Tag: رفیع اللہ میاں

  • پینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’گھر میں کوئی نہیں، یہ صبح میرے لیے لکی ہے۔‘‘ ڈریٹن مسکرایا اور احتیاطاً سارے گھر کے گرد ایک چکر لگا لیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ باغیچے میں بھی کوئی نہیں ہے تو اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔

    ’’ارے یہ تو بند ہے، حیرت ہے۔ یہاں کسی کے گھر کا دروازہ بند نہیں ہوتا، لیکن اس گھر کا دروازہ بند ہے۔ کیا بات ہے مائری اور فیونا… کیا چھپا رکھا ہے تم دونوں نے؟‘‘ وہ پُر جوش ہو کر بڑبڑانے لگا۔

    نہ صرف دروازے بلکہ کھڑکیاں بھی اندر سے بند تھیں۔ ہاں باورچی خانے کی کھڑکی کھلی مل گئی۔ اس نے دیوار کے ساتھ ایک گملا رکھا اور اس پر چڑھ کر اچھلا اور کھڑکی پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ گھر کے اندر تھا۔ گھر اندر سے صاف ستھرا تھا اور ہر شے سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ یہ بات اس کو سخت ناپسند تھی، اس لیے اس نے الماریوں سے برتن نکال نکال کر فرش پر پٹخ دیے۔ ذرا دیر میں اس نے گھر کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ ریفریجریٹر سے بھی کھانے پینے کی تمام اشیا نکال کر فرش پر پھینک دیں۔

    ’’فیونا… تم نے اسے آخر کہاں چھپا رکھا ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ اس نے بیڈروم کی الماری بھی اسی طرح خالی کر دی۔ طاقچوں میں رکھے سارے برتن اب فرش پر بکھرے پڑے تھے۔ غرض ہر چیز اس نے الٹ پلٹ کر رکھ دی لیکن وہ جس چیز کی توقع کررہا تھا، وہ اسے نہیں مل سکی۔ آخر تھک ہار کر وہ بڑبڑایا: ’’ہونہہ … تو اس لڑکی نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اسے چھپایا ہوا ہے، تاکہ کوئی بھی اسے نہ پاسکے۔‘‘ کوئی ایک گھنٹے بعد وہ فیونا کے گھر سے نکلا۔ اس کا رخ اب اینگس کے گھر کی طرف تھا۔

    (جاری ہے…)

  • چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    پیر کی صبح گیل ٹے میں بڑی مصروفیت بھری ہوتی ہے، بچے اسکول کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، اور ان کے والدین کام کی جگہ کو محو سفر ہوتے ہیں، کسی کا رخ گاؤں کی طرف تو کسی کا شہر کی طرف ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ریل گاڑی سے سفر کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈریٹن پر جب سورج کی شعاعیں پڑنے لگیں تو اس نے انگرائی لیتے ہوئے اٹھنے ہی میں غنیمت جانی۔ سستی اتارتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔

    ’’شکر ہے بارش نہیں ہو رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور لیپ ٹاپ نکال کر تمام تصاویر اپ لوڈ کر لیں جو اس نے اینگس کے گھر میں قدیم کتاب کی اتاری تھیں۔ کمرے میں ٹیلی فون لائن دیکھ کر اور خوش ہوا، اور ساری تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعے ایک پرانے دوست کو بھیج دیں، اور ہدایات کے ساتھ یہ پیش کش بھی کی کہ اگر وہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تصویریں اس کے پاس پہنچا دے تو اسے بڑا انعام ملے گا۔ اس کے بعد وہ نیچے اترا، اسے اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ ٹیلی فون لائن سے انٹرنیٹ منسلک کرنے پر جو بھاری بل آئے گا وہ ایلسے کے گلے میں پڑے گا۔ جیسے ہی وہ نیچے اترا، اس کا سامنا ایلسے سے ہوا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔

    ’’اوہ تم کیسے ہو ڈریٹن۔ افسوس یہاں کوئی چور گھس آیا تھا۔ آپ کا بٹوہ تو محفوظ ہے نا، یا آپ کا بھی چوری ہو گیا؟‘‘

    ’’نہیں، میرا بٹوہ میری جیب میں ہے۔‘‘ اس نے کہا اور شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔ اس نے رات ہی کو تمام بٹوے خالی کر کے انھیں کچرے میں پھینک دیا تھا۔ ’’صرف اتنا ہی نہیں ڈریٹن۔‘‘ ایلسے کہنے لگی: ’’کوئی چور اکثر لوگوں سے زیورات بھی کر چکا ہے۔ اب جب تک چور نہ پکڑا جائے کوئی بھی شے محفوظ نہیں ہے۔‘‘

    اس نے رات ہی کو چرایا ہوا زیور ایک درخت کی جڑ میں دبا دیا تھا، اور فی الحال محفوظ تھا۔ اس نے اداکاری کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تو بہت برا ہوا ہے ایلسے، اگر میں آپ کے کسی کام آ سکتا ہوں تو مدد کے لیے ضرور کہیے گا۔‘‘

    ناشتے کی میز پر اسے چاروں طرف ایک ہی موضوع پر گفتگو سننے کو ملی۔ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ میں آنے والے سب ہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جلدی جلدی ناشتہ کر کے اٹھا اور وہاں سے نکلنے لگا۔ دروازے کے قریب اس نے ایلسے کو روک کر پوچھا: ’’آپ کو یہ پوچھے جانے پر بڑی حیرت ہو گی لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اینگس اپنے رشتہ داروں میں کس کے ساتھ زیادہ محبت کرتا ہے، خصوصاً کوئی چھوٹی لڑکی؟ دراصل میں اس کے لیے ایک تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’اس کی بھتیجی فیونا۔‘‘ ایلسے نے جواب دیا۔ ’’وہ زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا ہے۔ جب سے فیونا کے ڈیڈی دنیا سے گزر گئے ہیں، تب سے وہی اس کی سرپرستی کر رہا ہے۔ کیا آپ اینگس کے گھر جائیں گے؟‘‘

    ’’میں کل گیا تھا لیکن وہ گھر پر نہیں تھے، جیسا کہ آپ نے پیشگوئی کی تھی۔ میں نے ان کے لیے پیغام چھوڑا۔ ویسے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟‘‘ ڈریٹن بولا۔
    ’’بس ایسے ہی۔‘‘ ایلسے کہتے کہتے رک گئی۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا۔ ’’فیونا کہاں رہتی ہے، میں اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔

    ’’وہ اپنی ممی مائری کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ ایلسے نے اس کے گھر کا پتا بتا دیا۔
    ’’بہت بہت شکریہ ایلسے۔ آپ میری بہت کام آئی ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور طے کر لیا کہ واپسی میں اسے گل دستہ تحفے میں دے گا، تاکہ بڑھیا اور بھی اس کے کام آ سکے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ فوراً اس درخت کے نیچے پہنچ گیا، اور زمین کھود کر زیور نکالا اور پوسٹ آفس جا کر اسے ٹرورو میں اپنے گھر بھیج دیا۔ اس نے لفافے کے اوپر اپنی ماں کے لیے لکھا کہ وہ اسے کھولنے کی کوشش نہ کرے ورنہ یہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور وہ چند ہفتوں میں گھر پہنچ جائے گا۔
    فیونا کا گھر ڈھونڈنا مشکل نہ تھا۔ ڈریٹن گلیوں میں گھوم پھر کر تلاش کرنے لگا۔ جلد ہی اسے وہ گھر مل گیا۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ وہ ایک کھڑکی کے پاس جا کر اندر جھانکنے لگا۔

    (جاری ہے)

  • تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح فیونا اور اس کی ممی نے باغیچے میں گزاری۔ انھوں نے زمین کھود کر گاجر، آلو اور شلجم نکالے اور مٹر کی بیلوں سے پھلیاں اتاریں۔

