Tag: رفیع اللہ میاں

  • ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ’’رک جاؤ جبران، واپس آ جاؤ، ہم نے یہ مہم ایک ٹیم کی صورت سر کرنی ہے، ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ فیونا نے اسے آواز دی۔ ’’بہادر بنو اور جلدی واپس آؤ، دیکھو یہ ٹرال نہیں غالباً روشنی کی وجہ سے کسی چیز کا عکس بن رہا ہے۔‘‘

    جبران کے قدم رک گئے۔ وہ مڑ کر واپس ان کے پاس آ گیا لیکن وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ آگ نے پورے غار کو روش کیا ہوا تھا، جس میں وہ ہر چیز کو دیکھ سکتے تھے، تاہم آخری سرا اب بھی اندھیرے میں تھا۔ فیونا چند منٹ مزید خاموش کھڑی سوچتی رہی اور پھر بولی: ’’مرجان بس ذرا سا اور آگے ہے، میں وہ جگہ بھی دیکھ سکتی ہوں جہاں پتھر کو چھپایا گیا ہے۔ بس چند ہی قدم آگے ہے۔‘‘

    یکایک ایک گونج دار آواز نے ان کے دل دہلا دیے۔ ’’یہ … یہ کیا تھا… چچ … چلو فیونا واپس چلتے ہیں۔‘‘ جبران پر بری طرح گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔

    غار کے آخری سرے سے ایک اور گڑگڑاہٹ جیسی آواز گونجی۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’یہ ٹرال کی آواز ہے۔‘‘

    پھر ایک چیز ان کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔ جبران چلایا: ’’یہ ہمیں کھانے آ رہا ہے۔‘‘
    تقریباً بیس فٹ اونچا ٹرال ان کے سامنے کھڑا تھا اور سبز آنکھوں سے انھیں اوپر دیکھ رہا تھا۔ ’’اس کی ناک واقعی بہت بڑی ہے۔‘‘ دانیال کے منھ سے ڈری سی آواز نکلی۔ اچانک ٹرال غرایا۔ اس کی گونج دار آواز سے انھیں کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
    فیونا کو اس سے ڈر بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ تو بہت کاہل مخلوق ہے، لیکن لگتا ہے اسے غصہ آ رہا ہے۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ کوئی ترکیب سوچو کہ اس سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ٹرال نامی اس درندے کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جس کے چیتھڑے اس کے بازوؤں سے لٹک رہے تھے۔ اس کی ٹانگوں کی جلد یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ چھیلی گئی ہو۔ اس کے جسم پر موٹے موٹے بال اگے ہوئے تھے۔ اس نے جوتے نہیں پہنے تھے اور وہ دانیال کے پمفلٹ میں لکھی گئی تفصیل کے عین مطابق تھا۔

    دانیال بولا: ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ یہ درندے سورج کی روشنی سے سخت نفرت کرتے ہیں کیوں کہ اگر سورج کی شعاعیں ان سے ٹکرائیں گی تو یہ جل جائیں گے۔ اس لیے فیونا تم ڈھیر سے ساری آگ بھڑکا کر اسے مار سکتی ہو۔‘‘

    جبران کسی اور تجویز کے انتظار کے حق میں نہیں تھا، اس لیے وہ پلٹا اور بھاگنے کے لیے پر تولنے لگا۔ اچانک غیر متوقع سی بات ہو گئی تھی، ٹرال آگے کی طرف ایک قدم بڑھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ آگے کی طرف خاصا جھک بھی گیا تھا، جیسے انھیں پکڑنا چاہتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک بار پھر کان پھاڑ غراہٹ کے ساتھ چیخا تھا۔ دانیال اور فیونا بچاؤ کی جبلت کے تحت تیزی سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن جبران کی ٹانگیں ڈر کے مارے لڑکھڑا گئیں، جس کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ درندے نے ہاتھ بڑھا کر اسے شرٹ سے پکڑ کر فضا میں بلند کر لیا۔

    ’’بچاؤ … بچاؤ … درندے نے مجھے پکڑ لیا ہے۔‘‘ جبران غار کی چھت کے قریب جھولتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں چلایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے، درندہ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ’’یہ … یہ کیا ہو گیا فیونا، ٹرال تو جبران کو کھا جائے گا۔‘‘ دانیال ڈر اور بے چینی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ ’’ہم یہاں کھڑے نہیں رہ سکتے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
    ’’مجھے سوچنے دو … مجھے سوچنے دو۔‘‘ فیونا کے چہرے پر اب خوف کی جگہ غصہ چھا گیا تھا۔ ’’کاش اس وقت وہ ڈریگن ہمارے پاس ہوتا۔‘‘

    ’’لیکن ڈریگن ہمارے پاس نہیں ہے، جلدی کرو فیونا، وہ اسے دور لے جا رہا ہے، کیا وہاں کوئی دوسرا غار بھی ہے؟‘‘

    اسی لمحے جبران کی چیخ اندھیرے میں گونج کر رہ گئی تھی۔ فیونا لاوے سے بنے ایک پتھر پر بیٹھ کر بولی: ’’میرے خیال میں ہمیں پہلے قیمتی پتھر مرجان کو حاصل کرنا چاہیے، اس کے بعد جبران کے پیچھے جانا چاہیے، کیوں کہ درندہ اسے نہیں کھائے گا۔ کم از کم اتنی جلدی نہیں، کیوں کہ ٹرالز کو کچا گوشت پسند نہیں ہوتا، انھیں اپنی خوراک آگ پر بھون کر کھانا پسند ہے۔‘‘

    ’’فیونا …‘‘ دانیال چلایا۔ ’’وہ درندہ جبران کو زندہ بھوننے جا رہا ہے اور تم مرجان کے متعلق سوچ رہی ہو۔‘‘

    ’’دیکھو دانیال، مجھے غلط مت سمجھو۔ مجھے پھر سے اپنے اندر سے ایسے اشارے مل رہے ہیں اور میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ جبران کچھ دیر تک محفوظ رہے گا اور اتنی دیر میں ہم مرجان حاصل کر لیں گے۔ جب قیمتی پتھر ہمارے ہاتھ آئے گا تو ہمارے پاس مزید قوت آ جائے گی۔ پھر ہم یہ قوت جبران کو چھڑانے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘

    یہ کہہ کر فیونا کھڑی ہو گئی۔ ’’مرجان بہت قریب ہے۔ میں اسے محسوس کر سکتی ہوں۔ یاد ہے نا انکل اینگس نے کیا کہا تھا۔ قیمتی پتھر سے خاص قسم کی لہریں خارج ہوتی ہیں اور میں اسے محسوس کر رہی ہوں، وہ مجھے بلا رہا ہے۔‘‘

