Tag: رفیع اللہ میاں

  • اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی (اردو ویب) پر قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جس دیوار میں مطلوبہ اینٹ لگی ہوئی تھی وہ بہت خستہ ہو چکی تھی، اور ایسا لگتا تھا جیسے اب گری تب گری۔ فیونا اینٹ کے پاس رک گئی۔ "یہ واقعی ڈھیلی ہے اور بہ آسانی باہر نکل آئے گی۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "فیونا، داموں کو مت بھولو۔” دانیال نے اسے پھر یاد دلایا۔ اس سے خاموش نہ رہا گیا تھا۔ وہ بے چینی سے فیونا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "یہ کارنر اسٹون ہے، اس پر پوری دیوار ٹھہری ہوئی ہے۔”

    "میں داموں کو بھولی نہیں ہوں۔” اس نے مڑے بغیر تیز لہجے میں جواب دیا اور اینٹ کو جھٹکے سے کھینچ لیا۔ دیوار اچانک لرز کر رہ گئی۔ اوپر سے ان کے سروں پر ماربل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور خشک کیچڑ گرنے لگا۔ انھوں نے فوراً بازوؤں سے سر چھپا لیے۔ "یہ یقیناً پھندوں میں سے ایک ہے، اگر ہم نے اینٹ نکالی تو پوری دیوار ہم پر گر جائے گی۔” فیونا چلا کر بولی۔ دانیال نے اس کا جملہ پورا کر دیا: "اور ہم سب مر جائیں گے۔”

    ایسے میں جبران نے آئیڈیا پیش کیا: "کیوں نہ گدھے سے کام لیا جائے۔ ہم نکولس سے اس کے گدھے کو کرائے پر لے لیتے ہیں۔ سہ پہر کو وہ ویسے بھی آرام کرنے جائے گا۔ ہم گدھا یہاں لا کر اس سے ایک رسی باندھ لیں گے اور اس رسی کا دوسرا سرا اینٹ کے گرد لپیٹ دیں گے۔ ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں ایک اور اینٹ لے کر کھڑا ہوگا۔ جیسے ہی گدھا اینٹ کھینچ لے گا، وہ فوراً اس جگہ پر دوسری اینٹ رکھ دے گا۔ کیسا ہے یہ آئیڈیا؟” جبران فخر سے سینہ پھلائے ان کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔

    "آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھا چوری نہیں، ادھار پر لینا پڑے گا۔ اور مجھے یقین نہیں ہے کہ نکولس ہمیں اپنا گدھا ادھار دینا پسند کرے گا۔ ویسے تم دوڑ کر ساحل پر جا کر گدھا لا سکتے ہو۔ میں یہاں کھڑے ہو کر سوچوں گی کہ اور کیا کر سکتی ہوں۔” فیونا نے اسے دیکھ کر کہا۔

    "ٹھیک ہے، مجھے پیاس بھی لگی ہے، ہم چلے جاتے ہیں۔” دانیال بولا۔ فیونا نے ڈریکما کے چند نوٹ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: "یہ لو مقامی کرنسی، کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور ہاں رسی بھی خرید کر لانا۔”

    جبران اور دانیال کے جانے کے بعد فیونا ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس نے اسی کونے والی ماربل اینٹ ہی پر نظریں جمائے رکھیں۔ اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ اس نے ایک جھٹکا کھایا اور مڑ کر دیکھنے لگی۔ اس کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ قلعۂ آذر کے ایک کمرے کی چھت کے قریب ہوا میں کسی تتلی کی طرح منڈلا رہی ہے۔ نیچے میز پر ایک اعلیٰ قسم کا فیتے والا خوب صورت میز پوش نظر آ رہا تھا۔ میز پر سنہری رنگ کا شمع دان رکھا تھا جس میں گلابی رنگ کی موم بتیاں جل رہی تھیں۔ گل دان گیندے، سوسن اور گلاب سے بھرے ہوئے تھے، جن میں گندم کی ڈنٹھل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ میز پر طرح طرح کے کھانے سجے ہوئے تھے جن کی خوش بوؤں سے کمرا مہک رہا تھا۔ ماحول بے حد پر سکون تھا۔ اچانک فیونا کو آوازیں سنائی دینے لگیں اور پھر بہت سارے لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے منقش شیشے والی کھڑکی کو غور سے دیکھا۔ اس نے کمرے میں داخل ہونے والوں میں بادشاہ کیگان کو پہچان لیا۔ بادشاہ نے ترشے ہوئے سفید پشم کے ساتھ سرخ عبا پہن رکھا تھا اور اس کے سر پر خالص سونے کا تاج دھرا تھا جو، روبی، نیلم اور زمرد سے سجا ہوا تھا۔ اس کے دائیں طرف بادشاہ کی ملکہ تھی اور چند بچے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس کے آس پاس پھر رہے تھے۔ ان سب نے شاہی لباس پہن رکھا تھا۔ آتش دان کے پاس مسخرے اور شعبدہ باز کھڑے اس شاہی خاندان کو اپنے ہنر سے خوش کر رہے تھے۔ شاہی خاندان اور ان کے دوست کھانے کی میز کے گرد اکھٹے ہو گئے۔

    اچانک سارا محل خطرے کی گھنٹیوں سے گونج اٹھا۔ ملکہ نے فوراً خطرہ محسوس کر کے بچوں کو اکٹھا کیا اور کمرے سے باہر نکال کر ایک دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اسی وقت چوبی ڈھالوں اور اسٹیل کی چمکتی تلواروں سے مسلح افراد اندھا دھند کھانے کے کمرے میں گھسے چلے آئے۔ ان کے سامنے جو بھی آیا، اسے ان حملہ آوروں نے تلواروں سے کاٹ کر رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ کچھ ہوا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بادشاہ فرش پر تڑپ رہا تھا۔ اس کے اردگرد اس کے مہمان خون میں ڈوبے پڑے تھے۔ اسی لمحے فیونا کو کمرے کے باہر سے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سمجھ گئی کہ ملکہ اور بچے بھی ان ظالموں سے نہیں بچ سکے۔

    یہ اتنا دل دوز منظر تھا کہ فیونا شدت غم سے سسکیاں بھرنے لگی۔ عین اسی وقت اچانک بادشاہ کیگان نے گردن موڑ کر اوپر فیونا کی آنکھوں میں دیکھا۔ یکایک تلوار چمکی اور کسی نے بادشاہ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ فیونا خوف کے مارے چھت کے ساتھ دُبک گئی۔ ایک شخص اندر داخل ہوا اور اس نے بادشاہ کیگان کی کٹی ہوئی گردن سے ہار کھینچ لیا۔ کئی اور افراد نے ملکہ اور بچوں کی لاشیں گھسیٹتے ہوئے اندر لا کر بادشاہ کے قریب ڈھیر کر دیں۔

    کمرے کو نذر آتش کرنے سے قبل ایک شخص نے شاہی خاندان کی لاشوں پر تیل چھڑک دیا۔ یہ منظر کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا۔ فیونا اسے دیکھنے کی تاب نہ لا سکی اور ہوا میں تیرتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں آگ کے سرخ شعلے چھت کو چھونے لگے۔

    فیونا آنکھیں کھول کر اٹھی۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ اس نے گال صاف کیے۔ وہ یہ جان کر بڑی خوش ہوئی کہ وہ محض ایک خواب تھا۔ اس نے اپنے دل میں یہ عزم کیا کہ وہ تمام قیمتی پتھر حاصل کر کے انھیں جادوئی گیند پر واپس رکھ دے گی۔ وہ بڑبڑ انے لگی: "میں اپنے جد امجد بادشاہ کیگان کا اقبال مزید بلند کرنے کے لیے جادوئی گولے کو پھر سے مکمل کر کے رہوں گی۔”

    (جاری ہے….)

  • بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    تینوں ساحل پر زیتون کے ایک قدیم ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے بیٹھ کر سامنے کا منظر دیکھنے لگے۔ ان کی نگاہیں پہاڑی پر مرکوز تھیں۔ دانیال نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا: "قیمتی پتھر اسی علاقے میں ہوگا، یہ ساحل اتنا پھیلا ہوا نہیں ہے۔”

    "یہ کتنا پیارا منظر ہے۔ وہ دیکھو، آرٹسٹ تصویریں بنا رہے ہیں۔” جبران نے چند لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو ایزل کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

    "ہاں، میں اور بھی بہت کچھ دیکھ رہی ہوں۔ بہت سارے لوگ فوٹو گرافی کررہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ سیاح ہوں گے۔” فیونا بے زاری سے بولی۔

    "میرے خیال میں یہ لوگ کلینڈر کے لیے فوٹو گرافی کر رہے ہیں۔” جبران نے سر کھجایا۔ "میری ممی نے گھر کے لیے ایک کلینڈر خریدا تھا، اس پر یونان کی تصاویر تھیں لیکن وہ اس ساحل کی نہیں تھیں۔ میرے خیال میں وہ سنتارینی کی تصاویر تھیں۔”

    فیونا نے گائیڈ بک کھول لی جو وہ خرید کر لائے تھے۔ "مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کہیں قریب ہی ہیں۔” فیونا کسی سوچ میں گم بولی۔ دانیال اٹھ کر آرٹسٹ کے قریب چلا گیا۔ جبران نے بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر لیں اور چند لمحوں بعد وہ تنے سے ٹیک لگا کر نیند کی دنیا میں کھو چکا تھا۔ فیونا نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ اونگھنے لگی اور اسی عالم میں اس نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز میدان میں کھڑی ہے۔ ایک پہاڑی پر ایک خانقاہ ہے اور زیتون کا ایک درخت کھڑا ہے۔ اسی لمحے وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ اس نے جلدی سے جبران کو جگایا اور دانیال کو بھی آواز دی۔ "جلدی آؤ، میں نے جان لیا ہے کہ قیمتی پتھر کہاں ہے۔” جبران نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا: "میں بہت میٹھی نیند میں تھا، تم کیا کہہ رہی ہو؟”

    "میں کہہ رہی ہوں کہ پتھر جس جگہ موجود ہے میں وہ جگہ جانتی ہوں۔ اس تصویر کو دیکھو۔” فیونا نے گائیڈ بک آگے کر دی۔ "یہ سینٹ الیگزینڈر چرچ ہے، یہ سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں سے ایک یا دو میل دور واقع ہے۔ چلو اپنا اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    دانیال ہنسا۔ "ہمارے پاس سامان کہاں سے آگیا، چلو ہم تیار ہیں۔” تینوں ساحل چھوڑ کر شہر کی طرف چل پڑے۔ فیونا بولی: "دیکھو خیال رکھنا، ہم شہر کے اندر جا رہے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ ہم کہیں راستہ بھٹک جائیں۔”

