچّوں نے اب تک موتی حاصل کر لیا ہو گا، لیکن کیا میں ان کو کہیں ڈھونڈوں یا واپس گیل ٹے چلا جاؤں۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے جانا چاہیے، وہ خاصا دولت مند ہو کر لوٹ رہا تھا۔ جانے کا فیصلہ کر کے اس نے ہوٹل کے کمرے میں موجود ہر قیمتی شے کو پکڑا اور واپسی کا منتر پڑھنے لگا۔
    جب گھومنا بند ہو گیا تو اس نے خود کو اینگس کے گھر کے باہر پایا، بارش ہو رہی تھی، ذرا ہی دیر میں وہ بھیگ گیا۔ سورج کی تیز روشنی سے اس کی جلد دکھ رہی تھی اور بارش کے پانی سے اس کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔ اس نے اپنے کپڑے سیچلز ہی میں چھوڑے تھے اور شارٹس، جوتوں اور ایک ٹی شرٹ میں چلا آیا تھا، اس لیے وہ تیز رفتاری کے ساتھ بی اینڈ بی کی طرف دوڑنے لگا۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور ایلسے اس کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ وہ اس کی پروا نہ کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور ایک دھماکے سے درازہ بند کر دیا۔ ایلسے نے حیرت سے کہا تھا: ’’ارے ڈریٹن، تم تو جلے ہوئے پورے!‘‘
    (جاری ہے…)
  • اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں
    تھوڑی دیر بعد وہ آکٹوپس، جو اس کی تلاش میں تھا، کے سر پر نمودار ہو گئی۔ اس نے سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی آنکھ میں گھسیڑ دیا۔ آکٹوپس نے درد سے مچل کر ایک ٹانگ اسے پکڑنے کے لیے لہرائی لیکن وہ پھرتی کے ساتھ اچھل کر دوسری آنکھ کے قریب پہنچی اور سیپی کا سرا دوسری آنکھ میں بھی گھونپ دیا۔ آکٹوپس نے تکلیف کے مارے چیخ ماری اور آٹھوں ٹانگیں سر کی طرف لے گیا۔
    جبران خوشی سے چلایا: ’’واؤ، فیونا نے اسے اندھا کر دیا ہے، ارے وہ دیکھو، ابھی وہ ایک بار پھر بڑی ہو رہی ہے۔‘‘ دانیال بھی خوشی سے چلانے لگا۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے ساتھ ساتھ سیپی بھی بڑی ہونے لگی اور ایک خطرناک ہتھیار کا روپ دھار گئی۔ فیونا نے بڑے ہونے کے بعد سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی کھوپڑی میں دے مارا۔ سر پر یہ وار مہلک ثابت ہوا اور آکٹوپس کی اٹھی ہوئی ٹانگیں یک لخت گر کر پانی میں ڈوب گئیں۔ ذرا دیر بعد آکٹوپس ایک ڈھیر کی طرح پانی کی سطح پر دو پتھروں کے درمیان ادھر ادھر ڈول رہا تھا۔ فیونا اپنے نارمل قد میں آئی اور پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ ’’تم نے اسے بہادری سے مار دیا ہے فیونا۔‘‘ جبران نے اس کی تعریف کی۔
    ’’اگر میں نہ مارتی تو یہ ہم تینوں کو مار دیتا، اور کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘ فیونا نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ زندگی میں پہلی بار اس کے ہاتھوں کسی جان دار کا اس طرح قتل ہوا تھا، اس لیے وہ نہ خوشی محسوس کر رہی تھی نہ دکھ۔ دانیال نے توجہ دلائی کہ اس کے کپڑوں پر بے تحاشا گندگی پھیل گئی ہے۔ فیونا کے کپڑوں پر سے سرخ رنگ کا لیس دار مادہ پھسل پھسل کر گر رہا تھا، جس سے عجیب سی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ دانیال نے اچانک کہا ’’دیکھو پانی کتنا اونچا ہو چکا ہے، غار آدھا بھر گیا ہے۔ ہمیں جلد از جلد صدفہ اٹھا کر لانا ہے اور اسے باہر نکل کر ہی توڑیں گے۔‘‘