    دانیال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس حالت میں زیادہ بہتر کیا ہے۔ وہ فیونا کی طاقتوں کی مدد کے آگے مجبور تھا۔ اس نے یاد دلایا کہ ابھی یہاں مزید پھندے بھی باقی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔ فیونا نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی، پھر دونوں غار میں آگے بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اف، یہاں تو بے حد سردی ہے، غار عموماً سرد ہُوا کرتے ہیں۔‘‘ جبران نے کوٹ کے بٹن جلدی سے بند کر دیے۔ دانیال نے سردی سے ہتھیلیاں رگڑتے ہوئے کہا: ’’فیونا، جب ہم گھر سے روانہ ہو رہے تھے تو اس سے ذرا دیر قبل تمھارے انکل نے کہا تھا کہ تم اگر چاہو تو آگ بھڑکا سکتی ہو۔ تمھارے پاس اس کی طاقت آچکی ہے۔ کیا تم نے انکل اینگس کی یہ بات نہیں سنی تھی؟‘‘

    ’’ہاں انھوں نے کہا تھا لیکن میں نے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی۔‘‘ فیونا غار میں چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’انکل اینگس کی عادت ہے کہ وہ ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن میرے خیال میں وہ ہانک نہیں رہے تھے بلکہ انھوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب تم جادوئی گیند میں قیمتی پتھر رکھنے لگی تھی۔ تو اسی وجہ سے تمھیں یہ طاقت ملی ہے، اور اس کا تعلق قیمتی پتھر ہے۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے جب انھوں نے یہ کہا تمھیں بس آگ کے بارے میں سوچنا ہے اور اس کی خواہش کرنی ہے، اور بس آگ اچانک بھڑک اٹھے گی۔‘‘ دانیال نے ہاتھ جیبوں میں ڈالتے ہوئے کہا: ’’تو کیوں نہ اس طاقت کو یہاں آزماؤ تم، میں تو سردی سے منجمد ہو رہا ہوں، کاش میں دستانے لے آتا۔‘‘

    ’’مجھے بھی شدید سردی لگ رہی ہے فیونا، چلو اسے آزماؤ بھی اب۔‘‘ جبران نے بھی اس سے جادو کے ذریعے آگ جلانے کا مطالبہ کیا۔

    ’’تو کیا تم دونوں یہ سمجھتے ہو کہ میں ایسا کر سکتی ہوں؟‘‘ فیونا کے لہجے میں حیرت تھی۔

    ’’ہاں، بالکل تم کر سکتی ہو۔‘‘ دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔ یہ دیکھ کر فیونا نے لمبی سانس لی اور پھر آنکھیں بند کر کے آگ کا تصور کیا۔ یکایک ان سے چند فٹ کے فاصلے پر آگ بھڑک اٹھی، اور تینوں ہی اسے دیکھ کر اچھل پڑے۔

    ’’اوہ … شان دار … یہ تو کمال ہو گیا۔‘‘ فیونا خوشی سے چلائی۔

    ’’دیکھا، تم نے ایسا کر دکھایا۔‘‘ جبران بولا اور فوراً آگ کے قریب چلا گیا۔ ’’ہے تو یہ گرم، جیسا کہ آگ ہوتی ہے، لیکن یہ کیسے جل رہی ہے؟ یہاں تو لکڑی وغیرہ نہیں ہے۔‘‘

    ’’چھوڑو اس بات کو۔‘‘ دانیال بھی قریب آ گیا، اور اپنے سرد ہوتے ہاتھ آگ پر تاپتے ہوئے بڑبڑایا: ’’اس کے شعلے زرد اور نیلے رنگ کے ہیں، کتنا عجیب ہے یہ نا!‘‘

    ’’اس میں سبز رنگ بھی ہے۔‘‘ فیونا بولی: ’’اب ذرا تم دونوں دور ہٹو، میں مزید آگ بھڑکا دوں۔ اگر ہم نے یہاں مرجان ڈھونڈنا ہے تو ہمیں خود کو گرم رکھنا ہوگا۔ اور وہ پتھر غار کی پشت کی طرف ایک سوراخ میں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اگلے لمحے غار میں دور تک آگ روشن ہو گئی۔ تینوں غار میں آگے کی طرف بڑھنے لگے اور کافی اندر چلے گئے۔

    ’’ان پتھروں پر چلنا تو بے حد دشوار ہے، میں کئی جگہ سے زخمی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا نے کراہتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ سے پینٹ پر آئے ہوئے کٹ کو ٹٹولنے لگی۔

    ’’میں نے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔‘‘ اچانک جبران کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔ غار میں مکمل خاموشی تھی، اور جبران کی آواز گونج گئی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’وہ عین ہمارے سامنے ہے اور ہم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’جبران، اب مزید نہیں۔‘‘ دانیال نے غار میں آگے کی طرف دیکھا جہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ’’تم بلاوجہ چیزوں کا تصور کر لیتے ہو۔ ویسے تم نے اس مرتبہ کیا دیکھ لیا ہے، اب یہ مت کہنا کہ ٹرال دیکھ لیا ہے۔‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم کہ یہ ٹرال ہوتا کیسے ہے لیکن پھر بھی یہ ٹرال ہو سکتا ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور فیونا کے پیچھے ہو گیا۔ ’’چلو، یہاں سے نکل چلتے ہیں۔ میں … میں کسی ٹرال سے لڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فیونا کا بازو پکڑ لیا۔

    ’’تم بہت ڈرپوک ہو جبران، فیونا کا ہاتھ چھوڑ دو۔‘‘ دانیال اس کی طرف مڑ کر بولا۔ ’’ٹرال نامی مخلوق ناروے سے یہاں وائی کنگ کے بحری جہازوں پر آئی تھی، یہ بے حد سست مخلوق ہے۔ اس کی ناک بڑی ہوتی ہے جس پر ایک گلٹی نکلی دکھائی دیتی ہے۔ نوک دار سینگ، بڑا منھ جس میں تیز دانت ہوتے ہیں۔ اس کی جلد گانٹھ دار ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے اس پر گلٹیاں نکلی ہوئی ہیں۔ اس کے کان بالکل چھوٹے ہوتے ہیں، اور یہ ایک بے وقوف قسم کا جانور ہے جس کی آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں۔ چوں کہ انھیں سورج کی روشنی پسند نہیں اس لیے یہ مخلوق غاروں میں رہتی ہے۔‘‘

    ’’تمھارا مطلب ہے کہ اس جیسے غاروں میں۔‘‘ جبران یہ کہہ کر پلٹا: ’’میں تو باہر جا رہا ہوں۔ میں اب مزید آگے نہیں جا پاؤں گا۔ اگر تم دونوں کو مرجان کی تلاش ہے تو پھر اکیلے جاؤ۔‘‘

    (جاری ہے ….)

  • پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’یہ تو بہ ظاہر پتھر دکھائی دے رہا ہے، چٹان حرکت نہیں کرتی، یہ کوئی زندہ مخلوق ہے۔‘‘ دانیال نے بیگ سے کیمرہ نکالتے ہوئے ایک نئی بات کہہ دی۔ ’’جب ہم لنچ کر رہے تھے تو میں نے دو آدمیوں کو ہولڈوفوک کے متعلق باتیں کرتے سنا تھا۔‘‘

    فیونا چونک اٹھی: ’’ہولڈوفوک؟ کیا میں پوچھنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ یہ کس قسم کی مخلوق ہے؟‘‘

    ’’ہولڈوفوک چٹانوں کے درمیان رہتی ہے اور چٹانوں کی طرح دکھائی دیتی ہے اور یہ لوگوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ دانیال نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور کیمرے کا فلیش دبا دیا۔ ’’آؤ، میں ذرا قریب سے اس کی تصویر کھینچ لوں۔‘‘

    ’’کیا یہ دن میں بھی نکل آتی ہے یا صرف رات کو نکلتی ہے؟‘‘ جبران کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔

    ’’دن ہو یا رات، اس کی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہاں انھیں براہ راست سورج کی روشنی پسند نہیں۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

    انھوں نے ’پتھر‘ کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ تو حرکت نہیں کر رہا، ہم خوامخواہ کچھ کا کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ یہاں کوئی ایسی ویسی مخلوق نہیں ہے۔ اور ٹرال کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ محض تصوراتی مخلوق ہے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھا۔

    ’’ہاں تم نے ٹھیک کہا، نہ ہونے کو تو ماربل عفریت بھی کوئی چیز نہیں جو سانپ کے سروں والی مخلوق ہے لیکن پھر بھی ہم نے دیکھ لی تھی۔‘‘ دانیال نے اس پر طنز کیا۔ ’’پتا ہے اس جزیرے پر تو بہت ساری پریاں، بالشتیے اور لمبے کانوں والی پری نما مخلوق بھی رہتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر ٹھیک ہے، آؤ انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے قائل ہو کر کہا اور کوٹ کی جیب سے کیمرا نکال لیا۔ اس دوران دانیال کئی تصاویر بنا چکا تھا۔ وہ تینوں دل ہی دل میں ڈر رہے تھے لیکن اس مخلوق کو قریب سے دیکھنا بھی چاہتے تھے۔

    ’’اوہو، تم بھی کیمرہ لائی ہو۔‘‘ جبران چہکا۔ عین اسی وقت ان کے سامنے کوئی چیز چمکی، جیسے اچانک کوئی شعلہ بھڑکا ہو۔ ’’ارے یہ کیا تھا … کیا یہ ٹرال مخلوق تھی؟‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    ’’میں جانتا ہوں یہ کیا ہے۔‘‘ دانیال پرجوش ہو کر بولا اور تیزی سے روشنی کی طرف بڑھا۔ ’’یہ روشنی پری ہے۔ یہ دراصل ٹرال ہی کے متعلق باتیں کر رہی تھی۔ یہ پریاں بالکل پیٹر پان کی ٹِنکر بیل جیسی ہوتی ہیں۔ جب یہ اڑتی ہیں تو اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑ جاتی ہیں۔ اور پتا ہے یہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں۔ اگر ایک بوتل مل جائے تو میں کسی ایک کو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھر بھی لے کر جاؤں۔‘‘

    ’’پتا نہیں، ہم کیسی عجیب و غریب جگہ پر آ گئے ہیں، ہمیں آگے کیا کچھ دیکھنے کو مل جائے، میں تو واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران اچانک خوف زدہ ہونے لگا تھا۔ فیونا نے اسے تسلی دی: ’’کچھ نہیں ہوگا، ڈرو مت، ہم تقریباً پہنچ ہی گئے ہیں، بس ذرا ہی آگے لاوا غار ہے، اور احتیاط سے چلو سب، یہ زمین نوک دار ہے۔‘‘
    فیونا نے چلتے چلتے مڑ کر دانیال کی طرف دیکھا اور پکارا: ’’واپس آ جاؤ، چھوڑیوں پریوں کو… آہ… میرے ٹخنے پر چوٹ لگ گئی!‘‘

    (جاری ہے)

  • چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    دانیال نے چوں کہ پمفلٹ بہت اچھی طرح پڑھ لیا تھا اس لیے اسے یہ ساری معلومات یاد تھیں۔ جبران کو اس کی بات پر یقینی نہیں آیا اور بولا: ’’قزاق اور آئس لینڈ میں؟‘‘

    ’’جی ہاں، یہ 1627 کا ایک سچا قصہ ہے۔ قزاقوں نے انھیں افریقہ لے جا کر غلاموں کی طرح فروخت کر دیا تھا۔ انھوں نے بہت سارے مردوں کو جان سے بھی مار دیا تھا۔‘‘

    ’’کک … کیا اب بھی قزاق یہاں آ سکتے ہیں؟‘‘ جبران گھبرا گیا۔

    فیونا ہنس پڑی: ’’بے وقوف، وہ چار سو سال پرانی بات ہے، اب یہاں بحری قزاق نہیں ہیں۔‘‘

    تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد آخر کار کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی۔ کشتی پانی میں ڈول رہی تھی۔ وہ تینوں لڑکھڑاتے ہوئے ساحل پر اترے۔ جبران کو چکر آنے لگے تھے اور وہ آگے پیچھے ڈول رہا تھا جیسے ابھی تک کشتی ہی میں سوار ہو۔

    ’’پریشان مت ہو، کچھ دیر میں تمھاری طبیعت سنبھل جائے گی۔‘‘ فیونا نے اسے تسلی دی۔ اس کی اور دانیال کی طبیعت اب درست تھی، ان دونوں کی بھوک خوب چمک اٹھی تھی۔ فیونا نے کہا: ’’سب سے پہلے کھانا!‘‘

    ’’میرا جی نہیں کر رہا ہے، ہاں تم دونوں جا کر کھا سکتے ہو۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا اسے سمجھانے لگی کہ کھانا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ آگے کا کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو، اور دن کس طرح گزرے، اور کھانے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔ تینوں ایک کیفے کی طرف بڑھے اور وہاں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر فیونا کا منھ بن گیا: ’’لو، یہاں تو کیلے اور پپرونی پیزا دستیاب ہیں۔ یہاں بھی وہی ڈشیں ہیں۔ دودھ میں پفن اور گھوڑے کا گوشت، کچی مچھلیاں … اوع … یہ کون کھائے گا۔‘‘