    وہ ایک سیدھ میں چلنے لگے۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ جبران چونک اٹھا۔ "یہ تو کھنڈرات ہیں فیونا، پتا نہیں کتنے قدیم ہیں۔”

    "گائیڈ بک کے مطابق اس کی تعمیر 1200 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔” فیونا کتابچہ کھول کر دیکھنے لگی۔ "یہ تو واقعی بہت قدیم ہیں۔ اپنے وقت میں یہ بلاشبہ بہت خوب صورت تعمیر رہی ہوگی۔” اس نے کتابچہ بند کر دیا۔ جبران نے اچانک ایک خطرناک بات یاد دلا دی: "فیونا کیا تمھیں یاد ہے کہ انکل اینگس نے کیا کہا تھا؟ انھوں نے کہا تھا کہ پتھر کے آس پاس تین پھندے بچھائے گئے ہیں۔ پتا نہیں یہ کس قسم کے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ خانقاہ کے اندر شیر ہو، یا سانپوں والے سروں کا عفریت ہائیڈرا۔” جبران کی آواز میں انھوں نے خوف کی جھلک واضح محسوس کی۔

    جب وہ خانقاہ کے قریب پہنچے تو فیونا نے کہا: "میں نہیں سمجھتی کہ یہ قلعۂ آذر سے زیادہ خوف ناک جگہ ہوگی۔ یہاں روشنی ہے۔ میرے خیال میں خانقاہوں میں بھوت نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔”

    دانیال فیونا سے کتابچہ لینے کے بعد اسے پڑھنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ آخر کار اس نے کتابچہ بند کر کے پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیا اور کہا: "کتابچے میں لکھا ہے کہ یہاں بھی کہیں پر منقش شیشے کی کھڑکی موجود ہے، جیسا کہ قلعۂ آذر میں تھی۔ یہاں اور بھی پچی کاری کے کام کی یادگاریں موجود ہیں۔”

    دونوں اس کی بات سن کر مڑے اور اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا: "دانی کیا تم نے نہیں سنا، ہم نے ابھی کیا باتیں کیں؟” دانیال کے چہرے پر حماقت کے تاثرات چھا گئے، اور نفی میں سر ہلانے لگا۔ جبران بے بتایا: "ہم نے کہا کہ اگر یہاں پھندے کے طور پر کوئی عفریت ہوا تو…”

    "جبران! غلط بات ہے۔ اسے کیوں ڈرا رہے ہو۔ خانقاہ میں کوئی عفریت نہیں ہے، آؤ میرے ساتھ۔” فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور اندر داخل ہو گئی۔ "واؤ، پتھر تو ماربل کے لگ رہے ہیں، یہ گرینائٹ کے نہیں ہیں۔ بہت شان دار۔”

    "ہاں اچھے ہیں۔” جبران نے کوشش کی کہ اس کے لہجے سے خوف ظاہر نہ ہو، لیکن یہ سچ تھا کہ ڈر اس کے دماغ میں بیٹھ چکا تھا۔ انھوں ںے دیکھا کہ خانقاہ کی کئی دیواریں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں اور اینٹیں فرش پر بکھری پڑی تھیں۔ دانیال اچانک پرجوش ہو کر چیخ جیسی آواز میں بول اٹھا: "وہ دیکھو، منقش شیشے کے ٹکڑے بھی پڑے ہیں۔” فیونا اور جبران کی نگاہیں خانقاہ کے دور کے ایک کونے پر پڑیں۔ وہاں ایک نوجوان جوڑا کھڑا تھا۔ نظریں ملتے ہی فیونا اخلاقاً مسکرائی اور جبران کے قریب ہو کر سرگوشی کی: "قیمتی پتھر ماربل کی ان ہی اینٹوں میں سے کسی ایک کے اندر ہے۔”

    "تم کیسے جانتی ہو یہ؟” جبران نے ماربل کی اینٹوں پر نظریں جما دیں۔ فیونا تفصیل بتانے لگی: "بس جانتی ہوں۔ جس نے قیمتی پتھر ماربل اینٹ میں چھپایا تھا، اس نے اس کے لیے کوئی طریقہ بھی ظاہر ہے کہ ڈھونڈا ہوگا۔ میں نے جب آنکھیں بند کی تھیں تو اسے صاف طور سے ماربل کی اینٹ میں دیکھا تھا۔”

    "لیکن یہاں تو ہزاروں ماربل اینٹیں ہیں فیونا، ہم کیسے جانیں گے کہ پتھر کس اینٹ میں ہے؟” دانیال نے پریشان ہو کر کہا اور ایک ٹوٹی اینٹ اٹھا لی۔ "یہ تو خاصی چمک دار ہے، میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔”

    "ماربل کی اینٹ اس جگہ پر ہے جہاں وہ نوجوان جوڑا کھڑا ہے۔ جب وہ جائے گا تو ہم وہاں جا کر اسے ڈھونڈیں گے۔” فیونا نے کہا اور ٹوٹے ماربل کے ایک بڑے ٹکڑے پر بیٹھ کر ہاتھوں کے پیالے میں ٹھوڑی رکھ لی۔ اس کی نگاہیں نوجوان جوڑے پر گڑی ہوئی تھیں۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ جوڑا کچھ بے چینی محسوس کر کے باہر چلا گیا۔ "اوہ شکر ہے وہ چلے گئے۔” جبران نے اچانک چھلانگ ماری اور اس جگہ کی طرف دوڑ پڑا۔ فیونا چلا کر بولی: "خبردار جبران، یہاں کوئی دام بھی بچھا ہو سکتا ہے۔”

    دانیال نے کہا: "ہاں کوئی دیوار بھی گر سکتی ہے جس کے نیچے دب کر ہم سب مر سکتے ہیں۔ کیا پتا یہاں نیچے انتہائی زہریلے چھوٹے سانپ بھی ہوں۔”

    "میں جانتا ہوں۔ وائپر اور ایسپ ہوتے تو چھوٹے ہیں لیکن انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔” جبران رک کر مڑا اور سانپوں کے متعلق اپنی معلومات جھاڑیں۔ فیونا کو غصہ آ گیا۔ "اوہ دانی، اتنا ڈرامائی ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر تم ڈرتے ہو تو باہر جا کر ہمارا انتظار کرو۔”

    "ٹھیک ہے، میں چپ رہوں گا۔” دانیال نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیے اور ماربل کی اینٹوں کو گھورنا شروع کر دیا۔ فیونا اس کے سامنے سے گزر کر کونے کے قریب جا کر بولی۔ "پتھر اس اینٹ کے اندر ہے، یہ جو بالکل کونے میں لگی ہوئی ہے۔ میں جا کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہوں، یہ مجھے ڈھیلی لگتی ہے۔”

    (جاری ہے…)

  • انیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "نقشہ بتا رہا ہے کہ ہائیڈرا 21 قطر میل تک پھیلا ہوا ہے، اور ایتھنر کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اتنے بڑے علاقے میں کسی قیمتی پتھر کو ڈھونڈ نکالنا تو ناممکن ہے۔ ویسے ہم یہاں کون سا پتھر ڈھونڈیں گے؟” جبران نے یاد کرنے کی کوشش کی۔

    "سیاہ آبسیڈین۔ انکل اینگس نے بتایا تھا کہ یہ سیاہ شیشے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔” فیونا نے جواب دیا۔ "صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ پتھر کسی آتش فشاں سے ملا تھا۔”

    وہ اندر گئے اور ایک نقشہ خرید لیا۔ باہر آ کر وہ ایک پتھر کی دیوار پر چڑھ کر اس طرح بیٹھ گئے جیسے گدھے پر سواری کی جاتی ہے۔ یہ دیوار ساحل پر تھی۔ لہریں ان کے پیروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ماہی گیروں سے بھری ایک کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی۔ ان سے کافی فاصلے پر سیاحوں سے بھری کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی تھی اور اس میں سے نکل کر مخصوص لباس پہنے سیاح چھلانگیں مار کر ساحل دوڑ رہے تھے۔ ان کا رخ دکانوں کی طرف تھا۔

    "یہاں بھی ویسے ہی سیاح نظر آ رہے ہیں جیسے گیل ٹے میں نظر آیا کرتے ہیں۔” فیونا بولی۔ "شکلوں سے ویسے ہی احمق دکھائی دیتے ہیں۔” تینوں ہنسنے لگے۔ اچانک فیونا کو ایک خیال آیا۔ "کیا ہائیڈرا ایک عفریت کا نام نہیں ہے، جس کے سانپ جیسے نو سر ہیں!”

    "ہاں… ہائیڈرا ایک عفریت ہے۔” جبران نے اثبات میں سر ہلایا۔ "یونانی تاریخ کا تمھارا مطالعہ اچھا ہے۔”

    ایسے میں دانیال بھی بول اٹھا۔ "میں نے ہرکولیس کی کہانی پڑھی ہے، اس نے ہائیڈرا کو مار دیا تھا۔ وہ بھی تو یونانی تھا نا!”

    فیونا نے کہا: "کیا ہم یہیں پر رہیں گے، اگرچہ یہ جگہ بہت خوب صورت ہے، اور مجھے پسند بھی آ گئی ہے، لیکن ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔”

    "پہلے کچھ کھا نہ لیا جائے کیا؟ مجھے بھوک لگی ہے۔” جبران بولا، فیونا نے کہا: "ہاں، پہلے کچھ کھاتے ہیں اور اس نقشے کا کیا کریں؟”

    "کھانے کے بعد دیکھیں گے اسے، مجھے یونانی کھانوں کی خوش بو بہت اچھی لگی ہے۔” جبران ایک آؤٹ ڈور کیفے کی طرف دیکھنے لگا جو لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک کونے میں انھیں ایک میز خالی نظر آ گئی، تینوں نے جلدی سے وہاں جا کر کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ "اف، کرسی تو بہت گرم ہے۔” فیونا ایک دم اچھل کر پڑی۔

    "ہاں، کرسیاں دھات کی بنی ہیں، دھوپ کی وجہ سے تَپ رہی ہیں۔” جبران مسکرا کر بولا۔ ایسے میں ایک بیرے نے آکر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ان سے پوچھا: "کیا چاہیے آپ کو؟”

    "کیا آپ مینو دیں گے؟” جبران نے اس کی طرف دیکھا۔ بیرا ایک مینو میز پر رکھ کر چلا گیا۔ جبران اور فیونا کھانوں کی فہرست دیکھنے لگے۔ "ایک اور مشکل…. ہمیں کھانوں کی نوعیت کے بارے میں کیسے پتا چلے گا؟ یہ سارے نام تو ظاہر ہے اجنبی ہیں۔” جبران نے دونوں کی طرف دیکھا۔

