Tag: رفیع اللہ میاں
-
ایک سو تیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
یکایک اس کے کان کھڑے ہو گئے، شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ اس نے باڑ سے ادھر ادھر جونی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تب وہ تیزی سے مڑا اور مجسمے کے سامنے موجود کنوئیں کے اوپر رکھے ٹوٹے تختوں پر بغیر دیکھے پاؤں رکھ دیے۔ اگلے لمحے اس کے منھ سے ایک خوف زدہ چیخ نکلی اور اس نے خود کو ایک اندھے کنوئیں میں گرتے پایا۔ کنوئیں کی پتھریلی دیواروں سے اس کے کندھے چھل گئے اور سر زخمی ہوا۔ آخر کار ایک زبردست دھپ کے ساتھ وہ ایک سرنگ کی تہہ میں گر پڑا اور پھر اسے کوئی ہوش نہ رہا۔
جونی چونک اٹھا۔ جیک رو رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا: ’’کیگان کو دیکھو، کتنا خوش نظر آ رہا ہے اور ملکہ تو ہمیشہ کی طرح بے حد خوب صورت ہے۔‘‘
-
ایک سو ستائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
ڈریٹن مرکزی دروازے میں داخل ہو کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ جادوگر پہلان ابھی اچانک نمودار ہوگا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں، اور وہ چیزیں زیادہ واضح دیکھنے لگا۔ تب اس نے ایک ہول ناک منظر دیکھا۔ ہال کی دیواریں اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہوئیں ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں۔ وہ بے اختیار چلایا: ’’یہ کیا ہو رہا ہے!‘‘
اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس کے پیر فرش کے ساتھ جیسے چپک گئے تھے۔ دیواریں اب مزید قریب آ گئی تھیں۔ وہ بے اختیار چلایا: ’’احمق جادوگر، تم مجھے ان دیواروں کے بیچ کچل کر مارنا چاہتے ہو!‘‘
حرکت کرتی دیواریں اس سے چند ہی انچ کے فاصلے پر آ کر رک گئیں۔ ڈریٹن کی آنکھیں خوف سے پھٹنے کو تھیں۔ تب اچانک دیواریں واپس اپنی جگہ سرکنے لگیں اور ڈریٹن کو تھوڑی سی تسلی ہونے لگی۔ اچانک اسے پہلان کا قہقہہ سنائی گیا، اس نے اوپر دیکھا تو دھوئیں کا ایک بادل قدیم جھاڑ فانوس کے گرد چکر لگا رہا تھا۔
’’میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ ڈریٹن غصے سے بولا: ’’تم اس طرح کی حرکتیں کر کے اپنا دل خوش کرتے ہو گندے جادوگر۔‘‘ یہ کہہ کہ اس نے فرش پر نظر دوڑائی تو اسے لوہے کا ایک پرانا زنگ آلود ٹکڑا مل گیا۔ اس نے لوہے کا ٹکڑا اٹھا کر پہلان کی طرف پھینک دیا۔ جادوگر نے دھوئیں کی صورت میں ایک چکر کاٹا اور پھر تیر کی طرح ڈریٹن کی طرف بڑھا اور ڈریٹن کے بدن کے گرد لپٹ کر اپنی طاقت استعمال کرنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے جادوگر اس کے سینے میں گھس کر اس کے دل کو پوری قوت سے دبانے لگا ہو۔ اس نے بے اختیار اپنا سینہ پکڑ لیا، اسے سانس رکتی محسوس ہو رہی تھی۔ اگلے لمحے وہ پتھریلے فرش پر گھٹنوں کے بل گر گیا۔ اس عالم میں اس نے بے بسی کے ساتھ ایک ہاتھ ہوا میں لہرایا اور دھوئیں کو پکڑنے کی ناکام کوشش کی۔ پہلان نے اس کا دل چھوڑ دیا اور اس کے جسم سے نکل گیا۔ ڈریٹن نے لمبی لمبی سانسیں لیں، ایسے میں اسے پہلان کی زہریلی آواز سنائی دی۔
’’تبھی تمھیں زندہ چھوڑ رہا ہوں احمق ڈریٹن، لیکن آئندہ اگر تم نے مجھے کوئی چیز مارنے کی کوشش کی تو میں تمھارا دل پھاڑ کر باہر نکلا لوں گا اور اسے بھیڑیوں کو کھلا دوں گا، سمجھے!‘‘
پہلان کی آنکھیں پیلے بلب کی طرح روشن ہو گئی تھیں اور اس کا ہیولہ بے حد خوف ناک نظر آ رہا تھا۔ ڈریٹن کی ہوا خراب ہو گئی تھی، اس نے سر جھکا کر کہا: ’’معافی چاہتا ہوں، آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔‘‘
’’تم میرے لیے کیا خبر لائے ہو؟‘‘ پہلان کی آواز گونجی۔ ڈریٹن نے جواب میں بتایا کہ انھوں نے تیسرا پتھر بھی حاصل کر لیا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ آج رات ہی چوتھے پتھر کے لیے نکل جائیں۔ پہلان نے کہا: ’’میں نے دیکھا کہ تم نے گزشتہ رات کیگان کے ایک آدمی کے خلاف پنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا، مجھے یقین ہے کہ تم نے اسے جان نہیں مارا ہوگا، میں تمھیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہوں کہ ہمیں بارہ پتھروں کے ساتھ ساتھ ان بارہ آدمیوں کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
جادوگر پہلان کی نہایت سرد آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ڈریٹن بولا کہ اس کا تو جی چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی جان سے نہیں مارا۔ پہلان نے کہا: ’’تو پھر تم کچھ نیا سیکھنے کے لیے تیار ہو؟ کیا تم اینگس سے کتاب حاصل کر چکے ہو؟‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو پچیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
سورج کی گرم شعاعیں صنوبر کے جُھنڈ میں سے چھنتی ہوئی اینگس کے گھر کی کھڑکی میں داخل ہو رہی تھیں۔ اینگس نے آنکھیں کھولیں اور کندھے مسلتے ہوئے سستی اتارنے لگے۔ جمی اور جیک بھی اٹھ کر بیٹھ چکے تھے۔ ’’صوفے پر سونا اتنا آرام دہ نہیں ہوتا، جتنا میرا خیال تھا۔‘‘ اینگس بڑبڑایا۔
