Tag: رفیع اللہ میاں کی تحریریں

  • تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’وائی کنگز بہت تیز رفتاری کے ساتھ دوڑتے آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا بولنے لگی۔ ’’لیکن جیسے ہی یہ لوگ روشنی کی اس دیوار سے ٹکرائیں گے، سب کے سب ختم ہو جائیں گے۔‘‘

    فیونا کا ہاتھ ابھی تک فضا میں بلند تھا، جس میں موجود مرجان سے نکلنے والی شعاع نے دیوار اٹھا دی تھی، جبران تجسس میں اس کے بہت قریب ہو گیا تو اس کا کندھا فیونا سے ٹکرا گیا، فیونا کو تو جھٹکا لگا ہی، لیکن جبران کو ایسے لگا جیسے کسی تیز برقی آرے نے اسے سَر سے بالکل درمیان میں پیروں تک چیر کر رکھ دیا ہو۔ فیونا بے اختیار چلائی: ’’یہ کیا کر رہے ہو جبران، دور رہو مجھ سے۔‘‘ جبران خود بہ خود ہی دور ہو چکا تھا لیکن اس جھٹکے کے باعث وہ کچھ دیر تک سن کھڑا رہا۔ فیونا کے ہاتھ میں مرجان سورج کی طرح چمکتا رہا۔

    وائی کنگز اندھا دھند دوڑے چلے آ رہے تھے، وہ بالکل بے خوف تھے اور راستے میں آنے والی کسی بھی چیز کو خاطر میں نہ لا رہے تھے، چناں چہ وہ جیسے روشنی کی دیوار سے ٹکرائے، غائب ہو گئے۔ اسی طرح وہ ایک ایک کرتے غائب ہوتے رہے۔

    ’’آہا، دیوار نے کام کر دیا۔‘‘ جبران جو اب تک جھٹکے سے سنبھل چکا تھا، خوش ہو کر بولا۔ اس کے چہرے پر اب خوف کی جگہ مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ ذرا دیر بعد سب کے سب وائی کنگز کا خاتمہ ہو گیا، تو فیونا نے اطمینان کی سانس لی، اور مرجان کو جیب میں رکھ دیا۔ روشنی کی دیوار بھی خود بہ خود غائب ہو گئی۔ دانیال نے فیونا سے پوچھا کہ اسے روشنی کی دیوار بنانے کا خیال کیسے آیا۔ فیونا نے کہا: ’’پتا نہیں، میرے دماغ میں خود بہ خود خیال آتا ہے اور میں فوراً عمل کر لیتی ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ کنگ کیگان کے جادوگر کے جادو کا اثر ہے۔‘‘

    ’’مجھے تو یقین نہیں آ رہا ہے فیونا۔‘‘ جبران بولنے لگا: ’’کہ ہم اتنے خطرات کے بعد بھی زندہ ہیں۔ مجھے تو یقین ہو گیا تھا کہ میں ٹرال کا لقمہ بن جاؤں گا۔‘‘

    ’’چلو، اللہ کا شکر ہے کہ ہم بچ گئے، اب یہ بتاؤ جبران کہ کیا تمھارا موڈ ہو رہا ہے کہ تم اپنی پسندیدہ ڈش پھر کھاؤ۔‘‘ دانیال نے مسکرا کر کہا۔

    ’’اہو … شرط لگا لو … میں تو تیار ہوں۔‘‘ جبران جھٹ سے بولا۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’پلیز جبران، اب تم یہ مت کہنا کہ پفن جیسا معصوم پرندہ بھی کھا جاؤ گے۔‘‘

    ’’نہیں، بالکل نہیں، میں تو کیلا اور پپرونی پیزا کھانا چاہوں گا، جو تم نے پہلے بھی کھایا تھا۔‘‘ جبران نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ دانیال نے ایسے میں جیب سے پمفلٹ نکال لیا اور پھر دونوں کو خبردار کیا: ’’ہمیں واپس لے جانے کے لیے کشتی یہاں سے دو گھنٹے بعد روانہ ہو گی۔‘‘ جبران نے منھ بنا کر کہا کہ اب تین گھنٹے پھر جی متلاتا رہے گا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ اب کے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ سمندر پرسکون ملے گا۔ تینوں بھوکے تھے، ٹاؤن کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ریستوران میں برگر اور پیزا کھا کر پیٹ بھرے اور بروقت جا کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ واپسی کا سفر واقعی پر سکون رہا۔ دوسری طرف ساحل پر اترنے کے بعد انھوں نے بس پکڑی اور ریکجاوک پہنچ گئے۔

    ’’میرے خیال میں ہمیں گھر واپس جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا۔ ’’کیا خیال ہے کہ جاتے جاتے نیلی جھیل میں کچھ دیر نہاتے ہوئے جائیں۔ ہم تیراکی کا لباس پھر کرائے پر لے لیں گے۔ اس کے بعد ایک یا دو برگر مزید کھا کر اپنے اپنے گھر ہو لیں گے۔‘‘

    ’’زبردست …!‘‘ جبران بولا۔ دانیال کو بھی تجویز پسند آئی۔ تینوں اپنے ہوٹل جا کر بل ادا کرنے لگے۔ انھوں نے میگنس کو الوداع کہا تو اس نے حیرت سے کہا: ’’گھر جا رہے ہو؟ میں نے تو تمھارے والدین کو ابھی تک نہیں دیکھا۔‘‘ فیونا کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ دوڑنے لگی۔ اس نے میگنس کے جوتوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’کتنے عجیب جوتے ہیں، تم تو بالکل بھتنے کی طرح لگتے ہو۔‘‘ میگنس کو اس کی بات عجیب لگی لیکن اس نے فیونا کی بات کا برا نہیں منایا، اور ان کے لیے دروازہ کھولا۔ وہ باہر نکلے تو میگنس نے انھیں الوداع کر کے کہا: ’’سچ یہ ہے کہ میں واقعی بھتنا ہوں۔‘‘

    یہ سن کر تینوں مسکرانے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ میگنس مذاق کر رہا ہے اور حقیقت میں بھتنے نہیں ہوتے۔ لیکن میگنس نے ایک ہاتھ اٹھا کر اسے ہلکا سا جھٹکا دیا اور ایک شعلہ سا بھڑک کر اس کے سر سے پیروں تک چلا گیا، اور اگلے لمحے اس کے کپڑے تبدیل ہو چکے تھے۔

    (جاری ہے)

  • باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا پرندے کو پیار کر رہی تھی کہ اچانک جبران کی سرسراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی: ’’فیونا، میرے خیال میں تیسرا پھندا میری سمجھ میں آ گیا ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال دونوں چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ جبران دور ساحل کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ پرندوں کا غول دور نیلے آسمان میں اڑتا جا رہا تھا۔

    ’’وہ کیا ہے؟ سمندری ڈاکو؟‘‘ فیونا نے دور سمندر میں ایک بحری جہاز کی طرف دیکھ کر کہا، جس کے بادبان پر سرخ و سفید دھاریاں تھیں اور جہاز کا مستول کسی ڈریگن کے سر کی طرح مڑا ہوا تھا۔

    دراصل یہ ایک وائی کنگ جہاز تھا جو ان کی طرف تیزی سے آ رہا تھا اور یہ بہت بڑا تھا۔ جب وہ ساحل کے قریب لنگر انداز ہوا تو بے شمار لوگ اس پر سے چھلانگیں مار کر اترے اور بحری جہاز کو ریت پر کھینچنے لگے۔

    ’’یہ وائیکنز ہیں…؟‘‘ دانیال کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان آدمیوں نے گھٹنوں تک پینٹیں پہنی تھیں اور شرٹس کی آستینیں لمبی لمبی اور کھلی کھلی تھیں۔ سب نے کانسی کی طرح دکھائی دینے والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں جن کی اطراف سے سینگ نکلے ہوئے تھے۔ ’’ارے ان کے کپڑے تو اتنے غلیظ ہیں، یہ دھوتے نہیں ہیں کیا؟‘‘ دانیال نے منھ بنا کر کہا۔

    ’’میرے خیال میں یہ بھاگنے کا وقت ہے، چلو بھاگو سب۔‘‘ جبران نے کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مخالف سمت میں بھاگ کھڑا ہوا۔ ’’ٹھہرو… ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور وہ دونوں بھی جبران کے پیچھے دوڑنے لگے۔

