Tag: رفیع اللہ میاں کی کہانیاں

  • بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    ’’جبران، پیسوں کو چھپاؤ۔‘‘ دانیال نے اسے کہنی مار کر سرگوشی کی۔ فیونا نے بھی اس کی نظروں کو تاڑ لیا تھا اس لیے اس نے کہا: ’’یہ کوئی زیادہ بڑی رقم نہیں ہے، اس میں سے کچھ تو آپ کا کرایہ ہے، ہاں اگر آپ زیادہ ٹپ چاہتے ہیں تو ہمیں خیریت سے لے جا کر صحیح سلامت واپس پہنچا دیں۔‘‘

    یہ سن کر جیکس اچانک سیدھا کھڑا ہو گیا اور تیز لہجے میں بولا: ’’اپنے لائف جیکٹس پہن لیں، یہ اصول ہے یہاں کا۔ ہو سکتا ہے یہ آپ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو لیکن انھیں پہننا ضروری ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کشتی اسٹارٹ کر دی اور وہ ذرا دیر میں کھلے سمندر میں پہنچ گئے۔ وہ ان تینوں کو جزائر کے گرد پھرنے والے سمندری ڈاکوؤں کے بارے میں بتانے لگا، اس نے بتایا کہ یہاں ایسی کھاڑیوں کی بے شمار کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جہاں خزانہ دفن ہے اور وہ آسیب زدہ ہیں۔ جیکس نے انھیں بڑے بڑے گھونگوں اور کن کھجوروں سے بھی خبردار کیا اور کہا کہ ناریل کے کسی درخت کے نیچے بھی کھڑے مت ہونا، لیکن اس کی وجہ کوئی آسیب نہیں تھا بلکہ اس نے بتایا کہ دراصل یہاں دنیا کے سب سے اونچے ناریل درخت ہیں، اگر ایک ناریل آپ کے سر پر گرا تو آپ کی کھوپڑی پل بھر میں چٹخ جائے گی۔

    یہ سن کر جبران کو پسینہ آ گیا، اس نے کہا: ’’جی ہم ناریل کے درختوں سے بچ کر رہیں گے لیکن یہ بڑے گھونگوں اور کن کھجورے کیسے ہیں؟ کتنے بڑے ہیں یہ؟ اور آسیب زدہ کھاڑیوں کے بارے میں مزید کچھ بتائیں۔‘‘

    ’’سلہوٹ آئس لینڈ پر آپ کو بہت ساری عجیب و غریب مخلوقات دکھائی دیں گی۔‘‘ جیکس ہنس کر بولا: ’’لیکن جب تک آپ انھیں نہیں چھیڑیں گے، یہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ دل چسپی سے تینوں کو دیکھنے لگا، تینوں اس کی باتیں سن کر دل ہی دل میں ڈر گئے تھے۔ وہ بتانے لگا: ’’جزیرے کے غاروں میں سے کسی ایک غار میں بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سے ایک تجارتی جہاز گزر رہا تھا جس پر بہت بڑا خزانہ لدا تھا لیکن بحری جہاز کو سمندری ڈاکوؤں نے حملہ کر کے تباہ کر دیا اور سارا خزانہ لوٹ کر انھی غاروں میں سے کسی ایک میں چھپا دیا، لیکن آج تک کسی کو اس خزانے کا سراغ نہیں ملا ہے۔‘‘

    جیکس نے انھیں بتایا کہ بہت سارے لوگ خزانے کی تلاش میں آئے لیکن موت کے منھ میں چلے گئے۔ یہ باتیں سن کر وہ ساکت بیٹھے سنتے رہے۔ پھر ان کی کشتی ساحل پر پہنچ گئی۔ جیکس نے کہا: ’’اب آپ کشتی سے اتر کر کنارے تک جائیں کیوں کہ آگے کشتی نہیں جا سکتی۔ چوں کہ آپ نے مجھے اچھا کرایہ دیا ہے اس لیے میں چھ گھنٹوں تک آپ کی واپسی کا انتظار کروں گا اور اس دوران مچھلیاں پکڑوں گا۔ لیکن آپ لوگ دیر مت کرنا، ہمیں چھ گھنٹوں میں واپس جانا ہے، کیوں کہ میں اندھیرے میں کھلے سمندر میں کشتی نہیں نکالنا چاہتا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ جبران کے منھ سے بے ساختہ نکلا، وہ ایک دم گھبرا گیا تھا۔

    ’’بحری ڈاکوؤں کے بھوت…‘‘ جیکس نے سنسنی خیز لہجے میں کہا: ’’میں نے خود بھی دیکھے ہیں۔ ان کا بھوت جہاز بھی رات کو جزیروں کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اگر آپ انھیں قریب سے دیکھ لیں گے تو پھر واپس کبھی ساحل پر نہیں آ پائیں گے۔‘‘

    تینوں پھٹی آنکھوں سے جیکس کی طرف دیکھ رہے تھے، انھیں ریڑھ کی ہڈیوں میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ تینوں اسی عالم میں کشتی سے پانی میں اتر گئے اور ساحل کی طرف بڑھنے لگے۔ ایک قدم اٹھانے کے بعد جبران نے مڑ کر دیکھا اور بولا: ’’مجھے آپ کی باتوں پر بالکل یقین نہی ہے مسٹر جیکس، آپ ہمیں محض ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

    جیکس نے اس کی بات سن کر کوئی جواب نہیں دیا، بس زیر لب مسکرانے لگا۔

    (جاری ہے)

  • تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’ہم آپ کے لیے یونانی سموسہ اور بادام کا کیک لے کر آئے ہیں۔ یونانی زبان میں ان کے نام طویل ہیں لیکن یہ بہت ذائقہ دار ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ اینگس نے جبران کے ہاتھ سے سموسہ اور بادام کے کیک لے لیے۔ ’’اگر تم لوگوں کو برا نہ لگے تو میں یہ کسی اور وقت کے لیے رکھ دوں۔ کیوں کہ میں ابھی ابھی تین عدد چاکلیٹ بسکٹ کھا چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگے اور پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہو گئی۔ ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے۔ سمجھ لو کہ میں ایک تاریخ نویس ہوں، آلرائے کیتھ مور کی طرح۔ میں بھی اس کتاب میں ان دل چسپ واقعات اور مہمات کی کہانی لکھوں گا۔ میرے پاس خصوصی سیاہی ہے اور اس قدیم کتاب میں خالی صفحات بھی ہیں۔‘‘

    ’’اوہ یہ تو شان دار خیال ہے۔ اگر آپ کچھ بھول بھی جائیں تو ہم ساری کہانی دہرا بھی سکتے ہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا۔ ’’ویسے میں یہ ساری کہانی اپنی ڈائری میں بھی لکھوں گا۔‘‘

    ایسے میں دانیال اپنی جیب پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ زبان کے مسئلے کی وجہ سے کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا۔ یکایک اسے پتھر کا وہ ٹکڑا یاد آیا جو اس نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔ وہ جلدی سے بولا: ’’یہ دیکھیں انکل، یہ میں نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔‘‘

    جبران نے فوراً اس کی ترجمانی کی۔ اینگس نے اس کے ہاتھ سے ٹکڑا لیا۔ یہ ماربل کی اینٹ کا ہی ایک ٹکڑا تھا۔ فیونا نے وہ تصویریں اینگس کو دکھائیں جو انھوں نے ساحل پر گدھے پر بیٹھ کر کھینچی تھیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر وہ سب ہنسنے لگے۔

    اینگس نے اٹھ کر الماری کے اوپر سے قدیم کتاب اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ ’’میں اسے بعد میں لکھنا شروع کروں گا جب بالکل اکیلا ہوں گا، تاکہ بھرپور توجہ کے ساتھ سارے واقعات قلم بند کر سکوں۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • تئیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تئیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصّوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    بیٹھے بیٹھے فیونا تھک گئی تھی، اٹھ کر ہاتھ پیر پھیلا کر سستی دور کرنے لگی۔ پھر اس نے ماربل کی اینٹوں پر توجہ مرکوز کر دی۔ وہ سوچنے لگی کہ وہ کیا کرسکتی ہے، کیوں کہ دونوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی تھی اور وہ سارا دن انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے اینٹ ہٹا دی تو ساری دیوار میرے اوپر آ رہے گی اور غالباً چھت بھی۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا اور بڑبڑائی: "مجھے اس گدھے کی ضرورت ہے۔”

    اسی وقت جبران اور دانیال اندر داخل ہو گئے۔ جبران نے ایک پتھر سے ٹھوکر کھائی، اس کے منھ سے تکلیف دہ آواز نکلی۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا۔ "بہت خوب، گدھا کہاں ہے؟ کیا تم نے اسے باہر چھوڑ دیا۔”

    جبران نے منھ بنا لیا۔ وہ اٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگا۔ "کمال کیا نا میں نے ٹھوکر کھا کر۔”