    فیونا بھی چونک اٹھی، اس نے جبران سے کہا کہ اب اسے مزید گہرائی میں جانا ہوگا، لہریں اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ جبران پانی میں کود گیا اور وہ دونوں اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ ذرا ہی دیر بعد وہ نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں وہی صدفہ تھا۔ دونوں کے چہروں پر خوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فیونا بولی: ’’واؤ، یہ تو خاصا بڑا ہے، میرے خیال میں دو مونہے صدفے میں موتی کی جسامت بڑھتی رہتی ہے۔‘‘
    دانیال نے مدد کر کے جبران کو پتھر پر چڑھایا، اور اسی لمحے ایک بہت بڑی لہر غار کے اندر داخل ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے، تینوں اس کی زد میں آ گئے۔ وہ پتھر سے پانی میں گر گئے لیکن گرتے گرتے فیونا چلائی: ’’جبران تم اس صدفے کو گرنے مت دینا۔‘‘
    لہر غار سے ٹکرا کر واپس چلی گئی تو تینوں پھر پتھر پر چڑھے۔ جبران نے صدفہ مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا، اسے دیکھ کر فیونا اور دانیال کی آنکھوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ دانیال بولا: ’’ہمیں جلد از جلد اس غار سے نکلنا ہوگا، ورنہ اگر اسی طرح لہریں آتی رہیں گی تو ہم یہیں مر جائیں گے۔‘‘
    وہ تینوں غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے، فیونا نے انھیں خبردار کیا کہ لہریں بے حد خطرناک معلوم ہوتی ہیں، اور پتھروں سے پٹک پٹک کر انھیں جان سے مار سکتی ہیں۔ تینوں پانی میں اتر کر تیر رہے تھے، ابھی وہ دہانے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک اور بڑی لہر آئی اور انھیں اپنے ساتھ اندر دھکیل گئی۔ انھیں لگا جیسے پتھروں پر دھوبی کی طرح لہروں نے انھیں پٹکا ہو۔ لہر واپس چلی گئی تو تینوں پانی سے سر نکال کر سانس لینے لگے، انھیں لگا کہ یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ دانیال نے کہا: ’’مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہی دوسرا پھندا ہے۔ دیکھو پانی اور غار کی چھت میں محض دو تین فٹ کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے، اور ہم ڈوب کر مر جائیں گے۔‘‘
    اسے لمحے ایک اور بڑی لہر اندر داخل ہو گئی۔
    (جاری ہے….)
  • ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا پانی میں گری تو اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا اور وہ پانی میں بے اختیار ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ جبران اور دانیال چیخ چیخ کر اسے خود کو بچانے کے لیے کہتے رہے۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ آکٹوپس کا ایک کوڑا اس کی دوسری ٹانگ سے بھی لپٹ چکا ہے، اور اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوا کہ آکٹوپس کی خون چوسنے والی کنڈلی بھی اس کی ٹانگ کے ساتھ لگ گئی ہے، یہ محسوس کرتے ہوئے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ اسی لمحے اس کے بازو سے بھی ایک ٹانگ لپٹی۔ فیونا نے تیزی سے آکٹوپس کی ٹانگوں پر اپنے آزاد ہاتھ سے مکے برسائے لیکن اس سے آکٹوپس مزید غصے میں آ گیا۔ اس کی چھ لہراتی اور لچکتی ٹانگیں بری طرح کھلبلانے لگیں اور فیونا کے جسم پر جہاں خالی جگہ دیکھی، وہاں سے لپٹ گئیں اور اسے پانی کے اندر کھینچنے لگیں۔ دانیال بے اختیار چیخا: ’’جبران وہ ڈوب رہی ہے، ہمیں اس کو بچانا ہے۔‘‘
    یہ کہہ کر دانیال پانی میں کود گیا اور تیرتا ہوا سیدھا آکٹوپس کے منھ کے قریب جا پہنچا اور اس کے منھ پر مکے برسانے لگا۔ جبران ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گیا تھا، اس نے سوچا تک نہ تھا کہ دانیال اس طرح کی جی داری کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے۔ یہ تو خود کو موت کے منھ میں دھکیلنے والی بات تھی۔ وہ پریشانی کے عالم میں پتھر پر بیٹھ گیا تھا اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک دانیال نے پانی سے سر ابھارا اور سانس لے کر بولا: ’’جبران … ہماری مدد کرو!‘‘