    وائی کنگز کسی اجنبی زبان میں چلا چلا کر کچھ کہہ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سونٹے اور برچھیاں تھیں، اور وہ سب ان تینوں کو پکڑنے آ رہے تھے۔ ’’میرے خیال میں اس بار پفن پرندے ہماری مدد کو نہیں آ سکیں گے۔‘‘ دانیال نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا: ’’فیونا، میرے خیال میں ہمیں وائی کنگز کو شہر کی طرف نہیں لے کر جانا چاہیے۔ سوچو، یہ لوگ شہریوں کے ساتھ کیا کچھ کریں گے، یہ تو ہمیں پکڑنے کے لیے ان سب کو قتل کر دیں گے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے میں جانتی ہوں لیکن ہمارے پاس دوسرا کیا راستہ ہے؟‘‘ فیونا کے لہجے میں پریشانی تھی۔ اچانک دانیال کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ بولا: ’’فیونا ہمارے پاس ہے دوسرا راستہ۔ تم زبردست قسم کی آگ بھڑکاؤ، وائی کنگز سمجھیں گے کہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہے، اور وہ یہ دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘
    ’’لیکن یہاں کے رہنے والے لوگ بھی اس آگ کو دیکھیں گے، وہ سب بھی خوف زدہ ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔‘‘ فیونا ایک جگہ ٹھہر گئی۔ پھر ایک پتھر پر بیٹھ کر کہا مجھے سوچنے دو۔ جبران ایسے میں بے چین ہو کر بولا: ’’ہم بیٹھ نہیں سکتے … وہ ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں۔‘‘ دانیال نے اسے مشورہ دیا کہ وہ پہاڑی کے سرے پر جا کر نگرانی کرے، اگر وائی کنگز نزدیک پہنچ جائیں تو چلا کر خبردار کر دے۔ جبران کے اس کے مشورے پر عمل کیا۔

    فیونا نے بیٹھے بیٹھے گہری سانسیں لیں۔ دانیال خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ فیونا نے آنکھیں بند کیں۔ اگلے لمحے اس نے دیکھا کہ وہ جزیرے پر تیز ہوا کی زد میں ہے اور وہ ایک نیلی تتلی کے پروں پر اڑ رہی ہے۔ عین اسی لمحے جبران ان کی طرف دوڑتا ہوا آ گیا: ’’بھاگو، وہ پہنچ گئے۔‘‘ فیونا اچھل کر کھڑی ہو گئی، دانیال نے پوچھا کہ کیا اس نے کوئی ترکیب سوچی۔ جب کہ فیونا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑنے لگی تھی، اس نے کہا ہاں میں سمجھ گئی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔
    جبران نے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم نے جو بھی کرنا ہے پلیز جلدی کرو، وہ ہمارے سروں پر پہنچ گئے ہیں۔‘‘ انھوں نے دیکھا وائی کنگز واقعی پہاڑی پر پہنچ گئے تھے۔ وہ سب قطار میں کھڑے ہو گئے تھے اور اپنے ہتھیار لہرا رہے تھے۔ اچانک وہ چیختے چلاتے پہاڑی پر نیچے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ زمین پر ان کے قدموں کی دھمک واضح محسوس ہو رہی تھی۔

    فیونا نے مرجان جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ سورج کی شعاعیں اس پر منعکس ہونے لگیں۔ گلابی شیشے جیسا ہرا چمک اٹھا۔ اسی لمحے فیونا کو ہیرے کے اندر ڈریگن نظر آ گیا۔ اس نے جبران کی طرف مڑ کر کہا: ’’میں ڈریگن کو دوبارہ استعمال نہیں کر سکتی….لیکن …‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے چپ ہو گئی، جبران کے چہرے پر حیرت پھیل گئی، وہ بھی یہی کہنے والا تھا، لیکن فیونا نے یک لخت مڑ کر قیمتی پتھر کو وائی کنگز کی طرف کر دیا، اور خواب جیسی کیفیت میں بولی: ’’جب تک یہ سورج ہمارے سروں پر چمکتا رہے گا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

    دانیال اور جبران نے دیکھا کہ مرجان اب براہ راست سورج کی روشنی میں نہا رہا تھا اور لمحہ بہ لمحہ روشن تر ہوتا گیا۔

    ’’فیونا، یہ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘ دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔ ہیرے سے ایک گلابی شعاع نکلی اور اگلے لمحے اس سے ان کے آگے پچاس فٹ اونچی ایک دیوار بن گئی۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہو گیا۔ وہ حیرت سے دیوار کو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگے۔ دیوار دونوں اطراف میں خود بخود پھیلتی جا رہی تھی اور ان کے اور وائی کنگز کے درمیان راستے کو بند کر رہی تھی۔

    (جاری ہے)

  • ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ’’رک جاؤ جبران، واپس آ جاؤ، ہم نے یہ مہم ایک ٹیم کی صورت سر کرنی ہے، ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ فیونا نے اسے آواز دی۔ ’’بہادر بنو اور جلدی واپس آؤ، دیکھو یہ ٹرال نہیں غالباً روشنی کی وجہ سے کسی چیز کا عکس بن رہا ہے۔‘‘

    جبران کے قدم رک گئے۔ وہ مڑ کر واپس ان کے پاس آ گیا لیکن وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ آگ نے پورے غار کو روش کیا ہوا تھا، جس میں وہ ہر چیز کو دیکھ سکتے تھے، تاہم آخری سرا اب بھی اندھیرے میں تھا۔ فیونا چند منٹ مزید خاموش کھڑی سوچتی رہی اور پھر بولی: ’’مرجان بس ذرا سا اور آگے ہے، میں وہ جگہ بھی دیکھ سکتی ہوں جہاں پتھر کو چھپایا گیا ہے۔ بس چند ہی قدم آگے ہے۔‘‘

    یکایک ایک گونج دار آواز نے ان کے دل دہلا دیے۔ ’’یہ … یہ کیا تھا… چچ … چلو فیونا واپس چلتے ہیں۔‘‘ جبران پر بری طرح گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔

    غار کے آخری سرے سے ایک اور گڑگڑاہٹ جیسی آواز گونجی۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’یہ ٹرال کی آواز ہے۔‘‘

    پھر ایک چیز ان کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔ جبران چلایا: ’’یہ ہمیں کھانے آ رہا ہے۔‘‘
    تقریباً بیس فٹ اونچا ٹرال ان کے سامنے کھڑا تھا اور سبز آنکھوں سے انھیں اوپر دیکھ رہا تھا۔ ’’اس کی ناک واقعی بہت بڑی ہے۔‘‘ دانیال کے منھ سے ڈری سی آواز نکلی۔ اچانک ٹرال غرایا۔ اس کی گونج دار آواز سے انھیں کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
    فیونا کو اس سے ڈر بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ تو بہت کاہل مخلوق ہے، لیکن لگتا ہے اسے غصہ آ رہا ہے۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ کوئی ترکیب سوچو کہ اس سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ٹرال نامی اس درندے کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جس کے چیتھڑے اس کے بازوؤں سے لٹک رہے تھے۔ اس کی ٹانگوں کی جلد یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ چھیلی گئی ہو۔ اس کے جسم پر موٹے موٹے بال اگے ہوئے تھے۔ اس نے جوتے نہیں پہنے تھے اور وہ دانیال کے پمفلٹ میں لکھی گئی تفصیل کے عین مطابق تھا۔

    دانیال بولا: ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ یہ درندے سورج کی روشنی سے سخت نفرت کرتے ہیں کیوں کہ اگر سورج کی شعاعیں ان سے ٹکرائیں گی تو یہ جل جائیں گے۔ اس لیے فیونا تم ڈھیر سے ساری آگ بھڑکا کر اسے مار سکتی ہو۔‘‘

    جبران کسی اور تجویز کے انتظار کے حق میں نہیں تھا، اس لیے وہ پلٹا اور بھاگنے کے لیے پر تولنے لگا۔ اچانک غیر متوقع سی بات ہو گئی تھی، ٹرال آگے کی طرف ایک قدم بڑھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ آگے کی طرف خاصا جھک بھی گیا تھا، جیسے انھیں پکڑنا چاہتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک بار پھر کان پھاڑ غراہٹ کے ساتھ چیخا تھا۔ دانیال اور فیونا بچاؤ کی جبلت کے تحت تیزی سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن جبران کی ٹانگیں ڈر کے مارے لڑکھڑا گئیں، جس کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ درندے نے ہاتھ بڑھا کر اسے شرٹ سے پکڑ کر فضا میں بلند کر لیا۔