    ’’مت کرو ان چیزوں کا ذکر۔‘‘ جبران نے سر پکڑ لیا۔ ’’میں تو یہاں مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ کھانوں کی بو سے میری طبیعت مزید خراب ہو ری ہے۔ میں باہر جا کر تم دونوں کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔

    دونوں نے مجبوراً کیلے اور پپرونی کے پیزا کا آرڈر دے دیا۔ ڈشیں آگئیں تو جلدی جلدی کھا کر اور باہر نکل آئے۔

    ’’کچھ بہتر محسوس کر رہے ہو اب؟ چہرے کی رونق تو لوٹ آئی ہے۔‘‘ فیونا نے پوچھا۔ جبران نے مسکرا کر سر ہلایا۔ دانیال نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اچھا، اب کیا کریں، کھانا بھی کھا چکے۔ یہاں وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ذرا سوچو، اگر کوئی شخص 1200 میں یہاں آ کر قیمتی پتھر چھپاتا ہے، تو اب تک تو وہ اس لاوے میں کہیں دفن ہو چکا ہوگا۔‘‘

    فیونا بولی: ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اسے کچھ زیادہ دیر تک تلاش کرنا پڑے گا، اسے ڈھونڈ نکالنا کچھ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’لیکن ہم ان پتھریلی پہاڑیوں میں قیمتی پتھر کو کہاں کہاں تلاش کریں گے؟‘‘ جبران بولا۔

    ’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مرجان ہمیں ایک لاوا غار میں ملے گا۔‘‘

    ’’اور اب یہ لاوا غار کیا شے ہے؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔

    فیونا بتانے لگی: ’’لاوا غار اس وقت وجود میں آتا ہے جب اوپر کی سطح کا گرم بہتا لاوا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، تاہم اس کے نیچے گرم لاوا بہتا رہتا ہے اور اس طرح ایک ٹیوب بن جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ لاوا سخت ہونے لگتا ہے اور ایک غار کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ مرجان کسی ٹنوں لاوے کے نیچے نہیں چھپا ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کسی غار میں ہے، یہ جزیرہ کچھ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ چلو اسے ڈھونڈنے کا آغاز کرتے ہیں۔ ہاں، ایک بات یاد رکھنا کہ لاوا بہت کاٹ دار ہوتا ہے، اگر ہم نے احتیاط نہیں برتی تو یہ ہمیں لمحوں میں کئی ٹکڑوں میں بدل دے گا۔‘‘

    قیمتی پتھر کی جستجو میں تینوں لاوے کی زمین کی طرف بڑھنے لگے۔ دانیال بولا: ’’یہ زمین ناہموار ہے لیکن اچھی لگ رہی ہے۔‘‘

    وہاں جگہ جگہ پتھر پڑے ہوئے تھے اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر گھاس کی چادریں تنی ہوئی تھیں۔ جبران کو کچھ نظر آیا تو اس نے کہا: ’’ارے وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی چیز حرکت کر رہی تھی۔ جبران نے کہا: ’’اوہ یہ تو چٹان ہے جو حرکت کر رہی ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • ترپّن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ترپّن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    فیونا نے جواب دینے والی تھی کہ دانیال اس سے پہلے ہی بول پڑا: ’’گھبراؤ نہیں، تم اتنی جلدی کیوں خوف زدہ ہو جاتے ہو۔ پمفلٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جولفر نامی کشتی ایک جدید ترین کشتی ہے، دیکھو یہ نئی بھی لگتی ہے۔ اس میں ایک کیفے ٹیریا ہے اور ایک فلمی تھیٹر بھی۔ اگر ہم چاہیں تو عرشے پر بیٹھ کر ڈولفنوں اور وھیل کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سمندر بہت پرسکون دکھائی دے رہا ہے، اس لیے آج ہواؤں کا کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے، لہریں بھی چھوٹی چھوٹی ہیں۔‘‘

    فیونا حیرت سے دانیال کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’واہ تم تو بہت اچھی باتیں کرنے لگے ہو۔‘‘

    ’’بس یہ تو تم لوگوں کا اثر ہے۔‘‘ دانیال نے قہقہہ لگایا۔ تینوں ہنسی مذاق کرتے ہوئے عرشے پر چڑھ کر سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ’’دانی تمھارے پاس جو گائیڈ بک ہے، اس میں تھورلیکشوف کے متعلق بھی تو کچھ لکھا ہوگا، ذرا مجھے سنانا کیا لکھا ہے؟‘‘ فیونا نے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے پوچھا۔

    دانیال پمفلٹ کھول کر پڑھنے لگا: ’’اس میں لکھا ہے کہ یہ چھوٹا سا شہر جنوبی ساحل پر ہے اور اس کا نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہاں سے مچھلی اور پومس برآمد کیے جاتے ہیں۔ تھورلیکشوف میں آئس بلو کے نام سے ایک واٹر پلانٹ بھی ہے جہاں منرل واٹر تیار کیا جاتا ہے۔‘‘ جبران نے پوچھا کہ یہ پومس کیا ہے، تو فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اے تم نہیں جانتے، میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم بہت کچھ جانتے ہو، بہرحال، یہ ایک قسم کا خاکی رنگ کا ہلکا سا آتش فشانی پتھر ہے۔ اسے پیس کر مختلف چیزوں کو مہین بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ دراصل لاوے سے بنتا ہے۔‘‘

    اسی وقت کشتی کا انجن چالو ہو گیا، اور ذرا دیر بعد کشتی سمندر میں اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ ابھی انھوں نے آدھے گھنٹے ہی کا سفر طے کیا تھا کہ جبران کے ساتھ ساتھ فیونا کی طبیعت بھی خراب ہونے لگی۔ پھر جیسے ہی اس کی توجہ لہروں پر چلی گئی تو وہ خوف زدہ ہو گئی۔ ’’لہریں تو بہت بڑی ہیں۔ کک… کک … کیا جبران نے درست کہا تھا اور … یہ کشتی ڈوب جائے گی؟‘‘

    دانیال کا حال بھی ان دونوں کی طرح تھا۔ سمندر میں یہ ان کا پہلا سفر تھا اس لیے انھیں متلی ہونے لگی تھی، اور سر چکرانے لگا تھا۔ دانیال بولا:’’ میرا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے فیونا لیکن تم اس طرح کی بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ لہریں اتنی بھی بڑی نہیں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا پیٹ پکڑا اور اٹھ کر جنگلے کے پاس جا کر اپنی توجہ ہٹانے لگا۔