’’آئندہ فرش پر سوتے ہیں، میں کوئی شکایت نہیں کروں گا۔‘‘ جیک نے کمبل تہہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں اپنے وقت میں ساحل کی ریت اور کبھی گھاس پر بھی راتیں گزار چکا ہوں۔ میرے پاس تو بارش سے بچنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔‘‘ جمی نے سر گھما کر جیزے کی طرف نگاہ کی۔ ’’جیزے اب کیسا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے قریب جا کر بولا: ’’کیا تم جاگ گئے ہو؟‘‘
جیزے نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ ’’میں اب ٹھیک ہوں، مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی عظیم الجثہ ریچھ نے اٹھا کر پھینکا ہو۔ ویسے میں کتنی دیر سویا رہا ہوں؟‘‘
’’صرف ایک رات میرے دوست۔‘‘ جمی نے جواب دیا۔ ’’اینگس کیا آپ ہمارے لیے ناشتے میں کچھ بنا سکتے ہیں، انڈے تو ہوں گے نا؟ مجھے بھوک لگی ہے اور یقیناً جیزے کو بھی۔‘‘اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سب سے قریب اینگس ہی تھے، انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو جونی کو دیکھ کر چہکے: ’’اندر آؤ جونی، ہم ناشتے سے متعلق بات کر رہے تھے، یہاں میرے پاس چند انڈے اور چند دن کی پرانی ڈبل روٹی ہی پڑی ہے۔‘‘
’’اوہ یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ جونی اندر داخل ہو کر بولا۔ ’’میں اسے سب کے لیے تیار کر دیتا ہوں لیکن اگر گوشت ہو تو کیا بات ہے۔‘‘
اینگس نے کہا کہ گوشت تو نہیں ہے البتہ گزشتہ رات کا اسٹو برتن میں پڑا ہے۔ جیک نے کہا کہ اس وقت تو ہر چیز اچھی لگ رہی ہے، اس لیے لے آؤ۔ لیکن جانی نے جب انڈے بنانے کے لیے ادھر ادھر چولھے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو اسے چولھا کہیں نہیں ملا، وہ حیرت سے بولا: ’’اینگس، آپ کا کیا خیال ہے، میں انڈے کیسے پکاؤں گا، یہاں تو چولھا ہی نہیں ہے۔‘‘
اینگس مسکرائے: ’’آتش دان کے قریب کھانا پکانے والا جالی دار برتن پڑا ہوا ہے، اسی سے کام چلانا پڑے گا۔‘‘
ایسے میں جیک نے اچانک کہا: ’’میں سوچ رہا ہوں کہ ہم میں سے چند کو اس وقت قلعہ آذر جانا چاہیے، کیوں کہ گزشتہ رات ہم وہاں آس پاس کچھ زیادہ نہیں دیکھ پائے تھے، جانی کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے؟‘‘
جانی نے پھینٹے ہوئے انڈے آگ پر رکھے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔خشک ڈبل روٹی، انڈہ آملیٹ اور آئرش اسٹو کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد جانی اور جیک قلعہ آذر کے لیے نکل گئے۔ جیک آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’کل رات جب میں یہاں پہنچا تو یہ پہلی بار تھا جب میں نے قلعہ آذر دیکھا، میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا وجود بھی ہے۔ جب میں نے پہلی بار کنگ کیگان اور آپ کو دیکھا تھا تو یہ وہ وقت تھا جب ہم اسکاٹ لینڈ جا رہے تھے۔ کنگ کیگان نے ہمیں قیمتی جواہرات چھپانے بھیجا تو مہینوں گزر گئے تھے اور کوئی شناسا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا، یہاں تک کہ آپ سے ملاقات ہو گئی۔‘‘
وہ صنوبر کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے دور نظر آنے والی جھیل پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ جانی مسکرانے لگا: ’’یہ جگہ بے انتہا خوب صورت تھی، باغیچے طرح طرح کے پھولوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں باغ میں گھنٹوں گزارا کرتا تھا۔‘‘جیک نے کچھ سوچ کر پوچھا: ’’میں آنا اور ازابیلا کے علاوہ کسی اور بچے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، مجھے دیگر بچوں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔‘‘ جانی بتانے لگا: ’’ایک بچے کا نام سرڈِک تھا، وہ سب سے بڑا تھا۔ کیا بچہ تھا وہ… اس کے بال سونے کی دھاگوں کی طرح چمکتے تھے۔ جب سورج نکلتا ہے تو سمندر کی لہروں پر اس کی کرنیں موتیوں کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ سرڈِک کے بال مجھے یہی یاد دلاتے تھے۔ اس کے بال اس کی ماں کی طرح گھنگھریالے تھے۔ اس کی آنکھیں بنفشی جھیلوں کی طرح تھیں۔ وہ جب نکلتا تھا تو پرندوں کی شامت آ جاتی تھی، وہ سارا دن پرندوں اور تتلیوں اور جنگلی جانوروں کے پیچھے بھاگتا رہتا تھا۔
(جاری ہے)
-
ایک سو تئیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’میرے خیال میں آپ اور فیونا اب سو جاؤ۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’کل کا دن بہت مصروف گزرے گا۔ فیونا اگلا قیمتی پتھر حاصل کرنے جائے گی، آپ کام پر جائیں گی اور میں ایک بار پھر قلعہ آذر جاؤں گا، مجھے کچھ تلاش کرنا ہے۔ وہاں چند ایسی جگہیں ہیں جو کوئی اور نہیں جانتا۔ ہو سکتا ہے میں وہاں کوئی ایسی چیز پا لوں جو ہماری معاون ثابت ہو، مثلاً کوئی ہتھیار۔‘‘
