Tag: رفیع اللہ میاں

  • چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا گھر پہنچ کر جبران اور دانیال کا انتظار کر نے لگی۔ اسے کھڑکی میں بیٹھے انتظار کرتے ہوئے پانچ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اس نے دونوں کو سامنے گلی میں آتے دیکھا۔ دونوں اس کے گھر کے دروازے کے سامنے پھولوں والے راستے پر رک گئے۔ فیونا تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آئی اور دونوں کو مسرت بھری نظروں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ "آؤ، اندر آؤ… ممی ابھی آتی ہوں گی، وہ آپ دونوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر رہی ہیں۔”

    "فیونا، تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی، صبح سے اتنی بارش ہو رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہ شاید آج ملاقات نہیں ہو سکے گی، لیکن اچھا ہوا بارش رک گئی۔” جبران نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد اونی کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے کہا۔

    "مجھے بھی تم دونوں سے مل کر خوشی ہوئی ہے، دراصل یہ اتنا چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں اتنے کم لوگ ہیں کہ میرا کوئی خاص دوست ہی نہیں بن سکا ہے ابھی تک۔” فیونا نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔ شیشے کے پار ان کے باغیچے میں کھلے پھول لہراتے نظر آنے لگے۔

    پہلی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دوسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    "تو ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔” جبران نے فوراً دوستی کی پیش کش کر دی۔” آن لائن دوست تو ہم پہلے ہی سے ہیں۔”

    فیونا نے مسکراکر کہا ” ہاں، میں تمھارے ساتھ دوستی کر سکتی ہوں، تم ایک اچھے لڑکے ہو۔”

    "شکریہ!” جبران شرما گیا، پھر سنبھل کر بولا "یہ میرا کزن ہے دانیال۔ بدقسمتی سے اسے انگریزی نہیں آتی لیکن میں آپ دونوں کے درمیان ترجمان بن سکتا ہوں۔”

    "ٹھیک ہے۔” فیونا نے سر ہلایا۔ "میں اپنے نئے دوست سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسے اسکاٹ لینڈ آ کر کیسا لگا؟”

    جبران نے فیونا کا سوال اردو میں دانیال کو سنایا تو اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا "مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کے سرخ اینٹوں والے تقریباً ایک جیسے گھر، صاف ستھری گلیاں، اور ٹھنڈا موسم، سب بہت اچھا لگا۔”

    جبران نے اسے انگریزی میں منتقل کیا تو فیونا ایک دم سے بولی "ابھی تو تم نے یہاں کا دریا اور جھیلیں نہیں دیکھیں، وہ دیکھو گے تو اور اچھا لگے گا۔”

    "میں ضرور دیکھنا چاہوں گا۔ ” دانیال مسکرا دیا۔ اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور فیونا کی ممی ہاتھوں میں تھیلیاں پکڑے دروازے کے سامنے سے گزریں۔ وہ ذرا ٹھہریں اور بولیں "میں ابھی آئی۔” انھوں نے کھانے کا سامان باورچی خانے میں رکھا اور ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ "خوش آمدید بچّو، کیسے ہیں آپ دونوں؟”

    "جی، ہم ٹھیک ہیں، شکریہ، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔” جبران نے جواب دیا۔ مائری کی آنکھوں میں ایک دم سے چمک آ گئی۔ ” لگتا ہے آپ کی ماں آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔”

    "نہ صرف ماں بلکہ پاپا بھی۔” جبران نے جلدی سے کہا "وہ دونوں مجھے ڈھیر سارا وقت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں میری مدد کرتے ہیں۔”

    "اچھا تم لوگ باتیں کرو، میں کچھ اسنیکس لاتی ہوں۔” یہ کہہ کر فیونا کی ممی اٹھ کر چلی گئیں اور تھوڑی دیر بعد جب وہ ایک بھرا ٹرے لے کر دوبارہ آئیں تو انھوں نے جبران سے پوچھا "آپ کے پاپا کہاں کام کرتے ہیں؟”

    جبران نے ٹرے سے اسنیکس اٹھاتے ہوئے کہا "وہ الباکاٹے فرم میں جنرل منیجر ہیں۔” فیونا کی ممی یہ سن کر چونک اٹھیں۔”کیا آپ بلال احمد کے بیٹے ہیں؟”

    "جی جی۔” اس بار حیران ہونے کی باری جبران کی تھی، فیونا کو بھی خوش گوار حیرت نے آ لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کی ممی جبران کے والد کو پہلے سے جانتی ہیں اور اسے پتا ہی نہیں ہے۔ جبران نے پوچھا "کیا آپ انھیں جانتی ہیں؟”

    مائری مسکرا دیں "ہاں، کیوں کہ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ یہاں کے دریا اور جھیلوں میں بڑے شوق سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔”

    "ممی، یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے، پھر تو آپ اپنے آفس کے ساتھی کو فون کر کے کہیں کہ جبران اور دانیال یہاں ہیں، کیوں کہ ہم دیر تک گھومیں پھریں گے۔” فیونا نے چہک کر کہا۔

