Tag: رفیع اللہ میاں

  • اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    دونوں اس کی طرف متوجہ ہو گئے، دانیال نے کہا: ’’جلدی بتاؤ!‘‘
    ’’یہ گھنٹہ گزارنے کے لیے چلو کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ جبران نے مسکراتے ہوئے اپنا آئیڈیا پیش کر دیا۔ دانیال کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’دھت تیرے کی!‘‘ فیونا نے ہنس کر جبران کے آئیڈے کی تائید کی۔

    قریب ہی ایک چھوٹا سا کیفے تھا، تینوں اس میں گھس گئے کیوں کہ کوئی اور کیفے تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کیفے میں بیٹھ کر ایک بڑے سائز کی شرمپ مچھلی منگوائی، جس کے ساتھ ایک بہت سیپی میں درجن بھر مختلف چٹنیاں بھی تھیں۔ وہ مزے لے لے کر کھانے لگے۔ تینوں اتنی بڑی سیپی دیکھ کر حیران ہو گئے تھے، دانیال نے خیال ظاہر کیا کہ یہ اصلی نہیں ہے، لیکن جبران کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اصلی ہو، کیوں کہ وہ سیچلز میں تھے اور ممکن ہے سیچلز میں اتنی بڑی سیپیاں ہوں۔ وہ دونوں کھانا کم کھا رہے تھے اور تبصرے زیادہ کر رہے تھے، جب کہ فیونا انھیں خاموشی سے دیکھ کر مسلسل کھانے میں مصروف تھی۔ آخر میں فیونا نے ٹشو سے ہاتھ اور منھ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’واہ، بہت مزا آیا، بہت مزے دار کھانا تھا۔‘‘

    ’’ارے تم نے کھا بھی لیا!‘‘ جبران چونک اٹھا۔ فیونا نے کہا کہ تم دونوں باتوں میں لگے ہوئے تھے اور میں کھا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ان دونوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ فیونا بولی: ’’اب ہمیں بندرگاہ جانا ہے اور وہ کشتی تلاش کرنی ہے جس کا نام لاپلیگ ہے۔‘‘

    ایک چھوٹی سی موٹر بوٹ کا ناخدا ان کا منتظر تھا، تینوں کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور بولا: ’’میڈم فیونا، مجھے جیکس مونٹ کہتے ہیں، میں آپ کے اور آپ کو جزیرہ سلہوٹ تک لے جانے کی خدمت انجام دوں گا، آپ کشتی پر آئیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر انھیں کشتی پر آنے کے لیے سہارا دیا۔ کشتی کی تہہ میں لکڑی کے تختوں پر آدھ انچ تک پانی کھڑا تھا۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی کہ بروشر میں یہ کشتی اتنی بری حالت میں نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک جبران نے منھ بنا کر سوال کیا: ’’کشتی میں اتنا پانی کیوں ہے؟‘‘
    جیکس مونٹ نے جلدی سے کہا: ’’گبھرائیں مت، کشتی میں کوئی سوراخ نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کی چھوٹی کشتیوں میں ایسا ہوتا ہے، جب بھی میں کشتی کے موٹر کو اسٹارٹ کرتا ہوں تو لہروں کی وجہ سے تھوڑا سا پانی اندر آ جاتا ہے۔‘‘
    فیونا نے جیکس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپ انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرا دیا۔ دانیال نے ایک پاؤں اٹھا کر کشتی کے کنارے پر رکھ دیا تو اس کے جوتے سے پانی سمندر میں گرنے لگا۔ جیکس بولا: ’’میں بہت چھوٹا تھا جب انگریزی سیکھی تھی۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ جیکس مونٹ نے بھورے بالوں کو چمک دار نیلے رنگ کی ٹوپی سے چھپایا ہوا تھا۔ اس نے ٹوپی کو ذرا سا ترچھا کر کے کہا: ’’آپ اپنے مہمانوں کا بھی تعارف کرائیں گی؟‘‘

    فیونا بولی: ’’ضرور …. یہ دانیال ہے اور یہ جبران۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں اور اسکاٹ لینڈ میں رہتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن آپ لوگوں کے والدین کہاں ہیں؟ یقیناً آپ ان کے بغیر تو اس جزیرے پر نہیں آئے ہوں گے۔‘‘ کشتی کے مَلّاح نے پوچھا۔ فیونا نے جلدی سے جواب دیا: ’’جی ہاں، وہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں ہیں، ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہتے تھے، اور ہمارے جانے پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘‘

    ’’کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں آپ لوگ؟‘‘ جیکس نے اگلا سوال داغ دیا۔ اس بار دانیال نے جواب دیا لیکن اس کے لہجے میں واضح طور پر بے زاری جھلک رہی تھی: ’’سی سائیڈ فینٹیسی ہوٹل میں!‘‘

    ’’اچھا وہ تو بڑا شان دار ہوٹل ہے۔‘‘ جیکس نے چونک کر کہا، اس کی باچھیں کھل گئی تھیں۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ آپ کے والدین بہت مال دار ہوں گے جو اس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یقیناً انھوں نے آپ کو بھی اچھی خاصی رقم دی ہوگی اکیلے جانے کے لیے۔‘‘ اس کی گول آنکھیں جبران کی چھوٹی پتلون کی جیب سے باہر جھانکتے ہوئے نوٹوں پر مرکوز ہو گئی تھیں۔

    (جاری ہے)

  • نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’کھانا بھی کھا لیں گے جبران۔‘‘ فیونا بولی: ’’سب سے پہلے یہاں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک بروشر کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک ایسی جگہ ڈھونڈنی ہے جہاں تین چوٹیاں ہیں۔‘‘

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    تینوں برآمدے میں آ گئے۔ ایک طرف دیوار کے پاس ہی انھیں میز پر بہت سارے بروشر نظر آ گئے۔ تینوں نے ایک ایک اٹھا لیا اور قریبی صوفے پر بیٹھ گئے۔ جبران نے ایک تصویر دونوں کو دکھائی: ’’یہ ہیں شاید تین چوٹیاں، جزیرہ ہے کوئی، جزیرہ سلہوٹ!‘‘

