Tag: رنجیت سنگھ

  • رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    برِصغیر میں مسلمانوں کی بادشاہت کے علاوہ مختلف چھوٹی بڑی ریاستوں اور علاقوں میں بہت سے ہندو راجا اور حاکم بھی ہو گزرے، لیکن سکھ مذہب کے پیروکاروں میں صرف رنجیت سنگھ ہی تھا جس نے اپنی حکومت قائم کی اور پنجاب پر راج کیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کا دور ہندوستان کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

    27 جون 1839ء کو رنجیت سنگھ چل بسا تھا جس کے بعد اگلے دس برس ہی سکھوں کا اقتدار برقرار رہ سکا۔ کہتے ہیں‌ کہ اس وقت پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مثلیں (ایک لحاظ سے خود مختار ریاستیں) تھیں جو ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ ان میں سے ایک مثل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی۔ رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو اسی سکرچکیا مثل کے سردار مہان سنگھ کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا نام بدھ سنگھ رکھا گیا جو آگے چل کر رنجیت سنگھ کے نام سے مشہور ہوا اور سکھ سلطنت قائم کی۔ رنجیت سنگھ کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں وہ فتوحات کے بعد کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی سلطنت کو پھیلا چکا تھا۔ 19 سالہ رنجیت سنگھ نے 1799ء میں لاہور کو فتح کر کے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا۔

    رنجیت سنگھ کی دلیری اور بہادری کے ساتھ مؤرخین نے اس کی طرزِ‌ حکم رانی کو بھی شان دار قرار دیا ہے۔ رنجیت سنگھ کو شیرِ پنجاب بھی لکھا گیا ہے۔ مہاراجا نے سکھوں کی ایک منظم فوج تیار کی تھی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلومیٹر دور شالا مار باغ کے قریب تھا، جسے ”بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔ یہ 1811ء کی بات ہے اور 1839ء تک یہ سپاہ چالیس ہزار جوانوں پر مشتمل تھی۔ اگرچہ رنجیت سنگھ کے دربار میں‌ ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں‌ کی بنیاد پر منصب و مقام پر فائز رہے، لیکن بعض مؤرخین نے اقلیتوں کے لیے مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے۔ برصغیر میں بدقسمتی سے کئی بادشاہوں کو قوم و ملّت اور مذہب کی بنیاد پر مطعون بھی کیا گیا اور تعصب کی وجہ سے کئی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان میں کسی ایک نسل اور مذہب کے ماننے والے شامل نہیں بلکہ جہاں جس کا زور چلا اس نے کوئی بات کسی سے منسوب کردی رنجیت سنگھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے باوجود مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ مہاراجا کے دربار میں کسی کو رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز حاصل نہ تھا بلکہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی فضا برقرار رکھی گئی تھی۔

    رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ ضایع ہوچکی تھی اور وہ کانا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے وزیر خارجہ فقیر عزیز الدین سے کہا ‘رب چاہتا ہے کہ میں ہر مذہب کو ایک نظر سے دیکھوں اس لیے رب نے مجھے صرف ایک آنکھ ہی دی ہے۔ ‘ یہ واقعہ کرتار سنگھ دوگل کی کتاب ‘ رنجیت سنگھ ، دی لاسٹ ٹو لے آرم’ (Maharaja Ranjit Singh: The Last to Lay Arms) میں درج ہے۔ فقیر عزیز الدین کی طرح کئی اور مسلمان مہاراجہ رنجیت کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے جنھیں ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے ان عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔

    مہاراجہ رنجیت کا عقیدہ گروہ گرنتھ صاحب پر تھا اور وہ ایک پکا سکھ تھا، اس کے باوجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کا رحجان کسی ایک مذہب کی طرف نہیں دیکھا گیا۔

    انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحید الدّین و دیگر نے بھی رنجیت سنگھ کے دور حکومت پر تحقیقی مضامین سپردِ‌ قلم کیے اور ان کی کتابیں‌ رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کرتی ہیں۔

    رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں‌ کی تھیں۔ اس کی بیویوں میں‌ ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں‌ شامل تھیں۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیس بیویوں کے علاوہ رنجیت سنگھ کی کئی داشتائیں بھی تھیں۔ محققین کے مطابق رنجیت سنگھ حسن و شباب کا رسیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے بھی کرتا رہا۔

    مؤرخین کے مطابق اس نے سات مسلمان لڑکیوں سے شادی کی اور ان میں سے ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں تھی جسے سب سے زیادہ شہرت ملی۔ رنجیت سنگھ نے 1802ء میں موراں سے شادی کی اور موراں اس کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق موراں سے شادی کرنے کے لیے رنجیت سنگھ نے رقاصہ کے والد کی کئی شرائط قبول کیں۔ مشہور ہے کہ ان میں ایک شرط یہ تھی کہ مہاراجا کو موراں کے گھر آکر وہاں پھونکوں سے آگ جلا کر دکھانا ہوگی اور یہ شرط بھی مہاراجا نے پوری کی۔

    مہاراجا کی موراں سے چاہت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے موراں کے کہنے پر کئی فلاحی کام کیے، مساجد و باغ اور یادگاریں تعمیر کروائیں اور اس دور کی ایک مسجد آج بھی اندرونِ لاہور میں موجود ہے۔ موراں خود بھی ایک سخی اور مہربان عورت مشہور ہوئی۔ مشہور ہے کہ وہ اپنی سلطنت میں لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی۔ اسی سبب عام لوگوں نے اسے موراں سرکار کہنا شروع کردیا تھا۔ موراں سے اپنی چاہت جتاتے اور محبت نبھاتے ہوئے رنجیت سنگھ گل بہار بیگم پر فریفتہ ہوگیا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی اور مشہور ہے کہ گل بہار بیگم سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے اپنے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔ لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔

    مصنّف آروی اسمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی کے آخری برسوں میں بڑھتی عمر، اپنی بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکا تھا اور افیون کا عادی ہوگیا تھا۔ شراب نوشی کی کثرت اور فالج رنجیت سنگھ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وقت ان مذاہب میں عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ ہی ستی ہوجاتی تھیں اور رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویوں سمیت سات داشتائیں بھی اسی رسم کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔

    رنجیت سنگھ کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے اپنی آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ میں اس ستی کا احوال یوں رقم کیا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘

    مارٹن ہونی برجر مزید لکھتے ہیں، ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘ گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔

    جنازہ اٹھنے کا منظر وہ یوں بیان کرتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘

    لاہور میں 1847ء میں رنجیت سنگھ کی سمادھی تعمیر کر لی گئی اور وہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ کی راکھ اور چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ محفوظ کردی گئی۔

    رنجیت سنگھ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں‌ کا بہت شوق رکھتا تھا۔ اس کے اصطبل میں موجود گھوڑوں میں سے ایک ہزار گھوڑے مہاراجا کے لیے مخصوص تھے۔ لیلیٰ‌ ان میں سب سے خاص گھوڑی تھی۔ رنجیت سنگھ نے اسے حاصل کرنے کے لیے نہ صرف اپنے سپاہیوں کی جانیں گنوائیں بلکہ اس گھوڑی کو پانے کے لیے خوب رقم بھی خرچ کی۔ تب مہاراجا اسپِ لیلیٰ کا مالک بنا اور اسے ہیروں اور سونے سے مزین کیا۔ اس جانور سے رنجیت سنگھ کی انسیت کا خوب چرچا ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ لیلیٰ‌ کی موت پر اتنا رویا کہ اسے چپ کروانا مشکل ہوگیا تھا۔

  • گلاب سنگھ ڈوگرا “جمّوں کا ویمپائر”

    گلاب سنگھ ڈوگرا “جمّوں کا ویمپائر”

    سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہندو ڈوگرا برادری کے گلاب سنگھ کو اس کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا تھا۔ یہ سنہ 1822 کی بات ہے اور بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

    برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے قدم جمانے کے بعد گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846 کے معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ گلاب سنگھ کے دور کو اس کی سفاکی اور رعایا پر مظالم کی وجہ سے بدترین کہا جاتا ہے۔

    گلاب سنگھ کے دور میں جبر اور لوگوں پر مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج نے اپنے ایک خط میں کیا جو اس نے دو مارچ 1846 کو اپنی بہن کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ اور ان کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کی وصولی کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ڈوگرا دور میں بیگار لینے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

    ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے اس وقت لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ، جو اپنے پایۂ تخت لاہور میں موجود رنجیت سنگھ کا ایک منتظم کی حیثیت سے اعتماد حاصل کر چکا تھا، اب جمّوں کا راجا بنا دیا گیا۔ اس کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا منتظم رہا تھا اور گلاب سنگھ نے اپنے باپ ہی سے انتظامی امور اور سیاست سیکھی تھی۔ اسی کی موت کے بعد یہ اختیار گلاب سنگھ کو سونپا گیا تھا اور وہ کام یاب منتظم ثابت ہوا۔ بعد میں جہاں اس نے اپنے مربّی کے خلاف سازشیں کیں، وہیں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اپنی سلطنت قائم کرنے میں بھی کام یاب رہا۔

    گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ 1792ء بتایا جاتا ہے۔ جمّوں‌ میں پیدا ہونے والا گلاب سنگھ 30 جون 1857ء کو چل بسا تھا۔ کشمیر کی سرسبز وادی کا حسن پائمال کرنے اور لوگوں کی زندگی اجیرن کر دینے والے اس حکم راں کو انگریز انتظامیہ کے افسران اور برطانوی امراء نے بھی ظالم کہا اور برطانوی مؤرخین نے بھی اس کی سفاکیوں کو رقم کیا۔

    علّامہ اقبال اور اس وقت کے دیگر مسلم اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر ظلم اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں‌ کے ساتھ وہاں ہونے والے سلوک پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

    "لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

    "لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

    "1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

    "جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

  • رنجیت سنگھ کی پوتی جسے لاہور سے عشق اور اپنی ہندوستانی شناخت پر ناز تھا

    رنجیت سنگھ کی پوتی جسے لاہور سے عشق اور اپنی ہندوستانی شناخت پر ناز تھا

    لاہور کے گورا قبرستان میں ایک مدفن کے سرہانے پر خالصہ راج کا یادگاری نشان نمایاں ہے۔ یہ آخری آرام گاہ شہزادی بمبا سدرلینڈ کی ہے جو 1957ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔

    بمبا سدرلینڈ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں۔ وہ شاہی خاندان کی آخری فرد تھی جس نے لاہور میں وفات پائی۔ وہ شہر جہاں کبھی ان کے خاندان کا راج تھا اور شہزادی کے والد دلیپ سنگھ کی حکومت تھی۔

    رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1848ء میں انگریزوں نے پنجاب فتح کرنے کیا تو دلیپ سنگھ جو اس وقت مہاراجہ تھا، اسے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ بھیج دیا۔ وہاں اس خاندان کو ملکہ کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ بعدازاں دلیپ سنگھ نے اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائیت قبول کر لی اور برطانوی اشرافیہ کا حصّہ بن گیا، لیکن وہ اپنی شاہ خرچیوں اور کثرتِ شراب نوشی کے سبب برباد ہوگیا اور 1895ء میں پیرس میں وفات پا گیا۔

