Tag: رفیع اللہ میاں

  • تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’ہم آپ کے لیے یونانی سموسہ اور بادام کا کیک لے کر آئے ہیں۔ یونانی زبان میں ان کے نام طویل ہیں لیکن یہ بہت ذائقہ دار ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ اینگس نے جبران کے ہاتھ سے سموسہ اور بادام کے کیک لے لیے۔ ’’اگر تم لوگوں کو برا نہ لگے تو میں یہ کسی اور وقت کے لیے رکھ دوں۔ کیوں کہ میں ابھی ابھی تین عدد چاکلیٹ بسکٹ کھا چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگے اور پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہو گئی۔ ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے۔ سمجھ لو کہ میں ایک تاریخ نویس ہوں، آلرائے کیتھ مور کی طرح۔ میں بھی اس کتاب میں ان دل چسپ واقعات اور مہمات کی کہانی لکھوں گا۔ میرے پاس خصوصی سیاہی ہے اور اس قدیم کتاب میں خالی صفحات بھی ہیں۔‘‘

    ’’اوہ یہ تو شان دار خیال ہے۔ اگر آپ کچھ بھول بھی جائیں تو ہم ساری کہانی دہرا بھی سکتے ہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا۔ ’’ویسے میں یہ ساری کہانی اپنی ڈائری میں بھی لکھوں گا۔‘‘

    ایسے میں دانیال اپنی جیب پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ زبان کے مسئلے کی وجہ سے کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا۔ یکایک اسے پتھر کا وہ ٹکڑا یاد آیا جو اس نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔ وہ جلدی سے بولا: ’’یہ دیکھیں انکل، یہ میں نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔‘‘

    جبران نے فوراً اس کی ترجمانی کی۔ اینگس نے اس کے ہاتھ سے ٹکڑا لیا۔ یہ ماربل کی اینٹ کا ہی ایک ٹکڑا تھا۔ فیونا نے وہ تصویریں اینگس کو دکھائیں جو انھوں نے ساحل پر گدھے پر بیٹھ کر کھینچی تھیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر وہ سب ہنسنے لگے۔

    اینگس نے اٹھ کر الماری کے اوپر سے قدیم کتاب اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ ’’میں اسے بعد میں لکھنا شروع کروں گا جب بالکل اکیلا ہوں گا، تاکہ بھرپور توجہ کے ساتھ سارے واقعات قلم بند کر سکوں۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • اکتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    وہ بولی: "کتنی حیرت کی بات ہے کہ ابھی میں نے ڈریگن کو تصور میں دیکھا اور ابھی یہ فوراً پہنچ بھی گیا، کیا یونان میں ڈریگن بھی ہوتے تھے؟”

    "نہیں، حقیقت میں ڈریگن کہیں بھی نہیں ہیں۔” جبران نے جواب دیا۔ "یہ سب کچھ بہت عجیب سا ہے۔ یہ آیا کہاں سے؟”

    "میرے خیال میں ڈریگن میرے تصور سے آیا ہے۔” فیونا نے عجیب بات کہہ دی۔ "میں نے اسے اپنے تصور میں دیکھا اور پھر اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ میرا خیال ہے کہ بادشاہ کیگان نے کچھ کیا ہوگا، یا شاید یہ اس کا جادوگر تھا۔” دانیال نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا: "ڈریگن کہیں سے بھی آیا ہو، بہرحال اس نے ہمیں اس بد شکل ہائیڈرا سے بچا لیا، چلو اب چلتے ہیں۔” تینوں باہر نکلے اور آسمان کی طرف منھ اٹھا کر دیکھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ فیونا نے کہا: "مجھے یقین ہے ڈریگن یہاں کے لوگوں کو نظر ہی نہیں آیا ہوگا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا ہے کہ کسی کو توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملا ہوگا۔”

    لیکن جب وہ قصبے سے گزرنے لگے تو انھوں نے کئی لوگوں کو آسمان کی طرف اشارے کرتے دیکھا۔ دانیال بولا: "تمھارا یقین ٹھیک نہیں، لوگوں نے اسے دیکھا۔” اور پھر وہ تینوں ہنسنے لگے۔ فیونا نے دونوں سے پوچھا کہ کیا وہ دونوں بھی گھر واپسی کے لیے تیار ہیں، دونوں نے ایک ہی وقت میں جواب دیا: "ظاہر ہے۔”

    "اگرچہ ہمارا یہ دن بہت خوفناک گزرا ہے تاہم بڑا مزا آیا، میں نے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔” دانیال نے تبصرہ کیا۔ جبران نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ میری زندگی کا بھی یادگار ترین دن ہے۔”

    جب وہ ساحل پر اس مقام پر پہنچے جہاں سے وہ واپس اپنے گھر کے لیے جانے والے تھے، تو انھوں نے ساحل پر پانی میں بہت ساری کشتیوں کو دیکھا جو رسیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے بندھی ہوئی تھیں۔ فیونا پرجوش ہو کر بولی: "ارے یہ تو "ڈولتا بازار” ہے۔ میں نے ایک دکان کی کھڑکی پر اس کا اشتہار چسپاں دیکھا تھا۔ ہفتے میں ایک دن اس جزیرے کے کسان اپنی اپنی چیزیں یہاں لا کر فروخت کرتے ہیں۔”

    "یہ کشتیاں تو سبزیوں، پھلوں اور مچھلیوں سے بھری ہوئی ہیں، کتنا خوب صورت منظر ہے یہ۔ کاش میرے پاس کیمرا ہوتا تو میں ان سب کی تصاویر اتار لیتا۔ حتیٰ کہ خانقاہ اور بچھوؤں کی بھی۔” دانیال ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔

    "میں تو ڈریگن کی تصویر لیتا لیکن اگر میں کسی سے ڈریگن کا ذکر کروں گا تو وہ بالکل یقین نہیں کرے گا۔” جبران نے چونک کر کہا۔

    فیونا کہنے لگی: "کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ ہماری کسی بھی بات پر یقین کر لیں گے؟ کون یقین کرے گا کہ پتھروں میں جان آئی اور وہ ایک عفریت کی شکل میں تبدیل ہو گئے، اور پھر وہ ہمارے پیچھے دوڑنے لگا۔ کوئی نہیں کرے گا۔ لوگ ہمیں بے وقوف سمجھیں گے۔ اس لیے ہمیں یہ باتیں خود تک محدود رکھنی ہوں گی۔”

    جبران نے اس سے اتفاق کیا۔ چلتے چلتے اس نے کہا: "اس سے پہلے کہ ہم واپس جائیں، اپنے انکل اینگس کے لیے یہاں سے کچھ میٹھا لے کر چلو، کیوں کہ وہ واحد آدمی ہے جنھیں پتا بھی ہے اور یقین بھی کرتے ہیں۔”