    ’’بچاؤ … بچاؤ … درندے نے مجھے پکڑ لیا ہے۔‘‘ جبران غار کی چھت کے قریب جھولتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں چلایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے، درندہ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ’’یہ … یہ کیا ہو گیا فیونا، ٹرال تو جبران کو کھا جائے گا۔‘‘ دانیال ڈر اور بے چینی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ ’’ہم یہاں کھڑے نہیں رہ سکتے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
    ’’مجھے سوچنے دو … مجھے سوچنے دو۔‘‘ فیونا کے چہرے پر اب خوف کی جگہ غصہ چھا گیا تھا۔ ’’کاش اس وقت وہ ڈریگن ہمارے پاس ہوتا۔‘‘

    ’’لیکن ڈریگن ہمارے پاس نہیں ہے، جلدی کرو فیونا، وہ اسے دور لے جا رہا ہے، کیا وہاں کوئی دوسرا غار بھی ہے؟‘‘

    اسی لمحے جبران کی چیخ اندھیرے میں گونج کر رہ گئی تھی۔ فیونا لاوے سے بنے ایک پتھر پر بیٹھ کر بولی: ’’میرے خیال میں ہمیں پہلے قیمتی پتھر مرجان کو حاصل کرنا چاہیے، اس کے بعد جبران کے پیچھے جانا چاہیے، کیوں کہ درندہ اسے نہیں کھائے گا۔ کم از کم اتنی جلدی نہیں، کیوں کہ ٹرالز کو کچا گوشت پسند نہیں ہوتا، انھیں اپنی خوراک آگ پر بھون کر کھانا پسند ہے۔‘‘

    ’’فیونا …‘‘ دانیال چلایا۔ ’’وہ درندہ جبران کو زندہ بھوننے جا رہا ہے اور تم مرجان کے متعلق سوچ رہی ہو۔‘‘

    ’’دیکھو دانیال، مجھے غلط مت سمجھو۔ مجھے پھر سے اپنے اندر سے ایسے اشارے مل رہے ہیں اور میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ جبران کچھ دیر تک محفوظ رہے گا اور اتنی دیر میں ہم مرجان حاصل کر لیں گے۔ جب قیمتی پتھر ہمارے ہاتھ آئے گا تو ہمارے پاس مزید قوت آ جائے گی۔ پھر ہم یہ قوت جبران کو چھڑانے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘

    یہ کہہ کر فیونا کھڑی ہو گئی۔ ’’مرجان بہت قریب ہے۔ میں اسے محسوس کر سکتی ہوں۔ یاد ہے نا انکل اینگس نے کیا کہا تھا۔ قیمتی پتھر سے خاص قسم کی لہریں خارج ہوتی ہیں اور میں اسے محسوس کر رہی ہوں، وہ مجھے بلا رہا ہے۔‘‘

    دانیال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس حالت میں زیادہ بہتر کیا ہے۔ وہ فیونا کی طاقتوں کی مدد کے آگے مجبور تھا۔ اس نے یاد دلایا کہ ابھی یہاں مزید پھندے بھی باقی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔ فیونا نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی، پھر دونوں غار میں آگے بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اچھا اب تولیے واپس رکھ دو اور نیچے چل کر معلومات حاصل کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے تولیہ واپس ریک پر ڈال دیا، اور دروازے کی طرف بڑھی۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے چلے گئے۔ فیونا استقبالیہ پر موجود شخص کی طرف بڑھی۔ ’’جناب، کیا یہاں قریب میں کوئی آتش فشاں پایا جاتا ہے؟‘‘

    استقبالیہ پر موجود شخص مسکرایااور میز پر ذرا آگے کی طرف جھک کر انھیں پوری طرح دیکھ کر بولا: ’’یہ پورا ملک ہی آتش فشاں ہے، ہاں اگر یہ جاننا ہو کہ حالیہ آتش فشاں کہاں پھٹا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ ویسٹمین جزائر کا ایک آتش فشاں ہے جسے ہیمے کہتے ہیں، اور یہ 1973 میں پھٹا تھا۔‘‘

    ’’ہاں بالکل یہی، ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ فیونا نے جلدی سے پوچھا۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے تھوڑی سی دیر کر دی، کیوں کہ سہ پہر کو آخری کشتی بھی کچھ دیر قبل ہی نکلی ہے، اب اگلی صبح کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ ناشتہ کر کے میرے پاس آنا تو میں راستہ سمجھا دوں گا۔ اس نے انھیں چند پمفلٹس بھی دیے اور ہدایت کی کہ انھیں غور سے پڑھ لیں۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے آخر میں اپنا نام بھی بتایا: ’’میرا نام میگنس میگنسن ہے، لیکن تم لوگ مجھے صرف میگنس پکار سکتے ہو، اور آپ کی تعریف؟‘‘

    ’’میں فیونا، یہ جبران اور یہ دانیال۔‘‘ فیونا نے تعارف کرایا: ’’دراصل ہمارے والدین جلد ہی یہاں پہنچیں گے۔ انھوں نے ہمیں پہلے ہی یہاں بھیج دیا ہے اس لیے ہم اپنے طور پر گھوم پھرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ رکجاوک کی شام سے لطف اندوز ہو۔

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا: ’’ہمیں میگنس کی بات پر عمل کرنا چاہیے، باہر چل کر رکجاوک کی شام کا لطف اٹھاتے ہیں اور پھر واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ تینوں ہوٹل سے نکل کر سڑک پر آ گئے اور پمفلٹس کھول کر یہاں کے بارے میں درج معلومات پڑھنے لگے۔ جبران نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور حیران ہو کر کہا: ‘‘ابھی ساڑھے چار ہی بجے ہیں اور اندھیرا چھانے لگا ہے، گرمیوں کے موسم میں یہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور ساری رات سورج کی روشنی رہتی ہے۔‘‘

    ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ اب یہاں خزاں کا موسم ہے، اسی لیے سردی بھی کوئی خاص نہیں ہے اور برف باری بھی۔‘‘ دانیال بتانے لگا، وہ اب جادو کی وجہ سے انگریزی بول ہی نہیں بلکہ اچھے سے پڑھ بھی سکتا تھا۔ جبران نے اندھیرا ہوتے دیکھ کر کہا: ’’ہمیں اب ہوٹل جانا چاہیے، اجنبی مقام پر رات کو گھومنا محفوظ نہیں۔‘‘

    ’’کسی میوزیم یا پھر کوئی لائبریری دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا۔ فیونا نے جبران کی حمایت کی: ’’نہیں دانی، ہم یہ سب جگہیں پھر بھی دیکھ سکتے ہیں، ویسے مجھے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا کہ کل تو ہم بہت مصروف ہوں گے، کچھ شاپنگ ہی کر لیتے ہیں، خواہ ایک ہی دکان میں جائیں۔ جبران اور فیونا نے اس کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ جبران نے کہا میں تو مچھلیوں والے کی دکان میں جانا چاہوں گا، جہاں ماہی گیری کا سامان فروخت ہوتا ہو، اپنے پاپا کے لیے کچھ خریدوں گا۔ لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا کہ یہ چیزیں تو گیل ٹے میں بھی بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ ایسے میں فیونا نے سامنے کی ایک دکان کی طرف اشارہ کیا کہ چلو اس میں چلتے ہیں۔ فیونا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، یہ دست کاری، فن اور اونی اشیا کی دکان تھی۔ دانیال سڑک ہی پر کھڑا رہ گیا، اس نے کہا: ’’نہیں بھئی، یہاں لڑکیوں کی چیزیں ہی ملتی ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، تم اپنی مرضی کی دکان ڈھونڈ لو، ہم دونوں یہاں جاتے ہیں، لیکن آدھے گھنٹے بعد یہیں پر واپس آنا۔‘‘

    آدھے گھنٹے بعد جب دونوں دکان سے نکلے تو دانیال کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ انھوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر رفتہ رفتہ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔

    (جاری ہے)

  • اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’لو یہ تو بڑی جلدی مل گیا۔ یاد ہے نا ہم نے کس طرح کرنسی حاصل کی تھی۔ اب پھر ہمیں وہی دکھ بھری کہانی سنانی ہے۔ تو سب سے پہلے میں کوشش کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے مسکرا کر یاد دلایا اور بینک کے اندر چلی گئی۔ پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آئس لینڈ کے کرنسی نوٹ تھے۔ وہ آتے ہی چہک کر بولی: ’’میں بہت شان دار اداکاری کرنے لگی ہوں۔ اچھا تم دونوں یہ رقم رکھ لو، جب ہم واپس جائیں گے تو انکل اینگس کو بقایا رقم واپس کر دیں گے۔‘‘ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم دے دی۔