    ’’سبزیوں سے فارغ ہو کر، میں چاہتی ہوں، کہ تم سیب اتارنے میں بھی میری مدد کرو۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ ایپل پائی بنا لوں۔‘‘ مائری مٹر کی پھلیاں ٹوکری میں ڈالتے ہوئے بولیں۔

    ’’ٹھیک ہے ممی لیکن کچھ دیر کے لیے میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں، واپسی پر آپ کا ہاتھ بٹاؤں گی۔‘‘

    ’’کب جا رہی ہو تم؟‘‘ انھوں نے پوچھا تو فیونا نے ہاتھوں سے کیچڑ کی تہہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ’’بس ابھی۔‘‘

    فیونا دوڑ کر اندر گئی اور شاور لینے کے بعد اتوار کے دن کے لیے اپنا پسندیدہ لباس پہنا اور ممی کو خدا حافظ کہہ کر جبران کے گھر کی طرف چل دی۔ فیونا جیسے ہی جبران کے گھر پہنچی، عین اسی وقت وہ اپنی مما اور بہن بھائی کے ہمراہ گھر سے نکلا۔ وہ تفریح کے لیے جا رہے تھے۔

    ’’ہیلو فیونا، کیسی ہو تم؟ ہم گھومنے جا رہے ہیں، تم بھی چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ جبران اسے دیکھتے ہی بول اٹھا۔

    ’’نہیں، مجھے گھر پہنچنا ہے۔ دوپہر کو ہمارے گھر مہمان آ رہے ہیں۔ تم دونوں کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں آنا مت بھولنا۔‘‘ فیونا نے کہا اور واپس گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ گھر پہنچی تو وہاں جمی اور جونی پہلے ہی سے موجود تھے۔ جونی اسے دیکھ کر بولا: ’’ہیلو فیونا، ہم جلدی آ گئے ہیں، امید ہے تمھیں برا نہیں لگے گا۔ تمھاری ممی ہمارا بہت خیال رکھ رہی ہیں۔‘‘

    ’’میں ابھی آئی۔‘‘ فیونا نے کہا اور اوپر چلی گئی، اور ایک بار پھر لباس تبدیل کر کے آ گئی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ان کے مہمان بہت ساری روز مرّہ چیزوں سے واقف نہیں ہیں، اس لیے اس نے جونی کے بھائی کو مخاطب کیا۔

    ’’جمی انکل، کیا آپ میرے ساتھ آ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’فیونا، یہ بری بات ہے۔‘‘ مائری نے اسے فوراً ٹوک دیا۔ ’’صرف جمی ہی کیوں، تمھیں دونوں بھائیوں کو چھتے دکھانے چاہیئں۔‘‘

    ’’دراصل میں زندگی میں بہت سے شہد کے چھتے دیکھ چکا ہوں۔ میرے بھائی نے نہیں دیکھے۔ اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ جونی نے مسکرا کر جواب دیا۔

    فیونا جمی کو لے کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دکھانے چلی گئی۔ ان کے جاتے ہی جونی نے مائری سے پوچھا: ’’تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ اینور ڈروچٹ کی ہیں، مجھے ذرا اس جگہ کے بارے میں بتائیں کہ اب وہ کیسے لگتی ہے؟‘‘

    مائری نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو انھیں جونی کی آنکھوں میں یادوں کا بسیرا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں خلاؤں میں کہیں بھٹکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ’’میں جب سے یہاں آئی ہوں، کوئی دو ماہ ہو رہے ہیں، پھر واپس نہیں جا سکی۔ حالاں کہ فیونا کہتی رہتی ہے کہ وہیں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر شہر چلے جاتے ہیں لیکن میں یہاں گیل ٹے میں مطمئن ہو گئی ہوں۔ اینور ڈروچٹ آج بھی وہی چھوٹا سا گاؤں ہے، تقریباً پچاس گھروں پر مشتمل۔ وہاں ایک پوسٹ آفس اور ایک ہی دکان ہے۔ اکثر لوگ یہاں گیل ٹے میں آ کر خریداری کرتے یا سیر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کل وہاں کا ایک چکر لگا آئیں۔‘‘

    ’’اور قلعہ آذر!‘‘ جونی نے اچانک پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں کبھی گئی ہیں؟‘‘
    ’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ مائری نے جھرجھری سی لی۔ ’’پتا نہیں کیوں، مجھے وہاں سے خوف آتا ہے۔ اب میری بات پر ہنسیے گا مت۔ میرا مطلب ہے کہ ان دیواروں سے مجھے کسی دردناک سانحے کی لہریں نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘

    جونی محسوس کیا کہ ماحول پر اداسی چھا رہی ہے تو اس نے جلدی سے مسکرا کر پوچھا: ’’کیا آپ کو مچھلی کا شکار پسند ہے؟ مجھے تو بہت پسند ہے۔ بلال صاحب نے ہمیں مچھلی کے شکار کے لیے کئی جگہیں دکھائیں۔‘‘ لیکن مائری نے اس کی بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی اور پوچھا: ’’آپ کون ہیں جونی تھامسن؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ لندن سے سیاح کے طور پر آئے ہیں تو پھر اس جگہ، جھیل، گاؤں اور حتیٰ کہ قلعے کے متعلق کیسے جانتے ہیں؟‘‘

    ’’میں آپ سے سچ کہوں گا۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’میں یہاں پہلے بھی آیا ہوں، اور یہاں ایک گاؤں میں رہ چکا ہوں۔ جھیل میں مچھلیاں پکڑ چکا ہوں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ میری سب سے خوب صورت اور سب سے بری یادوں کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں پھر ماضی کی یادوں کی چمک جھلکنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر تک ماضی کی یادوں میں کھویا رہا، پھر مائری چائے اور بسکٹ کا انتظام کرنے لگیں۔ اتنے میں فیونا اور جمی بھی لوٹ آئے۔ وہ باغیچے میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے اور چائے کے ساتھ بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دھیرے دھیرے شام کے سائے پھیلنے لگے۔ جونی نے آسمان پر چمکتے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’صرف یہی چیز ہے جو یہاں ویسی کی ویسی ہی ہے، باقی سب کچھ بدل چکا ہے۔‘‘

    جمی کو حیرت ہوئی۔ اسے پتا نہیں تھا کہ اس کا بھائی کیا کہنا چاہ رہا ہے تاہم مائری صرف مسکرا دی۔ جونی نے کہا: ’’اب ہمیں جانا چاہیے کیوں کہ بلال صاحب کل ہمیں شکار پر لے جائیں گے اور ہم سارا دن اس میں گزاریں گے۔‘‘ جمی نے بھی کہا کہ کل میں بلال صاحب کے ہمراہ ایک روایتی پارٹی میں جائے گا۔‘‘

    وہ دونوں جبران کی گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے باغیچے سے اندر جاتے ہوئے کہا: ’’ممی، میں بھی کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں جاؤں گی۔ جبران اور دانی بھی وہاں آئیں گے۔ کھانا ہم وہیں پر کھائیں گے اس لیے دیر ہوگی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا اور روشنیاں بجھانے لگیں۔

    (جاری ہے…..)

  • بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُرتجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’واہ یہ تو زبردست بات ہو گئی ہے۔ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو رہا ہے جیسے کوئی مکھن کھا رہا ہو۔ دنیا پر حکمرانی کا خیال کتنا شان دار اور خوب صورت ہے۔‘‘ ڈریٹن خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ خود کو ابھی سے دنیا کا بادشاہ سمجھے لگا۔ اس نے شیشے پر کنگ کیگان کی تصویر کو مخاطب کیا: ’’تو قلعہ آذر کے آقا، اب تم کیا سوچ رہے ہو۔ تم مردہ ہو اور میں زندہ ہوں اور جلد ہی جادوئی گولا میرے قبضے میں ہوگا۔ اب میں جا رہا ہوں، کل پھر ملاقات ہوگی۔‘‘

    وہ قلعے سے نکلا اور کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے دوسرے کنارے اتر گیا۔ اس نے قریب ہی ایک بھاری پتھر تلاش کیا اور اسے اٹھا کر کشتی پر مارنا چاہا تاکہ اسے ڈبو دے، لیکن پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اب اسے ہر رات یہاں آنا ہے، اس لیے کشتی کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ اس نے وہ پتھر پانی میں پھینک دیا۔ ڈریٹن واپس اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر کسی نے اسے روکا تو ایک جھٹکے سے اس کی گردن کا منکا توڑ دے گا۔ دروازے پر پہنچ کر اسے پھر بلیوں نے گھیر لیا۔ اس نے بلیوں کو لاتیں مار مار کر بھگا دیا اور اندر داخل ہو گیا۔

    ڈریٹن اندر جا کر اینگس کی تمام چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگا، اور آدھے ہی گھنٹے بعد خوش قسمتی نے اسے بری طرح چونکا دیا جب اسے غیر متوقع طور پر قدیم کتاب مل گئی۔

    ’’ارے یہ کیا ہے۔‘‘ وہ حیران ہوا۔ ’’یہ اینگس تو چھپا رستم نکلا، اس نے تو قدیم کتاب بھی حاصل کر لی ہے۔ لگتا ہے یہ بھی میرا ساتھی ہے۔ آخر کون ہو تم بوڑھے اینگس اور اس لڑکی سے تمھارا کیا رشتہ ہے؟‘‘ وہ کتاب پا کر خود کلامی کرنے لگا۔ پھر اس نے ڈیجیٹل کیمرہ نکال کر کتاب کے ہر صفحے کی تصویر لی۔ چوں کہ کتاب گیلک زبان میں لکھی گئی تھی اور اسے اس کی کوئی شدھ بدھ نہیں تھی، اس لیے اسے غصہ آنے لگا۔ اس کے پاس جو کتاب تھی وہ پرانی انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ اس نے سوچا کہ کسی بے وقوف اسکاٹ ہی نے اسے گیلک میں لکھا ہوا ہوگا۔ پھر اسے اپنا لیپ ٹاپ یاد آ گیا۔ اس نے خوش ہو کر سوچا کہ وہ اسے لیپ ٹاپ پر اپ لوڈ کر کے کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اسے کچھ رقم کے عوض ترجمہ کر دے۔

    اچانک وہ ایک خیال آنے پر چونک اٹھا۔ ’’ارے میں تو بھول گیا تھا، یہ کتاب جہاں ہو گی یقیناً جادوئی گیند بھی وہیں ہوگی۔‘‘ یہ بڑبڑاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چیزوں کی تلاشی لینے لگا۔ کافی دیر تک تلاش کے باوجود جب اسے جادوئی گولا نہیں ملا تو وہ غصے سے کانپنے لگا اور اسی عالم میں چیخا: ’’یقیناً وہ بڈھا اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ کتنا اہم ہے، لیکن میں اسے حاصل کر کے رہوں گا۔‘‘

    کچھ دیر بعد اس نے اپنے غصے پر قابو پایا اور ساری چیزیں ویسے ہی اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیں، تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ یہاں آیا تھا۔ اس کے بعد وہ واپس بیڈ اینڈ بریک فاسٹ پہنچ گیا۔ وہ عین وقت پر پہنچا تھا کیوں کہ رات کا کھانا تیار تھا۔ کھانا کھا کر اس نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ گفتگو کر کے خود کو ایک اچھا لڑکا ثابت کیا اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بستر پر بیٹھ کر اس نے جیب سے تین بٹوے، دو ہیروں کے ہار اور ایک سونے کی انگوٹھی نکال کر سامنے رکھ دی، اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ انھیں دیکھنے لگا۔

    ’’بے وقوف دیہاتی!‘‘ اس نے بڑبڑا کر کہا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ یہ ساری چیزیں اس نے اسی ریستوران میں لوگوں کے ساتھ گفتگو کے دوران پار کی تھیں، اور کسی کو کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک ہوشیار جیب کترا تھا!

    (جاری ہے…)

  • اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    چمنی سے خاکی مائل بادامی دھواں اندر آ کر اس کی ٹانگوں کے گرد گھومنے لگا تھا، جس نے آن کی آن میں چکراتے ہوئے اوپر اٹھ کر اسے لپیٹ میں لے لیا۔ پھر دھوئیں کے چکر میں تیزی آنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی تیزی سے گھومنے لگا جس پر دہشت کے مارے اس کے منھ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ’’یہ … یہ … کیا ہو رہا ہے؟‘‘ لیکن کچھ ہی لمحوں کے بعد دھواں ٹھہر گیا، تو اس کا گھومنا بھی بند ہو گیا۔ اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ دھواں اس کے سامنے کھڑا ہو کر دھیرے دھیرے انسان کی شکل اختیار کرنے لگا۔

    ’’کک … کیا تم کنگ کیگان ہو؟ مم … میں نے تمھیں ابھی ابھی برا بھلا کہا … کک … کیا تم مجھے … اس کی سزا دو گے؟‘‘ وہ خوف کے مارے ہکلانے لگا۔

    ’’کیا میں کنگ کیگان کی طرح دکھائی دیتا ہوں؟‘‘ یکایک ایک کمزور اور بوڑھی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’میں پہلان ہوں، کنگ دوگان کا جادوگر۔ میں سیکڑوں برس سے یہاں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، اور آخر کار تم پہنچ ہی گئے۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو … پہلان …‘‘ ڈریٹن یہ سن کر اچھل پڑا۔ ’’تم نے کیا کہا کہ تم میرا انتظار کر رہے تھے، کیا مطلب ہے اس کا، تم میرا انتظار کیوں کر رہے تھے؟‘‘ اب اس کا خوف دور ہو گیا تھا اور وہ کسی پولیس والے کی طرح سوال پر سوال داغنے لگا، لیکن جادوگر پہلان کو اس کی یہ بدتمیزی پسند نہیں آئی۔

    ’’لڑکے، میں تمھارے آبا و اجداد میں سے ہوں، میرا احترام کرو۔ مجھے ایک معمولی بھوت مت سمجھو۔ میں پہلان ہوں پہلان … زیلیا کا جادوگر!‘‘

    ’’تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ ڈر کر ایک دم سے با آدب کھڑا ہو گیا۔ پہلان کہنے لگا کہ اسے سونے کی گیند تمام قیمتی پتھروں سمیت چاہیے۔ پہلان نے کہا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ نیکلس تمھارے پاس ہے۔‘‘

    ڈریٹن کی شرٹ سے نیکلس لہراتے سانپ کی طرح باہر نکل آیا۔ ’’نہیں، میں یہ آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے اسے واپس شرٹ کے اندر ڈال لیا۔

    ’’بے وقوف لڑکے، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے آبا و اجداد کی طرح بالکل نہیں ہو۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ تم نے کتنی بے کار چیز کو گلے میں ڈال رکھا ہے تو انھیں تم پر غصہ آئے گا۔ اور تم نے عورتوں کی طرح یہ بُندے کیوں پہن رکھے ہیں، میں نے مردوں کو کبھی انھیں پہنے نہیں دیکھا۔

    ’’اب بہت ساری چیزیں بدل چکی ہیں اور مرد بھی انھیں پہننے لگے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے فوراً جواب دیا۔