    "کچے آکٹوپس… او… میں تو یہ نہیں کھا سکتی۔” فیونا نے مینو دیکھ کر برا سامنھ بنا لیا۔

    بیرا واپس آ گیا۔ اس نے کان کے پیچھے سے پنسل نکالی۔ فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ دیکھ کر کہا: "کرسٹوف! میں یونانی سلاد کھاؤں گی۔ مینو میں لکھا گیا ہے کہ اس میں زیتون، کاہو، کھیرا، ٹماٹر اور مسالہ لگا پنیر شامل ہیں، کیا یہ درست ہے؟”

    بیرے نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: "جی ہاں، اس پنیر کو ہماری زبان میں فیٹا کہتے ہیں اور سلاد میں تیل اور سرکہ بھی ڈالے جاتے ہیں۔” بیرے نے یہ کہہ کر جبران کی طرف توجہ کی۔ "جی، آپ کے لیے کیا لاؤں؟”

    "صبر تو کریں۔ ابھی میرا آرڈر ختم نہیں ہوا۔” فیونا نے جلدی سے مداخلت کی۔ بیرا پھر اس کی طرف مڑا۔ فیونا نے کہا: "ایک ڈبل روٹی بھی۔”

    "یہ عام ڈبل روٹی نہیں ہے، اس کا نام پیٹا ہے جو خمیر کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔” بیرے نے بدمزگی سے کہا اور جبران کی طرف مڑا، جو بدستور مینو پر نگاہیں دوڑا رہا تھا۔ بیرا بے صبری سے زمین پر پاؤں تھپتھپانے لگا۔ "میں ایک سولاکی لوں گا۔ مجھے برّے کا گوشت بے حد پسند ہے، اس کے ساتھ سیخ میں مرچ اور پیاز بھی پروئے جاتے ہیں، لیکن مرچ کون سی؟” جبران نے پوچھ تو لیا لیکن ایک دم سے گھبرا گیا کہ پتا نہیں بیرا کس طرح جواب دے، کیوں کہ اس کا رویہ کچھ اچھا نہیں تھا۔ وہی ہوا۔ وہ غّرا کر بولا: "ہری مرچ… تم کیا سمجھ رہے ہو؟” اگلے لمحے جبران نے اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا "بے وقوف سیاح!”

    "میں تو یوں ہی پوچھ رہا تھا، کیوں کہ گھر میں ہمارے پاس زرد، نارنجی اور سرخ مرچ بھی ہیں۔” جبران نے جھجکتے ہوئے کہا۔

    "مجھے یہ زیٹنر کی چٹنی چاہیے جو ملائی، دہی، کھیرے اور لہسن سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ فرائی زکینی، فرنچ فرائز اور بینگن۔ ویسے یہ زکینی ہے کیا؟”اس سے قبل کہ بیرا دانیال سے آرڈر پوچھتا، اس نے جلدی جلدی الٹا سیدھا خود ہی بتا دیا۔

    "زکینی کھیرے کی طرح سبزی ہے۔” بیرے نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ "اور ہاں ایک گلاس پانی بھی۔” دانیال جلدی سے بولا۔

    "میرے لیے بھی۔” فیونا نے بھی کہا۔ "کیا پانی کی قیمت الگ سے وصول کی جاتی ہے؟”

    بیرے نے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا اور جبران کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے بھی پانی کا آرڈر دے دیا۔ اس کے جاتے ہی فیونا نے گہری سانس لے کر کہا: "میرے خیال میں سارے ہی یونانی اس بیرے کی طرح تو نہیں ہوں گے۔”

    جبران نے نیا نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا: "ایسا نہیں ہے۔ وہاں بھی جب انکل مک گریگر کے ریستوران میں سیاحوں سے بھری بس اترتی ہے تو ان کا رویہ بھی پھر ویسا نہیں رہتا، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا کرتا ہے۔”

    کچھ ہی دیر بعد بیرا پلیٹوں میں ان کی مطلوبہ ڈشیں لے کر آ گیا۔ فیونا نے زیتون دیکھے تو حیران رہ گئی۔ پھر اس نے کانٹے میں ایک زیتون اٹھا کر منھ میں رکھا تو بے اختیار بولی: "اف… یہ تو بے حد ذائقہ دار ہے، ہمارے ہاں ڈبّے میں بند جو زیتون ملتا ہے، اس کا ذائقہ اتنا مزے دار نہیں ہوتا۔”

    تینوں نے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ فیونا آخر میں بولی: "میں اس بیرے کو ٹپ نہیں دوں گی، یہ ٹپ کا مستحق نہیں ہے۔”

    "چلو، اس نقشے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔” جبران نے نقشہ نکال کر میز پر پھیلا دیا۔ "یہ تو بہت پیچیدہ لگ رہا ہے۔ کیا ہم اسے پڑھنے کی کوشش کریں یا پھر پہلے ذرا پرسکون ہونے کے لیے گدھے کی سواری کریں؟”

    "ہاں، یہ صحیح ہے۔” دانیال بولا لیکن فیونا نے منع کر دیا۔ ان کی یہ گفتگو گدھے کے مالک نے سن لی۔ وہ گدھے کو قریب لا کر بولا: "بچو، آؤ، گدھے کی پُر لطف سواری کا مزا لو۔ بچوں کی سواری پر گدھا بہت خوش ہوتا ہے۔”

    فیونا نے سواری سے انکار کر دیا۔ جبران اور دانیال نے گدھے پر سواری کی اور تصویریں بھی بنوائیں۔

    "چلو، اب یہ کھیل ختم کرو۔ ہم یہاں سیاح بن کر تو نہیں آئے۔ ہمیں قیمتی پتھر کو تلاش کرنا ہے۔” فیونا نے تصویروں کو دیکھا اور مسکرا دی۔

    (جاری ہے…….)

  • اٹھارھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھارھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    انھوں نے خود کو یونانی جزیرے ہائیڈرا پر بحر ایزن کے کنارے پایا۔ اینگس کمرے میں بُت بنے اس جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں چند لمحے قبل ان کی بھتیجی اور اس کے دوست کھڑے تھے اور اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ ان کے چہرے کی جھریاں ایک دَم سے بڑھ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں فکر اور اندیشوں کی بے شمار لہریں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    سر کا چکرانا بند ہوا تو فیونا بولی۔ "آہا… ہم یہ کہاں آ گئے ہیں؟”

    وہ ارد گرد کا جائزہ لینے لگے۔ "ارے مجھے یاد آیا، میں اسے پہچان رہی ہوں، یہ جگہ تو میں اور میری ممی نے پرسوں رات کو خواب میں دیکھی تھی۔ کتنا عجیب ہے نا!”

    "یہ پانی دیکھو، کتنا نیلا ہے اور یہ آسمان بھی۔” دانیال بولا۔ اس بات پر جبران کے ساتھ ساتھ فیونا بھی حیرت کے مارے اچھل پڑی۔ "کک … کیا … ابھی تم نے کیا بولا تھا؟” فیونا تیزی سے اس کی طرف مڑنے پر مجبور ہو گئی تھی۔

    دانیال جھجکنے لگا۔ "مم … میں سمجھا نہیں، میں نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ یہ پانی اور آسمان کتنے نیلے ہیں۔”

    "ارے دانی، تم سمجھے نہیں، ابھی تم نے جو کہا اسے میں نے آسانی سے سمجھ لیا ہے، جبران نے ترجمہ نہیں کیا۔” فیونا نے کہا۔ "اوہ، یہ…یہ کیسے ہو سکتا ہے۔” دانیال بھی اچھل پڑا۔ "میں بھی آسانی سے تمھاری باتیں سمجھ پارہا ہوں اب۔”

    "یہ تو معجزہ ہو گیا۔” جبران بے اختیار بولا۔

    "یہ جادو ہے۔” فیونا ایک دم بول اٹھی۔ سب سناٹے میں آ گئے۔ "تو کیا ہم جادو والے علاقے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ تب تو ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔” فیونا کے لہجے میں تشویش تھی۔

    انھوں نے ساحل پر چلتے ہوئے اپنے سامنے پھیلے منظر کو دیکھا۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں سفید گھر دھبوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ اتنا خوب صورت منظر تھا کہ وہ مسحور ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔ تاحد نظر پھیلے ہوئے سبزے پر خوش رنگ پھول کھل کر لہلہارہے تھے۔ گل نسترن، سوسن اور گرم علاقوں میں پیدا ہونے والے رنگ رنگ کے پھول وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ فیونا بڑبڑا کر بولی۔ "ایسے پھول تو میں نے اسکاٹ لینڈ میں کبھی نہیں دیکھے۔”

    "تم لوگوں کو صرف پھول ہی نظر آ رہے ہیں۔” اچانک دانیال بولا "ان گدھوں کو بھی تو دیکھو۔”

    وہ گدھوں کی طرف دیکھنے لگے لیکن جبران نے ایک اور طرف توجہ دلا دی۔ "یہاں کوئی کار نظر نہیں آئی، کسی سائن بورڈ پر یونانی زبان کی تحریر بھی دکھائی نہیں دی۔”

    "لیکن تم یہ کیسے پہچانو گے کہ یہ یونانی زبان کی تحریر ہے؟” فیونا نے حیرت سے ناک پر انگلی رکھ دی۔ جبران مسکرا کر بتانے لگا "ہم نے اسکول میں پڑھی ہے، آخری چند ہفتوں میں ہم نے یونانی جزائر کے متعلق پڑھا تھا۔ ہم ایک جزیرے ہائیڈرا کے متعلق بھی پڑھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی جزیرۂ ہائیڈرا ہے۔ ہاں وہ دیکھو، وہ سائن بورڈ یونانی زبان میں لکھا ہوا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ کیا لکھا گیا ہے۔”

    "ایک مسئلہ ہے، ہم یونانی نہیں جانتے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ہم کس طرح گفتگو کریں گے؟” فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔

    "یہ ایک سیاحتی مقام ہے فیونا، یہاں لوگ ضرور انگریزی بولتے ہوں گے۔” جبران نے جواب دیا۔ تینوں ساحل کے قریب آبادی کی طرف بڑھنے لگے۔ "تم ٹھیک کہتے ہو۔” فیونا کہنے لگی۔ "یہ یونان ہے، بالکل کسی تصویری پوسٹ کارڈ کی مانند۔ اب ہمیں سب سے پہلے اپنے پاس موجود رقم یونانی کرنسی میں تبدیل کروانی ہے۔ ویسے یونانی کرنسی کو کہتے کیا ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا۔