    دلیپ سنگھ کی پہلی بیوی سے چھے بچّے پیدا ہوئے جن میں سے ایک کا نام بمبا صوفیہ جنداں (Bamba Sofia Jindan) تھا۔ 29 ستمبر 1869ء کو لندن میں آنکھ کھولنے والی بمبا نے مشنری اسکول میں تربیت اور تعلیم کے مراحل طے کیے۔وہ اوائلِ عمر سے ہی اپنی شاہی اور ہندوستانی شناخت کے بارے میں‌ سنجیدہ رہی تھی۔ اسے اپنے دادا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے جانے اور اپنے خاندان کی برطانیہ منتقلی کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں‌ بڑی مشکل پیش آئی۔

    رنجیت سنگھ کا راج شمال مغرب میں درّۂ خیبر سے مشرق میں دریائے ستلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور سلطنت کا صدر مقام تھا۔ اسی مہاراجہ کے بیٹے دلیپ سنگھ کی صاحب زادی شاہزادی بمبا سدرلینڈ نے 88 برس کی عمر میں ضعف اور ناتوانی کے عالم میں‌ دم توڑا۔ فالج سے ان کا جسم متاثر تھا اور بینائی بھی کمزور ہوچکی تھی۔

    لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہزادی بمبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا اور بعد میں‌ وہ امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج چلی گئی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے ہندوستان آنا جانا شروع کیا اور لاہور کے حُسن اور سکھ دور اور شاہی خاندان کی یادگاروں نے انھیں یہیں‌ قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ شہزادی نے انگلستان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ انھوں نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ کو ’گلزار‘ کا نام دیا اور اس میں کئی اقسام کے گلاب کے پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال میں‌ مصروف ہوگئیں۔

    سنہ 1915 میں شہزادی بمبا نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے شادی کر لی جو 1939 تک زندہ رہے۔ شہزادی بمبا کی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے بھی ملاقاتیں‌ رہیں جو ان کی بے انتہا عزّت کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر وہ انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرسکتی تھیں جو ان کا حق تھا، لیکن انھوں نے لاہور میں اپنے والد دلیپ سنگھ کی جائیداد اور دیگر معاملات کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔

    شہزادی بمبا کو آرٹ سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کے پاس بیش قیمت پینٹگز کا ایک خزانہ موجود تھا جو وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے خاص ملازم پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دیا گیا۔ اس میں واٹر کلر، ہاتھی کے دانتوں پر پینٹنگز، مجسمے اور آرٹ کے دیگر شاہکار شامل تھے۔ لندن میں سکھ خاندان کے نوادرات کو وصیت کے مطابق جب ملازم پیر کریم بخش نے حکومتِ پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دی تو اس کا احترام کیا گیا اور ایک ہفتے میں نوادرات لاہور پہنچ گئے۔ بعد میں ان اشیا کو شہزادی بمبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر دیا گیا۔ بعد میں اسے قومی اثاثہ قرار دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں محفوظ کیا گیا۔

  • اکال گڑھ اور گجرات کی مہمّات

    اکال گڑھ اور گجرات کی مہمّات

    چوں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ترقی اور حصولِ ریاست و دولت سے سب سکھ سردار جلتے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ تازہ نہالِ بوستانِ جاہ و جلال بڑھنے نہ پائے، ابھی سے اس کو کاٹ دیا جائے تو بہتر ہے۔

    زیادہ تر حسد و بغض اس وقت سردار صاحب سنگھ بھنگی کو تھا جس کا قبضہ لاہور کے تیسرے حصے سے بھی جاتا رہا تھا اور آئندہ اس کو اطمینان نہ تھا کہ حتیٰ الامکان مہاراجہ رنجیت سنگھ اس کے علاقے پر قبضہ نہ کرے گا، بلکہ اس کو یقین تھا کہ لاہور میں رنجیت سنگھ جمعیت قائم کرکے مجھ پر حملہ آور ہو گا۔

    اس فکر و اندیشہ میں اس نے فوج کو بڑھایا اور سامان جنگ کا بہت سا جمع کیا اور قریب تھا کہ وہ ایک بڑے بھاری مجمع کے ساتھ لاہور پر یورش کرے، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب یہ خبر پائی مناسب جانا کہ خود دشمن پر حملہ کرے اور اس کا ملک اس سے چھین لے یا اپنا تابع دار بنائے۔ چنانچہ موجودہ فوج کے ساتھ فوراً گجرات کو روانہ ہوا۔ جب فوج گجرات کے نزدیک پہنچی، صاحب سنگھ میدان میں آیا اور قلعے کے دروازے بند کرکے لڑائی شروع کی۔ مہاراجہ کی فوج نے قلعے کے چاروں طرف مورچے باندھ دیے اور توپ سے گولہ بازی شروع کی۔ بہت روز تک فریقین کی طرف سے گولہ چلتا رہا۔ گولوں کی ضرب سے بہت سی دیوار گر گئی اور صاحب سنگھ فتح سے ناامید ہو گیا۔ تب اس نے پیغام صلح کا بھیجا اور اطاعت پر راضی ہوا۔

    رنجیت سنگھ نے اس سے بڑا بھاری نذرانہ لیا اور آئندہ کے لیے وعدہ اطاعت کا لے کر محاصرہ اٹھا لیا اور لاہور کو واپس آیا۔ لاہور میں آکر خبر پہنچی کہ سردار دل سنگھ، سردار مہان سنگھ مہاراجے کے باپ کا دوست، جس کو سردار مہان سنگھ نے قصبہ اکال گڑھ فتح کرکے بخش دیا تھا، صاحب سنگھ کا دوست و رفیق بن گیا ہے اور دونوں آپس میں ایک ہو کر چاہتے ہیں کہ فوج بڑھا کر لاہور کو آئیں اور جنگ کریں۔

