Tag: رفیع اللہ میاں

  • انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    دروازے پر دستک کی آواز سن کر اینگس کے ماتھے پر ناگواری کا تاثر پھیل گیا۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے، دروازے کی طرف بڑھے۔ ’’کون ہو سکتا ہے اس وقت، یہ تو رات کے کھانے کا وقت ہے؟‘‘ اینگس نے دروازہ کھول کر دیکھا، دو اجنبی کھڑے تھے۔ جب فیونا کی نظر جمی پر پڑی تو وہ چہک کر بولی: ’’ٹھیک ہے انکل، یہ جمی ہیں اور جبران کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘

    یہ سن کر اینگس کے چہرے کا تناؤ کم ہو گیا اور انھوں نے خوش دلی سے مہمانوں کو اندر بلا لیا۔ جمی نے اندر بیٹھ کر تعارف کرایا: ’’میں جمی تھامسن ہوں اور یہ میرا بھائی جیزے ہے، یہ ابھی ابھی شہر پہنچا ہے۔‘‘

    جیزے کی نظر وہاں فرش پر پڑیں چوکور بلاکس پر گئی تو اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا اور بہ غور دیکھنے لگا۔ ’’یہ کس کے ہیں؟‘‘ اس کے منھ سے بے اختیار نکلا۔ فیونا نے کہا کہ یہ انکل اینگس نے بڑی مہارت سے بنائے ہیں اور پینٹ بھی خود ہی کیا ہے۔ اسی لمحے جمی اینگس کو لے کر ایک کونے کی طرف چلا گیا اور سرگوشی کرنے لگا، پھر دونوں پچھلے دروازے سے باہر نکل گئے۔ جیزے نے بچوں کی توجہ ان کی طرف سے ہٹانے کے لیے وہیں فرش پر بیٹھ کر کہا: ’’فیونا مجھے ان بلاکس کے بارے میں مزید کچھ بتاؤ۔ یہ بہت شان دار ہیں، ان کی بناوٹ قدیم سیلٹک ڈیزائن کی ہے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’یہ انکل اینگس نے خود بنائے ہیں، لیکن میں ایک بات نہیں سمجھا، آپ اس وقت یہاں کیوں آ گئے ہیں۔‘‘ جبران کے استفسار پر فیونا چونک اٹھی اور اسے ٹوکا کہ اس طرح نہیں پوچھتے۔ لیکن جیزے نے جواب دیا کہ وہ جبران کے والد سے مل کر آ رہے ہیں اور انھیں گھر لے کر جائیں گے، نہ صرف انھیں بلکہ فیونا کو بھی۔ جیزے نے بتایا کہ فیونا کے گھر پر کسی نے گھس کر زبردست توڑ پھوڑ کی ہے۔

    فیونا یہ سن کر اچھل پڑی، اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار چھا گئے تھے۔ اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’کک … کیا ہوا میرے گھر میں … اور ممی کیسی ہیں، وہ ٹھیک تو ہیں نا؟ … مم … میں فوراً گھر جاؤں گی۔‘‘

    جیزے نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی کہ اس کی ممی ٹھیک ٹھاک ہے لیکن فیونا کی پریشانی کم نہ ہوئی۔ اس نے پوچھا: ’’یہ انکل اینگس اور جمی کہاں چلے گئے ہیں اچانک؟‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑ کر دروازے کے پاس گئی اور پٹ کھول کر انکل کو آواز دی۔ ذرا دیر بعد اینگس درختوں کی اوٹ سے نمودار ہوئے: ’’میں ٹھیک ہوں فیونا، ہم ذرا پچھلی کھڑکی کے پاس جا کر دیکھ رہے تھے، دراصل جمی کا خیال تھا کہ اس نے یہاں کسی جنگلی جانور کو دیکھا تھا۔‘‘

    ’’لیکن یہاں تو عجیب قسم کی آوازیں آ رہی تھیں ابھی۔‘‘ فیونا نے سوال کیا: ’’کیا جمی ٹھیک ہیں۔‘‘ وہ دوڑ کر دیکھنے لگی، لیکن اینگس نے کہا: ’’رک جاؤ فیونا، وہ ٹھیک ہے، ابھی آ جائے گا۔‘‘

    چند لمحوں بعد جمی بھی نظر آ گیا، وہ اپنی سانسوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’کوئی جانور تھا، میں نے تعاقب کر کے اسے بھگا دیا، اینگس میرے خیال میں آج رات وہ دوبارہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا۔‘‘

    جمی نے یہ کہہ کر جیزے کو مخاطب کیا: ’’جیزے، تم بچوں کو لے کر جاؤ، میں کچھ دیر تک اینگس کے پاس ٹھہروں گا، ہاں بلال سے کہنا کہ ہم چند گھنٹے بعد لوٹیں گے۔ بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچا کر تم یہاں واپس آ جانا۔‘‘

    جیزے نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن فیونا نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کہا: ’’یہاں آخر ہو کیا رہا ہے؟ کیا سب کچھ ٹھیک ہے؟ مجھے تو کچھ عجیب لگ رہا ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    جمی ایک لحظے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’لیکن میرا ابھی تک ان سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔ خیر، اب تو میں پہلا کام یہ کروں گا کہ تمھیں بلال کی فیملی میں متعارف کراؤں گا اور تمھارا نام ہو گا جیزے، اور تم ہمارے بھائی ہو۔ سچ یہ ہے کہ ہم بھائی ہی ہوں گے پونڈ، کیوں کہ یہ دنیا ہمارے لیے اجنبی ہے۔ آلروئے کیتھ مور فیونا کی ماں کا مہمان بنا ہوا ہے، کسی نے ان کے گھر میں گھس کر چوری کی ہے، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہو گی اگر یہ حرکت دوگان کے کسی وارث کا کارنامہ ہو۔ اب آؤ میرے ساتھ، میں تمھیں اپنے میزبانوں سے ملاتا ہوں۔‘‘

    جمی اسے اندر کی طرف لے جانے لگا تو مڑ کر بولا: ’’یاد رکھنا …. میں جمی ہوں۔‘‘

    جمی نے دروازہ کھولا اور گلا کھنکار کر کہا: ’’بلال صاحب، آپ حیران ہوں گے لیکن میں آپ کی ملاقات اپنے ایک اور بھائی سے کراؤں گا۔ یہ ہیں میرے بھائی جیزے۔ جب اس نے سنا کہ ہم یہاں پر ہیں تو اس نے بھی مچھلیوں کے شکار کے لیے ہم سے ملنے کا فیصلہ کر لیا، کیا آپ کے ہاں ہمارے لیے کمرا ہوگا؟‘‘

    بلال نے خوش دلی سے جواب دیا: ’’ہیلو جیزے، کیوں نہیں۔ میں بلال ہوں پاکستان نژاد، وہ جو آپ کو جام کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں میری بیوی شاہانہ ہے۔ آپ بے فکر رہیں، ہمارے گھر میں کئی اضافی کمرے ہیں، بس شاہانہ کو کچھ زیادہ پکانا پڑے گا لیکن وہ اس پر برا نہیں مناتیں۔‘‘

    جمی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کا بیٹا جبران کہاں ہے؟ وہ کافی دیر سے نظر نہیں آیا ہے۔‘‘