    ’’میری دعا ہے کہ کوئی ہم سے پاسپورٹ نہ طلب کر لے۔ ویسے اگر ہمارے پاس پاسپورٹ ہوتے تو ہم اس پر ان سارے مقامات کی مہر لگوا لیتے۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    فیونا نے آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا: ’’ایسا ظاہر کرو کہ تم یہیں رہتے ہو، ایسی حرکتیں نہ کرو کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر چہک کر بولی: ’’واہ یہ کتنا پیارا ہوٹل ہے۔‘‘

    وہ تینوں وائی کنگ شپ نامی ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سامنے ہی قدیم بادبانی کشتی وائی کنگ کا ماڈل نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ ’’یہ کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ جبران دوڑ کر اس کے قریب چلا گیا۔ کشتی میں وائی کنگ جنگجوؤں کے مجسمے کھڑے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور بھاری ڈھالیں تھیں۔ وہ ایک بڑے کمرے میں کھڑے تھے، جس کی چھت کے قریب دیواروں پر چوبی ڈریگن یا سمندری عفریت چاروں طرف چکّر کاٹ رہا تھا۔ اس کے منھ سے شعلے نکلتے اور ہر چند فٹ کے بعد اس کی پشت میں ایک کوہان نما اٹھ کر چھت سے ٹکراتا۔ وائی کنگ جنگجو نہ صرف کشتی میں کھڑے تھے بلکہ پورے دالان میں چند قدم کے فاصلے پر ایستادہ تھے۔ ہوٹل کے کمرے کے وسط میں شیشے کے صندوق میں وائی کنگ ٹوپیاں، سکے، کھلونے، پیالے اور دوسری نوادرات رکھی ہوئی تھیں۔ فیونا نے سرگوشی کی: ’’تم دونوں یہ نوادرات دیکھو، میں اندر جا کر کوئی کمرہ کرائے پر لیتی ہوں۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو فیونا، اگر انھوں نے تم سے پاسپورٹ کے متعلق پوچھا تو؟ ‘‘ جبران نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ارے تم پریشان کیوں ہو گئے ہو، گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ فیونا نے جواب دیا اور بغیر اس کی بات سنے چلی گئی۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کی انگلی سے ایک چابی لٹک رہی تھی۔ اس نے چالاکی سے ہنستے ہوئے کہا: ’’انھوں نے مجھ سے پاسپورٹ مانگا لیکن میں نے کہہ دیا کہ میرے والدین بعد میں آئیں گے اس لیے انھوں نے مجھے کمرہ لینے کے لیے بھجوا دیا۔ اور یہ سن کر اس نے میری بات پر یقین کر لیا۔‘‘

    ’’تم تو بہت زبردست جا رہی ہو فیونا، تمھارا جواب نہیں۔‘‘ جبران خوش ہو کر بولا۔ اپنی تعریف سن کر فیونا کا سینہ فخر سے پھول گیا۔

    ’’ہمارے کمرے کا نمبر کیا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔ ’’سیکنڈ فلور، روم نمبر 217.‘‘ فیونا نے بتایا۔

    وہ تینوں اپنے کمرے میں آ گئے۔ یہ اتنا اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا، جس میں تین عدد بستر بچھے تھے۔ تینوں ایک ایک بستر پر بیٹھ کر سستانے لگے۔ فیونا فوراً لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا سا ہوا اور وہ ایک منظر دیکھنے لگی۔ یہ ایک آتش فشاں پہاڑ کا منظر تھا جو ایک زبردست دھماکے سے پھٹا اور وہ آگ اور لاوا اگلنے لگا۔

    وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی، دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔ فیونا نے کہا میں جان گئی ہوں کہ مرجان کہاں ملے گا ہمیں۔ وہ دونوں اس کے پاس آ گئے۔ فیونا نے کہا سب سے پہلے ہمیں یہاں کسی سے قریبی آتش فشاں کے بارے میں معلوم کرنا ہوگا، ہمیں وہیں جانا ہے۔

    ’’کیا… آتش فشاں … ‘‘ دونوں چونک اٹھے۔

    ’’ہاں، چلو ہوٹل کے دالان میں کسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں کمرے سے نکلنے لگے تو جبران نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ ’’ارے یہ دیکھو، یہ کتنا خوب صورت باتھ ٹب ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال نے بھی اندر جا کر دیکھا، تمام ٹائلوں پر وائی کنگ کشتی کی تصویر منقش تھی۔ ہر ٹائل پر کشتی کو مختلف رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ ٹاؤل ریک پر تین تولیے لٹک رہے تھے، یہ بھی مختلف رنگوں کے تھے اور ان پر بھی وائی کنگ جنگ کے مختلف مناظر کی چھپائی کی گئی تھی۔ باتھ ٹب عین وسط میں تھا اور اس پر اسکینڈے نیویا کے غار کی دیواروں والی لکیریں اور علامات بنائی گئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر جبران کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

    ’’یہ تو رونک حروف تہجی ہیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ فیونا حیران ہو گئی: ’’رونک حروف تہجی کیا ہیں؟‘‘

    ’’دراصل وائی کنگ لوگ اسی طرز تحریر میں لکھتے تھے۔ حیرت ہے تمھیں نہیں پتا، اسکول میں یہ ہمیں پڑھایا تو گیا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ’’ہاں ٹھیک ہے پڑھایا ہوگا۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سبز رنگ کا تولیہ کھینچ کر بولی: ’’مجھے تو یہ والا پسند ہے، اس لیے یہ میری ہو گئی۔‘‘

    جبران نے جلدی سے خاکی رنگ کا تولیہ اتار لیا۔ آخری تولیہ بھورے رنگ کا تھا جو دانیال کے حصے میں آیا۔ دانیال نے تولیہ چہرے پر مل کر دیکھا اور کہا یہ تو بہت نرم ہے۔

    (جاری ہے)

  • سینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    وہ تینوں ایک پہاڑی پر کھڑے تھے، ذرا ہی دیر پہلے منتر نے انھیں اس پہاڑی پر پہنچایا تھا اور وہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے قصبے کو دیکھ رہے تھے۔ یکایک جبران چلایا: ’’ہٹو فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے برق رفتاری سے اس کا بازو پکڑ کر کھینچ لیا۔ وہ لڑکھڑا کر گھاس پر گری۔ عین اسی لمحے وہاں سے گھوڑوں کا ایک ریوڑ دوڑتا ہوا گزرا، جن کی دُمیں اور ایال ہوا میں لہرا رہی تھیں۔

    ’’یہ کیا تھے؟‘‘ فیونا نے اٹھ کر اپنی نیلی پینٹ سے گرد جھاڑتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

    ’’چھوٹے قد کے گھوڑے۔ ذرا دیر ہو جاتی تو وہ تمھیں کچل کر گزر چکے ہوتے۔‘‘ جبران نے دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے آنکھوں کے سامنے ہاتھ آگے کیا۔ ’’ذرا دیکھو انھیں، کتنے پاگل پن سے دوڑ رہے ہیں۔‘‘

    ’’یہ تو طے ہے کہ یہ ٹراپیکل یعنی گرم مقام نہیں ہے۔‘‘ دانیال کہنے لگا، حیرت انگیز طور پر فیونا اب اس کی بات اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی۔ ’’یہ قصبہ تو ہائیڈرا اور گیل ٹے سے کہیں زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بہت خوب صورت جگہ ہے۔ میں واپس جا کر اس کی تصاویر پینٹ کروں گا۔‘‘ اس نے پہاڑ کے دامن میں پھیلے ہوئے قصبے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جہاں دور تک نیچے واقع سمندر تک سرخ، سبز اور نیلی چھتوں والے گھروں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا نظر آ رہا تھا۔ ’’دیکھو یہ پانی یونان کے پانی سے بالکل مختلف لگ رہا ہے، یہ بہت سرد محسوس ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ہم ہیں کہاں پر؟‘ جبران اس فہرست کو یاد کرنے لگا جہاں جہاں انھیں جانا تھا۔ ’’یہ نیپال تو نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہاں آس پاس پہاڑی سلسلے نہیں ہیں، اور یہ منگولیا بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ سمندر کے کنارے نہیں، یا ہے؟ کیا منگولیا میں اس طرح کے جنگلی گھوڑے پائے جاتے ہیں؟‘‘ اس نے فیونا کی طرف دیکھا۔