    مائری نے مسکرا کر سر ہلایا اور اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی تینوں اسنیکس کھاتے ہوئے گپ شپ کرنے لگے۔ اچانک فیونا بولی "تمھارے پاپا مچھلی کا شکار کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس چھوٹی کشتی بھی ہوگی۔”

    "ہاں، ہے تو؟”جبران کے چہرے پر سوالیہ تاثر ابھرا۔

    "ہم اس کشتی کو لے کر قلعۂ آذر پر چلے جاتے ہیں، بڑا مزا آئے گا۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ قلعہ آذر ایک تاریخی مقام ہے، دانیال کو یہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے، اس کی زندگی کا یادگار تجربہ ہوگا۔ ” فیونا روانی اور جوش سے بولتی رہی، جب کہ جبران اس کے چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ "کیا تم کبھی وہاں گئی ہو فیونا؟” جبران نے پوچھ لیا۔

    "نہیں۔” فیونا جلدی سے بولی۔ "میری ممی کہتی ہے کہ ہمارے آبا و اجداد وہاں رہتے تھے۔”

    جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا "میں نے قلعۂ آذر کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ اس قلعے میں کبھی مک ایلسٹر خاندان بھی رہا ہے۔” فیونا جلدی سے بولی "مک ایلسٹر نہیں، بلکہ میری ممی کی طرف کے آبا و اجداد میں سے کوئی وہاں رہتا تھا، یعنی فرگوسن خاندان سے۔”

    اس موقع پر دانیال، جو پہاڑی علاقے میں رہائش کے باعث بادلوں کے تیور دور سے پہچان لیتا تھا، مداخلت کر کے بولا "بھئی اگر تم لوگوں کو کہیں جانا ہے تو فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر مت لگائیں، کیوں کہ آسمان مکمل طور پر صاف نہیں ہے، اور مجھے خدشہ ہے کہ بارش ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔”

    جبران نے ترجمانی کی تو فیونا نے کہا ٹھیک ہے، چلتے ہیں، میں ممی کے لیے وہاں سے پھول بھی توڑ کر لے آؤں گی۔”

    وہ تینوں صدیوں پرانے قلعے کی سیر کرنا چاہتے تھے، اور تینوں میں ایک بات مشترک تھی، یہ کہ انھیں نئی نئی جگہوں کی تلاش اور مہم جوئی میں بہت دل چسپی تھی، فرق یہ تھا کہ دانیال کو اپنا یہ شوق آس پاس کے پہاڑوں میں گھوم پھر کر پورا کرنا پڑتا تھا۔ جبران نے جب فیونا سے پوچھا کہ کیا تم اپنی ممی سے پوچھو گی؟ تو اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکان ابھری، اس نے کہا "ممی نے مجھے وہاں جانے سے منع کر رکھا ہے۔”

    وہ تینوں گھر سے نکلے اور جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ تینوں صنوبر اور شیشم کے جھنڈ میں راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے؛ جبران دانیال کو بتانے لگا کہ اسکاٹ لینڈ میں جھیل کو لوچ کہتے ہیں۔ درختوں اور رنگ رنگ کے پھولوں کے درمیان جھیل کا پانی نظر آرہا تھا، اور یہ منظر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہو۔ بہار کا موسم عروج پر تھا۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ رک گئے۔ کنارے پر فاصلے فاصلے سے چھوٹی کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ جھیل میں کوئی کشتی اس وقت کھیتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی، جبران ایک کشتی کے پاس کھڑا ہو گیا تو فیونا بولی۔ "تو یہ ہے تمھارے پاپا کی کشتی!”

    اس نے جھیل کے پانی پر نظر دوڑائی اور پھر تشویش بھرے لہجے میں بولی "پانی میں لہریں اٹھ رہی ہیں، ہم محفوظ تو ہوں گے نا؟”

    "ارے گھبراؤ نہیں۔” جبران بولا "میرے پاپا نے مجھے کشتی کھینا سکھایا ہے، اور قلعہ آذر ویسے بھی زیادہ دوری پر نہیں ہے۔ مسٹر لیمنٹ نے پاپا سے گفتگو کے دوران ذکر کیا تھا کہ قلعے کے پاس جزیرے پر ہزاروں تیتر ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم بھی چند تیتر پکڑ سکیں، پھر تو ڈنر میں مزا آ جائے گا۔”

    یہ کہہ کر وہ کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لیے۔ فیونا اور دانیال بھی دوسرے سرے پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے ایک ایک چپو سنبھال لیا اور پھر کشتی آہستہ آہستہ جھیل کے اتھلے پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ فیونا پہلی مرتبہ کشتی میں سفر کر رہی تھی، وہ پانی میں دیکھ کر بولی "یہ تو تقریباً کالا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ لوچ نِس سے بھی زیادہ گہری جھیل ہے۔”

    ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کے لمبے بالوں کو اڑا کر اس کی آنکھوں پر دے مارا۔ وہ ایک ہاتھ سے بال ہٹا کر بولی "دیکھو جبران، پانی میں کتنا اچھال آنے لگا ہے، میں نے سنا ہے کہ لوچ نِس کی طرح اس جھیل ڈون میں بھی عفریت ہے۔” اگرچہ یہ اس کا اپنا منصوبہ تھا کہ قلعۂ آذر کی سیر کی جائے لیکن اب وہ جھیل میں سفر کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔ "بے وقوفی کی باتیں مت کرو فیونا۔” جبران بولا۔ "بس اب ہم پہنچنے ہی والے ہیں، عفریت جیسی کوئی چیز نہیں، اگر تمھیں پھر بھی ڈر لگ رہا ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لو۔ اب تم گیارہ سال کی ہو گئی ہو لہٰذا تمھیں تصوراتی عفریتوں اور لہروں والے پانی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔”

    "میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا جلدی سے بولی "اگرچہ مجھے عفریتوں پر کوئی یقین نہیں ہے لیکن لہروں والے پانی سے میرا بدن کانپنے لگتا ہے، اور مجھے ایسا بالکل پسند نہیں لیکن کیا کروں؟

    اسی لمحے اس کی نگاہیں قلعۂ آذر پر جم گئیں۔ ماحول میں پراسرار خاموشی پھیلی ہوئی تھی، صرف چپوؤں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔

    جاری ہے…….

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    مائری سڑک پار کر کے مک ایوانز بچر شاپ کی طرف جانا چاہتی تھیں کہ اچانک ان کے سامنے ایک بس آکر رک گئی۔ بس کے پائیدان سے ایک وجیہ صورت آدمی اچھل کر ان کے سامنے آ رُکا۔

    "ذرا سنیے خاتون، کیا مجھے کسی ایسے شخص کا پتا دے سکتی ہیں جو مجھے بتائے کہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے بہترین جگہ کون سی ہے؟”

    مائری نے اس کی طرف دیکھا، اور سوچا کہ کیا اسے واقعی کسی شخص کی تلاش ہے۔ مائری نے کہا "میں آپ کو ایک ایسے شخص کا نمبر دے سکتی ہوں جو پڑوسی قصبے میں رہتا ہے، آپ حیران ہوں گے لیکن بلال احمد کو گیل ٹے کے باسیوں سے بھی زیادہ یہاں کے ماہی گیری پوائنٹس کے بارے میں معلومات ہیں۔ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، وہ پاکستانی نژاد ہے، فارغ اوقات میں اس کا بہترین مشغلہ یہاں مچھلیوں کا شکار ہے۔”

    "شکریہ خاتون، میرا نام جونی تھامسن ہے، میں لندن سے آیا ہوں، اور آپ ؟” اجنبی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے پوچھا۔

    "میں مائری مک ایلسٹر ہوں۔”

    "معلوم ہوتا ہے آپ مسٹر بلال کو کافی عرصے سے جانتی ہیں۔”

    "جی ہاں، ہم ایک عرصے سے ایک ہی آفس میں کام کر رہے ہیں۔” مائری نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بلال کا نمبر اور گھر کا پتا لکھ کر انھیں دے دیا۔ "ان سے کہنا مائری نے بھیجا ہے، کیا آپ یہاں زیادہ دن رہیں گے؟” مائری نے روانی میں پوچھا لیکن پھر حیران ہو گئیں، کہ اس نے یہ بات کیوں پوچھی۔

    جونی تھامسن نے کہا "میرے بھائی جمی آئندہ ایک دو دن میں مجھ سے ملیں گے، ہم یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارا قیام طویل ہو جائے، مجھے امید ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔”

    اسی وقت بس کے ڈرائیور نے سیٹی بجا کر انھیں متوجہ کر دیا، تو وہ مائری سے رخصت ہو کر چلا گیا۔ مائری حیرت سے اس کے متعلق سوچنے لگیں، انھوں نے کئی برسوں سے یہاں اس جیسا وجیہ شخص نہیں دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ مائری نے سر جھٹک کر سڑک پار کیا اور دکان کی طرف بڑھنے لگیں۔

    جاری ہے……

  • باغ میں‌ تتلی

    باغ میں‌ تتلی

    نہال خوش تھا۔ بہار آئی ہوئی تھی۔ باغیچے میں پھول ہی پھول کِھلے تھے۔

    اُسے رات جلدی سونے کی عادت تھی کیوں کہ اس سے نیند برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اِدھر کھانا کھاتا اور اُدھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونا شروع ہوجاتیں۔ پاپا بڑی مشکل سے اسے تھوڑی سی واک کراتے اور پھر وہ دوڑ کر بستر پر گر جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح سویرے ابھی ممی پاپا اور گڑیا سو رہے ہوتے اور نہال جاگ جاتا۔ پھر وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر پھرتا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگ جاتا یا پھر باہر اپنے گھر کے باغیچے میں نکل جاتا۔