    بلال نے مسکرا کر کہا کہ وہ فیونا اور دانیال کے ساتھ اینگس کے گھر گیا ہے۔ اس پر جمی نے کہا کہ وہ بھی جیزے کو ساتھ کر کے اینگس کے ہاں جانا چاہ رہا ہے۔ اس کے بعد دونوں اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ جمی اسے یہاں کے بارے میں تفصیلات بتانے لگا، جو اسے خود بھی زیادہ پتا نہیں تھیں۔ جب وہ اینگس کے گھر کے قریب پہنچے تو جمی نے کہا یہ ہے گھر، لیکن اچانک جیزے نے جمی کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا اور کہا: ’’وہ دیکھو جمی، اینگس کے گھر کے باہر کوئی درختوں میں چھپا ہوا ہے، اور کھڑکی سے جھانک رہا ہے۔‘‘ جمی نے ایک کالا سایہ دیکھا اور بولا: ’’یہ ضرور ہمارے لیے پریشانی کھڑی کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دوگان ہی کا کوئی وارث ہے۔ چلو، بچوں کو حفاظت سے گھر پہنچائیں۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • سڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    جبران کی ماں شاہانہ کچن میں صفائی میں مصروف تھیں کہ دروازے پر دستک سنائی دی۔ شاہانہ نے بلال کو آواز دی۔ ’’آپ ذرا باہر جا کر دیکھیں، کون ہے؟‘‘
    انھیں تقریب سے آئے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی، آتے ہی وہ دونوں مختلف کاموں میں لگ گئے تھے۔ جبران کے والد بلال اس وقت آتش دان بھڑکا رہے تھے۔ عرفان اور سوسن پانی کے ٹب میں چھپا کے مار مار کر ہنس رہے تھے۔ وہاں سے مہمان خانہ نظر آرہا تھا جہاں اس وقت جمی صوفے پر ٹانگیں پھیلائے اونگھ رہا تھا۔ بلال نے جمی کو مخاطب کیا تو اس نے آنکھیں کھول لیں۔ ’’جمی، اگر برا نہ مناؤ تو ذرا دروازے پر جا کر دیکھ لیں، کون ہے؟ میرے ہاتھ کوئلے میں سیاہ ہو رہے ہیں۔‘‘

    ’’ضرور کیوں نہیں۔‘‘ جمی نے کہا اور جا کر دروازہ کھولا۔ دروازے پر کھڑے شخص کو دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔ اس کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’پونڈ … تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

    آنے والا ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجا کر بولا: ’’کووان! تم مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہوئے ہو؟ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ مجھے بھی آخر کار تم لوگوں سے ملنا ہی تھا، جیسا کہ دیگر لوگ یہاں آچکے ہیں… ارے ہاں آلروئے کہاں ہے؟‘‘

    جمی نے اسے جواب دینے کی بجائے اندر کی طرف مڑ کر بلند آواز میں کہا: ’’بلال … میں جلد ہی واپس آ جاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جلدی سے دروازہ بند کر لیا اور پونڈ کو بازو سے پکڑ کر باغیچے کی طرف لے گیا۔ ’’بے وقوف، تم ایسے کیوں چلے آئے۔ میں بلال سے تمھارے بارے میں کیا کہوں گا؟‘‘ لیکن پونڈ نے اس کی بات نظر انداز کر کے باغیچے میں گھاس پر بیٹھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پوچھا: ’’یہاں ہو کیا رہا ہے کووان؟ آلروئے کہاں ہے؟‘‘

    جمی بولا: ’’پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لو کہ میں یہاں جمی اور آلروئے جونی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ میں اتنا جان گیا ہوں کہ ہیرے ایک ایک کر کے جمع ہو رہے ہیں اور جادوئی گیند میں رکھے جا رہے ہیں۔ اب تک صرف دو ہی ملے ہیں۔ ایک میرا یعنی سیاہ آبسیڈین اور ایک تمھارا یعنی مرجان۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ باقی ہیروں کو جمع ہونے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا اب۔ پھر باقی لوگ بھی سامنے آ جائیں گے۔‘‘

    ’’تو آخرکار یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔‘‘ پونڈ نے لمبی سانس لے کر کہا: ’’ہیرے کون جمع کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ کنگ کیگان کا کوئی وارث ہوگا۔‘‘

    جمی یعنی کووان کہنے لگا: ’’ایک لڑکی ہے، جس کا نام فیونا مک ایلسٹر ہے، اور وہ کنگ کیگان کی وارث ہے۔ ایک بار جب ہم بارہ اکھٹے ہو جائیں گے اور بارہ ہیرے جادوئی گولے میں پہنچ جائیں گے، تب ہی ہم اس قابل ہوں گے کہ اپنے شروع کیے ہوئے کام کو انجام تک پہنچا سکیں۔‘‘

    پونڈ حیرت سے بولا: ’’ایک لڑکی یہ سب کچھ کر رہی ہے … کتنی عمر ہے اس کی؟‘‘ جمی نے جواب دیا: ’’اس کی عمر گیارہ سال ہے لیکن ہے بہت ذہین اور بہادر۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، کیا ہم فلسطین جائیں گے؟‘‘ پونڈ نے پوچھ لیا۔ جمی نے سر ہلا کر جواب دیا کہ ہاں وہ مل کر پہلے فلسطین جائیں گے اور پھر بورل لوٹ کر پرامن زندگی گزاریں گے۔ اس نے کہا: ’’صدیاں گزر گئیں ہیں صدیاں، یہاں پہلے کبھی ہماری سلطنت ہوا کرتی تھی، ہم اب بھی اپنی سلطنت قائم کر سکتے ہیں، جب وقت آئے گا تو ہم ایسا کریں گے۔ فی الحال ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم جادوئی گولے اور فیونا کی حفاظت کریں، یہاں تک کہ سارے ہیرے جمع کر لیے جائیں اور گولا ایک بار پھر ہمارے قبضے میں آ جائے۔‘‘

    پونڈ نے ایک بار پھر سوال کیا: ’’دوگان اور پہلان کے بارے میں کیا خبر ہے؟‘‘
    ’’’’مجھے خدشہ ہے پونڈ، کہ وہ یہیں پر ہیں۔‘‘ جمی نے سرسراتی آواز میں کہا۔

    (جاری ہے …)

  • پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    انھوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ وہ اینگس کے گھر پر کھڑے تھے۔ جبران نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’وہ سو رہے ہیں، ہمیں دھیمے قدموں سے یہاں سے جانا چاہیے، کہیں ان کی نیند میں خلل نہ آ جائے۔‘‘

    ’’ہم ایسا نہیں کر سکتے، مرجان کو گولے میں رکھنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے اینگس کو جگا دیا۔ وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے، انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی واپس آ جائیں گے۔ اینگس نے کہا کہ انھیں شاید اونگھ آ گئی تھی اور یہ کہ وہ سو نہیں رہے تھے۔ فیونا نے مرجان ان کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہمیں یہ بہت مشکل سے حاصل ہوا ہے، کبھی ٹرالز، کبھی زلزلہ تو کبھی وائی کنگز … بس سارا وقت دوڑتے بھاگتے ہی گزرا۔‘‘

    جبران نے بتایا کہ انھیں ایک موقع پر پفن نے بچایا: ’’مجھے تو ٹرالز پکڑ کر زندہ بھون کر کھانا چاہ رہے تھے، لیکن بچت ہوگئی۔‘‘

    ایسے میں دانیال بھی حالات کا ایک حصہ بتانے لگ گیا: ’’ہم ایک کشتی میں گئے، نیلی جھیل میں تیراکی کی، اور پتا ہے ایک بھتنے اور روشنی کی پری سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔‘‘

    یہ سن کر جبران اور فیونا حیرت کے مارے اچھل پڑے۔ وہ کسی جادوئی دنیا میں نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں کھڑے تھے۔ لیکن دانیال نے بڑی روانی سے انگریزی میں بات کی تھی۔