    ’’میں پھر یہ کہوں گا کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہیں۔ تمھارے سوا میں نے کسی کو بھی کانوں کے چھلے پہنے نہیں دیکھا۔ بہرحال تم جادوئی گولا اور قیمتی پتھر میرے پاس لے کر آؤ۔ جب یہ ساری چیزیں میرے پاس ہوں گی تو میں پھر سے زندہ ہو جاؤں گا اور تمھارا جادوگر بن کر تمھاری خدمت کروں گا۔ ہم ساری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یقیناً تم بھی یہی پسند کرو گے، کیا کہتے ہو نوجوان ڈریٹن۔‘‘ یہ کہہ کر پہلان قہقہے لگانے لگا۔ اس کے قہقہے ایسے ہی تھے جیسے بھوت ہنس رہے ہوں جسے سن کر زندہ لوگوں میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے۔‘‘

    ’’واہ یہ تو بہت شان دار خیال ہے۔‘‘ ڈریٹن نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔ ’’یعنی اب میں بھی ایک جادوگر سے کام لے سکتا ہوں۔ لیکن جادوئی گیند ہے کہاں؟‘‘

    پہلان کے بھوت نے بتایا کہ جادوئی گولا اسی گاؤں میں ہے، ایک لڑکی نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اور اس نے ایک قیمتی پتھر بھی ڈھونڈ لیا ہے۔

    ’’اوہ، تو یہ بات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرا نیکلس کیوں اچانک چمکنے لگا ہے۔‘‘ ڈریٹن نے چونک کر کہا۔ ’’چوں کہ میں دونوں خاندانوں کا وارث ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں دوگان کے جادو کا طریقہ سیکھوں۔‘‘

    ’’تمھیں ہر صورت میں صبر سے کام لینا ہو گا۔‘‘ پہلان کے بھوت نے جلدی سے اسے ٹوک دیا۔ ’’میں خود ہی جادوئی گیند اور قیمتی پتھر حاصل کر لیتا لیکن میں اس قلعے اور جھیل سے باہر نہیں جا سکتا۔‘‘

    ’’اور اگر آپ یہاں سے نکلے تو کیا ہوگا … کیا آپ مینڈک بن جائیں گے یا کچھ اور؟‘‘ ڈریٹن نے عادت سے مجبور ہو کر مذاق اڑایا۔

    ’’بس … گستاخی کی بھی حد ہوتی ہے۔‘‘ پہلان کے بھوت کو غصہ آ گیا۔ ’’میں یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتا۔ کسی چیز میں تبدیل نہیں ہوں گا، لیکن اگر نکلا تو عظیم جادوگر کا قہر مجھ پر ٹوٹ پڑے گا۔ اسے نہیں پتا کہ میں کہاں ہوں اور مجھ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے، اس لیے میں یہیں رہوں گا۔‘‘

    ’’تو تم کبھی بھی یہاں سے باہر نہیں نکلو گے؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا۔

    اس نے کہا: ’’فی الحال حالات ہی ایسے ہیں، اگر مجھے کوئی چھوٹا بدن مل جائے تو میں یہاں سے نکل سکتا ہوں، لیکن وہ بھی صرف بارہ گھنٹوں کے لیے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

    ڈریٹن چونکا، اور گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’’کک … کہیں آپ میرا جسم لینے کا ارادہ تو نہیں رکھتے۔ چھوٹے بدن سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا کسی جانور کا؟‘‘

    ’’احمق لڑکے، میں کسی انسانی بدن میں نہیں جا سکتا، کم سے کم اتنی آسانی سے تو بالکل نہیں۔ کوئی بھی جادوگر ایسا نہیں کر سکتا۔ ہاں میں کسی بھتنے، بونے، بالشتیے یا پھر پریوں کی دنیا کی کسی اور مخلوق کے جسم میں اندر جا سکتا ہوں اور اس پر قبضہ جما سکتا ہوں۔‘‘ پہلان جادوگر کا بھوت کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا۔ ’’میں نے تمھیں بہت کچھ بتا دیا ہے، وہ باتیں جو تمھیں بتانے کی نہیں تھیں۔ مجھے وہ جادوئی گولا چاہیے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے اپنا جسم حاصل کر سکوں۔ اب تم میرے حکم کی تعمیل کرو گے ورنہ میں تمھیں مینڈک سے بھی زیادہ بدتر چیز میں تبدیل کر دوں گا۔ تم ہر رات یہاں آؤ گے اور میں تمھیں جادوگروں کے طریقے اور منتر سکھاؤں گا۔ جب وقت آئے گا تو تم ان منتروں کو استعمال کر کے جادوئی گولا حاصل کرنے کے قابل ہو جاؤ گے۔‘‘

    یہ کہہ کر جادوگر کا بھوت پھر دھواں بن کر غائب ہو گیا۔

    (جاری ہے….)

  • چالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’بہت خوب۔‘‘ ڈریٹن نے اداکاری کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’تو وہ اسی گھر ہی میں رہ رہا ہے، جہاں میں نے آخری مرتبہ اس کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ تو ایلسے، اب میں ایسی جگہ کا خواہش مند ہوں جہاں مجھے تنہائی میسر ہو کیوں کہ میں کتاب لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے میں ایسی جگہ تلاش کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکلا اور نفرت انگیز انداز میں منہ سکیڑ کر بڑبڑایا: ’’بے وقوف بڑھیا، یہ تو میری ماں سے بھی کہیں زیادہ بے وقوف لگ رہی ہے۔ ویسے اس سے کافی معلومات مل گئی ہیں، اور اب میں جان گیا ہوں کہ اینگس کہاں رہتا ہے۔ اب میں وہاں جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ اس نے اپنے آس پاس کیا کچھ جمع کر رکھا ہے۔‘‘

    ڈریٹن اینسٹر اسٹریٹ کی جانب گامزن ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اینگس کے گھر پر تھا۔ پہلے تو اس نے گھر کے باہر احاطے میں احتیاط سے دیکھا کہ کہیں اس نے کتے تو نہیں رکھے، لیکن وہاں کوئی کتا نہیں تھا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور آگے بڑھ کر دروازے کا ہینڈل گمھایا۔ اسے خوش گوار حیرت ہوئی کہ اینگس نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ ’’مزا آئے گا۔‘‘ شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیلنے لگی تھی۔

    دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گیا۔ اسی وقت بہت ساری بلیاں اس کی طرف دوڑ پڑیں اور اس پر غرانے لگیں۔ اینگس کو کتے پالنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن بلیاں انھوں نے بہت ساری اور بہت شوق سے پالی تھیں۔ گھر میں ہر طرف بلیاں ہی بلیاں نظر آیا کرتی تھیں۔ یہ بلیاں ایک اجنبی کی آمد پر بہت غصے میں دکھائی دے رہی تھیں۔ ڈریٹن نے دروازہ کھلا چھوڑا اور ایک بلی کو غصے سے لات مار کر باہر پھینک دیا اور چلایا: ’’دفع ہو جاؤ منحوس بلیوں!‘‘ جو بلی اس کے قریب آتی وہ اسے لات مار کر باہر پھینکنے لگا۔ کئی ایک بلیاں جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر رہی تھیں، ڈریٹن نے انھیں دم سے پکڑ کر دور اچھال دیا اور آخر میں دروازہ بند کر دیا۔

    کچھ دیر تک گھر کی تلاشی لینے کے بعد اس نے قریب سے گاڑی کے گزرنے کی آواز سنی تو اس نے محسوس کیا کہ یہ وقت درست نہیں ہے، رات کا اندھیرا بہتر ہوگا۔ اس لیے وہ پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ درختوں کے جھنڈ میں آگے بڑھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ قلعہ آذر کو کیسے اور کہاں ڈھونڈے۔ چلتے چلتے وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ایک موڑ پر اسے ایک بورڈ نصب نظر آ گیا، جس پر لکھا تھا: ’’قلعہ آذر اس طرف۔‘‘ وہ اس طرف چلتا چلا گیا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔ آخر کار جھیل کے کنارے پہنچ کر رک گیا، ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑبڑایا: ’’تو قلعہ ایک جزیرے پر ہے، اب وہاں تک کیسے پہنچوں؟‘‘

