Tag: رنگوں کا اندھا پن

  • کلر بلائنڈنس ’رنگوں کا اندھا پن‘ کیوں ہوتا ہے؟ علامات اور علاج

    کلر بلائنڈنس ’رنگوں کا اندھا پن‘ کیوں ہوتا ہے؟ علامات اور علاج

    کلر بلائنڈنس یعنی رنگوں کا اندھا پن ایک ایسی حالت ہے جو کسی فرد کی رنگوں کو درست طریقے سے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے، ایسے لوگوں کو نیلے، پیلے، لال اور ہرے رنگ کی چیزوں کو پہچاننے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آئی سرجن ڈاکٹر عمیر قدوائی نے اس مرض کے حوالے سے ناظرین کو تفصیل سے آگاہ کیا اور اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ حالت عام طور پر لوگوں کو وراثت میں ملتی ہے اور ایکس کروموسوم پر جینز کے ذریعے منتقل ہوتی ہے، یعنی اگر والدین میں سے کوئی ایک کلر بلائنڈ ہو تو بچوں میں بھی یہ چیز ضرور آتی ہے۔

    کلر بلائنڈنس کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے، اکثر بچے کلر بلائنڈنس کے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں اور اکثر اوقات جوانی میں آکر لوگوں کو اس کی شکایت ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر عمیر قدوائی نے بتایا کہ دنیا بھر میں سب سے عام کلر بلائینڈنس لال اور ہرے رنگ کی ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو یہ دونوں رنگ گرے رنگ کے نظر آتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ کیفیت کافی عرصے تک ظاہر نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا باقاعدہ ٹیسٹ نہ کروایا جائے۔

    رنگوں کی پہچان کے علاج سے متعلق انہوں نے بتایا کہ اگر اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک قسم ایسی ہے جو والدین کی طرف سے وراثت میں ملتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں تاہم دوسری کیفیت میں ادویات کے استعمال سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ کلر بلائنڈ ہونا کوئی خطرے کی بات نہیں اور نہ ہی یہ کیفیت معذوری کے زمرے میں آتی ہے، تاہم ایسے لوگوں کو اس وقت کوئی پریشانی لاحق ہوسکتی ہے اگر ان کا روزگار یا کوئی ضروری کام رنگوں سے متعلق ہو۔

  • رنگوں کی پہچان کیوں نہیں ہوتی؟ حیران کن وجوہات اورعلاج

    رنگوں کی پہچان کیوں نہیں ہوتی؟ حیران کن وجوہات اورعلاج

    کچھ لوگ رنگوں کے اندھے یعنی کلر بلائنڈ ہوتے ہیں وہ رنگ نہیں دیکھ سکتے بلکہ کچھ خاص قسم کے رنگوں میں تمیز سے بھی عاری ہوتے ہیں۔

    جیسے سرخ و سبز یا پیلے اور نیلے رنگ کے درمیان فرق نہیں کر پاتے جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی جن کے لئے دنیا صرف بلیک اینڈ وائٹ ہے تاہم ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد حمزہ نے رنگوں سے عاری اس کیفیت کا اصل نام اور اس کے علاج کا طریقہ بیان کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ دراصل اس بیماری کا نام کلر بلائنڈنیس نہیں بلکہ کلرڈیفیشنسی ہے مریض میں اس قسم کی علامات موروثی بھی ہوسکتی ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مردوں میں اس کی شرح عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، پیدائشی اور جنیاتی ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی خاص علاج بھی ممکن نہیں، ایسے افراد کو سرخ اور سبز رنگ کی چیزیں پیلی یا زرد نظر آتی ہیں۔

    ڈاکٹر محمد حمزہ نے بتایا کہ ایک عام بچے کے اندر چار سال کی عمر سے رنگوں میں فرق اور ان کی پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    جنیاتی اور موروثی وجوہات کے علاوہ چند ادویات بھی اس مرض کی وجہ بن سکتی ہیں، اس کے علاوہ عمر کے ساتھ آنکھ کے پردے کی کمزوری ”میکولر ڈی جنریشن“ ، ذیابیطس اور وٹامن اے کی کمی کے باعث بھی رنگوں میں امتزاج کم کر دیتا ہے۔۔

    ان کا کہنا تھا کہ نومولود بچے یا بہت چھوٹے بچوں کو زور زور سے ہلانا یا اچھالنا ان کے آنکھ کے پردے پر اثر ڈالتا ہے، حادثہ یا چوٹ بھی اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے، الٹرا وائلٹ شعاعیں بھی اس کی وجہ بن سکتی ہیں۔