    ’’اوہ … اس کا مطلب ہے کہ اب تم انگریزی مکمل طور پر سیکھ چکے ہو۔‘‘ فیونا نے دانیال کی طرف حیرت سے دیکھا۔ دانیال خود بھی اچھل پڑا تھا۔ اس کے منھ سے نکلا …. ارے … یہ …. یہ کیسے ہو گیا؟ جبران نے خوش ہو کر کہا چلو اچھا ہوا، اب مجھے ترجمانی کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ وہ دونوں اس بات پر مسکرا دیے۔ تب انھیں اینگس نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ’’تم لوگوں نے بلاشبہ کئی مہمات سر انجام دی ہوں گی، کیوں نہ اس مرتبہ دانیال ساری تفصیل بیان کرے، کیوں کہ پچھلی مرتبہ فیونا نے تفصیل سنائی تھی۔‘‘

    جبران نے ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اینگس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں جبران، تم اگلی مرتبہ سناؤ گے۔‘‘

    ’’اوہو … میری باری تو ہمیشہ آخر میں آتی ہے۔‘‘ دانیال کہانی سنانے لگا۔ ایک دشوار سفر کی کہانی سن کر اینگس نے کہا: ’’تم لوگ واقعی بہت ساری مشکلات سے گزر کر آئے ہو، یہ اتنی بڑی ہیں کہ تمھاری عمر کے بچوں کا ان سے سامنا کرنے کی توقع بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

    دانیال نے کہا کہ وہ ان واقعات کو اپنی ڈائری میں لکھے گا، ٹرالز، پفن اور میگنس کی تصاویر بھی بنائے گا۔ اینگس نے بھی اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ شام کو یہ کہانی لکھیں گے۔

    جادو کا گولا ان کے سامنے میز پر دھرا تھا۔ اینگس نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ والا ہیرا، پہلے والے ہیرے سے قطار میں پہلے آئے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے ہیرا پہلی سوراخ میں رکھ دیا، عین اسی لمحے دونوں ہیرے چمک اٹھے۔

    جبران نے کہا: ’’ارے ڈریگن چمک اٹھے ہیں۔‘‘ اینگس پراسرار لہجے میں بولا: ’’فیونا … کیا تم جانتی ہو کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ میں بتاتا ہوں، اب تمھارے پاس دوسری طاقت بھی آ گئی ہے، ایک ایسی پراسرار طاقت جس کی مدد سے تم خود کو چھوٹا اور بڑا کر سکتی ہو۔‘‘ یہ سن کر تینوں ایک دم سناٹے میں آ گئے۔

    وہ اینگس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بات تو سیدھی طرح ان کی سمجھ میں آ گئی تھی لیکن اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہی تھا کہ کوئی شخص خود کو اپنی مرضی سے چھوٹا یا بڑا کر سکتا ہے۔ وہ بے یقینی کے عالم میں اینگس کو اس انداز سے دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ آپ نے ابھی کیا کہا تھا!

    اینگس ان کا رد عمل دیکھ کر مسکرا دیے، اور بولے: ’’میرے کہنے کا سیدھا سادہ مطلب ہے، یعنی فیونا اب خود کو اپنی مرضی کے مطابق سکیڑ کر چھوٹا بھی کر سکتی ہے اور پھیلا کر بڑا بھی … اتنا بڑا کہ مجھ سے بھی …!‘‘

    ’’واؤ …‘‘ تینوں کے منھ سے بے اختیار چیخ نما نعرہ نکلا۔ ’’مم … میں … اب نہ صرف آگ لگا سکتی ہوں بلکہ خود کو چھوٹا بڑا بھی کر سکتی ہوں …. اوہ … یہ … یہ … بالکل خواب جیسا ہے … پر مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ فیونا پرجوش ہو کر بولی۔

    لیکن اس سے قبل کہ جبران یا دانیال کچھ بولتے، اینگس نے نہایت سنجیدہ لہجے میں فیونا کو خبردار کیا: ’’میں نے تم سے جو کہا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔ اگرچہ یہ سب کچھ بہت شان دار ہے اور تمھیں بے حد مزا بھی آ رہا ہے لیکن یہ مت بھولو کہ یہاں شیطانی قوتیں بھی موجود ہیں۔ زیادہ خود اعتمادی ٹھیک نہیں ہے بلکہ ہر لمحے چوکنا رہو۔‘‘

    اینگس کہتے کہتے ایک لمحے کے لیے ٹھہرے اور پھر بولے: ’’چلو اب دیکھتے ہیں کہ قدیم کتاب میں اور کیا لکھا ہے، اور … آگے کیا کچھ ہونے والا ہے؟‘‘

    (جاری ہے….)

  • چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    میگنس نے خاکی سوٹ پہن رکھا تھا، لیکن اب وہ گہرے نیلے میں بدل چکا تھا۔ ٹوپی ہلکے نیلے رنگ کی ہو گئی تھی اور یہی رنگ جوتوں کا تھا۔ اس کی آنکھیں قمقموں کی طرح چمک اٹھی تھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ تینوں جہاں کھڑے تھے، وہیں بت بن کر کھڑے رہ گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے سامنے ایک زندہ بھتنا کھڑا ہے۔ جبران کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’تت … تت … تم سچ مچ بھتنے ہو؟‘‘

    فیونا بھی یہ دیکھ کر تھوڑی سی گھبرا گئی تھی: ’’تت … تم … تو بالکل نیلے گلیشیئر کی طرح چمک رہے ہو۔‘‘

    بھتنا بولا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ نہیں آئے ہو، اور میں ہیمے میں ٹرالز کے بارے میں بھی جانتا ہوں، میں نے تم تینوں کی نگرانی کے لیے اپنی ننھی دوست انیکا کو بھیجا تھا۔‘‘

    تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اوہ … تو وہ انیکا تھی، جس نے ہماری مدد کی تھی۔ وہ دھن بھی انیکا کی تھی اور پفن پرندوں کو بھی اس نے ہمارے ساتھ بھیجا۔‘‘

    میگنس نے پراسرا مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی سے سر ہلا دیا۔ ’’واؤ … یہ سب کتنا شان دار لگ رہا ہے۔ میں یہاں آئس لینڈ میں کھڑا ایک بھتنے سے بات کر رہا ہوں۔ میں اس سے قبل کبھی کسی بھتنے سے نہیں ملا۔ دراصل مجھے ان کے وجود پر یقین ہی نہیں تھا۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا۔ اس کے بعد تینوں نے باری باری میگنس بھتنے سے مصافحہ کیا، فیونا نے کہا کہ چھوٹی سے روشنی پری کو ہماری مدد کرنے پر شکریہ کہہ دینا، اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔ میگنس نے کہا: ’’آئس لینڈ ایک جادوئی جگہ ہے۔ یہاں بھتنے، بونے، پریاں اور حتیٰ کہ ٹرالز بھی ہیں۔ اکثر ٹرالز اپنے آپ میں گم رہتے ہیں لیکن وہ والے دراصل شیطان کے زیر اثر تھے۔‘‘

    ایسے میں جبران نے اس کے عجیب جوتوں پر ایک نظر ڈال کر پوچھا: ’’کیا میگنس آپ کا اصل نام ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ بھتنے نے جواب دیا کہ اس کا اصل نام تھوری ہیلا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہاں کے لوگ جان گئے کہ میں بھتنا ہوں تو مجھے کبھی بھی کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اسی لمحے ہلکی سی روشنی اس کے گرد جھلملانے لگی۔ وہ چونک کر بولا: ’’اوہ… انیکا… تم عین وقت پر آ گئی ہو، دیکھو تمھارے دوست رخصت ہو رہے ہیں یہاں سے۔‘‘