    کچھ دیر تک جب اسے کوئی ذریعہ نظر نہیں آیا تو اس کے سر میں غصے کا غبار بھر گیا۔ اور پھر اس کی نگاہ جبران کے پاپا والی کشتی پر پڑ ہی گئی۔ ڈریٹن اسے ایک اتفاق ہی سمجھا، لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ یہاں جبران کے پاپا کی کشتی ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس نے کشتی کی رسی کھول دی اور اسے پانی میں دھکیل دیا، پھر چپو سنبھال کر کشتی کو جزیرے کی جانب کھینے لگا۔ وہاں پہنچ کر جب اس نے کشتی کو ساحل پر ٹھہرایا تو قلعے سے بہت سار ہنس اڑ کر دور چلے گئے۔

    اس نے ایک نظر میں قلعے کا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں کہا کہ یہ تو قلعے کی طرح نہیں لگ رہا ہے۔ وہ اطمینان سے چلتا ہوا بے خوفی سے قلعے میں داخل ہو گیا، اور تمام کمروں میں گھوما پھرا۔ اسے جادوئی گولے اور کتاب کی تلاش تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس نے چمنی کے پیچھے چھپا ہوا کمرہ تلاش کر لیا۔ دراصل فیونا اور اس کے دوست دروازہ بند کرنا بھول گئے تھے۔ وہ یہ خفیہ دروازہ کھلا دیکھ کر خوش نہیں ہوا، بلکہ تشویش میں مبتلا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ضرور یہ دروازہ اس سے پہلے ہی کوئی کھول چکا ہے۔ اندر میز بھی موجود تھی اور صندوق بھی۔ اس نے میز کے نیچے دیکھا، وہاں سونے کی تختی لگی تھی جیسا کہ اس کے پاس موجود کتاب میں ذکر تھا، پھر اس نے صندوق کھول کر دیکھا تو اس میں مکڑی کے جالوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نگاہیں کھڑکی کے منقش شیشے پر ٹھہر گئیں۔ شیشہ بالکل صاف تھا جیسے اسے کسی نے حال ہی میں صاف کیا ہو۔ اسے شیشے پر بادشاہ کیگان کی شبیہ نظر آ گئی۔

    ’’ تو تم ہو کنگ کیگان۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میرے پیش رو، لیکن مجھے اس پر ذرا بھی فخر نہیں ہے، تم بزدل ہو، تم اسی کے مستحق تھے کہ تمھارا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ دیکھو کیگان، یہ رہا تمھارا نیکلس… میرے پاس!‘‘

    اس نے کھڑکی کے سامنے کھڑے کھڑے سینہ تان لیا اور بلند آواز میں بولنے لگا: ’’تمھیں پتا ہے میرے پردادا دوگان نے تمھاری بیٹی ازابیلا سے زبردستی شادی کر لی تھی۔ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، کیا تمھیں پتا ہے؟‘‘ وہ ہنسنے لگا: ’’نہیں، بھلا تمھیں کیسے پتا چل سکتا ہے، تم تو کب کے کیڑوں کی خوراک بن چکے ہوگے۔‘‘

    اچانک اسے اپنے قدموں کے پاس کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی۔ اس نے جلدی سے پیروں کی طرف دیکھا، اور اسے ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہڑ دوڑتی محسوس ہوئی۔

    (جاری ہے)

  • انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح جب آسمان پر بادل پھیلے ہوئے تھے اور درمیان میں کہیں کہیں سے سورج کی کرنیں گیل ٹے پر پڑ رہی تھیں، افق پر نقرئی شعلے بھڑک رہے تھے، ایسے میں ایڈن برگ سے نکلی ہوئی ریل گاڑی گیل ٹے کے اسٹیشن پر رک گئی۔ اس وقت جزائر آرکنے سے ایک رات کی مسافت طے کرنے والی بطخیں لوچ جھیل پر اتری تھیں۔

    ڈریٹن نے جب ریل گاڑی کی وسل سنی تو ایک کنڈکٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی رکنے والے ہیں۔ اس وقت اس نے بڑبڑا کر کہا تھا: ’’اف اتنا طویل اور بے زار کن سفر تو میں نے زندگی بھر نہیں کیا تھا۔‘‘

    کارن وال میں بورڈنگ کے بعد اسے لندن میں وکٹوریہ اور پھر ایڈن برگ ہی میں ویورلے اسٹیشن پر ایک ہی رات میں ریل گاڑیاں تبدیل کرنی پڑی تھیں۔ وہ سوٹ کیس اور بیگ اٹھا کر اپنے گلے میں نیکلس کی موجودی کو یقینی بناتے ہوئے ریل گاڑی سے اترا۔ اس نے خود کو ایک جوہڑ میں پایا جو رات کی تیز بارش سے بن گیا تھا۔

    وہ نفرت سے بڑبڑایا: ’’غلیظ جگہ اور یہ منحوس سردی!‘‘ اس نے جلدی سے کوٹ کے بٹن بند کر دیے اور بڑبڑانے لگا کہ یہ تو کارن وال سے بھی بدتر جگہ ہے۔ اس کے قریب ہی اسٹیشن کا کنڈکٹر گارڈن بروس ایک شخص سے کہہ رہا تھا: ’’یہ ہے آپ کی ٹرین، یہ کریان لارچ جا رہی ہے، آپ کب واپس آئیں گے اینگس؟‘‘

    ’’میں کل دوپہر تک لوٹوں گا۔ میرا یہ دورہ مختصر ہے۔ بس ضرورت کے مطابق ہی کچھ تجارت کروں گا۔‘‘ اینگس نے ریل گاڑی میں چڑھتے وقت کہا۔ ریل گاڑی چل پڑی۔ ڈریٹن اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس نے کنڈکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا، شاید وہ اس کے چہرے کے تاثرات کو سمجھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ ڈریٹن کا حلیہ بھی عجیب تھا، اس کے کانوں میں کئی سارے چھلے لٹک رہے تھے۔ ’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں جناب؟‘‘

    ڈریٹن نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس وقت اس کا دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا تھا۔ ’’میں ڈریٹن اسٹیلے ہوں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا: ’’دراصل میں ایک کتاب لکھنے یہاں آیا ہوں، اور کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں مجھے تنہائی اور سکون میسر آئے۔ میری بدقسمتی ہے کہ اینگس نکل گئے، ہم بہت پرانے دوست ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے اینگس کے بارے میں سراسر جھوٹ بولا تھا، اور اس چالاکی پر وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، اس نے پوچھا: ’’کیا اینگس اب بھی قصبے میں رہتا ہے؟‘‘

    کنڈکٹر نے جواب دیا: ’’وہ اسی گھر میں رہ رہا ہے جس میں اس نے اپنی زیادہ تر جوانی گزاری ہے۔‘‘

    ’’کیا اس نے شادی کی ہے؟‘‘ ڈریٹن نے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا اور چہرے پر مسکراہٹ طاری کر دی لیکن کنڈکٹر کے چہرے پر سنجیدگی اسی طرح طاری رہی۔ ’’نہیں، اینگس نے کبھی شادی نہیں۔ نہ مجھے اس سے کوئی توقع ہے۔ آپ کہاں ٹھہریں گے؟‘‘

    ’’مجھے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں میں ناشتہ بھی کر سکوں اور آرام کے لیے ایک بستر بھی مل سکے۔ کیا یہاں قریب میں کوئی بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہے؟‘‘