    چوں کہ دل سنگھ دست پروردہ و پرورش یافتہ سردار مہان سنگھ کا تھا، اس بات کے سننے سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نہایت آزردہ خاطر ہوا اور چاہا کہ جب تک دشمن اپنے ارادے پر کام یاب ہوں، پہلے ہی سے ان کا انتظام کر لے۔

    فی الفور ایک خط بہ نام دل سنگھ بہ مضمون ’’اشتیاقِ ملاقات اور جوشِ محبت کے‘‘ لکھا اور درج کیا کہ’’ جس طرح سے میرا باپ آپ کا جانی دوست اور دلی خیر خواہ تھا، اسی طرح میں ہوں اور یہ بھی مجھ کو یقین ہے کہ آپ کو بھی بہ نظر محبت میرے باپ کے مجھ سے زیادہ کوئی عزیز نہ ہو گا اور جس طرح کہ آپ نے اور میرے باپ نے باہم محبت و اتفاق رکھ کر ملک گیری کی اور سردار و والیانِ ملک بن گئے، اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ بلا تامل میرے پاس چلے آئیں اور میری ہمراہی میں فتوحات میں مشغول ہوں۔ دونوں کی سعی و کوشش سے جو ملک مفتوح ہو گا وہ نصفا نصف تصور کیا جائے گا۔ ایک مقام پر بیٹھ کر قناعت کرنا جواں مردوں اور بہادروں کا کام نہیں ہے۔ آپ میرے بزرگ اور میرے باپ کے دوست ہیں۔ مجھ کو آپ سے کچھ دریغ نہ ہو گا۔‘‘

    یہ تحریر جب سردار دل سنگھ کے پاس پہنچی، طمع کے دام میں آگیا اور فوراً صاحب سنگھ سے برگشتہ ہو کر تیار ہو گیا کہ رنجیت سنگھ کے پاس جا کر اور اس کی فوج لا کر صاحب سنگھ سے ملک چھین لے۔ غرض وہ لاہور میں آگیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پہلے ملاقات بڑے تپاک سے اس کے ساتھ کی اور قلعے کے اندر اتارا۔ جب رات ہوئی تو سپاہیوں کا پہرہ اس پر تعینات کر کے نظر بند کر لیا۔ جب وہ قید میں آگیا تو اکال گڑھ کے دخل کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ مع فوج لاہور سے روانہ ہوا۔ دل سنگھ کی رانی نے یہ خبر پائی کہ رنجیت سنگھ میرے شوہر کو قید کر کے اکال گڑھ کے فتح کرنے کو آیا ہے تو فی الفور اس نے شہر کے دروازے بند کر لیے اور قلعے پر دو توپیں چڑھا دیں اور چاروں دیواروں پر فوج مامور کر کے مستعد بہ جنگ ہو بیٹھی۔ جب رنجیت سنگھ وہاں پہنچا، معاملہ دگرگوں نظر آیا جس کی امید نہ تھی۔ اگرچہ بعض آدمیوں نے منع کیا کہ اب عورت سے لڑنا مردوں کو کیا ضرور ہے، جب اس کا خاوند ہی ہمارے پاس قید ہے تو یہ ملک گویا ہمارا ہی ملک ہے۔ مگر رنجیت سنگھ اپنی ضد سے باز نہ آیا اور لڑائی شروع کر دی۔

    دونوں طرف سے توپ و بندوق چلنے لگی۔ بہت روز لڑائی ہوتی رہی۔ اکثر اوقات وہ عورت اپنی فوج کے ساتھ قصبے سے نکل کر بھی رنجیت سنگھ کی فوج پر مردانہ وار حملہ کرتی۔ ادھر تو لڑائی جاری رکھی اور ادھر اس نے اپنا وکیل صاحب سنگھ بھنگی کے پاس بہ طلب امداد و کمک کے بھیجا۔ صاحب سنگھ اسی وقت اس کی امداد کو تیار ہوا اور جودہ سنگھ حاکم وزیر آباد کو لکھا کہ وہ بھی اس امداد میں اس کے شامل ہو۔ ابھی دشمن اپنے اپنے مقام سے فوج لے کر روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رنجیت سنگھ کو بھی کسی معتبر کی زبانی یہ خبر مل گئی اور جانا کہ اگر دو دشمن اس طرح سے اور تیسرا دشمن، جو محصور ہے، میرے مقابل ہوں گے تو فتح مشکل ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اکال گڑھ کا محاصرہ چھوڑ کر پہلے ان کا انتظام کر لیا جائے۔ چنانچہ قلعے کا محاصرہ چھوڑ کر گجرات کو روانہ ہوا۔ چوں کہ جودہ سنگھ وزیر آباد یہ بھی دست پروردہ مہان سنگھ کا تھا۔ اور وزیر آباد فتح کرکے سردار مہان سنگھ نے ہی اس کو دیا ہوا تھا، ایک خط شکایتاً قدیمی احسان یاد دلا کر اس کے نام تحریر کیا کہ وہ اپنی فوج لے کر صاحب سنگھ کے شامل نہ ہو۔

    جب لشکر لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ گجرات کے قریب گیا تو شہر سے باہر دو میل پر آ کر صاحب سنگھ مقابل ہوا۔ دونوں فریق صبح سے شام تک لڑتے رہے، فریقین سے بہت سے بہادر کام آئے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے روز خفیف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ چوتھے روز صاحب سنگھ شہر سے باہر نہ نکلا اور محصور ہو کر لڑنے لگا۔

    مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مورچہ قائم کر کے شہر و قلعہ پر گولہ باری شروع کی۔ چند روز یہ حال رہا۔ آخر صاحب سنگھ بیدی نے، جو گورونانک کی اولاد سے صاحب زادہ بلند اقتدار تھا اور تمام مثلوں کے سکھ سردار اس کا ادب و لحاظ بہ دل کرتے تھے، درمیان میں آکر چاہا کہ کسی طرح دونوں کی آپس میں صلح ہو جائے اور صاحب سنگھ کی طرف سے رنجیت سنگھ کے پاس آکر صلح کا پیغام دیا اور اپنی طرف سے بھی نصیحت کی اور کہا کہ خالصہ جی کو کہ ایک گورو کے سکھ ہیں، آپس میں کمال محبت و اختلاط درکار ہے، نہ کہ آپس میں تلوار چلتی رہے اور ہزاروں بندگانِ خدا کا خون ہو۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے صاحب سنگھ بیدی کی بہت تعظیم کی اور نذرانہ و جرمانہ و خرچ فوج کا لینا کر کے محاصرہ اٹھا لیا اور آئندہ کے لیے یہ قرار پایا کہ صاحب سنگھ بھنگی و دل سنگھ اکال گڑھیہ کبھی رنجیت سنگھ کے برخلاف اس کی نسبت ارادہ لڑائی و فساد کا نہ کریں گے اور اس میں صاحب سنگھ بیدی نے ضمانت دی اور نذرانہ معقول اس سے وصول کیا۔

    جب یہ انتظام ہو چکا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی فوج لے کر لاہور آگیا۔ جب سردار دل سنگھ قید سے چھوٹ کر اکال گڑھ کو گیا، غم و غصہ کی حالت میں تھا۔ جاتے ہی بیمار ہو گیا اور چند روز میں مر گیا۔ اس کے مر جانے کی خبر جب رنجیت سنگھ کو پہنچی تو چاہا کہ اکال گڑھ جا کر اپنا قبضہ کرے، ایسا نہ ہو کہ صاحب سنگھ گجراتیہ، گجرات سے آکر اس علاقے کو اپنے تصرف میں کرے۔

    یہ خیال دل میں قائم کرکے بہت جلد اکال گڑھ کو روانہ ہوا۔ جب چار میل کے فاصلے پر اکال گڑھ سے پہنچا تو اپنا ایک معتبر بھیج کر دل سنگھ کی بیوہ کو اطلاع دی کہ’’ بہ استحکام رابطہ محبت کے جو قدیم سے فی مابین سردار مہان سنگھ اور دل سنگھ کے مربوط تھا، جب تک وہ دونوں سردار زندہ رہے کوشش ہوتی رہی اور اب جو وہ دونوں سرگباش ہو گئے، ہم کو چاہیے کہ جب تک زندہ ہیں اس سلسلے کو نہ توڑیں بلکہ روز بہ روز مضبوط کریں تو بہتر ہے۔

    سردار دل سنگھ کے مرنے کا مجھ کو کمال غم ہے اور محض اسی واسطے لاہور سے چل کر آیا ہوں کہ ماتم پرسی کی رسم بجا لاؤں اور اس غم و ماتم میں تمہارے ساتھ شامل ہو کر شرائط ہمدردی و غم خواری کی بجا لاؤں۔ تم کو چاہیے کہ کسی طرح کا اندیشہ دل میں نہ کرو اور نہ میری طرف سے بدظن ہو۔‘‘ دل سنگھ کی بیوہ نے جب یہ پیام سنا، اگرچہ اس کے دل میں سخت اندیشہ ہوا کہ شاید رنجیت سنگھ اپنے عہد سے پھر جائے اور شہر میں داخل ہو کراپنا قبضہ کر لے مگر اس سے بھی اس کو اطمینان تھا کہ فیصلہ اس کے شوہر کا رنجیت سنگھ کے ساتھ معرفت صاحب سنگھ بیدی کے ہو چکا تھا اور مستحکم عہد ہو چکے تھے کہ آئندہ نہ تو دل سنگھ کبھی رنجیت سنگھ کی بدی میں راضی ہو اور نہ رنجیت سنگھ کبھی اس کو تکلیف دے۔ یہ کب ممکن ہے کہ اب رنجیت سنگھ اب عہد سے، جو اس نے ایک گورو بیدی کے سامنے کیا ہے، پھر جائے۔ یہ سوچ کر اس نے کہلا بھیجا کہ بہ تقریب ماتم سردار دل سنگھ کے تمام دوست و اقربا قدم رنجہ کر رہے ہیں۔ اگر رنجیت سنگھ نے بھی تکلیف کی ہے تو بے شک آجائے، کوئی اس کو مانع نہیں۔

    جب یہ بشارت رنجیت سنگھ نے سنی بہت خوش ہوا اور مع اپنی فوج کے شہر میں گھس گیا۔ جاتے ہی شہر اور قلعے کا انتظام کر لیا۔ اپنے سپاہی خزانہ و ذخیرہ وغیرہ مقامات پر مامور کردیے۔ دل سنگھ کی بیوہ اوراس کے خرد سال بچوں کو نظر بند کر لیا۔ دل سنگھ کی فوج جو شہر کے باہر اتری ہوئی تھی یہ خبر پا کر جا بجا متفرق ہو گئی۔ اس ضبطی میں رنجیت سنگھ کو بہت سا خزانہ ملا اور بہت سے ہتھیار وغیرہ اور سامان ملک داری کا حاصل ہوا۔ جب دل سنگھ کے تمام علاقے پر دخل پا چکا، اس میں سے دو گاؤں سردار دل سنگھ کے بیٹوں اور بیوہ کے خرچ کے لیے وا گزار کیے جس سے وہ پرورش پائیں۔

    (ماخوذ: ’’تاریخِ پنجاب، کنہیا لال‘‘)

