Tag: رفیع اللہ میاں کی تحریریں

  • چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا گھر پہنچ کر جبران اور دانیال کا انتظار کر نے لگی۔ اسے کھڑکی میں بیٹھے انتظار کرتے ہوئے پانچ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اس نے دونوں کو سامنے گلی میں آتے دیکھا۔ دونوں اس کے گھر کے دروازے کے سامنے پھولوں والے راستے پر رک گئے۔ فیونا تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آئی اور دونوں کو مسرت بھری نظروں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ "آؤ، اندر آؤ… ممی ابھی آتی ہوں گی، وہ آپ دونوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر رہی ہیں۔”

    "فیونا، تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی، صبح سے اتنی بارش ہو رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہ شاید آج ملاقات نہیں ہو سکے گی، لیکن اچھا ہوا بارش رک گئی۔” جبران نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد اونی کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے کہا۔

    "مجھے بھی تم دونوں سے مل کر خوشی ہوئی ہے، دراصل یہ اتنا چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں اتنے کم لوگ ہیں کہ میرا کوئی خاص دوست ہی نہیں بن سکا ہے ابھی تک۔” فیونا نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔ شیشے کے پار ان کے باغیچے میں کھلے پھول لہراتے نظر آنے لگے۔

    پہلی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دوسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    "تو ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔” جبران نے فوراً دوستی کی پیش کش کر دی۔” آن لائن دوست تو ہم پہلے ہی سے ہیں۔”

    فیونا نے مسکراکر کہا ” ہاں، میں تمھارے ساتھ دوستی کر سکتی ہوں، تم ایک اچھے لڑکے ہو۔”

    "شکریہ!” جبران شرما گیا، پھر سنبھل کر بولا "یہ میرا کزن ہے دانیال۔ بدقسمتی سے اسے انگریزی نہیں آتی لیکن میں آپ دونوں کے درمیان ترجمان بن سکتا ہوں۔”

    "ٹھیک ہے۔” فیونا نے سر ہلایا۔ "میں اپنے نئے دوست سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسے اسکاٹ لینڈ آ کر کیسا لگا؟”

    جبران نے فیونا کا سوال اردو میں دانیال کو سنایا تو اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا "مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کے سرخ اینٹوں والے تقریباً ایک جیسے گھر، صاف ستھری گلیاں، اور ٹھنڈا موسم، سب بہت اچھا لگا۔”

    جبران نے اسے انگریزی میں منتقل کیا تو فیونا ایک دم سے بولی "ابھی تو تم نے یہاں کا دریا اور جھیلیں نہیں دیکھیں، وہ دیکھو گے تو اور اچھا لگے گا۔”

    "میں ضرور دیکھنا چاہوں گا۔ ” دانیال مسکرا دیا۔ اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور فیونا کی ممی ہاتھوں میں تھیلیاں پکڑے دروازے کے سامنے سے گزریں۔ وہ ذرا ٹھہریں اور بولیں "میں ابھی آئی۔” انھوں نے کھانے کا سامان باورچی خانے میں رکھا اور ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ "خوش آمدید بچّو، کیسے ہیں آپ دونوں؟”

    "جی، ہم ٹھیک ہیں، شکریہ، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔” جبران نے جواب دیا۔ مائری کی آنکھوں میں ایک دم سے چمک آ گئی۔ ” لگتا ہے آپ کی ماں آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔”

    "نہ صرف ماں بلکہ پاپا بھی۔” جبران نے جلدی سے کہا "وہ دونوں مجھے ڈھیر سارا وقت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں میری مدد کرتے ہیں۔”

    "اچھا تم لوگ باتیں کرو، میں کچھ اسنیکس لاتی ہوں۔” یہ کہہ کر فیونا کی ممی اٹھ کر چلی گئیں اور تھوڑی دیر بعد جب وہ ایک بھرا ٹرے لے کر دوبارہ آئیں تو انھوں نے جبران سے پوچھا "آپ کے پاپا کہاں کام کرتے ہیں؟”

    جبران نے ٹرے سے اسنیکس اٹھاتے ہوئے کہا "وہ الباکاٹے فرم میں جنرل منیجر ہیں۔” فیونا کی ممی یہ سن کر چونک اٹھیں۔”کیا آپ بلال احمد کے بیٹے ہیں؟”