    ’’یہاں آؤ، میں نے قاتل وھیل دیکھ لیے ہیں۔‘‘ اس نے مڑ کر دونوں کو پکارا۔ دونوں کِلر وھیل کا سن کر عارضی طور پر اپنی تکلیف بھول گئے اور جنگلے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’ارے وہ رہے کلر وھیل۔‘‘ جبران خوشی سے چلایا۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ پانی کے اس خطرناک جانور کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اسے جو کم زوری محسوس ہو رہی تھی، وہ پل بھر میں غائب ہو گئی تھی۔ فیونا بھی دل چسپی سے وھیل کو دیکھ رہی تھی جو بڑی تعداد میں تھیں اور کشتی کے ساتھ ساتھ ہیمے کی طرف سفر کر رہی تھیں، اور جن پر لمبی اور رنگین چونچوں والے پرندے پفن بہت بڑی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    فیونا چلائی: ’’وہ دیکھو، یہ ہیمے ہے اور لاوا بہہ رہا ہے۔ یہاں آتش فشاں پہاڑ ہے اور وہ رہے کالے پتھر۔ میری دعا ہے کہ جب تک ہم یہاں ہیں یہ نہ پھٹے۔‘‘

    ’’افوہ، فیونا ایک تو تم دونوں بہت جلد پاگل پن کی باتیں کرنے لگ جاتے ہو۔‘‘ دانیال جھلایا۔ ’’یہ تو ایک پیارا جزیرہ ہے، یہ دراصل ویسٹ مین جزائر کا ایک حصہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے ویسٹ مانیار کہتے ہیں، جب کہ ہیمے ایک آتش فشانی جزیرہ ہے۔ اور کیا تم یہ یقین کرو گے کہ ایک دن یہاں قزاق آئے اور یہاں کی تمام عورتیں اور لڑکیاں اغوا کر کے لے گئے؟‘‘

    (جاری ہے….)

  • باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ (more…)

  • اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    جونی تھامسن نے پانی سے بھرا گلاس مائری کو دیتے ہوئے پوچھا: ’’اب بتاؤ کیا ہوا تھا؟‘‘

    ماہری بتانے لگیں: ’’جب میں کام سے گھر لوٹی تو دروازے کے پٹ کھلے ہوئے تھے۔ فیونا نے کہا تھا کہ وہ اپنے انکل کے گھر جائے گی، اس لیے میں جانتی تھی کہ گھر میں کوئی نہیں ہوگا، لیکن جب میں نے یہاں یہ تباہی دیکھی تو خیال آیا کہ کہیں وہ گھر واپس نہ آئی ہو اور کسی نے اندر داخل ہو کر اسے نقصان نہ پہنچایا ہو، یہ دیکھو نا انھوں نے کتنی بے دردی سے ہر چیز الٹ پلٹ کر کے رکھ دی ہے۔ حتیٰ کہ ریفریجریٹر سے بھی تمام چیزیں نکال کر نشست گاہ کے فرش پر پھینک دی ہیں۔ قالین پر سے یہ پگھلتی ہوئی آئس کریم اب کبھی صاف نہیں ہو سکی گی۔‘‘

    ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ نوجوان لڑکوں کے کسی گروہ نے کیا ہے، یہ سب کسی ایک سرکش آدمی کا کام ہے۔ کوئی ایسا شخص جو بے رحم ہے۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے؟‘‘ جونی نے سارے کمرے گھوم کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’گیل ٹے میں اس طرح کا کوئی بھی شخص نہیں ہے۔ ہاں میں نے آج بیکری میں کچھ افواہیں سنی ہیں۔ کسی چور نے ایلسے کے سرائے پر مہمانوں کو لوٹا۔‘‘ مائری نے گالوں پر آنسوؤں سے بنی لکیروں کو صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’میرے خیال میں آپ فوراً پولیس کو ٹیلی فون کر کے رپورٹ درج کرائیں۔‘‘ جونی بولا:’’آپ پولیس کو طلب کریں اور میں گھر کو صاف کرتا ہوں۔‘‘

    مائری نے ایمرجنسی نمبر ڈائل کیا، کچھ ہی دیر میں پولیس پہنچ گئی۔ ’’کیا ہوا ہے مائری؟‘‘ آفیسر اینڈرسن نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’میں نے آج تک گیل ٹے میں اس قسم کی واردات کبھی نہیں دیکھی۔ یہ تو کوئی ذہنی مریض لگتا ہے۔‘‘

    پھر آدھے گھنٹے تک پولیس رپورٹ لکھتی رہی، معلوم ہوا کہ گھر سے کوئی بھی چیز چوری نہیں ہوئی۔ آفیسر اینڈرسن کو اس پر حیرت ہوئی۔ آخر میں اس نے رپورٹ بک بند کر کے اٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے مائری، جیسے ہی ہمیں کوئی خبر ملتی ہے ہم آپ کے پاس آ جائیں گے، تب تک آپ دروازہ بند کر کے رکھا کریں۔‘‘

    ’’دیکھو، میں نے بھی آپ سے یہی کہا تھا نا۔‘‘ جونی نے دروازے کے قریب کچرے سے بھری تھیلی پھینکتے ہوئے کہا۔ مائری نے بتایا کہ انھوں نے دروازہ بند کیا تھا، وہ کھڑکی سے اندر آیا ہوگا۔ جونی نے خیال ظاہر کیا کہ لگتا ہے اسے کسی چیز کی تلاش تھی لیکن نہ ملی تو غصے میں گھر کی چیزیں الٹ پلٹ دیں۔ اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی، مائری نے جا کر دروازہ کھولا تو بلال اپنی بیگم شاہانہ کے ساتھ وہاں کھڑے تھے، ان کے ساتھ جونی کا بھائی جمی بھی تھا۔

    ’’جیسے ہی ہم نے سنا ہم چل پڑے۔‘‘ شاہانہ اندر آ کر بولیں: ’’ان کے لہجے میں مائری کے لیے بہت زیادہ ہمدردی تھی۔ واقعہ سننے کے بعد انھوں نے کہا: ’’ہم بھی گھر کو درست کرنے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘‘

    انھیں گھر پھر سے بحال کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ چوں کہ گھر میں کھانے کی کوئی چیز سلامت نہیں رہی تھی، اس لیے شاہانہ کے کہنے پر بلال واپس گھر جا کر رات کے لیے پکا ہوا کھانا اٹھا کر لے آئے، سب نے مل کر کھانا کھایا۔ مائری نے شاہانہ کو گلے لگا کر کہا: ’’آپ کا بہت بہت شکریہ، اچھا ہوا کہ فیونا کے آنے سے پہلے ہی گھر درست ہو گیا ورنہ وہ بہت خوف زدہ ہو جاتی۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔‘‘ شاہانہ نے اپنائیت سے کہا: ’’بس اب اپنا خیال رکھیے۔‘‘