    اگلے لمحے ان کے سامنے ایک ننھی سی ہلکی نیلی پری نمودار ہو گئی، ظاہر ہے کہ اس کے دو پر تھے اور اس کے بال سنہری تھے۔ دانیال بول اٹھا: ’’اس پری کی آنکھیں بھی تمھاری طرح نیلی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں یہی تو ہماری پہچان ہے۔ ہم انسانوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، لیکن جو ہمارے بارے میں جانتے ہیں وہ ہمیں ان آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں۔‘‘ بھتنا مسکرا کر بولا۔

    ’’ہیلو انیکا …‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ انیکا فوراً بھتنے کے پیچھے چھپ گئی۔ میگنس بولا: ’’روشنی کی پریوں کو کبھی مت چھونا، ورنہ جل جاؤ گی، اچھا اب میں اپنے کام پر جاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر پہلے والے لباس میں آ گیا۔ تینوں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو گئے۔ میگنس نے جاتے جاتے ہانک لگائی: ’’مجھے مت بھولنا۔‘‘

    وہ تینوں سڑک پر آ گئے، اور نیلی جھیل کے لیے بس پکڑ لی۔ جھیل کا پانی گہرا نیلا تھا، اوپر سے ٹھنڈا لگ رہا تھا لیکن حقیقت میں خاصا گرم تھا اور اس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کی حرارت ایک سو چار فارن ہائٹ تھی۔ دراصل اس میں ایک میل گہرائی میں بجلی پیدا کرنے والے پمپ لگے ہوئے تھے۔ وہ پمپ سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کر کے باقی پانی کو جھیل میں چھوڑ دیتے تھے۔ تینوں اس میں نہانے کے بعد پھر بس میں بیٹھ کر ٹاؤن پہنچ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر آئس لینڈ کی کرنسی تبدیل کروا لی اور پھر ان ہی پہاڑیوں کی طرف چل دیے جہاں وہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئے تھے۔ تینوں عین اسی مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ وہ خاموشی سے آئس لینڈ کو دیکھنے لگے۔

    دانیال بولا: ’’مجھے آئس لینڈ بہت یاد آئے گا، خصوصاً پفن اور میگنس۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم آئس لینڈ کے ایک بھتنے کو جانتے ہیں۔‘‘

    فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’کیا تم دونوں تیار ہو … ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔‘‘

    اس کے ساتھ ہی وہ واپسی کا منتر پڑھنے لگی۔ ’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘ ان کی سماعتوں سے جبران کی آواز ٹکرائی: ’’الوداع اے آئس لینڈ۔‘‘

    لیکن ابھی اس کے منھ سے پورا جملہ ادا نہیں ہو پایا تھا کہ انھوں ںے خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

    (جاری ہے)

  • باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا پرندے کو پیار کر رہی تھی کہ اچانک جبران کی سرسراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی: ’’فیونا، میرے خیال میں تیسرا پھندا میری سمجھ میں آ گیا ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال دونوں چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ جبران دور ساحل کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ پرندوں کا غول دور نیلے آسمان میں اڑتا جا رہا تھا۔

    ’’وہ کیا ہے؟ سمندری ڈاکو؟‘‘ فیونا نے دور سمندر میں ایک بحری جہاز کی طرف دیکھ کر کہا، جس کے بادبان پر سرخ و سفید دھاریاں تھیں اور جہاز کا مستول کسی ڈریگن کے سر کی طرح مڑا ہوا تھا۔

    دراصل یہ ایک وائی کنگ جہاز تھا جو ان کی طرف تیزی سے آ رہا تھا اور یہ بہت بڑا تھا۔ جب وہ ساحل کے قریب لنگر انداز ہوا تو بے شمار لوگ اس پر سے چھلانگیں مار کر اترے اور بحری جہاز کو ریت پر کھینچنے لگے۔

    ’’یہ وائیکنز ہیں…؟‘‘ دانیال کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان آدمیوں نے گھٹنوں تک پینٹیں پہنی تھیں اور شرٹس کی آستینیں لمبی لمبی اور کھلی کھلی تھیں۔ سب نے کانسی کی طرح دکھائی دینے والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں جن کی اطراف سے سینگ نکلے ہوئے تھے۔ ’’ارے ان کے کپڑے تو اتنے غلیظ ہیں، یہ دھوتے نہیں ہیں کیا؟‘‘ دانیال نے منھ بنا کر کہا۔

    ’’میرے خیال میں یہ بھاگنے کا وقت ہے، چلو بھاگو سب۔‘‘ جبران نے کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مخالف سمت میں بھاگ کھڑا ہوا۔ ’’ٹھہرو… ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور وہ دونوں بھی جبران کے پیچھے دوڑنے لگے۔

    وائی کنگز کسی اجنبی زبان میں چلا چلا کر کچھ کہہ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سونٹے اور برچھیاں تھیں، اور وہ سب ان تینوں کو پکڑنے آ رہے تھے۔ ’’میرے خیال میں اس بار پفن پرندے ہماری مدد کو نہیں آ سکیں گے۔‘‘ دانیال نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا: ’’فیونا، میرے خیال میں ہمیں وائی کنگز کو شہر کی طرف نہیں لے کر جانا چاہیے۔ سوچو، یہ لوگ شہریوں کے ساتھ کیا کچھ کریں گے، یہ تو ہمیں پکڑنے کے لیے ان سب کو قتل کر دیں گے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے میں جانتی ہوں لیکن ہمارے پاس دوسرا کیا راستہ ہے؟‘‘ فیونا کے لہجے میں پریشانی تھی۔ اچانک دانیال کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ بولا: ’’فیونا ہمارے پاس ہے دوسرا راستہ۔ تم زبردست قسم کی آگ بھڑکاؤ، وائی کنگز سمجھیں گے کہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہے، اور وہ یہ دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘
    ’’لیکن یہاں کے رہنے والے لوگ بھی اس آگ کو دیکھیں گے، وہ سب بھی خوف زدہ ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔‘‘ فیونا ایک جگہ ٹھہر گئی۔ پھر ایک پتھر پر بیٹھ کر کہا مجھے سوچنے دو۔ جبران ایسے میں بے چین ہو کر بولا: ’’ہم بیٹھ نہیں سکتے … وہ ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں۔‘‘ دانیال نے اسے مشورہ دیا کہ وہ پہاڑی کے سرے پر جا کر نگرانی کرے، اگر وائی کنگز نزدیک پہنچ جائیں تو چلا کر خبردار کر دے۔ جبران کے اس کے مشورے پر عمل کیا۔

    فیونا نے بیٹھے بیٹھے گہری سانسیں لیں۔ دانیال خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ فیونا نے آنکھیں بند کیں۔ اگلے لمحے اس نے دیکھا کہ وہ جزیرے پر تیز ہوا کی زد میں ہے اور وہ ایک نیلی تتلی کے پروں پر اڑ رہی ہے۔ عین اسی لمحے جبران ان کی طرف دوڑتا ہوا آ گیا: ’’بھاگو، وہ پہنچ گئے۔‘‘ فیونا اچھل کر کھڑی ہو گئی، دانیال نے پوچھا کہ کیا اس نے کوئی ترکیب سوچی۔ جب کہ فیونا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑنے لگی تھی، اس نے کہا ہاں میں سمجھ گئی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔
    جبران نے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم نے جو بھی کرنا ہے پلیز جلدی کرو، وہ ہمارے سروں پر پہنچ گئے ہیں۔‘‘ انھوں نے دیکھا وائی کنگز واقعی پہاڑی پر پہنچ گئے تھے۔ وہ سب قطار میں کھڑے ہو گئے تھے اور اپنے ہتھیار لہرا رہے تھے۔ اچانک وہ چیختے چلاتے پہاڑی پر نیچے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ زمین پر ان کے قدموں کی دھمک واضح محسوس ہو رہی تھی۔

