Tag: رفیع اللہ ناول

  • ایک سو تریاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تریاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے

    ڈریٹن ان لوگوں میں سے تھا جو زیادہ انتظار نہیں کر سکتے، جو چیز حاصل کرنی ہو اسے پوری بدمعاشی کے ساتھ زور بازو سے حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا، جادوئی گولا تب تک حاصل کرنا مشکل تھا جب تک تمام ہیرے ڈھونڈ کر نہیں لائے جاتے، اور ان کے لیے مختلف قسم کے دور دراز اور خطرناک علاقوں کا جادوئی سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ اس میں وقت تو لگنا ہی تھا۔ اینگس کے گھر سے بھاگنے کے بعد وہ جھیل پہنچ گیا تھا، کشتی چلا کر جب وہ دوسری طرف اترا تو جھنجھلایا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا: ’’اس طرح آگے پیچھے جاتے ہوئے میں اب تھک چکا ہوں، ایک تو یہ کشتی چلانا بھی ایک عذاب ہے۔‘‘ اس نے چار و ناچار کشتی ایک درخت سے باندھ دی۔

    قلعے کی طرف جاتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اب کون سی طاقت اس کے پاس آ گئی ہے کیوں کہ فیونا اور اس کے دوست نیا ہیرا جو لے کر آ گئے تھے۔ جادوگر پہلان اسے بتا چکا تھا، اس نے یاد کیا اور پھر اچھل پڑا۔ ’’اوہ تو اب میرے پاس سونا اور ہیرے جواہرات تلاش کرنے کی طاقت آ گئی ہے۔‘‘ سوچتے سوچتے وہ قلعے کے اندر پہنچ گیا تھا۔ اپنے سلیپنگ بیگ پر بیٹھ کر اسے خیال آیا کہ اس قلعے میں بھی تو خزانہ ہو سکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ بے قراری سے اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ خزانہ کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ اگلے ہی لمحے حیرت انگیز طور پر اسے خواب جیسی کیفیت میں ہیرے جواہرات سے بھرا ایک روشن کمرہ دکھائی دیا۔ وہ پرجوش ہو گیا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ لیکن وہ کمرہ ہے کہاں؟ اس نے پھر آنکھیں بند کر کے تصور کیا اور پھر اسے پورا نقشہ دکھائی دینے لگا۔ ’’میں نے ڈھونڈ لیا۔‘‘ اس کے منھ سے چیخ نکل گئی اور وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

    ٹارچ لے کر وہ سیڑھیوں پر نیچے اتر گیا، وہاں اس نے دیوار کے ایک پتھر پر ہاتھ سے دباؤ ڈالا تو سیڑھیوں کے نیچے ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور وہاں ایک دیوار کھل گئی۔ وہ جلدی سے کمرے کے اندر چلا گیا لیکن وہاں کوئی سونا نہیں تھا۔ یہ ایک بہت چھوٹا کمرہ تھا۔ اسے بہت غصہ آیا اور اسی عالم میں اس نے دیوار پر ایک پتھر پر زور سے مکا مار دیا۔ اچانک وہاں بھی ایک دروازہ کھل گیا جس سے اندر جاتے ہی اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ یہ کمرہ سونے اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک لمحہ دیر کیے بغیر چھلانگ لگا کر سونے کے ڈھیر پر کود گیا اور مٹھی میں چیزیں بھر بھر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور بے اختیار چلانے لگا: ’’میں امیر ہو گیا ۔۔۔ میں امیر ہو گیا۔‘‘

    اس نے خزانے میں سے چھانٹ کر زمرد اور ہیرے اپنی جیبوں میں بھرے اور پھر اوپر محل کی طرف چلا گیا۔ وہ اتنا بے چین تھا کہ محل کے اندرونی حصے سے باہر نکل کر شکستہ پل پر جا کر کھڑا ہو گیا اور رات کے اندھیرے میں زور زور سے سانسیں بھرنے لگا۔

    وہاں سے گزرتے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے۔ لیکن اس نے ہر چیز سے بے نیاز کشتی میں ایک بار پھر جھیل پار کی اور کشتی کو ایک قریبی درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے فیونا کے گھر کی طرف جانے لگا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اب۔ اس نے دیکھا کہ مائری اور فیونا جبران کے گھر گئے اور وہاں سے ان دونوں کو لے کر فیونا کے گھر کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے باقی افراد سے کہا کہ وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑیں، وہ گھر سے کچھ اٹھا کر لا رہی ہیں۔ ادھر وہ چل پڑے اور ادھر مائری گھر کے اندر جا کر کچھ ہی دیر میں واپس آ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس وقت باقی افراد دور جا چکے تھے اور مائری اکیلی تھیں۔ ڈریٹن دوڑ کر ان کے پیچھے چلا گیا اور پیچھے سے آواز دے کر پوچھا: ’’ڈبے میں کیا ہے؟ کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘

    مائری نے مڑ کر دیکھا تو ڈریٹن کو سامنے پا کر وہ خوف سے برف بن گئیں۔ ان کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ صرف پائی ہے ڈریٹن، بچوں کے لیے لے جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’پائی؟ اوہ میرا پسندیدہ۔‘‘ اس نے جھپٹا مار کر فیونا کی ممی کے ہاتھ سے ڈبہ چھین لیا، اور کھول کر اپنی انگلیاں اس کے اندر ڈبو دیں، اور پھر باہر نکال لیں۔ اپنی انگلیاں منھ میں ڈال کر وہ بولا: ’’یہ تو بیری کا ذائقہ ہے، واہ۔‘‘

    اچانک اس نے ایک پائی اٹھا کر مائری کے سر پر دے مارا۔ وہ چیخ اٹھیں: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم نے میرے بال خراب کر دیے۔‘‘ ڈریٹن نے سفاکی اور بدتمیزی کی حد کر دی۔ ’’یہ تو کچھ نہیں، یہ دیکھو۔‘‘ اور اس نے ایک اور پائی نکال کر مائری کے چہرے پر پھینک دی۔ اور پھر ایک اور مائری کے سر پر دے ماری۔ وہ چلانے لگیں: ’’رک جاؤ، یہ کیا بدتمیزی کر رہے ہو تم ڈریٹن، رک جاؤ۔‘‘