    ’’ہاں یہی لگتا ہے۔‘‘ فیونا نے سر ہلایا: ’’کیوں کہ کوئی اور تصویر نہیں ہے، اب ہمیں اس جگہ تک پہنچنا ہے، میرے خیال میں یہ جزیرہ زیادہ دور نہیں ہوگا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔

    دوسری طرف ڈریٹن ویونگ پامز نامی ہوٹل چلا گیا، اسے کمرے کی تلاش تھی۔ وہ ہوٹل کے برآمدے میں ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اور آس پاس کئی اور لوگ بھی موجود تھے۔ اس نے ایک رسالہ اٹھا لیا اور جھوٹ موٹ پڑھنے لگا۔ وہ دراصل اطمینان سے لوگوں کی باتیں سننا چاہ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے ہی میں وہ نہ صرف ان لوگوں کے کمروں کے نمبر جان گیا بلکہ انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ کہاں کہاں اور کتنی دیر کے لیے باہر جائیں گے، اور یہ کہ ان کے پاس رقم ہے یا نہیں۔ ان کے جاتے ہی وہ ان کے کمروں کی طرف چلا گیا، وہاں جا کر اسے پتا چلا کہ کمروں میں کمپیوٹرائز تالوں کی بجائے پرانے طرز کے تالے لگے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بے حد خوش ہو گیا، ذرا سی دیر میں وہ ایک کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکا تھا اور پھر تیزی سے رقم، کریڈٹ کارڈز اور زیورات اٹھا کر باہر نکل گیا۔ اسی طرح اس نے تمام کمروں کا صفایا کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی قیمتی اشیا سے محروم کر دیا۔ اس ہوٹل کے بعد اس نے دوسرے ہوٹل کا رخ کر لیا، اور اس طرح تین گھنٹے بعد اس کی جیب میں چھ ہزار سے پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم آ چکی تھی، کئی کریڈٹ کارڈز، گھڑیاں، اور سونے کی انگوٹھیاں اس کے علاوہ تھیں۔ وہ سڑک کنارے چلتے ہوئے قہقہے لگانے لگا۔

    ’’صبح کے لیے اچھا شکار رہا‘‘ اس نے خود کلامی کی: ’’میرے پاس اب اتنی رقم آ چکی ہے کہ میں اس مشن کے دوران آسانی سے عیش کے ساتھ رہ سکتا ہوں۔‘‘

    (جاری ہے)

  • چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    وہ تینوں اس وقت جزیرہ ماہی پر واقع ٹاؤن وکٹوریہ میں کھڑے تھے، سیچلز میں تقریباً ایک سو پندرہ جزیرے موجود ہیں۔ دانیال کو ریت عجیب سی لگی، اس نے مٹھی میں ریت بھری اور پھر اسے انگلیوں کے درمیان میں سے پھسلنے دیا۔ جبران نے ریت پر نگاہ ڈالی تو اسے اس میں ہلکا گلابی رنگ نظر آیا۔ فیونا نے کہا کہ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہاں رنگوں کے ہزاروں شیڈز پائے جاتے ہیں۔

    جبران نے فیونا سے پوچھا کہ یہاں انھوں نے کون سا پتھر ڈھونڈ نکالنا ہے، فیونا نے جواب دیا: ’’موتی … اور کیا تم دونوں نے محسوس کیا کہ ہم ایک اور جزیرے پر ہیں، آخر جزیرے ہی پر کیوں؟ کیا کنگ کیگان نے انھیں کہا تھا کہ ہر پتھر ایک جزیرے ہی پر چھپایا جائے؟‘‘

    دانیال نے سوچ کر کہا: ’’جزائر عام طور سے دور دراز مضافاتی علاقوں میں ہوتے ہیں، شاید اس لیے، جیسا کہ ہائیڈرا ایک دور مضافاتی علاقہ تھا، آئس لینڈ بھی، اور اب یہ سیچلز۔ میں نے تو ان کے نام بھی نہیں سنے تھے۔‘‘

    جبران نے اس کے کپڑوں کی طرف دیکھ کر کہا جو اتنی دیر میں بالکل سوکھ گئے تھے: ’’تمھیں بالوں میں کنگھی کرنی چاہیے، بال ایسے ہوئے ہیں جیسے رسیاں ہوں یا سانپ، ہائیڈرا کے عفریت کی طرح۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’ویسے آج کل جزائر مضافاتی نہیں رہے ہیں، کیوں کہ ہم کہیں بھی چند گھنٹوں میں اڑ کر وہاں جا سکتے ہیں۔‘‘

    ’’اور ہم تو ایک منتر پڑھ کر چند ہی سیکنڈ میں یہاں پہنچے۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ ’’لیکن دانی کی بات درست لگتی ہے، جونی اور جمی کے دور میں یہ جزائر واقعی دور دراز علاقوں میں واقع الگ تھلگ واقع تھے اور ان تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔‘‘

    فیونا نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر کہا: ’’آئس لینڈ سے واپسی پر میں نے انکل اینگس کو رقم واپس نہیں کی تھی، اس لیے یہ میرے پاس موجود ہے، اب ہمیں پھر سب سے پہلے بینک تلاش کرنا ہے، پتا نہیں یہاں برطانوی کرنسی چلے گی یا نہیں؟‘‘

    تینوں وکٹوریہ ٹاؤن میں گھومنے لگے، وہاں دکانیں بے حد شان دار تھیں۔ انھیں ایک بینک نظر آیا تو فیونا انھیں چھوڑ کر اندر چلی گئی لیکن ذرا ہی دیر بعد پریشانی کے عالم میں واپس آ گئی۔ ’’انھوں نے مجھے کرنسی تبدیل کر کے نہیں دی، کہہ رہے ہیں کہ پاسپورٹ کے بغیر تبدیل نہیں کریں گے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’تو کسی اور بینک میں کوشش کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے ایک اور بینک تلاش کیا، فیونا اندر گئی اور کچھ دیر بعد چہرے پر مایوسی طاری کیے واپس آ گئی۔ ان دونوں کے چہرے بھی اتر گئے، لیکن فیونا اچانک چہک اٹھی: ’’پریشان مت ہو، اب کہ بار میں کامیاب ہو گئی ہوں، یہاں سیچلز روپے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہیں لیکن وہ اس وقت سمندر میں نہانے چلے گئے ہیں اور ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے میری بات سن کر کوئی سوال نہیں کیا۔‘‘

