Tag: رفیع اللہ میاں کی تحریریں

  • انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    پہاڑ سے نیچے اتر کر فیونا تھکن سے چور ہو کر ایک ٹوٹی ہوئی پتھریلی دیوار پر بیٹھ گئی۔ ’’اب چاہے کچھ بھی ہو، میں تو ان سیڑھیوں پر دوبارہ نہیں چڑھنے والی۔‘‘

    ’’لیکن اب ہم کیا کریں؟ کیا ہم اس اینٹ کو اپنے ساتھ گیل ٹے لے کر جا سکتے ہیں، تاکہ وہیں پر سیاہ آبسیڈین اس سے نکال سکیں؟‘‘ جبران کی خواہش تھی کہ اب جتنی جلد ہو سکے، انھیں گھر چلنا چاہیے۔

    ’’نہیں جبران۔‘‘ فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’یہ اصول ہے، ہمیں یہیں پر اسے نکالنا ہوگا، ہمیں اسی زمین پر اس قیمتی پتھر کو ہاتھ میں لینا ہے۔‘‘

    ’’آبسیڈین ایک پتھر ہے یا زیور؟‘‘ دانیال نے اینٹ ہاتھ میں لے کر پوچھا۔ فیونا نے جواب دیا: ’’دراصل یہ ایک پتھر ہی ہے لیکن کسی زیور سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

    ’’تو اب اسے توڑیں گے کیسے؟‘‘ دانیال کے سوال نے انھیں ایک بار پھر اس مسئلے کی طرف متوجہ کر دیا۔ جبران کہنے لگا کہ کوئی بھاری پتھر ڈھونڈ کر اسے اینٹ پر مارا جائے۔ لیکن فیونا کا اعتراض تھا کہ اتنا بھاری پتھر ہم کیسے اٹھا سکیں گے، جس سے واقعی یہ اینٹ ٹوٹ سکے، اس لیے کوئی دوسرا طریقہ سوچنا ہوگا۔ تینوں اپنے اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اچانک جبران اچھل پڑا۔ وہ بولا: ’’میرے دماغ میں ایک اور زبردست آئیڈیا آیا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر قدیم بازنطینی چرچ ہے، جس کی گنبد نیلے رنگ کی ہے۔ ہم میں سے دو اوپر چڑھ کر اینٹ کو نیچے گرا دیں گے، اور نیچے جو کھڑا ہوگا وہ اس سے قیمتی پتھر نکال لے گا۔‘‘

    فیونا کو یہ خیال پسند آ گیا اور اس نے جبران کو شاباشی دی۔ تینوں تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے بازنطینی چرچ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ دانیال نے سر اٹھا کر اوپر دیکھتے ہوئے سوال کیا: ’’اوپر کون جائے گا؟‘‘

    ’’میں جاؤں گی اوپر، جبران تم بھی ساتھ چلو۔ اور دانی تم یہاں نیچے ٹھہرنا۔ تم نے پتھر فوراً اپنے قبضے میں لینا ہے، اور کسی کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دینا۔‘‘ فیونا نے کہا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

    دانیال نے اینٹ جبران کے حوالے کر دی۔ دونوں اندر داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دانیال چرچ کے ساتھ تنہا کھڑا رہا۔ اس نے قصبے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ یہ بہت خوب صورت ساحلی قصبہ تھا، سمندر کے کنارے سورج کی روشنی پانی پر منعکس ہو رہی تھی، جس سے ایک حسین منظر تخلیق ہو رہا تھا۔ ایک شخص کنارے کی طرف آرہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ایک بہت بڑا آکٹوپس تھا جس کی ٹانگیں ریت کو چھو رہی تھیں۔ دانیال آس پاس کے نظارے میں مگن تھا کہ اسے فیونا کی آواز سنائی دی: ’’دانی تم کہاں ہو؟‘‘

    دانیال دیوار کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گیا۔ اس نے اوپر دیکھا، ایک کھڑکی سے فیونا اور جبران کے سر باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔ ’’پیچھو ہٹو دانی، میں اسے نیچے پھینکنے والا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا اور اینٹ ہاتھ سے چھوڑ دی۔ اینٹ زمین سے ٹکراتے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ دانیال نے جلدی سے ٹکڑے ادھر ادھر ہٹائے اور پھر اسے قیمتی پتھر نظر آ گیا۔

    ’’یہ تو بہت خوب صورت ہے۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور پتھر اٹھا لیا۔ یہ دو انچ قطر کا پتھر تھا۔ سورج کی کرنیں اس پر پڑتے ہی پتھر چمکنے لگا۔ وہ اسے اپنی آنکھوں کے قریب لے جا کر دیکھنے لگا۔ اسے اس کے آر پار دکھائی دینے لگا۔ یہ پتھر بالکل شیشے کی مانند تھا۔ اسی وقت فیونا اور جبران دوڑتے ہوئے باہر آ گئے۔

    ’’تم نے ڈھونڈ لیا اسے…. اوہ شکر ہے۔‘‘ فیونا اطمینان کی سانس لے کر بولی۔ ’’ذرا دکھاؤ مجھے۔‘‘ دانیال نے پتھر فیونا کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہم خوش قسمت ہیں کہ اس قیمتی پتھر کے گرد صرف دو ہی دام بچھائے گئے تھے۔‘‘ فیونا بول اٹھی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوکا۔ ’’تم نے یہ کہنے میں جلدی دکھا دی ہے‘‘ یہ کہتے ہی جبران ان دونوں کو بازوؤں سے پکڑ کر بڑی تیزی سے وہاں سے کھینچا جہاں وہ کھڑے تھے۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ فیونا گھبرا گئی۔

    ’’وہ دیکھو۔‘‘ جبران نے زمین پر بکھرے اینٹ کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ارے … یہ … یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ فیونا اور دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو آگئیں۔ اینٹ کے ٹکڑے مائع ہو کر بہنے لگے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے مائع ٹکڑے مل کر ایک شکل کو ترتیب دینے لگے۔ فیونا نے خوف زدہ ہو کر قیمتی پتھر جیب میں رکھ دیا اور بڑبڑانے لگی کہ یہ کیا بن رہا ہے۔ اگلے لمحے تینوں کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ وہ اپنے سامنے ایک سانپ کی شکل بنتی دیکھ رہے تھے۔ تب فیونا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی، وہ بولی: ’’یہ تو عفریت ہائیڈرا کی شکل بن رہی ہے، جبران تم بار بار اس کا ذکر کر رہے تھے دیکھو اب یہ حقیقت میں بن رہا ہے۔‘‘

    پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے شکل کی جسامت بڑھ گئی۔ اس کے سر سے سانپوں کے نو سر نکل آئے، اور ہر سر میں سے پتھر جیسی زبان باہر کی طرف لپکنے لگی، اور انھیں پھنکار کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔

    (جاری ہے…)

  • اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے یہ پتے کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے چلا کر بولی۔ اس نے چند اور پتے پھینکے۔ بچھو ایک دوسرے پر چڑھ کر کاٹنے لگے۔ شاید انھیں بونے پریشان کر دیا تھا۔ وہ ہمت کر کے چند قدم اندر چلی گئی۔ پھر اس نے چھت کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ وہاں کئی بچھو ایک دوسرے سے لٹک کر جھول رہے تھے اور ان کے ڈنک فرش کی طرف لپک رہے تھے۔ اس نے مزید پتے پھینکے اور مزید راستہ بن گیا۔ اب صرف دو قدم کا فاصلہ تھا اور اس کے پاس بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ آخرکار اس نے اینٹ پر بھی چند ٹکڑے پھینکے۔ بچھوؤں نے پیچھے کی طرف سمٹ کر اینٹ کو چھوڑ دیا۔ پتوں کی بو نے انھیں بری طرح پریشان کر دیا تھا اور وہ غیض و غضب میں ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے۔

    فیونا نے ڈرتے ڈرتے جھک کر اینٹ اٹھا لی اور تیزی سے مڑی۔ اس کے سامنے دروازے تک راستہ بنا ہوا تھا جس کے دونوں طرف سیاہ بچھو کلبلا رہے تھے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جبران اور دانیال کے پاس پہنچ کر وہ بے اختیار گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