  • نہر پار کرکے لاہور آنے والی مسلمان لڑکی کیوں مشہور ہوئی؟ تفصیل جانیے

    نہر پار کرکے لاہور آنے والی مسلمان لڑکی کیوں مشہور ہوئی؟ تفصیل جانیے

    واہگہ باڈر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر "پُل کنجری” کی طرف جانے والے آج بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مہارانی موراں کا نام لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ آج یہ پُل اور یہ مقام صرف تاریخ کی ایک نشانی اور اس عشق کا وہ حوالہ ہیں‌ جب ایک مہاراجہ نے ناچنے والی ایک عورت کو اس کی ذات اور اس کا مسلک، سماج میں اس کے مقام و مرتبے دیکھے بغیر اپنا دل دے دیا تھا، لیکن ہر دن اس راہ گزار کے مٹتے ہوئے وجود کے ساتھ وہ داستانِ الفت بھی تازہ ہوتی جارہی ہے جو تاریخ کا حصّہ ہے۔

    کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔ اس کا رقص مشہور تھا۔ قسمت نے یاوری کی تو اسے پنجاب میں شاہی برادری نے رقص کے لیے طلب کرلیا، وہاں 21 سالہ رنجیت سنگھ بھی موجود تھا جو اس طوائف پر دل ہار بیٹھا۔ اب موراں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر اکثر لاہور آنا پڑتا تھا۔

    مشہور قصّوں اور روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ وہ ہنسالی نہر کے راستے آرہی تھی تو اس کی جوتی پانی میں‌ جا گری۔ وہ ننگے پاؤں دربار پہنچی جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نظر اس کے پیروں پر پڑی۔ مہارجہ نے آتشِ عشق کو چھپائے اپنی موراں سے ماجرا دریافت کیا تو اس نے راستے کی دشواری اور نہر سے گزرنے کی پریشانی بتا دی۔ رنجیت سنگھ نے حکم دیا کہ نہر پر جلد سے جلد پُل تعمیر کیا جائے۔ یہ پُل کنجری کے نام سے مشہور ہوا جو کسی ناچنے والی کے لیے بولا جانے والا مقامی زبان کا لفظ ہے لیکن بعد میں اسے پُل موراں کہا جانے لگا۔

    رنجیت سنگھ نے اظہارِ عشق کر دیا تھا اور اب دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں اور مشہور ہے کہ وہ پُل موراں کے قریب ایک جگہ پر ملاقات کرتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گھوڑے پالنے کا شوق اور شراب کی لت کے علاوہ اس کا رومان پرور ہونا بھی مشہور ہے، لیکن موراں‌ وہ لڑکی تھی جس کے لیے اس نے خود کو یکسر مختلف ثابت کر دکھایا اور سماج اور مذہب کی مخالفت کے باوجود محبّت کو اپنایا اور نبھایا بھی۔

    وہ ضد کا پکّا تھا۔ ایک مسلمان لڑکی سے ایسا نباہ کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ پورے پنجاب کا حکم ران رنجیت سنگھ تھا جس نے شادی کے بعد اپنی محبوبہ کے نام کا سکّہ جاری کیا اور ایک طوائف کو موراں سرکار کے نام سے سماج و برادری میں اعلیٰ درجے پر فائز کیا۔

    موراں کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ حسن و جمال اور قد و قامت میں بے مثال تھی بلکہ رنجیت سنگھ اس کی ذہانت اور عقل و دانش کا بھی قائل ہوگیا تھا۔ رنجیت سنگھ تخت لاہور پر بیٹھا تو مکھن پور گاؤں کی موراں کے لیے رشتہ بھیج دیا اور مشہور ہے کہ لڑکی کے باپ نے سخت شرائط رکھ دیں۔ رنجیت سنگھ نے تمام شرطیں پوری کیں اور برادری کو بڑی عزت و تکریم دی۔

    رنجیت سنگھ کی حکومت خالصہ سرکار کہلاتی تھی جو سکھوں کے سب سے با اختیار اکال تخت کے احکامات اور ہدایات کی پابند تھی۔ اکال تخت کے جتھے داروں کو مہاراجہ کا ایک مسلمان لڑکی کی زلفوں کا اسیر ہو کر شادی کے لیے یوں پیغام بھیجنا ہرگز پسند نہ آیا اور ان کی جانب سے سخت اعتراض کیے گئے۔ اکال تخت نے رنجیت سنگھ کو طلب کیا تو اس نے بلا تأمل اقرارِ عشق کر لیا۔ اسے کوڑوں کی سزا سنائی گئی جو اس نے بخوشی قبول کرلی اور صاف کہہ دیا کہ وہ موراں کو نہیں‌ فراموش کرسکتا۔ کہتے ہیں ایک کوڑا مارنے کے بعد اس پر پنچایت نے جرمانہ کرکے چھوڑ دیا تھا۔

    رنجیت سنگھ کے حرم میں داخل ہونے والی موراں کو سرکاری طور پر مہارانی کا درجہ دیا گیا۔ شادی کے بعد موراں لاہور آگئی جہاں حویلی کے ساتھ ایک مسجد بنوائی جو مسجد طوائف کے نام سے مشہور تھی اور بعد میں اس کا بھی نام بدل کر مسجدِ موراں رکھ دیا گیا۔

    رنجیت سنگھ کی غریب پروری اور رفاہِ عامّہ کے کاموں میں موراں کا بہت کردار رہا جس کی وجہ سے لوگ اسے موراں سرکار اور مائی موراں کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ وہ عام لوگوں اور مہاراجہ کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتی رہی اور لوگوں کی حاجت روا ثابت ہوئی۔ موراں شادی کے دس سال بعد پٹھان کوٹ منتقل ہوگئی تھی۔ مائی موراں نے 1862ء میں وفات پائی۔ وہ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • شاہی قلعے کے باہر نصب رنجیت سنگھ کا مجسمہ مسمار، ملزم گرفتار