    جونی نے اپنے بھائی کو مخاطب کیا: ’’جمی، تم بلال صاحب کے ساتھ جا کر یہاں کی روایتی تقریب کا مزا لو، میں یہاں رات کے لیے ٹھہر جاؤں گا، لیکن پہلے اینگس کے گھر سے ہوتے ہوئے جانا،‘‘

    ’’یہ آپ کی اچھائی ہے لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ مائری بولیں۔

    ’’نہیں، اس کی ضرورت ہے۔‘‘ جونی نے جواب دیا۔ ’’وہ پاگل شخص کسی بھی وقت پھر آسکتا ہے۔‘‘

    کچھ ہی دیر بعد بلال اور شاہانہ اپنے گھر، جب کہ جمی اینگس کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

    (جاری ہے…)

  • انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اچھا اب تولیے واپس رکھ دو اور نیچے چل کر معلومات حاصل کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے تولیہ واپس ریک پر ڈال دیا، اور دروازے کی طرف بڑھی۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے چلے گئے۔ فیونا استقبالیہ پر موجود شخص کی طرف بڑھی۔ ’’جناب، کیا یہاں قریب میں کوئی آتش فشاں پایا جاتا ہے؟‘‘

    استقبالیہ پر موجود شخص مسکرایااور میز پر ذرا آگے کی طرف جھک کر انھیں پوری طرح دیکھ کر بولا: ’’یہ پورا ملک ہی آتش فشاں ہے، ہاں اگر یہ جاننا ہو کہ حالیہ آتش فشاں کہاں پھٹا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ ویسٹمین جزائر کا ایک آتش فشاں ہے جسے ہیمے کہتے ہیں، اور یہ 1973 میں پھٹا تھا۔‘‘

    ’’ہاں بالکل یہی، ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ فیونا نے جلدی سے پوچھا۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے تھوڑی سی دیر کر دی، کیوں کہ سہ پہر کو آخری کشتی بھی کچھ دیر قبل ہی نکلی ہے، اب اگلی صبح کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ ناشتہ کر کے میرے پاس آنا تو میں راستہ سمجھا دوں گا۔ اس نے انھیں چند پمفلٹس بھی دیے اور ہدایت کی کہ انھیں غور سے پڑھ لیں۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے آخر میں اپنا نام بھی بتایا: ’’میرا نام میگنس میگنسن ہے، لیکن تم لوگ مجھے صرف میگنس پکار سکتے ہو، اور آپ کی تعریف؟‘‘

    ’’میں فیونا، یہ جبران اور یہ دانیال۔‘‘ فیونا نے تعارف کرایا: ’’دراصل ہمارے والدین جلد ہی یہاں پہنچیں گے۔ انھوں نے ہمیں پہلے ہی یہاں بھیج دیا ہے اس لیے ہم اپنے طور پر گھوم پھرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ رکجاوک کی شام سے لطف اندوز ہو۔

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا: ’’ہمیں میگنس کی بات پر عمل کرنا چاہیے، باہر چل کر رکجاوک کی شام کا لطف اٹھاتے ہیں اور پھر واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ تینوں ہوٹل سے نکل کر سڑک پر آ گئے اور پمفلٹس کھول کر یہاں کے بارے میں درج معلومات پڑھنے لگے۔ جبران نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور حیران ہو کر کہا: ‘‘ابھی ساڑھے چار ہی بجے ہیں اور اندھیرا چھانے لگا ہے، گرمیوں کے موسم میں یہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور ساری رات سورج کی روشنی رہتی ہے۔‘‘

    ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ اب یہاں خزاں کا موسم ہے، اسی لیے سردی بھی کوئی خاص نہیں ہے اور برف باری بھی۔‘‘ دانیال بتانے لگا، وہ اب جادو کی وجہ سے انگریزی بول ہی نہیں بلکہ اچھے سے پڑھ بھی سکتا تھا۔ جبران نے اندھیرا ہوتے دیکھ کر کہا: ’’ہمیں اب ہوٹل جانا چاہیے، اجنبی مقام پر رات کو گھومنا محفوظ نہیں۔‘‘

    ’’کسی میوزیم یا پھر کوئی لائبریری دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا۔ فیونا نے جبران کی حمایت کی: ’’نہیں دانی، ہم یہ سب جگہیں پھر بھی دیکھ سکتے ہیں، ویسے مجھے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا کہ کل تو ہم بہت مصروف ہوں گے، کچھ شاپنگ ہی کر لیتے ہیں، خواہ ایک ہی دکان میں جائیں۔ جبران اور فیونا نے اس کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ جبران نے کہا میں تو مچھلیوں والے کی دکان میں جانا چاہوں گا، جہاں ماہی گیری کا سامان فروخت ہوتا ہو، اپنے پاپا کے لیے کچھ خریدوں گا۔ لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا کہ یہ چیزیں تو گیل ٹے میں بھی بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ ایسے میں فیونا نے سامنے کی ایک دکان کی طرف اشارہ کیا کہ چلو اس میں چلتے ہیں۔ فیونا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، یہ دست کاری، فن اور اونی اشیا کی دکان تھی۔ دانیال سڑک ہی پر کھڑا رہ گیا، اس نے کہا: ’’نہیں بھئی، یہاں لڑکیوں کی چیزیں ہی ملتی ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، تم اپنی مرضی کی دکان ڈھونڈ لو، ہم دونوں یہاں جاتے ہیں، لیکن آدھے گھنٹے بعد یہیں پر واپس آنا۔‘‘

    آدھے گھنٹے بعد جب دونوں دکان سے نکلے تو دانیال کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ انھوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر رفتہ رفتہ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔

    (جاری ہے)

  • اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’لو یہ تو بڑی جلدی مل گیا۔ یاد ہے نا ہم نے کس طرح کرنسی حاصل کی تھی۔ اب پھر ہمیں وہی دکھ بھری کہانی سنانی ہے۔ تو سب سے پہلے میں کوشش کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے مسکرا کر یاد دلایا اور بینک کے اندر چلی گئی۔ پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آئس لینڈ کے کرنسی نوٹ تھے۔ وہ آتے ہی چہک کر بولی: ’’میں بہت شان دار اداکاری کرنے لگی ہوں۔ اچھا تم دونوں یہ رقم رکھ لو، جب ہم واپس جائیں گے تو انکل اینگس کو بقایا رقم واپس کر دیں گے۔‘‘ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم دے دی۔