    ’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ میں نے اینٹ حاصل کر لی ہے۔‘‘ اس نے بیٹھ کر آنسو پونچھے۔ پھر اس کے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ جھلملانے لگی۔

    ’’مڑ کر دیکھو فیونا، اب وہ راستہ بھی نظر نہیں آ رہا، بچھوؤں نے اسے بھی ڈھک دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بچھو اس بوٹی کی بو کو برداشت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔ فیونا مڑ کر دیکھنے لگی۔ اچانک جبران چیخا: ’’ہلنا مت فیونا… تمھارے بالوں میں ایک بچھو ہے۔‘‘

    فیونا کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ ’’جبران… اسے میرے بالوں سے ہٹا دو، ورنہ یہ مجھے کاٹ لے گا۔ کیا پتا اس پر کسی قسم کا جادو ہوا ہو اور میں مر جاؤں، یا اس کے زہریلے ڈنک سے میں بھی بچھو بن جاؤں۔‘‘

    ’’تم باتیں نہ کرو۔ میں لکڑی کی کوئی چھڑی ڈھونڈٹا ہوں۔ اس کے ذریعے بچھو کو گرانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ جبران بولا اور ادھر ادھر چھڑی تلاش کرنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے لکڑی کی ایک چھڑی مل گئی۔ وہ فیونا کے پاس چلا آیا۔ ’’جبران احتیاط سے… بچھو کو میرے سر پر مارنے کی احمقانہ کوشش مت کرنا۔‘‘ فیونا نے گھبرا کر کہا۔

    ’’میں بے وقوف نہیں ہوں۔‘‘ جبران نے تیز لہجے میں کہا اور لکڑی کی چھڑی اس کے سر کے اوپر لے گیا۔ بچھو نے اسے محسوس کر لیا۔ اس نے ڈنک اوپر کی طرف اٹھا لیا۔ جبران نے نہایت احتیاط کے ساتھ چھڑی بچھو کے بہت قریب کر دی۔ بچھو نے اس پر ڈنک مارا اور پھر اس سے چمٹ گیا۔ جبران نے اطمینان کے ساتھ چھڑی زمین پر پھینک دی۔ فیونا نے کافی دیر سے سانس روکی ہوئی تھی، بچھو ہٹتے ہی اس نے گہری گہری سانسیں لیں۔ بچھو چھڑی چھوڑ کر تیزی سے خانقاہ کے اندر چلا گیا تھا۔ دانیال نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا :’’اب اس ماربل اینٹ کو کیسے توڑیں، یہ تو کافی مضبوط نظر آ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہمیں کسی ہتھوڑی کی ضرورت ہوگی۔‘‘ جبران نے اینٹ ہاتھ میں لے کر تولتے ہوئے کہا۔ اچانک فیونا نے خوف زدہ لہجے میں کہا: ’’ٹھہرو، تم لوگ بھول گئے ہو۔ ایک اور دام ابھی باقی ہے۔ مجھے یقینی طور پر اس کا علم نہیں ہے لیکن جب اس اینٹ کو توڑا جائے گا تو تیسرا اور آخری پھندا ہمارے سامنے آ جائے گا۔‘‘

    فیونا کے منھ سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ جبران نے اینٹ کو ایک بار پھر ہاتھوں سے چھوڑ دیا۔ اینٹ گھاس والی زمین پر ٹپکا کھا کر فیونا کے قدموں کے پاس رک گئی۔ ’’اوہ… تم نے اسے پھر گرا دیا، یہ دوسری مرتبہ ہے، بہت ڈرپوک ہو۔‘‘ دانیال نے اسے ٹوکا۔

    ’’وہ رہے تینوں بچے…‘‘ اچانک انھیں ایک افسر کی آواز سنائی دی۔ ’’وہ خانقاہ کے اندر ہیں، ٹھہرو بچو… بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔‘‘

    ’’ہمیں اس اینٹ کے ساتھ ہی واپس ساحل پر جانا ہوگا۔ گھر پہنچنے کے بعد ہی ہم قیمتی پتھر کو اینٹ سے باہر نکالنے کا کوئی راستہ ڈھونڈیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور لپک کر اینٹ اٹھا لی۔ تینوں ایک بار پھر پولیس سے بچنے کے لیے دوڑ پڑے۔ پولیس اہل کار جیسے ہی خانقاہ کے قریب پہنچے ان میں سے کسی نے چیخ کر کہا: ’’بچھو… ارے یہاں تو ہزاروں بچھو ہیں۔ بچوں کو جانے دو۔ ان بچھوؤں سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر یہاں سیاح آ گئے تو کیا ہوگا؟‘‘ وہ تینوں رک گئے اور انھوں نے بچوں کا تعاقب چھوڑ دیا۔

    فیونا ایک درخت کے پیچھے سے نکل کر بولی: ’’شکر ہے، یہ خطرناک بچھو بھی ہمارے کچھ کام آئے۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ پولیس اہل کار ہمارے پیچھے آنے کی پھر زحمت نہیں کریں گے۔‘‘

    تینوں سیڑھیوں کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں نکولس سے ان کا سامنا ہونے کا امکان نہیں تھا۔

    (جاری ہے….)

  • ستائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "وہ رہا ان میں سے ایک۔ وہ سیڑھیوں کے پاس ہے۔‘‘

    گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے

    دانیال نے گھبرا کر مڑ کر دیکھا۔ نکولس جبران کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو سیڑھیوں تک پہنچ گیا تھا۔ جب تک وہ پہنچتے، جبران سیڑھیاں چڑھ چکا تھا۔ اس کے بعد وہ ایسا سرپٹ بھاگا کہ خانقاہ پہنچ کر ہی دم لیا۔ تاہم وہ اندر نہیں گیا بلکہ عقب میں چھپ گیا۔ عین اسی وقت دانیال بھی دوسرے راستے سے وہاں پہنچا۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ ’’فیونا کہاں ہے؟‘‘ جبران نے بے قابو سانسوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔

    ’’پتا نہیں، وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر جواب دیا۔ ’’وہ بھی بس پہنچنے والی ہوگی یہاں۔‘‘ جبران نے پورے یقین کے ساتھ کہا۔

    تینوں سپاہی جبران کا پیچھا چھوڑ چکے تھے، جیسے ہی وہ پلٹے انھیں چوٹی پر فیونا نظر آ گئی۔ وہ ایک اور طرف سے سیڑھیاں چڑھ کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی تھی۔

    ’’آہا، اب مچھلی جال میں پھنسی ہے… آ…آ… میں تمھارا ہی انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ نکولس گدھا کھینچتے ہوئے سیڑھیوں کے پاس آکر رک گیا۔ اب فیونا سیڑھیوں کے درمیان پھنس گئی تھی لیکن سپاہیوں نے نکولس کو نیچے نہیں دیکھا تھا اور وہ اب بھی فیونا سے خاصے فاصلے پر تھے، چناں چہ وہ سمجھے کہ فیونا نیچے کی طرف بھاگ رہی ہے، اس لیے وہ دوسری طرف کی سیڑھیوں پر بھاگتے ہوئے نیچے اترے۔ فیونا نے یہ دیکھا تو مزے کے ساتھ واپس چوٹی پر پہنچی اور شوخی سے نکولس کا منھ چڑانے لگی۔ ’’آؤ نا… پکڑو مجھے۔‘‘

    سپاہی نکولس کے پاس کھڑے ایک دوسرے جھگڑنے لگے کہ وہی اس کا پیچھا کرے لیکن تینوں تھک چکے تھے۔ کسی میں بھی فیونا کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ فیونا پہاڑ پر پہنچتے ہی خانقاہ کی طرف دوڑ پڑی۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں خانقاہ کے سامنے کھڑے تھے۔ ایسے میں دانیال نے پینٹ کی جیب سے پتوں سے بھری شاخیں نکال لیں۔

    ’’ارے یہی تو ہے لیڈی مینٹل۔‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    دانیال نے مسکرا کر فیونا کی طرف دیکھا۔ ’’میں جن جھاڑیوں میں چھپا تھا یہ وہیں پر اگا ہوا تھا۔‘‘