    فیونا نے مرجان جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ سورج کی شعاعیں اس پر منعکس ہونے لگیں۔ گلابی شیشے جیسا ہرا چمک اٹھا۔ اسی لمحے فیونا کو ہیرے کے اندر ڈریگن نظر آ گیا۔ اس نے جبران کی طرف مڑ کر کہا: ’’میں ڈریگن کو دوبارہ استعمال نہیں کر سکتی….لیکن …‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے چپ ہو گئی، جبران کے چہرے پر حیرت پھیل گئی، وہ بھی یہی کہنے والا تھا، لیکن فیونا نے یک لخت مڑ کر قیمتی پتھر کو وائی کنگز کی طرف کر دیا، اور خواب جیسی کیفیت میں بولی: ’’جب تک یہ سورج ہمارے سروں پر چمکتا رہے گا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

    دانیال اور جبران نے دیکھا کہ مرجان اب براہ راست سورج کی روشنی میں نہا رہا تھا اور لمحہ بہ لمحہ روشن تر ہوتا گیا۔

    ’’فیونا، یہ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘ دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔ ہیرے سے ایک گلابی شعاع نکلی اور اگلے لمحے اس سے ان کے آگے پچاس فٹ اونچی ایک دیوار بن گئی۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہو گیا۔ وہ حیرت سے دیوار کو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگے۔ دیوار دونوں اطراف میں خود بخود پھیلتی جا رہی تھی اور ان کے اور وائی کنگز کے درمیان راستے کو بند کر رہی تھی۔

    (جاری ہے)

  • اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ’’آؤ آؤ … تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔‘‘ فیونا ان کا منھ چڑانے لگی۔ دانیال کی آنکھیں خوف سے بھر گئیں۔ وہ ڈری ڈری آواز میں بولا: ’’فیونا یہ کیا کر رہی ہو، دیکھو وہ تمھارے قریب آ رہے ہیں۔‘‘

    فیونا سیٹی سے مشابہ آواز میں مسلسل گنگنا رہی تھی، اچانک ایک پرندہ غار کے اوپر بنے دہانے سے اندر آیا۔ دانیال نے مڑ کر دیکھا تو دوسرا پرندہ بھی آ گیا، اور اس کے بعد ذرا سی دیر میں غار پفن نامی پرندوں سے بھر گیا۔ دانیال کے چہرے پر پہلے حیرت کے آثار چھائے اور پھر وہ مسرت سے کھل اٹھا۔ پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے ذرا ہی دیر میں درندوں کو پاگل سا کر دیا۔ ایسے میں فیونا نے چیخ کر دانیال سے کہا کہ وہ جلدی سے جا کر جبران کو چھڑا کر لائے۔ فیونا اور جوش سے گانے لگی اور پرندوں سے مخاطب ہو کر حکم دیا: ’’ٹرالز پر حملہ کر دو۔‘‘ پرندوں نے اشارے کی سمت میں دیکھا اور ٹرالز پر حملہ آور ہو گئے۔ جبران پر پہرہ دینے والا ٹرال بھی دیگر ٹرالز کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ وہ سب غرا کر پرندوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے جب کہ پرندے ان کی ناکوں، آنکھوں، کانوں اور جگہ جگہ نوچنے لگے تھے۔ دانیال دوڑ کر جبران کے پاس پہنچ گیا، جبران نے کہا: ’’جلدی کھولو دانی، ٹرال کے واپس آنے سے پہلے مجھے آزاد کر دو۔‘‘

    دانیال نے رسی کھول دی۔ دونوں اٹھ کر سرنگ میں فیونا کے پاس آ گئے۔ ’’بہت خوب، کیسے ہو جبران؟‘‘ فیونا اپنی ترکیب کامیاب ہوتے دیکھ کر چہک اٹھی۔ جبران نے پوچھا: ’’حیرت ہے فیونا، یہ پرندے تو ٹرالز پر دشمنوں کی طرح حملہ کر رہے ہیں، تم نے یہ سب کیسے کیا؟‘‘

    ’’میرے خیال میں کنگ کیگان نے مجھے یہ دھن سکھائی ہے۔‘‘ فیونا دھن سنانے لگی۔

    درندے نہایت غصے کی حالت میں دیگر سرنگوں کی طرف بڑھنے لگے تاکہ باہر نکل سکیں۔ فیونا نے چلا کر پرندوں سے کہا کہ ان کے غار سے نکلنے تک درندوں کو نہ چھوڑیں۔ اور پفن پرندے خوف زدہ ٹرالز کو بدستور کاٹتے نوچتے رہے۔

    فیونا نے دونوں سے کہا کہ اب جتنی جلدی ہو سکے انھیں غار کے علاقے سے چلے جانا چاہیے، لیکن سب سے پہلے مرجان حاصل کرنا ہے۔ دانیال نے جبران کو بتایا کہ انھوں نے مرجان کو تقریباً نکال ہی لیا تھا کہ اچانک زلزلہ آ گیا۔ جبران نے بھی کہا اس نے بھی زلزلے کو محسوس کیا تھا لیکن ٹرالز بالکل اس پر پریشان نہیں ہوئے تھے، اس نے کہا کہ شاید یہ ان کے لیے معمول کی بات ہو۔ فیونا انھیں دوبارہ اسی مقام پر لے گئی جہاں مرجان موجود تھے، لیکن اب وہاں ایک بڑے پتھر نے سوراخ کو بند کر دیا تھا۔ تینوں نے مل کر زور لگایا اور آخر کار پتھر کو ہٹا دیا۔ فیونا بولی: ’’یہی ہے وہ سوراخ جس کے اندر مرجان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی اسے اٹھانے کی کوشش کریں گے، زلزلہ آ جائے گا۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے؟‘‘

    ’’میرے خیال میں مرجان اٹھا کر اندھا دھند بھاگ جاتے ہیں۔‘‘ جبران بولا، لیکن دانیال نے فوراً مداخلت کی: ’’لیکن یہاں تیسرا پھندا بھی تو ہے۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’وہ تو جب سامنے آئے گا تو اس وقت ہی اس کے ساتھ بھی دیکھ لیں گے، فی الوقت مجھے جبران کی بات درست لگ رہی ہے۔ دانی، تم جیسے ہی مرجان اٹھالو گے ہم سب فوری دوڑ لگا لیں گے اور جتنا تیز بھاگ سکتے ہیں، اتنی تیزی سے بھاگیں گے۔ مجھے امید ہے کہ چھت ہم پر نہیں گرے گی۔‘‘

    ’’کیا تم تیار ہو؟‘‘ جبران نے دانیال کی طرف دیکھا۔ دانیال نے سر ہلایا، گہری سانس لی، اور پھر بیٹھ کر سوراخ میں ایک بار پھر ہاٹھ ڈال دیا۔ فیونا نے جبران کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا: ’’جیسے وہ پتھر اٹھاتا ہے، تم نے دوڑ لگانی ہے اور پیچھے مڑ کر ہرگز نہیں دیکھنا۔‘‘