    شاہی قلعے کے باہر نصب رنجیت سنگھ کا مجسمہ مسمار، ملزم گرفتار

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں شاہی قلعے کے باہر نصب سکھ سلطنت کے پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ گرا دیا گیا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق شاہی قلعے کے باہر نصب رنجیت سنگھ کا مجسمہ گرا دیا گیا، مجسمے کو علی الصبح کچھ افراد نے گرایا جن میں سے ایک شخص کو بعد ازاں گرفتار کرلیا گیا۔

    سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک باریش شخص گھوڑے پر سوار رنجیت سنگھ کے مجسمے کو گرا رہا ہے جبکہ اس موقع پر کچھ لوگوں نے اسے پکڑ کر روکنے کی بھی کوشش کی۔

    سی سی پی او کا کہنا ہے کہ ملزم رضوان نے ہتھوڑے سے مجسمے کو نقصان پہنچایا، ملزم کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

    سی سی پی او نے ایس پی سٹی کو فوری طور پر موقع پر جانے کی بھی ہدایت کی ہے۔

    خیال رہے اس سے قبل بہاولپور میں نصب کیے گئے اولمپیئن سمیع اللہ خان کے مجسمے سے ہاکی اور گیند چرائی گئی تھی جس کے ملزم کو بعد ازاں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    اولمپیئن سمیع اللہ خان کے مجسمے سے ہاکی اسٹک اور گیند چرانے والا ملزم 48 گھنٹے کے اندر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے اعتراف جرم کیا اور اپنے کیے پر شرمندگی ظاہر کی تھی۔

    پولیس کا مزید کہنا تھا کہ سمیع اللہ خان پاکستان کے ہیرو ہیں، سرکاری املاک اور یادگاروں کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

  • رنجیت سنگھ کے ساتھ ہی مہارانیوں نے بھی زندگی سے منہ موڑ لیا

    رنجیت سنگھ کے ساتھ ہی مہارانیوں نے بھی زندگی سے منہ موڑ لیا

    برِصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے صدیوں تک حکم رانی کی، لیکن سکھ مذہب کے ماننے والوں‌ کو اس خطّے میں صرف مہاراجا رنجیت سنگھ کی بدولت سلطنت نصیب ہوئی جو 27 جون 1839ء کو اس دنیا سے کوچ کرگیا تھا۔

    رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو گوجراں والا میں پیدا ہوا۔ وہ سکرچکیا مثل کے سربراہ مہان سنگھ کا بیٹا تھا، جو دریائے راوی اور چناب کے درمیانی علاقے پر مشتمل تھی اور اس کا صدر مقام گوجراں والا تھا۔

    مہان سنگھ نے بچّے کا نام بدھ سنگھ رکھا جسے رنجیت سنگھ کے نام سے شہرت ملی اور وہ ایک سکھ سلطنت قائم کرنے میں‌ کام یاب ہوا۔ اس کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں اس نے کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی حکم رانی قائم کرلی تھی۔

    مذہبی اعتبار سے رنجیت سنگھ کے دور اور اس کے طرزِ‌ حکم رانی کو جہاں بعض‌ مؤرخین نے شان دار اور روادای کا مظہر بتایا ہے، وہیں اس حوالے سے اختلافات اور مباحث بھی موجود ہیں۔ اسے بہادر اور شیرِ پنجاب اور ایسا حکم راں لکھا گیا ہے، جس کے دربار میں‌ ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں‌ کی بنیاد پر منصب و مقام حاصل کرنے میں‌ کام یاب ہوئے، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے دور میں‌ بلند آواز سے اذان دینا ممنوع تھا جب کہ ذبح اور دیگر شعائرِ اسلام کی ادائیگی بھی آسان نہ تھی۔

    رنجیت سنگھ کے عہد پر انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحیدالدّین و دیگر کی بھی تحقیق اور تالیف کردہ کتب شایع ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی کتب ہیں‌ جن میں محققین نے مختلف واقعات، روایات اور قصّوں کو بنیاد بنا کر رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کی ہیں۔

    رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں‌ کی تھیں اور اس کی بیویوں میں‌ ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں‌ شامل تھیں۔ ان میں‌ سے کئی نے مہاراجا کی موت کے بعد ستی ہونا پسند کیا، یہاں‌ ہم اسی بارے میں تاریخی کتب سے معلومات نقل کررہے ہیں۔

    بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ رنجیت سنگھ کی 20 بیویاں اور کئی داشتائیں بھی تھیں۔

    شاہانِ وقت کی طرح اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے کرنے کے علاوہ رنجیت سنگھ حسن و شباب سے لطف اندوز ہونا جانتا تھا۔

    مؤرخین کے مطابق مہاراجا نے نو عورتوں سے سکھ مذہب کے تحت شادی کی جب کہ سات مسلمان لڑکیوں کو بھی بیاہ کر لایا۔

    انہی میں‌ ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں بھی شامل ہے جس سے 1802ء میں شادی کی۔ موراں رنجیت سنگھ کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق اس سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے موراں کے والد کی تمام شرائط قبول کیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شرط یہ تھی کہ راجا موراں کے گھر پھونکوں سے آگ جلائے اور مہاراجا نے یہ بھی کیا۔

    اس نے موراں کے نام سے باغ تعمیر کیے، مسجد بنائی جو آج بھی اندرونِ لاہور موجود ہے۔ موراں لاہور میں خوب مقبول ہوئی۔ وہ لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی اور لوگ اسے موراں سرکار کہنے لگے تھے۔