    ’’ہمیں ان پتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے ہوں گے۔ پھر اسے اینٹ کے قریب پھینکنا ہوگا۔ اور بچھو خود ہی وہاں سے بھاگ جائیں گے۔جیسے ہی بچھو وہاں سے دور ہٹیں گے ہم میں سے کوئی اندر جا کر اینٹ اٹھا لائے گا۔‘‘ جبران نے انھیں سمجھایا۔

    ’’لیکن اینٹ لینے کون جائے گا؟‘‘ دانیال نے سب سے اہم سوال پوچھا۔

    ’’میں۔‘‘ فیونا فوراً مضبوط لہجے میں بولی۔ ’’میں جاؤں گی اندر، اب جلدی سے ان پتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرو۔‘‘ تینوں نے پتوں کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا اور فیونا نے سارے ٹکڑے ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیے۔ ’’احتیاط سے۔‘‘ جبران نے جلدی سے تاکید کی۔ ’’تم جہاں جہاں پتے گراؤ گی، وہاں سے بچھو دور ہٹیں گے اور ایک راستہ بن جائے گا۔ بچھوؤں کو اس کی بو ناپسند ہے، لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ اس کی بو کتنی دیر رہے گی یا وہ کتنی دیر تک اسے برداشت کریں گے؟‘‘

    وہ تینوں خانقاہ کے دروازے پر ٹھہر گئے۔ فیونا نے اندر دیکھا تو اس کی اندر کی سانس اندر اور باہر کی سانس باہر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف سے باہر ابل آئیں۔ اندر فرش سے لے کر چھت تک سیاہ چادر تنی ہوئی تھی۔ بچھو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اگر کوئی ان کے درمیان پھنس جاتا تو یہ بچھو اسے ایک منٹ کے اندر اندر چٹ کر سکتے تھے۔ فیونا گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔ ’’نہیں، یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ اگر چھت سے کوئی بچھو میرے سر پر گر گیا تو پھر… کیا میرے سر پر بھی عفریت ہائیڈرا کی طرح سانپوں والے سر اگیں گے! نہیں… نہیں…‘‘ اس نے جھرجھری لی۔

    ایسے میں جبران نے کہا: ’’فرض کرو اگر ہم میں سے کوئی بھی اندر نہیں جائے گا تو کیا ہوگا؟ یہی نا کہ اینٹ نہیں حاصل کر سکیں گے، نہ ہم نہ بادشاہ دوگان کا کوئی وارث اسے حاصل کر سکے گا، اس لیے یہ محفوظ ہے، چناں چہ چلو واپس گھر چلتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘

    فیونا نے پریشانی کے عالم میں آنکھیں بند کر کے خود کو ہمت دلانے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بادشاہ کیگان کا دم توڑتا زخموں سے چور جسم آگیا۔ اس نے ایک بار پھر جھرجھری لی اور آنکھیں کھول دیں۔ ’’نہیں… میں اندر جاؤں گی۔‘‘ اس نے ساری ہمت جمع کی اور دل مضبوط کر کے چند قدم آگے بڑھ کر اندر داخل ہو گئی۔ اس نے پتوں کے چند ٹکڑے اپنے سامنے پھینک دیے۔ بچھو تیزی سے دور ہٹ گئے۔

    (جاری ہے……)

  • چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    "یہاں اس جزیرے پر ہم جڑی بوٹیوں کی دکان کہاں ڈھونڈیں گے، یہ تو سیاحوں کا جزیرہ ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں کا کیا کام؟” دانیال بولا۔ "یہاں تو نقشے، پینسل اور شیشے کے گلوب ہی ملیں گے۔ وہ اس وقت ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نیچے قصبے کی طرف دیکھ رہے تھے: "اور تب کیا ہوگا جب نکولس سے ہمارا سامنا ہوگا؟”

    "دانی پلیز، اتنی مایوسی کی باتیں نہ کرو۔” فیونا جلدی سے بولی: "پہلے ہم دیکھ تو لیں۔ یہاں ضرور کوئی ایسی دکان ہوگی جہاں جڑی بوٹیاں فروخت ہوں گی۔ یونانی اپنے کھانوں میں جڑی بوٹیوں کا بہت استعمال کرتے ہیں اور یہاں صرف سیاح ہی نہیں مقامی لوگ بھی ہیں جو یہیں پر رہتے ہیں۔”

    وہ ساحل پر دکانوں کی پھیلی ہوئی لمبی قطار کو دیکھنے لگے۔ وہ جہاں کھڑے تھے، وہاں پتھریلی سیڑھیاں نیچے کو جا رہی تھیں۔ یہ اتنی ڈھلواں تھیں کہ ان پر نیچے اترنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انھیں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔

    "یہاں کئی جگہ اس قسم کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، پتا نہیں یہ کس نے اور کب بنائی ہیں؟” دانیال نے تبصرہ کیا۔

    ‘کیا یہاں پتھر لا کر سیڑھیاں بنائی گئیں یا پہاڑ ہی میں تراشی گئی ہیں!” جبران حیرت سے سیڑھیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے بیٹھ کر سیڑھیوں پر انگلیاں پھیریں اور پھر بولا: "کچھ پتا نہیں، تاہم ان پر سخت محنت ہوئی ہے۔”

    نیچے اترنے کے بعد ان کی جان میں جان آ گئی۔ "اف میری ٹانگیں تو جیلی کی طرح کانپنے لگی ہیں۔ میں تو دوبارہ یہ مشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔” فیونا اپنی ٹانگوں کو جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگی۔

    "ہمیں نکولس کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔” جبران بولا۔ "چلو ان بغلی گلیوں میں چلتے ہیں۔ اگر چہ دیر لگے گی لیکن ہم بے خطر وہاں پہنچ جائیں گے۔”

    چند منٹ بعد وہ دکانوں کی ایک قطار تک پہنچ گئے۔ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم نکال کر دی اور کہا: "ہم الگ الگ دکانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کو بھی جڑی بوٹی ملی، وہ خرید کر واپس اسی جگہ آئے۔” وہ تینوں الگ الگ دکانوں کی طرف چل پڑے۔

    ایک گھنٹے بعد وہ سیڑھیوں کے پاس جمع ہو گئے۔ "میں نے وہاں نکولس کو دیکھا لیکن اچھا ہوا کہ مجھ پر اس کی نظر نہیں پڑ سکی۔ وہ اب بھی بہت غصے میں نظر آ رہا تھا۔ میں سر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگا۔” دانیال نے انھیں بتایا۔

    "کیا تمھیں جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان بھی ملی یا نہیں؟” فیونا نے پوچھا۔ دانیال نے جواب دیا: "نہیں، میں جن دکانوں میں گیا وہاں صرف شرٹس اور برساتیاں ہی فروخت ہو رہی تھیں۔”

    "میں جن دکانوں میں گیا وہاں مجسمے، جھنڈے اور اسی قسم کی چیزیں تھیں۔” جبران نے کہا۔ فیونا نے بھی مایوسی سے سَر ہلاتے ہوئے کہا: "مجھے بھی جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان نہیں ملی۔ اب مجبوراً ہمیں یہاں کے لوگوں سے پوچھنا پڑے گا، شاید کوئی ایسا شخص ملے جس نے اپنے باغیچے میں وہ بوٹی اگائی ہو۔ لیکن پہلے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یونانی زبان میں لیڈی مینٹل کو کیا کہتے ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا: "کیا تم جانتے ہو؟”

    "کیوں، میں کیوں جانوں گا بھلا؟” جبران نے ماتھے پر بل ڈا ل دیے۔ فیونا مسکرائی: "اس لیے کہ تمھیں یونان کے متعلق بہت ساری معلومات ہیں۔”

    جبران نے کہا : "صرف اسے دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔”

    "تو ٹھیک ہے، ہم ایک بار پھر مختلف سمتوں میں جا کر یہاں ادھر ادھر اُگے پودوں سے پتے توڑ کر ایک گھنٹے بعد پھر یہاں ملیں گے۔ اور یہاں جبران انھیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرے گا۔” فیونا نے کہا اور ایک طرف چل پڑی۔ باقی دونوں بھی مختلف اطراف میں روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ تینوں سیڑھیوں کے پاس پھر اکھٹے ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے پودوں کے پتے تھے۔ جبران کے ہاتھ خالی تھے۔ اس نے فیونا اور دانیال کے لائے ہوئے پتے دیکھ اور سونگھ کر کہا: ” ان میں سے کوئی بھی لیڈی مینٹل نہیں ہے۔”