    "ڈریکما کہتے ہیں…لیکن کیا تم یہ سوچ رہی ہو کہ وہ ہمیں پیسے دے دیں گے؟ ہمارے پاس کوئی شناخت اور پاسپورٹ تک نہیں۔” جبران نے جواب دیا۔

    "میں جلدی سے بہانا بنا دوں گی کہ میرا پاسپورٹ والدین کے پاس رہ گیا ہے، اور وہ تفریح کے لیے نکل گئے ہیں، اب ہمیں لنچ لینا اور پیسے نہیں ہیں۔” فیونا بولی۔ وہ خود کو ایک دم بہادر محسوس کرنے لگی۔ "یہ جگہ بہت خوب صورت ہے۔ یہاں واقعی کوئی کار، بس، موٹر سائیکل حتیٰ کہ سائیکل بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو جہاں بھی جانا ہو، انھیں پیدل ہی جانا ہوتا ہے۔”

    "یا پھر گدھوں پر سواری کرتے ہوں گے۔” دانیال بولا۔ "وہ دیکھو ایک بوڑھا گدھے پر سوار ہے۔”

    "میرے خیال میں گدھوں سے بدبو آتی ہوگی، میں تو ان پر سواری نہیں کرنا چاہوں گی۔” فیونا نے ناک سکیڑ کر کہا۔

    "یہاں ہر طرف چرچ، خانقاہیں، اور محرابی راستے ہیں۔ ہمیں کوئی نقشہ خریدنا ہوگا تب ہی ہم راستہ ڈھونڈ سکیں گے۔ وہ رہی سیاحوں کی دکان، وہاں نقشے ضرور ملتے ہوں گے۔” جبران نے کہا۔

    "ہاں، لیکن پہلے مجھے بینک جانا ہوگا۔” فیونا بولی۔ "بینک بھی سامنے ہے، تم دونوں باہر ٹھہرنا۔ میں اکیلے اندر جاؤں گی۔ انھیں روتے ہوئے ایک دکھ بھری کہانی سناؤں گی۔ اگر وہ نہیں مانے تو پھر تم دونوں نے کوشش کرنی ہوگی۔”

    یہ کہ کر وہ اندر چلی گئی۔ چند ہی منٹ بعد وہ باہر نکلی تو دونوں چونک اٹھے، فیونا رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچے۔ "کک … کیا ہوا فیونا، تم کیوں رو رہی ہو؟” جبران گھبرا کر بولا۔ لیکن فیونا نے یکایک قہقہ لگایا اور پھر ہنسنے لگی۔ "ارے یہ تو جعلی آنسو ہیں، دیکھا ان کی طرح تم بھی دھوکا کھا گئے۔” اس نے یونانی کرنسی ڈریکما کے نوٹ ان کے سامنے لہرائے۔

    "اوہ… فیونا، تم تو زبردست اداکارہ ہو۔” دانیال حیرت سے بولا۔ وہ واقعی اس کی صلاحیت سے متاثر ہوا تھا۔ فیونا اس کی طرف دیکھ کر جھینپ گئی اور بولی "میں نے کبھی اداکاری نہیں کی۔ دانیال نے بے اختیار کہا کہ تم خداداد صلاحیتوں کی مالک ہو اور فیونا نے شرما کر شکریہ ادا کیا۔

    وہ تینوں سیاحوں کی ایک دکان کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہو گئے، وہاں ایک نقشہ لٹکا ہوا تھا۔

    (جاری ہے….)

  • سترھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سترھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    پھر ان کے جسم میں جنبش ہوئی اور ہونٹ ہلنے لگے۔ "تم لوگوں کو یہ الفاظ ادا کرنے پڑیں گے … دالث شفشا یم…اس کے بعد تم قیمتی پتھر والی جگہ پر پہنچ جاؤ گے۔ ہاں واپس آنے کے لیے اس منتر کے آخر میں ایک اور لفظ بِٹ شامل کرنا ہوگا۔ جہاں سے جاؤ گے، واپسی بھی وہیں پر ہوگی۔ میرے خیال میں منتر تم لوگوں کو یاد ہو گیا ہوگا کیوں کہ یہ بہت آسان ہے۔”

    "ہاں لیکن یہ بے حد عجیب اور اجنبی الفاظ ہیں۔” فیونا بولی۔

    "یہ دراصل بادشاہ کیگان کے آبا و اجداد کی زبان میں لکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے سورج اور سمندر کی طرف دروازہ، اور بِٹ کا مطلب ہے گھر۔ ” اینگس نے کتاب بند کر کے جواب دیا۔ "یہ فونیزی الفاظ لگتے ہیں، پہلے میرا خیال تھا کہ یہ مشرقی یورپ یا روسی الفاظ جیسے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔”

    جبران بولا۔ "ہوشیار ہو جاؤ سب، میں اس منتر کو آزما رہا ہوں، عین ممکن ہے کہ میں ہی ایک وارث ہوں۔” یہ کہ کر اس نے منتر پڑھا… دالث شفشا یم۔”

    لیکن کچھ نہیں ہوا۔ فیونا کے منھ سے ہنسی نکل گئی۔

    "میں تو مذاق کر رہا تھا۔” جبران جھینپ گیا۔ "مجھے پتا ہے کہ میں بادشاہ کیگان کا وارث بھلا کیسے ہو سکتا ہوں۔”

    "یہ ایسے کام نہیں کرے گا۔ اس کے لیے تمھیں کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جانا پڑے گا۔ بغیر کسی تیاری، اور اکیلے۔” اینگس کہنے لگے۔ "مجھے پکا یقین ہے کہ میں ورثا میں سے نہیں ہوں۔ میں قلعہ آذر والوں کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے یہاں کی تاریخ بھی خاصی دل چسپ ہے۔” یہ کہ کر وہ اٹھے اور کتابوں کی طاق سے ایک کتاب کھینچ کر نکال لی۔ "یہ کتاب اس علاقے گیل ٹے کی تاریخ سے متعلق ہے، کتاب میں ذکر ہے کہ دو لڑکیاں قلعے میں آئی تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بادشاہ کیگان کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے نام ازابیلا اور آنا تھے۔”

    فیونا نے چونک کر کہا۔ "انکل میں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی لیکن میرا درمیانی نام ازابیلا اور میری ممی کا آنا ہے۔ یہ اتنا اہم تو محسوس نہیں ہوتا تھا، صرف ایک اتفاق کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اب سوچ رہی ہوں کہ تو حیرت ہو رہی ہے کہ کیا ہم ان کے وارث ہیں۔ کیا کتاب میں اس حوالے سے کچھ بتایا گیا ہے؟”

    اینگس نے بتایا "کتاب میں لکھا ہے کہ شہزادیوں کی جن مردوں سے شادی ہوئی تھی، وہ جھیل کے پار دوسرے کنارے والے گاؤں کے عام لوگ تھے۔”

    فیونا اس بار بری طرح چونکی۔ "کیا اس سے مطلب اینوَر ڈروچٹ ہے؟ میری ممی وہیں سے تو ہیں۔”

    "کتاب میں کسی خاص گاؤں کے نام کا ذکر نہیں ہے۔ یہ دونوں خاندان بعد میں قلعے میں منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی نسلیں کئی صدیوں تک وہاں رہیں لیکن پھر برطانیہ کے ساتھ جنگ میں یہ قلعہ تباہ ہو گیا اور اسے پھر سے تعمیر نہیں کیا گیا۔ جو لوگ اس میں رہتے تھے وہ جھیل کے کنارے قریبی دیہات میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہو گئے۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک وارث ہو۔” اینگس نے یہ کہ کر کتاب بند کر دی۔

    "اوہ، یہ تو ایک زبردست بات ہو گئی ہے۔” جبران اچھل پڑا۔ "فیونا تم حقیقی وارث ہو، مجھے تو یہی محسوس ہو رہا ہے۔”

    "کیا تم یہ منتر آزماؤ گی فیونا؟” دانیال نے اچانک اسے مخاطب کیا۔

    "ٹھہرو۔” وہ تینوں اینگس کی بدلی ہوئی آواز پر ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ وہ اٹھے اور الماری کے ایک خانے سے نوٹوں کی گڈی نکال کر فیونا کی طرف بڑھے۔ "فرض کرو، منتر پڑھتے ہی تم غائب ہو گئی تو تمھیں رقم کی ضرورت ہوگی، اسے اپنے پاس رکھو۔ تم کسی بھی بینک سے متعلق ملک کی کرنسی تبدیل کر سکتی ہو۔” فیونا نے یہ سن کر لرزتے ہاتھوں کے ساتھ رقم کی گڈی لے کر جیب میں رکھ لی۔

    "میری ممی کہتی ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد قلعے میں رہتے تھے۔ میں اس منتر کو آزمانا چاہتی ہوں، لیکن یہ معاملہ بہت خطرناک لگ رہا ہے۔ جبران، دانی، تم بھی آ کر میرے قریب کھڑے ہو جاؤ۔ اگر اس نے کام کیا تو میں اکیلے نہیں جانا چاہوں گی۔”

    وہ دونوں فیونا کے کندھوں سے کندھے ملا کر کھڑے ہو گئے۔ فیونا بڑبڑانے لگی… دالث شفشا یم…

    اور پھر وہ ہوا جس کا ان میں سے کسی کو بھی یقین نہیں تھا، کیوں کہ ابھی تک اس عجیب و غریب کہانی پر وہ دل سے یقین نہیں کر پائے تھے۔ یکاک کمرا رنگ و نور سے بھر گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک رنگین دھواں تیزی سے کمرے میں پھیلنے لگا ہے۔ اس دھوئیں میں دھاتی نیلے، قرمزی سرخ، تیز سبز، گہرے ارغوانی، لیموں جیسے زرد اور نارنجی دائرے جھلملا رہے تھے۔

    "انکل یہ کام کر رہا ہے، ہمارے ساتھ آپ بھی چلیں، جلدی کریں انکل۔” فیونا چلّا کر بولی۔

    "میں نہیں آسکتا۔” اینگس نے کہا۔ "میں یہیں رکوں گا اور جادوئی گولے کی حفاظت کروں گا۔”

    لیکن دیر ہو چکی تھی، جب تک اینگس کے منھ سے نکلے الفاظ ان تک پہنچ پاتے، ان کی آنکھوں کے سامنے کمرا کسی بگولے کی مانند تیزی سے گھومنے لگا۔ جب یہ بگولا رک گیا تو وہ حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگے۔

    (جاری ہے….)

  • سولھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سولھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا نے پوچھا یہ سیچلز کہاں ہے؟ اینگس بتانے لگے، "یہ بحر ہند میں جزائر کا ایک گروپ ہے جو مشرقی افریقی ساحل سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان علاقوں کے بارے میں تم جلد جان لو گی۔ زیادہ دل چسپی کی بات ان قیمتی پتھروں کے بارے میں ان کی تفصیل ہے۔ ہر پتھر کے اندر ایک ڈریگن منقش ہے۔ جب بھی کوئی وارث اسے چھوئے گا تو یہ ڈریگن چمکنے لگے گا۔ اسی سے معلوم ہو گا کہ یہ درست پتھر ہے۔ ان پتھروں سے کچھ اس قسم کی لہریں بھی اٹھتی ہیں جو حقیقی وارث محسوس کر سکے گا اور وہ درست مقام تک پہنچ جائے گا۔ ان لہروں کی وجہ سے یا تو وہ خواب میں اس جگہ کو دیکھ لیں گے یا پھر تصور میں۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہاں اس معاملے میں ایک پریشانی والی بات بھی ہے۔” اینگس نے ٹھہر کر ان کی طرف دیکھا اور پھر کہا "کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بارہ آدمیوں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پتھر چھپائے جانے کی جگہوں کے آس پاس پھندے بھی لگائیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان بارہ آدمیوں نے اس سلسلے میں کیا کیا، اس کا کچھ پتا نہیں، کیوں کہ وہ اس کے بعد بادشاہ سے پھر کبھی نہیں ملے۔ اب یا تو تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور نے اس کا ذکر قصداً نہیں کیا ہے یا عین ممکن ہے کہ ان بارہ آدمیوں نے اسے بتایا ہی نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ خیال ہو کہ کتاب غلط شخص کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے۔”

    اینگس کے خاموش ہوتے ہی جبران نے پوچھا "تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور کے ساتھ کیا ہوا؟”

    اینگس نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ چوں کہ اس سے راز داری کا وعدہ لیا گیا تھا، بارہ آدمیوں سے ملنے اور پھر کتاب واپس قلعے میں رکھنے کے بعد وہ کہیں غائب ہو گیا ہوگا اور عام لوگوں کے درمیان گم نامی کی زندگی بسر کرنے لگا ہو گا۔ اسے جانتا بھی کوئی نہیں تھا۔

    فیونا نے بھی ایک سوال پوچھ لیا "بادشاہ دوگان اور اس کے جادوگر کے ساتھ کیا ہوا؟”

    "میں نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ جادوگر اپنے بادشاہ کے مرنے کے بعد کہیں غائب ہو گیا۔ جب دوگان نے کیگان اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا اور اس نے قلعے میں کسی قیمتی پتھر اور کتاب کو نہ پایا جو اُس وقت آلروئے کے پاس کشتی میں پڑی تھی، تو وہ بہت غصے میں آیا۔ کتاب میں ایک چھوٹی سی تحریر الگ سے لکھی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دوگان کا جادوگر پہلان انتہائی طاقت ور جادو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور جہاں تک اس کتاب کے مصنف کا ذکر ہے تو اس کتاب کے مطابق اس میں شان دار کارکردگی دکھانے کی صلاحیت تھی۔ تو میری نظر میں جو تصویر بن کر سامنے آ رہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ دوگان آج بھی ممکن ہے کہ زندہ ہو۔ اگر وہ زندہ نہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ ساری قوتیں اس کے کسی وارث میں ہوں۔ بہرحال، اس کتاب میں ایسا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔”

    وہ تینوں یہ سن کر بے اختیار چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے تھوک نگل کر، گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا "اس کا مطلب ہے کہ کوئی شیطان صفت آدمی بادشاہ کیگان کے کسی وارث کی تلاش میں ہے!”

    اینگس نے گلا کھنکار کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ "وہ کوئی عورت بھی ہو سکتی ہے، اس کا امکان ہے۔ اب مسئلہ اس جادوئی گولے کا ہے۔ یہ تم لوگوں کی نسبت میرے پاس زیادہ محفوظ ہوگا۔ فرض کرو اگر وہ شیطان بادشاہ یا اس کا کوئی جادوگر زندگی کی طرف لوٹنے میں کام یاب ہو جائے اور انھیں اس جادوئی گولے سے متعلق معلوم ہو جائے تو یہ ہمارے لیے بہت سارے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔”

    یہ ایک ایسی بات تھی جس نے تینوں کے بدن میں سنسنی دوڑا دی۔ فیونا کو ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ جبران کو لگا کہ وہ کسی تیز طوفان کی زد میں آ گیا ہو اور دانیال گم سم ہو گیا تھا۔ وہ پھٹی ہوئی نظروں سے اینگس کو دیکھ رہا تھا۔

    فیونا نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا تو اس سے بڑبڑاہٹ جیسی آواز نکلنے لگی۔ "انکل اسے آپ ہی اپنے پاس رکھیں، ہم میں سے کسی کے بھی والدین اسے گھر میں رکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اور پھر کوئی اس کی تلاش میں بھی ہے تو یہ اسے آسانی سے مل سکتا ہے۔ ”

    ایسے میں دانیال کو ایک اہم بات یاد آ گئی۔ اس نے آگے کی طرف جھکتے ہوئے کتاب کو دیکھنے کی کوشش کی۔ "انکل، وہ منتر کیا ہے، جو اس کتاب میں درج ہے؟”

    "منتر… کیسا منتر؟” اینگس کے ماتھے پر لکیریں نمودار ہو گئیں۔

    "ارے ہاں، دانیال ٹھیک کہہ رہا ہے۔” جبران کو بھی یاد آ گیا۔ "آپ ہی نے تو کہا تھا کہ اس میں کوئی منتر لکھا ہوا ہے، یاد ہے آپ نے گزشتہ رات اسے کتاب میں پایا تھا۔”

    "اوہ، مجھے یاد آ گیا۔” اینگس اچھل پڑے، انھیں اپنی یادداشت پر حیرت بھی ہوئی۔ اور پھر وہ جلدی جلدی کتاب کے صفحات الٹنے لگے اور مطلوبہ صفحے پر پہنچ کر ساکت سے ہو گئے، پھر ان کے جسم میں جنبش ہوئی اور ہونٹ ہلنے لگے۔ "تم لوگوں کو یہ الفاظ ادا کرنے پڑیں گے۔”

    (جاری ہے….)

  • پندرھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پندرھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اینگس کچھ لمحوں کے لیے ٹھہرے، پھر گہری سانس لے کر بولے۔ "میں اس ساری کہانی کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں سمجھا ہوں۔ تاریخ نویس کے نوٹس سےجو تصویر بن کر سامنے آئی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے۔ شہنشاہ رالفن کا پایۂ تخت یعنی بورل آج کے مشرق وسطیٰ میں کہیں جزیرہ نمائے عرب کے آس پاس تھا۔ شاید یہ جگہ یمن ہو لیکن میں کچھ یقین سے نہیں کہ سکتا۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ اس علاقے کا نہیں تھا کیوں کہ رالفن مشرق وسطیٰ کا نام نہیں ہے۔ یہ نام روسی زیادہ لگتا ہے یا مشرقی یورپی یا پھر فونیزی۔ بادشاہ کیگان نے بھی اپنی ابتدائی زندگی سرزمین عرب میں گزاری اور اسکاٹ لینڈ کبھی نہیں آیا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے خاندان سمیت ہجرت کر لی۔ یہ 1070 بعد مسیح کا دور تھا۔ یہ برطانیہ پر ولیئم فاتح کے حملے سے کچھ زیادہ بعد کی بات نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا کچھ اندازہ نہیں کہ یمن میں کیگان کے پرانے محل کے ساتھ کیا ہوا، کیوں کہ اس کا ذکر ابھی تک نہیں آیا ہے،ممکن ہے جب میں کتاب کو مزید پڑھوں گا تو مجھے اس سوال کا بھی جواب مل جائے گا۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "جادوئی ہیرے کہاں چھپائے گئے ہیں انکل؟” فیونا نے بے قراری سے پوچھا۔

    "گزشتہ رات میں نے اسے بہت مشکل سے سمجھا ہے، گیلک کوئی آسان زبان نہیں ہے۔ جب کوئی وارث منتر پڑھتا ہے تو یہ اسے ہیرے کے گرد و نواح میں پہنچا دیتا ہے۔ اس کے بعد وارث خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اسے اپنی اندرونی قوتوں اور عقل کو استعمال میں لا کر درست جگہ ڈھونڈنی ہوتی ہے۔ وارث کو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ منتر اسے کس ہیرے کے پاس پہنچاتا ہے۔ جب وہ ایک مقام سے ہیرا حاصل کر لیتا ہے تو منتر اسے اس جگہ دوبارہ نہیں لے جاتا۔ ہر مقام ایسا ہے کہ قیمتی پتھر کا وہاں سے خاص تعلق ہے۔ جادوگر نے انھیں جمع کرنے کے لیے دنیا چھان ماری تھی، وہ ایسی جگہوں پر گیا تھا جنھیں اس وقت لوگ جانتے بھی نہیں تھے۔ ہر پتھر انمول اور نایاب ہے۔ بارہ آدمیوں نے یہ قیمتی پتھر وہاں نہیں چھپائے جہاں سے جادوگر نے انھیں لیا تھا۔ یہ عجیب بات ہے لیکن کیا کیا جائے کہ یہ کتاب اسی طرح کی عجیب چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔”

    "انکل، یہ سب کتنا عجیب ہے، مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ نے ان سب باتوں کو سمجھ لیا ہے۔ مجھے اس بات پر بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ آپ کو گیلک زبان آتی ہے۔” فیونا نے جذباتی ہو کر کہا۔

    اینگس نے سر ہلا کر کہا۔ "فیونا تمھارے پاپا مجھ سے بھی زیادہ بہتر گیلک سمجھتا تھا۔ خیر اب تو یہ فہرست سنو، جہاں قیمتی پتھر چھپائے گئے ہیں۔ اچھا تم لوگ اس طرح کرو کہ یہاں میری کرسی کے قریب آ کر بیٹھو۔ میں انھیں ایک علیحدہ کاغذ پر انگریزی میں نقل کر لیا ہے۔”

    اینگس نے زمین پر ایک تہ شدہ کاغذ پھیلا دیا۔ وہ تینوں بے قراری سے آ کر بیٹھ گئے۔ کاغذ پر تفصیل کچھ اس طرح سے درج تھی:

    ہائیڈرا، یونان… سیاہ آبسیڈین، ایک سیاہ شیشے جیسا پتھر۔ لومنا جادوگر نے کہا تھا کہ یہ آتش فشانی پتھر ہے جو ایک ایسے آتش فشاں پھٹنے سے بنا تھا جو اس زمین کا پہلا آتش فشاں تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سمندر اور خشکی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے۔ تاہم یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ آتش فشاں واقعتاً کہاں پھٹا تھا۔