’’یہ اکیسویں صدی ہے جونی۔‘‘ مائری بولیں: ’’ہم ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے نہیں لڑ سکتے۔ ویسے بھی ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔‘‘
جونی جلدی سے بولا: ’’ہتھیار سے مراد یہ نہیں تھا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہاں کوئی اور کتاب مل جائے جس میں جادو منتر ہوں۔ یا ایسی معلومات ہوں جو پہلان اور ڈریٹن اسٹیلے کے مقابلے میں کارآمد ثابت ہوں۔‘‘
’’اوہ پھر ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا: ’’ویسے میں اس بات سے مطمئن نہیں ہوں کہ فیونا، جبران اور دانیال دور دراز کے ملکوں میں جا کر بلاؤں اور جنگلی جانوروں کے ساتھ لڑیں۔‘‘
فیونا، جو سیڑھیاں چڑھ کر اوپر سونے جا رہی تھی، یہ سن کر رک گئی اور مڑ کر بولی: ’’مجھے نہیں ہوگا ممی، میں ایسا کر تو چکی ہوں، جبران اور دانی ہی میری مدد کر سکتے ہیں اور ہم مل کر تین مقامات پر جا چکے ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ہوا، ہم ٹھیک ٹھاک ہیں!‘‘
یہ کہہ کر وہ اوپر چلی گئی تو مائری پریشانی کے عالم میں بڑبڑانے لگیں: ’’وہ آکٹوپس کی خوراک بنتے بنتے بچی، ٹرالز اسے زندہ بھوننے والے تھے، بچھو اسے کاٹنے دوڑے تھے اور یہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں پریشان نہ ہوں، اس کی فکر نہ کروں، یہ کیسے ہو سکتا ہے، میں اپنے دل کو کیسے سمجھاؤں!‘‘ جونی نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی: ’’اب فیونا کے پاس ایک اور قوت آ گئی ہے، وہ روز بہ روز طاقت ور ہوتی جا رہی ہے، اور صرف یہی نہیں بلکہ مزید کچھ ایسی قوتیں بھی موجود ہیں جو شروع سے اس کی مدد کر رہی ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب … کیسی قوتیں؟‘‘ مائری چونک اٹھیں۔ جونی نے جواب دیا: ’’میں اس کی وضاحت تو نہیں کر سکتا لیکن آئس لینڈ کو بہ طور مثال لیں، جب اسے شدید ضرورت تھی تو پریوں نے اس کی مدد کی۔ جب کسی کو واقعی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو خیر کی قوتوں کو اس کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ اس کی مدد کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔ میرے خیال میں آپ میری بات سمجھ رہی ہوں گی!‘‘
’’لیکن میں کیسے ان سب کو حقیقت سمجھوں۔‘‘ مائری کی پریشانی کم نہ ہو سکی: ’’ایک ہفتہ قبل فیونا کے ساتھ یہ مسئلہ تھا کہ وہ شدید بور ہو رہی تھی اور اب وہ پریوں، بھتنوں اور شیطان جادوگروں سے مل رہی ہے، یہ سب ایک سپنے جیسا ہے!‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ جونی نے آخر میں بڑی دلیل دے دی: ’’لیکن میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں تو حقیقت میں ہوں نا!‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو اکیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
اینگس نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو جمی اور جیک نے جیزے کو اندر لے جا کر ایک بستر پر لٹا دیا۔ اینگس جلدی سے پانی گرم کر کے ایک تولیہ لے آیا اور جیک اس کے زخم صاف کرنے لگا۔ جیزے کو زخم نہ صرف جلنے سے آئے تھے بلکہ متعدد زخم کٹ اور رگڑ سے بھی آئے تھے۔ کچھ دیر بعد جیک نے اس پر ایک کمبل ڈال دیا اور آتش دان کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔ جمی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے اینگس سے مخاطب ہوا: ’’مجھے بیتے دن یاد آ گئے ہیں۔ دوگان اور اس کا جادوگر روزانہ ہمارے لوگوں پر حملے کر کے ظلم ڈھاتا تھا اور یہ سب محض لالچ کی وجہ سے تھا۔ اسے جادوئی گولا درکار تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے کنگ کیگان سے چھین کر خود اس کی طاقتیں استعمال کرے اور دنیا پر اپنی حکمرانی کا سکہ جما دے۔ دوگان تو فنا ہو گیا لیکن اس کا جادوگر پہلان کسی طرح روح کی صورت واپس آ گیا ہے اور وہ دوگان کے وارث ڈریٹن کے ساتھ رابطہ کرنے لگا ہے۔‘‘
اینگس اٹھ کر کچن کی طرف چلے گئے۔ چائے کے لیے کیتلی چولھے پر رکھی اور کچھ دیر بعد دو پیالیوں میں چائے بھر کر واپس آ گئے۔ ایک پیالی جیک کو تھما کر خود بھی صوفے پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ’’میں بھی کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ فیونا جب پہلی بار وہ کتاب میرے پاس آئی تو میں نے بہت دل چسپی سے اسے پڑھا۔ سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سب کچھ ہوگا۔ آخر تم لوگ کس طرح سے زندگی کی طرف لوٹے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ زرومنا نے تم سب پر جادو کیا ہے لیکن … لیکن یہ اکیسویں صدی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے جینے والا کوئی شخص پھر سے زندگی کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموشی سے چائے پینے لگے۔