    ان کے چہرے پھر اتر گئے۔ فیونا حتمی لہجے میں بولی: "تب پھر ہمیں بچھوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ سوچنا ہوگا۔ چلو واپس خانقاہ چلتے ہیں اور پھر سے اس پر سوچتے ہیں۔”

    تینوں سیڑھیوں کی طرف منھ کر کے اوپر دیکھنے لگے۔ "میں تو ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھنا چاہتی، بس یہ آخری مرتبہ ہے۔” فیونا منھ بنا کر بولی۔

    "رک جاؤ چورو! ” اچانک ان کی سماعتوں سے چیخنے کی آواز ٹکرائی۔ "وہ رہے آفیسرز، انھوں نے میرا گدھا چوری کیا تھا۔”

    یہ آواز ان کی سماعتوں پر بم کی طرح لگی تھی۔ وہ سناٹے میں آ گئے تھے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیلی وردی میں ملبوس تین سپاہیوں کے ساتھ ان کی طرف بھاگتا آ رہا تھا۔

    "بھاگو…!” فیونا چلائی۔

    وہ سیڑھیوں سے چھلانگیں مار کر اترے۔ "اگر ہم الگ ہوئے تو خانقاہ میں ملیں گے۔” فیونا بولی اور تیر کی طرح پہاڑ کے دامن میں بنے گھروں کی طرف دوڑی۔ دانیال بھاگ کر کچھ فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اچھی طرح چھپ گیا ہے تو اس کی نظریں عین سامنے اُگے پودے پر پڑیں۔ وہ چونک اٹھا۔ اس کے پتے خاکی مائل سبز تھے۔ اس میں چھوٹے زرد رنگ کے پھول بھی کھلے تھے۔ "ارے یہی پہچان ہی تو بتائی تھی جبران نے۔” مسرت سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جلدی سے کئی شاخیں توڑیں اور پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیں۔ پھر وہ احتیاط سے جھاڑیوں سے سر باہر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دبے قدموں چلنے لگا۔ یکایک اسے نکولس کی آواز سنائی دی۔

    (جاری ہے)

  • پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر نے اپنے باغیچے سے تمام قسم کے پھول چُنے، اور ان سے ایک خوب صورت گل دستہ بنا لیا۔ پھر، چند سبزیاں توڑیں اور باسکٹ میں بھر کر جبران کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ پندرہ منٹ بعد وہ جبران کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ دستک دینے پر ذرا دیر بعد جبران کی امی شاہانہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ مائری کو نہیں پہچان سکیں، کیوں کہ وہ اس سے پہلے کبھی مائری سے نہیں ملی تھیں۔

    "میں مائری… مائری اینافرگوسن مک ایلسٹر۔” انھوں نے اپنا تعارف کرایا۔

    "ارے آپ، فیونا کی ممی۔” شاہانہ چونک اٹھیں اور انھیں خوش آمدید کہا اور اندر مہمان خانے میں لے گئیں۔ "بلال نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے، آپ سے ملنے کا مجھے بڑا اشتیاق تھا۔”

    دونوں آمنے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئیں، لیکن شاہانہ نے اچانک کہا: "میں آپ کے آنے سے پہلے اپنے لیے چائے بنا رہی تھی، میں ابھی لے کر آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور باورچی خانے چلی گئیں۔ مائری اس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگیں۔ پہلی ہی نظر میں وہ شاہانہ کی سلیقہ مندی کی معترف ہو گئیں۔ ہر چیز سے صفائی اور سادگی کی جھلک نمایاں تھی۔ دروازے کی سامنے والی دیوار پر فریم میں ایک بڑی تصویر لٹک رہی تھی۔ اس تصویر میں ایک گاؤں کے پس منظر میں برف پوش پہاڑوں کا نہایت ہی دل پذیر منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس تصویر میں نظر آنے والی جگہ کے متعلق سوچ کر حیران ہو گئیں۔ وہ اسے پہچان نہیں سکیں۔ گھروں کا طرز تعمیر ان کے لیے بالکل اجنبی تھا۔

    "یہ ہمارے آبائی گاؤں کی تصویر ہے۔” شاہانہ نے اندر آتے ہوئے مائری کو تصویر میں گم دیکھ کر کہا۔ انھوں نے میز پر سینی رکھ دی اور دو پیالیوں میں کیتلی سے چائے انڈیلنے لگیں۔ مائری کیتلی کو دیکھ کر چونک اٹھیں۔ "ارے، میں نے آج تک اسکاٹ لینڈ میں اس طرح کی کیتلی نہیں دیکھی، یہ تو کوئی بہت قدیم لگ رہی ہے۔”

    شاہانہ مسکرا دیں۔ انھوں نے ایک پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا: "یہ کشمش کے بسکٹ ہیں، بے حد ذائقہ دار ہیں۔ رہی بات اس کیتلی کی تو یہ میں پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوں۔ یہ ہماری روایتی کیتلی ہے۔”

    "بہت ہی شان دار ہے۔” مائری اس سے متاثر نظر آنے لگیں، پھر کچھ یاد آکر انھوں نے باسکٹ اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ باسکٹ سے گل دستہ نکال کر شاہانہ کے حوالے کر دیا۔ "یہ میں نے اپنے باغیچے کے پھولوں سے بنایا ہے۔”

    "شکریہ….!” شاہانہ نے گل دستہ وصول کرتے ہوئے کہا: "معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے باغیچے میں بہت سارے پودے اگائے ہیں۔”

    "جی ہاں۔ میں نے کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل بھی اگائے ہیں۔ کچھ اپنے ساتھ بھی لائی ہوں۔ دراصل میں نے سوچا کہ جب بلال اور آپ کا مہمان لوٹیں گے تو رات کے کھانے کے لیے کچھ زبردست قسم کی چیزیں موجود ہوں۔” مائری نے روانی میں کہہ دیا لیکن وہ دل ہی دل میں حیران ہونے لگیں کہ اس نے اتنی روانی سے مہمان کا ذکر کیسے کر دیا۔ "میرا مطلب ہے کہ …. آپ کے ہاں ایک مہمان آیا ہوا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟” وہ گڑبڑا کر بولیں۔

    شاہانہ مسکرا دیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ ” ہاں، ہاں… جونی تھامسن لندن سے یہاں آیا ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ وہ بلال کے ہمراہ مچھلیوں کے شکار پر گئے ہوئے ہیں۔ آج رات آپ اور فیونا کا کیا پروگرام ہے؟ کیا آپ ہمارے ہاں آنا پسند کریں گی۔ رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھائیے، مہمان کے ساتھ بھی ملاقات ہوجائے گی، اور جتنی دیر چاہیں آپ ان سے مچھلی کے شکار کے قصے بھی سن سکتی ہیں۔”

    مائری ہنس پڑیں۔ "تھامسن سے کل میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک اچھا شخص لگتا ہے۔ میں رات کے لیے قیمہ اور آلو کا بھرتا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اگر آپ کو پسند ہو تو میں وہ یہاں لے کر آ جاؤں!”

    شاہانہ فوراً سمجھ گئیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ "ٹھیک ہے، آپ اطمینان کے ساتھ آ سکتی ہیں۔ جتنا چاہیں یہاں وقت گزاریں۔ ویسے آپ تو پہلے ہی سے اتنا کچھ لے کر آئی ہیں۔” انھوں نے باسکٹ کی طرف اشارہ کیا۔

    (جاری ہے….)