    جب انھیں معلوم ہوا کہ بحر ہند کے مغربی حصے میں واقع سیچلز پر ایک سو پندرہ جزیرے ہیں تو انھیں حیرانی ہوئی، جلد ہی انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ان میں سے زیادہ ایسے جزائر ہیں جو مونگے کی چٹانوں اور دیگر چیزوں سے بنے ہیں، یعنی اصل جزیرے نہیں ہیں۔ فیونا نے کہا کہ چلو اب کوئی ہوٹل دیکھتے ہیں، لیکن جبران نے کہا: ’’ہم ہر بار ہوٹل میں کمرہ ہی کیوں لیتے ہیں، ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے، کیوں نہ ہم ابھی سے موتی ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

    دانیال اس بات پر اچھل پڑا: ’’کیا ہو گیا ہے تمھیں جبران! اگر ہمیں ابھی فوراً موتی نہیں ملا اور ہمیں بہت دیر ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا تم یہاں ساحل پر لمبی تان کر سو جاؤ گے؟‘‘

    دانیال درست کہہ رہا تھا، فیونا نے اس کی تائید کی اور کہا: ’’آئس لینڈ میں ہم نے کمرہ حاصل کیا تھا جو ہمارے بہت کام آیا تھا، ہائیڈرا میں نہیں لیا لیکن یہاں ہمیں کسی کمرے کی ضرورت ہے، میں نہانا بھی چاہتی ہوں، اور آرام کی بھی ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔ اگر یہاں سو سے زائد جزیرے ہیں تو میں شرط لگا سکتی ہوں کہ موتی اس والے جزیرے پر تو بالکل نہیں ہے۔‘‘

    انھیں پیاس لگی تو وہ ہوٹل کی تلاش چھوڑ کر ایک کھلی کیفے میں جا کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے ویٹر کو لیموں کے شربت کا آرڈر دیا، تو وہ کچھ دیر میں شیشے کی ایک صراحی کے ساتھ آ گیا، جس میں پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں لیمو، مالٹے اور گلاب کے کٹے پتے تیر رہے تھے۔ جبران نے لیموں کے رس سے گھونٹ بھرا اور تعریف کی۔ انھیں شربت بہت مزے دار لگا۔ شربت پینے کے بعد انھوں نے میز پر بل رکھا اور ساتھ میں ٹپ بھی، اور پھر نکل کر ہوٹل کی تلاش کرنے لگے۔ جلد ہی انھیں ہوٹل کا سائن بورڈ دکھائی دیا جس پر لکھا تھا: ’’سی سائیڈ فینٹیسی!‘‘

    (جاری ہے…)

  • بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جیزے اچھل کر بولا: ’’ارے یہ تو ایسی بو ہے جیسے آگ لگی ہوئی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا، باہر چھت میں آگ لگی ہوئی تھی، وہ چلا کر بولا: ’’بالٹیوں میں پانی لاؤ، جلدی کرو۔‘‘

    فیونا، جبران اور دانیال باہر کی طرف دوڑے۔ جبران خوف زدہ ہو کر چیخا: ’’انکل اینگس کے گھر کو آگ لگ گئی ہے، باہر نکلو سب۔‘‘

    وہ تینوں گھر سے باہر نکل گئے تھے جب کہ اندر جمی، جیزے اور اینگس بالٹیوں میں پانی بھر بھر کر آگ پر پھینکنے لگے، اور پھر کچھ ہی دیر میں آگ پھیلنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔ لیکن سیاہ پانی نے دیواروں کا ستیاناس کر دیا تھا۔ اینگس یہ دیکھ کر دکھی ہو گئے۔ ’’ان نشانات کو صاف کرنا تو ناممکن ہے، مجھے لازماً دوبارہ پینٹ کروانا پڑے گا۔‘‘

    تینوں واپس اندر آ گئے تھے، فیونا کا خیال تھا کہ آگ آتش دان سے لگی ہوگی، اس لیے اس نے آتے ہی پوچھا: ’’انکل، ہوا کیا ہے، آگ چھت تک کیسے پہنچی؟‘‘

    اینگس کی آنکھوں میں تشویش کے سائے دوڑنے لگے تھے، انھوں نے دھیمے لہجے میں کہا: ’’میں یہاں ایک طویل عرصے سے رہتا آ رہا ہوں، ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جمی اور جیزے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے۔ چند لمحے یوں ہی گزر گئے، آخر کار جمی نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ’’جی ہاں، یہ وہی دشمن ہے، اب ہمیں مزید احتیاط کرنی ہوگی، اس گولے میں جتنے ہیرے آئیں گے، اتنی ہی پریشانیاں ہمارے ارد گرد بڑھیں گی۔‘‘

    وہ تینوں پریشان کھڑے تھے، اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن اتنا وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ تینوں بڑے وہ کچھ جانتے ہیں جو انھیں معلوم نہیں تھا۔ ایسے میں دانیال نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا: ’’آخر یہاں ہو کیا رہا ہے؟‘‘

    اینگس اچانک ان کی طرف مڑے: ’’میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں تم سب کو کھل کر ساری بات بتا دوں۔‘‘ انھوں نے ایک طویل سانس لی اور پھر جمی اور جیزے سے مخاطب ہوئے: ’’براہِ مہربانی آپ دونوں یہاں صفائی کر دیں، میں ابھی آ کر آپ دونوں کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ تینوں بچوں کو اندر کمرے میں لے گئے اور بتانے لگے: ’’جمی، جیزے اور جونی وہ نہیں ہیں جو وہ بتاتے ہیں، لیکن پہلے مجھ سے وعدہ کرو کہ یہ باتیں کسی کو نہیں بتاؤ گے۔‘‘