    "گڈ آئیڈیا۔” فیونا خوش ہو گئی۔ "چلو دیکھتے ہیں کہ یہاں بیکری میں کیا ہے؟” وہ ایک بیکری میں داخل ہو گئے۔ شیشوں کے اندر مٹھائیاں موجود تھیں۔ جبران نے ایک کیک کی طرف اشارہ کیا: "یہ دیکھو، اسے یہاں کی زبان میں امیگدالوتا کہتے ہیں۔ میری ٹیچر نے کہا تھا کہ یہ بادام کا کیک ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ انکل اینگس کے لیے یہ چھوٹا سموسہ بھی خریدنا چاہیے۔ اسے یہاں کی زبان میں گیلکٹو بوریکو کہتے ہیں، دارچینی اور سیرپ کے ساتھ۔”

    فیونا نے جبران کو مقامی کرنسی کے چند نوٹ دیتے ہوئے کہا: "ہمارے لیے بھی کچھ خرید لینا، میں باقی رقم برطانوی پاؤنڈز میں تبدیل کر کے آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور کچھ ہی دیر بعد واپس آ گئی۔

    جبران نے سامان سے بھری تھیلی پکڑ لی اور وہ ساحل پر چلتے ہوئے کھانے لگے۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا نے کہا: "یہ ہے وہ جگہ جہاں سے ہماری واپسی ہونی ہے۔” انھوں نے قصبے کو آخری بار دیکھا، فیونا نے کہا مجھے ہائیڈرا بہت یاد آئے گا۔ جبران نے ساحل پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: "شکر ہے کہ پولیس اور ہائیڈرا کے تعاقب کے بعد بھی ہم یہاں تک پہنچ گئے۔ میں اپنی ڈائری میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھوں گا۔”

    فیونا نے کہا: "چلو، اب ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔ جبران خیال رکھنا تھیلی گر نہ جائے۔”

    فیونا نے دونوں کے ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے، ناک کی سیدھ میں نظریں جما دیں، اور منتر پڑھنے لگی: "دالث شفشا یم بِٹ۔”

    اگلے لمحے انھیں لگا کہ آسمان سے بادل اتر کر ان کے گرد تیزی سے گھومنے لگا ہو۔ ان کے جبڑے سخت ہو گئے۔ ہاتھوں کی گرفت بھی مزید سخت ہو گئی۔ ذرا دیر بعد وہ صرف مختلف رنگوں ہی کو دیکھنے لگے۔ ان کے ارد گرد اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ساری دنیا انتہائی تیزی سے لٹو کی مانند گھوم رہی تھی۔ جب انھوں نے آنکھیں کھولیں تو خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

    "ہیلو بچو، مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ تم لوگ زندہ سلامت لوٹ آئے ہو۔” اینگس کرسی سے اٹھ کر بولا۔

    (جاری ہے…)

  • تیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھیے

    ’’میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ جبران بولا۔ ’’مجھے خود ہائیڈرا سے نفرت ہے، چلو یہاں سے بھاگتے ہیں۔‘‘

    تینوں ایک بار پھر بھاگنے لگے۔ سیاہ آبسیڈین کی تلاش میں اس جزیرے پر آ کر وہ اب تک اتنا بھاگ چکے تھے کہ انھیں لگتا تھا زندگی بھر اتنا نہ بھاگے ہوں گے۔ کافی دور جا کر جبران نے مڑ کر دیکھا۔ ’’نہیں….‘‘ وہ چیخا۔ ’’وہ ہمارا پیچھا کر رہا ہے اور ہم سے کہیں زیادہ تیز دوڑ رہا ہے۔‘‘

    ’’ہمیں ساحل کی طرف جانا ہوگا۔‘‘ دوڑے دوڑتے فیونا نے کہا۔ ’’پتا نہیں ماربل کی ایک اینٹ سے کیسے اتنا بڑا عفریت بن گیا ہے۔ یہ یونانی اساطیر بھی بے حد عجیب ہیں۔‘‘

    اچانک چرچ کی گنٹیاں بجنے لگیں۔ فیونا کو ایسا لگا جیسے وہ گھنٹیاں اسے روک رہی ہوں، اور وہ ایک دم رک گئی۔ اس نے دونوں کو آواز دے کر کہا: ’’ہم غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں، چلو اندر چلتے ہیں۔‘‘

    ’’کیاااا…. تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔‘‘ جبران جھلا کر بولا۔ ’’ہم مڑ کر واپس نہیں جا سکتے۔ ہائیڈرا ہمیں آسانی سے شکار کر لے گا۔ تم دیکھ نہیں رہی ہو سانپوں کے سروں میں کتنے نوکیلے دانت ہیں۔ میں تو ان ماربل کے سانپوں سے نو بار ڈسنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

    فیونا نے دیکھا کہ جبران کے چہرے پر مایوسی کے آثار چھا گئے ہیں اور وہ اس کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ وہ بولی: ’’دیکھو جبران، میرا من کہہ رہا ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ کیسے، یہ میں نہیں جانتی۔ اگر ہم اندر نہیں گئے تو یہ ہائیڈرا ہمیں پا کر مار ڈالے گا۔ اور ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ہم اس کے پنجے سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ اس نازک وقت پر تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا ہوگا جبران۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہمیں اس قدیم بازنطینی چرچ کی طرف جانا چاہیے۔ چلو، ہم دوسرے راستے سے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

    جبران اور دانیال نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ وہ دونوں بے حد خوف زدہ تھے۔ اچانک دانیال کو پھنکار کی آواز سنائی دی۔ اس نے دوڑتے دوڑتے جبران سے کہا: ’’تم نے سنی یہ آواز، یہ تو بہت قریب سے آ رہی ہے۔‘‘

    جبران اور فیونا نے بھی پھنکار کی آواز سن لی تھی۔ وہ چلائی: ’’وہ ہمارے بہت قریب پہنچ گیا ہے، اور تیز بھاگو۔‘‘

    ماربل سخت تھا لیکن پتا نہیں پتھر کا یہ سانپ کیسے حرکت کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین پر رینگ نہیں رہا ہو بلکہ چند انچ اوپر ہوا میں تیر رہا ہو۔ فیونا نے کہا: ’’وہ دیکھو، چرچ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔ ہم میں سے جو بھی سب سے آخر میں داخل ہو، وہ اپنے پیچھے دروازہ فوراً بند کر دے۔‘‘

    جب وہ چرچ کے دروازے پر پہنچے تو سب سے پہلے جبران اندر داخل ہوا، اس کے پیچھے ہی فیونا اور پھر آخر میں دانیال داخل ہوا۔ فیونا اندر داخل ہوتے ہی چلائی تھی: ’’دانی دروازہ بند کر دو، جلدی کرنا۔‘‘