    "ہم گدھے کو نہیں لا سکے۔” دانیال نے دھیمے لہجے میں بتایا۔

    "کیوں؟” وہ حیران رہ گئی۔

    "فیونا، ہم گدھے کو ساتھ لے کر چلے تھے لیکن اس نے سیڑھیاں نہیں چڑھیں، وہ ضدی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا، اور پھر کہیں سے نکولس چلا آیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر پاگل ہونے لگا تھا۔ ہم بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، ویسے میں رسی لے آیا ہوں۔” دانیال نے تفصیل بتا دی۔

    "ہم تمھارے لیے پیٹا لائے ہیں جسے یہاں کی زبان میں گائرو کہتے ہیں، یہ بہت مزے کا ہے۔” جبران نے کہا تو فیونا نے پیٹا لے کر کھایا۔ وہ بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکی: "بہت مزے کا ہے لیکن چکنائی بہت زیادہ ہے۔”

    "ہاں کرسٹوف کے بالوں کی طرح۔” دانیال نے دانت نکالے۔

    "تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھے کے بغیر ہی کچھ کرنا پڑے گا۔” فیونا نے پیٹا پورا کھانے کے بعد کہا۔ دونوں نے خاموشی سے سر ہلایا۔ "جب تم دونوں چلے گئے تھے تو میرا دھیان اس درخت کی طرف گیا، یہ دیکھو۔” فیونا نے اینٹوں کی دیوار کے قریب جا کر ایک سوراخ کی طرف اشارہ کیا۔ "یہاں سے ہم رسی باہر پہنچا کر اُس درخت کے تنے سے باندھ دیں گے اور پھر اس کے ذریعے اینٹ کھینچ کر نکال لیں گے۔”

    دانیال نے جلدی سے رسی زمین پر رکھ دی اور اس کا ایک سرا فیونا کو تھما دیا۔ رسی کا دوسرا سرا لے کر وہ فرش پر پتھروں کے ڈھیر پر چڑھا اور پھر درخت کی طرف چلا گیا۔ درخت کے گرد چکر لگا کر وہ واپس فیونا کے پاس آیا۔ فیونا نے رسی کا وہ سرا جو اس کے ہاتھ میں تھا، لے کر مطلوبہ اینٹ کے ساتھ ایک سوراخ میں ڈالا۔ ذرا سی کوشش سے رسی کا سرا اندر چلا گیا۔ پھر وہ دوڑ کر باہر گئی اور رسی کا سرا کھینچ کر اسے اینٹ کی دوسری طرف بنے سوراخ میں ڈال دیا، جسے دوسری طرف موجود دانیال نے اندر کھینچ لیا۔ فیونا پھر اندر آئی اور اب دونوں سرے دانیال کے ہاتھوں میں تھے اور رسی مطلوبہ اینٹ کے گرد حمائل ہو چکی تھی۔

    "اب کیا کریں؟” دانیال نے پوچھا۔

    "بتاتی ہوں۔” فیونا بولی اور اس کے ہاتھ سے ایک سرا لے کر اسے قریب ایک ستون سے باندھ دیا۔ "اب تم دونوں باہر جا کر درخت کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ میں جیسے ہی آواز دوں تو تم دونوں پوری قوت کے ساتھ رسی کھینچنا شروع کرو۔”

    دانیال دوسرا سرا لے کر جبران کے ہمراہ باہر جا کر درخت کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ فیونا نے دوڑ کر ایک اور اینٹ اٹھا لی اور دیوار میں لگی مطلوبہ اینٹ کے پاس کھڑی ہو گئی۔

    "رسی کھینچ لو۔” فیونا نے چند لمحے توقف کیا اور پھر چیخ کر بولی۔

    دونوں نے پوری طاقت کے ساتھ رسی کھینچی۔ اینٹ میں تھوڑی سی حرکت ہوئی اور اس کا ایک ٹکڑا ٹوٹ کر نیچے گر گیا، اس کے ساتھ ہی دھول کا ایک چھوٹا سا مرغولہ اٹھ کر فضا میں منتشر ہو گیا۔

    (جاری ہے……)

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)

  • تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "جبران، کیا تم گھر جاؤ گے؟” فیونا نے اینگس کے گھر سے نکلتے ہی پوچھا۔ جبران نے کہا نہیں، میرا خیال ہے پاپا مسٹر تھامسن کے ساتھ باہر گئے ہوں گے، جب کہ ممی گھر کے کاموں میں مصروف ہوں گی، اور عرفان اور سوسن کھیل رہے ہوں گے، اس لیے گھر جانے کی ضرورت نہیں۔”

    "ٹھیک ہے، تو پھر میں گھر سے فلیش لائٹ اور کیمرہ لے لیتی ہوں۔” فیونا نے کہا اور دونوں اس کے ساتھ چلنے لگے۔ فیونا کی ممی باغیچے میں مصروف تھیں، فیونا نے جلدی جلدی مطلوبہ چیزیں اٹھائیں اور پھر وہ قلعۂ آذر کی طرف روانہ ہو گئے۔

    "اس مرتبہ ہمیں بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یعنی گیند ڈھونڈنے کے لیے سارا قلعہ چھان مارنا ہوگا۔” فیونا نے چلتے چلتے کہا۔

    "تو پھر آؤ، دوڑ کر چلیں۔” جبران نے اثبات میں سر ہلاکر کہا۔ تینوں دوڑتے ہوئے جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ کشتی اسی مقام پر موجود تھی جہاں انھوں نے گزشتہ روز چھوڑی تھی۔ فیونا نے تین فلیش لائٹس ساتھ لی تھیں اس لیے تینوں کے پاس ایک ایک موجود تھی۔ وہ کشتی کھول کر اسے قلعۂ آذر کی طرف کھینے لگے۔ اس مرتبہ وہ بے خوفی سے دوڑتے ہوئے قلعے کے اندر چلے گئے اور سیدھا آتش دان کے پاس رکے۔ خفیہ دروازہ تاحال کھلا تھا۔ انھوں نے فلیش لائٹس روشن کیں، اور سیڑھیاں اتر کر خفیہ کمرے میں آ گئے۔ فیونا نے کوٹ کی جیب سے شیشے صاف کرنے والا اسپرے نکال کر جبران کو تھمایا اور کہا۔ "تم یہ کھڑکی صاف کرو، پتا چلے یہ کیسی لگتی ہے، میں اور دانی جادوئی گولا ڈھونڈتے ہیں۔”

    "ٹھیک ہے۔” جبران نے اسپرے لیا اور صندوق پر چڑھ کر کھڑکی صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ فیونا اور دانیال جادوئی گولا ڈھونڈنے لگے۔ فیونا ایک طویل راہداری میں گئی اور وہاں بنے کمروں میں تلاشی کے بعد نکل کر بولی۔ "یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔”

    "مجھے مل گیا۔” اچانک دانیال چیخا۔ "میں نے اسے ڈھونڈ لیا۔”

    فیونا کو اگرچہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن دانیال کی پرمسرت چیخ ہی سمجھانے کے لیے کافی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ فیونا دوڑ کر اس کے پاس گئی اور اس کے ہاتھ سے وہ چیز لے لی۔ "تو یہ ہے جادوئی گولا۔ یہ تو میری سوچ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔” انھوں نے دیکھا کہ یہ ایک سنہری گیند تھی اور اس میں رکھنے کے لیے بارہ عدد سوراخ نما جگہیں بنی ہوئی تھیں، جن میں جادوئی ہیرے رکھے جانے تھے۔”

    جبران نے کہا جادوئی گولا تومل گیا اب ہمیں میز کے نیچے تختی دیکھنی ہے۔ فیونا آگے بڑھ کر میز کے نیچے جھانکنے لگی۔ "ہاں یہی میز ہے، اف مجھے تویقین نہیں آ رہا ہے کہ ہم نے یہ کیا دریافت کر لیا ہے۔ اسے پڑھنے کے لیے انکل اینگس کو ہی آنا پڑے گا۔ اس تختی کو اکھاڑنے کےلیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تختی چوبی میز ہی کا حصہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ سونے کی بنی ہے۔ ویسے میں اسے اکھاڑنا ہرگز پسند نہیں کروں گی، یہ لومنا جادوگر کے لیے ہے۔”

    فیونا نے مڑ کر جبران کی طرف دیکھا۔ وہ صندوق سے اتر گیا تھا۔ فیونا نے فلیش لائٹ کھڑکی کی طرف کر دی۔ "تم نے تو اسے چمکا دیا ہے۔” وہ مسکرا دی۔ یہ خوب صورت شیشہ تھا جس پر نقش و نگار بنے تھے۔ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا اور اس کی روشنی شیشے پر منعکس ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے دیوار پر مختلف رنگوں کی شکلیں نمودار ہو گئیں جو پہلے شیشے پر دھول جمنے کی وجہ سے نظر نہیں آتی تھیں۔