    تینوں نے وعدہ کر لیا تو اینگس نے کہا: ’’جمی کا اصل نام کوآن، جیزے کا پونڈ اور جونی کا کیتھور ہے، آلرائے کیتھمور…‘‘

    اتنا سنتے ہی تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ ’’یعنی کنگ کیگان کا مؤرخ، جس نے وہ قدیم کتاب لکھی؟‘‘ جبران کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اینگس نے مضبوط لہجے میں کہا: ’’جی ہاں ۔۔۔ آلرائے کیتھمور۔‘‘

    ’’نہیں یہ ناممکن ہے، وہ تو صدیوں پہلے کا انسان تھا۔ کوئی بھی شخص اتنی طویل عمر نہیں جی سکتا۔‘‘ جبران نے سر انکار میں ہلاتے ہوئے کہا اور باقی دونوں کی طرف تصدیق کے لیے دیکھا۔ فیونا اور دانیال نے بھی سر ہلا دیا۔

    اینگس نے سر زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا: ’’یاد کرو، میں نے تم سے کنگ کیگان کے جادوگر زرومنا کا ذکر کیا تھا، اس نے آلرائے کیتھمور پر ایک منتر پڑھا تھا۔ یعنی جب بھی، کسی بھی زمانے میں قدیم کتاب کھول لی جاتی ہے، وہ ٹائم پورٹل کے ذریعے سفر کرتے ہوئے مستقبل میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘

    ’’اوہ …‘‘ تینوں کے منھ حیرت سے کھل گئے۔ دانیال کو ابھی یقین نہیں آ رہا تھا، وہ بولا: ’’آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جونی ماضی سے آیا ہے … ایک قدیم دور سے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ اینگس نے سنجیدگی سے جواب دیا: ’’جب کہ جمی یا کوآن وہ شخص ہے جس نے سیاہ آبسیڈین کو ہائیڈرا میں چھپایا اور وہاں پھندے لگائے۔ اسی طرح جیزے یا پونڈ نے مرجان کو آئس لینڈ میں چھپایا تھا۔ جب تم کوئی ہیرا حاصل کرتے ہو اور ہم اسے واپس جادوئی گولے میں رکھ دیتے ہیں تو یہ لوگ بھی ایک ایک کر کے اس دور میں چلے آتے ہیں۔ زرومنا کا منتر ان پر بھی ویسے ہی کام کرتا ہے جیسا کہ آلرائے کیتھمور پر کرتا ہے۔‘‘

    تینوں ششدر ہو کر یہ عجیب و غریب کہانی سن رہے تھے۔ اتنی عجیب و غریب کہانی انھوں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ اور یہ سب تو خود ان کے ساتھ ان کی زندگی میں حقیقتاً ہو رہا تھا۔ جبران بولا: ’’تو یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے بچھو اور ہائیڈرا کی بلائیں تخلیق کیں؟‘‘
    دانیال بھی بول اٹھا: ’’اور انھوں نے وائیکنگز اور زلزلہ پیدا کیا تھا!‘‘

    (جاری ہے)

  • اَسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ڈریٹن کافی دیر سے ایلسے کے چھوٹے سے سرائے خانے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کے غسل خانے میں گھسا ہوا تھا۔ وہ پینٹ سے لتھڑے ہاتھ دھو رہا تھا اور سارے غسل خانے کو گندا کر رہا تھا، ساتھ ساتھ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔

    ’’مائری کو دیواریں اور ساری چیزیں صارف کرتے ہوئے یقیناً خوب مزا آیا ہوگا، اور اب ایلسے کو بھی آئے گا۔ ویسے بھی لوگ اسے رقم دیتے ہیں تو یہ اسے صاف کرنا ہی ہوگا، ہاں بے چاری کو مجھ سے کچھ نہیں ملے گا۔ امید ہے کہ آج رات کے کھانے کے لیے اس نے کوئی زبردست قسم کی ڈش تیار کی ہوگی۔ اگر کوئی بے مزا چیز پکی ہو گی تو میں اس سرائے خانے کو نیا رنگ دے دوں گا۔‘‘

    ہاتھ دھو کر جب وہ نیچے اترا تو ایلسے کو کنٹربری سے آئے ہوئے ایک جوڑے کے ساتھ محو گفتگو پایا۔ ایلسے کی نظر اس پر پڑی تو فوراً بول اٹھی: ’’ہیلو ڈریٹن… میں ذرا ان براؤنز صاحبان کو بتا رہی تھی کہ آج جو میں ٹی پارٹی میں گئی تھی، وہ کیسی رہی۔‘‘ ڈریٹن نے اس کی بات نظر انداز کر کے پوچھا: ’’رات کے کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایلسے نے گردن گھما کر بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا اور جواب دینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی: ’’میں براؤنز صاحبان کو یہ بتا رہی تھی کہ شاہانہ نے ایک شان دار پارٹی دی تھی مائری مک ایلسٹر کے اعزاز میں، لیکن کوئی شیطان اس کے گھر میں گھس گیا تھا اور بہت گندگی پھیلائی۔‘‘

    ڈریٹن نے چونکنے کے اداکاری کی: ’’اوہ، یہ تو بہت شرم کی بات ہے، میں ضرور مائری کے گھر جاؤں گا۔‘‘

    ایلسے نے بات جاری رکھی: ’’میں کیا بتاؤں، شاہانہ نے کتنی خوب صورت پارٹی دی تھی۔ میز پوش اتنے حسین تھے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، شاید وہ پاکستان سے لائی ہیں۔ فنگر سینڈوچ، ڈبل روٹیاں، بسکٹ، کیک، چائے اور جانے کیا کچھ تھا، بہت مزا آیا۔‘‘