    جبران دانیال کی مدد کے لیے تیار کھڑا تھا، دونوں نے عین اسی لمحے دروازہ بند کیا جب ہائیڈرا پہنچ گیا تھا۔ ’’اُف خدا، تم نے دیکھا فیونا، کتنا بھیانک چہرہ ہے اس کا۔‘‘ جبران تھوک نگل کر بولا۔

    ’’چلو اوپر چلتے ہیں، ہم وہاں زیادہ محفوظ ہوں گے۔‘‘ فیونا نے کہا اور تینوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ وہ اس کھڑکی کے پاس آئے جہاں سے انھوں نے اینٹ نیچے پھینکی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ہائیڈرا کے تیز دانت چرچ کے چوبی دروازے میں گڑے ہوئے تھے اور وہ اسے چبا کر توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’بے فکر رہو، ہم یہاں محفوظ ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک بار پھر انھیں تسلی دی۔ جبران نے تقریباً روتے ہوئے کہا: ’’لیکن وہ دروازے کو چبا چبا کر توڑ ڈالے گا اور ہمیں آسانی شکار کر لے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑکی سے ہٹا اور دیوار کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ اسے رونا آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ گھر جانا چاہتا ہے۔

    فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر جیب سے قیمتی پتھر نکال لیا۔ اس کے اندر ڈریگن کا نقش تھا۔ اس میں سے ہلکی ہلکی سی روشنی نکل رہی تھی۔ فیونا جبران کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے تصور میں ایک عظیم الجثہ سیاہ ڈریگن دیکھا جس کی آنکھیں قیمتی پتھر کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ آسمان میں کہیں بادلوں سے نکلا اور غوطہ مار کر نیچے آیا اور پھر اپنے لمبے نوکیلے دانتوں میں عفریت ہائیڈرا کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا۔

    ’’ارے وہ دیکھو۔‘‘ یکایک جبران کی آواز فیونا کی سماعت سے ٹکرائی، اس کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی۔ ’’جلدی آؤ دانی، فیونا، ورنہ تم یہ منظر دیکھنے سے محروم رہ جاؤ گے۔ اوہ دیکھو، اتنا بڑا ڈریگن۔ اس کے پر یقیناً پچاس فٹ لمبے ہوں گے۔‘‘

    اسی لمحے ان کے کانوں سے عجیب قسم کی کرخت آوازیں ٹکرانے لگیں۔ وہ دونوں دوڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ باہر ایک بہت ہی بڑا سیاہ ڈریگن ہائیڈرا پر جھپٹ رہا تھا۔ اس کی پشت پر لمبے اور مضبوط کانٹوں والی ریڑھ کی ہڈی دم تک چلی گئی تھی اور اس کی لمبی دُم ہوا میں کسی کوڑے کی طرح لہرا رہی تھی۔ اس نے ہائیڈرا کو دانتوں میں دبوچا اور فضا میں بلند ہو گیا۔ ہائیڈرا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا لیکن ڈریگن نے اپنی گرفت ذرا بھی ڈھیلی نہیں کی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گئے۔ تینوں نے سکون کی سانس لی۔ وہ چند لمحوں تک خاموش رہے اور دل کی تیز دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے انھیں چونکا دیا۔

    (جاری ہے…)

  • انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    پہاڑ سے نیچے اتر کر فیونا تھکن سے چور ہو کر ایک ٹوٹی ہوئی پتھریلی دیوار پر بیٹھ گئی۔ ’’اب چاہے کچھ بھی ہو، میں تو ان سیڑھیوں پر دوبارہ نہیں چڑھنے والی۔‘‘

    ’’لیکن اب ہم کیا کریں؟ کیا ہم اس اینٹ کو اپنے ساتھ گیل ٹے لے کر جا سکتے ہیں، تاکہ وہیں پر سیاہ آبسیڈین اس سے نکال سکیں؟‘‘ جبران کی خواہش تھی کہ اب جتنی جلد ہو سکے، انھیں گھر چلنا چاہیے۔

    ’’نہیں جبران۔‘‘ فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’یہ اصول ہے، ہمیں یہیں پر اسے نکالنا ہوگا، ہمیں اسی زمین پر اس قیمتی پتھر کو ہاتھ میں لینا ہے۔‘‘

    ’’آبسیڈین ایک پتھر ہے یا زیور؟‘‘ دانیال نے اینٹ ہاتھ میں لے کر پوچھا۔ فیونا نے جواب دیا: ’’دراصل یہ ایک پتھر ہی ہے لیکن کسی زیور سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

    ’’تو اب اسے توڑیں گے کیسے؟‘‘ دانیال کے سوال نے انھیں ایک بار پھر اس مسئلے کی طرف متوجہ کر دیا۔ جبران کہنے لگا کہ کوئی بھاری پتھر ڈھونڈ کر اسے اینٹ پر مارا جائے۔ لیکن فیونا کا اعتراض تھا کہ اتنا بھاری پتھر ہم کیسے اٹھا سکیں گے، جس سے واقعی یہ اینٹ ٹوٹ سکے، اس لیے کوئی دوسرا طریقہ سوچنا ہوگا۔ تینوں اپنے اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اچانک جبران اچھل پڑا۔ وہ بولا: ’’میرے دماغ میں ایک اور زبردست آئیڈیا آیا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر قدیم بازنطینی چرچ ہے، جس کی گنبد نیلے رنگ کی ہے۔ ہم میں سے دو اوپر چڑھ کر اینٹ کو نیچے گرا دیں گے، اور نیچے جو کھڑا ہوگا وہ اس سے قیمتی پتھر نکال لے گا۔‘‘

    فیونا کو یہ خیال پسند آ گیا اور اس نے جبران کو شاباشی دی۔ تینوں تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے بازنطینی چرچ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ دانیال نے سر اٹھا کر اوپر دیکھتے ہوئے سوال کیا: ’’اوپر کون جائے گا؟‘‘

    ’’میں جاؤں گی اوپر، جبران تم بھی ساتھ چلو۔ اور دانی تم یہاں نیچے ٹھہرنا۔ تم نے پتھر فوراً اپنے قبضے میں لینا ہے، اور کسی کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دینا۔‘‘ فیونا نے کہا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

    دانیال نے اینٹ جبران کے حوالے کر دی۔ دونوں اندر داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دانیال چرچ کے ساتھ تنہا کھڑا رہا۔ اس نے قصبے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ یہ بہت خوب صورت ساحلی قصبہ تھا، سمندر کے کنارے سورج کی روشنی پانی پر منعکس ہو رہی تھی، جس سے ایک حسین منظر تخلیق ہو رہا تھا۔ ایک شخص کنارے کی طرف آرہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ایک بہت بڑا آکٹوپس تھا جس کی ٹانگیں ریت کو چھو رہی تھیں۔ دانیال آس پاس کے نظارے میں مگن تھا کہ اسے فیونا کی آواز سنائی دی: ’’دانی تم کہاں ہو؟‘‘