    فیونا کہنے لگی۔ "میرے خیال میں اس پر یہ تصویر بادشاہ کیگان کی ہے، میز پر جادوئی گولا رکھا ہے اور اس کے گرد بادشاہ کی بیوی بچے بیٹھے ہیں، ہیروں پر روشنی پڑ رہی ہے جس سے رنگین شعاعیں پھوٹ رہی ہیں اور یہ اس کے بچوں پر پڑ رہی ہیں۔” فیونا تصویر پر موجود تفصیلات باریک بینی سے بیان کرنے لگی۔ "اور یہ دیکھو ڈریگنز، یہ پتھروں سے نکل رہے ہیں، وہی ڈریگنز جو پتھروں پر تراشے گئے ہیں۔ بادشاہ نے ستاروں والا ہار پہنا ہوا ہے۔ ارے ہاں۔” اچانک فیونا بری طرح چونک اٹھی۔ "یہ ہار کہاں گیا؟ کیا تم میں سے کسی نے اسے دیکھا؟”

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر دیکھا۔ دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ جبران نے کہا "عین ممکن ہے اسے دوگان کے آدمیوں نے چرا لیا ہو۔” فیونا نے سر ہلا کر کیمرہ سیدھا کیا اور پھر روشنی کا ایک جھماکا ہوا۔ "میرے خیال میں یہ ایک اچھی تصویر ہوگی۔” فیونا نے تبصرہ کیا۔

    چند منٹ بعد تینوں قلعے کے دروازے سے باہر کھڑے تھے۔ "اُف، آج تو بہت دیر ہو گئی۔ چلو جلدی جلدی چلتے ہیں۔” جبران پریشان ہو کر بولا۔ جھیل کے دوسرے کنارے پہنچ کر انھوں نے پرانی جگہ پر کشتی باندھ دی۔ اس نے کہا "اندھیرا پھیلنے لگا ہے، اچھا خدا حافظ، کل ہفتہ ہے صبح کو تمھارے انکل کے گھر پر ملتے ہیں۔”

    جبران نے جادوئی گولا دانیال سے لے کر فیونا کے حوالے کر دیا۔ "فیونا، اس وقت تمھارا ہی گھر محفوظ جگہ ہے جہاں یہ ساری چیزیں چھپائی جا سکتی ہیں، کیوں کہ نہ تمھارے بھائی ہیں نہ بہنیں۔”

    فیونا نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو کر دوسرے راستے پر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔

    (جاری ہے….)

  • گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ تینوں حیرت سے یہ تفصیل سن رہے تھے۔ اینگس مزید بتانے لگے۔ "اس کی ساتویں بیوی امبر تھی، بیس برس کی، جب کہ شادی کے وقت رالفن اڑتیس کا ہو چکا تھا۔ وہ اسکیتھین نسل سے تھی اور ویسیگوتھز اور ونڈالز کے ساتھ جنگ کے دوران پکڑی گئی تھی۔ اس کی آٹھویں بیوی ایٹروسکن تھی۔”

    "انکل میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں سے تھی، ایٹروسکن شمالی اٹلی میں رہتے ہیں، میں نے ان کے متعلق اسکول میں پڑھا۔” فیونا نے جلدی سے اپنی معلومات سے کام لیا۔

    "بالکل درست، اس کا نام کارینا تھا، اس کی عمر بھی بیس سال ہی تھی، جب کہ بادشاہ کی عمر چالیس تھی۔ نویں بیوی سیلٹک تھی، اس کے بال آتشیں سرخ تھے، وہ بے حد خوب صورت تھی، اور وہ غالباً آئرلینڈ سے تھی۔ وہ رالفن سے بہت چھوٹی تھی، اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی جب کہ رالفن تیتالیس سال کا ہو چکا تھا۔”

    "عمر کا یہ فرق تو واقعی بہت زیادہ ہے۔” فیونا جلدی سے بول اٹھی۔

    "ہاں، لیکن اس زمانے میں ایسا ہونا کوئی خاص بات نہیں تھی۔ دسویں بیوی کا نام ٹائنا تھا، جس کا تعلق قبرص سے تھا۔ وہ اور بھی چھوٹی تھی، کیوں کہ اس کی عمر شادی کے وقت صرف سترہ برس تھی، اور رالفن چھیالیس کا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی گیارہویں بیوی آنات تھی، جو مصری تھی۔ کتاب میں لکھا ہے کہ آنات کو الیگزینڈریا میں رالفن شاہی خاندان سے بھگا کر لایا تھا۔ شروع میں اس واقعے سے ہر طرف ہنگامہ مچ گیا تھا لیکن پھر دونوں میں محبت ہو گئی اور انھوں نے شادی بھی کر لی۔ اس کی عمر بہ مشکل پندرہ سال تھی، جب کہ بادشاہ پچاس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہ آنات کے خاندان کے ساتھ مصالحت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ مصر کے ساتھ تجارت کرنے لگا۔ اس کی آخری بیوی چھوٹی سی ہیلینا اسپارٹا سے تھی، جسے اب تم یونان کے نام سے جانتے ہو۔ ہیلینا بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس کی عمر شادی کے وقت صرف دس سال تھی۔”

    "کیا…. صرف دس سال!” فیونا کی آنکھیں نکل آئیں۔ "یعنی مجھ سے بھی ایک سال چھوٹی۔”

    "دراصل ہیلینا نے اپنی پسند سے اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ وہ بادشاہ سے بے حد محبت کرتی تھی، ان کے دس بچے ہوئے۔”

    "دس بچے۔” فیونا اور جبران نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کھی کھی کرنے لگے۔ "اچھا سنو، شہنشاہ رالفن کے ڈیڑھ سو بچے جوانی ہی میں مر گئے تھے۔” اینگس نے کتاب کا صفحہ غور سے پڑھتے ہوئے کہا۔ "بلاشبہ یہ ایک بہت ہی شان دار خزانہ ہے جو تمھیں ملا ہے۔ یہ آج کے لیے تمھارا تاریخ کا سبق ہوا۔ اچھا، پھر ہوا یہ کہ جادوگر نے بادشاہ کو جادوئی گولا پیش کر دیا جس کے ساتھ ایک ہار بھی تھا۔ لومنا نے جب اس تحفے کی طاقتوں کی وضاحت کی تو بادشاہ نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کی بہت تعریف کی۔ لیکن یہ بات چھپی نہ رہ سکی، کیوں کہ گولا جس سنار نے تیار کیا تھا اس نے لوگوں سے یہ راز کہہ دیا۔

    رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس کے بارے میں مشہور ہو گیا۔ دور دراز سے لوگ حملہ آور ہو کر اس جادوئی گولے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شخص تو تقریباً کامیاب بھی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی جادوئی گولا اس کے ہاتھ نہ آ سکا، ہاں جادوگر لومنا اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ آور اسے بادشاہ سمجھا تھا۔ لومنا اس وقت میز کے سامنے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حملہ آور نے اس کے دل میں تلوار گھونپ دی۔ اس واقعے سے شہنشاہ رالفن نہایت رنجیدہ ہو گیا۔ اس نے اس میز کو قومی نشان کا اعزاز بخشا، اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اس میز پر نہیں بیٹھا۔”
    یکایک جبران اپنی جگہ سے اٹھا اور یوں بولنے لگا جیسے خواب میں بول رہا ہو۔ "کیا یہ وہی میز ہو سکتی ہے جو ہم نے کل قلعۂ آذر میں دیکھی تھی، ہو سکتا ہے اس پر خون کے دھبے اب بھی موجود ہوں؟”

    "عین ممکن ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ لومنا نے سونے کی ایک تختی پر اپنا نام کھدوا کر اس میز پر اندر کی جانب لگا دی تھی۔” اینگس پھر کتاب کے مندرجات سنانے لگا۔

    دانیال نے پوچھا "جادوگر کو کس نے قتل کیا؟”

    "بارتولف نامی ایک شیطان بادشاہ نے، جو زناد نامی سرزمین سے آیا تھا، وہ ایک بزدل بادشاہ تھا۔ اور وہ رالفن ہی کا بھائی تھا لیکن اس کی طرح بہادر نہیں تھا۔ بارتولف کی چار بیویاں تھیں، جن کے نام صورت، جدائل، شہرت اور مزدل تھے۔ یہ بیویاں وہ اپنے ساتھ ہیڈرومیٹم ہی سے لایا تھا، وہ فونیزی نژاد تھیں، یعنی آج کے لبنان کے علاقے میں واقع قدیم تہذیب سے، بدقسمتی سے بارتولف اپنی بیویوں کے حق میں بہت ہی برا ثابت ہوا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ان پر ظلم کرتا تھا۔ اس نے اپنے بھائی رالفن کو قتل کرنے کے لیے اپنے انتہائی ماہر قاتل بھیجے لیکن غلطی سے انھوں نے جادوگر لومنا کو قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد محافظوں نے قاتلوں کو پکڑا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ کافی عرصے بعد جب بادشاہ رالفن کا انتقال ہو گیا تو جادوئی گولا اور بارہ قیمتی ہیروں والا ہار نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بادشاہ کیگان پیدا ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پینتالیسویں نسل تک ان میں بیٹے ہی پیدا ہوتے رہے۔ وہ میز بھی ان کے پاس رہی۔ کوئی بھی لومنا کی اچھائی کو بھلانا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ بادشاہ کیگان اور اس کا قلعہ ہائی لینڈ کے قبائل اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ مالکولم کینمور سے کیسے اوجھل رہا؟ وہ لازمی طور پر اسکاٹ لینڈ بھیس بدل کر آتا ہوگا۔ اس نے یہاں کچھ وقت بھی گزارا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز شخص کے روپ ہی میں ٹھہرا ہوگا۔” اینگس کے ماتھے پر لکیریں ابھر آئیں۔

    "وہ لازماً عربی لباس میں آیا ہوگا ،اسی طرح اس کے خدمت گار اور محافظ بھی عربی وضع قطع میں رہے ہوں گے۔” جبران نے اپنا خیال پیش کیا۔

    (جاری ہے….)

  • چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اندر گھپ اندھیرا تھا، ماحول میں عجیب سی گھٹن تھی۔ انھیں اندر جاتے ہی سردی کا احساس ہوا۔ فیونا کی آواز آئی "اس دیوار کو دیکھو، اس میں کتنے بڑے بڑے پتھر لگائے گئے ہیں۔ ایک ایک پتھر ہاتھی جتنا ہے۔ پتا نہیں، وہ یہ کیسے اٹھا کر لائے ہوں گے۔”
    پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
    وہ دونوں مڑے۔ فیونا دیوار کو ہاتھوں سے چھو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ انھیں اندھیرے میں چیزیں نظر آنے لگیں۔ وہ ایک دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ دانیال بولا "یہ دیوار کائی زدہ ہے، اور وہ دیکھو، وہاں بھی دیوار پر گارگوئل کے بدنما سر لگے ہوئے ہیں۔ یہ تو رہنے کے لیے ایک خوف ناک جگہ ہے، یہاں تو دیواروں پر مکڑی کے جالوں اور چوہوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔”

    فیونا اپنے کپڑے سمیٹ کر بولی "مجھے مکڑی کے جالوں اور مکڑیوں سے سخت نفرت ہے۔”

    "اور مجھے چوہے ناپسند ہیں۔” جبران بولا "امید ہے کہ مجھے چوہے دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔”

    "لیکن یہاں بہت سارے چوہے ہیں۔” انھیں دانیال کی آواز ذرا فاصلے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، اور وہ دونوں تیزی سے مڑے، اور پھر ان کی آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی۔ اب ان کی آنکھیں بھی اندھیرے سے مانوس ہو گئی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑے ہال نما کمرے میں کھڑے تھے جس کی چھت بے حد اونچی تھی۔ وہ تینوں سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ عین اسی وقت ایک کونے میں لومڑ دکھائی دیا۔ فیونا کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر جبران کے پیچھے چھپ گئی۔

    "یہ کیا ہے؟ کیا یہ چوہا ہے؟” اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

    "اب ڈرو نہیں، وہ جا چکا ہے۔ بہرحال وہ چوہا نہیں لومڑ تھا لیکن حیرت ہے کی بات یہ ہے کہ وہ آیا کہاں سے تھا؟” جبران نے کونے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تینوں اسی طرف دیکھنے لگے اور پھر انھیں اچانک نیچے جاتی ہوئی سیڑھیاں نظر آ گئیں۔ "میرا خیال ہے اب ہمیں واپس گھر جانا چاہیے کیوں کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ نیچے جانا مناسب نہیں ہوگا، پتا نہیں یہاں کیا ہو!” جبران بولا، اس کے لہجے میں تشویش کی لہر تھی۔

    فیونا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "ہم واپس نہیں جائیں گے، تم ڈرو مت، یہ دیکھو دیوار پر مشعل موجود ہے۔”

    "کیا یہ اب بھی کام کرتی ہوگی؟” دانیال نے حیرت سے پوچھ لیا۔ جبران نے کہا "اس کا تو ابھی پتا چل جائے گا۔” اور آگے بڑھ کر مشعل کے دستے پر ہاتھ جمایا۔ "چچ…. لکڑی کے دستے پر کوئی سیاہ لیس دار مادہ لگا ہوا ہے، کیا تم میں سے کسی کے پاس ماچس ہے؟”وہ مڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا۔ فیونا نے برا سا منھ بنا کر کہا "ہمارے پاس ماچس کیوں ہونے لگی بھلا؟ تمھیں پتا ہے میری ممی سگریٹ نوشی نہیں کرتیں۔”

    "اوہ، معذرت خواہ ہوں۔” جبران نے جلدی سے کہا اور اپنی پینٹ کی جیب پر ہاتھ مار کر بولا "یہ رہی میرے پاس، صبح پاپا نے ایک کام کے لیے دی تھی اور واپس لینا بھول گئے تھے۔” وہ یہ کہ کر فیونا کے پاس آیا اور بولا "ذرا پکڑنا اسے۔”

    فیونا نے مشعل تھامی تو اس نے بھی چونک کر کہا "ارے یہ کیا لگا ہوا ہے اس پر؟” اس نے جلدی سے اسے سونگھا اور بولی "اس سے تو پگھلے ہوئے کولتار کی سی بو آ رہی ہے۔”

    "یہ غالباً پرانا مٹی کا تیل ہے۔” جبران نے کہا اور دیا سلائی جلا کر مشعل کے سرے کے پاس لے گیا۔ اگلے ہی لمحے مشعل نے آگ پکڑ لی اور ماحول ایک دم سے روشن ہو گیا۔ "مشعل پر جو کچھ بھی لگا ہوا ہے، بہرحال اب تک کام کر رہا ہے۔” دانیال نے فیونا سے مشعل لے کر کہا۔

    تینوں مشعل کی روشنی میں نیچے اترنے لگے۔ جب وہ ایک اور خالی کمرے میں پہنچے تو فیونا نے کہا "یہ تو بالکل ویسا ہی کمرہ ہے، بس یہاں دیوار میں ایک بڑا آتش دان ہے۔”

    جبران بولا "فیونا، یہ بڑا نہیں، بہت بڑا آتش دان ہے۔ یہ تو میرے بیڈ روم جتنا ہے۔ پتا نہیں اتنا بڑا آتش دان بنوانے کی کسی کو کیا ضرورت پیش آ گئی تھی!”

    فیونا دوڑ کر اس کے اندر چلی گئی اور چلا کر بولی "اندر آجاؤ، یہاں کوئی کالک نہیں ہے۔” اس کی آواز کی بازگشت وہاں دیر تک گونجتی رہی۔ وہ دونوں بھی اندر داخل ہوئے۔ آتش دان اندر سے ٹھنڈا تھا۔ فیونا نے دیوار کو ہاتھ لگایا، اور اچانک کہنے لگی۔ "کیا یہ بھی ان آتش دانوں میں سے ایک ہے جن کی دیواروں میں ایک خصوصی اینٹ لگی ہوتی ہے؟”

    "دانیال چونک اٹھا۔ "کیا تمھارا یہ مطلب ہے کہ وہ اینٹ دبانے سے دیوار میں کوئی خفیہ راستہ نکل آئے گا؟”

    دونوں حیرت سے فیونا کی طرف دیکھنے لگے اور اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ وہ ذرا آگے کی طرف جھک کر سرگوشی میں بولی۔ "جی ہاں۔”

    تینوں کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر دانیال بولا۔ "تو آؤ کوشش کرتے ہیں۔”

    تینوں مختلف سمتوں میں آتش دان کی دیواروں میں موجود ایک ایک اینٹ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ ذرا دیر بعد اچانک انھیں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے سامنے کی دیوار کی اینٹوں نے اپنی جگہ چھوڑی دی تھی، اور وہاں ایک تاریک گلی دکھانی دینے لگی۔ جبران نے کنارے پر جا کر اندھیرے میں جھانک کر دیکھا۔ "یہاں بھی ویسی ہی ٹھنڈ ہے، لگتا ہے آگے جا کر یہاں بھی سیڑھیاں نیچے کی طرف جا رہی ہیں۔”

    اس مرتبہ دانیال کو محسوس ہوا کہ انھیں اندر نہیں جانا چاہیے، اس لیے اس نے کہا۔ ” چلو واپس چلتے ہیں، یہ راستہ مجھے خوف ناک لگ رہا ہے۔” فیونا نے اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔ "پہاڑوں میں رہنے والے تو نڈر ہوتے ہیں، تم کیوں گھبرا رہے ہو!” جبران نے جب اسے ترجمہ کر کے فیونا کی بات سمجھائی تو اسے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے دل سے خوف کو نوچ کر پھینکنے کی کوشش کی۔ "ٹھیک ہے، میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا مسکرا دی۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا اور کہا آؤ۔