    ’’ابھی تو بہت سویرا ہے اور آج اتوار بھی ہے، لیکن اگر آپ مرکزی اسٹریٹ چلے جائیں تو آپ کو مک ڈوگل کا بیڈ اینڈ بریک فاسٹ دکھائی دے گا۔ دروازے پر دستک دے کر ایلسے سے کہنا کہ آپ کو کنڈکٹر گارڈن نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو جگہ دے دیں گی۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور چلا گیا۔

    ڈریٹن کو خدشہ تھا کہ کنڈکٹر اس کی موجودی کے بارے میں پتا کرنے بھی آسکتا ہے اس لیے وہ مک ڈوگل کے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہی آیا۔ اس نے اپنا سامان بستر پر رکھ دیا اور کمرے سے نکل کر ’’ڈونٹ ڈسٹرب‘‘ کی تختی دروازے پر لٹکا دی، اور پھر کچن کا رخ کر لیا۔ ایلسے نے ناک پر جمی عینک ذرا سی اوپر کی جانب کھسکا کر پوچھا: ’’کیا میں آپ کو ناشتے میں کچھ دوں؟‘‘

    ’’بہت اچھا خیال ہے، یعنی نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ ڈریٹن نے دانت نکال کر حتی الامکان اپنے لہجے کو خوش گوار بناتے ہوئے کہا۔ ایلسے نے کہا: ’’دیگر مہمان کھانے کے کمرے میں بیٹھے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر سستا لیں۔ میں جلد ہی آپ کے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں، ویسے آپ کیا پسند کریں گے، چائے، کافی یا مالٹے کا جوس؟‘‘

    اس نے اپنی شخصیت کا اچھا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو مالٹے کا جوس لے کر آئیں میرے لیے۔‘‘

    ’’بہت بہتر جناب اسٹیلے، آپ جا کر بیٹھ جائیں، میں بس آتی ہوں۔‘‘

    ڈریٹن کھانے کے کمرے میں داخل ہوا تو چونک اٹھا۔ وہاں سب ہی لوگ بوڑھے تھے اور ان کے ہمراہ ان کی بیویاں تھیں جن کے چہرے اسے رنجیدہ نظر آئے۔ اپنے درمیان ایک جوان کو دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور گیل ٹے کی روایت کے مطابق ایک ایک کر کے سب اسے خوش آمدید کہنے لگے۔ ڈریٹن چوں کہ اپنی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجبوراً سب سے ہاتھ ملایا، تاہم جیسے ہی وہ کسی سے ہاتھ ملاتا فوراً ہی ہٹا دیتا۔ ذرا دیر بعد اس کے سامنے میز پر بھاری ناشتہ سج چکا تھا۔ اس نے بھنا گوشت، ساسیج، انڈا آملیٹ اور گندم کے توس کھائے اور آخر میں ایک گلاس مالٹے کا جوش بھی نوش کیا۔ پیٹ بھرنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب اس کے پیٹ میں مزید گنجائش نہیں رہی تو اس نے ایلسے کو دیکھ کر کہا: ’’ذرا سنیے ایلسے! کیا میں آپ کو اس طرح پکار سکتا ہوں؟‘‘

    اس نے جواب میں خاموشی سے سر ہلا کر اجازت دی۔ ڈریٹن نے کہا: ’’دراصل میں اپنے پرانے دوست اینگس کے ہاں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ایلسے نے کہا: ’’کیا آپ اینگس مک ایلسٹر کی بات کر رہے ہیں، لیکن وہ تو آج صبح ہی کریان لارچ چلا گیا ہے، لیکن کل دوپہر تک آجائیں گے۔ کیا آپ یہاں رہیں گے یا نہیں؟‘‘

    ڈریٹن نے کہا: ’’جی ہاں، میں یہیں رہوں گا۔ ویسے اب اس کا گھر کہاں ہے، کیا اسی پرانے گھر میں ہے وہ؟‘‘

    ایلسے نے جواب دیا: ’’وہ اسی پرانے گھر ہی میں رہ رہے ہیں، جو اینسٹر اسٹریٹ کے آخر میں ہے، نمبر 23۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اُف جبران، ایسا مت کہو، مجھے نہیں لگتا کہ یہ برے لوگ ہیں۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’مم… میں وضاحت نہیں کر پا رہی ہوں لیکن مجھ لگتا ہے کہ یہ اس معاملے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’کس معاملے سے؟‘‘ جبران حیران ہو گیا۔

    ’’جادوئی گیند، قلعے اور قیمتی پتھروں کے معاملے سے، تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘

    ’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہاں کوئی غیر معمولی بات ضرور محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور آنکھیں ملنے لگا۔ ’’آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ سارا دن کام میں لگا رہا۔ میں پاپا اور مہمانوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے چلا گیا تھا۔‘‘

    ’’واہ، تو تم نے آج خوب تفریح کی۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ اچانک مائری کی آواز آئی: ’’فیونا کیا تم جانے کے لیے تیار ہو؟‘‘

    ’’اچھا میں جا رہی ہوں، ویسے تمھیں بتادوں کہ انکل اینگس کل صبح کریان لارچ جا رہے ہیں، تجارت کے سلسلے میں، وہ وہاں شو کریں گے۔‘‘

    ’’کیسا شو؟‘‘ جبران نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں گھوم پھر کر اپنی دست کاری کے فن پارے فروخت کرتے ہیں۔ ان کی واپسی پیر کے دوپہر کو ہوگی۔ اور جب تک وہ واپس نہیں آئیں گے تب تک وہ کسی اور مہم پر بھی نہیں جائیں گے۔

    ’’ٹھیک ہے میں بھی اطمینان سے سو جاتا ہوں۔‘‘ جبران نے جماہی لی۔

    مائری اور فیونا رخصت ہو گئیں۔ جونی اور جمی بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ جونی نے چلتے چلتے کہا یہاں اندھیرا کچھ جلدی نہیں اترا ہے! مائری نے آسمان کی طرف دیکھ کر جواب دیا، جہاں اندھیرے نے پر پھیلا دیے تھے: ’’یہ خزاں کا موسم ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ کے ہائی لینڈز میں ہیں۔‘‘

    اچانک فیونا نے جونی کو مخاطب کیا: ’’آپ کیوں ٹی وی دیکھنا نہیں چاہتے؟ جبران نے بتایا تھا کہ آپ نے اس سے پہلے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا!‘‘

    ایک بار پھر دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر جونی نے جواب دیا: ’’دراصل ہمارے والدین نے ہمیں بچپن ہی سے سکھا دیا تھا کہ وقت کا بہترین استعمال یہی ہے کہ ہم کتابیں پڑھیں یا کہانیاں لکھیں، یا پھر دور دراز مقامات کی سیر کیا کریں۔ اس لیے ہم نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، نہ ہمیں اس کا کوئی شوق ہے۔‘‘

    ’’اوہ، پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘ فیونا دل چسپی سے بولی۔ ’’مجھے بھی مطالعہ اور کہانیاں لکھنا پسند ہے۔ تو آپ لوگ کماتے کیسے ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ جونی جواب میں کچھ کہتا، اس کی ممی مائری نے فوراً مداخلت کر کے فیونا کو ٹوک دیا: ’’ایسی باتیں مت پوچھو، ان باتوں سے تمھارا کیا لینا دینا۔‘‘ لیکن جونی نے جواب میں کہا کہ یہ درست ہے کہ جمی زیادہ تر وقت سیر سپاٹے میں گزارتا ہے اور میں لکھنے میں۔ فیونا نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔

    جونی نے جواب دیا: ’’ہاں بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی میں نے۔‘‘

    فیونا نے اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کیا، اس لیے باقی کا راستہ خاموشی سے طے ہوا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر مائری نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو جمی نے چونک کر کہا: ’’آپ نے دروازے کو تالا نہیں لگایا تھا؟‘‘