’’جادوگر بہت طاقت ور ہوتے ہیں اینگس۔‘‘ جیک نے جواب دیا۔ ’’مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ کیسے کیا گیا، کیوں کہ میں جادوگر نہیں ہوں۔ بس، جب قیمتی پتھر جادوئی گیند میں واپس رکھا جاتا ہے، میں پھر سے انسانی روپ میں آ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں، جیتا ہوں، اور سانس لیتا ہوں۔ میں نے خود کو قلعہ آذر میں پایا تھا جہاں دوسروں کی طرح میں کبھی گیا ہی نہیں تھا۔ پہلی بات جو میرے دماغ میں خود بہ خود آئی، وہ یہی تھی کہ مجھے اس گھر پہنچنا ہے۔‘‘
جمی بھی صوفے پر پہلو بدل کر بولا: ’’اینگس، میری کہانی بھی ایسی ہی ہے لیکن میں پہلے مک ایلسٹر کے گھر پہنچا جہاں جونی ٹھہرا ہوا تھا۔ جیسے جیسے قیمتی پتھر جادوئی گیند میں آتے جائیں گے، ویسے ویسے سارے افراد زندگی کی طرف لوٹیں گے اور ہم بارہ ایک بار پھر اکھٹے ہو جائیں گے۔‘‘ اس نے پیالی فرش پر رکھتے ہوئے بات جاری رکھی: ’’میری یادداشت کچھ کچھ دھندلا گئی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب تمام قیمتی پتھر گولے میں آ جائیں گے تب ہمی آگے کا سفر طے کرنا ہے۔‘‘
جیک نے جیزے پر نگاہیں جما کر کہا: ’’کنگ دوگان کے وارث کے ہاتھوں جیزے زخمی پڑا ہے، اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈریٹن شیطان کی طرح طاقت ور ہوگا، جیسا کہ کنگ دوگان تھا۔ پہلان اس کی طرف ہے اور ہمیں ان سے دو بہ دو جنگ لڑنی ہے۔ میرے خیال میں بچے کل صبح آ کر نئے سفر پر نکل جائیں گے نا۔‘‘
’’ہاں وہ کل صبح آ جائیں گے۔‘‘ اینگس نے جواب دیا: ’’ایسا لگتا ہے کہ ڈریٹن اور پہلان کی خواہش ہے کہ پتھر حاصل کرنے کے لیے خطرات ان کی بجائے بچے مول لیں۔ کیا آپ ایسا کچھ نہیں جانتے جس سے ان بچوں کی مدد ہو سکے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ جیزے کی طرف چند لمحے دیکھتے رہے پھر جیسے ایک دم کچھ یاد آیا، اور کہا: ’’میرے خیال میں مجھے کتاب مزید پڑھنی چاہیے۔ چوں کہ جونی تو مائری کے ہاں ہے تو میں کتاب کے مزید کچھ صفحات ترجمہ کر لیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ مدد کے لیے کوئی راستہ ملتا ہے یا نہیں۔‘‘
اینگس اٹھ کر الماری کی طرف گئے، کتاب نکال کر واپس صوفے پر آ گئے۔ ان کی بے قرار نگاہیں گیلک زبان کے الفاظ اور علامات پر پھسلنے لگیں۔ ایسے میں جمی کہنے لگا: ’’اب معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، ہم صرف یہاں اینگس، مائری اور جادوئی گولے کی حفاظت ہی کر سکتے ہیں۔ کچھ نہیں پتا کہ ڈریٹن کا اگلا قدم کیا ہوگا!‘‘
یہ کہہ کر اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
فیونا نے جب دیکھا کہ ڈریٹن کسی بے قابو بھینسے کی طرح پتھروں پر اچھلتا، کودتا نیچے اتر رہا ہے، تو وہ ذرا بھی نہیں گھبرائی، اور بہادری کے ساتھ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھ کر سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ جب وہ قریب آیا تو فیونا نے اسے فوراً پہچان لیا۔ ’’تو یہ تم ہو، تم وہی بدمعاش ہو نا جس نے سیچلز میں جبران کو گرا دیا تھا، لیکن تم وہاں پہنچے کیسے تھے؟‘‘
ڈریٹن اسے یوں بے خوفی سے باتیں کرتے دیکھ کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر رک گیا اور بہ غور دیکھنے لگا۔ ’’سنو مچھر، میں تمھیں اور تمھارے بارے میں اور قیمتی پتھروں اور جادوئی گولے کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میں نے تمھیں تمام پتھر جمع کرنے دیا ہے، جب سارے جمع ہوں گے تو میں تمھیں اور تمھاری ممی کو جان سے مار کر جادوئی گولا لے کر چلا جاؤں گا اس منحوس جگہ سے۔‘‘
فیونا کو ذرا بھی ڈر نہیں لگا، وہ اسی طرح بہادری سے بولی: ’’تو یہ بات ہے۔ تو تم مجھ سے چھین لو گے … ہونہہ … منھ دھو رکھو اپنا۔ تم شیطان ہو اور بھولو مت کہ اچھائی ہمیشہ برائی پر غالب آ جاتی ہے۔‘‘
’’ہاہاہا… تو تمھارے اس مقولے نے کنگ کیگان کی کوئی مدد کیوں نہیں کی۔ کاش میں ابھی اس وقت موجود ہوتا اور اس کا سر قلم ہوتا دیکھ لیتا۔‘‘ ڈریٹن قہقہہ لگا کر بولا۔ فیونا کو اس کے بے رحمانہ الفاظ نے بہت تکلیف دی۔ ایسے میں اس کی نظر دور پیچھے سے آنے والے دو سایوں پر پڑی۔ ان کی آمد سے ڈریٹن بے خبر ہی رہا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ سرنگ سے آنے والے جیزے اور جیک ہیں، انھیں آتے دیکھ کر وہ اور نڈر ہو گئی: ’’تم بزدل ہو ڈریٹن، بالکل کنگ دوگان کی طرح۔ ہمیشہ چھپ کر وار کرتے ہو۔ یاد رکھو، میں تمام قیمتی پتھر جمع کرلوں گی اور تم ایک تک بھی پہنچ نہیں پاؤ گے۔ میں تم پر ایسا منتر پڑھوں گی کہ تم ایک پسّو بن جاؤ گے اور پھر تمھیں آسانی سے اپنے جوتے سے مسل کر زمین کے ساتھ برابر کر دوں گی۔‘‘