    ڈریٹن نے بدتمیزی سے کہا: ’’اوہ آپ کا حلیہ تو پوری طرح بگڑ چکا ہے، آپ ایسا کریں میرے ساتھ قلعے میں چلیں اور وہاں یہ سب دھو لینا۔‘‘ مائری نے کہا کہ وہ اسے گھر میں بھی دھو سکتی ہیں۔ ڈریٹن نے لپک کر مائری کو بازو سے پکڑا اور چلایا۔ ’’میں کہہ رہا ہوں چلو میرے ساتھ۔‘‘ وہ مائری کو گھسیٹنے لگا تو ان کے منھ سے کراہیں نکل گئیں۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ ڈریٹن نے انھیں بہت تکلیف دی۔ گھسٹتے ہوئے ان کا پورا وجود ہل کر رہ گیا تھا۔ ایسا ان کی زندگی میں کبھی ان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ ’’مت گھسیٹو مجھے، رک جاؤ پلیز۔‘‘ وہ روناسی ہو کر بولیں۔ لیکن ڈریٹن غصے سے غرایا: ’’منھ بند کرو اپنا، ایک تو تم عورتیں ہر وقت شکایتیں کرتی رہتی ہو، رونا دھونا ختم نہیں ہوتا تم لوگوں کا۔ اب اگر تم نے منھ سے آواز نکالی تو جھیل کے اندر پھینک دوں گا۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • ایک سو پینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن نے ایک اور ریستوران میں کھانا کھایا تھا اور پھر تیز رفتاری سے واپس ہوٹل آ کر اپنے کمرے میں ڈیرا جما لیا تھا۔ وہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ جب فیونا اور اس کے دوست اپنے کمرے میں آئیں گے تو ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ اس لیے وہ دونوں کمروں کے درمیان دروازے سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا تاکہ آوازیں واضح طور پر سن سکے۔ اسی دوران اسے انگھ آگئی، کچھ دیر بعد جب وہ ہڑبڑا کر جاگا تو اسے تیز آواز میں باتیں سنائی دینے لگیں، کوئی بات بات پر قہقہے لگا رہا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس گیا تو دیکھا کہ ہوٹل کے نیچے کچھ لوگ کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ ڈریٹن ان پر غصے سے چیخا: ’’دفع ہو جاؤ یہاں سے اور کہیں اور جا کر شور مچاؤ۔‘‘
    ان لوگوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھااور پھر گفتگو میں مگن ہو گئے۔ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ ڈریٹن بہت تلملایا اور بڑبڑایا کہ اچھا ایسی بات ہے تو ابھی بتاتا ہوں!
    اس نے برف کی ایک چھوٹی بالٹی اٹھائی، اس میں اپنا شیمپو ڈالا، پھر سرخ مشروب جو اس نے منگوایا تھا بالٹی میں انڈیلا۔ ایک چھوٹے پیالے میں گرم پانی سے تین صابن پگھلائے اور اسے بھی شیمپو میں ملا دیا۔ پھر اس میں پانی ڈال کر اچھی طرح ملایا اور پھر یہ جھاگ بھرا رنگ دار پانی کھڑکی سے ان لوگوں پر انڈیل دیا۔ جب اس نے لوگوں کے چہرے، سر اور کپڑے خراب ہوتے دیکھا اور صابن کے بلبلے اڑتے دیکھے تو خوب قہقہے لگانے لگا: ’’سبق سکھا دیا نا میرے کمرے کے قریب شور مچانے پر۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کھڑکی بند کی اور پلٹا۔ اسی وقت اسے فیونا کے کمرے سے آوازیں سنائی دیں۔ وہ جلدی سے دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ اندر سے آنے والی خوف اور دکھ سے بھری ہر آواز پر وہ بے تحاشا خوش ہوتا رہا۔ اور جب منیجر نے آ کر ان سے تاوان کا مطالبہ کیا تو اس وقت وہ خوشی کے مارے فرش پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ جب وہ نئے کمرے میں منتقل ہونے لگے تو اس نے ان کا تعاقب کیا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کس کمرے میں ٹھہرنے جا رہے ہیں۔ اور اس کے بعد وہ چھت پر جا کر روشنیوں کا نظارہ کرنے لگے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔
    ’’روتھ نے ٹھیک ہی کہا تھا، کتنا شان دار اور خوب صورت نظارہ ہے یہ۔‘‘ فیونا نے دور افق پر پھیلے تیز چمکیلے لال، پیلے اور سبز رنگ کی دھاریاں دیکھتے ہوئے کہا۔
    ’’مجھے تو یہ دیکھ کر رینبو یاد آ گئی۔‘‘ جبران بولا۔ دانیال آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر رنگین روشنی کی دھاریوں کو آسمان میں ادھر ادھر رقص کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’لیکن یہ نظارہ قوس قزح سے کہیں زیادہ شان دار ہے۔‘‘ دانیال نے ایسا نظارہ کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان رنگوں کے پیچھے آدھی رات کے آسمان میں ستارے جھلمل رہے تھے۔ تینوں یہ نظارہ دیکھنے میں کھو گئے تھے۔ فیونا کی آواز سنائی دی: ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے آسمان میں پینٹنگ کی ہو۔‘‘ دانیال نے کہا: ’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے نیلے اور سبز شعلوں کے ساتھ آسمان میں لگ گئی ہو۔‘‘ جبران نے مداخلت کی، ہاں لیکن یہ کبھی کبھی یہ شعلے سرخ اور پرپل بھی ہو جاتے ہیں۔ تینوں آسمان پر نظریں جمائے اسی طرح کی گفتگو میں مگن تھے۔
    ان سے چند قطار پیچھے بیٹھا ڈریٹن بور ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سب لوگ احمق ہیں جو یہاں بیٹھے عجیب و غریب جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صرف روشنی ہی ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں پہلان جادوگر سے پوچھے گا کہ کیا اس میں کچھ جادو ہے؟ یہ سوچ کر وہ اٹھا اور نیچے جانے لگا۔
    (جاری ہے)
  • بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    ’’جبران، پیسوں کو چھپاؤ۔‘‘ دانیال نے اسے کہنی مار کر سرگوشی کی۔ فیونا نے بھی اس کی نظروں کو تاڑ لیا تھا اس لیے اس نے کہا: ’’یہ کوئی زیادہ بڑی رقم نہیں ہے، اس میں سے کچھ تو آپ کا کرایہ ہے، ہاں اگر آپ زیادہ ٹپ چاہتے ہیں تو ہمیں خیریت سے لے جا کر صحیح سلامت واپس پہنچا دیں۔‘‘