    مہاراجا موراں کے بعد گل بہار بیگم کی محبت میں‌ گرفتار ہوا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی جس سے شادی کے لیے خود رنجیت سنگھ بڑے اہتمام سے تیّار ہوا۔ کہتے ہیں اس نے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔

    لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔ پنجاب پر قبضے کے بعد برطانوی حکومت نے گل بہار بیگم کا سالانہ وظیفہ 12380 روپے مقرر کیا۔

    لکھاری آروی سمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ آخری برسوں میں بڑھتی عمر اور بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکے تھے اور افیون کے عادی ہوگئے۔ فالج اور شراب نوشی کی کثرت جان لیوا ثابت ہوئی۔ رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویاں اور سات ہندو داشتائیں ان کے ساتھ ہی ستی ہو گئیں۔

    اس حکم راں‌ کی وفات کے بعد اس کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے جو آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ لکھی، اس میں ستی کا احوال یوں بتایا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘

    ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘

    گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔

    ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘

    ’رانیاں رنجیت سنگھ کے جسد کے سَر کی جانب اور کنیزیں پاؤں کی جانب درد انگیز انتظار میں لیٹ جاتی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں اس تقریب کے بعد سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔

    لاہور میں رنجیت سنگھ کی سمادھی کی تعمیر 1847ء میں مکمل ہوئی، جہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ جب کہ چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ رکھی ہوئی ہے۔

    رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت دس برس تک قائم رہ سکی۔

  • گلاب سنگھ کو “جمّوں کا ویمپائر” کیوں‌ کہا جاتا ہے؟

    گلاب سنگھ کو “جمّوں کا ویمپائر” کیوں‌ کہا جاتا ہے؟

    جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔

    لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔

    لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔

    1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔

    جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔

    (تاریخ کے اوراق سے خوشہ چینی)

  • مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، رنجیت سنگھ کا مودی سرکار کے خلاف اہم اعلان

    مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، رنجیت سنگھ کا مودی سرکار کے خلاف اہم اعلان

    اسلام آباد: ورلڈ سکھ پارلیمنٹ کے ممبر رنجیت سنگھ نے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ میں مودی سرکار کے خلاف درخواست جمع کرائیں گے۔

    ان خیالات کا اظہار رنجیت سنگھ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں گفتگو کرتے ہوئے کیا، انھوں نے کہا کہ مودی سرکار ایسے قوانین بناتی ہے جس سے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہم اقوام متحدہ میں مودی سرکار کے خلاف درخواست جمع کرائیں گے۔

    انھوں نے کہا مودی سرکار کسانوں کے احتجاج سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طرح سکھ بھی تحریک لے کر چل رہے ہیں، دنیا بھر میں مودی سرکار کے خلاف سکھ سراپا احتجاج ہیں۔

    رنجیت سنگھ کا کہنا تھا مقبوضہ کشمیر میں صورت حال بہت خراب ہے، کسان بھی اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، لیکن جائز مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والوں پر تشدد کیا گیا، کسان پہلے ہی غریبی میں رہ رہے ہیں اور خود کشیاں کر رہے ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا مودی نے اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے پورا قانون تبدیل کیا، وہ کسانوں سے متعلق نیا نظام لانا چاہتا ہے، سرکار کسانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہی ہے، اور کسانوں کو ان کا جائز حق نہیں دیا جا رہا۔

    رنجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ مودی کو کسانوں نے چیلنج کیا ہے اسے سمجھ نہیں آ رہا کہاں جائے، بھارت میں صورت حال انتہائی خراب ہے، 5 لاکھ کسانوں نے اپنے مطالبات مودی سرکار کو پیش کیے ہیں، کسانوں کے کوئی سیاسی مطالبات نہیں ہیں، لیکن کسانوں کی تحریک یا احتجاج کو سیاست سے جوڑا جا رہا ہے۔

  • ہمیں بھارت کو قابو کرنا ہی ہوگا: جنرل سیکریٹری کونسل آف خالصتان

    ہمیں بھارت کو قابو کرنا ہی ہوگا: جنرل سیکریٹری کونسل آف خالصتان

    لاہور: کونسل آف خالصتان کے جنرل سیکریٹری رنجیت سنگھ نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، ہمیں بھارت کو قابو کرنا ہی ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق جنرل سیکریٹری کونسل آف خالصتان اے آر وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں گفتگو کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو قابو کرنا ہی ہوگا، وہ مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

    [bs-quote quote=”بھارت اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کر رہا ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”رنجیت سنگھ” author_job=”جنرل سیکریٹری کونسل آف خالصتان”][/bs-quote]

    خالصتان کونسل کے رہنما نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے۔

    انھوں نے کہا ’بھارت اقوام متحدہ کی رپورٹ کو نظر انداز کر رہا ہے، اور اپنی اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کر رہا ہے، دوسری طرف بھارتی لابی اپنے عزائم چھپانے کے لیے یورپ میں بہت متحرک ہے۔‘

    رنجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کرتارپور بارڈر کھول کر بہت اچھا قدم اٹھایا ہے، ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان ہی امن چاہتا ہے بھارت نہیں، پاکستانی عوام اقلیتوں کے ساتھ بہت محبت کرتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بھارت میں بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر آواز اٹھ رہی ہے، شاہ محمود قریشی

    رنجیت سنگھ نے مزید کہا کہ پاکستان نے کرتارپور بارڈر پر 65 فی صد کام کر لیا ہے، بھارت نے اب تک کرتارپور بارڈر پر ایک فی صد کام بھی نہیں کیا، وہ کرتارپور بارڈر معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔

    رنجیت سنگھ نے کہا ’وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے انسانیت بھرا پیغام دیا ہے۔‘