    فیونا بولی: ’’میرے خیال میں ہم آئس لینڈ میں ہیں اور یہ آئس لینڈ کے گھوڑے تھے۔ کتنے چھوٹے قد کے گھوڑے تھے نا۔ ایسا لگتا تھا کہ بدمست بھینسے دوڑ رہے ہوں۔‘‘ اس نے جیب سے کیمرہ نکالا اور کہا: ’’اس مرتبہ اگر گھوڑے پھر آگئے میں پوری طرح تیار رہوں گی۔‘‘ اس نے کیمرے کا فلیش چیک کیا۔ ’’یہ رنگین چھتیں دیکھ کر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ قصبہ ریکجاوک ہے۔‘‘

    ’’اگر ہم آئس لینڈ میں ہیں تو پھر قلفی بن کر جم کیوں نہیں گئے؟‘‘دانیال بولا۔ اسے زمین پر کہیں بھی برف دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ’’آئس لینڈ میں تو برف ہی برف ہوتی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘

    جبران چاروں طرف نگاہ دوڑا کر موسم پر تبصرہ کرنے لگا: ’’ہم آئس لینڈ ہی میں ہیں، برف باری جلد شروع ہو سکتی ہے۔ چند ہی دن میں یہاں سرد ہوائیں چلنی شروع ہو جائیں گی۔ ہمیں یہاں قیمتی پتھر مرجان ڈھونڈنا ہے۔ تمھارے انکل اینگس نے کہا تھا کہ یہ گلابی مائل سرخ رنگ کا اور بہت مہنگا ہوتا ہے۔ ہم اسے کہاں سے ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

    دانیال نے کہا: ’’ہمیں قصبے جانا چاہیے، سہ پہر کا وقت ہے، ایسا لگتا ہے یہاں اندھیرا جلد اترے گا۔‘‘

    دونوں نے تائید کی اور تینوں قصبے کی طرف چل پڑے۔ سبز چمکتی گھاس پر لمبے بالوں والی بھیڑیں گھاس چر رہی تھیں۔ فیونا نے وہاں مختلف اور نمایاں رنگوں کو محسوس کیا اور کہا: ’’یہاں کتنے سارے رنگ ہیں، میں نے سفید سے لے کر گہرے بھورے رنگوں کے شیڈز تک دیکھ لیے ہیں۔ یہ بھیڑیں تو بالکل ہمارے ہائی لینڈز کی بھیڑوں کی طرح ہی نا۔‘‘ اس نے قریب جا کر بھیڑ کو چھونا چاہا لیکن وہ دور بھاگ گئیں۔ کچھ فاصلے پر پودوں کے درمیان مور جتنے سفید پرندے پہاڑی کی طرف اڑے۔ جبران انھیں دیکھ کر بولا: ’’یہ تیتروں کی ایک قسم ہے جسے ٹارمگین کہا جاتا ہے، پتا ہے یہ موسم کے حساب سے رنگ بدل سکتے ہیں، گرمیوں میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے اور اب یہ سفید ہونے لگے ہیں، جلد ہی یہ مکمل طور پر سفید ہو جائیں گے اور اس طرح خود کو برف میں چھپا سکیں گے۔‘‘

    ’’واہ تم تو آئس لینڈ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہو۔‘‘ دانیال نے حیران ہو کر کہا۔ جبران نے کہا: ’’ہاں، اسکول میں پڑھا ہے اس کے بارے میں، انھیں دیکھ کر اچانک یاد آیا مجھے۔‘‘

    فیونارکجاوک قصبے سے متعلق بتانے لگی: ’’یہ دارالحکومت ہے، اور یہ لائبریریوں اور مجسموں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں خوب صورت ایڈر بطخیں اور سرخ چپٹی چونچ والے پفن نامی پرندے بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔‘‘ کچھ دور تک چلنے کے بعد فیونا نے کہا: ’’اب ہمیں سب سے پہلے کسی بینک کو تلاش کرنا ہے، جہاں ہم کرنسی کا تبادلہ کر سکیں، میرے خیال میں آئس لینڈ کی کرنسی کو کرونر کہتے ہیں۔‘‘

    ’’ان بارہ آدمیوں نے قیمتی پتھر چھپانے کے لیے جزائر ہی کیوں چنا؟‘‘ دانیال بولا: ’’وہ دیکھو، ساحل سے دور جزیرے نظر آ رہے ہیں۔‘‘

    جبران نے اس کے جواب میں جو معلومات بتائیں اسے سن کر فیونا بھی حیران رہ گئی، وہ بولا:’’غالباً اس لیے کہ یہ جزیرے اس دور میں الگ تھلگ واقع تھے، ان کے پاس بحری جہاز اور بڑی کشتیاں نہیں تھیں جن پر سوار ہو کر وہ آسانی سے جزیرہ ہائیڈرا چلے جاتے۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان کے لیے ان جگہوں پر پہنچنا کتنا مشکل رہا ہوگا۔ آئس لینڈ اسکاٹ لینڈ سے بہت دور ہے۔ وہ شاید مشرقی ساحل کی کسی ماہی گیر کشتی میں یہاں پہنچے ہوں گے۔‘‘

    فیونا اسے حیرت اور خوشی سے دیکھنے لگی: ’’تم تو معلوما ت کا خزانہ ہو، تمھیں یہ سب کیسے معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’مجھے پڑھنے کا شوق ہے، میری ممی میرے پڑھنے کے لیے کتابیں خرید کر لاتی ہیں اور میں انھیں شوق سے پڑھتا ہوں۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ذرا دیر بعد وہ قصبے کی مرکزی سڑک پر پہنچ گئے۔ یہاں ہوٹل، ریستوران اور دکانوں کو رنگین بنایا گیا تھا۔ سڑک پر تھوڑا آگے جا کر وہ ایک بینک کے پاس رک گئے۔

    (جاری ہے)

  • تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح فیونا اور اس کی ممی نے باغیچے میں گزاری۔ انھوں نے زمین کھود کر گاجر، آلو اور شلجم نکالے اور مٹر کی بیلوں سے پھلیاں اتاریں۔

    ’’سبزیوں سے فارغ ہو کر، میں چاہتی ہوں، کہ تم سیب اتارنے میں بھی میری مدد کرو۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ ایپل پائی بنا لوں۔‘‘ مائری مٹر کی پھلیاں ٹوکری میں ڈالتے ہوئے بولیں۔

    ’’ٹھیک ہے ممی لیکن کچھ دیر کے لیے میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں، واپسی پر آپ کا ہاتھ بٹاؤں گی۔‘‘

    ’’کب جا رہی ہو تم؟‘‘ انھوں نے پوچھا تو فیونا نے ہاتھوں سے کیچڑ کی تہہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ’’بس ابھی۔‘‘

    فیونا دوڑ کر اندر گئی اور شاور لینے کے بعد اتوار کے دن کے لیے اپنا پسندیدہ لباس پہنا اور ممی کو خدا حافظ کہہ کر جبران کے گھر کی طرف چل دی۔ فیونا جیسے ہی جبران کے گھر پہنچی، عین اسی وقت وہ اپنی مما اور بہن بھائی کے ہمراہ گھر سے نکلا۔ وہ تفریح کے لیے جا رہے تھے۔

    ’’ہیلو فیونا، کیسی ہو تم؟ ہم گھومنے جا رہے ہیں، تم بھی چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ جبران اسے دیکھتے ہی بول اٹھا۔

    ’’نہیں، مجھے گھر پہنچنا ہے۔ دوپہر کو ہمارے گھر مہمان آ رہے ہیں۔ تم دونوں کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں آنا مت بھولنا۔‘‘ فیونا نے کہا اور واپس گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ گھر پہنچی تو وہاں جمی اور جونی پہلے ہی سے موجود تھے۔ جونی اسے دیکھ کر بولا: ’’ہیلو فیونا، ہم جلدی آ گئے ہیں، امید ہے تمھیں برا نہیں لگے گا۔ تمھاری ممی ہمارا بہت خیال رکھ رہی ہیں۔‘‘