    "جی جی۔” اس بار حیران ہونے کی باری جبران کی تھی، فیونا کو بھی خوش گوار حیرت نے آ لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کی ممی جبران کے والد کو پہلے سے جانتی ہیں اور اسے پتا ہی نہیں ہے۔ جبران نے پوچھا "کیا آپ انھیں جانتی ہیں؟”

    مائری مسکرا دیں "ہاں، کیوں کہ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ یہاں کے دریا اور جھیلوں میں بڑے شوق سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔”

    "ممی، یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے، پھر تو آپ اپنے آفس کے ساتھی کو فون کر کے کہیں کہ جبران اور دانیال یہاں ہیں، کیوں کہ ہم دیر تک گھومیں پھریں گے۔” فیونا نے چہک کر کہا۔

    مائری نے مسکرا کر سر ہلایا اور اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی تینوں اسنیکس کھاتے ہوئے گپ شپ کرنے لگے۔ اچانک فیونا بولی "تمھارے پاپا مچھلی کا شکار کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس چھوٹی کشتی بھی ہوگی۔”

    "ہاں، ہے تو؟”جبران کے چہرے پر سوالیہ تاثر ابھرا۔

    "ہم اس کشتی کو لے کر قلعۂ آذر پر چلے جاتے ہیں، بڑا مزا آئے گا۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ قلعہ آذر ایک تاریخی مقام ہے، دانیال کو یہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے، اس کی زندگی کا یادگار تجربہ ہوگا۔ ” فیونا روانی اور جوش سے بولتی رہی، جب کہ جبران اس کے چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ "کیا تم کبھی وہاں گئی ہو فیونا؟” جبران نے پوچھ لیا۔

    "نہیں۔” فیونا جلدی سے بولی۔ "میری ممی کہتی ہے کہ ہمارے آبا و اجداد وہاں رہتے تھے۔”

    جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا "میں نے قلعۂ آذر کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ اس قلعے میں کبھی مک ایلسٹر خاندان بھی رہا ہے۔” فیونا جلدی سے بولی "مک ایلسٹر نہیں، بلکہ میری ممی کی طرف کے آبا و اجداد میں سے کوئی وہاں رہتا تھا، یعنی فرگوسن خاندان سے۔”

    اس موقع پر دانیال، جو پہاڑی علاقے میں رہائش کے باعث بادلوں کے تیور دور سے پہچان لیتا تھا، مداخلت کر کے بولا "بھئی اگر تم لوگوں کو کہیں جانا ہے تو فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر مت لگائیں، کیوں کہ آسمان مکمل طور پر صاف نہیں ہے، اور مجھے خدشہ ہے کہ بارش ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔”

    جبران نے ترجمانی کی تو فیونا نے کہا ٹھیک ہے، چلتے ہیں، میں ممی کے لیے وہاں سے پھول بھی توڑ کر لے آؤں گی۔”

    وہ تینوں صدیوں پرانے قلعے کی سیر کرنا چاہتے تھے، اور تینوں میں ایک بات مشترک تھی، یہ کہ انھیں نئی نئی جگہوں کی تلاش اور مہم جوئی میں بہت دل چسپی تھی، فرق یہ تھا کہ دانیال کو اپنا یہ شوق آس پاس کے پہاڑوں میں گھوم پھر کر پورا کرنا پڑتا تھا۔ جبران نے جب فیونا سے پوچھا کہ کیا تم اپنی ممی سے پوچھو گی؟ تو اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکان ابھری، اس نے کہا "ممی نے مجھے وہاں جانے سے منع کر رکھا ہے۔”

    وہ تینوں گھر سے نکلے اور جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ تینوں صنوبر اور شیشم کے جھنڈ میں راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے؛ جبران دانیال کو بتانے لگا کہ اسکاٹ لینڈ میں جھیل کو لوچ کہتے ہیں۔ درختوں اور رنگ رنگ کے پھولوں کے درمیان جھیل کا پانی نظر آرہا تھا، اور یہ منظر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہو۔ بہار کا موسم عروج پر تھا۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ رک گئے۔ کنارے پر فاصلے فاصلے سے چھوٹی کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ جھیل میں کوئی کشتی اس وقت کھیتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی، جبران ایک کشتی کے پاس کھڑا ہو گیا تو فیونا بولی۔ "تو یہ ہے تمھارے پاپا کی کشتی!”