    دانیال دیوار کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گیا۔ اس نے اوپر دیکھا، ایک کھڑکی سے فیونا اور جبران کے سر باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔ ’’پیچھو ہٹو دانی، میں اسے نیچے پھینکنے والا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا اور اینٹ ہاتھ سے چھوڑ دی۔ اینٹ زمین سے ٹکراتے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ دانیال نے جلدی سے ٹکڑے ادھر ادھر ہٹائے اور پھر اسے قیمتی پتھر نظر آ گیا۔

    ’’یہ تو بہت خوب صورت ہے۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور پتھر اٹھا لیا۔ یہ دو انچ قطر کا پتھر تھا۔ سورج کی کرنیں اس پر پڑتے ہی پتھر چمکنے لگا۔ وہ اسے اپنی آنکھوں کے قریب لے جا کر دیکھنے لگا۔ اسے اس کے آر پار دکھائی دینے لگا۔ یہ پتھر بالکل شیشے کی مانند تھا۔ اسی وقت فیونا اور جبران دوڑتے ہوئے باہر آ گئے۔

    ’’تم نے ڈھونڈ لیا اسے…. اوہ شکر ہے۔‘‘ فیونا اطمینان کی سانس لے کر بولی۔ ’’ذرا دکھاؤ مجھے۔‘‘ دانیال نے پتھر فیونا کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہم خوش قسمت ہیں کہ اس قیمتی پتھر کے گرد صرف دو ہی دام بچھائے گئے تھے۔‘‘ فیونا بول اٹھی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوکا۔ ’’تم نے یہ کہنے میں جلدی دکھا دی ہے‘‘ یہ کہتے ہی جبران ان دونوں کو بازوؤں سے پکڑ کر بڑی تیزی سے وہاں سے کھینچا جہاں وہ کھڑے تھے۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ فیونا گھبرا گئی۔

    ’’وہ دیکھو۔‘‘ جبران نے زمین پر بکھرے اینٹ کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ارے … یہ … یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ فیونا اور دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو آگئیں۔ اینٹ کے ٹکڑے مائع ہو کر بہنے لگے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے مائع ٹکڑے مل کر ایک شکل کو ترتیب دینے لگے۔ فیونا نے خوف زدہ ہو کر قیمتی پتھر جیب میں رکھ دیا اور بڑبڑانے لگی کہ یہ کیا بن رہا ہے۔ اگلے لمحے تینوں کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ وہ اپنے سامنے ایک سانپ کی شکل بنتی دیکھ رہے تھے۔ تب فیونا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی، وہ بولی: ’’یہ تو عفریت ہائیڈرا کی شکل بن رہی ہے، جبران تم بار بار اس کا ذکر کر رہے تھے دیکھو اب یہ حقیقت میں بن رہا ہے۔‘‘

    پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے شکل کی جسامت بڑھ گئی۔ اس کے سر سے سانپوں کے نو سر نکل آئے، اور ہر سر میں سے پتھر جیسی زبان باہر کی طرف لپکنے لگی، اور انھیں پھنکار کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔

    (جاری ہے…)

  • اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے یہ پتے کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے چلا کر بولی۔ اس نے چند اور پتے پھینکے۔ بچھو ایک دوسرے پر چڑھ کر کاٹنے لگے۔ شاید انھیں بونے پریشان کر دیا تھا۔ وہ ہمت کر کے چند قدم اندر چلی گئی۔ پھر اس نے چھت کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ وہاں کئی بچھو ایک دوسرے سے لٹک کر جھول رہے تھے اور ان کے ڈنک فرش کی طرف لپک رہے تھے۔ اس نے مزید پتے پھینکے اور مزید راستہ بن گیا۔ اب صرف دو قدم کا فاصلہ تھا اور اس کے پاس بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ آخرکار اس نے اینٹ پر بھی چند ٹکڑے پھینکے۔ بچھوؤں نے پیچھے کی طرف سمٹ کر اینٹ کو چھوڑ دیا۔ پتوں کی بو نے انھیں بری طرح پریشان کر دیا تھا اور وہ غیض و غضب میں ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے۔

    فیونا نے ڈرتے ڈرتے جھک کر اینٹ اٹھا لی اور تیزی سے مڑی۔ اس کے سامنے دروازے تک راستہ بنا ہوا تھا جس کے دونوں طرف سیاہ بچھو کلبلا رہے تھے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جبران اور دانیال کے پاس پہنچ کر وہ بے اختیار گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

    ’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ میں نے اینٹ حاصل کر لی ہے۔‘‘ اس نے بیٹھ کر آنسو پونچھے۔ پھر اس کے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ جھلملانے لگی۔

    ’’مڑ کر دیکھو فیونا، اب وہ راستہ بھی نظر نہیں آ رہا، بچھوؤں نے اسے بھی ڈھک دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بچھو اس بوٹی کی بو کو برداشت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔ فیونا مڑ کر دیکھنے لگی۔ اچانک جبران چیخا: ’’ہلنا مت فیونا… تمھارے بالوں میں ایک بچھو ہے۔‘‘

    فیونا کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ ’’جبران… اسے میرے بالوں سے ہٹا دو، ورنہ یہ مجھے کاٹ لے گا۔ کیا پتا اس پر کسی قسم کا جادو ہوا ہو اور میں مر جاؤں، یا اس کے زہریلے ڈنک سے میں بھی بچھو بن جاؤں۔‘‘

    ’’تم باتیں نہ کرو۔ میں لکڑی کی کوئی چھڑی ڈھونڈٹا ہوں۔ اس کے ذریعے بچھو کو گرانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ جبران بولا اور ادھر ادھر چھڑی تلاش کرنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے لکڑی کی ایک چھڑی مل گئی۔ وہ فیونا کے پاس چلا آیا۔ ’’جبران احتیاط سے… بچھو کو میرے سر پر مارنے کی احمقانہ کوشش مت کرنا۔‘‘ فیونا نے گھبرا کر کہا۔

    ’’میں بے وقوف نہیں ہوں۔‘‘ جبران نے تیز لہجے میں کہا اور لکڑی کی چھڑی اس کے سر کے اوپر لے گیا۔ بچھو نے اسے محسوس کر لیا۔ اس نے ڈنک اوپر کی طرف اٹھا لیا۔ جبران نے نہایت احتیاط کے ساتھ چھڑی بچھو کے بہت قریب کر دی۔ بچھو نے اس پر ڈنک مارا اور پھر اس سے چمٹ گیا۔ جبران نے اطمینان کے ساتھ چھڑی زمین پر پھینک دی۔ فیونا نے کافی دیر سے سانس روکی ہوئی تھی، بچھو ہٹتے ہی اس نے گہری گہری سانسیں لیں۔ بچھو چھڑی چھوڑ کر تیزی سے خانقاہ کے اندر چلا گیا تھا۔ دانیال نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا :’’اب اس ماربل اینٹ کو کیسے توڑیں، یہ تو کافی مضبوط نظر آ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہمیں کسی ہتھوڑی کی ضرورت ہوگی۔‘‘ جبران نے اینٹ ہاتھ میں لے کر تولتے ہوئے کہا۔ اچانک فیونا نے خوف زدہ لہجے میں کہا: ’’ٹھہرو، تم لوگ بھول گئے ہو۔ ایک اور دام ابھی باقی ہے۔ مجھے یقینی طور پر اس کا علم نہیں ہے لیکن جب اس اینٹ کو توڑا جائے گا تو تیسرا اور آخری پھندا ہمارے سامنے آ جائے گا۔‘‘