    ڈریٹن دل ہی دل میں تلملا رہا تھا، غصّے کو دباتے ہوئے بولا: ’’اگر آپ کہہ رہی ہیں تو واقعی بہت اچھی پارٹی رہی ہو گی، لیکن رات کے لیے یہاں کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایک بار پھر وہ مطلب کی بات پر آ گیا تھا لیکن ایلسے نے اسے پھر گھورا اور لمبی سانس لے کر کہا: ’’تم بہت اکھڑ مزاج ہو … بہرحال رات کے کھانے میں پودینے کی چٹنی کے ساتھ بھنی ہوئی بھیڑ، آلو کا بھرتا، مٹر اور ڈبل روٹی اور اس کے بعد پنیر کا کیک ہوگا۔ تمھیں تو یہ پسند ہوں گے نا ڈریٹن؟‘‘ کہتے کہتے آخر میں ایلسے نے برا سا منھ بنا لیا۔

    ڈریٹن خوش ہو کر بولا: ’’اوہو … زبردست … میرے خیال میں پہلے میں باہر کا ایک چکر ضرور لگا آؤں تاکہ بھوک خوب بڑھ جائے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے براؤنز فیملی کی جانب دیکھا اور مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا: ’’آپ دونوں سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ اس کے بعد اس نے برطانوی جوڑے کا جواب سننے کا انتظار بھی گوارا نہیں کیا اور چلا گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے دانت کچکچائے: ’’ہونہہ … احمق انگریز … دیکھ لوں گا رات کو ان سے بھی۔ ابھی پہلے تو مجھے قلعہ آذر جانا ہے تاکہ وہ زیلیا کا عظیم جادوگر، عزت مآب پہلان مجھ پر پھر خفا نہ ہو۔‘‘ ڈریٹن نے قہقہہ لگایا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔ درختوں کے جھنڈ سے ہوتے ہوئے جب وہ جھیل پہنچا تو اسے مخصوص مقام پر کشتی نظر نہیں آئی۔ وہ چونک اٹھا۔ اس نے آس پاس تلاش کیا لیکن کشتی نہیں ملی۔ وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب قلعے سے کیسے پہنچے۔ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ اس میں تیر کر جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک پتھر اٹھایا اور غصے سے جھیل میں پھینک دیا۔ اسی عالم میں وہ حسب عادت بڑبڑانے لگا: ’’پہلان سوچے گا کہ میں کہاں مر گیا ہوں۔ ٹھیک ہے، تو پھر میں اس اینگس کے بچے کی گردن ناپوں گا۔‘‘

    وہ غصے سے پھنکارتا ہوا اینگس کے گھر کی جانب چل پڑا۔

    (جاری ہے…)

  • ستتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے فیونا، یہ دیکھو، دروازے میں یہ دعوت نامہ پڑا ملا۔‘‘ مائری بولیں، فیونا اس وقت ناشتہ کر رہی تھی، اس نے پوچھ لیا کہ کیسا دعوت نامہ۔ مائری نے کہا: ’’یہ تو جبران کی امی شاہانہ کی طرف سے ہے، انھوں نے ہمارے اعزاز میں ٹی پارٹی دی ہے دوپہر کو۔‘‘ وہ ایک لمحہ کو ٹھہریں اور پھر بولنے لگیں: ’’اسکول میں ویسے بھی ہاف ڈے ہے، واپسی پر دیر مت کرنا، میں تمھارے بہترین کپڑے نکال کر رکھ دوں گی، میں بھی کام سے جلدی آ جاؤں گی۔‘‘
    فیونا نے ناشتہ مکمل کر لیا تو کتابیں بیگ میں ڈال کر اسکول کے لیے چل دی۔
    ۔۔۔۔

    دوسری طرف جب جونی جبران کے گھر پہنچا تو وہ اور اس کے والد بلال گھر سے نکل چکے تھے، شاہانہ نے کہا کہ آج جونی برادرز کو تھوڑا سا وقت کہیں اور بِتانا پڑے گا کیوں کہ یہ خواتین کی پارٹی ہے۔

    جونی وہاں سے اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، جب کہ شاہانہ کافی دیر تک کھانے کی چیزیں تیار کرتی رہیں۔ گوٹا کناری والے میز پوش نکال کر گول میزوں پر بچھائے اور باغیچے سے تازہ پھول توڑ کر گل دانوں میں سجائے اور پھر باقی انتظامات کرنے لگ گئیں۔
    ۔۔۔۔

    اسکول سے واپسی پر فیونا نے اپنا پسندیدہ، سفید رنگ کا لباس پہنا، جس پر بینگنی رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑھے گئے تھے، اور گلے اور کناروں پر زیتون کے سبز پتے بنے ہوئے تھے۔ فیونا کو بستر پر سفید دستانے اور ایک ٹوپی بھی دکھائی دی، وہ فوراً بولی: ’’اوہ ممی، میں ہیٹ نہیں پہنوں گی۔‘‘

    مائری نے آنکھیں گھما کر کہا: ’’فیونا… سمجھا کرو… یہ ٹی پارٹی ہے۔ دستانے اور ہیٹ پہن لو، میں بھی تو پہن رہی ہوں۔‘‘

    فیونا نے ہیٹ اٹھا کر سر پر رکھا اور آئینے میں خود کو دیکھا، پھر منھ بنا کر بولی: ’’دیکھو کتنا برا لگ رہا ہے، احمق لگ رہی ہوں۔‘‘
    ۔۔۔۔

    جونی اینگس کے گھر پہنچا تو وہاں جمی اور جیزے پہلے ہی سے موجود تھے۔ اینگس بولے: ’’آپ کے بھائیوں نے مجھے آپ کی جنم بھومی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ جونی چونکا: ’’اوہ، تو آپ سب جان گئے ہیں، اچھی بات ہے، لیکن میں یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتا، مائری کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘ اینگس نے کہا کیا آپ قدیم کتاب دیکھنا چاہیں گے اور یہ کہہ کر انھوں نے دراز سے کتاب نکال لی۔ ’’یہ رہی وہ کتاب جو صدیوں پہلے آپ ہی نے لکھی تھی۔ اسے دیکھ کر آپ کو پرانی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔‘‘

    جونی نے کتاب ہاتھوں میں جیسے ہی لی، اس کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا۔ اس کا چہرہ جوش اور مسرت سے تمتمانے لگا تھا، اور بولتے وقت آواز بھی جذبات سے لرزنے لگی: ’’یہ … یہ … میری کتاب … اوہ … یہ آج بھی سلامت ہے … اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی… حیرت انگیز!‘‘