    وہ تاریک گلی میں داخل ہو کر سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ سیڑھیاں ایک کمرے میں جا کر ختم ہو گئیں جہاں لکڑی کی ایک میز کے گرد پرانے زمانے کی کرسیاں موجود تھیں۔ جبران نے کمرے سے سیڑھیوں کا سلسلہ مزید نیچے جاتے دیکھ کر حیرت سے کہا۔ "پتا نہیں یہ سیڑھیاں اور کہاں تک نیچے جا رہی ہیں، کیا نیچے کوئی قید خانہ ہے؟ اندر سے یہ قلعہ جتنا بڑا ہے، باہر سے اتنا بڑا نہیں دکھائی دیتا۔”

    فیونا نے کہا "دیواروں پر ان قدیم پردوں کو دیکھو، ان پر کتنی مہارت کے ساتھ رنگین تاروں سے تصاویر بنائی گئی ہیں۔ پردے اتنے پرانے ہیں کہ پھٹنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کسی زمانے میں یہ بے حد خوب صورت لگتے ہوں گے۔”

    "ارے یہاں تو رنگین شیشے والی کھڑکی بھی ہے۔” جبران بولا۔ فیونا پردوں سے نظریں ہٹا کر کھڑکی کو دیکھنے لگی۔ پتا نہیں اس کھڑکی میں کہاں بہت ہلکی سورج کی روشنی اندر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہر چیز پر صدیوں کی گرد جمی ہوئی تھی۔ اچانک دانیال چیخ کر بولا۔ "یہاں آؤ، دیکھو میں نے کیا چیز ڈھونڈ لی ہے۔” دونوں اس کی طرف گئے تو انھوں نے بھی دیوار کے پاس پڑے صندوق کو دیکھ لیا۔ دانیال اسے کھولنے کے لیے اس کا ہینڈل ڈھونڈتے ہوئے بولا۔ "یہ یقیناً یہاں صدیوں سے پڑا رہا ہے۔”

    "یہ ایک ہزار سال سے بھی قدیم لگ رہا ہے۔” فیونا نے اپنا خیال پیش کیا۔ دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ صندوق پر مکڑی کے جالوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ جبران نے جلدی جلدی جالے صاف کیے۔ دانیال نے کہا "چلو اسے کھولتے ہیں۔”

    "نہیں۔” فیونا چلائی۔ "کیا پتا اس میں کوئی بھوت ہویا پھر خون چوسنے والے ہزاروں بھنورے۔”

    جبران نے مسخرے پن سے کہا "ووووو …. لو ہم ڈر گئے… بس!” فیونا اور دانیال اس کے انداز پر بے اختیار ہنس پڑے۔ دانیال نے ہرن کے سینگ والے ہینڈل کو کھینچ کر صندوق کا ڈھکن کھول دیا۔ اندر بھی دھول بھری تھی۔ دانیال کی نظر ایک چاقو پر پڑی، جس کے دستے پر نقش و نگار کندہ تھے۔ "یہ دیکھو، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہ بے حد قدیم چاقو ہے۔” وہ پرجوش انداز میں بولا۔ جبران بھی دل چسپی سے چاقو کو قریب سے دیکھنے لگا جب کہ فیونا کی نظریں کسی اور چیز پر ٹکی ہوئی تھیں۔ صندوق کے کونے میں ایک قدیم کتاب پڑی ہوئی تھی۔

    (جاری ہے…..)

  • چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا گھر پہنچ کر جبران اور دانیال کا انتظار کر نے لگی۔ اسے کھڑکی میں بیٹھے انتظار کرتے ہوئے پانچ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اس نے دونوں کو سامنے گلی میں آتے دیکھا۔ دونوں اس کے گھر کے دروازے کے سامنے پھولوں والے راستے پر رک گئے۔ فیونا تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آئی اور دونوں کو مسرت بھری نظروں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ "آؤ، اندر آؤ… ممی ابھی آتی ہوں گی، وہ آپ دونوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر رہی ہیں۔”

    "فیونا، تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی، صبح سے اتنی بارش ہو رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہ شاید آج ملاقات نہیں ہو سکے گی، لیکن اچھا ہوا بارش رک گئی۔” جبران نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد اونی کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے کہا۔

    "مجھے بھی تم دونوں سے مل کر خوشی ہوئی ہے، دراصل یہ اتنا چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں اتنے کم لوگ ہیں کہ میرا کوئی خاص دوست ہی نہیں بن سکا ہے ابھی تک۔” فیونا نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔ شیشے کے پار ان کے باغیچے میں کھلے پھول لہراتے نظر آنے لگے۔

    پہلی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دوسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    "تو ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔” جبران نے فوراً دوستی کی پیش کش کر دی۔” آن لائن دوست تو ہم پہلے ہی سے ہیں۔”

    فیونا نے مسکراکر کہا ” ہاں، میں تمھارے ساتھ دوستی کر سکتی ہوں، تم ایک اچھے لڑکے ہو۔”

    "شکریہ!” جبران شرما گیا، پھر سنبھل کر بولا "یہ میرا کزن ہے دانیال۔ بدقسمتی سے اسے انگریزی نہیں آتی لیکن میں آپ دونوں کے درمیان ترجمان بن سکتا ہوں۔”

    "ٹھیک ہے۔” فیونا نے سر ہلایا۔ "میں اپنے نئے دوست سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسے اسکاٹ لینڈ آ کر کیسا لگا؟”

    جبران نے فیونا کا سوال اردو میں دانیال کو سنایا تو اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا "مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کے سرخ اینٹوں والے تقریباً ایک جیسے گھر، صاف ستھری گلیاں، اور ٹھنڈا موسم، سب بہت اچھا لگا۔”

    جبران نے اسے انگریزی میں منتقل کیا تو فیونا ایک دم سے بولی "ابھی تو تم نے یہاں کا دریا اور جھیلیں نہیں دیکھیں، وہ دیکھو گے تو اور اچھا لگے گا۔”

    "میں ضرور دیکھنا چاہوں گا۔ ” دانیال مسکرا دیا۔ اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور فیونا کی ممی ہاتھوں میں تھیلیاں پکڑے دروازے کے سامنے سے گزریں۔ وہ ذرا ٹھہریں اور بولیں "میں ابھی آئی۔” انھوں نے کھانے کا سامان باورچی خانے میں رکھا اور ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ "خوش آمدید بچّو، کیسے ہیں آپ دونوں؟”

    "جی، ہم ٹھیک ہیں، شکریہ، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔” جبران نے جواب دیا۔ مائری کی آنکھوں میں ایک دم سے چمک آ گئی۔ ” لگتا ہے آپ کی ماں آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔”

    "نہ صرف ماں بلکہ پاپا بھی۔” جبران نے جلدی سے کہا "وہ دونوں مجھے ڈھیر سارا وقت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں میری مدد کرتے ہیں۔”

    "اچھا تم لوگ باتیں کرو، میں کچھ اسنیکس لاتی ہوں۔” یہ کہہ کر فیونا کی ممی اٹھ کر چلی گئیں اور تھوڑی دیر بعد جب وہ ایک بھرا ٹرے لے کر دوبارہ آئیں تو انھوں نے جبران سے پوچھا "آپ کے پاپا کہاں کام کرتے ہیں؟”

    جبران نے ٹرے سے اسنیکس اٹھاتے ہوئے کہا "وہ الباکاٹے فرم میں جنرل منیجر ہیں۔” فیونا کی ممی یہ سن کر چونک اٹھیں۔”کیا آپ بلال احمد کے بیٹے ہیں؟”

    "جی جی۔” اس بار حیران ہونے کی باری جبران کی تھی، فیونا کو بھی خوش گوار حیرت نے آ لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کی ممی جبران کے والد کو پہلے سے جانتی ہیں اور اسے پتا ہی نہیں ہے۔ جبران نے پوچھا "کیا آپ انھیں جانتی ہیں؟”

    مائری مسکرا دیں "ہاں، کیوں کہ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ یہاں کے دریا اور جھیلوں میں بڑے شوق سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔”

    "ممی، یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے، پھر تو آپ اپنے آفس کے ساتھی کو فون کر کے کہیں کہ جبران اور دانیال یہاں ہیں، کیوں کہ ہم دیر تک گھومیں پھریں گے۔” فیونا نے چہک کر کہا۔

    مائری نے مسکرا کر سر ہلایا اور اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی تینوں اسنیکس کھاتے ہوئے گپ شپ کرنے لگے۔ اچانک فیونا بولی "تمھارے پاپا مچھلی کا شکار کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس چھوٹی کشتی بھی ہوگی۔”