    ’’میں ابھی آئی۔‘‘ فیونا نے کہا اور اوپر چلی گئی، اور ایک بار پھر لباس تبدیل کر کے آ گئی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ان کے مہمان بہت ساری روز مرّہ چیزوں سے واقف نہیں ہیں، اس لیے اس نے جونی کے بھائی کو مخاطب کیا۔

    ’’جمی انکل، کیا آپ میرے ساتھ آ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’فیونا، یہ بری بات ہے۔‘‘ مائری نے اسے فوراً ٹوک دیا۔ ’’صرف جمی ہی کیوں، تمھیں دونوں بھائیوں کو چھتے دکھانے چاہیئں۔‘‘

    ’’دراصل میں زندگی میں بہت سے شہد کے چھتے دیکھ چکا ہوں۔ میرے بھائی نے نہیں دیکھے۔ اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ جونی نے مسکرا کر جواب دیا۔

    فیونا جمی کو لے کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دکھانے چلی گئی۔ ان کے جاتے ہی جونی نے مائری سے پوچھا: ’’تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ اینور ڈروچٹ کی ہیں، مجھے ذرا اس جگہ کے بارے میں بتائیں کہ اب وہ کیسے لگتی ہے؟‘‘

    مائری نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو انھیں جونی کی آنکھوں میں یادوں کا بسیرا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں خلاؤں میں کہیں بھٹکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ’’میں جب سے یہاں آئی ہوں، کوئی دو ماہ ہو رہے ہیں، پھر واپس نہیں جا سکی۔ حالاں کہ فیونا کہتی رہتی ہے کہ وہیں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر شہر چلے جاتے ہیں لیکن میں یہاں گیل ٹے میں مطمئن ہو گئی ہوں۔ اینور ڈروچٹ آج بھی وہی چھوٹا سا گاؤں ہے، تقریباً پچاس گھروں پر مشتمل۔ وہاں ایک پوسٹ آفس اور ایک ہی دکان ہے۔ اکثر لوگ یہاں گیل ٹے میں آ کر خریداری کرتے یا سیر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کل وہاں کا ایک چکر لگا آئیں۔‘‘

    ’’اور قلعہ آذر!‘‘ جونی نے اچانک پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں کبھی گئی ہیں؟‘‘
    ’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ مائری نے جھرجھری سی لی۔ ’’پتا نہیں کیوں، مجھے وہاں سے خوف آتا ہے۔ اب میری بات پر ہنسیے گا مت۔ میرا مطلب ہے کہ ان دیواروں سے مجھے کسی دردناک سانحے کی لہریں نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘

    جونی محسوس کیا کہ ماحول پر اداسی چھا رہی ہے تو اس نے جلدی سے مسکرا کر پوچھا: ’’کیا آپ کو مچھلی کا شکار پسند ہے؟ مجھے تو بہت پسند ہے۔ بلال صاحب نے ہمیں مچھلی کے شکار کے لیے کئی جگہیں دکھائیں۔‘‘ لیکن مائری نے اس کی بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی اور پوچھا: ’’آپ کون ہیں جونی تھامسن؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ لندن سے سیاح کے طور پر آئے ہیں تو پھر اس جگہ، جھیل، گاؤں اور حتیٰ کہ قلعے کے متعلق کیسے جانتے ہیں؟‘‘

    ’’میں آپ سے سچ کہوں گا۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’میں یہاں پہلے بھی آیا ہوں، اور یہاں ایک گاؤں میں رہ چکا ہوں۔ جھیل میں مچھلیاں پکڑ چکا ہوں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ میری سب سے خوب صورت اور سب سے بری یادوں کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں پھر ماضی کی یادوں کی چمک جھلکنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر تک ماضی کی یادوں میں کھویا رہا، پھر مائری چائے اور بسکٹ کا انتظام کرنے لگیں۔ اتنے میں فیونا اور جمی بھی لوٹ آئے۔ وہ باغیچے میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے اور چائے کے ساتھ بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دھیرے دھیرے شام کے سائے پھیلنے لگے۔ جونی نے آسمان پر چمکتے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’صرف یہی چیز ہے جو یہاں ویسی کی ویسی ہی ہے، باقی سب کچھ بدل چکا ہے۔‘‘

    جمی کو حیرت ہوئی۔ اسے پتا نہیں تھا کہ اس کا بھائی کیا کہنا چاہ رہا ہے تاہم مائری صرف مسکرا دی۔ جونی نے کہا: ’’اب ہمیں جانا چاہیے کیوں کہ بلال صاحب کل ہمیں شکار پر لے جائیں گے اور ہم سارا دن اس میں گزاریں گے۔‘‘ جمی نے بھی کہا کہ کل میں بلال صاحب کے ہمراہ ایک روایتی پارٹی میں جائے گا۔‘‘

    وہ دونوں جبران کی گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے باغیچے سے اندر جاتے ہوئے کہا: ’’ممی، میں بھی کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں جاؤں گی۔ جبران اور دانی بھی وہاں آئیں گے۔ کھانا ہم وہیں پر کھائیں گے اس لیے دیر ہوگی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا اور روشنیاں بجھانے لگیں۔

    (جاری ہے…..)

  • بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُرتجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’واہ یہ تو زبردست بات ہو گئی ہے۔ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو رہا ہے جیسے کوئی مکھن کھا رہا ہو۔ دنیا پر حکمرانی کا خیال کتنا شان دار اور خوب صورت ہے۔‘‘ ڈریٹن خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ خود کو ابھی سے دنیا کا بادشاہ سمجھے لگا۔ اس نے شیشے پر کنگ کیگان کی تصویر کو مخاطب کیا: ’’تو قلعہ آذر کے آقا، اب تم کیا سوچ رہے ہو۔ تم مردہ ہو اور میں زندہ ہوں اور جلد ہی جادوئی گولا میرے قبضے میں ہوگا۔ اب میں جا رہا ہوں، کل پھر ملاقات ہوگی۔‘‘

    وہ قلعے سے نکلا اور کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے دوسرے کنارے اتر گیا۔ اس نے قریب ہی ایک بھاری پتھر تلاش کیا اور اسے اٹھا کر کشتی پر مارنا چاہا تاکہ اسے ڈبو دے، لیکن پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اب اسے ہر رات یہاں آنا ہے، اس لیے کشتی کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ اس نے وہ پتھر پانی میں پھینک دیا۔ ڈریٹن واپس اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر کسی نے اسے روکا تو ایک جھٹکے سے اس کی گردن کا منکا توڑ دے گا۔ دروازے پر پہنچ کر اسے پھر بلیوں نے گھیر لیا۔ اس نے بلیوں کو لاتیں مار مار کر بھگا دیا اور اندر داخل ہو گیا۔

    ڈریٹن اندر جا کر اینگس کی تمام چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگا، اور آدھے ہی گھنٹے بعد خوش قسمتی نے اسے بری طرح چونکا دیا جب اسے غیر متوقع طور پر قدیم کتاب مل گئی۔

    ’’ارے یہ کیا ہے۔‘‘ وہ حیران ہوا۔ ’’یہ اینگس تو چھپا رستم نکلا، اس نے تو قدیم کتاب بھی حاصل کر لی ہے۔ لگتا ہے یہ بھی میرا ساتھی ہے۔ آخر کون ہو تم بوڑھے اینگس اور اس لڑکی سے تمھارا کیا رشتہ ہے؟‘‘ وہ کتاب پا کر خود کلامی کرنے لگا۔ پھر اس نے ڈیجیٹل کیمرہ نکال کر کتاب کے ہر صفحے کی تصویر لی۔ چوں کہ کتاب گیلک زبان میں لکھی گئی تھی اور اسے اس کی کوئی شدھ بدھ نہیں تھی، اس لیے اسے غصہ آنے لگا۔ اس کے پاس جو کتاب تھی وہ پرانی انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ اس نے سوچا کہ کسی بے وقوف اسکاٹ ہی نے اسے گیلک میں لکھا ہوا ہوگا۔ پھر اسے اپنا لیپ ٹاپ یاد آ گیا۔ اس نے خوش ہو کر سوچا کہ وہ اسے لیپ ٹاپ پر اپ لوڈ کر کے کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اسے کچھ رقم کے عوض ترجمہ کر دے۔