    ’’میری دعا ہے کہ کوئی ہم سے پاسپورٹ نہ طلب کر لے۔ ویسے اگر ہمارے پاس پاسپورٹ ہوتے تو ہم اس پر ان سارے مقامات کی مہر لگوا لیتے۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    فیونا نے آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا: ’’ایسا ظاہر کرو کہ تم یہیں رہتے ہو، ایسی حرکتیں نہ کرو کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر چہک کر بولی: ’’واہ یہ کتنا پیارا ہوٹل ہے۔‘‘

    وہ تینوں وائی کنگ شپ نامی ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سامنے ہی قدیم بادبانی کشتی وائی کنگ کا ماڈل نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ ’’یہ کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ جبران دوڑ کر اس کے قریب چلا گیا۔ کشتی میں وائی کنگ جنگجوؤں کے مجسمے کھڑے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور بھاری ڈھالیں تھیں۔ وہ ایک بڑے کمرے میں کھڑے تھے، جس کی چھت کے قریب دیواروں پر چوبی ڈریگن یا سمندری عفریت چاروں طرف چکّر کاٹ رہا تھا۔ اس کے منھ سے شعلے نکلتے اور ہر چند فٹ کے بعد اس کی پشت میں ایک کوہان نما اٹھ کر چھت سے ٹکراتا۔ وائی کنگ جنگجو نہ صرف کشتی میں کھڑے تھے بلکہ پورے دالان میں چند قدم کے فاصلے پر ایستادہ تھے۔ ہوٹل کے کمرے کے وسط میں شیشے کے صندوق میں وائی کنگ ٹوپیاں، سکے، کھلونے، پیالے اور دوسری نوادرات رکھی ہوئی تھیں۔ فیونا نے سرگوشی کی: ’’تم دونوں یہ نوادرات دیکھو، میں اندر جا کر کوئی کمرہ کرائے پر لیتی ہوں۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو فیونا، اگر انھوں نے تم سے پاسپورٹ کے متعلق پوچھا تو؟ ‘‘ جبران نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ارے تم پریشان کیوں ہو گئے ہو، گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ فیونا نے جواب دیا اور بغیر اس کی بات سنے چلی گئی۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کی انگلی سے ایک چابی لٹک رہی تھی۔ اس نے چالاکی سے ہنستے ہوئے کہا: ’’انھوں نے مجھ سے پاسپورٹ مانگا لیکن میں نے کہہ دیا کہ میرے والدین بعد میں آئیں گے اس لیے انھوں نے مجھے کمرہ لینے کے لیے بھجوا دیا۔ اور یہ سن کر اس نے میری بات پر یقین کر لیا۔‘‘

    ’’تم تو بہت زبردست جا رہی ہو فیونا، تمھارا جواب نہیں۔‘‘ جبران خوش ہو کر بولا۔ اپنی تعریف سن کر فیونا کا سینہ فخر سے پھول گیا۔

    ’’ہمارے کمرے کا نمبر کیا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔ ’’سیکنڈ فلور، روم نمبر 217.‘‘ فیونا نے بتایا۔

    وہ تینوں اپنے کمرے میں آ گئے۔ یہ اتنا اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا، جس میں تین عدد بستر بچھے تھے۔ تینوں ایک ایک بستر پر بیٹھ کر سستانے لگے۔ فیونا فوراً لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا سا ہوا اور وہ ایک منظر دیکھنے لگی۔ یہ ایک آتش فشاں پہاڑ کا منظر تھا جو ایک زبردست دھماکے سے پھٹا اور وہ آگ اور لاوا اگلنے لگا۔

    وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی، دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔ فیونا نے کہا میں جان گئی ہوں کہ مرجان کہاں ملے گا ہمیں۔ وہ دونوں اس کے پاس آ گئے۔ فیونا نے کہا سب سے پہلے ہمیں یہاں کسی سے قریبی آتش فشاں کے بارے میں معلوم کرنا ہوگا، ہمیں وہیں جانا ہے۔

    ’’کیا… آتش فشاں … ‘‘ دونوں چونک اٹھے۔

    ’’ہاں، چلو ہوٹل کے دالان میں کسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں کمرے سے نکلنے لگے تو جبران نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ ’’ارے یہ دیکھو، یہ کتنا خوب صورت باتھ ٹب ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال نے بھی اندر جا کر دیکھا، تمام ٹائلوں پر وائی کنگ کشتی کی تصویر منقش تھی۔ ہر ٹائل پر کشتی کو مختلف رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ ٹاؤل ریک پر تین تولیے لٹک رہے تھے، یہ بھی مختلف رنگوں کے تھے اور ان پر بھی وائی کنگ جنگ کے مختلف مناظر کی چھپائی کی گئی تھی۔ باتھ ٹب عین وسط میں تھا اور اس پر اسکینڈے نیویا کے غار کی دیواروں والی لکیریں اور علامات بنائی گئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر جبران کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

    ’’یہ تو رونک حروف تہجی ہیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ فیونا حیران ہو گئی: ’’رونک حروف تہجی کیا ہیں؟‘‘

    ’’دراصل وائی کنگ لوگ اسی طرز تحریر میں لکھتے تھے۔ حیرت ہے تمھیں نہیں پتا، اسکول میں یہ ہمیں پڑھایا تو گیا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ’’ہاں ٹھیک ہے پڑھایا ہوگا۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سبز رنگ کا تولیہ کھینچ کر بولی: ’’مجھے تو یہ والا پسند ہے، اس لیے یہ میری ہو گئی۔‘‘

    جبران نے جلدی سے خاکی رنگ کا تولیہ اتار لیا۔ آخری تولیہ بھورے رنگ کا تھا جو دانیال کے حصے میں آیا۔ دانیال نے تولیہ چہرے پر مل کر دیکھا اور کہا یہ تو بہت نرم ہے۔

    (جاری ہے)

  • چھیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اسکول سے نکلنے کے بعد فیونا گھر نہیں گئی۔ وہ مزید انتظار نہیں کرسکتی تھی اس لیے سیدھا جبران کے گھر چلی گئی، اسے دراصل اینگس کے گھر پہنچنا تھا۔ جبران بھی اسی وقت گھر پہنچا تھا، اسے دیکھتے ہی فیونا نے کہا: ’’تم تیار ہو۔ چلو انکل کے ہاں چلتے ہیں، میں جلد سے جلد کسی دوسرے ملک جانا چاہتی ہوں۔ ویسے پتا نہیں کہ آج وہ منتر ہمیں کس دیس لے کر جائے گا!‘‘

    دانیال بولا: ’’میرے خیال میں وہ کوئی سرد مقام ہو سکتا ہے، اس لیے میں تو اونی کوٹ لے کر جاؤں گا۔‘‘