    دانیال دوبارہ ڈبکی لگا کر پانی میں چلا گیا، لیکن اس کے اس جملے سے جبران کو جھٹکا لگا اور جیسے وہ نیند سے یک لخت بیدار ہو گیا ہو۔ وہ اچھل کر پانی میں کود گیا اور فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ اندر ہی اندر شدید خوف زدہ بھی تھا لیکن وہ سمجھ گیا تھا کہ بچنے کا اب ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ آکٹوپس کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ اچانک آکٹوپس نے عجیب حرکت کر ڈالی۔ اس نے سیاہی کی پچکاری ماری اور پانی کا رنگ کالا ہو گیا۔
    کالے پانی میں ان تینوں کے لیے کچھ دیکھنا ناممکن ہو گیا۔ اسی لمحے آکٹوپس کی ساتویں ٹانگ جبران کے ٹخنے اور آٹھویں دانیال کے گھٹنے سے لپٹ گئی۔ اس کے بعد اس نے ٹانگیں پھیلا کر اوپر اٹھا لیں۔ تینوں نے پانی سے باہر نکل کر لمبی لمبی سانسیں لیں، لیکن اب وہ ہوا میں بلند تھے اور ہاتھ پاؤں مار رہے تھے تاکہ آکٹوپس کی مضبوط گرفت سے آزاد ہو سکیں۔ اچانک ایک اور حیرت انگیز بات واقع ہو گئی۔ فیونا اچانک غائب ہو گئی تھی۔ ان دونوں کو تو حیرت ہونی ہی تھی تاہم آکٹوپس بھی حیرت کا شکار ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یکایک جبران اور دانیال کو بھی اپنی گرفت سے آزاد کر دیا تھا، جس پر وہ دونوں تیزی سے تیرتے ہوئے پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
    جبران نے پریشان ہو کر کہا کہ فیونا کہاں غائب ہو گئی ہے، اس کے لہجے میں خوف اور سخت تشویش کا تاثر جھلک رہا تھا۔ دانیال نے ہکلا کر کہا: ’’تت … تمھارا … مطلب ہے کہ اسے آکٹوپس نے نگل لیا!‘‘ دانیال کی صورت یوں ہو گئی تھی جیسے وہ ابھی رو دے گا۔
    ’’میں یہاں ہوں … میں یہاں ہوں!‘‘ یکایک انھیں آواز سنائی دی۔ یہ باریک آواز تھی، وہ دونوں اچھل پڑے اور پانی میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ’’ارے وہ رہی فیونا۔‘‘ دانیال خوشی سے چلایا۔ جبران نے مڑ کر دیکھا تو پتھر کے پیچھے اسے بھی بالشت بھر فیونا نظر آ گئی۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر بولا: ’’فیونا تم کتنی ننھی منھی ہو گئی ہو… اوہ مائی گاڈ … یہ کیسا جادو ہے!‘‘
    ’’ہاہاہا …‘‘ فیونا ہنسی تو انھیں ایک باریک ہنسی سنائی دی۔ اس نے کہا: ’’مجھے ایک نوکیلی سیپی ملی ہے اور میں اس سے اس منحوس آکٹوپس کا تیاپانچہ کرنے والی ہوں۔‘‘
    یہ کہہ کر اس نے غوطہ کھایا اور پانی میں غائب ہو گئی۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    جبران کی خوف سے سرسراتی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’یہ ایک بہت بڑا آکٹوپس ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بے اختیار اتنا پیچھے ہٹا کہ اس کی کمر غار کی دیوار سے لگ گئی۔ دانیال نے دہشت زدہ ہو کر کہا: ’’تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم یہاں ایک بہت بڑے ہشت پا کے ساتھ پھنس چکے ہیں، اب ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے؟‘‘ دانیال کے چہرے پر خوف واضح دکھائی دے رہا تھا، وہ بولنے لگا: ’’دیکھو لہریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور پانی کی سطح بھی۔ مجھے لگتا ہے یا تو ہم ڈوب جائیں گے یا کسی سمندری بلا کی خوراک بن جائیں گے۔‘‘