    یہ سن کر جیکس اچانک سیدھا کھڑا ہو گیا اور تیز لہجے میں بولا: ’’اپنے لائف جیکٹس پہن لیں، یہ اصول ہے یہاں کا۔ ہو سکتا ہے یہ آپ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو لیکن انھیں پہننا ضروری ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کشتی اسٹارٹ کر دی اور وہ ذرا دیر میں کھلے سمندر میں پہنچ گئے۔ وہ ان تینوں کو جزائر کے گرد پھرنے والے سمندری ڈاکوؤں کے بارے میں بتانے لگا، اس نے بتایا کہ یہاں ایسی کھاڑیوں کی بے شمار کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جہاں خزانہ دفن ہے اور وہ آسیب زدہ ہیں۔ جیکس نے انھیں بڑے بڑے گھونگوں اور کن کھجوروں سے بھی خبردار کیا اور کہا کہ ناریل کے کسی درخت کے نیچے بھی کھڑے مت ہونا، لیکن اس کی وجہ کوئی آسیب نہیں تھا بلکہ اس نے بتایا کہ دراصل یہاں دنیا کے سب سے اونچے ناریل درخت ہیں، اگر ایک ناریل آپ کے سر پر گرا تو آپ کی کھوپڑی پل بھر میں چٹخ جائے گی۔

    یہ سن کر جبران کو پسینہ آ گیا، اس نے کہا: ’’جی ہم ناریل کے درختوں سے بچ کر رہیں گے لیکن یہ بڑے گھونگوں اور کن کھجورے کیسے ہیں؟ کتنے بڑے ہیں یہ؟ اور آسیب زدہ کھاڑیوں کے بارے میں مزید کچھ بتائیں۔‘‘

    ’’سلہوٹ آئس لینڈ پر آپ کو بہت ساری عجیب و غریب مخلوقات دکھائی دیں گی۔‘‘ جیکس ہنس کر بولا: ’’لیکن جب تک آپ انھیں نہیں چھیڑیں گے، یہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ دل چسپی سے تینوں کو دیکھنے لگا، تینوں اس کی باتیں سن کر دل ہی دل میں ڈر گئے تھے۔ وہ بتانے لگا: ’’جزیرے کے غاروں میں سے کسی ایک غار میں بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سے ایک تجارتی جہاز گزر رہا تھا جس پر بہت بڑا خزانہ لدا تھا لیکن بحری جہاز کو سمندری ڈاکوؤں نے حملہ کر کے تباہ کر دیا اور سارا خزانہ لوٹ کر انھی غاروں میں سے کسی ایک میں چھپا دیا، لیکن آج تک کسی کو اس خزانے کا سراغ نہیں ملا ہے۔‘‘

    جیکس نے انھیں بتایا کہ بہت سارے لوگ خزانے کی تلاش میں آئے لیکن موت کے منھ میں چلے گئے۔ یہ باتیں سن کر وہ ساکت بیٹھے سنتے رہے۔ پھر ان کی کشتی ساحل پر پہنچ گئی۔ جیکس نے کہا: ’’اب آپ کشتی سے اتر کر کنارے تک جائیں کیوں کہ آگے کشتی نہیں جا سکتی۔ چوں کہ آپ نے مجھے اچھا کرایہ دیا ہے اس لیے میں چھ گھنٹوں تک آپ کی واپسی کا انتظار کروں گا اور اس دوران مچھلیاں پکڑوں گا۔ لیکن آپ لوگ دیر مت کرنا، ہمیں چھ گھنٹوں میں واپس جانا ہے، کیوں کہ میں اندھیرے میں کھلے سمندر میں کشتی نہیں نکالنا چاہتا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ جبران کے منھ سے بے ساختہ نکلا، وہ ایک دم گھبرا گیا تھا۔

    ’’بحری ڈاکوؤں کے بھوت…‘‘ جیکس نے سنسنی خیز لہجے میں کہا: ’’میں نے خود بھی دیکھے ہیں۔ ان کا بھوت جہاز بھی رات کو جزیروں کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اگر آپ انھیں قریب سے دیکھ لیں گے تو پھر واپس کبھی ساحل پر نہیں آ پائیں گے۔‘‘

    تینوں پھٹی آنکھوں سے جیکس کی طرف دیکھ رہے تھے، انھیں ریڑھ کی ہڈیوں میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ تینوں اسی عالم میں کشتی سے پانی میں اتر گئے اور ساحل کی طرف بڑھنے لگے۔ ایک قدم اٹھانے کے بعد جبران نے مڑ کر دیکھا اور بولا: ’’مجھے آپ کی باتوں پر بالکل یقین نہی ہے مسٹر جیکس، آپ ہمیں محض ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

    جیکس نے اس کی بات سن کر کوئی جواب نہیں دیا، بس زیر لب مسکرانے لگا۔

    (جاری ہے)