    جبران نے اپنی پسند کا اظہار کیا: ’’لیکن مجھے امید ہے اس مرتبہ ہم کسی گرم علاقے میں جائیں گے، مجھے ایسے ہی علاقے پسند ہیں جو گرم ہوں اور وہاں بارش زیادہ نہ ہو۔‘‘

    تینوں بے تابی سے اینگس کے گھر کی طرف دوڑتے ہوئے جانے لگے۔
    ……………………

    دوسری طرف مائری مک ایلسٹر بیکری سے نکلنے کے بعد جیسے ہی گھر پہنچی، اور گھر کا دروازہ کھولا، ان کے منھ سے ایک چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر اندر گئیں اور گھبراہٹ میں فیونا کو آوازیں دینے لگیں۔ وہ سمجھی تھیں کہ شاید وہ اپنے کمرے میں ہو، لیکن وہاں کوئی نہ تھا اور گھر میں ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی آنکھیں حیرت اور خوف کے مارے پھٹ رہی تھیں۔ انھوں نے گھبرا کر ٹیلی فون اٹھا کر جبران کے گھر کا نمبر ملا دیا۔ دوسری طرف شاہانہ نے فون اٹھایا۔ ’’ہیلو شاہانہ، کیا مرد حضرات شکار سے واپس آ گئے ہیں؟‘‘ مائری نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ شاہانہ نے کچھ کہا تو مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے، ذرا جونی کو فون دیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انھیں انتظار کرنا پڑا۔

    ان کے سامنے گھر کا نقشہ بکھرا پڑا تھا اور ان کے گالوں پر آنسو بہتے جا رہے تھے۔ جونی نے دوسری طرف سے جیسے ہی ہیلو کہا مائری جلدی سے بولیں: ’’جونی کیا آپ فوری طور پر یہاں آ سکتے ہیں؟ یہاں … یہاں خوف ناک بات ہو گئی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور وہیں پر گر کر سسکیاں بھرنے لگیں۔ انھیں شدید جذباتی جھٹکا لگا تھا۔ کیوں کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ گیل ٹے میں ان کے گھر میں کبھی اس طرح کا واقعہ رو نما ہو سکتا ہے۔

    تھوڑی دیر بعد مائری کو دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی، جونی اندر آ گیا۔ مائری اس وقت ایک کونے میں سمٹی بیٹھی ہوئی، خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔ جونی نے مائری کو سہارا دے کر اٹھایا اور صوفے پر بٹھا دیا، اور ایک کمبل اٹھا کر ان کے گرد لپیٹ کر بولا: ’’اب بتاؤ، کیا ہوا ہے؟‘‘
    …………………..

    ’’کیا وہ واپس آ گئے ہیں؟‘‘ جبران نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر کھڑکی سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ’’ارے یہ بلیاں باہر کیوں پھر رہی ہیں، انکل تو انھیں کبھی باہر نہیں چھوڑتے۔ چلو اندر چل کر معلوم کرتے ہیں کہ سب ٹھیک تو ہے۔‘‘ فیونا کے لہجے میں حیرت تھی۔

    دانیال نے ہینڈل گھمایا اور تینوں اندر داخل ہو گئے۔ ’’یہاں تو مجھے سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہے۔ بلیوں کو اندر آنے دو، یہ بے چاری تو بہت بھوکی ہوں گی۔‘‘ فیونا نے مخصوص پیالے پانی اور بلیوں کی خوراک سے بھرنے لگی۔ اینگس دروازے کے پیچھے ہی ایک تھیلے میں ان کی خوراک بھر کر رکھتے تھے۔ پھر فیونا اور جبران بلیاں اندر لے آئے۔

    ’’وہ ابھی تک نہیں لوٹے۔ ہمیں ان کا انتظار کرنا چاہیے، مجھے یقین ہے وہ جلد پہنچ جائیں گے۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ تینوں کرسیوں پر بیٹھ گئے، انھیں واقعی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، دروازہ کھلا اور اینگس اندر داخل ہو گئے۔ تینوں انھیں دیکھتے ہی اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ فیونا نے کہا: ’’ہم آپ کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے، ہم دوسرا قیمتی پتھر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    اینگس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ انھوں نے کندھوں پر رکھا بوجھ اتار کر کہا: ’’ذرا صبر بچو، میں لمبے سفر سے لوٹا ہوں، پہلے کچھ کھانے تو دو۔ پھر سارا سامان کھولوں گا اور پھر دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘‘

    وہ ان کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھ گئے، لیکن جھک کر فیونا کے کان میں شرارت سے سرگوشی کی: ’’تو اس بار تم کہاں جانے کا سوچ رہی ہو!‘‘ فیونا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا: ’’ہم تو صرف قیمتی پتھر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ لیکن پھر اچانک فیونا سنجیدہ ہو کر بولی: ’’پتا ہے آپ کو، جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، یہاں آس پاس کچھ عجیب سی باتیں ہونے لگی ہیں۔‘‘

    یہ سن کر اینگس چونک اٹھے: ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’سب سے پہلی بات… جونی اور جمی تھامسن۔‘‘ فیونا بتانے لگی۔ جبران نے کہا وہ ہمارے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ فیونا نے بتایا کہ وہ کچھ عجیب سے لوگ ہیں لیکن ممی کو یقین ہے کہ برے لوگ نہیں ہیں۔

    ’’اوہو بچو… چھوڑو ان باتوں کو۔ تم لوگ خوامخواہ معمولی بات کا بھتنگڑ بنا رہے ہو۔‘‘ اینگس نے قہقہہ لگایا۔ ’’چلو، سب سے پہلے تمھارا ہی کام کرتے ہیں۔ تم تینوں آتش دان کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ میں جادوئی گولا نکال رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے بیگ سے جادوئی گیند نکال کر میز پر رکھ دی، اور فیونا کو مخاطب کیا: ’’میں تمھیں بتانا بھول گیا تھا کہ اب تم آگ پیدا کر سکتی ہو، اور اس کے لیے تمھیں اپنے دماغ میں حکم دینا پڑے گا بس!‘‘

    ’’واہ زبردست … شکریہ انکل۔ موقع ملا تو میں اس طاقت کو ضرور استعمال کروں گی۔‘‘ فیونا نے خوش اور حیران ہو کر کہا، اور پھر وقت ضایع کیے بغیر جبران اور دانیال کے ہاتھ تھام کر منتر دہرانے لگی … دالث شفشا یم … دالث شفشا یم … اور پھر تینوں اینگس کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گئے، انھوں نے مسکرا کر ٹیک لگالی۔

    (جاری ہے….)