    اس نے جھیل کے پانی پر نظر دوڑائی اور پھر تشویش بھرے لہجے میں بولی "پانی میں لہریں اٹھ رہی ہیں، ہم محفوظ تو ہوں گے نا؟”

    "ارے گھبراؤ نہیں۔” جبران بولا "میرے پاپا نے مجھے کشتی کھینا سکھایا ہے، اور قلعہ آذر ویسے بھی زیادہ دوری پر نہیں ہے۔ مسٹر لیمنٹ نے پاپا سے گفتگو کے دوران ذکر کیا تھا کہ قلعے کے پاس جزیرے پر ہزاروں تیتر ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم بھی چند تیتر پکڑ سکیں، پھر تو ڈنر میں مزا آ جائے گا۔”

    یہ کہہ کر وہ کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لیے۔ فیونا اور دانیال بھی دوسرے سرے پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے ایک ایک چپو سنبھال لیا اور پھر کشتی آہستہ آہستہ جھیل کے اتھلے پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ فیونا پہلی مرتبہ کشتی میں سفر کر رہی تھی، وہ پانی میں دیکھ کر بولی "یہ تو تقریباً کالا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ لوچ نِس سے بھی زیادہ گہری جھیل ہے۔”

    ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کے لمبے بالوں کو اڑا کر اس کی آنکھوں پر دے مارا۔ وہ ایک ہاتھ سے بال ہٹا کر بولی "دیکھو جبران، پانی میں کتنا اچھال آنے لگا ہے، میں نے سنا ہے کہ لوچ نِس کی طرح اس جھیل ڈون میں بھی عفریت ہے۔” اگرچہ یہ اس کا اپنا منصوبہ تھا کہ قلعۂ آذر کی سیر کی جائے لیکن اب وہ جھیل میں سفر کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔ "بے وقوفی کی باتیں مت کرو فیونا۔” جبران بولا۔ "بس اب ہم پہنچنے ہی والے ہیں، عفریت جیسی کوئی چیز نہیں، اگر تمھیں پھر بھی ڈر لگ رہا ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لو۔ اب تم گیارہ سال کی ہو گئی ہو لہٰذا تمھیں تصوراتی عفریتوں اور لہروں والے پانی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔”

    "میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا جلدی سے بولی "اگرچہ مجھے عفریتوں پر کوئی یقین نہیں ہے لیکن لہروں والے پانی سے میرا بدن کانپنے لگتا ہے، اور مجھے ایسا بالکل پسند نہیں لیکن کیا کروں؟

    اسی لمحے اس کی نگاہیں قلعۂ آذر پر جم گئیں۔ ماحول میں پراسرار خاموشی پھیلی ہوئی تھی، صرف چپوؤں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔

    جاری ہے…….

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشمتل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "افوہ مما … ایک تو یہاں ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے۔” فیونا نے ممی سے شکایت کی، جیسے وہ اس کا کوئی حل نکال لیں گی۔ "مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پورے سال ایک بھی پورا دن ہم نے خشک دیکھا ہو۔”

    فیونا کی مما مائری مک ایلسٹر کھڑی کے شیشے کے پار دیکھنے لگیں۔ وہ دونوں مک ڈونی کے چائے خانے، جس کی پیشانی پر ٹی روم کا بورڈ آویزاں تھا، میں بیٹھی تھیں۔ چائے خانے کے باہر آس پاس سبزہ نظر آ رہا تھا، یہ سر سبز منظر نگاہوں کو بے حد بھلا محسوس ہوتا تھا۔ مائری نے طویل سانس کھینچ کر کہا۔ "فیونا، تمھیں یہ جگہ پسند ہے تو پھر اس طرح کی شکایتیں کیوں کرتی رہتی ہو۔ان گلابی پھولوں والی سدا بہار جھاڑیوں کو تم کہیں اور دیکھ سکو گی کیا؟” فیونا کی مما نے کرسی سے باقاعدہ اٹھ کر گلی میں ایک طرف روندراں کی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا تھا، جس میں گلابی رنگ کے بڑے بڑے پھول کھلے تھے۔