    "ہاں، ہے تو؟”جبران کے چہرے پر سوالیہ تاثر ابھرا۔

    "ہم اس کشتی کو لے کر قلعۂ آذر پر چلے جاتے ہیں، بڑا مزا آئے گا۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ قلعہ آذر ایک تاریخی مقام ہے، دانیال کو یہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے، اس کی زندگی کا یادگار تجربہ ہوگا۔ ” فیونا روانی اور جوش سے بولتی رہی، جب کہ جبران اس کے چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ "کیا تم کبھی وہاں گئی ہو فیونا؟” جبران نے پوچھ لیا۔

    "نہیں۔” فیونا جلدی سے بولی۔ "میری ممی کہتی ہے کہ ہمارے آبا و اجداد وہاں رہتے تھے۔”

    جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا "میں نے قلعۂ آذر کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ اس قلعے میں کبھی مک ایلسٹر خاندان بھی رہا ہے۔” فیونا جلدی سے بولی "مک ایلسٹر نہیں، بلکہ میری ممی کی طرف کے آبا و اجداد میں سے کوئی وہاں رہتا تھا، یعنی فرگوسن خاندان سے۔”

    اس موقع پر دانیال، جو پہاڑی علاقے میں رہائش کے باعث بادلوں کے تیور دور سے پہچان لیتا تھا، مداخلت کر کے بولا "بھئی اگر تم لوگوں کو کہیں جانا ہے تو فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر مت لگائیں، کیوں کہ آسمان مکمل طور پر صاف نہیں ہے، اور مجھے خدشہ ہے کہ بارش ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔”

    جبران نے ترجمانی کی تو فیونا نے کہا ٹھیک ہے، چلتے ہیں، میں ممی کے لیے وہاں سے پھول بھی توڑ کر لے آؤں گی۔”

    وہ تینوں صدیوں پرانے قلعے کی سیر کرنا چاہتے تھے، اور تینوں میں ایک بات مشترک تھی، یہ کہ انھیں نئی نئی جگہوں کی تلاش اور مہم جوئی میں بہت دل چسپی تھی، فرق یہ تھا کہ دانیال کو اپنا یہ شوق آس پاس کے پہاڑوں میں گھوم پھر کر پورا کرنا پڑتا تھا۔ جبران نے جب فیونا سے پوچھا کہ کیا تم اپنی ممی سے پوچھو گی؟ تو اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکان ابھری، اس نے کہا "ممی نے مجھے وہاں جانے سے منع کر رکھا ہے۔”

    وہ تینوں گھر سے نکلے اور جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ تینوں صنوبر اور شیشم کے جھنڈ میں راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے؛ جبران دانیال کو بتانے لگا کہ اسکاٹ لینڈ میں جھیل کو لوچ کہتے ہیں۔ درختوں اور رنگ رنگ کے پھولوں کے درمیان جھیل کا پانی نظر آرہا تھا، اور یہ منظر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہو۔ بہار کا موسم عروج پر تھا۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ رک گئے۔ کنارے پر فاصلے فاصلے سے چھوٹی کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ جھیل میں کوئی کشتی اس وقت کھیتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی، جبران ایک کشتی کے پاس کھڑا ہو گیا تو فیونا بولی۔ "تو یہ ہے تمھارے پاپا کی کشتی!”

    اس نے جھیل کے پانی پر نظر دوڑائی اور پھر تشویش بھرے لہجے میں بولی "پانی میں لہریں اٹھ رہی ہیں، ہم محفوظ تو ہوں گے نا؟”

    "ارے گھبراؤ نہیں۔” جبران بولا "میرے پاپا نے مجھے کشتی کھینا سکھایا ہے، اور قلعہ آذر ویسے بھی زیادہ دوری پر نہیں ہے۔ مسٹر لیمنٹ نے پاپا سے گفتگو کے دوران ذکر کیا تھا کہ قلعے کے پاس جزیرے پر ہزاروں تیتر ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم بھی چند تیتر پکڑ سکیں، پھر تو ڈنر میں مزا آ جائے گا۔”

    یہ کہہ کر وہ کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لیے۔ فیونا اور دانیال بھی دوسرے سرے پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے ایک ایک چپو سنبھال لیا اور پھر کشتی آہستہ آہستہ جھیل کے اتھلے پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ فیونا پہلی مرتبہ کشتی میں سفر کر رہی تھی، وہ پانی میں دیکھ کر بولی "یہ تو تقریباً کالا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ لوچ نِس سے بھی زیادہ گہری جھیل ہے۔”

    ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کے لمبے بالوں کو اڑا کر اس کی آنکھوں پر دے مارا۔ وہ ایک ہاتھ سے بال ہٹا کر بولی "دیکھو جبران، پانی میں کتنا اچھال آنے لگا ہے، میں نے سنا ہے کہ لوچ نِس کی طرح اس جھیل ڈون میں بھی عفریت ہے۔” اگرچہ یہ اس کا اپنا منصوبہ تھا کہ قلعۂ آذر کی سیر کی جائے لیکن اب وہ جھیل میں سفر کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔ "بے وقوفی کی باتیں مت کرو فیونا۔” جبران بولا۔ "بس اب ہم پہنچنے ہی والے ہیں، عفریت جیسی کوئی چیز نہیں، اگر تمھیں پھر بھی ڈر لگ رہا ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لو۔ اب تم گیارہ سال کی ہو گئی ہو لہٰذا تمھیں تصوراتی عفریتوں اور لہروں والے پانی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔”

    "میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا جلدی سے بولی "اگرچہ مجھے عفریتوں پر کوئی یقین نہیں ہے لیکن لہروں والے پانی سے میرا بدن کانپنے لگتا ہے، اور مجھے ایسا بالکل پسند نہیں لیکن کیا کروں؟

    اسی لمحے اس کی نگاہیں قلعۂ آذر پر جم گئیں۔ ماحول میں پراسرار خاموشی پھیلی ہوئی تھی، صرف چپوؤں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔

    جاری ہے…….

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ دونوں ایک پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے پہاڑی بکرے کو بے تحاشا دوڑا رہے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ بکرا تنگ آ کر پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر زقند بھرتا، ذرا دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں نے پتھر اٹھا کر اس کے پیچھے پھینکے اور ہنستے ہوئے، پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔

    ان میں سے ایک نے پھولی سانسوں کے درمیان دوسرے سے پوچھا "جبران! اسے بوجھو، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے ….. بتاؤ، کیا ہے؟”

    جبران جھٹ سے بولا "شروع ہو گئی تمھاری پہیلیاں، لیکن یہ تو بہت آسان ہے، میں بتاتا ہوں ایرو پلین۔”

    پہلا لڑکا ہنس کر بولا "بے وقوف، ہوائی جہاز بھاگتا نہیں اڑتا ہے۔”

    "تو پھر…..” جبران نے چٹان پر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھک کر کنپٹی سہلائی اور دوسری کوشش کی "پہاڑی بکرا”۔

    "دھت تیرے کی” لڑکے نے قہقہ لگایا۔

    "تو پھر تم ہی بتا دو۔” جبران نے جھنجھلا کر کہا۔

    "وقت” اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ سن کر جبران اچانک اچھل کر چٹان سے کود پڑا اور بولا "ارے، میں تو بھول گیا تھا، مما نے جلدی آنے کو کہا تھا، چلو دیر ہو گئی ہے۔”

    جبران گول گول پتھروں پر چھلانگیں مارتا گھر کی جانب دوڑا، دوسرا لڑکا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ کی دوسری طرف ایک چھوٹے مگر سلیقے سے بنے نہایت خوب صورت گھر کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر جبران رک گیا۔ صحن میں ایک پُروقار خاتون تار پر سے سوکھے کپڑے اتار رہی تھیں، چہرے مہرے سے وہ چالیس سال کی لگ رہی تھیں، اور اس نے اس پہاڑی گاؤں کی روایت کے برعکس سادہ لیکن جاذب نظر شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں غیر ملکی چپل تھی، یہ بات نہیں تھی کہ انھیں اپنی روایات پسند نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک طویل عرصہ اسکاٹ لینڈ میں گزارنے کے باعث اپنے خوب صورت ترین شہر اور پُر فضا مقام گلگت کی ثقافت سے دور ہو گئی تھیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت اب بھی ان کے دل میں زندہ تھی، وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ یہاں کا روایتی لباس اب ان سے پہنا نہیں جاتا تھا۔ وہ ہلکا پھلکا لباس پہننے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کا نام شاہانہ تھا۔

    شاہانہ نے مڑ کر اپنے بیٹے جبران کی طرف دیکھا اور کلائی میں بندھی سنہری گھڑی پر نظر ڈالی، پھر تیز آواز میں بولیں۔ ” جبران ، تم دس منٹ لیٹ ہو۔”