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)

  • بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    تینوں ساحل پر زیتون کے ایک قدیم ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے بیٹھ کر سامنے کا منظر دیکھنے لگے۔ ان کی نگاہیں پہاڑی پر مرکوز تھیں۔ دانیال نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا: "قیمتی پتھر اسی علاقے میں ہوگا، یہ ساحل اتنا پھیلا ہوا نہیں ہے۔”

    "یہ کتنا پیارا منظر ہے۔ وہ دیکھو، آرٹسٹ تصویریں بنا رہے ہیں۔” جبران نے چند لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو ایزل کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

    "ہاں، میں اور بھی بہت کچھ دیکھ رہی ہوں۔ بہت سارے لوگ فوٹو گرافی کررہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ سیاح ہوں گے۔” فیونا بے زاری سے بولی۔

    "میرے خیال میں یہ لوگ کلینڈر کے لیے فوٹو گرافی کر رہے ہیں۔” جبران نے سر کھجایا۔ "میری ممی نے گھر کے لیے ایک کلینڈر خریدا تھا، اس پر یونان کی تصاویر تھیں لیکن وہ اس ساحل کی نہیں تھیں۔ میرے خیال میں وہ سنتارینی کی تصاویر تھیں۔”

    فیونا نے گائیڈ بک کھول لی جو وہ خرید کر لائے تھے۔ "مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کہیں قریب ہی ہیں۔” فیونا کسی سوچ میں گم بولی۔ دانیال اٹھ کر آرٹسٹ کے قریب چلا گیا۔ جبران نے بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر لیں اور چند لمحوں بعد وہ تنے سے ٹیک لگا کر نیند کی دنیا میں کھو چکا تھا۔ فیونا نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ اونگھنے لگی اور اسی عالم میں اس نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز میدان میں کھڑی ہے۔ ایک پہاڑی پر ایک خانقاہ ہے اور زیتون کا ایک درخت کھڑا ہے۔ اسی لمحے وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ اس نے جلدی سے جبران کو جگایا اور دانیال کو بھی آواز دی۔ "جلدی آؤ، میں نے جان لیا ہے کہ قیمتی پتھر کہاں ہے۔” جبران نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا: "میں بہت میٹھی نیند میں تھا، تم کیا کہہ رہی ہو؟”

    "میں کہہ رہی ہوں کہ پتھر جس جگہ موجود ہے میں وہ جگہ جانتی ہوں۔ اس تصویر کو دیکھو۔” فیونا نے گائیڈ بک آگے کر دی۔ "یہ سینٹ الیگزینڈر چرچ ہے، یہ سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں سے ایک یا دو میل دور واقع ہے۔ چلو اپنا اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    دانیال ہنسا۔ "ہمارے پاس سامان کہاں سے آگیا، چلو ہم تیار ہیں۔” تینوں ساحل چھوڑ کر شہر کی طرف چل پڑے۔ فیونا بولی: "دیکھو خیال رکھنا، ہم شہر کے اندر جا رہے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ ہم کہیں راستہ بھٹک جائیں۔”

    وہ ایک سیدھ میں چلنے لگے۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ جبران چونک اٹھا۔ "یہ تو کھنڈرات ہیں فیونا، پتا نہیں کتنے قدیم ہیں۔”

    "گائیڈ بک کے مطابق اس کی تعمیر 1200 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔” فیونا کتابچہ کھول کر دیکھنے لگی۔ "یہ تو واقعی بہت قدیم ہیں۔ اپنے وقت میں یہ بلاشبہ بہت خوب صورت تعمیر رہی ہوگی۔” اس نے کتابچہ بند کر دیا۔ جبران نے اچانک ایک خطرناک بات یاد دلا دی: "فیونا کیا تمھیں یاد ہے کہ انکل اینگس نے کیا کہا تھا؟ انھوں نے کہا تھا کہ پتھر کے آس پاس تین پھندے بچھائے گئے ہیں۔ پتا نہیں یہ کس قسم کے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ خانقاہ کے اندر شیر ہو، یا سانپوں والے سروں کا عفریت ہائیڈرا۔” جبران کی آواز میں انھوں نے خوف کی جھلک واضح محسوس کی۔

    جب وہ خانقاہ کے قریب پہنچے تو فیونا نے کہا: "میں نہیں سمجھتی کہ یہ قلعۂ آذر سے زیادہ خوف ناک جگہ ہوگی۔ یہاں روشنی ہے۔ میرے خیال میں خانقاہوں میں بھوت نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔”

    دانیال فیونا سے کتابچہ لینے کے بعد اسے پڑھنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ آخر کار اس نے کتابچہ بند کر کے پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیا اور کہا: "کتابچے میں لکھا ہے کہ یہاں بھی کہیں پر منقش شیشے کی کھڑکی موجود ہے، جیسا کہ قلعۂ آذر میں تھی۔ یہاں اور بھی پچی کاری کے کام کی یادگاریں موجود ہیں۔”

    دونوں اس کی بات سن کر مڑے اور اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا: "دانی کیا تم نے نہیں سنا، ہم نے ابھی کیا باتیں کیں؟” دانیال کے چہرے پر حماقت کے تاثرات چھا گئے، اور نفی میں سر ہلانے لگا۔ جبران بے بتایا: "ہم نے کہا کہ اگر یہاں پھندے کے طور پر کوئی عفریت ہوا تو…”

    "جبران! غلط بات ہے۔ اسے کیوں ڈرا رہے ہو۔ خانقاہ میں کوئی عفریت نہیں ہے، آؤ میرے ساتھ۔” فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور اندر داخل ہو گئی۔ "واؤ، پتھر تو ماربل کے لگ رہے ہیں، یہ گرینائٹ کے نہیں ہیں۔ بہت شان دار۔”

    "ہاں اچھے ہیں۔” جبران نے کوشش کی کہ اس کے لہجے سے خوف ظاہر نہ ہو، لیکن یہ سچ تھا کہ ڈر اس کے دماغ میں بیٹھ چکا تھا۔ انھوں ںے دیکھا کہ خانقاہ کی کئی دیواریں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں اور اینٹیں فرش پر بکھری پڑی تھیں۔ دانیال اچانک پرجوش ہو کر چیخ جیسی آواز میں بول اٹھا: "وہ دیکھو، منقش شیشے کے ٹکڑے بھی پڑے ہیں۔” فیونا اور جبران کی نگاہیں خانقاہ کے دور کے ایک کونے پر پڑیں۔ وہاں ایک نوجوان جوڑا کھڑا تھا۔ نظریں ملتے ہی فیونا اخلاقاً مسکرائی اور جبران کے قریب ہو کر سرگوشی کی: "قیمتی پتھر ماربل کی ان ہی اینٹوں میں سے کسی ایک کے اندر ہے۔”

    "تم کیسے جانتی ہو یہ؟” جبران نے ماربل کی اینٹوں پر نظریں جما دیں۔ فیونا تفصیل بتانے لگی: "بس جانتی ہوں۔ جس نے قیمتی پتھر ماربل اینٹ میں چھپایا تھا، اس نے اس کے لیے کوئی طریقہ بھی ظاہر ہے کہ ڈھونڈا ہوگا۔ میں نے جب آنکھیں بند کی تھیں تو اسے صاف طور سے ماربل کی اینٹ میں دیکھا تھا۔”

    "لیکن یہاں تو ہزاروں ماربل اینٹیں ہیں فیونا، ہم کیسے جانیں گے کہ پتھر کس اینٹ میں ہے؟” دانیال نے پریشان ہو کر کہا اور ایک ٹوٹی اینٹ اٹھا لی۔ "یہ تو خاصی چمک دار ہے، میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔”

    "ماربل کی اینٹ اس جگہ پر ہے جہاں وہ نوجوان جوڑا کھڑا ہے۔ جب وہ جائے گا تو ہم وہاں جا کر اسے ڈھونڈیں گے۔” فیونا نے کہا اور ٹوٹے ماربل کے ایک بڑے ٹکڑے پر بیٹھ کر ہاتھوں کے پیالے میں ٹھوڑی رکھ لی۔ اس کی نگاہیں نوجوان جوڑے پر گڑی ہوئی تھیں۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ جوڑا کچھ بے چینی محسوس کر کے باہر چلا گیا۔ "اوہ شکر ہے وہ چلے گئے۔” جبران نے اچانک چھلانگ ماری اور اس جگہ کی طرف دوڑ پڑا۔ فیونا چلا کر بولی: "خبردار جبران، یہاں کوئی دام بھی بچھا ہو سکتا ہے۔”

