Tag: رقص کی محفل

  • بلبل چوہدری: رقص کرنے سے کہانی بُننے تک

    بلبل چوہدری: رقص کرنے سے کہانی بُننے تک

    رقص، پرفارمنگ آرٹ کی وہ شکل ہے جسے دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ کسی بھی خطے اور ملک میں رقص، صرف آرٹ اور ثقافت نہیں بلکہ اسے ایک قسم کی عبادت اور روحانی سکون کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

    یہاں ہم پاکستان کے اُس مشہور رقاص کا تعارف پیش کررہے ہیں جسے بلبل چوہدری کے نام سے دنیا بھر میں‌ پہچان ملی۔

    1919 میں بوگرا میں آنکھ کھولنے والے بلبل چوہدری کا اصل نام رشید احمد چوہدری تھا۔ والد ان کے پولیس انسپکٹر تھے اور چٹاگانگ کے ایک قصبے کے رہائشی تھے۔

    کہتے ہیں بچپن ہی سے بلبل چوہدری کو فنونِ لطیفہ سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ جلد ہی رقص نے ان کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی اور وہ اس فن میں گہری دل چسپی لینے لگے۔ زمانہ طالبِ علمی میں انھوں نے اسٹیج پرفارمنس شروع کی اور جب کالج پہنچے تو اورینٹل فائن آرٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔

    بلبل چوہدری کے لیے اسکول کے زمانے ہی میں رقص محض تفریحِ طبع کا ذریعہ اور تماشا نہیں رہا تھا بلکہ وہ اسے باقاعدہ فن کے طور پر اہمیت دینے لگے تھے جسے ان کی نظر میں باقاعدہ سیکھنے سکھانے اور فروغ دینے کی ضرورت تھی۔

    انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مشہور تنظیم انڈین پیپلز تھیٹریکل ایسوسی ایشن سے ناتا جوڑ لیا اور اس پلیٹ فارم سے جو بیلے ترتیب دیے ان کی شہرت امریکا اور یورپ تک جا پہنچی۔

    بلبل چوہدری نے 1943 میں ایک ہندو رقاصہ سے شادی کی جس نے اسلام قبول کر لیا اور قیامِ پاکستان کے بعد یہ جوڑا پاکستان آگیا۔ یہاں انھوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان تھیٹر اور اسٹیج پر پرفارمنس دی اور خوب شہرت حاصل کی۔ بہترین رقاص اور اس فن کے فروغ کی کوششوں کے اعتراف میں بلبل چوہدری کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔

    بلبل چوہدری ایک کہانی کار بھی تھے اور ایک ناول کے علاوہ ان کی متعدد مختصر کہانیاں بھی شایع ہوئیں۔ بلبل چوہدری سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔ 17 مئی 1954 کو انھوں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • کتھک رقص: اعضا کی شاعری کا خوب صورت انداز

    کتھک رقص: اعضا کی شاعری کا خوب صورت انداز

    فنونِ لطیفہ میں موسیقی، سُر تال اور گائیکی کے مختلف انداز کے ساتھ رقص بھی جذبات کے اظہار کی نہایت لطیف اور خوب صورت شکل ہے۔

    رقص جسمانی حرکات و سکنات کی ایک پُراثر، نہایت مرصع صورت اور تفریحَ طبع کا اعلیٰ ذریعہ ہے. کلاسیکی رقص کی بات کی جائے تو اسے اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔ اہلِ فن کے نزدیک رقص دماغ اور جسم کی موزوں‌ اور مترنم ہم آہنگی کا نام ہے جسے دنیا کی ہر تہذیب نے اپنایا اور اسے فروغ دیا۔

    کہیں اس رقص کے ذریعے دیوتاؤں کو خوش کیا جاتا ہے تو کبھی یہ روح کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ کہیں اسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے تو کہیں یہ محض تفریح اور دل کے بہلانے کا سامان کرتا ہے۔

    برصغیر میں کلاسیکی رقص کی ابتدا مندروں میں ہوئی، جہاں دیوی دیوتاؤں کی خوش نودی حاصل کرنے اور کہانیاں بیان کرنے کے لیے بدن بولی کا سہارا لیا گیا اور چہرے کے تاثرات سے کتھا بیان کی گئی۔ یہاں کے کلاسیکی رقص کی آٹھ بڑی اقسام بھرت ناٹیم، اوڈیسی، مانی پوری، کتھا کلی، موہِنی اٹَم، ستریہ وغیرہ ہیں جن میں سے کتھک رقص کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    کتھک کا لفظ سنسکرت کے ‘‘کتھا’’ سے نکلا ہے، اور نام سے ظاہر ہے کہ یہ واقعات اور داستانوں مجمع کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا جانے والا رقص ہے۔ اس کے ذریعے زیادہ تر رزمیہ داستانوں کو بیان کیا جاتا تھا اور ہر دور میں اس کے نت نئے رنگ اور انداز سامنے آئے۔ بعد میں اسے مہارت سے تحریر بھی کیا گیا اور سیکھنے والوں نے کتاب کے ذریعے اس رقص کی تعلیم لی اور مشق کر کے کمال حاصل کیا۔

    سندھ میں تہذیبی آثار سے برآمد مجسموں میں رقص کرتے ہوئے مرد اور عورتیں بھی نظر آتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رقص اور ناچ گانا صدیوں پہلے بھی اسی طرح‌ مقبول تھا۔ مغلوں کے دور میں رقص اور خاص طور پر کتھک کی سرپرستی کی گئی. تاریخ بتاتی ہے کہ کتھک کے ماہر دربار میں حاضر رہے۔ انھیں شاہانَ وقت کی جانب سے وظائف اور تحائف دیے جاتے اور ان کے فن کو سراہا جاتا رہا۔ مغل دربار کی زینت بننے کے بعد کتھک کو ترقی اور تبدیلی کے ساتھ نئی حرکات و سکنات اور معنوی خصوصیات سے مزین کیا گیا۔ اس طرح کتھک رقص کا دامن خوش رنگ ہوتا گیا۔ نواب سید واجد علی شاہ نہ صرف اس فن کے بہت بڑے قدر داں تھے بلکہ خود بھی اس فن میں کامل تھے۔ ان کے زمانے میں اس رقص میں کئی بنیادی اضافے بھی کیے گئے۔ کتھک رقص کی کئی اصطلاحات اور بنیادی نظام انہی کی دل چسپی سے نکھرا۔

    تقسیم کے بعد کتھک رقص میں کامل کہلانے والے مہاراج غلام حسین پاکستان آ گئے تھے اور 1999 تک یہاں اس فن کو زندہ رکھے رہے۔ مہاراج غلام حسین کی ایک ہونہار شاگرد ناہید صدیقی تھیں۔ ضیا دور میں ادب اور آرٹ کے مختلف شعبوں میں پابندیوں کی وجہ سے کتھک رقص کے کئی ماہر ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ آج بھی رقص اور کتھک کے حوالے سے لکھی گئی کتب میں ان کا نام محفوظ ہے۔