    "سوری ممی، قصور اس پہاڑی بکرے کا ہے۔” جبران کوئی بات بنا رہا تھا کہ منھ سے بکرے کا ذکر نکل گیا۔

    "پہاڑی بکرا…. تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟” ممی نے اسے گھور کر دیکھا۔

    "وہ ممی، دراصل ہم پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔” جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ اسے پتا تھا کہ اب ممی غصہ ہوں گی، اور اسے ایک عدد لیکچر سننے کو ملے گا ، لیکن خلاف توقع انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”بے وقوفی والی باتیں مت کرو، کمرے میں جاؤ اور اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    "ٹھیک ہے ممی۔” جبران نے کہا اور پیچھے مڑ کر دوسرے لڑکے سے پوچھا "کیا تم تیاری کر چکے ہو؟”

    ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ خاتون نے اسے مخاطب کیا "دانیال بیٹا، تم بھی جاؤ، امی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی، کل صبح ہماری فلائٹ ہے، اپنی ساری چیزیں سمیٹنے میں امی کی مدد کرو۔”

    "جی آنٹی۔” دوسرے لڑکے دانیال نے سَر ہلایا اور جبران کے کندھے کو ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے نکل گیا۔

    اگلی صبح اسکاٹ لینڈ کے لیے ان کی فلائٹ تھی۔ جبران کے والد بلال احمد بیس سال سے اسکاٹ لینڈ میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ شاہانہ کی پیدائش اسکاٹ لینڈ ہی میں گلگت کے ایک خاندان میں ہوئی تھی، لیکن ان کے والدین نے انھیں بچپن میں گلگت بھجوا دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس اسکاٹ لینڈ گئیں، اور پھر تیس سال کی عمر میں ان کی شادی بلال احمد سے ہوئی۔ شاہانہ ایک عرصے بعد گلگت آئی تھیں، اور جبران نے پہلی مرتبہ آبائی گاؤں دیکھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ واپس جانے کو ابھی اس کا جی نہیں کر رہا تھا لیکن وہ اپنے کزن دانیال کو اسکاٹ لینڈ دکھانے کے لیے بے چین تھا۔ دانیال اس کے چچا کا بیٹا تھا اور گیارہ سال کا تھا، یعنی اس سے ایک سال بڑا۔ دونوں ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے تھے۔ یہ جبران ہی کی ضد تھی جو اس کے والد نے دانیال کے لیے بڑی مشکلوں سے وزٹ ویزا بھجوایا۔

    صبح نو بجے انھوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے رشتے داروں اور سرزمین پاک کو الوداع کہا، اور جزیروں کی سرزمین کی طرف محو پرواز ہو گئے۔ دانیال نے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز میں قدم رکھا تھا، اس لیے وہ با ت بات پر حیران ہو رہا تھا اور جبران اسے ہر چیز کی تفصیل پُر جوش انداز میں بتاتا جا رہا تھا۔

    دونوں دوران پرواز کبھی باتوں میں مگن ہوتے، کبھی کچھ کھاتے، کبھی سوتے ، یہاں تک کہ جہاز گلاسگو کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ تیرہ چودہ گھنٹوں کے طویل فضائی سفر نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر جبران کے والد بلال احمد ان کے منتظر تھے۔ جبران انھیں دیکھ کر دوڑا اور ان سے لپٹ گیا۔ "پپا، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”

    "مجھے بھی تم لوگ بہت یاد آ رہے تھے۔” انھوں نے جبران کو پیا ر کیا۔

    "پپا، یہ دانیال ہے، پتا ہے دانی اب میرا بیسٹ فرینڈ بن چکا ہے۔” جبران نے اپنے نئے دوست کا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ بلال احمد مسکرائے اور دانیال کو بھی گلے لگا لیا۔ "کیسے ہو بیٹا، ہوائی جہاز کا سفر کیسا لگا؟”

    "بہت زبردست، بہت مزا آیا۔” دانیال نے فوراً جواب دیا۔

    وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس آ گئے، تو کار سے پانچ سالہ عرفان اور دو سالہ سوسن بھی نکل کر ممی اور بھائی جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر جبران کی ممی نے سوسن کو گود میں بٹھا لیا اور ایک بازو عرفان کے گرد حمائل کر کے ان سے باتیں کرنے لگیں۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنے پاپا کے پاس ہی اسکاٹ لینڈ میں چھوڑا تھا۔

    گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر… دانیال اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے پہلی نظر میں یہ شہر پسند آ گیا تھا اور اس لیے وہ بہت خوش تھا۔

    گلاسگو کے مضافات می بلال احمد نے ایک چھوٹا سا لیکن خوب صورت گھر خریدا تھا، جس کے سامنے ایک پیارا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے سامنے انھوں نے گاڑی روک دی اور اعلان کیا۔ "یہ ہے ہمارا چھوٹا سا پیارا گھر۔”

    جبران تیزی سے دروازہ کھول کر اترا، اور باغیچے کے درمیان بنے تنگ راستے میں دوڑا، جس کے اختتام پر گھر کا دروازہ تھا۔ دورازہ بند تھا، وہ مڑا اور بولا "پپا پلیز، چابی مجھے دیں۔”

    بلال احمد ڈگی سے سوٹ کیس نکال رہے تھے، ذرا ٹھہر کر انھوں نے چابی نکالی اور جبران کی طرف اچھال دی۔ جبران نے چابی کیچ کر لی اور دروازہ کھول دیا۔پھر مڑ کر دیکھا اور بولا۔ "دانی، بھاگ کر آؤ، میں تمھیں اپنا گھر دکھاتا ہوں۔”

    دانیال بھی اس کی طرف دوڑا۔ گھر کو اندر سے اتنی نفاست سے سجایا گیا تھا کہ دانیال حیران رہ گیا۔ جبران نے ذرا دیر میں سارا گھر اسے دکھا دیا، وہ بے حد متاثر ہوا، پھر وہ ایک کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال احمد شاہانہ سے گاؤں کے حالات پوچھنے لگے، اور دونوں دوست اپنی گپ شپ میں محو ہو گئے۔ رات کا کھانا انھوں نے مل کر کھایا، اور پھر کچھ دیر بعد وہ سونے کے لیے چلے گئے۔

    اگلی صبح ناشتے کے بعد جبران کے پاپا تو آفس چلے گئے، جب کہ جبران، دانیال کو لے کر چھت پر آ گیا۔

    "جبران، کیا تمھارا یہاں کوئی دوست نہیں ہے؟” دانیال نے پوچھا۔ جبران نے جواب میں کہا "یہاں محلے میں تو کوئی خاص نہیں البتہ اسکول میں ڈینئل میرا بہت اچھا دوست ہے، ایک آن لائن فرینڈ بھی ہے۔ فیونا…. تمھاری ہی ہم عمر ہے، یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے گیل ٹے کے نام سے، وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔”

    دانیال نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا، اس لیے اسے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا، اس لیے اس نے پوچھا "یہ آن لائن فرینڈ سے کیا مطلب ہے؟”

    جبران کو پہلے تو اس کی بے خبری پر حیرت ہوئی لیکن پھر اس نے تفصیل سے بتا دیا کہ وہ کس طرح اس کی دوست بنی۔ "تو تم آج تک فیونا سے نہیں ملے ہو؟” دانیال نے حیران ہو کر کہا۔

    "نہیں۔” جبران بولا۔ "لیکن چلو، ابھی اس سے رابطہ کرتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ میں جیسے ہی واپس آؤں اسے ضرور بتاؤں۔”

    جبران اسے لے کر اپنے کمرے میں آیا، اور کمپیوٹر آن کر کے فیونا کو انباکس میسج کر دیا،کچھ ہی دیر میں فیونا کا جواب آ گیا، اس نے جبران کو اسکاٹ لینڈ واپس آنے پر خوش آمدید کہا تھا، اور پھر پاکستان اور گلگت کے سفر سے متعلق تفصیلات پوچھنے لگی۔ جبران نے اسے دانیال سے متعلق بھی بتا دیا۔ فیونا یہ جان کر خوش ہوئی اور کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چیٹنگ کرے، لیکن جبران نے بتایا کہ دانی کو انگریزی نہیں آتی۔ فیونا کو مایوسی ہوئی، لیکن پھر اس نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ جبران نے کہا اگر ممی پاپا نے اجازت دی تو وہ ضرور دانی کو لے کر آ جائے گا۔

    دوپہر کو کھانے کی میز پر جبران نے ممی سے فیونا کا ذکر کر دیا، اور جانے کی اجازت مانگی۔ چوں کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے انھوں نے اجازت دے دی۔ شام کو پپا نے بھی بہ آسانی اجازت دے دی اور دونوں نے اگلے دن صبح ہی گیل ٹے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

    صبح سویرے دونوں بس میں بیٹھ کر دس منٹ میں گیل ٹے پہنچ گئے۔ فیونا کا گھر ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ تھوڑی ہی دیر میں درست پتے پر پہنچ گئے۔ ایک بہت ہی پیاری لڑکی …. فیونا کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ دراصل ان ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان کے سامنے رک گئی۔ خوش آمدید کہ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔

    جاری ہے…..