    دانیال نے کہا: "ہاں کوئی دیوار بھی گر سکتی ہے جس کے نیچے دب کر ہم سب مر سکتے ہیں۔ کیا پتا یہاں نیچے انتہائی زہریلے چھوٹے سانپ بھی ہوں۔”

    "میں جانتا ہوں۔ وائپر اور ایسپ ہوتے تو چھوٹے ہیں لیکن انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔” جبران رک کر مڑا اور سانپوں کے متعلق اپنی معلومات جھاڑیں۔ فیونا کو غصہ آ گیا۔ "اوہ دانی، اتنا ڈرامائی ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر تم ڈرتے ہو تو باہر جا کر ہمارا انتظار کرو۔”

    "ٹھیک ہے، میں چپ رہوں گا۔” دانیال نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیے اور ماربل کی اینٹوں کو گھورنا شروع کر دیا۔ فیونا اس کے سامنے سے گزر کر کونے کے قریب جا کر بولی۔ "پتھر اس اینٹ کے اندر ہے، یہ جو بالکل کونے میں لگی ہوئی ہے۔ میں جا کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہوں، یہ مجھے ڈھیلی لگتی ہے۔”

    (جاری ہے…)

  • انیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "نقشہ بتا رہا ہے کہ ہائیڈرا 21 قطر میل تک پھیلا ہوا ہے، اور ایتھنر کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اتنے بڑے علاقے میں کسی قیمتی پتھر کو ڈھونڈ نکالنا تو ناممکن ہے۔ ویسے ہم یہاں کون سا پتھر ڈھونڈیں گے؟” جبران نے یاد کرنے کی کوشش کی۔

    "سیاہ آبسیڈین۔ انکل اینگس نے بتایا تھا کہ یہ سیاہ شیشے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔” فیونا نے جواب دیا۔ "صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ پتھر کسی آتش فشاں سے ملا تھا۔”

    وہ اندر گئے اور ایک نقشہ خرید لیا۔ باہر آ کر وہ ایک پتھر کی دیوار پر چڑھ کر اس طرح بیٹھ گئے جیسے گدھے پر سواری کی جاتی ہے۔ یہ دیوار ساحل پر تھی۔ لہریں ان کے پیروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ماہی گیروں سے بھری ایک کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی۔ ان سے کافی فاصلے پر سیاحوں سے بھری کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی تھی اور اس میں سے نکل کر مخصوص لباس پہنے سیاح چھلانگیں مار کر ساحل دوڑ رہے تھے۔ ان کا رخ دکانوں کی طرف تھا۔

    "یہاں بھی ویسے ہی سیاح نظر آ رہے ہیں جیسے گیل ٹے میں نظر آیا کرتے ہیں۔” فیونا بولی۔ "شکلوں سے ویسے ہی احمق دکھائی دیتے ہیں۔” تینوں ہنسنے لگے۔ اچانک فیونا کو ایک خیال آیا۔ "کیا ہائیڈرا ایک عفریت کا نام نہیں ہے، جس کے سانپ جیسے نو سر ہیں!”

    "ہاں… ہائیڈرا ایک عفریت ہے۔” جبران نے اثبات میں سر ہلایا۔ "یونانی تاریخ کا تمھارا مطالعہ اچھا ہے۔”

    ایسے میں دانیال بھی بول اٹھا۔ "میں نے ہرکولیس کی کہانی پڑھی ہے، اس نے ہائیڈرا کو مار دیا تھا۔ وہ بھی تو یونانی تھا نا!”

    فیونا نے کہا: "کیا ہم یہیں پر رہیں گے، اگرچہ یہ جگہ بہت خوب صورت ہے، اور مجھے پسند بھی آ گئی ہے، لیکن ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔”

    "پہلے کچھ کھا نہ لیا جائے کیا؟ مجھے بھوک لگی ہے۔” جبران بولا، فیونا نے کہا: "ہاں، پہلے کچھ کھاتے ہیں اور اس نقشے کا کیا کریں؟”

    "کھانے کے بعد دیکھیں گے اسے، مجھے یونانی کھانوں کی خوش بو بہت اچھی لگی ہے۔” جبران ایک آؤٹ ڈور کیفے کی طرف دیکھنے لگا جو لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک کونے میں انھیں ایک میز خالی نظر آ گئی، تینوں نے جلدی سے وہاں جا کر کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ "اف، کرسی تو بہت گرم ہے۔” فیونا ایک دم اچھل کر پڑی۔

    "ہاں، کرسیاں دھات کی بنی ہیں، دھوپ کی وجہ سے تَپ رہی ہیں۔” جبران مسکرا کر بولا۔ ایسے میں ایک بیرے نے آکر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ان سے پوچھا: "کیا چاہیے آپ کو؟”

    "کیا آپ مینو دیں گے؟” جبران نے اس کی طرف دیکھا۔ بیرا ایک مینو میز پر رکھ کر چلا گیا۔ جبران اور فیونا کھانوں کی فہرست دیکھنے لگے۔ "ایک اور مشکل…. ہمیں کھانوں کی نوعیت کے بارے میں کیسے پتا چلے گا؟ یہ سارے نام تو ظاہر ہے اجنبی ہیں۔” جبران نے دونوں کی طرف دیکھا۔

    "کچے آکٹوپس… او… میں تو یہ نہیں کھا سکتی۔” فیونا نے مینو دیکھ کر برا سامنھ بنا لیا۔

    بیرا واپس آ گیا۔ اس نے کان کے پیچھے سے پنسل نکالی۔ فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ دیکھ کر کہا: "کرسٹوف! میں یونانی سلاد کھاؤں گی۔ مینو میں لکھا گیا ہے کہ اس میں زیتون، کاہو، کھیرا، ٹماٹر اور مسالہ لگا پنیر شامل ہیں، کیا یہ درست ہے؟”

    بیرے نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: "جی ہاں، اس پنیر کو ہماری زبان میں فیٹا کہتے ہیں اور سلاد میں تیل اور سرکہ بھی ڈالے جاتے ہیں۔” بیرے نے یہ کہہ کر جبران کی طرف توجہ کی۔ "جی، آپ کے لیے کیا لاؤں؟”

    "صبر تو کریں۔ ابھی میرا آرڈر ختم نہیں ہوا۔” فیونا نے جلدی سے مداخلت کی۔ بیرا پھر اس کی طرف مڑا۔ فیونا نے کہا: "ایک ڈبل روٹی بھی۔”

    "یہ عام ڈبل روٹی نہیں ہے، اس کا نام پیٹا ہے جو خمیر کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔” بیرے نے بدمزگی سے کہا اور جبران کی طرف مڑا، جو بدستور مینو پر نگاہیں دوڑا رہا تھا۔ بیرا بے صبری سے زمین پر پاؤں تھپتھپانے لگا۔ "میں ایک سولاکی لوں گا۔ مجھے برّے کا گوشت بے حد پسند ہے، اس کے ساتھ سیخ میں مرچ اور پیاز بھی پروئے جاتے ہیں، لیکن مرچ کون سی؟” جبران نے پوچھ تو لیا لیکن ایک دم سے گھبرا گیا کہ پتا نہیں بیرا کس طرح جواب دے، کیوں کہ اس کا رویہ کچھ اچھا نہیں تھا۔ وہی ہوا۔ وہ غّرا کر بولا: "ہری مرچ… تم کیا سمجھ رہے ہو؟” اگلے لمحے جبران نے اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا "بے وقوف سیاح!”