    فیونا کے منھ سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ جبران نے اینٹ کو ایک بار پھر ہاتھوں سے چھوڑ دیا۔ اینٹ گھاس والی زمین پر ٹپکا کھا کر فیونا کے قدموں کے پاس رک گئی۔ ’’اوہ… تم نے اسے پھر گرا دیا، یہ دوسری مرتبہ ہے، بہت ڈرپوک ہو۔‘‘ دانیال نے اسے ٹوکا۔

    ’’وہ رہے تینوں بچے…‘‘ اچانک انھیں ایک افسر کی آواز سنائی دی۔ ’’وہ خانقاہ کے اندر ہیں، ٹھہرو بچو… بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔‘‘

    ’’ہمیں اس اینٹ کے ساتھ ہی واپس ساحل پر جانا ہوگا۔ گھر پہنچنے کے بعد ہی ہم قیمتی پتھر کو اینٹ سے باہر نکالنے کا کوئی راستہ ڈھونڈیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور لپک کر اینٹ اٹھا لی۔ تینوں ایک بار پھر پولیس سے بچنے کے لیے دوڑ پڑے۔ پولیس اہل کار جیسے ہی خانقاہ کے قریب پہنچے ان میں سے کسی نے چیخ کر کہا: ’’بچھو… ارے یہاں تو ہزاروں بچھو ہیں۔ بچوں کو جانے دو۔ ان بچھوؤں سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر یہاں سیاح آ گئے تو کیا ہوگا؟‘‘ وہ تینوں رک گئے اور انھوں نے بچوں کا تعاقب چھوڑ دیا۔

    فیونا ایک درخت کے پیچھے سے نکل کر بولی: ’’شکر ہے، یہ خطرناک بچھو بھی ہمارے کچھ کام آئے۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ پولیس اہل کار ہمارے پیچھے آنے کی پھر زحمت نہیں کریں گے۔‘‘

    تینوں سیڑھیوں کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں نکولس سے ان کا سامنا ہونے کا امکان نہیں تھا۔

    (جاری ہے….)

  • چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    "یہاں اس جزیرے پر ہم جڑی بوٹیوں کی دکان کہاں ڈھونڈیں گے، یہ تو سیاحوں کا جزیرہ ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں کا کیا کام؟” دانیال بولا۔ "یہاں تو نقشے، پینسل اور شیشے کے گلوب ہی ملیں گے۔ وہ اس وقت ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نیچے قصبے کی طرف دیکھ رہے تھے: "اور تب کیا ہوگا جب نکولس سے ہمارا سامنا ہوگا؟”

    "دانی پلیز، اتنی مایوسی کی باتیں نہ کرو۔” فیونا جلدی سے بولی: "پہلے ہم دیکھ تو لیں۔ یہاں ضرور کوئی ایسی دکان ہوگی جہاں جڑی بوٹیاں فروخت ہوں گی۔ یونانی اپنے کھانوں میں جڑی بوٹیوں کا بہت استعمال کرتے ہیں اور یہاں صرف سیاح ہی نہیں مقامی لوگ بھی ہیں جو یہیں پر رہتے ہیں۔”

    وہ ساحل پر دکانوں کی پھیلی ہوئی لمبی قطار کو دیکھنے لگے۔ وہ جہاں کھڑے تھے، وہاں پتھریلی سیڑھیاں نیچے کو جا رہی تھیں۔ یہ اتنی ڈھلواں تھیں کہ ان پر نیچے اترنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انھیں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔

    "یہاں کئی جگہ اس قسم کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، پتا نہیں یہ کس نے اور کب بنائی ہیں؟” دانیال نے تبصرہ کیا۔

    ‘کیا یہاں پتھر لا کر سیڑھیاں بنائی گئیں یا پہاڑ ہی میں تراشی گئی ہیں!” جبران حیرت سے سیڑھیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے بیٹھ کر سیڑھیوں پر انگلیاں پھیریں اور پھر بولا: "کچھ پتا نہیں، تاہم ان پر سخت محنت ہوئی ہے۔”

    نیچے اترنے کے بعد ان کی جان میں جان آ گئی۔ "اف میری ٹانگیں تو جیلی کی طرح کانپنے لگی ہیں۔ میں تو دوبارہ یہ مشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔” فیونا اپنی ٹانگوں کو جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگی۔

    "ہمیں نکولس کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔” جبران بولا۔ "چلو ان بغلی گلیوں میں چلتے ہیں۔ اگر چہ دیر لگے گی لیکن ہم بے خطر وہاں پہنچ جائیں گے۔”

    چند منٹ بعد وہ دکانوں کی ایک قطار تک پہنچ گئے۔ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم نکال کر دی اور کہا: "ہم الگ الگ دکانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کو بھی جڑی بوٹی ملی، وہ خرید کر واپس اسی جگہ آئے۔” وہ تینوں الگ الگ دکانوں کی طرف چل پڑے۔

    ایک گھنٹے بعد وہ سیڑھیوں کے پاس جمع ہو گئے۔ "میں نے وہاں نکولس کو دیکھا لیکن اچھا ہوا کہ مجھ پر اس کی نظر نہیں پڑ سکی۔ وہ اب بھی بہت غصے میں نظر آ رہا تھا۔ میں سر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگا۔” دانیال نے انھیں بتایا۔

    "کیا تمھیں جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان بھی ملی یا نہیں؟” فیونا نے پوچھا۔ دانیال نے جواب دیا: "نہیں، میں جن دکانوں میں گیا وہاں صرف شرٹس اور برساتیاں ہی فروخت ہو رہی تھیں۔”

    "میں جن دکانوں میں گیا وہاں مجسمے، جھنڈے اور اسی قسم کی چیزیں تھیں۔” جبران نے کہا۔ فیونا نے بھی مایوسی سے سَر ہلاتے ہوئے کہا: "مجھے بھی جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان نہیں ملی۔ اب مجبوراً ہمیں یہاں کے لوگوں سے پوچھنا پڑے گا، شاید کوئی ایسا شخص ملے جس نے اپنے باغیچے میں وہ بوٹی اگائی ہو۔ لیکن پہلے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یونانی زبان میں لیڈی مینٹل کو کیا کہتے ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا: "کیا تم جانتے ہو؟”