    اچانک وہ ایک خیال آنے پر چونک اٹھا۔ ’’ارے میں تو بھول گیا تھا، یہ کتاب جہاں ہو گی یقیناً جادوئی گیند بھی وہیں ہوگی۔‘‘ یہ بڑبڑاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چیزوں کی تلاشی لینے لگا۔ کافی دیر تک تلاش کے باوجود جب اسے جادوئی گولا نہیں ملا تو وہ غصے سے کانپنے لگا اور اسی عالم میں چیخا: ’’یقیناً وہ بڈھا اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ کتنا اہم ہے، لیکن میں اسے حاصل کر کے رہوں گا۔‘‘

    کچھ دیر بعد اس نے اپنے غصے پر قابو پایا اور ساری چیزیں ویسے ہی اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیں، تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ یہاں آیا تھا۔ اس کے بعد وہ واپس بیڈ اینڈ بریک فاسٹ پہنچ گیا۔ وہ عین وقت پر پہنچا تھا کیوں کہ رات کا کھانا تیار تھا۔ کھانا کھا کر اس نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ گفتگو کر کے خود کو ایک اچھا لڑکا ثابت کیا اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بستر پر بیٹھ کر اس نے جیب سے تین بٹوے، دو ہیروں کے ہار اور ایک سونے کی انگوٹھی نکال کر سامنے رکھ دی، اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ انھیں دیکھنے لگا۔

    ’’بے وقوف دیہاتی!‘‘ اس نے بڑبڑا کر کہا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ یہ ساری چیزیں اس نے اسی ریستوران میں لوگوں کے ساتھ گفتگو کے دوران پار کی تھیں، اور کسی کو کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک ہوشیار جیب کترا تھا!

    (جاری ہے…)

  • انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح جب آسمان پر بادل پھیلے ہوئے تھے اور درمیان میں کہیں کہیں سے سورج کی کرنیں گیل ٹے پر پڑ رہی تھیں، افق پر نقرئی شعلے بھڑک رہے تھے، ایسے میں ایڈن برگ سے نکلی ہوئی ریل گاڑی گیل ٹے کے اسٹیشن پر رک گئی۔ اس وقت جزائر آرکنے سے ایک رات کی مسافت طے کرنے والی بطخیں لوچ جھیل پر اتری تھیں۔

    ڈریٹن نے جب ریل گاڑی کی وسل سنی تو ایک کنڈکٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی رکنے والے ہیں۔ اس وقت اس نے بڑبڑا کر کہا تھا: ’’اف اتنا طویل اور بے زار کن سفر تو میں نے زندگی بھر نہیں کیا تھا۔‘‘

    کارن وال میں بورڈنگ کے بعد اسے لندن میں وکٹوریہ اور پھر ایڈن برگ ہی میں ویورلے اسٹیشن پر ایک ہی رات میں ریل گاڑیاں تبدیل کرنی پڑی تھیں۔ وہ سوٹ کیس اور بیگ اٹھا کر اپنے گلے میں نیکلس کی موجودی کو یقینی بناتے ہوئے ریل گاڑی سے اترا۔ اس نے خود کو ایک جوہڑ میں پایا جو رات کی تیز بارش سے بن گیا تھا۔

    وہ نفرت سے بڑبڑایا: ’’غلیظ جگہ اور یہ منحوس سردی!‘‘ اس نے جلدی سے کوٹ کے بٹن بند کر دیے اور بڑبڑانے لگا کہ یہ تو کارن وال سے بھی بدتر جگہ ہے۔ اس کے قریب ہی اسٹیشن کا کنڈکٹر گارڈن بروس ایک شخص سے کہہ رہا تھا: ’’یہ ہے آپ کی ٹرین، یہ کریان لارچ جا رہی ہے، آپ کب واپس آئیں گے اینگس؟‘‘

    ’’میں کل دوپہر تک لوٹوں گا۔ میرا یہ دورہ مختصر ہے۔ بس ضرورت کے مطابق ہی کچھ تجارت کروں گا۔‘‘ اینگس نے ریل گاڑی میں چڑھتے وقت کہا۔ ریل گاڑی چل پڑی۔ ڈریٹن اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس نے کنڈکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا، شاید وہ اس کے چہرے کے تاثرات کو سمجھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ ڈریٹن کا حلیہ بھی عجیب تھا، اس کے کانوں میں کئی سارے چھلے لٹک رہے تھے۔ ’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں جناب؟‘‘

    ڈریٹن نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس وقت اس کا دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا تھا۔ ’’میں ڈریٹن اسٹیلے ہوں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا: ’’دراصل میں ایک کتاب لکھنے یہاں آیا ہوں، اور کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں مجھے تنہائی اور سکون میسر آئے۔ میری بدقسمتی ہے کہ اینگس نکل گئے، ہم بہت پرانے دوست ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے اینگس کے بارے میں سراسر جھوٹ بولا تھا، اور اس چالاکی پر وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، اس نے پوچھا: ’’کیا اینگس اب بھی قصبے میں رہتا ہے؟‘‘

    کنڈکٹر نے جواب دیا: ’’وہ اسی گھر میں رہ رہا ہے جس میں اس نے اپنی زیادہ تر جوانی گزاری ہے۔‘‘

    ’’کیا اس نے شادی کی ہے؟‘‘ ڈریٹن نے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا اور چہرے پر مسکراہٹ طاری کر دی لیکن کنڈکٹر کے چہرے پر سنجیدگی اسی طرح طاری رہی۔ ’’نہیں، اینگس نے کبھی شادی نہیں۔ نہ مجھے اس سے کوئی توقع ہے۔ آپ کہاں ٹھہریں گے؟‘‘

    ’’مجھے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں میں ناشتہ بھی کر سکوں اور آرام کے لیے ایک بستر بھی مل سکے۔ کیا یہاں قریب میں کوئی بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہے؟‘‘

    ’’ابھی تو بہت سویرا ہے اور آج اتوار بھی ہے، لیکن اگر آپ مرکزی اسٹریٹ چلے جائیں تو آپ کو مک ڈوگل کا بیڈ اینڈ بریک فاسٹ دکھائی دے گا۔ دروازے پر دستک دے کر ایلسے سے کہنا کہ آپ کو کنڈکٹر گارڈن نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو جگہ دے دیں گی۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور چلا گیا۔

    ڈریٹن کو خدشہ تھا کہ کنڈکٹر اس کی موجودی کے بارے میں پتا کرنے بھی آسکتا ہے اس لیے وہ مک ڈوگل کے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہی آیا۔ اس نے اپنا سامان بستر پر رکھ دیا اور کمرے سے نکل کر ’’ڈونٹ ڈسٹرب‘‘ کی تختی دروازے پر لٹکا دی، اور پھر کچن کا رخ کر لیا۔ ایلسے نے ناک پر جمی عینک ذرا سی اوپر کی جانب کھسکا کر پوچھا: ’’کیا میں آپ کو ناشتے میں کچھ دوں؟‘‘

    ’’بہت اچھا خیال ہے، یعنی نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ ڈریٹن نے دانت نکال کر حتی الامکان اپنے لہجے کو خوش گوار بناتے ہوئے کہا۔ ایلسے نے کہا: ’’دیگر مہمان کھانے کے کمرے میں بیٹھے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر سستا لیں۔ میں جلد ہی آپ کے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں، ویسے آپ کیا پسند کریں گے، چائے، کافی یا مالٹے کا جوس؟‘‘

    اس نے اپنی شخصیت کا اچھا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو مالٹے کا جوس لے کر آئیں میرے لیے۔‘‘

    ’’بہت بہتر جناب اسٹیلے، آپ جا کر بیٹھ جائیں، میں بس آتی ہوں۔‘‘

    ڈریٹن کھانے کے کمرے میں داخل ہوا تو چونک اٹھا۔ وہاں سب ہی لوگ بوڑھے تھے اور ان کے ہمراہ ان کی بیویاں تھیں جن کے چہرے اسے رنجیدہ نظر آئے۔ اپنے درمیان ایک جوان کو دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور گیل ٹے کی روایت کے مطابق ایک ایک کر کے سب اسے خوش آمدید کہنے لگے۔ ڈریٹن چوں کہ اپنی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجبوراً سب سے ہاتھ ملایا، تاہم جیسے ہی وہ کسی سے ہاتھ ملاتا فوراً ہی ہٹا دیتا۔ ذرا دیر بعد اس کے سامنے میز پر بھاری ناشتہ سج چکا تھا۔ اس نے بھنا گوشت، ساسیج، انڈا آملیٹ اور گندم کے توس کھائے اور آخر میں ایک گلاس مالٹے کا جوش بھی نوش کیا۔ پیٹ بھرنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب اس کے پیٹ میں مزید گنجائش نہیں رہی تو اس نے ایلسے کو دیکھ کر کہا: ’’ذرا سنیے ایلسے! کیا میں آپ کو اس طرح پکار سکتا ہوں؟‘‘