    "میں تو یوں ہی پوچھ رہا تھا، کیوں کہ گھر میں ہمارے پاس زرد، نارنجی اور سرخ مرچ بھی ہیں۔” جبران نے جھجکتے ہوئے کہا۔

    "مجھے یہ زیٹنر کی چٹنی چاہیے جو ملائی، دہی، کھیرے اور لہسن سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ فرائی زکینی، فرنچ فرائز اور بینگن۔ ویسے یہ زکینی ہے کیا؟”اس سے قبل کہ بیرا دانیال سے آرڈر پوچھتا، اس نے جلدی جلدی الٹا سیدھا خود ہی بتا دیا۔

    "زکینی کھیرے کی طرح سبزی ہے۔” بیرے نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ "اور ہاں ایک گلاس پانی بھی۔” دانیال جلدی سے بولا۔

    "میرے لیے بھی۔” فیونا نے بھی کہا۔ "کیا پانی کی قیمت الگ سے وصول کی جاتی ہے؟”

    بیرے نے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا اور جبران کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے بھی پانی کا آرڈر دے دیا۔ اس کے جاتے ہی فیونا نے گہری سانس لے کر کہا: "میرے خیال میں سارے ہی یونانی اس بیرے کی طرح تو نہیں ہوں گے۔”

    جبران نے نیا نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا: "ایسا نہیں ہے۔ وہاں بھی جب انکل مک گریگر کے ریستوران میں سیاحوں سے بھری بس اترتی ہے تو ان کا رویہ بھی پھر ویسا نہیں رہتا، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا کرتا ہے۔”

    کچھ ہی دیر بعد بیرا پلیٹوں میں ان کی مطلوبہ ڈشیں لے کر آ گیا۔ فیونا نے زیتون دیکھے تو حیران رہ گئی۔ پھر اس نے کانٹے میں ایک زیتون اٹھا کر منھ میں رکھا تو بے اختیار بولی: "اف… یہ تو بے حد ذائقہ دار ہے، ہمارے ہاں ڈبّے میں بند جو زیتون ملتا ہے، اس کا ذائقہ اتنا مزے دار نہیں ہوتا۔”

    تینوں نے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ فیونا آخر میں بولی: "میں اس بیرے کو ٹپ نہیں دوں گی، یہ ٹپ کا مستحق نہیں ہے۔”

    "چلو، اس نقشے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔” جبران نے نقشہ نکال کر میز پر پھیلا دیا۔ "یہ تو بہت پیچیدہ لگ رہا ہے۔ کیا ہم اسے پڑھنے کی کوشش کریں یا پھر پہلے ذرا پرسکون ہونے کے لیے گدھے کی سواری کریں؟”

    "ہاں، یہ صحیح ہے۔” دانیال بولا لیکن فیونا نے منع کر دیا۔ ان کی یہ گفتگو گدھے کے مالک نے سن لی۔ وہ گدھے کو قریب لا کر بولا: "بچو، آؤ، گدھے کی پُر لطف سواری کا مزا لو۔ بچوں کی سواری پر گدھا بہت خوش ہوتا ہے۔”

    فیونا نے سواری سے انکار کر دیا۔ جبران اور دانیال نے گدھے پر سواری کی اور تصویریں بھی بنوائیں۔

    "چلو، اب یہ کھیل ختم کرو۔ ہم یہاں سیاح بن کر تو نہیں آئے۔ ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔” فیونا نے تصویروں کو دیکھا اور مسکرا دی۔

    (جاری ہے…….)

  • سترھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سترھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    پھر ان کے جسم میں جنبش ہوئی اور ہونٹ ہلنے لگے۔ "تم لوگوں کو یہ الفاظ ادا کرنے پڑیں گے … دالث شفشا یم…اس کے بعد تم قیمتی پتھر والی جگہ پر پہنچ جاؤ گے۔ ہاں واپس آنے کے لیے اس منتر کے آخر میں ایک اور لفظ بِٹ شامل کرنا ہوگا۔ جہاں سے جاؤ گے، واپسی بھی وہیں پر ہوگی۔ میرے خیال میں منتر تم لوگوں کو یاد ہو گیا ہوگا کیوں کہ یہ بہت آسان ہے۔”

    "ہاں لیکن یہ بے حد عجیب اور اجنبی الفاظ ہیں۔” فیونا بولی۔

    "یہ دراصل بادشاہ کیگان کے آبا و اجداد کی زبان میں لکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے سورج اور سمندر کی طرف دروازہ، اور بِٹ کا مطلب ہے گھر۔ ” اینگس نے کتاب بند کر کے جواب دیا۔ "یہ فونیزی الفاظ لگتے ہیں، پہلے میرا خیال تھا کہ یہ مشرقی یورپ یا روسی الفاظ جیسے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔”

    جبران بولا۔ "ہوشیار ہو جاؤ سب، میں اس منتر کو آزما رہا ہوں، عین ممکن ہے کہ میں ہی ایک وارث ہوں۔” یہ کہ کر اس نے منتر پڑھا… دالث شفشا یم۔”

    لیکن کچھ نہیں ہوا۔ فیونا کے منھ سے ہنسی نکل گئی۔

    "میں تو مذاق کر رہا تھا۔” جبران جھینپ گیا۔ "مجھے پتا ہے کہ میں بادشاہ کیگان کا وارث بھلا کیسے ہو سکتا ہوں۔”

    "یہ ایسے کام نہیں کرے گا۔ اس کے لیے تمھیں کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جانا پڑے گا۔ بغیر کسی تیاری، اور اکیلے۔” اینگس کہنے لگے۔ "مجھے پکا یقین ہے کہ میں ورثا میں سے نہیں ہوں۔ میں قلعہ آذر والوں کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے یہاں کی تاریخ بھی خاصی دل چسپ ہے۔” یہ کہ کر وہ اٹھے اور کتابوں کی طاق سے ایک کتاب کھینچ کر نکال لی۔ "یہ کتاب اس علاقے گیل ٹے کی تاریخ سے متعلق ہے، کتاب میں ذکر ہے کہ دو لڑکیاں قلعے میں آئی تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بادشاہ کیگان کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے نام ازابیلا اور آنا تھے۔”

    فیونا نے چونک کر کہا۔ "انکل میں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی لیکن میرا درمیانی نام ازابیلا اور میری ممی کا آنا ہے۔ یہ اتنا اہم تو محسوس نہیں ہوتا تھا، صرف ایک اتفاق کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اب سوچ رہی ہوں کہ تو حیرت ہو رہی ہے کہ کیا ہم ان کے وارث ہیں۔ کیا کتاب میں اس حوالے سے کچھ بتایا گیا ہے؟”

    اینگس نے بتایا "کتاب میں لکھا ہے کہ شہزادیوں کی جن مردوں سے شادی ہوئی تھی، وہ جھیل کے پار دوسرے کنارے والے گاؤں کے عام لوگ تھے۔”

    فیونا اس بار بری طرح چونکی۔ "کیا اس سے مطلب اینوَر ڈروچٹ ہے؟ میری ممی وہیں سے تو ہیں۔”

    "کتاب میں کسی خاص گاؤں کے نام کا ذکر نہیں ہے۔ یہ دونوں خاندان بعد میں قلعے میں منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی نسلیں کئی صدیوں تک وہاں رہیں لیکن پھر برطانیہ کے ساتھ جنگ میں یہ قلعہ تباہ ہو گیا اور اسے پھر سے تعمیر نہیں کیا گیا۔ جو لوگ اس میں رہتے تھے وہ جھیل کے کنارے قریبی دیہات میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہو گئے۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک وارث ہو۔” اینگس نے یہ کہ کر کتاب بند کر دی۔

    "اوہ، یہ تو ایک زبردست بات ہو گئی ہے۔” جبران اچھل پڑا۔ "فیونا تم حقیقی وارث ہو، مجھے تو یہی محسوس ہو رہا ہے۔”

    "کیا تم یہ منتر آزماؤ گی فیونا؟” دانیال نے اچانک اسے مخاطب کیا۔

    "ٹھہرو۔” وہ تینوں اینگس کی بدلی ہوئی آواز پر ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ وہ اٹھے اور الماری کے ایک خانے سے نوٹوں کی گڈی نکال کر فیونا کی طرف بڑھے۔ "فرض کرو، منتر پڑھتے ہی تم غائب ہو گئی تو تمھیں رقم کی ضرورت ہوگی، اسے اپنے پاس رکھو۔ تم کسی بھی بینک سے متعلق ملک کی کرنسی تبدیل کر سکتی ہو۔” فیونا نے یہ سن کر لرزتے ہاتھوں کے ساتھ رقم کی گڈی لے کر جیب میں رکھ لی۔