    وہ کتاب لے کر جلدی سے بیٹھ گیا اور ایک ایک ورق الٹ کر دیکھنے لگا۔ ’’مجھے اب بھی یاد ہے جب میں اسے لکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہو۔‘‘ وہ صدیوں پرانی یادوں میں کھو گیا تھا کہ اچانک اسے اینگس کی آواز نے چونکایا۔

    ’’آپ نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ کتاب کا ایک حصہ آپ نے فونیزی اور عربی زبانوں میں لکھا ہے اور پھر اسکاٹ لینڈ آمد کے بعد گیلک میں لکھنے لگے، یہ ایک ملغوبا بن گیا ہے۔‘‘

    جونی یعنی آلرائے کیتھمور مسکرا دیا اور بولا: ’’میں دراصل بہت تیزی سے زبانیں سیکھنے لگتا ہوں۔ ہمارا ایک ملازم ایک مقامی دیہاتی تھا جس کا نام بروس تھا۔ جب وہ اپنا کام ختم کرتا تھا تو میں اسے لے کر اپنے کمرے میں آ جاتا اور پھر اس سے میں گیلک زبان سیکھتا۔ وہ بہت شان دار آدمی تھا، مجھے آج بھی یاد آتا ہے۔‘‘

    باقی لوگوں نے اسے قدیم کتاب اور اس سے وابستہ یادوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا اور اینگس کے ساتھ باہر نکل کر ایک قدیم شاہ بلوط کی شاخوں کے نیچے کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔

    (جاری ہے…)

  • پچھتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں‌

    اس کے بعد جادوگر پہلان نے اسے دونوں طاقتیں استعمال کرنے کا طریقہ بتا دیا اور ڈریٹن آدھی رات تک قلعے میں ٹھہر کر اس کی مشق کرتا رہا۔ جب وہ اس میں ماہر ہو گیا تو پہلان کی آواز آئی: ’’اب جاؤ، اور اس وقت آنا جب اندھیرا پھر سے چھا جائے۔ تب تک خود کو ہنگاموں سے دور رکھو اور اس لڑکی فیونا کے بارے میں جو بھی معلوم کر سکتے ہو معلوم کرو۔‘‘

    ڈریٹن نے جواب دیا: ’’میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں کہ وہ اپنی ماں مائری کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، تم جاؤ اور محتاط رہو۔‘‘ یہ کہہ کر پہلان جادوگر کا سایہ دروازے سے باہر نکلا اور جھیل کی طرف جا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈریٹن بھی بی اینڈ بی کی طرف لوٹ گیا لیکن دروازہ بند تھا۔

    اس نے دیوار پر نظر دوڑائی اور اس پر چڑھ کر کھڑکی کے ذریعے اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ سونے سے قبل اس نے اپنا ای میل دیکھا کہ کتاب کا ترجمہ ہو کر آ گیا ہے یا نہیں۔ کولن کی طرف سے ای میل آ گیا تھا کہ وہ اس کا ترجمہ نہیں کر سکا، کیوں کہ زبان اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ پڑھ کر ڈریٹن کا دماغ غصے سے ابلنے لگا۔ اس نے نہایت غصے سے جواب ٹائپ کیا: ’’یہ کیا بکواس ہے کولن؟ احمق آدمی … کیا مطلب ہے کہ تم اسے ترجمہ نہیں کر سکے۔ ٹھیک ہے بھول جاؤ اسے اب، مجھے اس کی ضرورت ویسے بھی نہیں رہی۔‘‘ یہ لکھ کر اس نے پیغام بھیج دیا اور لیٹ گیا، لیکن غصے کی وجہ سے نیند تب تک نہیں آئی جب تک کہ صبح نہ ہوئی۔

    (جاری ہے…)

  • چوہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    ڈریٹن زندگی میں پہلی بار اتنی رفتار سے بھاگا تھا۔ وہ اتنا دوڑا، اتنا دوڑا کہ اس کی سانس اکھڑنے لگی اور سینے میں درد ہو گیا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سینہ ایک دم پھٹ جائے گا۔ اس کا رخ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کی بجائے اس جھیل کی طرف تھا جہاں سے کشتی میں بیٹھ کر وہ سیدھا قلعے میں دوڑتا گھس گیا۔ وہ دیوار میں بنے محرابی دروازے سے اندر چلا گیا۔ چاند آسمان میں عین درمیان چمک رہا تھا، جس کی چاندنی قلعے کی مرمریں دیواروں کی دراڑوں سے اندر چھن چھن کر آ رہی تھی۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ وہ پتھروں پر ٹھوکریں کھاتا ہوا اُسی کمرے میں پہنچ گیا، جہاں اس نے بے قابو سانسوں کے درمیان پکارا: ’’پہلان …. یا جو بھی تمھارا نام ہے اے جادوگر … میرے سامنے آؤ … جلدی کرو!‘‘

    یکایک عجیب سی سرسراہٹ کی آواز سے ڈریٹن کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔ وہ دروازے کی طرف کھسکنے لگا۔ اندھیرے سے ایک سیاہ سایہ ابھرا۔ سائے کی کوئی شکل نہیں تھی، لیکن جو بھی اسے دیکھتا، دہشت زدہ ہو جاتا۔ سایہ ڈریٹن کی طرف بڑھا تو وہ مزید پیچھے ہٹ گیا۔ اگلے لمحے سائے نے جادوگر کا روپ دھار لیا، اور وہ فرش سے دو فٹ اوپر معلق ہو گیا۔

    ’’تم بہت جلدی واپس آ گئے ہو ڈریٹن!‘‘ جادوگر کی آواز قلعے میں گونج کر رہ گئی۔
    ڈریٹن جلدی جلدی بولنے لگا: ’’معاملہ پے چیدہ ہو گیا ہے۔ گولا اینگس کے قبضے میں ہے، میں نے خود دیکھ لیا ہے۔ اس میں دو پتھر بھی نصب ہیں لیکن مجھے چند اور لوگ بھی نظر آئے۔ ایک نے میرا تعاقب بھی کیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آنکھیں ملنے لگا۔