    اُس دن جب وہ سویرے سویرے باغیچے میں گیا تو بہت حیران ہوا۔ پودوں پر بہار ایسی اُتری تھی کہ پھول ہی پھول کِھل گئے تھے۔ باغیچے میں ہلکی سی سفید دھند پھیلی تھی۔ اُفق پر سورج نے ابھی سَر نہیں اٹھایا تھا۔ فضا بے حد خوش گوار تھی اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ اسے بڑا مزا آیا۔ رنگ برنگے پھول دیکھ کر وہ خوش ہوا اور دوڑ کر ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگا۔ سارا باغیچہ خوش بو سے مہکا ہوا تھا۔ وہ گہری سانسیں لے کر خوش بو اپنے پھیپھڑوں میں اُتارنے لگا۔

    اسے یاد آیا کہ انگلش بُک کے ایک سبق میں پارک، بہار اور پھولوں کا ذکر اس نے پڑھا تھا۔ اس نے پودوں، درختوں اور پھولوں پر نگاہ دوڑائی تو اسے یہ منظر بالکل اُسی تصویر جیسا لگا جو کتاب میں شامل تھی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی شوق سے ڈرائنگ کرتا تھا۔

    کیاری سے گزرتے گزرتے وہ سفید اور ملائم پتیوں والے پھولوں کے پاس رک گیا۔ یہ چنبیلی تھی۔ اس نے زور سے سانس کھینچی۔ یہ خوش بو اسے بہت پسند تھی۔ یکایک وہ چونکا۔

    ارے تتلی… نارنجی، سیاہ اور سفید رنگ کے پروں والی تتلی چنبیلی سے اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

    ”ارے رُکو کہاں جارہی ہو۔“ نہال بولا اور سبز گیلی گھاس پر تتلی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ ٹھنڈی گھاس اس کے تلوؤں پر گدگدی کرتی تھی۔ تتلی تھی کہ پھولوں پر سے ہوا کی طرح سرسراتی اڑتی جارہی تھی۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ نہال اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔ تتلی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ اس نے نہال کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیا۔ آخر کار وہ بے حال ہوکر رُک گیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    رنگین پروں والی بڑی تتلی بھی قریبی گلاب پر بیٹھ گئی اور نہال کو دیکھنے لگی۔ ”ٹھیک ہے‘ میں اب تمھیں نہیں پکڑوں گا۔“ نہال نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

    ”تم بھی اب مت اُڑنا۔ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کتنے پیارے، رنگین پر ہیں تمھارے۔ یہ پیلا رنگ کتنا پیارا ہے۔“ نہال نے سَر آگے کر کے اُسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ”میرے قریب مت آؤ۔“ تتلی نے اچانک اسے ٹوکا اور وہ یہ باریک آواز سن کر اچھل پڑا۔
    ”ارے تم بول سکتی ہو۔“ نہال حیران ہوا۔

    ”ہاں‘ لیکن مجھے تم پر غصہ آرہا ہے‘ تم اچھے نہیں ہو۔“ تتلی پیاری سی باریک آواز میں بولی۔

    نہال نے کہا‘ تتلی کو بھی غصّہ آتا ہے۔ تتلی تو اتنی نازک ہوتی ہے۔ غصّہ کیسے سہتی ہے؟

    تتلی بولی کہ اس کے پَروں کا رنگ پیلا نہیں نارنجی ہے۔ اچھے بچّے تتلی کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اور وہ تتلی کے نارنجی پروں کو پیلا بھی نہیں کہتے۔

    ”اچھا میں سوری کرتا ہوں بس۔“ نہال نے جلدی سے غلطی مان لی۔

    تتلی خوش ہوئی اور بولی۔ ”میرا نام مونارک ہے۔ تمھارا نام مجھے معلوم ہے۔ پاپا نے تمھارا نام نہال رکھا تھا۔“

    ”تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا؟“ نہال مزید حیران ہوا۔

    ”بس ہوگیا معلوم، یہ تمھیں نہیں بتا سکتی۔“ مونارک اِترا کر بولی۔

    ”میں نے تمھیں پہلے یہاں نہیں دیکھا۔“ نہال کہنے لگا۔ ”تم کتنی بڑی ہو، تتلی تو چھوٹی ہوتی ہے۔“

    وہ بتانے لگی کہ مونارک بڑی تتلی ہوتی ہے اور یہاں بس کبھی کبھی آجاتی ہے، وہ بھی سویرے سویرے، اور پھر چلی جاتی ہے۔

    ”تو کیا تم ابھی چلی جاؤ گی۔“ نہال اُداس ہوگیا۔

    ”ہاں۔“ مونارک نے اپنے سَر پر موجود دو انٹینا لہرا کر کہا۔ ”میں جتنی خوب صورت ہوں، اُتنی زہریلی بھی ہوں۔ مجھے کوئی جانور پکڑ کر کھاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پتا ہے میں آج بہت اداس ہوں۔“

    ”ارے تمھیں کیا ہوا، تم کیوں اداس ہو؟“ نہال نے پریشان ہوکر پوچھا۔

    ”میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ تم زہریلی ہو، ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔“ مونارک بولی۔