    "اوہ مما پلیز، بیٹھ جائیں، ویٹرس چائے لا رہی ہے۔” فیونا نے قدرے غصے سے کہا، اسے ممی کا اس طرح اٹھ کر جھاڑی کی طرف اشارہ کرنا عجیب لگا۔ مائری بیٹھ گئیں۔ ویٹرس نے انگلش چائے کی دو پیالیاں میز پر رکھ دیں جن سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

    "شکریہ فلورا” فیونا نے ویٹرس کا خوش دلی سے شکریہ ادا کیا اور ممی کی طرف دیکھ کر بیزاری سے کہنے لگی۔ "وہ تو ٹھیک ہے، پر ممی، میں بے حد بور ہو جاتی ہوں۔ ہر وقت بارش…بارش…کوئی بھی کام نہیں ہو پاتا۔”

    فیونا نے چائے کا گھونٹ بھرااور مکھن لگے کیک Scone سے ایک ٹکڑا کاٹ کر منھ میں رکھا۔ کیک کا ٹکڑا لینے کے بعد اس نے مک ڈونی کا اپنا تیار کردہ نارنگی کے مربے کے ڈبا اپنی طرف کھسکایا۔

    مائری نے نیپکن سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ "جیسا ذائقہ اس مربے اور سکون کا ہے، ویسا تمھیں کسی بڑے شہر میں بھی نہیں ملے گا۔ میری بھی ساری زندگی یہاں گیل ٹے سے زیادہ دور نہیں گزری، اور دیکھو ہشاش بشاش ہوں، تم بھی یہاں خوش رہو گی۔”

    فیونا نے شیشے کے پار آسمان پر پھیلے ہوئے بادلوں کو دیکھا، جن سے مسلسل بارش کے موٹے موٹے قطرے برس رہے تھے اور ان میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی۔ اس نے کہا "مجھے غلط مت سمجھیں ممی، گیل ٹے میں رہنا مجھے بھی پسند ہے، لیکن اتنی چھوٹی سی جگہ میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں، اگر میں کسی بڑے شہر میں رہوں گی تو نئے لوگوں سے ملاقات ہوگی۔” فیونا نے کیک سے ایک اور ٹکڑا لیا اور بولنے لگی "اپنے ارد گرد دیکھو نا، یہاں ہم دونوں ہی ہیں، کوئی تیسرا شخص ہمارے ساتھ نہیں، میں بیزار ہو جاتی ہوں مما۔”

    اسی وقت چائے خانے کے دروازے کے سامنے ایک خاتون رُکی، جس کا چہرہ سیاہ چھتری میں چھپا ہوا تھا۔ چھتری تہ ہو گئی تو مائری نے اسے پہچان لیا۔ نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔

    "فیونا، آپ کو میری طرف سے گڈ ڈے اور آپ کو بھی مائری۔” انھوں نے آتے ہی کہا۔ "اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟”

    "کیوں نہیں۔” مائری نے مسکرا کر کہا اور میز کے اندر سے تیسری کرسی کھینچ کر نکال لی۔نیلی نے چھتری میز کے سہارے ٹکا دی اور برساتی اتار کر کرسی کی پشت پر ڈال دی۔کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے گرما گرم چائے اور چھوٹی ڈبل روٹی کا آرڈر دے دیا۔ چائے آئی تو نیلی نے فیونا کی طرف جھک کر کہا۔ "یہاں کی چھوٹی ڈبل روٹی اچھی ہے لیکن اتنی بھی نہیں جیسا کہ میں بناتی ہوں۔” فیونا ہنس پڑی۔”میں جانتی ہوں۔”

    نیلی نے ڈبل روٹی کھاتے ہوئے پوچھا "آج کل کیسا محسوس ہو رہا ہے فیونا؟” اس سے پہلے کہ فیونا جواب دیتی، مائری نے مداخلت کر دی۔ "فیونا یہاں کی مسلسل بارش سے تنگ آ چکی ہے اور اب سوچ رہی ہے کہ کسی بڑے شہر میں جا کر رہا جائے۔”