    ’’تو اینگس نے تمھارے ساتھ ایسا کیا…؟‘‘ جادوگر کی آواز گونجی۔

    ڈریٹن تلملایا: ’’میں اس کا گلا کاٹ ڈالوں گا۔ اس سے گولا حاصل کرنا مشکل نہیں تھا لیکن میں نے چاہا کہ وہ لڑکی خود کو خطرے میں ڈال کر تمام ہیرے حاصل کر لے، میں بھلا اینگس بوڑھے سے کیوں ڈروں گا۔‘‘

    ’’ہاں ضرور… تم اس کا گلا کاٹ سکتے ہو لیکن اس وقت جب تمام ہیرے جمع ہو جائیں، فی الحال تم محتاط رہو اور اس لڑکی اور اینگس پر نظر رکھو۔ اور تم نے دیگر آدمیوں کا ذکر کیا، مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ان کا تعلق ماضی سے ہے، جو ایک خاص مقصد کے تحت یہاں آئے ہیں، یاد رکھنا کہ وہ تمھیں روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔‘‘ جادوگر پہلان کا سایہ بولا۔

    ڈریٹن غرایا: ’’میں انھیں بھی قتل کر دوں گا۔ آخر تم مجھے کب منتر سکھاؤ گے۔ وہ لڑکی اب دو چیزیں جانتی ہے۔ ہر مرتبہ جب وہ کوئی پتھر حاصل کرتی ہے اس کے پاس ایک نئی طاقت آ جاتی ہے۔ میں اس سے بھی زیادہ طاقت چاہتا ہوں، اس لیے مجھے منتر سکھاؤ۔‘‘

    جادوگر کی آواز گونجنے لگی: ’’ایک تو تم مطالبے بہت کرتے ہو ڈریٹن… مجھے خدشہ ہے کہ اس طرح تم ایک دن منھ کے بل گر جاؤ گے۔ تم بہت مغرور اور بد مزاج ہو۔ ٹھیک ہے، جب تک ہمیں گولا نہیں مل جاتا، میں تمھیں وہی طاقتیں دے سکتا ہوں جو اس لڑکی کے پاس ہیں۔ اگر ابھی صرف دو پتھر ملے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ لڑکی کے پاس آگ لگانے اور خود کو چھوٹا بڑا کرنے کی طاقتیں موجود ہیں۔‘‘

    اچانک ڈریٹن خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’تمھارا مطلب ہے کہ میں اینگس کے گھر کو آگ لگا کر بھسم کر سکتا ہوں، اوہ یہ تو زبردست ہوگا۔‘‘

    ’’عقل سے کام لو احمق لڑکے۔‘‘ جادوگر کی تیز آواز گونجی۔ ’’اس وقت تم سب کو سکون سے رہنے دو، کوئی پنگا مت کرنا۔ تم خود کہہ رہے ہو کہ گولا اینگس کے پاس ہے اس لیے جب تک وہ ساری چیزیں ہمارے قبضے میں نہیں آتیں، تم کوئی گڑ بڑ مت کرنا۔ جب یہ ہو جائے تو پھر اپنی خواہش کے مطابق جو کرنا چاہو کرلینا۔ ایک بات یاد رکھنا، یہ طاقتیں تمھیں صرف اسی صورت میں ملیں گی جب ہیرے ایک ایک کر کے گولے میں نصب ہوں گے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • تہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جمی نے جواب دیا: ’’شہزادی ازابیلا نے رابرٹ کے بھائی کولن سے شادی کی تھی۔‘‘
    چوں کہ ساری کہانی اب واضح ہو گئی تھی اس لیے اینگس نے کہا: ’’اب باقی ہیروں کا کیا بنے گا؟ اب تو آپ یہیں پر ہیں تو خود جا کر انھیں کیوں حاصل نہیں کر لیتے۔ بچوں پر سے اتنی بھاری اور خطرناک ذمہ داری کا بار ہٹ جائے گا۔‘‘

    ’’بات دراصل یہ ہے۔‘‘ جمی کہنے لگا: ’’صرف فیونا ہی یہ ہیرے جمع کر سکتی ہے۔ مائری بھی اگر ضرورت پڑی تو مدد کر سکتی ہیں اور یہ بھی بچوں پر ہے۔ فیونا ہماری واحد امید ہے۔ جب تک جادوئی گولا مکمل نہیں ہوتا تب تک ہم خود کو پہلان اور دوگان کے حملوں سے نہیں بچا سکتے۔ وقت آئے گا تو آلرائے کو ایک منتر آتا ہے، اس کے ذریعے وہ انھیں علاقے سے دور رکھ سکتا ہے۔ بس اسی لیے فیونا ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ وہ جتنی جلدی یہ ہیرے حاصل کرتی ہے، ہم اتنا ہی زیادہ محفوظ ہوتے جائیں گے۔‘‘

    اینگس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ جمی نے جیزے کو مخاطب کیا: ’’پونڈ! میں بلال کے ہاں جا رہا ہوں، تم یہاں ہوشیار رہنا۔ مجھے یقین تو نہیں ہے کہ وہ آج رات دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کرے گا، لیکن کسی بھی غیر معمولی واقعے کے لیے تیار رہنا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دوسری طرف مائری، فیونا اور جونی مل کر گھر کی صفائی کر رہے تھے۔ فیونا نے کچن کی دیوار رگڑتے ہوئے کہا: ’’ممی، کیا آپ جانتی ہیں کہ جونی کے بہت سارے بھائی ہیں؟‘‘
    ’’ہاں، جیزے کی آمد سے پہلے معلوم نہیں تھا، اس کے آنے کے بعد جونی نے بتایا کہ اس کے بارہ بھائی ہیں۔‘‘

    ’’ممی، کیا آپ نے غور کیا، ان کے نام ’ج‘ سے شروع ہوتے ہیں۔‘‘ فیونا مڑ کر بولی: ’’کتنا عجیب ہے نا!‘‘