عین اسی وقت جیزے نے دوڑ کر ڈریٹن کے گرد اپنے مضبوط بازوؤں کا پھندا بنا کر اسے جکڑ لیا۔ جیک فیونا کو ہاتھ سے پکڑ کر سرنگ کی طرف دوڑا اور اسے اندر چھوڑ کر پلٹا، لیکن ابھی جیزے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک اس کے سامنے زمین سے آگ کا ایسا بڑا شعلہ اوپر اٹھا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹتا ہے۔ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ گیا۔ آگ نے راستے میں دیوار کھڑی کر دی تھی اور وہ ان دونوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ وہ واپس سرنگ میں آ گیا۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہ ضرور ڈریٹن نے لگائی ہے، اس کے پاس بھی یقیناً وہی طاقتیں ہیں جو میرے پاس ہیں، میں بھی آگ بھڑکا سکتی ہوں۔ جیزے کی حفاظت ضروری ہے، مجھے خود کو بڑا کر کے ڈریٹن پر حملہ کرنا چاہیے۔‘‘
’’نہیں فیونا۔‘‘ مائری نے سختی سے کہا: ’’بہ بہت خطرناک ہے، تم یہیں رہو، ہمیں جونی اور جمی کا انتظار کرنا ہے۔‘‘
’’یہ خطرناک نہیں ہے ممی، میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں، مجھے جانے دیں۔‘‘ وہ مچلنے لگی تھی، مائری نے اسے اپنے بازوؤں کی گرفت میں رکھا تھا۔ ذرا دیر بعد شعلے بجھ گئے، اور جمی اور جونی بھی پہنچ گئے۔ وہ شعلے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے: ’’یہ شعلے کیسے ہیں، اور جیزے کہاں ہے؟‘‘ جیک نے بتایا کہ جیزے نے ڈریٹن کو پکڑ لیا تھا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ وہ جلدی سے اس مقام پر گئے تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ادھر ادھر تلاش کرنے پر انھیں جیزے جھیل کے کنارے زخمی حالت میں پڑا ہوا مل گیا۔ وہ بے ہوش تھا اور ڈریٹن کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ جونی نے اس کی نبض دیکھی اور اینگس سے کہا کہ اسے طبی امداد کے لیے جلد گھر پہنچانا ہوگا۔ جیک نے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور وہ سب گھر کی طرف چل پڑے۔
فیونا نے بتایا کہ اس نے ڈریٹن کو سیچلز میں دیکھا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس بھی وہی طاقتیں ہیں۔ جونی کہنے لگا کہ پتا نہیں وہ کس طرح ان ہی جگہوں کا سفر کر رہا ہے، یقیناً پہلان جادوگر اس کی مدد کر رہا ہوگا۔ اس نے کہا: ’’اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود قیمتی پتھر حاصل نہیں کرسکتا، اب ہمیں جتنی جلدی ہو سکے باقی پتھر حاصل کرنے ہوں گے، کیوں کہ حالات خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلان ڈریٹن کو سب کچھ سکھا رہا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ سکے۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
وہ بھاگے چلے جا رہے تھے، ان کے سروں پر بڑے بڑے چمگادڑ اڑ رہے تھے لیکن انھیں اس سے بھی بڑے خطرے کا سامنا تھا اس لیے وہ ان سے نہیں ڈرے۔ جب بڑا خطرہ سامنے ہو تو چھوٹے خطرے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ جبران گھبرا کر بولا: ’’قذاق بہت قریب پہنچ گئے ہیں، مجھے ان کی بو آ رہی ہے۔‘‘
انھوں نے سنا، ایک قذاق اپنی بے سری آواز میں گا رہا تھا …. یو ہو ہو اور اک بوتل ۔۔۔ !
دانیال یہ سن کر قہقہ لگا کر بولا: ’’ارے یہ تو واقعی انتہائی بے وقوف ہیں،ان کی سوچ بس بوتل اور تختے تک محدود ہے، کیا ان میں کوئی ایک بھی عقل مند نہیں ہے۔‘‘
اچانک ان کی سماعتوں سے ایک چیختی ہوئی آواز ٹکرائی اور ان کے قدم بے ساختہ جہاں تھے وہیں جم گئے۔ وہ آواز کہہ رہی تھی: ’’بدمعاشو… ہے نا ایک عقل مند پائریٹ اور وہ میں ہوں۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ عین ان کے سامنے جھاڑیوں سے ایک انتہائی بدوضع اور خوف ناک شکل والا قذاق کود کر ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنی شکل مزید بگاڑ کر بولا: ’’حیران ہو گئے نا کہ میرے پاس بھی دماغ ہے ۔۔۔۔ ارغ ۔۔۔‘‘
اس کے چہرے پر بڑے بڑے بال تھے، اور سر کے گہرے بھورے رنگ کے چپڑے بال رنگین رومال سے باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔وہ حیرت اور خوف سے قذاق کو دیکھ رہے تھے کہ اسی اثنا میں باقی سمندری ڈاکو بھی پہنچ گئے اور سب نے دائرہ بنا کر انھیں گھیرے میں لے لیا۔ ایک بولا: ’’سردار، ان بدمعاشوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟‘‘
بدوضع اور بد نما قذاق مسکرایا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کے منھ میں سامنے کے تین دانت غائب تھے، اور ایک خلا نظر آ رہا تھا۔ اس کے باقی دانتوں پر کوئی بدبودار اور غلیظ مادہ چپکا ہوا تھا جس کی بو دس فٹ دور کھڑے ان تینوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا: ’’ارے بونی جان، تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے، چوں کہ ہمارے پاس بحری جہاز نہیں ہے اس لیے ہم انھیں تختے پر نہیں لے کر جا سکتے۔‘‘
ان میں سے ایک پائریٹ جس کا نام بگ ٹومی تھا، نے تجویز پیش کی کہ انھیں کسی اونچے درخت سے لٹکا کر پھانسی دی جائے، کوے اور چوہے ان کے جسم مزے سے کھا جائیں گے۔‘‘
اچانک فیونا چلا کر بولی: ’’نہیں… تم سب ہم سے دور رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے موتی نکال لیا اور بولی: ’’یہ ایک جادوئی بال ہے، اگر میں تم لوگوں کے سامنے کردوں تو تم سب بندر بن جاؤ گے۔‘‘