    نہال نے یہ سن کر جلدی سے کہا کہ آج سے میں تمھارا دوست ہوں، ہم دونوں کھیلیں گے اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ٹھیک ہے اب۔ لیکن تتلی نے اسے بتایا کہ اسے ابھی ضرور جانا ہے۔ وہ ہر سال ہزاروں میل کا سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ آج جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی تو اس کو ایک تتلی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئے تھے۔ سبھی مونارکوں کے ماں باپ اسی طرح مرتے ہیں۔ اسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مونارک رونے لگی۔ ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ نہال بھی اُداس ہوا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    مونارک کہنے لگی۔ ”نہال‘ میرے دوست، تم کتنے اچھے ہو۔ تم میرے لیے دکھی ہوگئے ہو۔“

    ”ہاں‘ میں تمھیں کبھی بھی زہریلی نہیں کہوں گا، پکّا وعدہ۔“ نہال نے کہا۔

    مونارک اپنی چھے ٹانگوں میں سے دو چھوٹی ٹانگوں سے اپنا پیٹ کھجانے لگی۔

    نہال کو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔ اور پھر کہا۔ ”مونارک‘ تم نے سچ مچ اپنے ممی پاپا کو نہیں دیکھا۔“

    ”ہاں۔“ اس نے اداسی سے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا۔ ”مونارک اپنے ماں باپ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ انڈوں سے مونارک کے نکلنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

    نہال نے بوجھل دل سے کہا۔ ”اچھی تتلی، اب تو میں تمھارا دوست ہوں۔ اب تم مت روؤ۔“

    ”ٹھیک ہے میرے دوست۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا۔“ تتلی بولی اور اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی۔ وہ اُڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ”مجھے بہت دور، دوسرے ملک جانا ہے۔ اب تمھارے ممی پاپا بھی جاگنے والے ہیں۔ وہ تمھیں تلاش کرنے ادھر آئیں گے۔“

    نہال نے پوچھا کہ کیا وہ پھر آئے گی اس باغیچے میں۔ تتلی نے کہا کہ تتلیاں بس ایک بار سفر کرتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔ پھر شاید اس کے بچّے یہاں چکر لگائیں۔

    نہال پریشان ہوگیا۔ ”تو کیا تم اپنے ننھے بچّوں کے ساتھ نہیں ہوگی‘ وہ اکیلے ہوں گے؟“

    ”ہاں۔“ وہ بولی۔ ”مونارک کے بچے یتیم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ گھبراتے نہیں ہیں۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے رنگین پَروں سے دنیا کو خوب صورت بناتے ہیں۔“ یہ کہہ کر مونارک اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

  • احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    قمر رئیس نے اپنے مضمون ”افسانہ نگار ندیم“ میں لکھا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ (ندیم) گڑیا، آنندی، موذیل یا لاجونتی کے مرتبے کی کوئی کہانی نہیں لکھ سکا….“ (عالمی اردوادب 1996)

    مجھے نہیں معلوم کہ اس دعوے کا شافی جواب دیا گیا ہے یا نہیں تاہم اس نے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ قمر رئیس نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کی مختلف جہات کی طرف تاحال کسی بھی نقّاد نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی۔

    رئیس خانہ، کنجری، الحمدُللہ، پرمیشر سنگھ وغیرہ قاسمی صاحب کے وہ افسانے ہیں جو ان کے ادبی رجیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ادب کے حوالے سے ان کا یہ نقطہ نظر بالکل سامنے تھا کہ یہ اپنی داخلی جمالیات پر استوار ہوتا ہے۔ مصنّف کی فکری وابستگی کی حیثیت ثانوی ہے۔ ترقی پسند ہونے کے ناطے یہ ان کی فنی و فکری زندگی کا بڑا تضاد رہا ہے، تاہم جس طرح وہ اپنی سماجی زندگی میں دھیمے مزاج اور انسانوں کو اپنے آپ میں جذب کرنے والے رویّے کے حامل تھے، اسی طرح ادبی زندگی میں بھی وہ فکری شدت پسندی کی طرف مائل نہ ہوسکے۔

    اس حد تک تو ٹھیک تھا لیکن جب وہ ترقی پسند فکر کی نمائندگی کرنے آئے تو یہاں ان کے مزاج اور معروضی حقیقت کے درمیان موجود تضاد کے مابین صلح کرتے ہوئے وہ ادبی رجیم کے اْس سرے کو نہ تھام سکے، جو اعلا ترین فن پاروں کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قاسمی صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

    ”آپ کو میرے نظریۂ فن کی ایک ہی بنیاد نظر آئے گی اور وہ انسان دوستی، انسان کا احترام اور انسان کا وقار اور اس کی عظمت ہے۔“

    اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی سماجی زندگی میں انسان دوست شخصیت رہے ہیں اور ان کے ہاں انسان دوستی کا فلسفہ مغرب سے درآمد شدہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے اندر اپنی ثقافت سے گہری جڑت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ انسان دوستی کے اس جذبے کو انھوں نے فنی سطح پر برتنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ترقی پسند دوستوں سے ایک سطح پر خود کو ممتاز دیکھتے رہے۔ یہ ان کی زندگی کا بھی رومان تھا جو دیگر ترقی پسندوں سے مختلف تھا اور یہی رومان ان کے افسانوں میں بھی فنی سطح پر منتقل ہوتا رہا۔

    ان کے افسانے رومانیت پسندی اور سماجی حقیقت نگاری کے امتزاج سے ایسے فن پاروں میں منقلب ہوتے رہے جو پنجاب کی منفرد، بھرپور اور دل کش معاشرت کے اظہار کے ساتھ نمایاں تو تھے لیکن اپنے بنیادی موضوع میں منفرد اور متحرک آئیڈیا سے محرومی کا شکار ہوئے۔

    محمد حمید شاہد اپنے مضمون ”احمد ندیم قاسمی کا افسانہ: تخلیقی بنیادیں“ میں لکھتے ہیں: ”اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہوگا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔“

    قاسمی صاحب کے افسانوں کی ڈی کنسٹرکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان متون میں طبقاتی تضاد کا قضیہ ایک ایسے حاشیے کی صورت ملتا ہے جس کی ابھی پہچان ہی نہیں کرائی گئی ہے۔ وہ جب پنجاب کی دیہی معاشرت کو فسانوی رنگ دیتے ہیں تو ان کے سامنے صرف ادبی جمالیات کا بنیادی قضیہ ہوتا ہے جسے رو بہ عمل لانا وہ اسی طرح ضروری سمجھتے تھے جس طرح مارکسیوں کی سنگت میں وہ خدا اور رسول سے جڑت ضروری سمجھتے تھے۔ اس تضاد کی وجہ سے ادب میں وہ اس انتہا پر چلے گئے جہاں کہانی میں فکر کا سرا انھیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔

    ادب میں فکر سے عدم جڑت کی وجہ سے ان کے افسانے اسٹرائکنگ آئیڈیاز سے خالی رہ گئے۔ ”لارنس آف تھلیبیا“ میں دیہی زندگی کا بھرپور رومانس ملتا ہے جہاں زمیں داروں کا ظلم سہنا بھی رومانس سے خالی نہیں ہوتا۔ مزارع کی جوان لڑکی کی عزت لٹنا اور اس پر اس کا عجیب رد عمل سب کا سب ایک دیہی رومانس میں لپٹا ملتا ہے۔ قاسمی صاحب کے افسانوی کردار جب بطور فرد اپنی شناخت بناتے ہیں تو پس منظر میں تاریخی سماجی عمل نہیں بلکہ خالصتاً رومانیت پسندی کا اکھوا ملتا ہے۔

    ”رئیس خانہ“ کے، طبقاتی تضاد کے شکار کرداروں کے ساتھ ہونے والے عظیم فریب کو قاسمی صاحب کے افسانے میں دیکھتے ہوئے لطف آتا ہے۔ اسے طبقاتی تضاد کا اظہار کہنے کے لیے بھی اعلا قسم کی بے حسی چاہیے جسے فنی طور پر برتتے ہوئے ایسی لطافت سے ہم کنار کیا گیا ہے کہ اختتام پر من چلوں کا لطیفہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔

    افسانہ ”الحمدللہ“ کے مولوی اور چوہدری کے تعلق پر نگاہ دوڑائیں۔ مولوی ایک غیر پیداواری انسان ہے اور چوہدری انسانی جذبے اور عقیدت کے احساس سے لبریز۔ طرفہ تماشا یہ کہ غیر پیداواری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سماج پر دھڑا دھڑ بچوں کا بوجھ بھی لادتا جارہا ہے۔ اس افسانے کا جنم بھی کسی طبقاتی تضاد کے تصور سے نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک روایتی سماج کے روایتی کرداروں کا رومانوی سطح پر فنی اظہار ہے جس میں بلاشبہ کشش ہے۔

    کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور غلام عباس…احمد ندیم قاسمی کے ہم عصر تھے، لیکن بطور افسانہ نگار انھیں ان جیسی حیثیت نہیں ملی۔ کچھ لوگ اس کا اظہار بطور شکوہ کرتے ہیں اور کچھ بطور حیرت۔

    ہم سیاسی، ثقافتی اور ادبی طور پر مابعد جدید دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں ہماری حیثیت کیا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ جغرافیائی سطح پر مابعد نو گیارہ کا دور ہمارے لیے دراصل اسی مابعد جدیدیت کی متعین کردہ صورت حال ہے جو بذاتِ خود فلسفیانہ سطح پر ہر قسم کے تعینات کو مسترد کرتی ہے۔ مابعد نو گیارہ کی مشرقی دنیا میں ہمارے لیے بھی یہ واضح راہ نمائی سامنے آئی ہے کہ ہیرو ازم اور شخصیات کے پیچھے اصل سیاسی متون کو درست سمت میں سمجھنے کے بعد ہی اپنے لیے کوئی مفید اور درست لائحہ عمل ترتیب دیا جانا ممکن ہے۔ بہ صورت دیگر سماجی و ثقافتی متون کی، اندر سے شکستگی کے عمل کو روکا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ادبی متون کو بھی درست سمت میں سمجھنے کے لیے متن کو توجہ کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے۔