    ’’نہیں… ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گیل ٹے بہت پُر امن جگہ ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ مائری نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’لیکن ممی ہمیں دروازے کو تالا لگانا چاہیے، کیوں کہ ان دنوں یہاں باہر سے اجنبی سیاح آتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور پھر جلدی سے جونی کی طرف مڑ کر معذرت کرنے لگی۔ ’’آپ برا نہ منائیں، میرا مطلب اجنبی سیاحوں سے ہے۔‘‘

    ’’تم درست کہہ رہی ہو فیونا، یہ اچھا آئیڈیا ہے، اب کے بعد دروازے کو ضرور تالا لگایا کریں مائری۔‘‘ جونی نے بھی کہا اور مڑ کر بولا: ’’مجھے امید ہے کہ جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔‘‘

    دونوں جبران کے گھر کی طرف چل پڑے، اور مائری نے دروازہ بند کر لیا۔ فیونا اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی: ’’ممی، جبران کے پاپا بلال صاحب کی فیملی کے بعد کیا یہ دونوں بھائی بھی ہمارے خاندان کے قریب آ رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے ساتھ کوئی رشتہ قائم کرنا چاہیے؟‘‘

    ’’ابھی ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ مائری نے جواب دیا: ’’اب تم چلو، گڈ نائٹ!‘‘

    (جاری ہے….)

  • سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط یہاں پڑھی جاسکتی ہیں

    فیونا اور اس کی ممی چند گھنٹے بعد جبران کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ ’’کتنی عجیب بات ہے، ہمارے درمیان اس سے قبل ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ چند ہی دن میں ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آ گئے ہیں، کہ اب ان کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت پر جا رہے ہیں۔‘‘ مائری نے چلتے چلتے کہا۔

    ’’کیا اس میں ہماری دوستی کا کوئی کردار نہیں ہے؟‘‘ فیونا نے پوچھا۔

    ’’بہت اہم کردار ہے بیٹی۔ بچوں کی دوستی سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانوں میں پکی دوستی ہو جاتی ہے، اور بعض اوقات دوستی کا تعلق رشتہ داری میں بدل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اب تو مسٹر تھامسن بھی ہمارے درمیان آ گئے ہیں۔‘‘ فیونا نے کن اکھیوں سے اپنی ممی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔ ’’ممی، کیا یہ سب عجیب سا نہیں لگتا آپ کو؟ ابھی چند دن پہلے تک ہم کتنی بوریت محسوس کرتے تھے اور اب کتنے پرجوش ہو گئے ہیں۔ کیا ہماری زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے؟‘‘

    چلتے چلتے مائری ایک دم رک گئیں۔ انھوں نے گھوم کر فیونا کو حیرت اور خوشی سے دیکھا اور کہا: ’’مجھے حیرت ہے تم ایسی باتیں کر رہی ہو، کل تک تم یہاں سے بور ہو گئی تھی۔ خیر میں بتاؤں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ تمھیں اپنے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔‘‘

    کچھ دیر بعد وہ جبران کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے لیے دروازہ جبران ہی نے کھولا اور انھیں مہمان خانے لے گیا۔ وہاں تھامسن اور اس کا بھائی پہلے سے موجود تھے۔ دونوں ان کے استقبال کے لیے اٹھ گئے اور پھر چاروں صوفوں پر بیٹھ گئے۔

    ’’ہم دوسری مرتبہ مل رہے ہیں مائری مک ایلسٹر، یہ آپ کی بیٹی فیونا ہے نا؟‘‘ جونی تھامسن نے بیٹھتے ہی مسکرا کر کہا۔

    ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا تعلق اینور ڈروچٹ سے ہے، یہ ایک پیارا گاؤں ہے۔‘‘ تھامسن نے اپنے بھائی جمی کو کن اکھیوں سے دیکھا۔ مائری نے کہا: ’’میں نے بھی آپ کے بارے میں سنا ہے مسٹر تھامسن، یہ کہ آپ کا تعلق لندن سے ہے۔‘‘

    ’’پلیز آپ مجھے یہ مسٹر تھامسن بلانا چھوڑ دیں، میرا نام جون ہے لیکن آپ مجھے جونی پکار سکتی ہیں۔ یہ میرا بھائی جیمز ہے، اسے جمی کہلوانا پسند ہے۔‘‘ جونی تھامسن بولا۔ ’’ویسے ہم لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

    ایسے میں جبران کے پاپا بلال کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ وہ آتش دان کے قریب بیٹھے سگار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ’’لیکن آپ کا لہجہ تو لندن والوں جیسا ہرگز نہیں ہے، آپ کے لہجے سے لگتا ہے کہ آپ یورپی ہیں۔‘‘

    جمی نے کھانس کر تھوک نگلا۔ جونی نے جواب میں کہا: ’’دراصل ہماری ماں اسکاٹ لینڈ کی تھیں، اور باپ کا تعلق مشرق وسطیٰ سے تھا، ویسے ہم دونوں لندن ہی کے ہیں۔‘‘

    بلال نے مطمئن ہو کر اثبات میں سر ہلایا اور سگار کا دھواں اڑانے لگے۔ اسی وقت شاہانہ نے آ کر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب اٹھ کر بلال کی رہنمائی میں کھانے کے کمرے کی طرف چلے۔ سب ایک بڑی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے تو شاہانہ کھانے کے ساتھ آ گئیں۔ اگلے لمحے گلابی لکیروں والا میز پوش سلور کی پلیٹوں سے چھپ گیا۔ میز پر انواع و اقسام کے کھانے چُنے گئے۔

    ’’ارے اتنا سب کچھ، یہ تو کسی بادشاہ کی فوج کے لیے بھی کافی رہے گا۔‘‘ بلال کے چہرے پر واقعی حیرت تھی، کیوں کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لیے کیا انتظام کیا گیا ہے۔ عین اسی لمحے فیونا کی نظر جونی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ اپنے بھائی جمی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ دونوں بھائی کر کیا رہے ہیں، یہ تو واقعی عجیب طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یعنی جبران نے درست کہا تھا۔

    ’’دراصل آپ میز پر جو اتنے سارے کھانے دیکھ رہے ہیں ان میں اکثر مائری کے لائے ہوئے ہیں۔ وہ آج اپنے باغیچے سے تازہ سبزیاں لائی تھیں۔ مہمان خانے میں جس گل دان میں آپ رنگ رنگ کے پھول دیکھ کر آئے ہیں، وہ بھی مائری لائی ہیں۔ ایسے پھول آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔‘‘ شاہانہ نے راز سے پردہ اٹھایا۔

    کھانا کھانے کے بعد فیونا، جبران اور دانیال دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ فیونا بولی: ’’جبران تم نے نوٹ کیا کہ وہ دونوں بھائی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے رہے۔ جمی نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہو لیکن میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے۔‘‘

    ’’تو کیا یہ دونوں قاتل اور کسی جیل سے بھاگے قیدی ہیں، اور رات کو جب ہم سو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل کر دیں گے؟‘‘ جبران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے تیرنے لگے۔

    (جاری ہے…)

  • پینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اسٹور روم میں ڈریٹن تمام صندوقوں کو چھان مار رہا تھا۔ ایک صندوق سے پرانے کپڑے باہر پھینکتے ہوئے اس نے چیخ کر کہا: ’’اُف یہ کیا گندگی ہے، پتا نہیں کیسی عورت ہے یہ۔ اب یہ کپڑے یہاں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے خالی صندوق کمرے کے ایک طرف پھینک دیے۔ وہ جس چیز کی تلاش میں تھا، اسے ڈھونڈنے میں ناکامی پر اس کا غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا تھا۔ بالآخر اسے ایک پرانے پیانو کے پیچھے گتے کا ایک ڈبا نظر آ گیا جس میں کتابیں اور کاغذات پڑے تھے۔