تمام قذاق یہ سن کر ہنسنے لگے۔ ان کا سردار کیپن وِل منھ بگاڑ کر بولا: ’’اووو… ارے تم نے مجھے ڈرا دیا۔‘‘
فیونا نے اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے تھوک نگلا اور بولی: ’’تو ٹھیک ہے، اگر تم اتنے بہادر ہو تو آگے بڑھو اور اسے حاصل کر لو۔‘‘ کہتے کہتے فیونا ٹھہری اور چند لمحے بعد بولی: ’’ڈر گئے نا!‘‘
کیپن ول کی ہنسی ایک دم رک گئی۔ اس کے سر پر بندھا رومال ڈھیلا ہو کر اس کی آنکھ پر آیا۔ آنکھ پر بندھی پٹی گر گئی اور اس کی دوسری آنکھ بھی نظر آ گئی۔ جبران یہ دیکھ کر حیرت سے بولا: ’’ارے، اس کی دوسری آنکھ تو سلامت ہے، اس نے بلاوجہ چھپائی ہوئی تھی.‘‘
کیپن ول نے جلدی سے پٹی آنکھ پر دوبارہ چڑھائی اور سر پر رومال کس کر باندھا اور پھرتی سے خنجر نکال کر غرایا: ’’میرے خیال میں تمھاری زبان کاٹنی ہی پڑے گی، بہت بولتے ہو تم۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو دو ویں قسط: پر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فیونا انھیں اپنے اتنے قریب دیکھ کر اسپرنگ کی طرح اچھلی اور چلاتے ہوئے دوڑی: ’’بھاگوووو…‘‘ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ذرا ہی دیر میں وہ جبران اور دانیال سے بھی آگے نکل گئی۔
اچانک ان کی سماعتوں سے ایک قذاق کی چیخ سے مشابہ آواز ٹکرائی، وہ کہہ رہا تھا: ’’یہ ہمارے خزانے کے پیچھے جا رہے ہیں … پکڑو انھیں اور تختے پر لے آؤ۔‘‘
ایک اور قذاق چلایا: ’’یہ تختہ کیا ہے گدھے… ہمارا جہاز کہاں ہے؟‘‘
سارے کے سارے بحری ڈاکو اب ان تینوں کے پیچھے چیختے چلاتے اور تلواریں لہراتے دوڑ رہے تھے۔ دوڑے دوڑتے فیونا بولی: ’’واؤ زبردست … پہلے وائی کنگ اور اب یہ پائریٹس … جب ہم گھر لوٹیں گے تو جمی اور جیزے کو ان پھندوں کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔‘‘تینوں جھاڑیوں میں اندھا دھند بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ سخت جھاڑیوں اور کانٹوں سے بچنا ممکن نہیں تھا اس لیے انھیں جا بہ جا خراشیں آ گئی تھیں۔ دوڑتے دوڑتے وہ ایک کھلی جگہ میں آ گئے۔ تینوں رک کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ فیونا نے سانسوں کو قابو کرتے ہوئے کہا: ’’تم دونوں نے نوٹ کیا، یہ سب بالکل ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔‘‘
جبران بولا: ’’میں پائریٹس کے متعلق پڑھا ہے، یہ عقل مند نہیں تھے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں پکڑ لیں کیوں نہ ہم کوئی چال چل کر ان سے چھٹکارا پا لیں، یہ سب بے وقوف ہیں اور مردہ بھی!‘‘
دانیال نے کہا کہ یہ لوگ بے وقوف ہو سکتے ہیں اور کسی زمانے میں یہ مرے بھی ہوں گے لیکن اب یہ زندہ ہیں اور ان کے ہاتھوں میں تیز دھار تلواریں بھی ہیں۔ دانیال سانس لینے رکا اور حیران ہو کر بولا: ’’ارے انھوں نے آنکھوں پر پٹیاں کیوں باندھ رکھی ہیں، اور یہ ارغ کیا چیز ہے، کیا واقعی بحری قذاق اسی قسم کی آوازیں نکالا کرتے تھے؟ میں تو سمجھا تھا کہ یہ صرف کارٹون اور فلموں میں ہوتا ہے۔‘‘
ان دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن فیونا اچانک بولی کہ انھیں جانا کس طرف ہے؟ یہ کہہ کر اس نے کلائی پر بندھی گڑھی پر نظر ڈالی، لیکن وہ سمندری پانی سے خراب ہو چکی تھی۔ جبران کی گھڑی واٹر پروف تھی، جس کے مطابق جیکس کی واپسی میں صرف پینتالیس منٹ رہ گئے تھے، اور وہ پک اپ پوائنٹ سے بھی بہت دور تھے۔ دانیال نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اس سمت چلتے ہیں، وہ ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ لیکن فیونا نے کہا: ’’انھیں پتا ہے کہ ہم نے موتی حاصل کر لیا ہے، اور انھیں ایک ایسا منتر آتا ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں ڈھونڈ نکال سکتے ہیں۔‘‘
دانیال نے پوچھا: ’’کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کا خزانہ چرا لیا ہے؟‘‘
فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔ انھیں آوازیں سنائی دینے لگیں، فیونا نے دونوں کو اپنے پیچھے آنے کو کہا اور وہ ایک بار پھر جھاڑیوں کے درمیان دوڑنے لگے۔ وہ جتنا تیز دوڑ سکتے تھے، دوڑتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے بحری ڈاکو چیختے اور نعرے لگاتے ہوئے آ رہے تھے۔ ’’پکڑو… ان بدمعاشوں کو… لے چلو انھیں تختے پر!‘‘(جاری ہے…)
-
ایک سو ایک ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فیونا گھٹنوں کے بل ریت پر بیٹھ کر جبران سے بولی: ’’ایک بڑا سا پتھر لے آؤ، اب اسے توڑنے کی باری ہے۔‘‘
دانیال نے آنکھیں پھاڑ کر دو مونہے سمندری خول کو گھورا اور بڑبڑایا: ’’فیونا، کیا تم نے اسی خول سے آکٹوپس کو موت کے گھاٹ اتارا تھا؟‘‘
فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ اس میں گھبرانے کی کون سی بات ہے۔ جبران نے ایک پتھر لا کر فیونا کو تھما دیا۔ فیونا نے صدفہ نوک کی طرف سے ریت میں دھنسا دیا اور اس کے اوپر پتھر مارنے لگی لیکن کئی بار ایسا کرنے پر بھی سخت خول ٹوٹ نہیں پایا۔ خول سے بدبودار پانی کے چھینٹے اڑ کر ان کے ہاتھوں پر لگے۔ جبران اور دانیال خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹے اور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگے۔
’’کک … کیا یہ زہر ہے … مم … میرے ہاتھ جل نہ جائیں۔‘‘ دانیال خوف کے مارے ہکلانے لگا۔ فیونا نے جھک کر اسے سونگھا اور بتایا کہ یہ زہریلا نہیں ہے بلکہ سمندری پانی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور پتھر جبران کے حوالے کر کے کہا: ’’میں خول کو دونوں ہاتھوں میں پکڑتی ہو اور تم اس پر پتھر مارو۔‘‘
جبران نے ایسا ہی کیا لیکن اس بار پھر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ فیونا خول کو گھما کر بہ غور دیکھنے لگی، اور پھر کچھ سوچ کر اس کے اندر انگلیاں پھسا کر اس کا اوپری چھلکا زور لگا کر توڑنے لگی۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ یہ ترکیب کارگر ہو رہی ہے، اس کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہو گئے تھے لیکن اچانک دانیال گھبرا کر بولا: ’’رک جاؤ فیونا… پلیز رک جاؤ… دیکھو ہمارے پیروں تلے زمین سرکنے لگی ہے۔‘‘
لیکن فیونا نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اور سمندری خول کھولنے کی جدوجہد میں لگی رہی۔ جبران بولا: ’’ارے وہ تیسرا پھندہ کیا ہو سکتا ہے؟ یاد ہے نا، ہر قیمتی پتھر کے لیے تین پھندے … جیسے ہی ہم اسے کھولیں گے کوئی خطرناک بات ہو جائے گی۔‘‘
فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ویسے ایک بات ہے، اب ہم سمندر میں نہیں ڈوبیں گے اور آکٹوپس بھی یہاں نہیں آ سکتا۔ یہاں ٹرال بھی نہیں ہے اور زلزلے بھی نہیں آئیں گے۔‘‘دانیال نے فوراً لقمہ دیا: ’’لیکن ہزار پا اور بڑے بڑے حشرات تو آ سکتے ہیں۔ یاد ہے جیکس نے یہی کہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ان جھاڑیوں میں کوئی خوف ناک چیز ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ جیسے ہی خول ٹوٹے گا، وہ نکل کر ہمیں ہڑپ کر جائے گی!‘‘ لیکن فیونا نے ہاتھ نہیں روکے اور پوری قوت صرف کر کے آخر کار اس نے خول کھول لیا، جس میں سے ایک بہت ہی چمک دار اور خوب صورت ہیرا برآمد ہوا، جو سمندری پانی کی وجہ سے چپچپا ہو رہا تھا۔ یہ موتی تھا … ایک بہت ہی خوب صورت اور قدیم موتی!
فیونا بے ساختہ بولی: ’’واؤ … اس کی قیمت تو ضرور دس لاکھ پاؤنڈ ہوگی۔‘‘جبران کی نظریں بھی موتی کا طواف کرنے لگی تھیں جب کہ دانیال کی نظریں آس پاس تیزی سے گھوم رہی تھیں۔ وہ بے حد خوف زدہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب کچھ ہونے والا ہے … بہت ہی خطرناک …!‘‘
اور پھر وہی ہوا جس اسے ڈر تھا!
عین فیونا کے پیچھے اچانک ریتیلی زمین پھٹی اور ایک دل دہلا دینے والا ہاتھ برآمد ہوا۔ اس ہاتھ میں ایک چمکتی تلوار لہرا رہی تھی۔ دانیال دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا۔ یکایک ان دونوں کو بھی احساس ہوا کہ کوئی بری بات ہو گئی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مڑ کر پیچھے دیکھنے لگے۔ زمین پھاڑ کر جو ہاتھ باہر نکلا تھا اب وہ اکیلا نہیں تھا، بلکہ کئی اور ہاتھ بھی قطار در قطار نکل آئے تھے، اور ان میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اور ہر ہاتھ میں ایک تلوار تھی۔ ایسے میں دانیال جھاڑیوں کی طرف بھاگتے ہوئے چیخا: ’’میں نے کہا تھا نا کہ زمین کے اندر کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
’’ٹھہر جاؤ …‘‘ جبران بھی دوڑ پڑا۔ ’’میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا اور خوف سے چلایا: ’’یہ بحری قزاق ہیں۔‘‘
زمین سے نکلنے والے ہاتھ اب محض ہاتھ نہیں رہے تھے بلکہ وہ پورے انسانوں کا روپ اختیار کر چکے تھے، یعنی قدیم بحری ڈاکو اپنی قبروں سے نکل آئے تھے۔ انھوں نے سیاہ و سفید دھاریوں والی شرٹ اور پھٹی ہوئی سیاہ پینٹیں پہنی تھیں، جب کہ سروں پر سرخ رومال بندھے ہوئے اور آنکھوں پر پٹیاں تھیں۔
(جاری ہے۔۔۔)
-
سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
ڈریٹن کی آنکھیں کھلیں تو اسے شدید تکلیف کا احساس ہونے لگا۔ اس نے زندگی میں کبھی غسل آفتابی نہیں کیا تھا، سر سے پیر تک اس کی جلد میں جلن اور دکھن ہو رہی تھی۔ وہ رو پڑا: ’’اوہ … بہت تکلیف ہو رہی ہے!‘‘
قریب سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص چھتری تھامے گزرا، اس نے ڈریٹن کو تکلیف میں دیکھ کر مشورہ دیا: ’’بیٹا، تم نے سورج کی کرنوں سے خود کو نادانی میں بری طرح جلا دیا ہے، جاؤ اور ایلوویرا نامی پودے کا عرق اپنے جسم پر ملو، اس سے تمھیں درد سے نجات مل جائے گی۔‘‘