    نیلی نے چونک کر کہا "ہاں، ہم نے بھی وقتاً فوقتاً ایسا ہی محسوس کیا ہے لیکن پھر وقت گزر ہی گیا، میں بہت سفر کر چکی ہوں اور ہر مرتبہ جب یہاں گیل ٹے لوٹ آئی تو بے انتہا مسرت ملی۔” یہ سن کر فیونا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "آپ بہت سفر کر چکی ہیں، کیا آپ افریقا یا آسٹریلیا یا امریکا بھی گئی ہیں؟”

    نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ بتانے لگیں "افسوس میں ان ممالک کے سفر پر کبھی نہیں جا سکی، دراصل میں اسکول ٹیچر تھی اس لیے زیادہ سفر نہ کر سکی لیکن پھر میرے پیارے شوہر گیون کی وفات کے بعد میں نے بہت سفر کیے۔ میں برطانیہ کا زیادہ تر حصہ دیکھ چکی ہوں، حتیٰ کہ آئرلینڈ بھی جا چکی ہوں لیکن افریقا نہیں جا سکی۔ اس زمین کے سب سے دور کے گاؤں کارن وال اپنی بہن پینی لوپ سے کئی مرتبہ ملنے گئی ہوں، لیکن ہاں فیونا، آپ کے نانا نانی نے ان علاقوں کا سفر کیا تھا۔” یہ کہ کر انھوں نے مائری کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر اداسی کے سائے پھیل گئے تھے۔ وہ جلدی سے بولیں "معذرت خواہ ہوں، میں نے آپ کے والدین کا ذکر کر دیا ہے، میں جانتی ہوں کہ ایان اور ہیتھر کی کشتی کے اندوہ ناک حادثے میں موت آپ کے لیے بے انتہا دکھ کا باعث ہے۔”

    "کوئی بات نہیں نیلی، اب تو انھیں گزرے بہت وقت ہو چکا ہے، انھیں سفر بہت پسند تھا، ممی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ان کا پسندیدہ مقام مصر ہے، جب کہ ڈیڈ کہا کرتے تھے کہ انھیں جنوبی افریقا پسند ہے۔”

    اگلے ایک گھنٹے تک نیلی اور مائری گفتگو کرتے رہے، انھوں نے دنیا کے ہر موضوع پر باتیں کیں، یہاں تک کہ فیونا بے زار ہو گئی۔ اس کے والد کا انتقال پانچ برس قبل ایک حادثے میں ہوا تھا، اس نے اچانک ممی کو مخاطب کیا۔ "مما، آپ کے دیگر سارے رشتے دار کہاں ہیں؟ نانا نانی کے انتقال کا تو مجھے پتا ہے لیکن آپ کے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہاں تو ہر رشتے دار کا تعلق ڈیڈ ہی سے ہے۔ آخر آپ کے کزنز کے ساتھ میری ملاقات کب ہوگی؟”

    "ہو جائے گی کسی دن۔” مائری نے چائے کا آخری گھونٹ بھر کر کہا جو بالکل ٹھنڈی پڑ چکی تھی، لیکن انھیں ٹھنڈی چائے ہی پسند تھی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ فیونا یہاں بیٹھے بیٹھے بے زار ہو چکی ہے، اس لیے بولیں۔ "میرا خیال ہے بارش رک چکی ہے۔” انھوں نے اٹھ کر باہر جھانک کر دیکھا تو بارش واقعی رک چکی تھی۔ مائری نے بل ادا کیا اور نیلی کو خدا حافظ کہہ کر فیونا کے ساتھ باہر نکل گئیں۔

    "دیکھو فضا کتنی مہک اٹھی ہے، دور دور سے سیاح یہاں آکر ہماری جھیلوں اور دریا میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، پھولوں سے ڈھکے پہاڑوں کی سیر کرتے ہیں۔” یہ کہ کر مائری نے گہری سانس لی، اور اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے کی مہکی ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں بھرا، جو اسکاٹش ہائی لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ انھوں نے کہا ” ذرا دریائے ٹے کو دیکھو، ٹراؤٹ مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے، اور سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دریا میں موتی تیر رہے ہیں، اور ذرا یاد کرو، تم کتنی مرتبہ جھیل لوچ ڈرول میں تیراکی کر چکی ہو، اور نہ جانے کتنی مرتبہ تم وہاں مچھلیاں بھی پکڑنے جا چکی ہو۔ یہ سب کیا ہے، محض اس لیے کہ تمھیں یہ سب پسند ہے، تمھیں یہاں رہنا پسند ہے۔”