    مائری نے باورچی خانے سے نکل کر کمرے کا جائزہ لیا اور لمبی سانس لی: ’’اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ کسی نے ہمارے گھر میں گھس کر سب کچھ الٹ پلٹ دیا ہے۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ہاں یہ تو ہے، اور پتا ہے ممی، جس شخص نے ہمارے گھر کے ساتھ یہ کیا، وہ آج رات انکل اینگس کے گھر میں بھی گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘

    مائری چونک اٹھیں: ’’کیا… لیکن تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ وہی تھا۔‘‘

    فیونا نے جلدی سے کہا: ’’دراصل انکل اینگس، جمی اور جیزے کا رویہ عجیب تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہاں کوئی جنگلی جانور ہے لیکن مجھے یقین ہے یہ وہی برا آدمی تھا، جس کا ارادہ تھا کہ وہاں سے …..‘‘

    فیونا کہتے کہتے ایک دم رک گئی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کی ممی کو ابھی تک جادوئی گولے اور اس سے جڑے واقعات کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘

    مائری نے پوچھا: ’’کیا ارادہ تھا، کیوں چپ ہو گئی ہو؟‘‘

    ’’کچھ نہیں ممی، چھوڑیں اس بات کو، میں بہت تھک گئی ہوں اب، جا کر لیٹتی ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

    (جاری ہے)

  • بہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جمی نے کہا: ’’وہ اس قابل ہو جائے گا کہ جادوگر پہلان کو آزاد کر سکے، جو ایک شیطان ہے۔ وہ اس وقت موت کی قید میں ہے، اور وہ صرف اپنی روح کے ذریعے اُس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ گولا حاصل کرنے کے بعد وہ مل کر خوف و دہشت اور خون خرابے کے ساتھ دنیا پر حکومت کرنے لگیں گے۔ کوئی بھی ان کو روک نہیں پائے گا۔ پہلان اسے تمام شیطانی کام کرنے پر اکسائے گا، حتیٰ کہ قتل کرنے پر بھی آمادہ کرے گا۔ اس طرح وہ روح کی قید سے آزاد ہو کر جسمانی صورت میں پھر نمودار ہو جائے گا اور اس کے پاس اپنی ساری طاقتیں واپس آ جائیں گی۔ وہ بات جو اس نوجوان کو معلوم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پہلان کی خواہش کے مطابق کام ہو جائے گا تو وہ اس نوجوان کو مار دے گا کیوں کہ وہ اس کے کسی کام کا نہیں ہے۔‘‘

    یہ سن کر اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں یہ ٹھیک رہے گا کہ آپ یا آپ کا بھائی جیزے یہاں رہے۔‘‘ اینگس کہتے کہتے مسکرائے۔ ’’ٹھیک ہے اس کا نام پونڈ ہے لیکن میں اسے جیزے ہی کہوں گا۔‘‘

    جمی نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس طرح بات دوسروں پر نہیں کھلے گی، کیوں کہ رازداری ضروری ہے، ورنہ یہ معلومات غلط لوگوں کے ہاتھ لگی تو ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ جیزے پہنچ گیا، اس نے آتے ہی کہا: ’’بچّے بہ حفاظت گھر پہنچ گئے۔ آلرائے مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے اسے فیونا کی ماں کے گھر رہنے کی ضرورت سے آگاہ کیا، کیوں کہ یہاں اب سبھی متعلقہ لوگوں خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔‘‘

    جمی نے کہا: ’’ہم یہ بات جانتے ہیں کہ فیونا اپنی ماں کی طرف سے اصل وارث ہے لیکن یہاں جو شخص جھانک رہا تھا وہ بھی معمولی نہیں ہے۔ اس کی رگوں میں بھی کیگان اور دوگان کا خون دوڑ رہا ہے۔‘‘

    اچانک اینگس نے پوچھا کہ جمی فیونا اور مائری سے متعلق کیا جانتا ہے۔ جمی نے کہا: ’’جب دوگان نے شہزادی آنا اور ازابیلا کو اغوا کیا تو اس نے دونوں سے زبردستی شادی رچائی۔ ازابیلا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام ہیگر رکھا گیا۔ دوگان نے بچہ اس سے لے لیا اور پھر دونوں شہزادیوں کو در بہ در ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے ہیگر اپنے باپ کی طرح ظالم اور بد کردار نکلا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نسل کا ہر وارث ایسا ہی ظالم اور بد کردار تھا۔ اگرچہ شہزادی ازابیلا نے انتقام کی قسم کھا لی تھی لیکن وہ کبھی انتقام نہ لے سکی۔ ہیگر نے اس بات کو یقینی بنا لیا تھا کہ اس کی ماں کسی بھی صورت سلطنتِ زناد میں قدم ہی نہ رکھ سکے۔ لیکن دوگان کو ایک بات کا علم نہیں تھا، وہ یہ کہ شہزادی آنا بھی اس کے ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔ جب دونوں شہزادیوں کو زناد سے نکالا گیا تو دوران سفر وہ بھی بیٹے کی ماں بنی۔ جب وہ قلعہ آذر پہنچیں تو اس وقت بچے کی عمر دو سال تھی۔ دونوں شہزادیوں نے دو مقامی بھائیوں کے ساتھ شادی کر لی۔ انھوں نے اپنے اس بچے کی حقیقت کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ آنا کا شوہر رابرٹ فرگوسن ایک بہت اچھا انسان تھا، اس نے آنا کے بچے کو اپنے بیٹے کی طرح پالا، اور بچّے کا نام انھوں نے جوربی رکھ لیا۔ اس کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا اصل باپ کون تھا۔ چناں چہ اس ساری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ مائری اور فیونا بھی دونوں بادشاہوں کیگان اور دوگان کی مشترکہ وارث ہیں۔ انھیں خود اس رشتے کا علم نہیں ہے اور بہتر بھی یہی ہوگا کہ انھیں اس حقیقت کا پتا نہ چلے۔‘‘

    ’’تو شہزادی ازابیلا نے کس سے شادی کی؟‘‘ اینگس نے اگلا سوال کیا۔

    (جاری ہے)