    دانیال نے اپنی انگلیوں پر مرجان کو محسوس کیا۔ ’’میں نے اسے پکڑ لیا ہے لیکن جیسے ہی میں اسے باہر کھینچوں گا ہم مر جائیں گے۔‘‘

    ’’نہیں … ہم نہیں مریں گے، تم اسے نکال لو۔‘‘ فیونا مضبوط لہجے میں بولی۔ دانیال نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر کھول کر مرجان کو مٹھی میں دبایا اور ایک جھٹکے سے ہاتھ باہر کھینچ لیا۔

    زمین کو شدید جھٹکا لگا۔ اور غار میں زبردست گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ غار کی چھت سے سیاہ لاوے کے بڑے بڑے ٹکڑے گرنے لگے۔ اور وہ تینوں ان سے بچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے ہوئے غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے۔ زمین مسلسل ہل رہی تھی، اس لیے وہ دوڑتے دوڑتے بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ اس دوران زمین سے نوکیلے پتھر بھی نکل آئے تھے، اور ان کے پیچھے دھول کا ایک بادل چکر کاٹتا چلا آ رہا تھا۔

    ’’ہم مرنے والے ہیں۔‘‘ جبران نے خوف سے چلا کر کہا لیکن اس نے دوڑنا بند نہیں کیا۔ ان کے پیچھے زبردست دھماکے ہونے لگے تھے، غار کی چھت جگہ جگہ سے منہدم ہو رہی تھی۔ عین اسی لمحے جب وہ غار کے دہانے سے باہر نکلے، پورا غار ہی ایک دھماکے سے بیٹھ گیا اور ہر طرف دھول چھا گئی۔

    ’’ہم زندہ نکل آئے … ہم زندہ نکل آئے … دیکھا ہم نہیں مرے۔‘‘ دانیال خوشی سے اچھلنے لگا۔ لیکن جبران تیزی سے فیونا کی طرف بڑھا: ’’کیا ہوا، کیا تم زخمی ہو گئی ہے۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے بازوؤں اور ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا، اسے دراصل لاوے کے چھری کی تیز دھار جیسے نوکیلے پتھر چبھ گئے تھے۔ جبران نے اس کے بازوؤں اور ٹانگوں سے احتیاط کے ساتھ وہ ٹکڑے نکالے۔ ’’شکر ہے کہ ہمارے سر ان سے بچ گئے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا ایک کپڑے خون صاف کرنے لگی۔

    ’’حیرت ہے، وہ احمق ٹرالز کہاں چلے گئے۔‘‘ دانیال نے چاروں طرف دیکھا۔ ’’میرے خیال میں میں جانتی ہوں، چلو میرے پیچھے آؤ۔‘‘ فیونا بولی۔ وہ انھیں پہاڑی کے اوپر لے گئی اور ایک جگہ سلگتے انگاروں کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’وہ رہے ٹرالز۔‘‘

    ’’یہ تو ٹرالز نہیں ہیں، کسی نے کچرا جلایا ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا لیا۔ دانیال نے خدشہ ظاہر کر دیا کہ کہیں آتش فشاں پھر سے تو نہیں ابلنے لگا ہے۔ جب تینوں اس جگہ کے مزید قریب گئے تو فیونا بولی: ’’دیکھو، ان کی ساخت بالکل ٹرالز جیسی ہے، پفن پرندوں نے ان کا پیچھا کیا اور وہ باہر سورج میں نکل آئے اور جل کر راکھ ہو گئے۔‘‘

    تینوں اس بات پر بہت خوش دکھائی دینے لگے۔ فیونا اچھلنے لگی تھی، کہ پرندوں نے ان کی کس طرح سے مدد کی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوک دیا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تیسرا پھندا بھی یہیں کہیں موجود ہے۔

    دانیال نے جیب سے مرجان نکال کر انھیں دکھایا۔ فیونا نے وہ لے لیا اور اوپر کر کے اسے دیکھنے لگی۔ ’’یہ تو آبسیڈین سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے، دیکھو کتنا گلابی ہے یہ۔‘‘ فیونا نے کہیا اور پھر سے سیٹی بجانے لگی۔ پفن پرندے ذرا ہی دیر میں اڑ کر ان کی طرف آ گئے۔ وہ بولی: ’’ذرا ان پرندوں کو دیکھو، آسمان پر ان سے ایک کالی چادر سی تن گئی ہے۔‘‘

    پرندے ان تینوں کے سروں پر چکر کاٹنے اور آوازیں نکالنے لگے۔ ’’کتنے پیارے ہیں یہ پرندے۔‘‘ فیونا بولی۔ کچھ دیر تک پرندے ان کے گرد چکر کاٹتے رہے اور پھر اڑ کر چلے گئے۔ ایک پفن جو ابھی بچہ تھا، پیچھے رہ گیا۔ فیونا نے اسے اٹھایا اور بڑے پیار سے چہرے سے لگا لیا۔

    (جاری ہے)

  • ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا ٹوٹی ہوئی چٹانوں پر چڑھ کر غار کے اندھیرے سے روشنی میں آ گئی۔ پفن نامی پرندوں کی تلاش میں وہ پہاڑوں کی طرف احتیاط سے دوڑنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ پفن پہاڑی کی کھڑی چٹانوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ سب سے قریبی کھڑی چٹان کو ڈھونڈنے لگی۔ راستے میں آنے جانے والوں سے پوچھنے کے بعد فیونا ایک کھڑی چٹان کی طرف دوڑ پڑی۔ پتھروں اور سبزے والی جگہوں سے گزرنے کے بعد جب وہ کھڑی چٹان کے اوپر پہنچ گئی تو رک کر اپنی بے ترتیب سانسیں درست کرنے لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پفن نامی پرندوں کو وہاں دیکھ کر خوش ہو گئی۔ وہ پیٹ کے بل لیٹ کر احتیاط سے کھڑی چٹان کے اوپری کنارے پر پہنچ گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے سمندر کو دیکھ کر اس کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ چٹان پر لیٹے لیٹے پریشانی کے عالم بڑبڑانے لگی: ’’میں اب ان پرندوں کو اپنے پیچھے کس طرح لگا لوں؟ کیا کوئی میری مدد کر سکتا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘

    سمندر کی لہریں چٹان کی دیوار سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اس ٹکراؤ میں ایک عجیب سی دھن تھی، ایک آہنگ تھا۔ یہ دھن اور آہنگ وہ ہوا کے ذریعے اوپر تک پہنچنے والے ننھے چھینٹوں کے ساتھ سن رہی تھی۔ اسے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا لیکن سوچتے سوچتے وہ بے خیالی میں منھ سے سیٹی کی مانند ویسے ہی دُھن نکالنے لگی جو سمندر کی لہریں چٹان سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہی تھی۔

    ’’ہیں … یہ دھن میں بھلا کیوں گنگنانے لگی ہوں، مجھے تو آتا بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ تعجب سے بڑبڑائی۔ لیکن اس نے وہ دھن گنگنانا نہیں چھوڑا۔ ایسے میں اچانک چند پرندے اڑ کر چٹان کی چوٹی پر آ گئے، اور فیونا انھیں دیکھ کر حیرت کے مارے اچھل پڑی۔

    ’’ارے یہ تو کمال ہو گیا، یعنی مجھے ہیملن کا پچرنگی بانسری بجانا والا بننا پڑے گا، جب میں سیٹی بجاؤں گی تو یہ پرندے میرے پیچھے پیچھے اڑ کر آئیں گے۔ اگرچہ میری سیٹی اتنی اصلی نہیں ہے تاہم یہ اثر کر رہی ہے۔‘‘