    ’’آخرکار یہ میرے ہاتھ لگ ہی گیا۔‘‘ اس نے خوش ہو کر کہا۔ کمرے میں ساری چیزیں اسی طرح بکھری ہوئی چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میز کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے ایک قدیم کتاب نکال لی۔ اپنا ایک بازو جھاڑو کی طرح میز پر پھیر کر اس نے تمام اشیا فرش پر گرا دیں اور کتاب میز پر رکھ کر پہلا صفحہ کھولا، اور پھر بلند آواز سے پڑھنے لگا: ’’کنگ دوگان کی تاریخ: تصنیف ٹالون ہارمڈن۔‘‘

    اس کے بعد تین گھنٹوں پر ڈریٹن محو ہو کر یہ کتاب پڑھتا چلا گیا۔ جس میں لکھا تھا کہ کنگ دوگان نے بادشاہ کیگان کی دو بیٹیاں شہزادی ازابیلا اور شہزادی آنا کو اغوا کیا۔ دوگان نے ازابیلا سے زبردستی شادی کی، ان کے ہاں ہیگر نامی بیٹا پیدا ہوا۔ دوگان نے ان دونوں بہنوں کو اپنی سلطنت سے دور رکھا اور بیٹا اپنے پاس رکھ لیا۔ ازابیلا نے قسم کھائی کہ وہ ایک دن بچہ چھیننے کا انتقام ضرور لے گی۔ ہیگر ایک ایسا بچہ تھا جس کا تعلق دوگان اور کیگان دونوں سلطنتوں سے تھا۔ جب دوگان مر گیا تو اس نے وہ بارہ ہیروں والا نیکلس پہن لیا جسے کیگان کی سلطنت سے چرا کر لایا گیا تھا۔ ہیگر دوگان کا ایک ہی بچہ تھا، اس لیے وہ ہی تخت کا وارث ٹھہرا۔ ازابیلا اور آنا بعد میں اپنے والد کی سلطنت لوٹ گئی تھیں لیکن وہ دنیا میں نہیں رہا تھا۔

    ڈریٹن پڑھتے پڑھتے پُر جوش ہو گیا تھا۔ ’’ڈیڈ نے بھی کیسی کیسی چیزیں چھپا کر رکھی ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پھر اس نے صفحہ پلتا اور آگے پڑھنے لگا: ’’ہیگر اور اس کی آنے والی نسلوں نے ملک زناد پر تین صدیوں تک حکومت کی اور پھر اس خاندان میں لڑکوں کی پیدائش رک گئی۔ چناں چہ تخت کی وراثت بیٹیوں اور ان کی بیٹیوں کو منتقل ہو گئی۔‘‘

    کتاب کا آخری صفحہ پڑھنے کے بعد ڈریٹن نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور گہری سانس لی۔ ’’تو میں بادشاہ دوگان اور شہزادی ازابیلا کا وارث ہوں۔‘‘ اس نے کتاب بند کر دی اور اپنی ماں کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے الماری کھولی اور ماں کی چیزیں باہر پھینک کر ان کا سوٹ کیس نکال لیا۔ سوٹ کیس خالی تھا لیکن تھا بہت بھاری۔ وہ سوٹ کیس اپنے کمرے میں لے گیا اور جو چیزیں اس نے اپنے لیے کارآمد سمجھیں، اٹھا کر سوٹ کیس میں ٹھونس دیں۔ پھر گلے میں نیکلس ڈال کر سیڑھیاں اترنے لگا۔

    ’’کہاں جا رہے ہو ڈریٹن؟‘‘ ماں کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس نے مڑ کر آگ بگولا ہو کر کہا: ’’چپ رہو تم، میں یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ تم آئندہ میری شکل نہیں دیکھ سکو گی۔‘‘

    ’’تمھیں صندوق میں کیا ملا؟‘‘ پینی لوپ نے بیٹے کی سخت بات بھی نظر انداز کر کے پوچھ لیا، وہ یہ پوچھنے سے خود کو نہ روک سکی تھیں۔

    ’’مجھے پتا چلا ہے کہ میں بادشاہوں کی اولاد ہوں۔ میرا ڈیڈ بھی بادشاہوں کی اولاد تھا لیکن تم نہیں۔ میں اپنے آبا و اجداد کے خزانے کا مستحق ہوں، اس لیے اسکاٹ لینڈ جا رہا ہوں، تم بھی وہاں کی ہو نا … کیا نام ہے اس گھٹیا سی جگہ کا نام جہاں تم پیدا ہوئی؟‘‘

    ’’گیل ٹے۔ میری ایک بہن بھی وہاں رہتی ہے۔‘‘ پینی لوپ نے جواب دیا۔

    ’’گیل ٹے تو ہائی لینڈز ہی میں کہیں ہے نا؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا، جس پر پینی لوپ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ڈریٹن نے ان کی بہن کے بارے میں بھی بدتمیزی شروع کر دی: ’’مجھے تمھاری اس موٹی بدشکل بہن سے کوئی دل چسپی نہیں ہے، میں بس خزانے کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور نکل گیا۔ پینی لوپ نے اس کی موٹر سائیکل کی آواز سنی اور دکھ سے سوچا: ’’کیسا خزانہ!‘‘

    دوپہر کے وقت ریل گاڑی اسٹیشن سے نکلی۔ اگلی صبح کو اسے ایڈن برگ پہنچنا تھا۔ ڈریٹن نے اپنے سونے کا کیبن تلاش کر کے بیگ طاق میں پھینکا اور سوٹ کیس سے کتاب نکال کر دوگان کے شیطان جادوگر اور اس کی طاقتوں کے بارے میں پڑھنے لگا:

    ’’چوں کہ ہیگر کی رگوں میں دو خاندانوں کا خون دوڑ رہا تھا اس لیے اس کے پاس خصوصی طاقتیں تھیں۔ یہ شیطانی قوتیں بہت خطرناک تھیں۔ وہ اچھائی اور برائی دونوں کا جادو کر سکتا تھا۔‘‘

    ڈریٹن دل چسپی سے کتاب بلند آواز میں پڑھنے لگا۔ اس نے جادوئی گیند کے بارے میں بھی پڑھا۔ اس نے خود کلامی کی: ’’تو دوگان کی طاقتوں کے ساتھ ساتھ میں کیگان کے جادوئی گولے کی بارہ طاقتوں کا بھی حق دار ہوں۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں سیاہی مائل شعلے چمک اٹھے۔ ’’جب میں اسے اپنے قبضے میں لے لوں گا اور منتر پڑھوں گا تو شیطان جادوگر پہلان کو ماضی کی تاریکیوں سے طلب کر سکوں گا، اور پھر اس سے یہ بھی سیکھ لوں گا کہ ان طاقتوں کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے جادوئی گولا اور بارہ قیمتی پتھر حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اسے پانے کی صرف ایک جگہ ہے … گیل ٹے … اسکاٹ لینڈ میں واقع قلعہ آذر! واہ کتنی دل چسپ بات ہے۔ میری ماں بھی اسی گاؤں کی ہے جہاں قلعہ واقع ہے۔ مجھے توقع ہے کہ مجھ سے پہلے اسے کسی اور نے نہیں پایا ہوگا۔‘‘

    اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ ’’سب سے پہلے تو میں اپنی پیاری ماں کو مینڈک بنا کر اسے مگرمچھوں کے تالاب میں پھینک دوں گا، کیوں کہ وہ ایک بے کار شے ہے۔‘‘

    ڈریٹن تب تک مطالعہ کرتا رہا، جب تک نیند اس پر غالب نہیں آ گئی، اور وہ اس عالم میں سو گیا کہ ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرا ہاتھ سختی سے نیکلس پر جما ہوا تھا۔

    (جاری ہے…)