    "کیوں، میں کیوں جانوں گا بھلا؟” جبران نے ماتھے پر بل ڈا ل دیے۔ فیونا مسکرائی: "اس لیے کہ تمھیں یونان کے متعلق بہت ساری معلومات ہیں۔”

    جبران نے کہا : "صرف اسے دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔”

    "تو ٹھیک ہے، ہم ایک بار پھر مختلف سمتوں میں جا کر یہاں ادھر ادھر اُگے پودوں سے پتے توڑ کر ایک گھنٹے بعد پھر یہاں ملیں گے۔ اور یہاں جبران انھیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرے گا۔” فیونا نے کہا اور ایک طرف چل پڑی۔ باقی دونوں بھی مختلف اطراف میں روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ تینوں سیڑھیوں کے پاس پھر اکھٹے ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے پودوں کے پتے تھے۔ جبران کے ہاتھ خالی تھے۔ اس نے فیونا اور دانیال کے لائے ہوئے پتے دیکھ اور سونگھ کر کہا: ” ان میں سے کوئی بھی لیڈی مینٹل نہیں ہے۔”

    ان کے چہرے پھر اتر گئے۔ فیونا حتمی لہجے میں بولی: "تب پھر ہمیں بچھوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ سوچنا ہوگا۔ چلو واپس خانقاہ چلتے ہیں اور پھر سے اس پر سوچتے ہیں۔”

    تینوں سیڑھیوں کی طرف منھ کر کے اوپر دیکھنے لگے۔ "میں تو ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھنا چاہتی، بس یہ آخری مرتبہ ہے۔” فیونا منھ بنا کر بولی۔

    "رک جاؤ چورو! ” اچانک ان کی سماعتوں سے چیخنے کی آواز ٹکرائی۔ "وہ رہے آفیسرز، انھوں نے میرا گدھا چوری کیا تھا۔”

    یہ آواز ان کی سماعتوں پر بم کی طرح لگی تھی۔ وہ سناٹے میں آ گئے تھے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیلی وردی میں ملبوس تین سپاہیوں کے ساتھ ان کی طرف بھاگتا آ رہا تھا۔

    "بھاگو…!” فیونا چلائی۔

    وہ سیڑھیوں سے چھلانگیں مار کر اترے۔ "اگر ہم الگ ہوئے تو خانقاہ میں ملیں گے۔” فیونا بولی اور تیر کی طرح پہاڑ کے دامن میں بنے گھروں کی طرف دوڑی۔ دانیال بھاگ کر کچھ فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اچھی طرح چھپ گیا ہے تو اس کی نظریں عین سامنے اُگے پودے پر پڑیں۔ وہ چونک اٹھا۔ اس کے پتے خاکی مائل سبز تھے۔ اس میں چھوٹے زرد رنگ کے پھول بھی کھلے تھے۔ "ارے یہی پہچان ہی تو بتائی تھی جبران نے۔” مسرت سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جلدی سے کئی شاخیں توڑیں اور پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیں۔ پھر وہ احتیاط سے جھاڑیوں سے سر باہر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دبے قدموں چلنے لگا۔ یکایک اسے نکولس کی آواز سنائی دی۔

    (جاری ہے)

  • پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر نے اپنے باغیچے سے تمام قسم کے پھول چُنے، اور ان سے ایک خوب صورت گل دستہ بنا لیا۔ پھر، چند سبزیاں توڑیں اور باسکٹ میں بھر کر جبران کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ پندرہ منٹ بعد وہ جبران کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ دستک دینے پر ذرا دیر بعد جبران کی امی شاہانہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ مائری کو نہیں پہچان سکیں، کیوں کہ وہ اس سے پہلے کبھی مائری سے نہیں ملی تھیں۔

    "میں مائری… مائری اینافرگوسن مک ایلسٹر۔” انھوں نے اپنا تعارف کرایا۔

    "ارے آپ، فیونا کی ممی۔” شاہانہ چونک اٹھیں اور انھیں خوش آمدید کہا اور اندر مہمان خانے میں لے گئیں۔ "بلال نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے، آپ سے ملنے کا مجھے بڑا اشتیاق تھا۔”

    دونوں آمنے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئیں، لیکن شاہانہ نے اچانک کہا: "میں آپ کے آنے سے پہلے اپنے لیے چائے بنا رہی تھی، میں ابھی لے کر آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور باورچی خانے چلی گئیں۔ مائری اس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگیں۔ پہلی ہی نظر میں وہ شاہانہ کی سلیقہ مندی کی معترف ہو گئیں۔ ہر چیز سے صفائی اور سادگی کی جھلک نمایاں تھی۔ دروازے کی سامنے والی دیوار پر فریم میں ایک بڑی تصویر لٹک رہی تھی۔ اس تصویر میں ایک گاؤں کے پس منظر میں برف پوش پہاڑوں کا نہایت ہی دل پذیر منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس تصویر میں نظر آنے والی جگہ کے متعلق سوچ کر حیران ہو گئیں۔ وہ اسے پہچان نہیں سکیں۔ گھروں کا طرز تعمیر ان کے لیے بالکل اجنبی تھا۔

    "یہ ہمارے آبائی گاؤں کی تصویر ہے۔” شاہانہ نے اندر آتے ہوئے مائری کو تصویر میں گم دیکھ کر کہا۔ انھوں نے میز پر سینی رکھ دی اور دو پیالیوں میں کیتلی سے چائے انڈیلنے لگیں۔ مائری کیتلی کو دیکھ کر چونک اٹھیں۔ "ارے، میں نے آج تک اسکاٹ لینڈ میں اس طرح کی کیتلی نہیں دیکھی، یہ تو کوئی بہت قدیم لگ رہی ہے۔”

    شاہانہ مسکرا دیں۔ انھوں نے ایک پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا: "یہ کشمش کے بسکٹ ہیں، بے حد ذائقہ دار ہیں۔ رہی بات اس کیتلی کی تو یہ میں پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوں۔ یہ ہماری روایتی کیتلی ہے۔”

    "بہت ہی شان دار ہے۔” مائری اس سے متاثر نظر آنے لگیں، پھر کچھ یاد آکر انھوں نے باسکٹ اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ باسکٹ سے گل دستہ نکال کر شاہانہ کے حوالے کر دیا۔ "یہ میں نے اپنے باغیچے کے پھولوں سے بنایا ہے۔”

    "شکریہ….!” شاہانہ نے گل دستہ وصول کرتے ہوئے کہا: "معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے باغیچے میں بہت سارے پودے اگائے ہیں۔”