    اس نے جواب میں خاموشی سے سر ہلا کر اجازت دی۔ ڈریٹن نے کہا: ’’دراصل میں اپنے پرانے دوست اینگس کے ہاں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ایلسے نے کہا: ’’کیا آپ اینگس مک ایلسٹر کی بات کر رہے ہیں، لیکن وہ تو آج صبح ہی کریان لارچ چلا گیا ہے، لیکن کل دوپہر تک آجائیں گے۔ کیا آپ یہاں رہیں گے یا نہیں؟‘‘

    ڈریٹن نے کہا: ’’جی ہاں، میں یہیں رہوں گا۔ ویسے اب اس کا گھر کہاں ہے، کیا اسی پرانے گھر میں ہے وہ؟‘‘

    ایلسے نے جواب دیا: ’’وہ اسی پرانے گھر ہی میں رہ رہے ہیں، جو اینسٹر اسٹریٹ کے آخر میں ہے، نمبر 23۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • تیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھیے

    ’’میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ جبران بولا۔ ’’مجھے خود ہائیڈرا سے نفرت ہے، چلو یہاں سے بھاگتے ہیں۔‘‘

    تینوں ایک بار پھر بھاگنے لگے۔ سیاہ آبسیڈین کی تلاش میں اس جزیرے پر آ کر وہ اب تک اتنا بھاگ چکے تھے کہ انھیں لگتا تھا زندگی بھر اتنا نہ بھاگے ہوں گے۔ کافی دور جا کر جبران نے مڑ کر دیکھا۔ ’’نہیں….‘‘ وہ چیخا۔ ’’وہ ہمارا پیچھا کر رہا ہے اور ہم سے کہیں زیادہ تیز دوڑ رہا ہے۔‘‘

    ’’ہمیں ساحل کی طرف جانا ہوگا۔‘‘ دوڑے دوڑتے فیونا نے کہا۔ ’’پتا نہیں ماربل کی ایک اینٹ سے کیسے اتنا بڑا عفریت بن گیا ہے۔ یہ یونانی اساطیر بھی بے حد عجیب ہیں۔‘‘

    اچانک چرچ کی گنٹیاں بجنے لگیں۔ فیونا کو ایسا لگا جیسے وہ گھنٹیاں اسے روک رہی ہوں، اور وہ ایک دم رک گئی۔ اس نے دونوں کو آواز دے کر کہا: ’’ہم غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں، چلو اندر چلتے ہیں۔‘‘

    ’’کیاااا…. تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔‘‘ جبران جھلا کر بولا۔ ’’ہم مڑ کر واپس نہیں جا سکتے۔ ہائیڈرا ہمیں آسانی سے شکار کر لے گا۔ تم دیکھ نہیں رہی ہو سانپوں کے سروں میں کتنے نوکیلے دانت ہیں۔ میں تو ان ماربل کے سانپوں سے نو بار ڈسنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

    فیونا نے دیکھا کہ جبران کے چہرے پر مایوسی کے آثار چھا گئے ہیں اور وہ اس کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ وہ بولی: ’’دیکھو جبران، میرا من کہہ رہا ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ کیسے، یہ میں نہیں جانتی۔ اگر ہم اندر نہیں گئے تو یہ ہائیڈرا ہمیں پا کر مار ڈالے گا۔ اور ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ہم اس کے پنجے سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ اس نازک وقت پر تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا ہوگا جبران۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہمیں اس قدیم بازنطینی چرچ کی طرف جانا چاہیے۔ چلو، ہم دوسرے راستے سے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

    جبران اور دانیال نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ وہ دونوں بے حد خوف زدہ تھے۔ اچانک دانیال کو پھنکار کی آواز سنائی دی۔ اس نے دوڑتے دوڑتے جبران سے کہا: ’’تم نے سنی یہ آواز، یہ تو بہت قریب سے آ رہی ہے۔‘‘

    جبران اور فیونا نے بھی پھنکار کی آواز سن لی تھی۔ وہ چلائی: ’’وہ ہمارے بہت قریب پہنچ گیا ہے، اور تیز بھاگو۔‘‘

    ماربل سخت تھا لیکن پتا نہیں پتھر کا یہ سانپ کیسے حرکت کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین پر رینگ نہیں رہا ہو بلکہ چند انچ اوپر ہوا میں تیر رہا ہو۔ فیونا نے کہا: ’’وہ دیکھو، چرچ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔ ہم میں سے جو بھی سب سے آخر میں داخل ہو، وہ اپنے پیچھے دروازہ فوراً بند کر دے۔‘‘

    جب وہ چرچ کے دروازے پر پہنچے تو سب سے پہلے جبران اندر داخل ہوا، اس کے پیچھے ہی فیونا اور پھر آخر میں دانیال داخل ہوا۔ فیونا اندر داخل ہوتے ہی چلائی تھی: ’’دانی دروازہ بند کر دو، جلدی کرنا۔‘‘

    جبران دانیال کی مدد کے لیے تیار کھڑا تھا، دونوں نے عین اسی لمحے دروازہ بند کیا جب ہائیڈرا پہنچ گیا تھا۔ ’’اُف خدا، تم نے دیکھا فیونا، کتنا بھیانک چہرہ ہے اس کا۔‘‘ جبران تھوک نگل کر بولا۔

    ’’چلو اوپر چلتے ہیں، ہم وہاں زیادہ محفوظ ہوں گے۔‘‘ فیونا نے کہا اور تینوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ وہ اس کھڑکی کے پاس آئے جہاں سے انھوں نے اینٹ نیچے پھینکی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ہائیڈرا کے تیز دانت چرچ کے چوبی دروازے میں گڑے ہوئے تھے اور وہ اسے چبا کر توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’بے فکر رہو، ہم یہاں محفوظ ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک بار پھر انھیں تسلی دی۔ جبران نے تقریباً روتے ہوئے کہا: ’’لیکن وہ دروازے کو چبا چبا کر توڑ ڈالے گا اور ہمیں آسانی شکار کر لے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑکی سے ہٹا اور دیوار کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ اسے رونا آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ گھر جانا چاہتا ہے۔

    فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر جیب سے قیمتی پتھر نکال لیا۔ اس کے اندر ڈریگن کا نقش تھا۔ اس میں سے ہلکی ہلکی سی روشنی نکل رہی تھی۔ فیونا جبران کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے تصور میں ایک عظیم الجثہ سیاہ ڈریگن دیکھا جس کی آنکھیں قیمتی پتھر کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ آسمان میں کہیں بادلوں سے نکلا اور غوطہ مار کر نیچے آیا اور پھر اپنے لمبے نوکیلے دانتوں میں عفریت ہائیڈرا کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا۔

    ’’ارے وہ دیکھو۔‘‘ یکایک جبران کی آواز فیونا کی سماعت سے ٹکرائی، اس کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی۔ ’’جلدی آؤ دانی، فیونا، ورنہ تم یہ منظر دیکھنے سے محروم رہ جاؤ گے۔ اوہ دیکھو، اتنا بڑا ڈریگن۔ اس کے پر یقیناً پچاس فٹ لمبے ہوں گے۔‘‘

    اسی لمحے ان کے کانوں سے عجیب قسم کی کرخت آوازیں ٹکرانے لگیں۔ وہ دونوں دوڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ باہر ایک بہت ہی بڑا سیاہ ڈریگن ہائیڈرا پر جھپٹ رہا تھا۔ اس کی پشت پر لمبے اور مضبوط کانٹوں والی ریڑھ کی ہڈی دم تک چلی گئی تھی اور اس کی لمبی دُم ہوا میں کسی کوڑے کی طرح لہرا رہی تھی۔ اس نے ہائیڈرا کو دانتوں میں دبوچا اور فضا میں بلند ہو گیا۔ ہائیڈرا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا لیکن ڈریگن نے اپنی گرفت ذرا بھی ڈھیلی نہیں کی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گئے۔ تینوں نے سکون کی سانس لی۔ وہ چند لمحوں تک خاموش رہے اور دل کی تیز دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے انھیں چونکا دیا۔

    (جاری ہے…)