    وہ دونوں اس وقت ڈینڈ لون پُل پر کھڑے نیچے دریائے ٹے کے بہتے پانی کو دیکھ رہے تھے۔ مائری پھر بولنے لگیں” اس پُل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات سو سال سے قائم ہے، یہ پُل اس وقت بنایا گیا تھا جب قلعہ آذرکی تعمیر عمل میں آئی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ یہ روایت درست نہیں، یہ پل اتنا قدیم نہیں ہو سکتا۔”

    فیونا نے پُل کی قدامت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا اور بولی "میں تو اتنا جانتی ہوں کہ جو حسن یہاں ہے وہ کہیں اور نہیں۔” اس نے دور نظر آنے والی جھیل لوچ نس پر نظر ڈالی، چھوٹے جزیروں نے اس کے آبنوی پانی پر جگہ جگہ دھبے ڈال دیے تھے۔ یہ جزیرے شاہ بلوط، برچ، صنوبر اور سفیدے سے ڈھکے ہوئے تھے، رنگوں کی ایک بہار جوبن پر تھی۔

    "فیونا، ذرا ان پرندوں کی طرف دیکھو، کیا تم نے اس جیسی نغمگی سنی ہے؟” مائری پرندوں کی بولیوں میں گم سی ہو گئی تھیں۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا "گھبراؤ نہیں ماں، میں بھی مانتی ہوں کہ گیل ٹے رہنے کے لیے سب سے بہترین جگہ ہے۔” دونوں ماں بیٹی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دریائے ٹے کے کنارے چلتے چلے جا رہے تھے۔ فیونا نے دور ایک بڑے سے جزیرے پر قدیم کھنڈرات پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا "ممی ، کیا آپ قلعہ آذر کبھی گئی ہیں؟”

    "پتا ہے اس جزیرے پر موجود گاؤں سکارا برے تقریباً چھ ہزار سال پرانا ہے۔” ممی بتانے لگیں "قلعہ آذر میں پتا نہیں ایسی کیا بات ہے کہ میں اس کے اندر قدم رکھنے سے گھبراتی ہوں۔ یہ سوچ کر ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں جب سے یہاں ہوں، وہاں کبھی نہیں گئی اور میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم وہاں جاؤ، وہ ایک پراسرار جگہ ہے، اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔”

    فیونا نے اس پر کچھ نہیں کہا، لیکن چند لمحوں بعد اچانک بولی۔ "ممی، میرے چند دوست آنے والے ہیں ابھی، میں آپ کو بتانا بھول گئی تھی۔ جبران پاکستانی نژاد ہے، پڑوسی گاؤں میں اپنے ممی پاپا کے ساتھ رہتا ہے، اس کا ایک کزن پاکستان سے وزٹ پر آیا ہے، میں نے ان کو گھر پر آنے کی دعوت دے دی ہے۔”

    "یہ تو تم نے بہت اچھا کیا ہے فیونا، بہت اچھی بات ہے، تمھیں یہاں نئے دوست مل گئے ہیں۔ مائری نے خوش ہو کر کہا تو فیونا بولی "ممی کیا آپ مہمانوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر سکتی ہیں؟”مائری نے مسکرا کر کہا "کیوں نہیں، راستے میں مک ایوانز بچر کی دکان سے کچھ چیزیں لے لیتے ہیں۔”

    "لیکن ممی، وہ آنے ہی والے ہوں گے، میں گھر چلی جاتی ہوں، آپ خریداری کر کے آئیں۔” فیونا نے ممی کا ہاتھ پیار سے سہلاتے ہوئے کہا۔ ممی نے کہا "ٹھیک ہے بھئی، ایسا ہی کرتی ہوں۔” فیونا نے ممی سے اجازت لی اور تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑی۔

    جاری ہے …..