    "جی ہاں۔ میں نے کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل بھی اگائے ہیں۔ کچھ اپنے ساتھ بھی لائی ہوں۔ دراصل میں نے سوچا کہ جب بلال اور آپ کا مہمان لوٹیں گے تو رات کے کھانے کے لیے کچھ زبردست قسم کی چیزیں موجود ہوں۔” مائری نے روانی میں کہہ دیا لیکن وہ دل ہی دل میں حیران ہونے لگیں کہ اس نے اتنی روانی سے مہمان کا ذکر کیسے کر دیا۔ "میرا مطلب ہے کہ …. آپ کے ہاں ایک مہمان آیا ہوا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟” وہ گڑبڑا کر بولیں۔

    شاہانہ مسکرا دیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ ” ہاں، ہاں… جونی تھامسن لندن سے یہاں آیا ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ وہ بلال کے ہمراہ مچھلیوں کے شکار پر گئے ہوئے ہیں۔ آج رات آپ اور فیونا کا کیا پروگرام ہے؟ کیا آپ ہمارے ہاں آنا پسند کریں گی۔ رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھائیے، مہمان کے ساتھ بھی ملاقات ہوجائے گی، اور جتنی دیر چاہیں آپ ان سے مچھلی کے شکار کے قصے بھی سن سکتی ہیں۔”

    مائری ہنس پڑیں۔ "تھامسن سے کل میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک اچھا شخص لگتا ہے۔ میں رات کے لیے قیمہ اور آلو کا بھرتا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اگر آپ کو پسند ہو تو میں وہ یہاں لے کر آ جاؤں!”

    شاہانہ فوراً سمجھ گئیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ "ٹھیک ہے، آپ اطمینان کے ساتھ آ سکتی ہیں۔ جتنا چاہیں یہاں وقت گزاریں۔ ویسے آپ تو پہلے ہی سے اتنا کچھ لے کر آئی ہیں۔” انھوں نے باسکٹ کی طرف اشارہ کیا۔

    (جاری ہے….)

  • چوبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "بس تھوڑا سا اور رہ گیا ہے۔” فیونا نے ہانک لگائی۔ اگلے لمحے ایک جھٹکے سے اینٹ دیوار سے اکھڑ کر نیچے جا گری۔ فیونا بالکل تیار کھڑی تھی۔ دیوار میں ارتعاش پیدا ہوئی لیکن فیونا نے تیزی کے ساتھ خالی جگہ میں دوسری اینٹ رکھ دی۔ چند لمحوں کے لیے دیوار لرز کر رہ گئی۔ دھول کا ایک چھوٹا سا بادل فضا میں منڈلانے لگا تھا۔ فیونا کھانس کر پیچھے ہٹ گئی۔ دیوار سے چند پتھر بھی ٹوٹ کر نیچے گرے لیکن دیوار اپنی جگہ قائم رہی۔ وہ دونوں بھی دوڑ کر اندر آ گئے۔ جبران نے جلدی سے اینٹ اٹھا لی جس کے اندر قیمتی پتھر تھا۔ "ہم نے پتھر پا لیا… ہم نے پتھر پالیا۔” اس نے مسرت آمیز لہجے میں چیختے ہوئے کہا۔

    "فیونا! وہ کیا ہے؟” یکایک خانقاہ میں دانیال کی خوف زدہ چیخ گونج اٹھی۔

    وہ دونوں تیزی سے مڑ کر اس طرف دیکھنے لگے جہاں فیونا نے نئی اینٹ لگا دی تھی۔ ان دونوں کی آنکھیں بھی دہشت سے پھٹ کر رہ گئیں۔ اینٹ والی جگہ سے بڑی تعداد میں کوئی سیاہ مخلوق اتنی تیزی سے نکل رہی تھی جیسے اچانک کوئی آتش فشاں پھٹا ہو، اور اس سے لاوا ابلنے لگا ہو۔

    فیونا چلا کر بولی: "یہ بچھو ہیں۔ اف میرے خدا، یہ تو ہر جگہ سے نکل رہے ہیں۔”

    "چلو بھاگو یہاں سے۔” جبران دہشت زدہ ہو کر چلایا، اور ماربل کی اینٹ پھینک کر باہر کی طرف دوڑا۔ فیونا اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ "یہ… یہ بہت خطرناک ہوتے ہیں، اگر کاٹ لیں تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔” دانیال نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ بہنے لگا تھا، باقی دونوں کا بھی کچھ اچھا حال نہیں تھا۔

    "جبران، اینٹ کہاں ہے؟” فیونا نے اچانک اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر پوچھ لیا۔ اور جبران بوکھلا گیا: "ارے… وہ… وہ تو میں نے ڈر کے مارے اندر پھینک دی ہے۔ اب تو وہ بچھوؤں میں چھپ گئی ہوگی۔” اس نے جلدی سے اندر بھی جھانک لیا، واقعی فرش بچھوؤں سے ڈھک چکا تھا۔ فیونا کو غصہ آ گیا۔ "تت … تم نے اینٹ گرا دی۔” فیونا کے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہو گئے تھے۔ اتنی محنت کے بعد انجام یہ نکلا تھا۔ "اوہ جبران، یہ تم نے کیا کر دیا۔ ہم نے اتنی مشکلوں سے اسے حاصل کیا اور تم نے اسے اتنی آسانی سے کھو…” بات کرتے کرتے شدت غم سے اس کی زبان رک گئی۔ "میں چیخ پڑوں گی جبران، میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ دوڑی اور زیتون کے درخت کے پاس کھڑی ہو کر زور زور سے چیخنے لگی۔ ذرا دیر بعد وہ واپس آ گئی۔

    "اب طبیعت کیسی ہے، کچھ بہتری محسوس ہوئی؟” دانیال نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا۔ اسے ہنسی آ رہی تھی لیکن اس نے خود پر قابو کیا ہوا تھا۔

    "ہاں، کچھ بہتر محسوس کر رہی ہوں، پوچھنے کے لیے شکریہ۔” فیونا دھیرے سے بولی۔ یکایک جبران نے کہا: "میں نے سنا ہے کہ ایک قسم کی بوٹی ہوتی ہے جو بچھوؤں کو دور بھگا دیتی ہے۔” یہ کہہ کر وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔ "اس کے نام میں لیڈی آتا ہے شاید۔ اور اس کے پھول زرد ہوتے ہیں، ہاں یاد آیا… لیڈی مینٹل!”