    آئس لینڈ … مرجان، گلابی مائل سرخ قیمتی تاریخی معدنی پتھر۔ لومنا نے یہ پتھر افغانستان میں پایا تھا۔

    جرائز سیچلز … موتی۔ اسے جزیرہ تاہیٹی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ موتی وہاں کی ایک جھیل میں پڑا تھا۔

    یوکون، کینیڈا … زمرد۔ اسے کولمبیا کے بارانی جنگلات سے حاصل کیا گیا تھا۔

    تسمانیہ … پکھراج۔ یہ پتھر روس میں یورال کی پہاڑیوں سے ملا تھا۔

    اردن… یاقوت۔ جادوگر لومنا نے یہ پتھر برما سے چرایا تھا۔

    میکسیکو … امبر۔ یہ پتھر بحر بالٹک کی لہروں میں بہ کر ساحل پر آ گیا تھا۔

    نیپال… اوپل۔ یہ پتھر رنگ تبدیل کرتارہتا ہے۔ یہ آسٹریلیا میں ملا تھا۔

    اسپین… نیلم۔ یہ مڈغاسکر سے لومنا کو ملا تھا۔

    ارجنٹینا… تنزانائٹ۔ نیلے رنگ کا یہ قیمتی پتھر تنزانیہ سے ملا تھا۔

    ملاوی… الماس۔ یہ جنوبی افریقا کے علاقے لیسوتھو سے ملاتھا۔

    منگولیا… الیگزنڈرائٹ۔ اگرچہ یہ پہلی مرتبہ روس سے ملا تھا تاہم لومنا کو یہ انڈیا سے ملا تھا۔

    "تو بچو، تم سمجھ گئے ہو کہ کون سا پتھر کہاں چھپایا گیا ہے اور یہ اصلاً کہاں سے حاصل کیا گیا تھا۔” اینگس نے انھیں مخاطب کیا۔

    "یہ سب بہت دل چسپ ہے، میں نے ان میں سے چند نام پہلی مرتبہ سنے ہیں۔” جبران بولا۔ فیونا نے کہا میں نے بھی۔

    (جاری ہے….)

  • چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    سورج کی نرم گرم شعاعیں نیزوں کی طرح کھڑکی سے اندر داخل ہو کر فیونا کو جگانے لگیں۔ وہ کسمسا کر اٹھی اور کھڑکی کے پار لہلہاتے پھول دیکھنے لگی۔ یکایک وہ چونک اٹھی۔ "ارے آج تو ہفتہ ہے۔” اچھل کر بستر سے اتری۔ منھ ہاتھ دھو کر مستعدی سے الماری سے کپڑے نکالے اور بدل کر باورچی خانے میں گھس گئی۔ اس کی ممی مائری گاجر دھو رہی تھیں۔ فیونا میز کے سامنے بیٹھ گئی۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "بس ایک منٹ، میں کچھ نہ کچھ دے دوں گی ابھی۔ دراصل آج میں نے باغیچے سے یہ تازہ گاجر نکالے ہیں۔ میں نے تمھارے لیے آج رات کے کھانے میں شلجم اور بروسل کی کونپلیں بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ تمھیں یہ ننھے ننھے گوبھی تو پسند ہی ہیں۔ قیمہ اور آلو کا بھرتہ شلجم اور بروسل کے کونپلوں کے ساتھ کیسا رہے گا؟”

    "آپ جانتی ہیں ممی، مجھے قیمہ اور آلو کا بھرتہ پسند ہیں۔” فیونا بولی۔ "لیکن اس وقت تو میں صرف سیریل ہی کھاؤں گی۔ میں اپنے نئے دوستوں سے ملنے جاؤں گی۔ ہم سارا دن ساتھ کھیلیں گے اس لیے ممی مجھ سے کچھ زیادہ توقع نہ رکھیں آج۔”

    "ہاں، آج ہفتہ ہے، کھیلنے کا دن ہے، چلو یہ اچھا ہے۔ میں بھی بیکری میں آج دیر تک کام کروں گی۔ جانے سے پہلے میں ‘پرفیکٹ بی’ سے شہد بھی لوں گی۔” مائری نے دھلے گاجر ایک طرف پڑے شلجموں کے پاس ہی رکھ دیے اور گیلے ہاتھ ایک کپڑے سے خشک کرنے لگیں، پھر بولیں۔ "میرے خیال میں سیریل پڑ ا ہوا ہے، بس ابھی دیتی ہوں۔”

    "اوہ ممی، آپ کتنی اچھی ہیں، سچ بتاؤں آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ جبران کے والدین کی طرف جائیں، وہ آپ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے۔ مسٹر تھامسن، جنھیں آپ نے بھیجا تھا، وہ بھی جبران کے پاپا کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اپنے ساتھ یہ ننھے ننھے گوبھی بروسل بھی لے جائیں۔ یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے ممی کہ مجھے بھی نئے دوست مل گئے ہیں اور آپ کا تعلق بھی دفتر سے نکل کر گھر تک پھیل گیا ہے، ہماری دوستی کی وجہ سے آپ کو بھی دوست مل گئے ہیں۔ ”

    "اوہ میری پیاری بیٹی، خدا تمھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔” مائری نے جذباتی ہو کر فیونا کا ماتھا چوم لیا۔ فیونا مسکرانے لگی۔ ناشتہ کر کے وہ جلدی سے اٹھی اور برتن بیسن میں رکھ دیے۔ "ممی، میں واپس آ کر انھیں دھو لوں گی، مجھے ابھی دیر ہو رہی ہے۔”

    اس نے ممی کے گال پر بوسہ دیا اور دوڑتی ہوئی گھر سے نکل گئی۔ جبران اور دانیال اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اس وقت اینگس کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر بنے پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    "بڑی دیر کر دی تم نے، دس منٹ لیٹ ہو۔” جبران نے کہا۔

    "دراصل آنکھ ہی دیر سے کھلی، میں بہت گہری نیند سوئی رہی۔”

    تینوں تیز تیز قدموں سے اینگس کے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے۔ دستک پر وہ باہر نکلے، انھوں نے دیکھا اینگس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہیں اور چہرہ بھی دھلا نہیں ہے۔ فیونا نے صبح بخیر کہتے ہی کہا "انکل کیا آپ سوئے نہیں؟”

    "دراصل میں ساری رات جاگ کر یہ کتاب پڑھتا رہا، تم لوگ اندر آ جاؤ، میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کتاب میں کیا پایا، سب کچھ حیرت انگیز اور جوش میں ڈال دینے والا ہے، چلو آؤ اندر۔”

    وہ اندر داخل ہوئے تو اینگس نے پوچھا کیا تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا؟ تینوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اینگس بولے کہ میں نے تو نہیں کیا لیکن میں چند بسکٹ ہی کھاؤں گا۔ جبران نے کہا صرف بسکٹ تو کوئی بہتر ناشتہ نہیں ہے، کیا آپ کے پاس سیریل یا انڈے نہیں ہیں۔ جبران نے گھر میں چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا۔ "کیا دودھ والا روزانہ دودھ نہیں لاتا، اور ریفریجریٹر بھی نہیں ہے کیا؟”

    اینگس نے چشمہ اپنے ہاتھ سے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ "آتا ہے، دودھ والا بھی آتا ہے، اور انڈے بھی آتے ہیں، مگر میں اسے پچھلے کمرے میں رکھ دیتا ہوں۔ وہ کافی ٹھنڈا رہتا ہے اس لیے مجھے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب میرے گھر میں پنیر بھی آتا ہے تو وہ بھی وہیں اس کے پاس رکھ دیتا ہوں۔ مجھے کبھی اس سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ چلو تم لوگ کرسیوں پر بیٹھ جاؤ۔ میں نے تمھیں بہت کچھ بتانا ہے۔” یہ کہ کر اینگس خود بھی ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔

    "سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کے درمیان سے کسی نے چند اوراق پھاڑ دیے ہیں، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کتاب محفوظ ہے۔ میں نے اس میں بہت ساری دل چسپ باتیں پڑھی ہیں، اس کتاب میں ایک قسم کا منتر بھی ہے۔ یہ ایسا منتر ہے جو بادشاہ کیگان کے کسی وارث کو ان جگہوں پر پہنچا سکتا ہے جہاں جادوئی ہیرے چھپائے گئے ہیں۔”

    تینوں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اینگس نے کتاب کھول لی اور پڑھنے لگے۔ "کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ کیگان ابھی فلسطین جانے کا منصوبہ ہی بنا رہا تھا کہ اس کے بارہ آدمی ہیرے چھپا کر کہیں چلے گئے اور بادشاہ کی ہدایت کے مطابق کبھی واپس نہیں آئے۔ یہ راز انھی کے ساتھ ہی رہا کہ ہیرے کہاں کہاں چھپائے گئے ہیں۔ بہ قول آل رائے کیتھ مور جب بادشاہ کو قتل کر دیا گیا اور قلعے کو نذر آتش کیا گیا، تو وہ کئی برسوں تک غائب رہا۔ دراصل وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر ان بارہ آدمیوں کو تلاش کرتا رہا۔ آخر کار اس نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ان سے جہاں تک ممکن ہو سکا واقعات کی تفصیل جمع کر لی۔ ذرا سوچو، یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ کئی برس بعد لوٹا اور یہ ساری تفصیل کتاب میں درج کر دی۔ اس میں ایک ہار کا بھی ذکر ہے جس کے بارہ کونے ہیں اور وہ کسی ستارے کی شکل میں ہے۔ اس کا ہر کونا ایک ایک آدمی اور ہیرے کا نمائندہ ہے، دیکھو اس کی تصویر۔”

    اینگس آگے کی طرف جھک کر اس کی تصویر دکھانے لگے۔ "یہ تو بالکل ویسی ہی تصویر ہے جیسی کہ ہم نے منقش شیشے پر دیکھی تھی۔” جبران حیران ہو کر بولا۔ "فیونا نے اس کی تصویر بھی اتاری ہے۔”

    "یہ کوئی معمولی ہار نہیں۔” اینگس بتانے لگے۔ "رالفن کے جادوگر لومنا نے یہ ہار اسی وقت ہی بنوایا تھا جب وہ جادوئی گولا بنوا رہا تھا اور یہ بھی ایک ہی سونے سے بنایا گیا تھا۔ اس نے بارہ اصلی ہیروں سے چاندی لے کر اسے ہار میں استعمال کیا۔ جب دوگان کے آدمیوں نے بادشاہ کیگان کو جان سے مار دیا تو انھوں نے اس کے گلے سے یہ ہار بھی کھینچ کر نکالا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ دوگان نے اسے پہنا اور پھر اس کے بعد اس کی آنے والی نسلوں نے اسے اپنے گلے کی زینت بنایا۔”

    (جاری ہے….)

  • بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "ضروری نہیں ہے۔” اینگس نے سر ہلایا۔ "گہری زیتونی جلد اور بال ہسپانویوں سے بھی ملائے جا سکتے تھے۔ بہرحال یہ بڑی عجیب بات ہے۔ ان دنوں اسکاٹ لینڈ میں لوگ کسی کے آبا و اجداد سے اتنی دل چسپی نہیں رکھتے تھے، جتنی کہ چند صدیوں بعد ان میں اس کا رواج پڑا۔ بہرحال، اسکاٹس نے ان کے آبا و اجداد کو صدیوں سے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ بادشاہ دوگان کا تعلق بھی اسی شیطان قبیلے سے تھا جس سے بادشاہ بارتولف وابستہ تھا۔ وہ بھی انتہائی ظالم اور مکار تھا۔ اس کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، نام تھا اس کا پہلان۔ یہ سلطنت کے لوگوں کو ڈرانے کے لیے اپنا جادو استعمال کرتا تھا۔ یہ پہلان ہی تھا جس نے آخر کار بادشاہ کیگان کو شکست دے دی۔ اس نے کیگان پر بھی جان لیوا حملہ کیا لیکن وہ بچ کر نکل گیا۔ دوگان وہی گولا حاصل کرنا چاہتا تھا جس میں جادو کے کئی اسرار پوشیدہ تھے۔ تب تک پوری دنیا میں جادوئی گولے کی شہرت پھیل چکی تھی۔ گرمیوں کی ایک صبح کو دوگان کے آدمیوں نے کیگان کی سرزمین پر حملہ کر دیا۔ وہ کیگان خاندان میں سے تو کسی کو نہ مار سکے البتہ اس کی دو بیٹیوں ازابیلا اور آنا کو اٹھا کر لے گئے۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں
    "کتنی عجیب کہانی ہے۔” فیونا آنکھیں سکیڑ کر بولی۔ "کیا واقعی اس کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے؟”

    "ہاں، میں اسے لفظ بہ لفظ پڑھ رہا ہوں۔ کئی برسوں تک اس کے اور اس کے خاندان کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہا۔ پھر یہ بہت برا ہوا کہ ایک رات وہ اپنا تمام خزانہ، با اعتماد افراد، خاندان اور تاریخ نویس کو لے کر کہیں غائب ہو گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ کیگان نے سب کو نظروں سے غائب کر دیا تھا۔ انھیں پھر کسی نے نہیں دیکھا۔ چوں کہ وہ ایک نیک دل بادشاہ تھا اس لیے اس نے اپنی رعایا کے لیے کافی خزانہ چھوڑا، تاکہ وہ آرام سے گزر بسر کر سکیں۔ اگرچہ وہ پھر اپنی رعایا کو نہ دیکھ سکا لیکن ہمیشہ ان کا دردمندی سے ذکر کرتا رہا۔ پھر جب وہ عرب کے جنوبی ساحل کے نخلستان میں پہنچ کر خود کو محفوظ سمجھنے لگا تو اس نے تمام ہیرے نکال کر اپنے بارہ انتہائی قابل اعتماد خدمت گزاروں کو دیے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ بارہ جاں نثار اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن بادشاہ یا قوم پر کسی قسم کی مصیبت نہیں آنے دیں گے۔ پھر بادشاہ کیگان نے انھیں دنیا کے بارہ مختلف مقامات کی طرف بھیجا اور کہا کہ ان ہیروں کو وہاں چھپا دو۔ کیگان نے انھیں ان دور دراز، اور سنسان علاقوں کے نام بھی بتا دیے، جہاں انھیں ہیرے چھپانے تھے۔ یہ جگہیں بادشاہ کو اس کے جادوگر زرومنا نے بتائے تھے۔ بادشاہ نے ان سے کہا کہ وہ دس سال کے عرصے میں ان سے فلسطین میں ملیں۔ ہیرے خود سے دور کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کے پاس جادوئی قوتیں نہیں رہی تھیں، لیکن وہ یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ جادوئی گولا اور ہیرے دوگان کے قبضے میں چلے جائیں۔”

    "دس سال…. یہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔” فیونا بولی۔

    "ہاں، لیکن بادشاہ نے انھیں دور دراز علاقوں میں بھیجا تھا اور پھر سواری بھی نہیں تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ گھوڑوں پر سفر کر سکتے تھے۔ بہرحال اپنے آدمی بھیجنے کے بعد اس نے شمالی اسکاٹ لینڈ کی طرف سفر شروع کیا اور یہاں قلعہ آذر تعمیر کرکے رہنے لگا۔ قلعے میں آنے کے بعد اس کے اور ملکہ سرمنتا کے کئی بچے پیدا ہوئے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ کئی سال بعد جادوگر پہلان نے آخر کار اپنے جادو کے ذریعے یہ معلوم کر لیا کہ بادشاہ کیگان کہاں چھپا ہوا ہے، چناں چہ دوگان نے اپنے آدمیوں کو ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ کیگان نے اپنی سلطنت سے نکلتے وقت تاریخ نویس کو بھی ساتھ لیا تھا، چناں چہ اس نے بادشاہ کے حکم پر یہ سارے واقعات اس کتاب میں قلم بند کر دیے۔ حتیٰ کہ ہیرے جہاں جہاں چھپائے گئے تھے، ان جگہوں کے نام بھی لکھوا دیے۔ بادشاہ کی طرف سے تاریخ نویس آل رائے کیتھمورکو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کے بغیر کہیں بھی نہیں جائے گا۔ یعنی وہ جہاں بھی جائے گا کتاب اپنے ساتھ لے کر جائے گا۔ چناں چہ ایک دن وہ مچھلی کا شکار کرنے جھیل کنارے گیا، وہاں بیٹھے بیٹھے اسے نیند آ گئی اور وہ سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ قلعے سے دھواں نکل رہا ہے۔ وہ گھبرا کر قلعے کی طرف دوڑا، لیکن وہاں اسے دہشت ناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ بادشاہ کیگان اپنے خاندان سمیت خون میں لت پت پڑا تھا۔ حتیٰ کہ دوگان کے آدمیوں نے معصوم بچے کو بھی نہیں چھوڑا۔ تمام قلعے کو تباہ و برباد کر کے دوگان کے آدمیوں نے جادوئی گولا بھی ڈھونڈ لیا لیکن ہیروں کے بغیر۔ دوگان نے جادوئی گیند غصے کے عالم میں فرش پر دے مارا، کیوں کہ وہ کسی کام کا نہیں تھا۔ تاریخ نویس یہ دیکھ کر سخت گھبرا گیااور کتاب لے کر کہیں دور چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ پھر لوٹا اور یہ کتاب ایک صندوق میں بند کر کے اسے قلعے کے خفیہ کمرے میں رکھ دیا، اور پھر اسے لومنا جادوگر کی میز کے ساتھ آتش دان کے پیچھے دھکیل دیا۔ لو، یہاں تو میز کا مسئلہ بھی حل ہو گیا، کیا تم لوگوں نے وہاں جادوئی گیند بھی دیکھی تھی یا نہیں؟”

    کہتے کہتے اینگس نے ان کی طرف دیکھا۔ فیونا کو اب یقین آنے لگا تھا کہ اس کے انکل جو بتا رہے تھے وہ غلط نہیں تھا۔ اس نے جواب دیا۔ "ہم نے کوئی گیند وہاں نہیں دیکھی لیکن ہم وہاں دوبارہ جا کر اسے تلاش کرسکتے ہیں۔ وہ شاید خفیہ کمرے میں دیگر چیزوں کے ساتھ پڑی ہوگی۔ وہاں اندھیرا تھا اس لیے ہم نہیں دیکھ سکے، اس مرتبہ ہم فلیش لائٹ ساتھ لے کر جائیں گے۔”

    "تو کہانی ختم ہو گئی، انکل اینگس؟” جبران نے بے چینی سے پہلو بدل کر پوچھا۔ "چند باتیں اور۔” اینگس نے طویل سانس کھینچا۔ "آل رائے کیتھمور یہ کتاب اپنے ساتھ لیے پھرنے سے بہت خوف زدہ تھا، اسے دوگان اور پہلان جادوگر کا ڈر تھا، لیکن اسے سارے واقعات اس میں لکھنے بھی تھے، اس لیے وہ اسے ساتھ لیے پھرتا رہا۔ اب تم لوگوں کو یہ کتاب ملی ہے۔ اس میں یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ کیگان کی بیٹیوں ازابیلا اور آنا کے ساتھ کیا ہوا؟ ہاں اس میں یہ ضرور لکھا ہے کہ جادوئی گولے کو صرف کیگان ہی کی اولاد استعمال کر سکتی ہے۔ جادوگر نے اسے بنایا ہی کچھ اس طرح تھا کہ اگر یہ دوگان جیسے دشمنوں کے ہاتھ لگ بھی جائے تو کسی کام کا نہ ہو۔ چناں چہ یہ عین ممکن ہے کہ ازابیلا اور آنا کو زندہ رکھا گیا ہو، اور ان کی اولاد بھی رہی ہو۔”

    "اگر ہم اسی وقت روانہ ہوں، تو ہم قلعۂ آذر پہنچ کر شام سے پہلے پہلے واپس آ سکتے ہیں۔” فیونا نے اچانک جبران اور دانیال کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ دونوں چونک اٹھے۔ اینگس نے کتاب بند کر کے آرام کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ "یہ پوری کہانی ایک عجوبہ ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں تم لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ حالاں کہ ابھی مجھے اس سارے معاملے کے بارے میں مکمل علم حاصل نہیں ہوا ہے تاہم مجھے یہ معاملہ کچھ شیطانی لگ رہا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھا خیال ہے کہ تم لوگ قلعہ جا کر گولا ڈھونڈو۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ گولا کسی درست شخص کے ہاتھوں میں ہو تو یہ شیطانی قوتوں کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔”

    اینگس نے الماری سے بسکٹ نکال کر انھیں دیے اور کہا "اچھا، اب تم لوگ جاؤ اور محتاط رہو۔”

    "ٹھیک ہے انکل، شکریہ۔” تینوں اینگس کے گھر سے نکلے تو اینگس نے ان کے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

    (جاری ہے….)

  • چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اندر گھپ اندھیرا تھا، ماحول میں عجیب سی گھٹن تھی۔ انھیں اندر جاتے ہی سردی کا احساس ہوا۔ فیونا کی آواز آئی "اس دیوار کو دیکھو، اس میں کتنے بڑے بڑے پتھر لگائے گئے ہیں۔ ایک ایک پتھر ہاتھی جتنا ہے۔ پتا نہیں، وہ یہ کیسے اٹھا کر لائے ہوں گے۔”
    پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
    وہ دونوں مڑے۔ فیونا دیوار کو ہاتھوں سے چھو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ انھیں اندھیرے میں چیزیں نظر آنے لگیں۔ وہ ایک دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ دانیال بولا "یہ دیوار کائی زدہ ہے، اور وہ دیکھو، وہاں بھی دیوار پر گارگوئل کے بدنما سر لگے ہوئے ہیں۔ یہ تو رہنے کے لیے ایک خوف ناک جگہ ہے، یہاں تو دیواروں پر مکڑی کے جالوں اور چوہوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔”

    فیونا اپنے کپڑے سمیٹ کر بولی "مجھے مکڑی کے جالوں اور مکڑیوں سے سخت نفرت ہے۔”

    "اور مجھے چوہے ناپسند ہیں۔” جبران بولا "امید ہے کہ مجھے چوہے دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔”

    "لیکن یہاں بہت سارے چوہے ہیں۔” انھیں دانیال کی آواز ذرا فاصلے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، اور وہ دونوں تیزی سے مڑے، اور پھر ان کی آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی۔ اب ان کی آنکھیں بھی اندھیرے سے مانوس ہو گئی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑے ہال نما کمرے میں کھڑے تھے جس کی چھت بے حد اونچی تھی۔ وہ تینوں سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ عین اسی وقت ایک کونے میں لومڑ دکھائی دیا۔ فیونا کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر جبران کے پیچھے چھپ گئی۔

    "یہ کیا ہے؟ کیا یہ چوہا ہے؟” اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

    "اب ڈرو نہیں، وہ جا چکا ہے۔ بہرحال وہ چوہا نہیں لومڑ تھا لیکن حیرت ہے کی بات یہ ہے کہ وہ آیا کہاں سے تھا؟” جبران نے کونے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تینوں اسی طرف دیکھنے لگے اور پھر انھیں اچانک نیچے جاتی ہوئی سیڑھیاں نظر آ گئیں۔ "میرا خیال ہے اب ہمیں واپس گھر جانا چاہیے کیوں کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ نیچے جانا مناسب نہیں ہوگا، پتا نہیں یہاں کیا ہو!” جبران بولا، اس کے لہجے میں تشویش کی لہر تھی۔

    فیونا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "ہم واپس نہیں جائیں گے، تم ڈرو مت، یہ دیکھو دیوار پر مشعل موجود ہے۔”

    "کیا یہ اب بھی کام کرتی ہوگی؟” دانیال نے حیرت سے پوچھ لیا۔ جبران نے کہا "اس کا تو ابھی پتا چل جائے گا۔” اور آگے بڑھ کر مشعل کے دستے پر ہاتھ جمایا۔ "چچ…. لکڑی کے دستے پر کوئی سیاہ لیس دار مادہ لگا ہوا ہے، کیا تم میں سے کسی کے پاس ماچس ہے؟”وہ مڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا۔ فیونا نے برا سا منھ بنا کر کہا "ہمارے پاس ماچس کیوں ہونے لگی بھلا؟ تمھیں پتا ہے میری ممی سگریٹ نوشی نہیں کرتیں۔”

    "اوہ، معذرت خواہ ہوں۔” جبران نے جلدی سے کہا اور اپنی پینٹ کی جیب پر ہاتھ مار کر بولا "یہ رہی میرے پاس، صبح پاپا نے ایک کام کے لیے دی تھی اور واپس لینا بھول گئے تھے۔” وہ یہ کہ کر فیونا کے پاس آیا اور بولا "ذرا پکڑنا اسے۔”

    فیونا نے مشعل تھامی تو اس نے بھی چونک کر کہا "ارے یہ کیا لگا ہوا ہے اس پر؟” اس نے جلدی سے اسے سونگھا اور بولی "اس سے تو پگھلے ہوئے کولتار کی سی بو آ رہی ہے۔”

    "یہ غالباً پرانا مٹی کا تیل ہے۔” جبران نے کہا اور دیا سلائی جلا کر مشعل کے سرے کے پاس لے گیا۔ اگلے ہی لمحے مشعل نے آگ پکڑ لی اور ماحول ایک دم سے روشن ہو گیا۔ "مشعل پر جو کچھ بھی لگا ہوا ہے، بہرحال اب تک کام کر رہا ہے۔” دانیال نے فیونا سے مشعل لے کر کہا۔

    تینوں مشعل کی روشنی میں نیچے اترنے لگے۔ جب وہ ایک اور خالی کمرے میں پہنچے تو فیونا نے کہا "یہ تو بالکل ویسا ہی کمرہ ہے، بس یہاں دیوار میں ایک بڑا آتش دان ہے۔”

    جبران بولا "فیونا، یہ بڑا نہیں، بہت بڑا آتش دان ہے۔ یہ تو میرے بیڈ روم جتنا ہے۔ پتا نہیں اتنا بڑا آتش دان بنوانے کی کسی کو کیا ضرورت پیش آ گئی تھی!”

    فیونا دوڑ کر اس کے اندر چلی گئی اور چلا کر بولی "اندر آجاؤ، یہاں کوئی کالک نہیں ہے۔” اس کی آواز کی بازگشت وہاں دیر تک گونجتی رہی۔ وہ دونوں بھی اندر داخل ہوئے۔ آتش دان اندر سے ٹھنڈا تھا۔ فیونا نے دیوار کو ہاتھ لگایا، اور اچانک کہنے لگی۔ "کیا یہ بھی ان آتش دانوں میں سے ایک ہے جن کی دیواروں میں ایک خصوصی اینٹ لگی ہوتی ہے؟”

    "دانیال چونک اٹھا۔ "کیا تمھارا یہ مطلب ہے کہ وہ اینٹ دبانے سے دیوار میں کوئی خفیہ راستہ نکل آئے گا؟”

    دونوں حیرت سے فیونا کی طرف دیکھنے لگے اور اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ وہ ذرا آگے کی طرف جھک کر سرگوشی میں بولی۔ "جی ہاں۔”

    تینوں کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر دانیال بولا۔ "تو آؤ کوشش کرتے ہیں۔”

    تینوں مختلف سمتوں میں آتش دان کی دیواروں میں موجود ایک ایک اینٹ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ ذرا دیر بعد اچانک انھیں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے سامنے کی دیوار کی اینٹوں نے اپنی جگہ چھوڑی دی تھی، اور وہاں ایک تاریک گلی دکھانی دینے لگی۔ جبران نے کنارے پر جا کر اندھیرے میں جھانک کر دیکھا۔ "یہاں بھی ویسی ہی ٹھنڈ ہے، لگتا ہے آگے جا کر یہاں بھی سیڑھیاں نیچے کی طرف جا رہی ہیں۔”

    اس مرتبہ دانیال کو محسوس ہوا کہ انھیں اندر نہیں جانا چاہیے، اس لیے اس نے کہا۔ ” چلو واپس چلتے ہیں، یہ راستہ مجھے خوف ناک لگ رہا ہے۔” فیونا نے اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔ "پہاڑوں میں رہنے والے تو نڈر ہوتے ہیں، تم کیوں گھبرا رہے ہو!” جبران نے جب اسے ترجمہ کر کے فیونا کی بات سمجھائی تو اسے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے دل سے خوف کو نوچ کر پھینکنے کی کوشش کی۔ "ٹھیک ہے، میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا مسکرا دی۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا اور کہا آؤ۔

    وہ تاریک گلی میں داخل ہو کر سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ سیڑھیاں ایک کمرے میں جا کر ختم ہو گئیں جہاں لکڑی کی ایک میز کے گرد پرانے زمانے کی کرسیاں موجود تھیں۔ جبران نے کمرے سے سیڑھیوں کا سلسلہ مزید نیچے جاتے دیکھ کر حیرت سے کہا۔ "پتا نہیں یہ سیڑھیاں اور کہاں تک نیچے جا رہی ہیں، کیا نیچے کوئی قید خانہ ہے؟ اندر سے یہ قلعہ جتنا بڑا ہے، باہر سے اتنا بڑا نہیں دکھائی دیتا۔”

    فیونا نے کہا "دیواروں پر ان قدیم پردوں کو دیکھو، ان پر کتنی مہارت کے ساتھ رنگین تاروں سے تصاویر بنائی گئی ہیں۔ پردے اتنے پرانے ہیں کہ پھٹنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کسی زمانے میں یہ بے حد خوب صورت لگتے ہوں گے۔”

    "ارے یہاں تو رنگین شیشے والی کھڑکی بھی ہے۔” جبران بولا۔ فیونا پردوں سے نظریں ہٹا کر کھڑکی کو دیکھنے لگی۔ پتا نہیں اس کھڑکی میں کہاں بہت ہلکی سورج کی روشنی اندر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہر چیز پر صدیوں کی گرد جمی ہوئی تھی۔ اچانک دانیال چیخ کر بولا۔ "یہاں آؤ، دیکھو میں نے کیا چیز ڈھونڈ لی ہے۔” دونوں اس کی طرف گئے تو انھوں نے بھی دیوار کے پاس پڑے صندوق کو دیکھ لیا۔ دانیال اسے کھولنے کے لیے اس کا ہینڈل ڈھونڈتے ہوئے بولا۔ "یہ یقیناً یہاں صدیوں سے پڑا رہا ہے۔”

    "یہ ایک ہزار سال سے بھی قدیم لگ رہا ہے۔” فیونا نے اپنا خیال پیش کیا۔ دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ صندوق پر مکڑی کے جالوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ جبران نے جلدی جلدی جالے صاف کیے۔ دانیال نے کہا "چلو اسے کھولتے ہیں۔”

    "نہیں۔” فیونا چلائی۔ "کیا پتا اس میں کوئی بھوت ہویا پھر خون چوسنے والے ہزاروں بھنورے۔”

    جبران نے مسخرے پن سے کہا "ووووو …. لو ہم ڈر گئے… بس!” فیونا اور دانیال اس کے انداز پر بے اختیار ہنس پڑے۔ دانیال نے ہرن کے سینگ والے ہینڈل کو کھینچ کر صندوق کا ڈھکن کھول دیا۔ اندر بھی دھول بھری تھی۔ دانیال کی نظر ایک چاقو پر پڑی، جس کے دستے پر نقش و نگار کندہ تھے۔ "یہ دیکھو، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہ بے حد قدیم چاقو ہے۔” وہ پرجوش انداز میں بولا۔ جبران بھی دل چسپی سے چاقو کو قریب سے دیکھنے لگا جب کہ فیونا کی نظریں کسی اور چیز پر ٹکی ہوئی تھیں۔ صندوق کے کونے میں ایک قدیم کتاب پڑی ہوئی تھی۔

    (جاری ہے…..)