    سچائی یہ تھی کہ وہ تینوں انتہائی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ آنکھیں خوف کے مارے ابل رہی تھیں۔ فیونا کا رنگ سفید پڑ چکا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن ہونٹ کانپ کر رہ جاتے تھے۔ جبران نے تھوک نگلتے ہوئے کہا: ’’یہ ضرور تین پھندوں میں سے ایک پھندا ہے۔‘‘

    اچانک تینوں خوف کے مارے چیخ پڑے۔ ان کے سامنے پانی سے سبز مائل کتھئ رنگ کا کوڑے کی طرح بہت موٹا سرا برآمد ہوا۔ جبران خوف سے لرزتے ہوئے بولا: ’’اس پر تو چوسنے والی کنڈلی بھی ہے، اگر یہ ہم میں سے کسی سے چھو گیا تو جسم کا سارا خون چوس لے گا۔‘‘

    لمبا نوکیلا تڑپتا کوڑا ان سے کئی گز کے فاصلے پر فضا میں گھوما۔ دانیال کانپ رہا تھا، اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ … ابھی ہمارا خون چوس لے گا۔‘‘
    فیونا ایسے میں بھی جھلا گئی، اور کہا: ’’بے وقوف مت بنو، آکٹوپس خون نہیں چوستا، ہاں اگر خوں آشام ہو تو پھر ضرور خطرہ ہے۔ یہاں اتنا اندھیرا ہے کہ میں اپنا جادو بھی استعمال نہیں کر سکتی، ادھر پانی کی سطح بھی بلند ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’لیکن تم خود کو چھوٹا اور بڑا تو کر سکتی ہو نا، خود کو اتنا بڑا کردو کہ اس خوں آشام آکٹوپس کو ختم کر سکو۔‘‘

    ’’لیکن یہ غار تو اتنا بڑا نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غار کی چھت کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔ ’’میں خود کو زیادہ سے زیادہ بارہ فٹ تک بڑا کر دوں گی جو کہ ایک بہت بڑے آکٹوپس کو ختم کرنے کے لیے ناکافی جسامت ہے۔ ویسے میرے خیال میں خوں آشام آکٹوپس کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘

    جبران چلایا: ’’وہ دیکھو، دوسرا کوڑے نما سرا بھی پانی سے نکلا ہے۔ اگر تم خود کو بارہ فٹ تک بڑا کر دو گی تو کم از کم اس کے ساتھ مقابلہ تو کر سکوگی نا۔‘‘
    دانیال کی روہانسی آواز سنائی دی: ’’ابھی دو ہی سرے باہر نکلے ہیں اور کُل آٹھ ہیں۔ فیونا ہم موت کے منھ میں جانے ہی والے ہیں۔‘‘

    ’’چپ کرو دانی۔‘‘ فیونا پریشان ہو کر بولی: ’’مجھے سوچنے دو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور چند ہی لمحوں بعد کچھ کہے بغیر اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ دانیال بے ساختہ چیخ اٹھا: ’’یہ تم نے کیا کیا… آکٹوپس تمھیں ایک لمحے میں کھا جائے گا اب۔‘‘

    دانیال نے خوف کے مارے آنکھیں ہی بند کر لیں۔ جبران حیرت سے اچھل پڑا تھا۔ اس نے کہا: ’’دانی، آنکھیں کھول کر دیکھو۔ فیونا جا جسم بڑا ہو رہا ہے۔ اف میرے خدا!‘‘