    "ارے واہ، تمھیں تو کسی پھولوں کی دکان میں ہوناچاہیے، لگتا ہے بڑے ہو کر ماہر نباتات بنو گے۔” فیونا خوش ہو کر بولی۔ "ایسا کچھ نہیں ہے۔” جبران منھ بنا کر بولا: "میں اپنے گھر کے سامنے ایک خوب صورت باغیچہ بناؤں گا اور اس میں تمام قسم کے پھولوں والے پودے ہوں گے۔”

    "اچھا، اب اس مسئلے کا حل کیسے نکالیں، یعنی یہ پودا یا بوٹی ہمیں کہاں سے ملے گی اور ہم اسے کیسے پہچانیں گے؟” دانیال نے درمیان میں مداخلت کر دی۔

    "اس کے لیے تو ہمیں واپس ہائیڈرا جانا ہوگا۔ وہاں جڑی بوٹیوں والی کسی دکان سے لیڈی مینٹل کا پوچھیں گے۔” جبران نے جواب دیا۔

    دانیال اچھل پڑا۔ "پاگل ہو گئے ہو کیا۔ اگر نکولس نے ہمیں دیکھ لیا تو۔ وہ ہمیں گدھا چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کروا دے گا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم یہ کام کل پر چھوڑ دیں، کیوں کہ میں بہت تھک چکا ہوں۔”

    "نہیں، جب تک اینٹ ہمارے ہاتھ میں بہ حفاظت نہیں آ جاتی، تب تک ہم آرام سے نہیں رہ سکتے۔ اس کے اندر قیمتی پتھر ہے، اسے مت بھولو۔ ہم اسے ہی ڈھونڈنے آئے ہیں۔ ذرا سوچو، بادشاہ کیگان اور اس کا پورا خاندان اس کی اس کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ ہاں ہم شہر جا کر وہاں کچھ آرام کر سکتے ہیں۔ سیاحوں کو دیکھیں گے، آئس کریم کھائیں گے اور پھر رات ہونے سے پہلے یہاں واپس آ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ بچھو خود ہی کہیں جا چکے ہوں۔” فیونا نے سپاٹ لہجے میں کہا اور پھر آگے بڑھ کر خانقاہ میں جھانکا۔

    "بچھو ہی بچھو ہیں ہر جگہ۔” وہ بڑبڑائی اور پھر تینوں ہائیڈرا شہر کی طرف چل پڑے۔

  • تئیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تئیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصّوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    بیٹھے بیٹھے فیونا تھک گئی تھی، اٹھ کر ہاتھ پیر پھیلا کر سستی دور کرنے لگی۔ پھر اس نے ماربل کی اینٹوں پر توجہ مرکوز کر دی۔ وہ سوچنے لگی کہ وہ کیا کرسکتی ہے، کیوں کہ دونوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی تھی اور وہ سارا دن انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے اینٹ ہٹا دی تو ساری دیوار میرے اوپر آ رہے گی اور غالباً چھت بھی۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا اور بڑبڑائی: "مجھے اس گدھے کی ضرورت ہے۔”

    اسی وقت جبران اور دانیال اندر داخل ہو گئے۔ جبران نے ایک پتھر سے ٹھوکر کھائی، اس کے منھ سے تکلیف دہ آواز نکلی۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا۔ "بہت خوب، گدھا کہاں ہے؟ کیا تم نے اسے باہر چھوڑ دیا۔”

    جبران نے منھ بنا لیا۔ وہ اٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگا۔ "کمال کیا نا میں نے ٹھوکر کھا کر۔”

    "ہم گدھے کو نہیں لا سکے۔” دانیال نے دھیمے لہجے میں بتایا۔

    "کیوں؟” وہ حیران رہ گئی۔

    "فیونا، ہم گدھے کو ساتھ لے کر چلے تھے لیکن اس نے سیڑھیاں نہیں چڑھیں، وہ ضدی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا، اور پھر کہیں سے نکولس چلا آیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر پاگل ہونے لگا تھا۔ ہم بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، ویسے میں رسی لے آیا ہوں۔” دانیال نے تفصیل بتا دی۔

    "ہم تمھارے لیے پیٹا لائے ہیں جسے یہاں کی زبان میں گائرو کہتے ہیں، یہ بہت مزے کا ہے۔” جبران نے کہا تو فیونا نے پیٹا لے کر کھایا۔ وہ بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکی: "بہت مزے کا ہے لیکن چکنائی بہت زیادہ ہے۔”

    "ہاں کرسٹوف کے بالوں کی طرح۔” دانیال نے دانت نکالے۔

    "تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھے کے بغیر ہی کچھ کرنا پڑے گا۔” فیونا نے پیٹا پورا کھانے کے بعد کہا۔ دونوں نے خاموشی سے سر ہلایا۔ "جب تم دونوں چلے گئے تھے تو میرا دھیان اس درخت کی طرف گیا، یہ دیکھو۔” فیونا نے اینٹوں کی دیوار کے قریب جا کر ایک سوراخ کی طرف اشارہ کیا۔ "یہاں سے ہم رسی باہر پہنچا کر اُس درخت کے تنے سے باندھ دیں گے اور پھر اس کے ذریعے اینٹ کھینچ کر نکال لیں گے۔”

    دانیال نے جلدی سے رسی زمین پر رکھ دی اور اس کا ایک سرا فیونا کو تھما دیا۔ رسی کا دوسرا سرا لے کر وہ فرش پر پتھروں کے ڈھیر پر چڑھا اور پھر درخت کی طرف چلا گیا۔ درخت کے گرد چکر لگا کر وہ واپس فیونا کے پاس آیا۔ فیونا نے رسی کا وہ سرا جو اس کے ہاتھ میں تھا، لے کر مطلوبہ اینٹ کے ساتھ ایک سوراخ میں ڈالا۔ ذرا سی کوشش سے رسی کا سرا اندر چلا گیا۔ پھر وہ دوڑ کر باہر گئی اور رسی کا سرا کھینچ کر اسے اینٹ کی دوسری طرف بنے سوراخ میں ڈال دیا، جسے دوسری طرف موجود دانیال نے اندر کھینچ لیا۔ فیونا پھر اندر آئی اور اب دونوں سرے دانیال کے ہاتھوں میں تھے اور رسی مطلوبہ اینٹ کے گرد حمائل ہو چکی تھی۔

    "اب کیا کریں؟” دانیال نے پوچھا۔

    "بتاتی ہوں۔” فیونا بولی اور اس کے ہاتھ سے ایک سرا لے کر اسے قریب ایک ستون سے باندھ دیا۔ "اب تم دونوں باہر جا کر درخت کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ میں جیسے ہی آواز دوں تو تم دونوں پوری قوت کے ساتھ رسی کھینچنا شروع کرو۔”

    دانیال دوسرا سرا لے کر جبران کے ہمراہ باہر جا کر درخت کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ فیونا نے دوڑ کر ایک اور اینٹ اٹھا لی اور دیوار میں لگی مطلوبہ اینٹ کے پاس کھڑی ہو گئی۔

    "رسی کھینچ لو۔” فیونا نے چند لمحے توقف کیا اور پھر چیخ کر بولی۔

    دونوں نے پوری طاقت کے ساتھ رسی کھینچی۔ اینٹ میں تھوڑی سی حرکت ہوئی اور اس کا ایک ٹکڑا ٹوٹ کر نیچے گر گیا، اس کے ساتھ ہی دھول کا ایک چھوٹا سا مرغولہ اٹھ کر فضا میں منتشر ہو گیا۔

    (جاری ہے……)

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)