    فیونا زیادہ بلند آواز سے وہ مخصوص دھن منھ سے نکالنے لگی اور اس نے دیکھا سیکڑوں پرندے اڑ کر آئے اور آس پاس گھاس پر بیٹھ گئے۔ فیونا خوشی سے چہکنے لگی: ’’بہت خوب میرے پیارے پرندو، مجھے تمھاری دھاری دار چونچیں اور نارنجی پنجے بے حد پسند ہیں، ٹھیک ہے اب تم سب میرے پیچھے آؤ۔‘‘

    فیونا پہاڑی سے اتر کر گنگنانے لگی اور سیکڑوں کی تعداد میں آنے والے پرندے جلد ہی ہزاروں کی تعداد میں بدل گئے۔ وہ لاوا غار کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ چلتے چلتے وہ بڑبڑائی: ’’جس نے بھی میری مدد کی ہے، اس کا بہت بہت شکریہ۔‘‘

    غار کے پاس پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو سحر زدہ ہو گئی۔ اس نے خود کلامی کی: ’’اوہ یہ تو ایک لاکھ ہوں گے۔ لیکن اب مزا آئے گا، میری یہ پرندوں کی فوج درندوں کی ایسی تیسی کر دے گی۔‘‘

    وہ پرندوں کے سامنے اس طرح کھڑی تھی جیسے کوئی کمانڈر اپنی فوج کے آگے تن کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے بلند آواز میں کہا: ’’میں تم سب سے ایک کام لینا چاہتی ہوں، یہ سوراخ تم سب کو نظر آ رہا ہے نا۔‘‘ فیونا نے انگلی سے غار کے دہانے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اگر تم اس کے اندر اڑ کر جاؤ گی تو تمھیں اندر چار عدد ٹرال ملیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سب ان پر حملہ کر دو۔ ان کی موٹی ناکیں، ان کے بد نما انگوٹھے، ان کی آنکھیں، کان اور جو کچھ تم چاہو نوچ لو۔ اور اس وقت تک انھیں نوچتے رہو جب تک وہ غار سے باہر نہ نکلیں۔ کیا تم سب میری بات سمجھ گئے ہو؟‘‘

    کوئی بھی پرندہ الفاظ میں تو کچھ نہ کہہ سکا البتہ انھوں نے اپنی مخصوص آوازوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ فیونا غار کی طرف بڑھنے لگی، دہانے پر پہنچ کر وہ مڑی اور کہا: ’’ابھی باہر ٹھہرو تم سب، میں پہلے اندر جا کر دانیال کو بتاتی ہوں، جب میں گانے لگوں تو تم سب اندر آ کر ٹرالز پر حملہ کر دینا۔ اس دوران میں اور دانیال مل کر جبران کو آزاد کر کے بھاگ جائیں گے، اب میں اندر جاتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی جب کہ پرندے غار کے دہانے پر منڈلانے لگے۔ دانیال نے اسے اندر آتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آ گئی۔’’اوہ فیونا تم واپس آ گئی، میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا اس دوران، کیا تم مدد لے آئی ہو؟‘‘

    فیونا نے کہا کہ جو میں لے کر آئی ہوں اس پر تم کبھی یقین نہیں کر پاؤ گے۔ میرے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پرندے ہیں، تم یہیں ٹھہرو ذرا۔ پھر وہ غار میں بے خوفی کے ساتھ آگے بڑھی، اس نے دیکھا تینوں ٹرالز نے آگ بھڑکا دی تھی اور اب لکڑی کے ٹکڑے کاٹ رہے تھے۔ اس نے انھیں بہادری سے للکارا: ’’ہیلو گندے اور بدبودار درندو، میں تم سے بالکل نہیں ڈرتی۔‘‘

    دانیال کو یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ ایک بدلی ہوئی فیونا کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بھی آنکھیں گھما کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ ’’فیونا … تم کیا کرنے والی ہو؟‘‘ جبران کی چیخ وسیع غار میں انھیں ایک سرگوشی کی طرح سنائی دی۔ ٹرال کو شاید اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اس لیے اس نے اپنا بھاری بھر کم پیر فرش پر پڑے جبران کی پیٹھ کر رکھ دیا۔ جبران کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ فیونا غصے میں چلائی: ’’بے وقوف درندو، تم میرے دوست کو لنچ سمجھ کر نہیں کھا سکتے، میں تم سب کا بندوبست کر کے آئی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ گنگنانے لگی اور ٹرال غضب ناک ہو کر فیونا کی طرف بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ٹرال خود کو روشنی سے بچا رہے تھے۔ غار کے فرش پر ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چند ہڈیوں پر ابھی تک گوشت باقی تھا۔ دانیال ان ہڈیوں کو دیکھ کر بری طرح دہشت زدہ ہو گیا، اسے متلی آ گئی اور جلدی سے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ فیونا بھی سامنے دیکھ رہی تھی، تینوں ٹرال غار کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’میرے خیال میں یہ آگ جلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا، اس کی حالت بھی دانیال سے کچھ کم نہ تھی۔ کلیجہ اس کے منھ کو آ رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن جبران نظر نہیں آ رہا تھا، اس نے دانیال کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا اسے جبران نظر آیا۔ دانیال نے بھی نظریں دوڑائیں اور پھر خوشی سے چلایا: ’’وہ رہا … دیوار کے ساتھ کوئی لیٹا ہے، اور وہ جبران ہی کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

    تب انھیں نظر آیا کہ ایک چوتھے ٹرال نے جبران کے ہاتھ پیر اپنے موٹے بالوں سے باندھ دیے تھے۔ یہ موٹے بال رسیوں کا کام کر رہے تھے۔ فیونا نے کہا: ’’یہاں بہت ساری سرنگیں ہیں اگر ہم جبران کو چھڑا لیں تو یہاں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے لیکن جبران کو ہم کس طرح ان سے چھین سکتے ہیں؟ پہلے تو ہمیں ان تین درندوں کے پاس سے گزرنا ہو گا اور پھر اس ٹرال کو بھی چکمہ دینا ہوگا جو عین جبران کے سامنے بیٹھا ہے اور جس نے اپنے جسم کے گندے بالوں سے اسے باندھ رکھا ہے۔ ہمارے پاس یہ رسی نما بال کاٹنے کے لیے چاقو بھی نہیں۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر کہا۔

    فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں کوئی تصور آ جائے جو یہ بتائے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس نے مقامی پرندے پفن کے ایک غول کو دیکھا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول کر کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ ان درندوں کو یہاں سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’کیسی ترکیب ہے؟‘‘ دانیال نے خوش ہو کر پوچھ لیا۔ فیونا دانیال کو سرنگ میں پیچھے کی طرف لے گئی اور بولی: ’’دانی، تم یہاں کھڑے ہو کر ٹرالز پر نظر رکھو۔ اگر وہ جبران کو کھانے لگے تو تم دوڑ کر ایک دم چیخنا شروع کر دو۔ اس طرح تم میرے آنے تک انھیں پریشان رکھنا، یا ان کی توجہ ہٹانے کے لیے جو کچھ تم کر سکتے ہو کرنا۔‘‘

    ’’کک… کیا… تم کہاں جا رہی ہو؟ نہیں تم مجھے یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ تم جبران کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘ دانیال نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