    جبران کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے فیونا کا بدن تیزی سے اپنی جسامت سے بڑا ہوتا گیا اور اتنا بڑا اور لمبا ہو گیا کہ اس کا سر غار کی چھت سے ٹکرانے لگا۔ وہ ایک دیو کی طرح لگ رہی تھی اب۔ دانیال نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ششدر رہ گیا، اس کی آنکھیں حیرت سے باہر نکل آئیں۔ وہ آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا لیکن اس کے سامنے کا منظر خواب نہیں حقیقت تھا۔ انھیں اپنے سروں کے اوپر فیونا کی باریک آواز سنائی دی: ’’مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے، میں کتنی لمبی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا انھیں سر جھکا کر دیکھ رہی تھی، دانیال کے منھ سے حیرت زدہ آواز نکلی: ’’بیس فٹ لمبی ہو گئی ہو فیونا، لیکن ہوشیار ہو جاؤ، پانی سے آکٹوپس کی چھ ٹانگیں نکل چکی ہیں!‘‘ اور پھر وہی ہوا جس کا انھیں ڈر لگا تھا۔ آکٹوپس کی کوڑوں کی مانند لہراتی، دہشت ناک ٹانگیں فیونا کی طرف بڑھیں۔ ایک ٹانگ فیونا کی بائیں ٹانگ سے لپٹی اور اسے پانی میں نیچے گرا دیا۔

    (جاری ہے…)

  • پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    دانیال نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی، کاش کسی آسان سی جگہ پر ہوتا موتی، لیکن ہر بار ایک بہت ہی مشکل جگہ میں قیمتی پتھر چھپا ہوتا ہے۔‘‘

    اچانک فیونا نے تشویش بھرے لہجے میں دونوں کو خبردار کیا: ’’اگر لہریں اندر جا رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ غار پانی سے بھرا ہو گا، اور اتنا گہرا ہوگا کہ ہم ڈوب سکتے ہیں، اس لیے ہمیں جلدی کرنا ہوگا۔ دانی تم کتنی دیر تک سانس روک سکتے ہو؟‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور جھک کر پانی میں سر ڈال دیا۔ جب اس نے سر باہر نکالا تو زور زور سے سانس لینے لگی۔ دانیال نے بتایا کہ وہ صرف تیس سیکنڈ سانس روک سکی ہے۔ اس کے بعد دانیال نے سانس کھینچ کر پانی میں سر ڈال دیا لیکن صرف پچیس سیکنڈ بعد ہی سر نکال واپس نکال لیا۔ جبران سب سے زیادہ ایک منٹ تک سانس روکنے میں کامیاب ہوا۔ فیونا نے کہا: ’’سنو، وہ سخت خول عین میرے پیروں کے نیچے ہے، دیکھو پانی بالکل شفاف ہے اور خول کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

    جبران نے بھی کہا کہ اسے بھی نظر آ رہا ہے، اسے یہ زیادہ بڑا نہیں لگا۔ اس نے کہا: ’’میں پانی میں غوطہ لگا کر اسے کھولنے کی کوشش کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ صدف کے دونوں پرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئی ہوں۔‘‘

    دانیال نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو خول کو اٹھا کر باہر نکالنا بہتر ہوگا، باہر اسے پتھر پر مار کر توڑا جا سکتا ہے۔ جبران غوطہ لگا کر خول کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن کائی جمنے کی وجہ سے خول پھسلواں ہو چکا تھا۔ اس نے صدفے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن اس کی سانس جواب دے گئی تھی، اس لیے اس نے سر باہر نکال لیا۔

    ’’خول پر کائی جم گئی ہے اس لیے اسے پکڑنے میں دشواری ہو رہی ہے۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا نے کچھ سوچ کر اپنا سینڈل اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خول توڑنے کی کوشش کر لے، ہو سکتا ہے کام بن جائے۔‘‘