    قاسمی صاحب کے حوالے سے مندرجہ بالا شکوے یا حیرت نما سوال کا جواب ڈھونڈنا اس تناظر میں زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔

    ایک ایسے دور میں جب اردو افسانہ پوری طاقت کے ساتھ سماجی سطح پر مکالمہ کررہا تھا، ادب کی جمالیات اس مکالمے کی زیریں سطحوں میں روبہ عمل تھی، انسانی ثقافتوں کے گہرے متون کو پیرایہ اظہار بنایا جارہا تھا، احمد ندیم قاسمی نے اپنے لیے دیہی معاشرت کے حسن کو پیرایۂ اظہار کے طور پر منتخب کیا۔ بطور انسان انھیں اپنی اس دیہی معاشرت سے بہت پیار تھا اس لیے بطور مصنف بھی انھوں نے اس معاشرت کی بدصورتی کو قبول نہیں کیا اور اسے حسن کے ایک درجے پر استوار کرلیا۔

    اپنی بنیاد ہی میں انھوں نے زندگی کی جدلیاتی سطح ہموار کرکے رکھ دی اور طبقاتی تضاد کے کسی تصور کے ابھرنے کا راستہ ہی بند کردیا۔ ادب اگر فکر کی بنیاد پر نہ بھی لکھا جائے تب بھی اگر وہ کسی اوریجنل فکر کے عنصر سے پاک رہ جائے تو معاشرے میں اس کے سرایت کرنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

    قاسمی صاحب کے افسانے کا المیہ یہی ہے کہ یہ رومانیت پسند رجحان کے تعاقب میں اپنی اصل سے بچھڑ گیا۔ بقول انتظار حسین ”کرشن چندر نے اپنی حقیقت نگاری میں رومانیت کا چھینٹا دیا ہوا تھا“ لیکن وہ اپنی اصل سے جدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ سب ادب کے جمالیاتی پہلو کی اچھی سمجھ اور پرکھ رکھنے والے لوگ تھے۔

    حقیقت نگاری جب افسانے کی صورت میں ہوتی ہے تو یہ دل کشی سے خالی نہیں ہوتی۔ نہ ہی رومانیت کا چھینٹا لگنے سے حقیقت نگاری کی دل کشی ماند پڑتی ہے۔ قاسمی صاحب کے ہاں رومانیت پسندی کا رجحان اتنا غالب ہوگیا ہے کہ ان کا افسانہ نہ صرف فکر سے کٹ کر رہ گیا ہے بلکہ بنیادی خیال بھی اپنی طاقت سے محروم ہوا ہے۔

    مرکزی خیال کا کرشمہ دیکھیں۔ منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی لڑکی ہجرت کے وقت باپ سے بچھڑکر بلوائیوں اور مسلمان رضاکاروں کے ہاتھوں پامال ہوتے ہوتے اسپتال پہنچتی ہے تو وہاں اس کا کلائمکس ہوتا ہے۔ اس پر جو قیامتیں گزرتی ہیں، ان کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن ان قیامتوں نے اس کے معصوم دماغ پر ”کھول دو“ کے جو الفاظ مرتسم کردیے ہیں، اس کا نتیجہ دوسروں کے لیے قیامت خیز نکلتا ہے۔ منٹو اگر رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت اس افسانے کو لکھتے تو جلتے روم کے مناظر میں ہزار دل کشی پیدا کردیتے۔ لیکن مرکزی خیال کی یہ قیامت خیزی ان کے ہاتھوں سے لازماً چھوٹ جاتی۔

    اب قاسمی صاحب کا افسانہ ”الحمدُ للہ“ دیکھیں۔ مولوی ابل اپنی جوان ہوتی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے اس حد تک پریشان ہے کہ زبانی توکل تو اللہ پر کرتا ہے لیکن دل و دماغ میں چوہدری پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ بڑی بیٹی کی شادی کا اتنا بھاری بوجھ سر پر ہے کہ اٹھائے نہیں اٹھ رہا، اللہ پر حقیقی توکل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ لیکن قیامت جتنے اس بڑے امتحان سے وہ نہایت آسانی سے نکل آتا ہے اور پھر نواسے کی پیدایش پر کپڑے کھلونے وغیرہ لے جانے کی معمولی رسم اس کے لیے اتنی بڑی قیامت بن جاتی ہے کہ جوانی کی دہلیز پر پاؤں دھرتی دوسری بیٹیاں بھی ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور چوہدری جیسے واحد آسرے کی موت پر چند روپے ملنے کا یقین اسے ناقابلِ یقین حد تک کچھ دیر کے لیے خوشی سے دیوانہ کردیتا ہے۔