    دیکھو دانی، مجھے پتا ہے کہ تم خوف زدہ ہو لیکن اب معاملہ حل ہونے جا رہا ہے۔ جبران کو کچھ نہیں ہوگا، اور تمھیں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے کچھ پرندوں کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی کے ساتھ مڑی اور اندھیرے میں گم ہو گئی۔

    ’’پرندے … کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ اس کے جاتے ہی دانیال بولا لیکن اس کی آواز سرنگ میں گونج کر رہ گئی۔ وہ دیوار کے پاس بیٹھ کر ٹرالز کو دیکھنے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’جبران بہادر بنو …. جبران بہادر بنو!‘‘

    (جاری ہے)

  • اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’یہاں تو اچھی خاصی بدبو ہے، ٹرال کی بدبو تو یونان کے اُس گدھے سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ دانیال نے چٹکی سے نتھنے بند کر دیے۔ فیونا ایک جگہ رک کر بولی: ’’مرجان یہاں ہے، لاوے کے اندر۔ کیا تم نیچے بیٹھ کر کسی سوراخ کو تلاش کر سکتے ہو؟‘‘ فیونا نے اپنے قدموں کے پاس اشارہ کیا۔ دانیال وہاں پڑے ایک پتھر کے نیچے سرک گیا اور پھر بولا: ’’ہاں یہاں ایک سوراخ ہے جس میں میرا ہاتھ آسانی سے جا سکتا ہے۔‘‘

    فیونا پُر جوش ہو کر بولی: ’’ٹھیک ہے دانی، تم جلدی سے وہاں مرجان تلاش کرو۔‘‘

    ’’میں کسی مہین چیز کو محسوس کر رہا ہوں، میرے خیال میں یہی مرجان ہے۔‘‘ دانیال مسرت بھرے لہجے میں بولا: ’’یہ رہا، میں نے اسے پکڑ لیا۔‘‘ عین اسی وقت غار میں زلزلہ آ گیا اور غار کی چھت سے لاوے کے ٹکڑے ٹوٹ کر نیچے گرے۔ فیونا گھبرا کر چلائی: ’’یہ کیا ہو رہا ہے … مم میرا خیال ہے کہ زلزلہ آ گیا ہے۔ دانی جلدی سے ہاتھ کھینچ لو، ہمیں خود کو محفوظ جگہ چھپانا ہوگا۔‘‘

    زمین سے ایسی گڑگڑاہٹ کی آوازیں اٹھ رہی تھیں جیسے کوئی ٹرال غرا رہا ہو۔ غار کا فرش بری طرح لرز رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے لپیٹنے لگا ہو۔

    ’’ارے فرش کو دیکھو… یہ تو بالکل دھوئیں کی لہریں ہیں۔‘‘ دانیال چیخا۔

    زلزلے کی گڑگڑاہٹ اتنی تیز ہو گئی تھی کہ انھیں کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہونے لگے۔ یکایک ان سے ذرا فاصلے پر چھت سے لاوے کے ٹکڑوں سے بنا ایک بڑا پتھر گرا اور سینکڑوں ٹکڑوں میں تبدیل ہو گیا، اور یہ ٹکڑے نہایت تیزی سے غار میں پھیل گئے۔

    ’’لیٹ جاؤ دانی، اگر ایک بھی پتھر لگا تو ہم مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور فوراً زمین پر خود کو گرا دیا۔ دانیال نے بھی اس کے پاس ہی پتھریلی زمین پر خود کو گرا دیا۔ دونوں کے چہرے خوف سے زرد ہو چکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تیرنے لگے تھے لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ہو پایا تھا۔ بہادری جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، سب ہوا ہو گئی تھی۔ اگلے دس منٹ تک دونوں بازوؤں میں سر چھپائے لیٹے رہے تاکہ لاوے کا کوئی پتھر انھیں نہ لگ جائے۔ پھر آخر کار زلزلہ تھم گیا اور غار دھول سے اٹ گیا۔ دونوں آہستہ آہستہ اٹھ کر دیکھنے لگے اور پھر کھانسنا شروع کر دیا۔

    ’’دانی، آگ بجھ گئی ہے۔‘‘ گھپ اندھیرے میں اس کے کانوں سے فیونا کی آواز ٹکرائی۔

    اس نے کہا کہ تم جلدی سے مزید آگ بھڑکاؤ، لیکن فیونا کوشش کے باوجود ناکام ہو گئی۔ فیونا کو خیال آیا کہ شاید دھول میں یہ کام نہیں کر رہا ہے۔ دانیال نے کہا فیونا تم گھبرائی ہوئی ہو بس، ایک بار پھر فوکس کرو۔ فیونا نے ایک بار پھر آگ کے خیال پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور اس بار وہ واقعی کام یاب ہو گئی۔

    ’’یہ آگ زیادہ تو نہیں ہے لیکن اس میں ہم مرجان کو تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘ فیونا خوش ہو گئی۔ دونوں کا خوف کافی حد تک کم ہو گیا تھا، اور ان میں خود اعتمادی بحال ہونے لگی تھی۔

    ایسے میں دانیال نے یاد دلایا: ’’پھندا نمبر دو۔ ایک اور زلزلے میں خود کو مارے بغیر ہم مرجان کیسے حاصل کر سکیں گے؟‘‘

    دونوں اگلے ٹریپ کے خیال سے محتاط ہو گئے۔ دانیال نے کہا شاید جبران بھی ہو تو وہ بھی کچھ مدد کر سکے۔ فیونا کو بھی لگا کہ اب جبران کو پہلے ڈھونڈنا ہی بہتر ہے۔ دونوں اس پر متفق ہوئے تو فیونا پچھلی دیوار کی طرف بڑھنے لگی، جہاں اسے ایک سوراخ نظر آیا۔ وہ بولی: ’’ارے یہاں تو بدبو بھی ہے، ضرور ٹرال یہاں سے گزرا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک فلیش لائٹ نکال لی، اور اس کی روشنی میں آگے دیکھنے لگی۔ ’’وہ اسی راستے سے گئے ہیں، وہ دیکھو، جبران کے جوتوں کا ایک تسمہ ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔‘‘ فیونا نے ایک سفید ڈوری پر روشنی ڈالی۔

    ’’فیونا، یہاں تو اور کوئی سرنگ نہیں ہے، یہ ایک ہی بہت بڑا غار ہے جو مختلف سمتوں مین بٹا ہوا ہے۔ کیا پتا اگلا پھندا یہیں پر ہو اور کیا پتا کہ وہ یہاں ہمارا انتظار کر رہا ہو تاکہ ہمیں ہڑپ کر جائے۔‘‘

    ’’دانیال، اب تم بھی بالکل جبران کی طرح باتیں کرنے لگے ہو، کیا پتا کیا پتا کی والی باتیں مت کرو، بس اسے ڈھونڈو۔‘‘ فیونا ایک طویل اور اندھی سرنگ میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، لیکن پھر ایک آواز سن کر اس کے قدم رک گئے۔ اس نے دانیال کی طرف دیکھ کر جوش سے کہا: ’’اب جلدی کرو، میں نے ٹرال کی آواز سن لی ہے۔‘‘

    دس قدم کے بعد وہ ایک اور بڑے غار کے دہانے پر کھڑے تھے۔ فیونا نے فلیش لائٹ سامنے سے ہٹا دیا، اب اس کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ غار کی چھت میں ایک سوراخ سے روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی اور سب کچھ نظر آ رہا تھا۔
    ’’لو، یہاں تو ایک نہیں تین تین ٹرالز ہیں۔‘‘ فیونا بری طرح چونک اٹھی۔

    (جاری ہے)