    جبران نے سینڈل لے کر گہری سانس لی اور پھر غوطہ لگا لیا۔ ایسے میں دانیال ہنس کر بولا کہ پانی کے اندر وہ سینڈل استعمال نہیں کر سکے گا، کیوں کہ پانی کے اندر اس کا وزن بہت کم ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں… تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ وہ مسکرا دی، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ جبران نے جوتے کی مدد سے خول پر سے کائی ہٹانے کی کوشش کی۔ ایسے میں اس نے کن اکھیوں سے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا، جس پر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ اسے لگا کہ کہیں شارک نہ ہو، اس لیے فوراً اٹھا اور ایک پتھر پر چڑھ کر بولا: ’’نیچے کچھ ہے!‘‘

    ’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘ فیونا نے پوچھا: ’’اور میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

    ’’کوئی بڑی اور سیاہ چیز تھی، سینڈل سے خول نہیں کھل سکے گا، ہمیں کوئی اور طریقہ استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘

    فیونا نے نیچے دیکھا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ ایسے میں دانیال نے ان دونوں کے پیچھے دیکھا اور چلایا: ’’وہ دیکھو، کوئی چیز ہے وہاں۔‘‘

    جبران بھی چیخا: ’’تم دونوں بھی پتھر پر چڑھ جاؤ۔‘‘ دونوں جلدی سے پتھر پر چڑھے اور ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر پوچھا: ’’میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

    جبران کی توجہ سینڈل پر جا ہی نہیں سکی، کیوں کہ اس کے بعد سب کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیرنے لگے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ کوئی چیز تیرتی ہوئی ان کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سانپ ہو، یا کوئی ٹانگ یا بازو۔

    (جاری ہے…)

  • چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    ڈریٹن نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا لیکن وہ ان تینوں کو پہچان گیا تھا۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ جبران اس سے ٹکرا گیا تھا۔ جب وہ تینوں آگے چلے گئے تو ڈریٹن ان سے فاصلہ رکھ کر پیچھا کرنے لگا۔ تینوں ایک کیفے میں گئے، کھانا کھایا اور پھر سمندر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ دور سے انھیں جاتے دیکھتا رہا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کے پیچھے ہرگز نہیں جائے گا بلکہ یہیں پر ان کی واپسی کا انتظار کرے گا۔ یہی سوچ کر وہ ایک دکان کی طرف بڑھا اور وہاں سے ایک بڑے سائز کا تولیہ خریدا، پھر ریت پر آ کر شمسی غسل کے لیے لیٹ گیا، اور آنکھیں موند کر سو گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔

    تھوڑی دور آگے جا کر وہ ٹھہر گئے۔ وہاں دور تک قطاروں میں مختلف اقسام کے تاڑ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ ناریل کے درختوں کی بھی ایک قطار تھی۔ جبران نے کہا کہ ناریل توڑنے چاہیئں، لیکن فیونا کا خیال تھا کہ ناریل ابھی کچے ہیں۔ جبران اور دانیال پتھر لے کر ناریل گرانے کی کوشش کرنے لگے، اور فیونا ایک طرف بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے قیمتی پتھر موتی کے اصل مقام کے بارے میں معلوم کرنے لگی۔ ناریل اتنی اونچائی پر تھے کہ ان کے پھینکے پتھر وہاں تک بہ مشکل پہنچ رہے تھے۔ دانیال نے درخت کو ہلانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ دوسری طرف فیونا نے اچانک آنکھیں کھولیں اور خوشی سے چلائی: ’’چھوڑو ناریل ۔۔۔ یہاں آؤ، مجھے پتا چل گیا ہے کہ موتی کہاں چھپا ہے؟‘‘

    دونوں دوڑ کر اس کے قریب چلے آئے۔ دانیال نے بے تابی سے احمقانہ سوال کر دیا: ’’کہاں چھپا ہے، کیا ان بڑے ناریل میں سے کسی ایک میں ہے؟‘‘ یہی نہیں بلکہ وہ مڑ کر قریبی درخت کی طرف منھ اٹھا کر دیکھنے بھی لگا۔

    فیونا نے منھ بنا کر کہا کہ وہ ایک غار میں چھپایا گیا ہے۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر ریت پر بیٹھ گیا۔ ’’ایک بار پھر ہمیں غار میں جانا پڑے گا اور وہاں زلزلے آئیں گے اور ٹرال جیسی بھیانک مخلوق سے واسطہ پڑے گا۔‘‘