    "میری ممی کہتی ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد قلعے میں رہتے تھے۔ میں اس منتر کو آزمانا چاہتی ہوں، لیکن یہ معاملہ بہت خطرناک لگ رہا ہے۔ جبران، دانی، تم بھی آ کر میرے قریب کھڑے ہو جاؤ۔ اگر اس نے کام کیا تو میں اکیلے نہیں جانا چاہوں گی۔”

    وہ دونوں فیونا کے کندھوں سے کندھے ملا کر کھڑے ہو گئے۔ فیونا بڑبڑانے لگی… دالث شفشا یم…

    اور پھر وہ ہوا جس کا ان میں سے کسی کو بھی یقین نہیں تھا، کیوں کہ ابھی تک اس عجیب و غریب کہانی پر وہ دل سے یقین نہیں کر پائے تھے۔ یکاک کمرا رنگ و نور سے بھر گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک رنگین دھواں تیزی سے کمرے میں پھیلنے لگا ہے۔ اس دھوئیں میں دھاتی نیلے، قرمزی سرخ، تیز سبز، گہرے ارغوانی، لیموں جیسے زرد اور نارنجی دائرے جھلملا رہے تھے۔

    "انکل یہ کام کر رہا ہے، ہمارے ساتھ آپ بھی چلیں، جلدی کریں انکل۔” فیونا چلّا کر بولی۔

    "میں نہیں آسکتا۔” اینگس نے کہا۔ "میں یہیں رکوں گا اور جادوئی گولے کی حفاظت کروں گا۔”

    لیکن دیر ہو چکی تھی، جب تک اینگس کے منھ سے نکلے الفاظ ان تک پہنچ پاتے، ان کی آنکھوں کے سامنے کمرا کسی بگولے کی مانند تیزی سے گھومنے لگا۔ جب یہ بگولا رک گیا تو وہ حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگے۔

    (جاری ہے….)

  • سولھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سولھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا نے پوچھا یہ سیچلز کہاں ہے؟ اینگس بتانے لگے، "یہ بحر ہند میں جزائر کا ایک گروپ ہے جو مشرقی افریقی ساحل سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان علاقوں کے بارے میں تم جلد جان لو گی۔ زیادہ دل چسپی کی بات ان قیمتی پتھروں کے بارے میں ان کی تفصیل ہے۔ ہر پتھر کے اندر ایک ڈریگن منقش ہے۔ جب بھی کوئی وارث اسے چھوئے گا تو یہ ڈریگن چمکنے لگے گا۔ اسی سے معلوم ہو گا کہ یہ درست پتھر ہے۔ ان پتھروں سے کچھ اس قسم کی لہریں بھی اٹھتی ہیں جو حقیقی وارث محسوس کر سکے گا اور وہ درست مقام تک پہنچ جائے گا۔ ان لہروں کی وجہ سے یا تو وہ خواب میں اس جگہ کو دیکھ لیں گے یا پھر تصور میں۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہاں اس معاملے میں ایک پریشانی والی بات بھی ہے۔” اینگس نے ٹھہر کر ان کی طرف دیکھا اور پھر کہا "کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بارہ آدمیوں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پتھر چھپائے جانے کی جگہوں کے آس پاس پھندے بھی لگائیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان بارہ آدمیوں نے اس سلسلے میں کیا کیا، اس کا کچھ پتا نہیں، کیوں کہ وہ اس کے بعد بادشاہ سے پھر کبھی نہیں ملے۔ اب یا تو تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور نے اس کا ذکر قصداً نہیں کیا ہے یا عین ممکن ہے کہ ان بارہ آدمیوں نے اسے بتایا ہی نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ خیال ہو کہ کتاب غلط شخص کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے۔”

    اینگس کے خاموش ہوتے ہی جبران نے پوچھا "تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور کے ساتھ کیا ہوا؟”

    اینگس نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ چوں کہ اس سے راز داری کا وعدہ لیا گیا تھا، بارہ آدمیوں سے ملنے اور پھر کتاب واپس قلعے میں رکھنے کے بعد وہ کہیں غائب ہو گیا ہوگا اور عام لوگوں کے درمیان گم نامی کی زندگی بسر کرنے لگا ہو گا۔ اسے جانتا بھی کوئی نہیں تھا۔

    فیونا نے بھی ایک سوال پوچھ لیا "بادشاہ دوگان اور اس کے جادوگر کے ساتھ کیا ہوا؟”

    "میں نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ جادوگر اپنے بادشاہ کے مرنے کے بعد کہیں غائب ہو گیا۔ جب دوگان نے کیگان اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا اور اس نے قلعے میں کسی قیمتی پتھر اور کتاب کو نہ پایا جو اُس وقت آلروئے کے پاس کشتی میں پڑی تھی، تو وہ بہت غصے میں آیا۔ کتاب میں ایک چھوٹی سی تحریر الگ سے لکھی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دوگان کا جادوگر پہلان انتہائی طاقت ور جادو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور جہاں تک اس کتاب کے مصنف کا ذکر ہے تو اس کتاب کے مطابق اس میں شان دار کارکردگی دکھانے کی صلاحیت تھی۔ تو میری نظر میں جو تصویر بن کر سامنے آ رہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ دوگان آج بھی ممکن ہے کہ زندہ ہو۔ اگر وہ زندہ نہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ ساری قوتیں اس کے کسی وارث میں ہوں۔ بہرحال، اس کتاب میں ایسا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔”

    وہ تینوں یہ سن کر بے اختیار چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے تھوک نگل کر، گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا "اس کا مطلب ہے کہ کوئی شیطان صفت آدمی بادشاہ کیگان کے کسی وارث کی تلاش میں ہے!”

    اینگس نے گلا کھنکار کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ "وہ کوئی عورت بھی ہو سکتی ہے، اس کا امکان ہے۔ اب مسئلہ اس جادوئی گولے کا ہے۔ یہ تم لوگوں کی نسبت میرے پاس زیادہ محفوظ ہوگا۔ فرض کرو اگر وہ شیطان بادشاہ یا اس کا کوئی جادوگر زندگی کی طرف لوٹنے میں کام یاب ہو جائے اور انھیں اس جادوئی گولے سے متعلق معلوم ہو جائے تو یہ ہمارے لیے بہت سارے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔”

    یہ ایک ایسی بات تھی جس نے تینوں کے بدن میں سنسنی دوڑا دی۔ فیونا کو ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ جبران کو لگا کہ وہ کسی تیز طوفان کی زد میں آ گیا ہو اور دانیال گم سم ہو گیا تھا۔ وہ پھٹی ہوئی نظروں سے اینگس کو دیکھ رہا تھا۔

    فیونا نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا تو اس سے بڑبڑاہٹ جیسی آواز نکلنے لگی۔ "انکل اسے آپ ہی اپنے پاس رکھیں، ہم میں سے کسی کے بھی والدین اسے گھر میں رکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اور پھر کوئی اس کی تلاش میں بھی ہے تو یہ اسے آسانی سے مل سکتا ہے۔ ”

    ایسے میں دانیال کو ایک اہم بات یاد آ گئی۔ اس نے آگے کی طرف جھکتے ہوئے کتاب کو دیکھنے کی کوشش کی۔ "انکل، وہ منتر کیا ہے، جو اس کتاب میں درج ہے؟”

    "منتر… کیسا منتر؟” اینگس کے ماتھے پر لکیریں نمودار ہو گئیں۔

    "ارے ہاں، دانیال ٹھیک کہہ رہا ہے۔” جبران کو بھی یاد آ گیا۔ "آپ ہی نے تو کہا تھا کہ اس میں کوئی منتر لکھا ہوا ہے، یاد ہے آپ نے گزشتہ رات اسے کتاب میں پایا تھا۔”

    "اوہ، مجھے یاد آ گیا۔” اینگس اچھل پڑے، انھیں اپنی یادداشت پر حیرت بھی ہوئی۔ اور پھر وہ جلدی جلدی کتاب کے صفحات الٹنے لگے اور مطلوبہ صفحے پر پہنچ کر ساکت سے ہو گئے، پھر ان کے جسم میں جنبش ہوئی اور ہونٹ ہلنے لگے۔ "تم لوگوں کو یہ الفاظ ادا کرنے پڑیں گے۔”

    (جاری ہے….)