ڈریٹن بجائے شکریہ ادا کرنے کے، اس ادھیڑ عمر شخص سے بدتمیزی کرنے لگا۔ ’’اوئے بڈھے، کیا میں نے تم سے مشورہ مانگا ہے، اپنا کام کرو، چل نکل یہاں سے۔ میں کوئی بے وقوف ہوں، پتا ہے مجھے کہ خود کو سورج کی تیز روشنی سے جلا چکا ہوں۔‘‘ ادھیڑ عمر شخص نے برا سا منھ بنا کر کہا: ’’آج رات تمھیں اس کا اصل مزا آئے گا، اور میں اس کا سوچ کر ہی ابھی سے لطف لے رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا اور ڈریٹن نے غصے سے اپنا تولیہ جھٹکے سے اٹھا لیا، جس کے ساتھ ریت بھی اڑی، جو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں پر جا گری۔ ایک بچہ روتے ہوئے بولا: ’’ممی، اس احمق آدمی نے میرے سینڈوچ پر ریت جھاڑ دی ہے۔‘‘
ڈریٹن نے نہایت بدتمیزی سے قریب آ کر بچے کا خالی ٹفن باکس اٹھا کر اس میں ریت بھری اور اسے بچے کے بالوں میں الٹ دیا۔ خالی باکس دوبارہ بھر کر پکنک پر آئی ہوئی فیملی کے کھانے پینے کے سامان سے بھری ٹوکری میں الٹ دیا اور بچے کی ممی سے بولا: ’’اپنے اس چوزے کو سمجھاؤ کہ چوں چوں بند کرے، نہیں تو ابھی اس کا کچومر نکال دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹفن سمندر میں اچھال دیا، اور پھر ہوٹل کی طرف چل دیا۔
کچھ ہی فاصلے پر کاسمیٹک کی ایک دکان نظر آئی تو اس میں داخل ہوا، اس پر لکھا تھا ’’سن اینڈ فن۔‘‘اس کے بدن پر اب بھی ریت چپکی ہوئی تھی جو دکان کے اندر بھی گر رہی تھی۔ سیلز مین کو یہ دیکھ کر بہت برا لگا، اس نے آگے بڑھ کر نہایت مؤدب لہجے میں کہا: ’’سر، براہ مہربانی آپ باہر جا کر اپنے جسم سے ریت جھاڑ کر آئیں، ہم آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
ڈریٹن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا: ’’ارے تم اتنے مزاحیہ لہجے میں کیوں بول رہے ہو، کیا تم احمق ہو؟‘‘
سیلز مین نے دیگر کسٹمرز کی موجودگی میں اپنی بے عزتی محسوس کی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا: ’’آپ کو میرے لہجے میں کیا سروکار ہے؟ آپ باہر جائیں اس سے پہلے کہ میں پولیس کو طلب کروں۔‘‘
ڈریٹن نے مسکرا کر زبردست جھرجھری لی اور تمام ریت دکان کے اندر ہی جھاڑ دی، اور پھر اطمینان سے دکان سے نکل کر ایک بار پھر سمندر کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ بچے نے اپنا ٹفن اٹھا لیا تھا۔ ڈریٹن نے اس کے ہاتھ سے ٹفن چھینا اور اس میں پھر ریت بھر دی۔ بچے کی ماں نے جلدی سے بچے کو ایک طرف اپنی آڑ میں چھپا لیا۔ ڈریٹن مڑا اور دکان کے اندر چلا گیا۔ اس نے ہاتھ پیچھے رکھے تھے، سیلز مین اسے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور بولا: ’’آپ پھر آ گئے اندر، فوراً باہر نکل جائیں۔‘‘
دیگر کسٹمرز اسے دیکھ کر تیزی سے باہر نکلے۔ انھیں ڈر لگا تھا کہ کہیں یہ بد مست بھینسا انھیں نشانہ نہ بنا دے۔ ڈریٹن نے سیلز مین سے کہا: ’’ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں لیکن پہلے آپ یہ بتا دیں کہ آپ کا لہجہ کس قسم کا ہے؟‘‘
سیلز مین نے ایک لمحہ ٹھہر کر نرمی سے جواب دیا: ’’یہ کرول لہجہ ہے، میرے ورثے کا ایک حصّہ!‘‘
’’اوہ…‘‘ ڈریٹن نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا اور اسے دھکا دیتے ہوئے اسی کے لہجے میں نقل اتاری: ’’تو ورثے کی زبان میں بات ہو رہی ہے۔‘‘
سیلز مین اس کے دھکے سے لڑکھڑا گیا تھا، اور سنبھلنے سے پہلے ہی ڈریٹن نے اس کے سَر پر ریت ڈال دی۔ جس سے اس کے بال، کپڑے اور فرش گندا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔ ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے اس دوسری دکان نظر آ گئی، وہ اندر داخل ہوا اور ریک سے ایلوویرا جل، لوشن اور سن اسکرین اٹھا کر تولیے میں لپیٹ لیے۔ سیلز مین کسی دوسرے کسٹمر کے ساتھ مصروف تھا اس لیے وہ اطمینان کے ساتھ باہر نکل گیا، اس کے بعد وہ ہوٹل پہنچ کر نہایا۔ نہانے کے بعد اس نے سوچا کہ شاید ان چالاک بچّوں نے اب تک موتی حاصل کر لیا ہو گا، لیکن کیا میں ان کو کہیں ڈھونڈوں یا واپس گیل ٹے چلا جاؤں۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے جانا چاہیے، وہ خاصا دولت مند ہو کر لوٹ رہا تھا۔ جانے کا فیصلہ کر کے اس نے ہوٹل کے کمرے میں موجود ہر قیمتی شے کو پکڑا اور واپسی کا منتر پڑھنے لگا۔
جب گھومنا بند ہو گیا تو اس نے خود کو اینگس کے گھر کے باہر پایا، بارش ہو رہی تھی، ذرا ہی دیر میں وہ بھیگ گیا۔ سورج کی تیز روشنی سے اس کی جلد دکھ رہی تھی اور بارش کے پانی سے اس کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔ اس نے اپنے کپڑے سیچلز ہی میں چھوڑے تھے اور شارٹس، جوتوں اور ایک ٹی شرٹ میں چلا آیا تھا، اس لیے وہ تیز رفتاری کے ساتھ بی اینڈ بی کی طرف دوڑنے لگا۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور ایلسے اس کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ وہ اس کی پروا نہ کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور ایک دھماکے سے درازہ بند کر دیا۔ ایلسے نے حیرت سے کہا تھا: ’’ارے ڈریٹن، تم تو جلے ہوئے پورے!‘‘
(جاری ہے…)