    فیونا جھلا کر بولی: ’’اٹھ جاؤ جبران، بہت ڈرپوک ہو تم۔ موتی ایک غار ہی میں ہے لیکن یہ غار زیر آب ہے۔‘‘

    ’’پانی کے اندر۔‘‘ دانیال اچھل پڑا۔ اس نے آنکھیں نکال کر کہا: ’’ہم پانی کے اندر کوئی غار کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس مطلوبہ سامان ہے؟ اور یہ بات بھی ہے کہ میں ایک بار پھر بھیگنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے بارے میں تو تبھی پریشان ہوں گے جب ہم یہ کرنے جائیں گے، وہ قریب ہی ہے، جہاں پتھروں کے ڈھیر پڑ ہیں، بس وہیں پر۔ جبران کہنے لگا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ بحری ڈاکوؤں کا جہاز ایک خزانہ لے کر ساحل پر آتا ہے اور وہ یہاں کسی غار میں اسے دفن کر دیتے ہیں۔ ویسے مزا آئے گا نا جب ہم خزانہ بھی ڈھونڈ نکالیں گے، جس کے بارے میں جیکس نے بتایا تھا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے خیال میں جیکس نے جھوٹ بولا تھا۔ دانیال سمندر کی بڑی بڑی لہروں کو دیکھ رہا تھا، اسے سونامی کا خیال آ گیا، جس کا اس نے باقی دونوں کے سامنے اظہار بھی کر دیا، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ فیونا نے کہا: ’’ان پتھروں پر ذرا احتیاط سے چلو، یہ پھسلواں بھی ہیں اور ان کے کنارے بھی تیز ہیں، ویسے مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا سامنا کسی سونامی سے ہوگا۔‘‘

    آخر کار وہ پتھروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں سے انھیں کیکڑے نکلتے دکھائی دیے، ذرا دیر میں وہ ایک غار کے سامنے پہنچ گئے۔ غار کا دہانہ اس انداز میں ان کے سامنے نمودار ہوا تھا جیسے گہرائی سے اوپر کی طرف ابھرا ہو۔ وہ محتاط ہو کر اندر داخل ہوئے۔ لہریں غار کے اندر جا رہی تھیں تاہم یہ لہریں بہت چھوٹی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’موتی زیر آب ہے اور ایک بڑے دو مونہے سیپی میں پڑا ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • چیہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    منگل کی صبح گیل ٹے کے لوگوں نے سورج کی روشنی کو، اور بادلوں سے بالکل صاف آسمان دیکھا تو ایک دوسرے سے خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ شاہانہ نے بلال کو مخاطب کیا: ’’میں آج مائری اور اس کی بیٹی کے لیے ایک ٹی پارٹی دینا چاہتی ہوں، گھر میں توڑ پھوڑ کی وجہ سے وہ بہت رنجیدہ ہے، کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

    ’’بڑا نیک خیال ہے۔‘‘ بلال نے خوش دلی سے جواب دیا: ’’جب آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو بھلا میں رنگ میں بھنگ کیسے ڈال سکتا ہوں۔ تو میرے لیے کیا حکم ہے، میں کہاں جاؤں؟‘‘
    شاہانہ مسکرائیں: ’’آپ مچھلیوں کے شکار پر خوشی خوشی جا سکتے ہیں، ویسے بھی ہمیں ٹراؤٹ کھائے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔‘‘ ایک لمحہ ٹھہر کر انھوں نے پوچھا: ’’یہ جبران کہاں ہے؟‘‘

    بلال کچن ٹیبل کے سامنے بیٹھے کافی پیتے ہوئے بولے: ’’وہ تو ابھی سو رہا ہے۔ ارے ہاں، کیا وہ اسکول نہیں جائے گا؟‘‘