  • باغ میں‌ تتلی

    باغ میں‌ تتلی

    نہال خوش تھا۔ بہار آئی ہوئی تھی۔ باغیچے میں پھول ہی پھول کِھلے تھے۔

    اُسے رات جلدی سونے کی عادت تھی کیوں کہ اس سے نیند برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اِدھر کھانا کھاتا اور اُدھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونا شروع ہوجاتیں۔ پاپا بڑی مشکل سے اسے تھوڑی سی واک کراتے اور پھر وہ دوڑ کر بستر پر گر جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح سویرے ابھی ممی پاپا اور گڑیا سو رہے ہوتے اور نہال جاگ جاتا۔ پھر وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر پھرتا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگ جاتا یا پھر باہر اپنے گھر کے باغیچے میں نکل جاتا۔

    اُس دن جب وہ سویرے سویرے باغیچے میں گیا تو بہت حیران ہوا۔ پودوں پر بہار ایسی اُتری تھی کہ پھول ہی پھول کِھل گئے تھے۔ باغیچے میں ہلکی سی سفید دھند پھیلی تھی۔ اُفق پر سورج نے ابھی سَر نہیں اٹھایا تھا۔ فضا بے حد خوش گوار تھی اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ اسے بڑا مزا آیا۔ رنگ برنگے پھول دیکھ کر وہ خوش ہوا اور دوڑ کر ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگا۔ سارا باغیچہ خوش بو سے مہکا ہوا تھا۔ وہ گہری سانسیں لے کر خوش بو اپنے پھیپھڑوں میں اُتارنے لگا۔

    اسے یاد آیا کہ انگلش بُک کے ایک سبق میں پارک، بہار اور پھولوں کا ذکر اس نے پڑھا تھا۔ اس نے پودوں، درختوں اور پھولوں پر نگاہ دوڑائی تو اسے یہ منظر بالکل اُسی تصویر جیسا لگا جو کتاب میں شامل تھی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی شوق سے ڈرائنگ کرتا تھا۔

    کیاری سے گزرتے گزرتے وہ سفید اور ملائم پتیوں والے پھولوں کے پاس رک گیا۔ یہ چنبیلی تھی۔ اس نے زور سے سانس کھینچی۔ یہ خوش بو اسے بہت پسند تھی۔ یکایک وہ چونکا۔

    ارے تتلی… نارنجی، سیاہ اور سفید رنگ کے پروں والی تتلی چنبیلی سے اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

    ”ارے رُکو کہاں جارہی ہو۔“ نہال بولا اور سبز گیلی گھاس پر تتلی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ ٹھنڈی گھاس اس کے تلوؤں پر گدگدی کرتی تھی۔ تتلی تھی کہ پھولوں پر سے ہوا کی طرح سرسراتی اڑتی جارہی تھی۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ نہال اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔ تتلی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ اس نے نہال کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیا۔ آخر کار وہ بے حال ہوکر رُک گیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    رنگین پروں والی بڑی تتلی بھی قریبی گلاب پر بیٹھ گئی اور نہال کو دیکھنے لگی۔ ”ٹھیک ہے‘ میں اب تمھیں نہیں پکڑوں گا۔“ نہال نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

    ”تم بھی اب مت اُڑنا۔ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کتنے پیارے، رنگین پر ہیں تمھارے۔ یہ پیلا رنگ کتنا پیارا ہے۔“ نہال نے سَر آگے کر کے اُسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ”میرے قریب مت آؤ۔“ تتلی نے اچانک اسے ٹوکا اور وہ یہ باریک آواز سن کر اچھل پڑا۔
    ”ارے تم بول سکتی ہو۔“ نہال حیران ہوا۔

    ”ہاں‘ لیکن مجھے تم پر غصہ آرہا ہے‘ تم اچھے نہیں ہو۔“ تتلی پیاری سی باریک آواز میں بولی۔

    نہال نے کہا‘ تتلی کو بھی غصّہ آتا ہے۔ تتلی تو اتنی نازک ہوتی ہے۔ غصّہ کیسے سہتی ہے؟

    تتلی بولی کہ اس کے پَروں کا رنگ پیلا نہیں نارنجی ہے۔ اچھے بچّے تتلی کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اور وہ تتلی کے نارنجی پروں کو پیلا بھی نہیں کہتے۔

    ”اچھا میں سوری کرتا ہوں بس۔“ نہال نے جلدی سے غلطی مان لی۔

    تتلی خوش ہوئی اور بولی۔ ”میرا نام مونارک ہے۔ تمھارا نام مجھے معلوم ہے۔ پاپا نے تمھارا نام نہال رکھا تھا۔“

    ”تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا؟“ نہال مزید حیران ہوا۔

    ”بس ہوگیا معلوم، یہ تمھیں نہیں بتا سکتی۔“ مونارک اِترا کر بولی۔

    ”میں نے تمھیں پہلے یہاں نہیں دیکھا۔“ نہال کہنے لگا۔ ”تم کتنی بڑی ہو، تتلی تو چھوٹی ہوتی ہے۔“

    وہ بتانے لگی کہ مونارک بڑی تتلی ہوتی ہے اور یہاں بس کبھی کبھی آجاتی ہے، وہ بھی سویرے سویرے، اور پھر چلی جاتی ہے۔

    ”تو کیا تم ابھی چلی جاؤ گی۔“ نہال اُداس ہوگیا۔

    ”ہاں۔“ مونارک نے اپنے سَر پر موجود دو انٹینا لہرا کر کہا۔ ”میں جتنی خوب صورت ہوں، اُتنی زہریلی بھی ہوں۔ مجھے کوئی جانور پکڑ کر کھاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پتا ہے میں آج بہت اداس ہوں۔“

    ”ارے تمھیں کیا ہوا، تم کیوں اداس ہو؟“ نہال نے پریشان ہوکر پوچھا۔

    ”میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ تم زہریلی ہو، ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔“ مونارک بولی۔

    نہال نے یہ سن کر جلدی سے کہا کہ آج سے میں تمھارا دوست ہوں، ہم دونوں کھیلیں گے اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ٹھیک ہے اب۔ لیکن تتلی نے اسے بتایا کہ اسے ابھی ضرور جانا ہے۔ وہ ہر سال ہزاروں میل کا سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ آج جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی تو اس کو ایک تتلی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئے تھے۔ سبھی مونارکوں کے ماں باپ اسی طرح مرتے ہیں۔ اسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مونارک رونے لگی۔ ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ نہال بھی اُداس ہوا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    مونارک کہنے لگی۔ ”نہال‘ میرے دوست، تم کتنے اچھے ہو۔ تم میرے لیے دکھی ہوگئے ہو۔“

    ”ہاں‘ میں تمھیں کبھی بھی زہریلی نہیں کہوں گا، پکّا وعدہ۔“ نہال نے کہا۔

    مونارک اپنی چھے ٹانگوں میں سے دو چھوٹی ٹانگوں سے اپنا پیٹ کھجانے لگی۔

    نہال کو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔ اور پھر کہا۔ ”مونارک‘ تم نے سچ مچ اپنے ممی پاپا کو نہیں دیکھا۔“

    ”ہاں۔“ اس نے اداسی سے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا۔ ”مونارک اپنے ماں باپ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ انڈوں سے مونارک کے نکلنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

    نہال نے بوجھل دل سے کہا۔ ”اچھی تتلی، اب تو میں تمھارا دوست ہوں۔ اب تم مت روؤ۔“

    ”ٹھیک ہے میرے دوست۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا۔“ تتلی بولی اور اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی۔ وہ اُڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ”مجھے بہت دور، دوسرے ملک جانا ہے۔ اب تمھارے ممی پاپا بھی جاگنے والے ہیں۔ وہ تمھیں تلاش کرنے ادھر آئیں گے۔“

    نہال نے پوچھا کہ کیا وہ پھر آئے گی اس باغیچے میں۔ تتلی نے کہا کہ تتلیاں بس ایک بار سفر کرتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔ پھر شاید اس کے بچّے یہاں چکر لگائیں۔

    نہال پریشان ہوگیا۔ ”تو کیا تم اپنے ننھے بچّوں کے ساتھ نہیں ہوگی‘ وہ اکیلے ہوں گے؟“

    ”ہاں۔“ وہ بولی۔ ”مونارک کے بچے یتیم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ گھبراتے نہیں ہیں۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے رنگین پَروں سے دنیا کو خوب صورت بناتے ہیں۔“ یہ کہہ کر مونارک اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