    قاسمی صاحب نے اس افسانے میں دیہی زندگی کی جزیات کو نہایت دل چسپ انداز میں بیان کیے ہیں لیکن مرکزی خیال کو زیب داستاں بناتے بناتے پلاٹ کمزور تعمیر کرلیا۔ افسانہ پڑھتے ہوئے بار بار محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بہت بڑا المیہ رونما ہونے والا ہے‘ لیکن قاسمی صاحب نے حقیقی زندگی کے حقیقی المیے رقم کرنا کبھی پسند نہیں کیا۔ وہ اگر کسی افسانے میں کسی حد تک المیہ رقم کرسکے ہیں تو وہ ہے ”کنجری۔“

    قاسمی صاحب کے بعض افسانوں کے مرکزی خیال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے یا تو اپنے دور کے آس پاس لکھے گئے موضوعات کو اپنے مخصوص ماحول اور انداز میں لکھا ہے جیسا کہ ”الحمد للہ“، اس خیال پر مبنی ایک ایرانی افسانہ لیل و نہار میں چھپا تھا۔ ”فقیر سائیں کی کرامات“ ایک دیہی حکایت پر مبنی ہے۔

    ”لارنس آف تھلیبیا“ کا موضوع بھی اسی دور کا مرغوب موضوع ہے، یعنی مزارع کے گھر کی عزت بھی جاگیردار کی ملکیت میں شامل ہوتی ہے۔ رئیس خانہ اپنے مرکزی خیال میں من چلوں کا لطیفہ بن گیا ہے کہ ایک افسر ایک غریب عورت کی عزت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کئی عورتوں کے ساتھ رات گزار کر اپنی پارسائی کا ڈھونگ رچاتا ہے اور آخر کار اس عورت کو اپنی خلوت گاہ تک لے آتا ہے۔ ”ہٰذا من فضل ربّی“ کا مرکزی خیال متمول مرد و خواتین کا بہ یک وقت کئی کئی پارٹنرز کے ساتھ گلچھرے الڑانے پر مبنی ہے لیکن اس میں بھی قاسمی صاحب کا مخصوص دل چسپ انداز ملتا ہے اور اختتام پر افسانہ ایک لطیفے جیسا لطف دیتا ہے۔

    ”کنجری“ میں پیشہ کرنے والی عورت کی بیٹی کا المیہ رقم ہے جو اس دور میں بھی کوئی نیا چونکادینے والا خیال نہیں تھا۔ اس موضوع پر بہت اور اچھا لکھا جارہا تھا۔ قاسمی صاحب نے اس کے المیاتی اختتام کو تحلیل تو نہیں کیا ہے۔ تاہم باقی سارا فسانہ انھوں نے رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت بُنا ہے حتیٰ کہ اختتام پر باپ کے مکروہ کردار کی کراہت بھی زائل کردی ہے۔

    ”گنڈاسا“ میں مرکزی کردار اپنے دشمن کو اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس کو پسند آنے والی لڑکی کا منگیتر ہے۔ بین میں مزار پر شاہ جی کے ہاتھوں عزت سے جانے والی کنواری لڑکی کا فسانہ ہے جو خود کلامی کے انداز میں لکھا گیا ہے اور ممکن ہے یہ اس وقت کا ایک اچھا تجربہ رہا ہو۔

    ”پرمیشر سنگھ“ تقسیم کے موضوع پر ان کا بہت مشہور افسانہ ہے۔ اس میں بھی انھوں نے المیے کو المیہ نہیں رہنے دیا ہے بلکہ رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت انسان دوستی کے احساس کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سکھ جس سے اس کا بیٹا کھو گیا ہے، کے ہاتھ ایک مسلمان لڑکا لگتا ہے۔ وہ اسے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا ہے۔ لیکن پھر اسے پاکستانی سرحد پر چھوڑنے آتا ہے اور فوجی کی گولی سے زخمی ہوجاتا ہے۔

    معلوم یہی ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب نے آئیڈیاز کی شدت کو رومانیت پسندی کی تہہ چڑھا کر ہمیشہ کم کیا ہے جس کے سبب ان کے افسانے اس زمانے میں لکھے جانے والے افسانوں کی سطح کو کبھی چھو نہیں پائے، نہ ہی انھیں ویسی مقبولیت ملی۔ منٹو جب تقسیم کے المیے پر انسانی جذبے کو موضوع بناتا ہے تو ”موذیل“ جیسا شاہ کار جنم لیتا ہے۔ غلام عباس جب پیشہ ور عورتوں کو موضوع بناتا ہے تو ”آنندی“ جیسا لازوال افسانہ جنم لیتا ہے۔ تقسیم ہی کے المیے پر بیدی ”لاجونتی“ جیسے آئیڈیا کو افسانوی کینوس پر لاتا ہے تو یادگار بن جاتا ہے۔ یہ آئیڈیاز اور آئیڈیاز کے بطن میں موجود یہ شدت قاسمی صاحب کے ہاں مفقود ہے۔