    ’’آج چھٹی کر لے گا تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی، ویسے بھی آج ہاف ڈے ہے۔‘‘ شاہانہ نے کہا۔ ’’میں بدھ کو اس کی ٹیچر سے بات کر لوں گی اور جو کام رہ گیا ہے اسے پورا کرنے میں اس کی مدد بھی کردوں گی۔ آپ جا کر اسے جگا دیں، میں چند دعوت نامے تیار کروں گی۔‘‘

    ناشتہ کرنے کے بعد جبران دعوت نامے لے کر گھر سے نکل گیا۔ جانے سے پہلے شاہانہ نے اسے ایک بار پھر تاکید کی؛ ’’ایک مائری اور فیونا کو دینا، اور فلورا، ایلسے کی بی اینڈ بی جانا بھی مت بھولنا، ہاں نیلی کرافورڈ اور جینی مک ڈونلڈز کے گھر بھی جانا۔‘‘

    جبران نے اس پر برا سا منھ بنا لیا تھا لیکن چار و ناچار اسے تمام دعوت نامے پہنچانے کے لیے جانا ہی پڑا۔ اس کے جاتے ہی شاہانہ نے پھر بلال کو مخاطب کیا: ’’سنیے جی، جبران آ جائے تو پھر آپ بھی جا سکتے ہیں، مجھے ابھی بہت سارے کام کرن ہیں، ذرا جانے سے پہلے گول میزیں تو نکال کر باغیچے میں رکھ دیں۔ ارے میں تو بھول گئی، باغیچے میں تو اتنی گندگی پڑی ہے، پلیز جاتے جاتے وہ بھی صاف کر دیں اور اسپرے بھی کر دیجیے۔‘‘ بلال خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہو گئیں تو بول اٹھے: ’’میں تھوڑی دیر اور رک جاتا ہوں، آپ یاد کرلیں شاید کوئی اور کام بھی یاد آ جائے۔‘‘

    ’’نہیں… نہیں…‘‘ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئیں، اور پھر ہنس پڑیں: ’’بے فکر رہیں، بس اتنا ہی کام ہے، اور کسی کام کے لیے نہیں بولوں گی۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔

    ادھر جبران نے بی اینڈ بی کے دروازے پر دستک دی تو ذرا دیر بعد ایلسے نے دروازہ کھول دیا۔ ’’ہیلو جبران، سویرے سویرے یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘

    جبران بولا: ’’امی نے مائری اور فیونا کے لیے دوپہر میں ایک ٹی پارٹی کا انتظام کیا ہے۔ کیا آپ نے کچھ سنا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘‘

    اس وقت ڈریٹن اٹھ کر باتھ روم جا رہا تھا کہ اس کو ایلسے اور جبران کی گفتگو سنائی دی۔ وہ سیڑھیوں پر ٹھہر کر ان کی باتیں سننے لگا۔

    ’’ایلسے چونک کر بولی: ’’کیا ہوا ان کے ساتھ؟ وہ خیریت سے تو ہیں؟‘‘

    جبران نے جواب دیا: ’’ہاں لیکن کوئی ان کے گھر میں گھس گیا تھا اور شدید توڑ پھوڑ کی وہاں۔ اس نے کھانے کی ساری چیزیں دیواروں پر پھینک ماری تھیں۔ اسے صاف کرتے ہوئے پوری رات گزر گئی۔ مائری بہت رنجیدہ ہیں، اس لیے امی انھیں ٹی پارٹی دے رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ بھی آ سکیں گی۔‘‘

    جبران دعوت نامہ دے کر واپس چلا گیا۔ ایلسے نے دعوت نامہ رکھا اور مہمانوں کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ ڈریٹن دبے قدموں نیچے آیا اور دعوت نامہ کھول کر دیکھا، پھر بڑبڑایا: ’’تو مائری اور اس کی چہیتی دوپہر کو جا رہی ہیں، یہی وقت ہے کہ میں اس کے گھر دوبارہ جاؤں اور اسے یاد دلاؤں کہ ابھی میں یہیں پر ہوں۔‘‘

    اس نے دعوت نامہ رکھا اور اوپر جا کر نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر لیے۔

    (جاری ہے)